Tafseer-e-Jalalain - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
مجھے تاروں کی منزلوں کی قسم
ترجمہ : سو میں قسم کھاتا ہوں غروب ہونے کے لئے چھپنے والے ستاروں کی اگر تم سمجھو تو یہ یعنی ان کی قسم ایک بڑی قسم ہے یعنی اگر تم اہل علم میں سے ہو تو اس قسم کی عظمت کو جان لو گے یہ یعنی جو تم کو سنایا جا رہا ہے مکرم قرآن ہے جو ایک محفوظ کتاب میں ہے اور وہ مصحف ہے اس کو پاک (لوگ) ہی چھوتے ہیں (لایمسہ) نہی بمعنی خبر ہے یعنی وہ جنہوں نے خود کو احداث سے پاک کرلیا رب العالمین کی جانب سے نازل کردہ ہے تو کیا اس کلام یعنی قرآن کو سرسری کلام سمجھتے ہو اہمیت نہیں دیتے ہو تکذیب کرتے ہو کیا تم نے اس کی تکذیب ہی کو غذا (دھندا) بنا لیا ہے ؟ اور تم بارش کے ذریعہ اس کے رزق کے شکر کے بجائے ناشکری کرتے ہو یعنی اللہ کی سیرابی کی مطرنا بنواء کذا کہہ کر ناشکری کرتے ہو (یعنی فلاں ستارے کے طلوع یا غروب کی وجہ سے بارش ہوئی ہے) پس جب روح نزع کے وقت نرخرے تک پہنچ جائے اور وہ کھانے کی نلی ہے، اور اے میت کے پاس حاضر لوگو ! تم اس مرنے والے کو دیکھ رہے ہو اور ہم منے والے سے تمہاری بہ نسبت علم کے اعتبار سے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھ نہیں سکتے (تبصرون) بصیرت سے ماخوذ ہے، یعنی تم کو ہماری موجودگی کا علم نہیں ہوتا، پس اگر تم کو زندہ کر کے تمہارا حساب کتاب ہونے والا نہیں ہے یعنی تمہارے اعتقاد کے مطابق تم کو زندہ کیا جانے والا نہیں ہے تو کس لئے تم روح کو حلق میں پہنچنے کے بعد جسم کی طرف نہیں لوٹا لیتے اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو ثانی لولا پہلے لولا کی تاکید ہے اور اذا بلغت میں اذا، ترجعون کا ظرف ہے اور ترجعون سے دو شرطیں متعلق ہیں یعنی اگر بعث کی نفی میں تم سچے ہو تو اس کو کیوں نہیں لوٹا لیتے ہو، تاکہ موت نفس کے محل سے منتفی ہوجائے پس اگر میت مقربین میں سے ہے تو اس کے لئے راحت ہے اور رزق حسن ہے اور آرام والی جنت ہے (فروح) یا تو اما کا جواب ہے یا ان کا یا دونوں کا (اس میں) تین قول ہیں اور جو شخص اصحاب الیمین میں سے ہے تو تیرے لئے یعنی اصحاب الیمین کے لئے عذاب سے سلامتی ہے اس وجہ سے کہ وہ اصحاب الیمین میں سے ہے لیکن اگر کوئی جھٹلانے والوں گمراہوں میں سے ہو تو کھولتے ہوئے گرم پانی کی ضیافت ہے اور دوزخ میں جانا ہے یہ خبر سراسر حق قطعاً یقینی ہے، موصوف کی اپنی صفت کی طرف اضافت کے قبیل سے ہے، پس تو اپنے عظیم الشان رب کی تسبیع بیان کر جیسا کہ سابق میں گذر چکا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : فلا اقسم بمواقع النجوم، لا جمہور مفسرین کے نزدیک تاکید کے لئے زائدہ ہے معنی میں فاقسم کے ہے، جیسے لا واللہ اور بعض حضرات نے یہ توجیہ کی ہے کہ لامخاطب کے گمان کی نفی کرنے کے لئے اور منفی محذوف ہے اور وہ کفار کا کلام ہے اور یہ لیس کما تقول کے معنی میں ہے، فراء نے کہا ہے کہ یہ لانفی کے لئے ہے اور لیس الامر کماتقولون کے معنی میں ہے بعض حضرات نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ (فتح القدیر شوکانی) قولہ : مواقع، موقع کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں ستاروں کے غروب ہونے کی جگہ یا وقت، بعض حضرات نے مواقع سے مراد نجوم کی منزلیں اور بعض نے نزول قرآن مراد لیا ہے، اس لئے کہ قرآن کریم بھی بتدریج آپ پر نازل ہوا ہے۔ قولہ : وانہ لقسم لوتعلمون عظیم، لا اقسم قسم ہے اور لقرآن کریم جواب قسم ہے اور انہ لقسم لو تعلمون عظیم، قسم اور جواب قسم کے درمیان جملہ معترضہ ہے اور جملہ معترضہ میں بھی موصوف و صفت کے درمیان جملہ معترضہ اور وہ لوتعلمون ہے۔ قولہ : لعلمتم عظم ھذا القسم اس کے اضافہ سے مفسر علام نے جواب لو کے حذف کی طرف اشارہ کردیا۔ قولہ : وھو المصحف بعض حضرات نے کتاب مکنون سے لوح محفوظ مراد لی ہے، اس صورت میں لایمسہ کے معنی ہوں گے لایطلع علیہ الا الملائکۃ المطھرون اس صورت میں یہ آیت بغیر طہارت قرآن کو چھونے کے عدم جواز کی دلیل نہ ہوگی۔ قولہ : خبر بمعنی النھی اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : قرآن میں کہا گیا ہے لایمسہ الا المطھرون یہ خلاف واقعہ ہے اس لئے کہ بہت سے لوگ قرآن بغیر طہارت کے چھوتے ہیں اور قرآن خلاف واقعہ کی خبر نہیں دے سکتا۔ قولہ : خبر بمعنی نہی ہے۔ قولہ : منزل اس سے اشارہ کردیا کہ تنزیل مصدر بمعنی منزل اسم مفعول ہے۔ قولہ : افبھذا الحدیث میں استفہام تو بیخی ہے یعنی تمہارے لئے یہ مناسب نہیں ہے۔ قولہ : مدھنون یہ ادھان سے ہے ادھان اور تدھین کے معنی ہیں کسی چیز پر تیل لگا کر چکنا اور نرم کرنا، مداھنت فی الدین اسی سے ہے دین میں مداہنت اختیار کرنا اور اس کے لازم معنی نفاق کے بھی ہیں، جس چیز پر تیل وغیرہ لگا کر نرم اور چکنا کیا جاتا ہے اس کا باطن ظاہر کے خلاف ہوتا ہے اوپر سے نرم اور چکنی معلوم ہوتی ہے حالانکہ اندر اس کے عکس ہوتا ہے نفاق میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، یہاں مراد مطلقاً کفر ہے اور قرآن کو سرسری، معمولی سمجھنا اور حیثیت نہ دینا بھی ادھان کا مصداق ہے۔ قولہ : من المطر اس میں اشارہ ہے کہ رزق سے مراد سبب رزق ہے اور ای شکرہ سے اشارہ کردیا کہ عبارت حذف مضاف کے ساتھ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، تکفرون شکر المطر یعنی خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرنا تم نے اپنا مغشلہ اور اپنی غذا بنا لیا ہے، حتی کہ خدا داد بارش کو بعض ستاروں کے طلوع و غروب کی طرف منسوب کرتے ہو۔ قولہ : بسقیا اللہ یہ مصدر اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے اصل میں سقی اللہ ہے۔ قولہ : اذا ظرف لترجعون اذا بلغت الحلقوم، ترجعون کا ظرف مقدم ہے ترجعون سے دو شرطیں متعلق ہیں اور وہ ان کنتم غیر مدینین اور ان کنتم صادقین ہیں، متعلق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں کی جزاء ہیں۔ فائدہ : کلام میں قلب ہے معنی یہ ہیں ھلاتر جعونھا ان نفیتم البعث صادقین فی نفیہ قولہ : فلہ روح اس میں اشارہ ہے کہ روح مبتداء ہے اور فلہ خبر مقدم ہے۔ قولہ : ھل الجواب لاما اور لان اولھما فروح الخ جواب غیہ، اس میں تین قول ہیں (1) اما کا جواب (2) ان کا جواب (3) دونوں کا جواب ہو، راجح یہ ہے کہ فروح و ریحان الخ، اما کا جواب ہے اور ان کا جواب محذوف ہے اس لئے کہ ان کے جواب کا حذف کثیر الوقوع ہے۔ قولہ : ای لہ السلام ۃ من العذاب اس میں اشارہ ہے کہ سلام بمعنی سلامت ہے۔ قولہ : من جھۃ انہ منھم اس میں اشارہ ہے کہ من اصحب الیمین میں من تعلیلیہ ہے ای من اجل انہ منھم قولہ : فنزل مبتداء ہے اس کی خبر لہ محذوف ہے ای لہ نزل قولہ : تقدم یعنی سبح نزہ اور لفظ اسم زائدہ ہے۔ تفسیر و تشریح سابقہ آیات میں عقلی اور مشاہداتی دلائل سے دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت حق تعالیٰ کی قدرت کا ملہ اور اس دنیا کی تخلیق کے ذریعہ دیا گیا تھا، آگے حق تعالیٰ کی طرف سے قسم کے ساتھ نقلی دلیل پیش کی گئی ہے۔ فلا اقسم بمواقع النجوم اگر لا کو قرآن کے بارے میں مزعوم اور ظن باطل کی نفی کے لئے لیا جائے جیسا کہ بعض مفسرین کا یہی خیال ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ قرآن شاعری یا کہانت نہیں ہے جیسا کہ تمہارا خیال ہے بلکہ ستاروں کے گرنے یا ان کے مطلع و مغرب کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ قرآن بڑا باعظمت ہے۔ ستاروں اور تاروں کے مواقع سے مراد ان کے مقامات، ان کے مدار، اور منزلیں ہیں اور قرآن کے بلند پایہ کتاب ہونے پر ان کی قسم کھانے کا مطل بیہ ہے کہ عالم بالا میں اجرام فلکی اور نظام جیسا کہ محکم اور مضبطو ہے ویسا ہی مضبوط اور محکم یہ کلام بھی ہے جس خدا نے وہ نظام بنایا ہے اسی خدا نے یہ کلام نازل فرمایا ہے۔ بعض حضرات نے یہ ترجمہ کیا ہے، میں قسم کھاتا ہوں آیتوں کے پیغمبروں کے دلوں پر اترنے کی، نجوم سے مراد آیات لی ہیں اور مواقع النجوم سے پیغمبروں کے قلوب ( موضح القرآن) اور عض حضرات نے قیامت کے دن ستاروں کا گرنا اور جھڑنا مراد لیا ہے۔ فی کتاب مکنون کے معنی ہیں چھپی ہوئی کتاب، مراد اس سے لوح محفوظ ہے
Top