Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَاْكُلُوْنَ
: کھاتے ہیں
الرِّبٰوا
: سود
لَا يَقُوْمُوْنَ
: نہ کھڑے ہوں گے
اِلَّا
: مگر
كَمَا
: جیسے
يَقُوْمُ
: کھڑا ہوتا ہے
الَّذِيْ
: وہ شخص جو
يَتَخَبَّطُهُ
: اس کے حواس کھو دئیے ہوں
الشَّيْطٰنُ
: شیطان
مِنَ الْمَسِّ
: چھونے سے
ذٰلِكَ
: یہ
بِاَنَّھُمْ
: اس لیے کہ وہ
قَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
اِنَّمَا
: در حقیقت
الْبَيْعُ
: تجارت
مِثْلُ
: مانند
الرِّبٰوا
: سود
وَاَحَلَّ
: حالانکہ حلال کیا
اللّٰهُ
: اللہ
الْبَيْعَ
: تجارت
وَحَرَّمَ
: اور حرام کیا
الرِّبٰوا
: سود
فَمَنْ
: پس جس
جَآءَهٗ
: پہنچے اس کو
مَوْعِظَةٌ
: نصیحت
مِّنْ
: سے
رَّبِّهٖ
: اس کا رب
فَانْتَهٰى
: پھر وہ باز آگیا
فَلَهٗ
: تو اس کے لیے
مَا سَلَفَ
: جو ہوچکا
وَاَمْرُهٗٓ
: اور اس کا معاملہ
اِلَى
: طرف
اللّٰهِ
: اللہ
وَمَنْ
: اور جو
عَادَ
: پھر لوٹے
فَاُولٰٓئِكَ
: تو وہی
اَصْحٰبُ النَّارِ
: دوزخ والے
ھُمْ
: وہ
فِيْهَا
: اس میں
خٰلِدُوْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر اس شخص کے مانند جس کو شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا ہو۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود کی ہی مانند ہے اور حال یہ کہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا اور سود کو حرام تو جس کو اللہ کی تنبیہ پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ وہ لے چکا وہ اس کے لیے ہے۔ اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اب اس کے مرتکب ہوں تو وہی لوگ دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
لفظ“ رِبوا ”کا مفہوم : رَبَا یَرْبُوْ رِبَاءً کے معنی بڑھنے اور زیادہ ہونے کے ہیں۔ اسی سے رِبوٰ ہے جس سے مراد وہ معین اضافہ ہوتا ہے جو ایک قرض دینے والا مجرد مہلت کے عوض اپنے مقروض سے اپنی اصلی رقم پر وصول کرتا ہے۔ جاہلیت اور اسلام دونوں میں یہ اصطلاح مذکورہ مفہوم کے لیے مشہور رہی ہے۔ اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں۔ لیکن اس کی اصل حقیقت یہی ہے کہ قرض دینے والا قرضدار سے ایک معین شرح پر صرف اس حق کی بنا پر اپنے دیے ہوئے روپے کا منافع وصول کرے کہ اس نے ایک خاص مدت کے لیے اس کو روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ اس امر کو اس کی حقیقت کے تعین میں کوئی دخل نہیں ہے کہ قرض کسی غریب و نادار کو دیا گیا ہے یا کسی امیر و تاجدار کو اور نہ اس بات سے اس میں کوئی فرق واقع ہوتا ہے کہ قرض کسی میت کی تجہیز و تکفین کے لیے دیا گیا ہے یا کسی رفاہی اسکیم کے لیے دیا گیا ہے، یا تجارت، زراعت اور صناعت کے کسی انفرادی یا اجتماعی منصوبے کے لیے دیا گیا ہے۔ جاہلیت اور اسلام دونوں میں ربوٰ کی اصطلاح کا جو مفہوم مسلم رہا ہے اس میں ان ظاہری اختلافات سے سرِ مو فرق واقع نہیں ہوتا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مقصد قرض یا قرضدار کی نوعیت و حیثیت کی تبدیلی ربوٰ کی عرفی حیثیت کو بدل دیتی ہے ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ آگے آپ دیکھیں گے کہ خود قرآن کے الفاظ سے اس خیال کی پوری پوری تردید ہو رہی ہے۔ “ خبط ”کی تحقیق :‘ تخبط ’ کا لفظ ‘ خبط اللیل ’ سے ہے جس کے معنی رات کی تاریکی میں بھٹکنے کے ہیں، خابط اللیل اس شخص کو کہیں گے جسے داہنے بائیں کا کچھ ہوش نہ ہو، بس یوں ہی ہرزہ گردی کر رہا ہو۔ اسی سے یَخْبِطُ خبط عشواء کا محاور ان لوگوں کے لیے پیدا ہوا جو بصیرت سے بالکل محروم ہوں اور اندھے بھین سے کی طرح ادھر ادھر بھٹکتے پھر رہے ہوں۔ اسی سے تخبطہ الشطان نکلا جس کے معنی ہیں مسہ الشیطان بخبل او جنون، اس کو شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل اور دیوانہ بنا دیا۔ ‘ مس ’ کے اصل معنی چھونے کے ہیں۔ اس کا غالب استعمال کسی برائی، آفت اور دکھ کے پہنچنے اور لاحق ہونے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم نے موقع کے لحاظ سے اس کا ترجمہ چھوت کیا ہے۔ جو لفظی بھی ہے اور معنی خیز بھی۔ تو دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے خدا ہی کے اذن سے ہوتا ہے لیکن شیطان کو جن کاموں کے لیے مہلت ملی ہوئی ہے ان کی نسبت بعض اوقات اس کی طرف کردی جاتی ہے۔ جیسے حضرت ایوب کی دعا میں ہے۔ انی مسنی الشیطان بنصب و عذاب : شیطان نے مجھے دکھ اور تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔ نیک بندوں پر تو ارواح خبیثہ کا اثر اس سے زیادہ نہیں ہوتا کہ ان کو کوئی اذیت یا آزمائش پیش آجائے لیکن جن کی روحیں خود خبیث ہوتی ہیں، جس طرح ان کا قلب شیطان کی مٹھی میں ہوتا ہے اسی طرح کبھی کبھی ان کے عقل و دماغ سب پر شیطان کا تسلط ہوجاتا ہے اور وہ ظاہر میں بھی بالکل پاگل ہو کر کپڑے پھاڑتے، گریبان چاک کرتے، منہ پر جھاگ لاتے اور پریشان حال پراگندہ بال جدھر سینگ سمائے ادھر آوارہ گردی اور خاکبازی کرتے پھرتے ہیں۔ اوپر اہل انفاق کے متعلق آپ پڑھ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی تربیت فرماتا ہے، ان کو علم اور عمل دونوں میں رسوخ و عزیمت عطا فرماتا ہے، ان کے انفاق میں برکت بخشتا ہے، ان کا کارساز بن کر ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، ان کو حکمت کا لازوال خزانہ بخشتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آخرت میں ان کو لاخوف علیہم ولا ھم یحزنون کے سرور ازلی و ابدی سے نوزے گا۔ اب یہ اس کے بالکل مخالف کردار رکھنے والوں یعنی سود خوروں کا بیان ہے۔ ان کی نسبت فرمایا کہ یہ جب روز قیامت کو اٹھیں گے تو بالکل اس طرح اٹھیں گے جس طرح وہ شخص اٹھا کرتا ہے جس پر کسی جنات یا بھوت کا سایہ ہو، جس سے وہ بالکل مخبوط الحواس ہو رہا ہو۔ اس تشبیہ کی زیادہ وضاحت نہیں فرمائی ہے اس لیے کہ اس کے اجمال ہی میں ساری وضاحت موجود ہے۔ جس طرح قرآن میں ایک جگہ“ رؤوس الشیاطین ”کی تشبیہ ہے جس کے الفاظ کو سن کر ہی دل پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے، اسی طرح ‘ تخبطہ الشیطان من المس ’ کے الفاظ سے خود ہی وحشت زدگی اور پریشان حالی کی ایک ایسی تصویر سامنے آجاتی ہے جو کسی وضاحت کی محتاج نہیں رہ جاتی۔ آگے فرمایا کہ ان کی یہ حالت اس وجہ سے ہوگی کہ سود کی حرمت پر وہ اعتراض اٹھاتے تھے کہ بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے تو پھر بیع کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام کیوں ٹھہرایا، چونکہ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو بالکل مخبوط الحواس ہو، جس کی عقل ماری گئی ہو اور شیطان نے جس کو اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا ہو اس وجہ سے عمل اور جزا کی مشابہت کے قانون کے تحت، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے“ من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی۔ جو دنیا میں عقل اور دل کا اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی اٹھے گا ”۔ ایسا شخص جب قیامت میں اٹھے گا تو پاگلوں اور دیوانوں کی طرح اٹھے گا۔ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا کا موقع و محل : یہاں ان کے قول کا حوالہ دے کر اس کو نظر انداز کردیا ہے، اس کی تردید نہیں کی ہے۔ اس کہ اس قول کی لغویت اتنی واضح ہے کہ اس کی تردید کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو بالکل پاگل ہوچکا ہو اور پاگلوں کی کسی بات کی تردید کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ ہمارے اہل تاویل نے عام طور پر وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا کے ٹکڑے کو ان کی اس بات کی تردید کے معنی میں لیا ہے اور اسی پہلو سے اس کی تاویل کی ہے۔ اگرچہ اس بات کا بھی ایک محل ہے کیونکہ اللہ کا کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانا بجائے خود اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ عقل و فطرت اور معاش و معاد کے نقطہ نظر سے اس چیز کی حلت یا حرمت بالکل معقول ہے لیکن یہ دلیل صرف مومن کے لیے قابل اعتماد ہے، منکر کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اس وجہ سے مجھے بار بار یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ ٹکڑا الگ نہیں ہے بلکہ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا کے تحت ہی ہے۔ یعنی وہ کہتے ہیں بیع بھی تو ربوٰ ہی کی طرح ہے، جب ایک تاجر اپنے سرمایہ پر نفع لیتا ہے تو ایک سرمایہ دار اگر اپنے سرمایہ کا نفع حاصل کرتا ہے تو آخر وہ مجرم کیوں ٹھہرے، پھر اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیوں ٹھہرایا ؟ ہرچند یہ جملہ بشکل سوال نہیں ہے لیکن اس کے اندر وہی سوال یا اعتراض پوشیدہ ہے جو پہلے ٹکڑے کے اندر ہے۔ تاجر اور سود خوار کے سرمایہ میں فرق : اس اعتراض سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی کہ سود کو بیع پر قیاس کرنے والے پاگلوں کی نسل دنیا میں نئی نہیں ہے بلکہ بڑی پرانی ہے۔ قرآن نے اس قیاس کو، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، لائق توجہ نہیں قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بداہۃً باطل اور قیاس کرنے والے کی دماغی خرابی کی دلیل ہے۔ ایک تاجر اپنا سرمایہ ایک ایسے مال کی تجارت پر لگاتا ہے جس کی لوگوں کو طلب ہوتی ہے، وہ محنت، زحمت اور خطرات مول لے کر اس مال کو ان لوگوں کے لیے قابل حصول بناتا ہے۔ جو اپنی ذاتی کوشش سے اول تو آسانی سے اس کو حاصل نہیں کرسکتے تھے اور اگر حاصل کرسکتے تھے تو اس سے کہیں زیادہ قیمت پر جس قیمت پر تاجر نے ان کے لیے مہیا کردیا۔ پھر تاجر اپنے سرمایہ اور مال کو کھلے بازار میں مقابلہ کے لیے پیش کرتا ہے اور اس کے لیے منافع کی شرح بازار کا اتار چڑھاؤ مقرر کرتا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ اس اتار چڑھاؤ کے ہاتھوں بالکل دیوالیہ ہو کر رہ جائے اور ہوسکتا ہے کہ کچھ نفع حاصل کرلے۔ اسی طرح اس معاملے میں بھی اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کہ وہ ایک بار ایک روپے کی چیز ایک روپے دو آنے یا چار آنے میں بیچ کر پھر اس روپے سے ایک دھیلے کا بھی کوئی نفع اس وقت تک نہیں کما سکتا جب تک اس کا وہ روپیہ تمام خطرات اور سارے اتار چڑھاؤ سے گزر کر پھر میدان میں نہ اترے اور معاشرے کی خدمت کر کے اپنے لیے استحقاق نہ پیدا کرے۔ بھلا بتائیے کیا نسبت ہے ایک تاجر کے اس جانباز غیور اور خدمت گزار سرمایہ سے ایک سود خوار کے اس سنگ دل، بزدل، بےغیرت اور دشمن انانیت سرمایہ کو جو جوکھم تو ایک بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن منافع بٹانے کے لیے سر پر سوار ہوجاتا ہے۔ سود خور کا سرمایہ دو بھیسوں میں ظاہر ہوتا ہے اور دونوں ہی میں وہ یکساں بزدل اور خونخوار ہے۔ ایک تو یہ سودی کاروبار کرنے والے نبیوں، پٹھانوں اور یہودیوں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے، اس شکل میں تو اس کی خونخواری سے کسی کے لیے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ ایک بنیا یا پٹھان جب ایک مرتبہ اپنے جال میں کسی کو پھنسا پاتا ہے تو چاہے اس مظلوم کے جسم پر گوشت کی ایک بوٹی بھی باقی نہ رہ گئی ہو لیکن وہ اپنی ہر میعاد پر آ کر اپنا ایک پونڈ گوشت کاٹ لے گا اور مدت العمر کی اس قطع و برید کے بعد بھی بسا اوقات ہوتا یہ ہے کہ نہ صرف بنیے کا اصل سرمایہ قرضدار پر لدا رہتا ہے بلکہ وہ اصل سے کئی گنا ہو کر آکاس بیل کی طرح مظلوم قرض دار کے گھر در، اس کے اثاث البیت اور اس کے زن و فرزند ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور خاندان کے خاندان کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ کے رکھ دیتا ہے۔ بتائیے کس تاجر کے سرمایہ میں یہ سکت ہے کہ وہ کسی پر یہ ظلم ڈھا سکے ؟ وہ تو زیادہ سے زیادہ اگر کرسکتا ہے تو یہ کہ بازار کے سارے اتار چڑھاؤ کا مقابلہ کر کے اگر موقع پائے تو اپنی ایک روپیہ کی چیز ڈیڑھ یا دو روپے میں بیچ لے اور وہ بھی ایک مرتبہ۔ سود خور کے سرمایہ کا دوسرا بھیس وہ ہے جس میں وہ رفاہی کاموں، اجتماعی منصوبوں اور ملکی اسکیموں کی سرپرستی کے نام سے اٹھتا ہے۔ اس زمانے میں بہت سے سادہ لوح اس بھیس میں اس کو بڑا معصوم سمجھتے ہیں لیکن غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس کی بزدلی اور خود غرضی کی فطرتِ بد اس کے اس جامے میں بھی اسی طرح موجود ہے جس طرھ پہلے بھیس میں موجود ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیے۔ فرض کیجیے ملک کی حکومت ملک کے کسی حصے کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے یا کسی اور خطرے سے بچانے کے لیے کوئی بڑا منصوبہ عمل میں لانا چاہتی ہے اور اس کے لیے پانچ یا سات فی صد کی شرح پر لوگوں سے قرض لیتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کا منصوبہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد کسی ارضی و سماوی آفت کی زد میں آ کر تباہ ہوجائے۔ اب بتائیے کہ ملک نے تو بحیثیت مجموعی ایک شدید قسم کا نقصان اٹھایا لیکن جن سود خوروں نے اس کے لیے قرض دیے تھے نہ صرف ان کا سرمایہ محفوظ ہے بلکہ ایک معین شرح کے ساتھ اس کا سود بھی دم بدکم اس میں اضافے پر اضافہ کیے چلا جا رہا ہے۔ آخر یہ قومی خدمت کی کون شکل ہوئی ؟ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ پہلی صورت میں اور اس دوسری صورت میں حقیقت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔ پہلی صورت میں سود خور کو صرف اس امر سے بحث ہے کہ اس کا سرمایہ محفوظ رہے اور منافع کا ایک پونڈ گوشت بغیر کسی غل و غش کے فصل فصل پر اس کو ملتا رہے، چاہے قرض دار کی سات پشتیں فاقہ کرتی مر جائیں۔ اور اس صورت میں بھی اس کے سامنے یہی چیز ہے کہ اس کا اصل سرمایہ بےداغ محفوظ رہے، معین سود اس کے حساب میں جمع ہوتا رہے، رہا قوم کا مردہ تو وہ چاہے دوزخ میں جائے یا بہشت میں۔ برعکس اس کے ایک تاجر کا سرمایہ قوم اور ملک کی خدمت کے لیے سب سے پہلے خود اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ اگر حالات کے رد و بدل، بازار کے اتار چرھاؤ، یا کسی اور سبب سے اس کو نقصان پہنچ جائے تو اس نقصان کو وہ اپنے ہی اوپر برداشت کرتا ہے۔ اس کے لیے ایک لمحہ کے واسطے بھی اس بات کا امکان نہیں ہوتا کہ وہ سود خور کے سرمائے کی طرح کسی کمین گاہ میں چھپ کر بیٹھے اور دوسروں سے اپنا نفع وصول کرتا رہے۔ اگر اس کو ساز گار سے ساز گار حالات بھی میسر آجائیں تب بھی بہرحال اس کے منافع کی شرح پا بزار کا فیصلہ ناطق ہوتا ہے اور اس طرح جو کچھ وہ حاصل کرپاتا ہے درحقیقت وہ اس کا جائز حق المحنت ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاجر کے منافع کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تعبیر فرمایا ہے اور سود خور کے سرمایہ کو، جیسا کہ ہم سورة روم کی تفسیر میں واضح کریں گے، اس سانڈ سے تشبیہ دی ہے جو دوسروں کی چراگاہ میں چر کر فربہ ہو رہا ہو۔ سود خوروں کے لیے تنبیہ : فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ الایہ : موعظت کے لفط میں زجر و تنبیہ کا پہلو غالب ہے اس وجہ سے اس کی اصل روح کو پیش نظر رکھ کر ہم نے اس کا ترجمہ تنبیہ کیا ہے، اس کی تانیث چونکہ غیر حقیقی ہے اس وجہ سے لفظ کے مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے فعل مذکر آیا ہے۔ ‘ من ربہ ’ کے الفاظ نے اس تنبیہ کے اندر ایک خاص زور پیدا کردیا ہے۔ یعنی یہ تنبیہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے بلکہ یہ سب کے مالک و آقا کی طرف سے تنبیہ ہے اس وجہ سے اس کو سہل نہیں خیال کرنا چاہیے۔ فَلَهٗ مَا سَلَفَ ، یعنی اس تنبیہ کے بعد جو سودی لین دین سے رک گیا، اس سے اس کے پچھلے لیے ہوئے سود کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ اس قانون کا نفاذ اگر ماضی پر بھی اثر انداز ہوتا تو اس سے ناقابل حل مشکلات پیدا ہوجاتیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ یعنی ایسے شخص سے اسلامی حکومت تو اس کے سابق سودوں پر کوئی گرفت نہیں کرے گی لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ خدا سے بھی اس کو معافی مل گئی، بلکہ اس کا معاملہ خدا کے حوالے ہے۔ خدا کے حوالے کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کی پکڑ سے بچنے کے لیے مجرد یہ بات کافی نہیں ہے کہ آدمی سود نہ لے بلکہ یہ بھی ضرور ہے کہ آدمی کے دل سے بھی سود کا ہر شائبہ نکل جائے۔ اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس طرح کے لوگ آخرت سے بےخوف ہو کر نہ بیٹھ رہیں بلکہ جس حد تک بھی ہوسکے اپنے پچھلے مظالم کی تلافی کی کوشش کریں، اس لیے کہ یہ مظالم حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے ہیں اور حقوق العباد کا معاملہ خدا کے ہاں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۔ یعنی اس واضح تنبیہ کے بعد بھی جو لوگ سودی کاروبار کریں گے وہ دوزخی ہیں اور وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے دائمی دوزخ کی سزا کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ان کا یہ رویہ اس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ وہ خدا کے اس حکم کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی اگر جذبات کے غلبے کے سبب سے ہوجاتی ہے تو توبہ کے ذریعے سے اس کی اصلاح کی راہ کھلی ہوئی ہے۔ اس کا بھی امکان ہے کہ توبہ سے غفلت کے باوجود اللہ تعالیٰ کسی کو معاف کردے یا اس کے گناہوں کے بقدر اس کو سزا دے کر رہائی دے۔ لیکن نہایت واضح تذکری و تنبیہ کے بعد بھی ایک شخص کسی حکم کی خلاف ورزی پر اصرار کیے چلا جا رہا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کے اس حکم کا منکر ہے۔ اگر وہ اس کے ساتھ ایمان کا بھی دعوی کرتا ہے تو یہ محض ایک منافقانہ قسم کی حرکت ہے جو اس عالم الغیب سے مخفی نہیں ہے جو دلوں کے تمام بھیدوں سے بخوبی واقف ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کے وہ مستحق ہیں۔ یعنی ان کو جہنم کے اس دائمی عذاب میں جھونک دے گا جو کفار و منافقین کے لیے مقرر ہے۔ گناہ کا احاطہ دائمی عذاب کا موجب ہے : یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھان چاہئے کہ ایک چیز تو ہے کسی جرم کا مرتکب ہونا اور ایک چیز ہے کسی جرم کو اوڑھنا بچھونا بنا لینا۔ جو جرم اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے وہ مجرم کی زندگی کے کسی ایک ہی پہلو کو متاثر نہیں کرتا بلکہ اس کی زندگی کا ہر پہلو اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اس کا ظاہر، اس کا باطن، اس کا عقیدہ، اس کا عمل اور اس کا ایمان و اسلام سب اس جرم کی چھاپ قبول کرلیتا ہے۔ اس حالت کو قرآن نے ‘ احاطہ ’ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے دائمی عذاب نار ہے۔ مثلاً ارشاد ہے“ بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ : البتہ جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ”(بقرہ :81)
Top