Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 86
وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًاۙ
وَلَئِنْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہیں لَنَذْهَبَنَّ : تو البتہ ہم لے جائیں بِالَّذِيْٓ : وہ جو کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاؤ لَكَ : اپنے واسطے بِهٖ : اس کے لیے عَلَيْنَا : ہمارے مقابلہ) پر وَكِيْلًا : کوئی مددگار
اور اگر ہم چاہیں وہ سب کچھ آپ ﷺ سے چھین لیں جسے ہم نے آپ ﷺ کی طرف وحی کیا ہے، پھر آپ ﷺ اس کے لیے ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ پائو گے۔
وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْھَبَنَّ بِالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ثُمَّ لاَ تَجِدُلَکَ بِہٖ عَلَیْنَا وَکِیْلاً ۔ اِلاَّرَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ط اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 86۔ 87) (اور اگر ہم چاہیں وہ سب کچھ آپ ﷺ سے چھین لیں جسے ہم نے آپ ﷺ کی طرف وحی کیا ہے، پھر آپ ﷺ اس کے لیے ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ پائو گے۔ یہ آپ ﷺ کے رب کی رحمت ہے، بیشک اس کا فضل آپ ﷺ پر بہت بڑا ہے۔ ) وحی تصرفِ غیبی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے قرآن کریم کے سلسلے میں قریش آنحضرت ﷺ پر جو اعتراضات کرتے تھے ان میں بنیادی خیال یہ تھا کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب نہیں بلکہ یہ محمد ﷺ نے خود بنا لی ہے۔ خود یا کسی کی مدد سے جتنا حصہ تیار کرلیتے ہیں وہ آکر ہمیں سنا دیتے ہیں اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کردیتے ہیں۔ چناچہ گزشتہ آیت کریمہ میں اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم وحی الٰہی ہے جسے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) لے کر آتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تم اس کا الزام آنحضرت ﷺ پر رکھتے ہو حالانکہ ان کا حال یہ ہے کہ اس وحی کے نازل ہونے میں ان کا کوئی تعلق نہیں۔ انھیں کبھی اس کا خیال بھی نہیں آیا تھا کہ مجھ پر وحی آئے گی اور مجھ پر کوئی کتاب نازل ہوگی۔ ان کی مرضی اور خواہش کے بغیر اللہ تعالیٰ نے ان کا انتخاب فرمایا اور اس عظیم کام کے لیے ان کو چن لیا۔ اب جبکہ وہ اس کام کی انجام دہی میں شب و روز لگے ہوئے ہیں تو تب بھی اس وحی کے اترنے میں ان کا کوئی دخل نہیں، ہم وحی کا آنا بند کردیں اور جو کچھ نازل ہوچکا ہے اسے واپس لے جائیں تو وہ زبردستی اسے روک نہیں سکتے۔ اور کوئی ایسی قوت نہیں جو اس سلسلے میں ان کی مدد کرسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے راستوں میں کوئی حائل ہونے کی جرأ ت نہیں کرسکتا۔ وحی نہ کسی کی مرضی سے اترتی ہے نہ کسی کی مرضی سے جاری رہتی ہے۔ قرآن کا نزول اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہے جس کے لیے آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے آپ ﷺ کی ذات پر اللہ تعالیٰ کا انتہائی فضل و کرم ہے۔ اس نے آپ ﷺ کو وہ بلند مقامات عطا فرمائے ہیں ہم ان کا تصور کرنے سے بھی عاجز ہیں۔ قریش کی ساری مخالفتوں کے باوجود آپ ﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی نیک نامی اور ایک ایسی شہرت دوام اور ایک ایسی مسلمہ فضیلت کا فیصلہ کردیا ہے جس سے کبھی کسی پیغمبر کو بھی نہیں نوازا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے مواھب اور افضال میں سے ایک یہ بھی ہے جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا وَرَفَعْنَالَکَ ذِکِرَکَ چناچہ آج ہم دیکھتے ہیں ؎ وہ جس کا ذکر ہوتا ہے زمینوں آسمانوں میں فرشتوں کی دعائوں میں موذن کی اذانوں میں اور آخرت میں آپ ﷺ پر جو انعامات کی بارش ہوگی اس کا ذکر ہم سابقہ رکوع میں پڑھ چکے ہیں۔ ویسے بھی پروردگار کا یہ فرمانا کہ آپ ﷺ پر آپ ﷺ کے رب کا فضل کبیر ہے۔ اس فضل کی وسعتوں اور عظمتوں کا تصور کرنا بھی انسان کی طاقت سے بہت بعید ہے۔ اس لیے کہ ہر متکلم اپنی حیثیت کے مطابق کسی چیز کو چھوٹا بڑا قرار دیتا ہے۔ ایک غریب آدمی جب یہ کہتا ہے کہ میرے پاس بڑی دولت ہے تو وہ چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوسکتی، لیکن جب کوئی بادشاہ اس طرح کی بات کہتا ہے تو اس کو ہندسوں میں سمیٹا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو کبیر کے لفظ سے یاد فرماتے ہیں تو اس کے کبیر ہونے کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔
Top