Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں الرِّبٰوا : سود لَا يَقُوْمُوْنَ : نہ کھڑے ہوں گے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَقُوْمُ : کھڑا ہوتا ہے الَّذِيْ : وہ شخص جو يَتَخَبَّطُهُ : اس کے حواس کھو دئیے ہوں الشَّيْطٰنُ : شیطان مِنَ الْمَسِّ : چھونے سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَا : در حقیقت الْبَيْعُ : تجارت مِثْلُ : مانند الرِّبٰوا : سود وَاَحَلَّ : حالانکہ حلال کیا اللّٰهُ : اللہ الْبَيْعَ : تجارت وَحَرَّمَ : اور حرام کیا الرِّبٰوا : سود فَمَنْ : پس جس جَآءَهٗ : پہنچے اس کو مَوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب فَانْتَهٰى : پھر وہ باز آگیا فَلَهٗ : تو اس کے لیے مَا سَلَفَ : جو ہوچکا وَاَمْرُهٗٓ : اور اس کا معاملہ اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر لوٹے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر اس شخص کے مانند جس کو شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا ہو۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود کی ہی مانند ہے اور حال یہ کہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا اور سود کو حرام تو جس کو اللہ کی تنبیہ پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ وہ لے چکا وہ اس کے لیے ہے۔ اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اب اس کے مرتکب ہوں تو وہی لوگ دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
لفظ“ رِبوا ”کا مفہوم : رَبَا یَرْبُوْ رِبَاءً کے معنی بڑھنے اور زیادہ ہونے کے ہیں۔ اسی سے رِبوٰ ہے جس سے مراد وہ معین اضافہ ہوتا ہے جو ایک قرض دینے والا مجرد مہلت کے عوض اپنے مقروض سے اپنی اصلی رقم پر وصول کرتا ہے۔ جاہلیت اور اسلام دونوں میں یہ اصطلاح مذکورہ مفہوم کے لیے مشہور رہی ہے۔ اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں۔ لیکن اس کی اصل حقیقت یہی ہے کہ قرض دینے والا قرضدار سے ایک معین شرح پر صرف اس حق کی بنا پر اپنے دیے ہوئے روپے کا منافع وصول کرے کہ اس نے ایک خاص مدت کے لیے اس کو روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ اس امر کو اس کی حقیقت کے تعین میں کوئی دخل نہیں ہے کہ قرض کسی غریب و نادار کو دیا گیا ہے یا کسی امیر و تاجدار کو اور نہ اس بات سے اس میں کوئی فرق واقع ہوتا ہے کہ قرض کسی میت کی تجہیز و تکفین کے لیے دیا گیا ہے یا کسی رفاہی اسکیم کے لیے دیا گیا ہے، یا تجارت، زراعت اور صناعت کے کسی انفرادی یا اجتماعی منصوبے کے لیے دیا گیا ہے۔ جاہلیت اور اسلام دونوں میں ربوٰ کی اصطلاح کا جو مفہوم مسلم رہا ہے اس میں ان ظاہری اختلافات سے سرِ مو فرق واقع نہیں ہوتا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مقصد قرض یا قرضدار کی نوعیت و حیثیت کی تبدیلی ربوٰ کی عرفی حیثیت کو بدل دیتی ہے ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ آگے آپ دیکھیں گے کہ خود قرآن کے الفاظ سے اس خیال کی پوری پوری تردید ہو رہی ہے۔ “ خبط ”کی تحقیق :‘ تخبط ’ کا لفظ ‘ خبط اللیل ’ سے ہے جس کے معنی رات کی تاریکی میں بھٹکنے کے ہیں، خابط اللیل اس شخص کو کہیں گے جسے داہنے بائیں کا کچھ ہوش نہ ہو، بس یوں ہی ہرزہ گردی کر رہا ہو۔ اسی سے یَخْبِطُ خبط عشواء کا محاور ان لوگوں کے لیے پیدا ہوا جو بصیرت سے بالکل محروم ہوں اور اندھے بھین سے کی طرح ادھر ادھر بھٹکتے پھر رہے ہوں۔ اسی سے تخبطہ الشطان نکلا جس کے معنی ہیں مسہ الشیطان بخبل او جنون، اس کو شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل اور دیوانہ بنا دیا۔ ‘ مس ’ کے اصل معنی چھونے کے ہیں۔ اس کا غالب استعمال کسی برائی، آفت اور دکھ کے پہنچنے اور لاحق ہونے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم نے موقع کے لحاظ سے اس کا ترجمہ چھوت کیا ہے۔ جو لفظی بھی ہے اور معنی خیز بھی۔ تو دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے خدا ہی کے اذن سے ہوتا ہے لیکن شیطان کو جن کاموں کے لیے مہلت ملی ہوئی ہے ان کی نسبت بعض اوقات اس کی طرف کردی جاتی ہے۔ جیسے حضرت ایوب کی دعا میں ہے۔ انی مسنی الشیطان بنصب و عذاب : شیطان نے مجھے دکھ اور تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔ نیک بندوں پر تو ارواح خبیثہ کا اثر اس سے زیادہ نہیں ہوتا کہ ان کو کوئی اذیت یا آزمائش پیش آجائے لیکن جن کی روحیں خود خبیث ہوتی ہیں، جس طرح ان کا قلب شیطان کی مٹھی میں ہوتا ہے اسی طرح کبھی کبھی ان کے عقل و دماغ سب پر شیطان کا تسلط ہوجاتا ہے اور وہ ظاہر میں بھی بالکل پاگل ہو کر کپڑے پھاڑتے، گریبان چاک کرتے، منہ پر جھاگ لاتے اور پریشان حال پراگندہ بال جدھر سینگ سمائے ادھر آوارہ گردی اور خاکبازی کرتے پھرتے ہیں۔ اوپر اہل انفاق کے متعلق آپ پڑھ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی تربیت فرماتا ہے، ان کو علم اور عمل دونوں میں رسوخ و عزیمت عطا فرماتا ہے، ان کے انفاق میں برکت بخشتا ہے، ان کا کارساز بن کر ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، ان کو حکمت کا لازوال خزانہ بخشتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آخرت میں ان کو لاخوف علیہم ولا ھم یحزنون کے سرور ازلی و ابدی سے نوزے گا۔ اب یہ اس کے بالکل مخالف کردار رکھنے والوں یعنی سود خوروں کا بیان ہے۔ ان کی نسبت فرمایا کہ یہ جب روز قیامت کو اٹھیں گے تو بالکل اس طرح اٹھیں گے جس طرح وہ شخص اٹھا کرتا ہے جس پر کسی جنات یا بھوت کا سایہ ہو، جس سے وہ بالکل مخبوط الحواس ہو رہا ہو۔ اس تشبیہ کی زیادہ وضاحت نہیں فرمائی ہے اس لیے کہ اس کے اجمال ہی میں ساری وضاحت موجود ہے۔ جس طرح قرآن میں ایک جگہ“ رؤوس الشیاطین ”کی تشبیہ ہے جس کے الفاظ کو سن کر ہی دل پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے، اسی طرح ‘ تخبطہ الشیطان من المس ’ کے الفاظ سے خود ہی وحشت زدگی اور پریشان حالی کی ایک ایسی تصویر سامنے آجاتی ہے جو کسی وضاحت کی محتاج نہیں رہ جاتی۔ آگے فرمایا کہ ان کی یہ حالت اس وجہ سے ہوگی کہ سود کی حرمت پر وہ اعتراض اٹھاتے تھے کہ بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے تو پھر بیع کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام کیوں ٹھہرایا، چونکہ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو بالکل مخبوط الحواس ہو، جس کی عقل ماری گئی ہو اور شیطان نے جس کو اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا ہو اس وجہ سے عمل اور جزا کی مشابہت کے قانون کے تحت، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے“ من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی۔ جو دنیا میں عقل اور دل کا اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی اٹھے گا ”۔ ایسا شخص جب قیامت میں اٹھے گا تو پاگلوں اور دیوانوں کی طرح اٹھے گا۔ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا کا موقع و محل : یہاں ان کے قول کا حوالہ دے کر اس کو نظر انداز کردیا ہے، اس کی تردید نہیں کی ہے۔ اس کہ اس قول کی لغویت اتنی واضح ہے کہ اس کی تردید کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو بالکل پاگل ہوچکا ہو اور پاگلوں کی کسی بات کی تردید کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ ہمارے اہل تاویل نے عام طور پر وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا کے ٹکڑے کو ان کی اس بات کی تردید کے معنی میں لیا ہے اور اسی پہلو سے اس کی تاویل کی ہے۔ اگرچہ اس بات کا بھی ایک محل ہے کیونکہ اللہ کا کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانا بجائے خود اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ عقل و فطرت اور معاش و معاد کے نقطہ نظر سے اس چیز کی حلت یا حرمت بالکل معقول ہے لیکن یہ دلیل صرف مومن کے لیے قابل اعتماد ہے، منکر کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اس وجہ سے مجھے بار بار یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ ٹکڑا الگ نہیں ہے بلکہ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا کے تحت ہی ہے۔ یعنی وہ کہتے ہیں بیع بھی تو ربوٰ ہی کی طرح ہے، جب ایک تاجر اپنے سرمایہ پر نفع لیتا ہے تو ایک سرمایہ دار اگر اپنے سرمایہ کا نفع حاصل کرتا ہے تو آخر وہ مجرم کیوں ٹھہرے، پھر اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیوں ٹھہرایا ؟ ہرچند یہ جملہ بشکل سوال نہیں ہے لیکن اس کے اندر وہی سوال یا اعتراض پوشیدہ ہے جو پہلے ٹکڑے کے اندر ہے۔ تاجر اور سود خوار کے سرمایہ میں فرق : اس اعتراض سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی کہ سود کو بیع پر قیاس کرنے والے پاگلوں کی نسل دنیا میں نئی نہیں ہے بلکہ بڑی پرانی ہے۔ قرآن نے اس قیاس کو، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، لائق توجہ نہیں قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بداہۃً باطل اور قیاس کرنے والے کی دماغی خرابی کی دلیل ہے۔ ایک تاجر اپنا سرمایہ ایک ایسے مال کی تجارت پر لگاتا ہے جس کی لوگوں کو طلب ہوتی ہے، وہ محنت، زحمت اور خطرات مول لے کر اس مال کو ان لوگوں کے لیے قابل حصول بناتا ہے۔ جو اپنی ذاتی کوشش سے اول تو آسانی سے اس کو حاصل نہیں کرسکتے تھے اور اگر حاصل کرسکتے تھے تو اس سے کہیں زیادہ قیمت پر جس قیمت پر تاجر نے ان کے لیے مہیا کردیا۔ پھر تاجر اپنے سرمایہ اور مال کو کھلے بازار میں مقابلہ کے لیے پیش کرتا ہے اور اس کے لیے منافع کی شرح بازار کا اتار چڑھاؤ مقرر کرتا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ اس اتار چڑھاؤ کے ہاتھوں بالکل دیوالیہ ہو کر رہ جائے اور ہوسکتا ہے کہ کچھ نفع حاصل کرلے۔ اسی طرح اس معاملے میں بھی اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کہ وہ ایک بار ایک روپے کی چیز ایک روپے دو آنے یا چار آنے میں بیچ کر پھر اس روپے سے ایک دھیلے کا بھی کوئی نفع اس وقت تک نہیں کما سکتا جب تک اس کا وہ روپیہ تمام خطرات اور سارے اتار چڑھاؤ سے گزر کر پھر میدان میں نہ اترے اور معاشرے کی خدمت کر کے اپنے لیے استحقاق نہ پیدا کرے۔ بھلا بتائیے کیا نسبت ہے ایک تاجر کے اس جانباز غیور اور خدمت گزار سرمایہ سے ایک سود خوار کے اس سنگ دل، بزدل، بےغیرت اور دشمن انانیت سرمایہ کو جو جوکھم تو ایک بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن منافع بٹانے کے لیے سر پر سوار ہوجاتا ہے۔ سود خور کا سرمایہ دو بھیسوں میں ظاہر ہوتا ہے اور دونوں ہی میں وہ یکساں بزدل اور خونخوار ہے۔ ایک تو یہ سودی کاروبار کرنے والے نبیوں، پٹھانوں اور یہودیوں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے، اس شکل میں تو اس کی خونخواری سے کسی کے لیے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ ایک بنیا یا پٹھان جب ایک مرتبہ اپنے جال میں کسی کو پھنسا پاتا ہے تو چاہے اس مظلوم کے جسم پر گوشت کی ایک بوٹی بھی باقی نہ رہ گئی ہو لیکن وہ اپنی ہر میعاد پر آ کر اپنا ایک پونڈ گوشت کاٹ لے گا اور مدت العمر کی اس قطع و برید کے بعد بھی بسا اوقات ہوتا یہ ہے کہ نہ صرف بنیے کا اصل سرمایہ قرضدار پر لدا رہتا ہے بلکہ وہ اصل سے کئی گنا ہو کر آکاس بیل کی طرح مظلوم قرض دار کے گھر در، اس کے اثاث البیت اور اس کے زن و فرزند ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور خاندان کے خاندان کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ کے رکھ دیتا ہے۔ بتائیے کس تاجر کے سرمایہ میں یہ سکت ہے کہ وہ کسی پر یہ ظلم ڈھا سکے ؟ وہ تو زیادہ سے زیادہ اگر کرسکتا ہے تو یہ کہ بازار کے سارے اتار چڑھاؤ کا مقابلہ کر کے اگر موقع پائے تو اپنی ایک روپیہ کی چیز ڈیڑھ یا دو روپے میں بیچ لے اور وہ بھی ایک مرتبہ۔ سود خور کے سرمایہ کا دوسرا بھیس وہ ہے جس میں وہ رفاہی کاموں، اجتماعی منصوبوں اور ملکی اسکیموں کی سرپرستی کے نام سے اٹھتا ہے۔ اس زمانے میں بہت سے سادہ لوح اس بھیس میں اس کو بڑا معصوم سمجھتے ہیں لیکن غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس کی بزدلی اور خود غرضی کی فطرتِ بد اس کے اس جامے میں بھی اسی طرح موجود ہے جس طرھ پہلے بھیس میں موجود ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیے۔ فرض کیجیے ملک کی حکومت ملک کے کسی حصے کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے یا کسی اور خطرے سے بچانے کے لیے کوئی بڑا منصوبہ عمل میں لانا چاہتی ہے اور اس کے لیے پانچ یا سات فی صد کی شرح پر لوگوں سے قرض لیتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کا منصوبہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد کسی ارضی و سماوی آفت کی زد میں آ کر تباہ ہوجائے۔ اب بتائیے کہ ملک نے تو بحیثیت مجموعی ایک شدید قسم کا نقصان اٹھایا لیکن جن سود خوروں نے اس کے لیے قرض دیے تھے نہ صرف ان کا سرمایہ محفوظ ہے بلکہ ایک معین شرح کے ساتھ اس کا سود بھی دم بدکم اس میں اضافے پر اضافہ کیے چلا جا رہا ہے۔ آخر یہ قومی خدمت کی کون شکل ہوئی ؟ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ پہلی صورت میں اور اس دوسری صورت میں حقیقت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔ پہلی صورت میں سود خور کو صرف اس امر سے بحث ہے کہ اس کا سرمایہ محفوظ رہے اور منافع کا ایک پونڈ گوشت بغیر کسی غل و غش کے فصل فصل پر اس کو ملتا رہے، چاہے قرض دار کی سات پشتیں فاقہ کرتی مر جائیں۔ اور اس صورت میں بھی اس کے سامنے یہی چیز ہے کہ اس کا اصل سرمایہ بےداغ محفوظ رہے، معین سود اس کے حساب میں جمع ہوتا رہے، رہا قوم کا مردہ تو وہ چاہے دوزخ میں جائے یا بہشت میں۔ برعکس اس کے ایک تاجر کا سرمایہ قوم اور ملک کی خدمت کے لیے سب سے پہلے خود اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ اگر حالات کے رد و بدل، بازار کے اتار چرھاؤ، یا کسی اور سبب سے اس کو نقصان پہنچ جائے تو اس نقصان کو وہ اپنے ہی اوپر برداشت کرتا ہے۔ اس کے لیے ایک لمحہ کے واسطے بھی اس بات کا امکان نہیں ہوتا کہ وہ سود خور کے سرمائے کی طرح کسی کمین گاہ میں چھپ کر بیٹھے اور دوسروں سے اپنا نفع وصول کرتا رہے۔ اگر اس کو ساز گار سے ساز گار حالات بھی میسر آجائیں تب بھی بہرحال اس کے منافع کی شرح پا بزار کا فیصلہ ناطق ہوتا ہے اور اس طرح جو کچھ وہ حاصل کرپاتا ہے درحقیقت وہ اس کا جائز حق المحنت ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاجر کے منافع کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تعبیر فرمایا ہے اور سود خور کے سرمایہ کو، جیسا کہ ہم سورة روم کی تفسیر میں واضح کریں گے، اس سانڈ سے تشبیہ دی ہے جو دوسروں کی چراگاہ میں چر کر فربہ ہو رہا ہو۔ سود خوروں کے لیے تنبیہ : فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ الایہ : موعظت کے لفط میں زجر و تنبیہ کا پہلو غالب ہے اس وجہ سے اس کی اصل روح کو پیش نظر رکھ کر ہم نے اس کا ترجمہ تنبیہ کیا ہے، اس کی تانیث چونکہ غیر حقیقی ہے اس وجہ سے لفظ کے مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے فعل مذکر آیا ہے۔ ‘ من ربہ ’ کے الفاظ نے اس تنبیہ کے اندر ایک خاص زور پیدا کردیا ہے۔ یعنی یہ تنبیہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے بلکہ یہ سب کے مالک و آقا کی طرف سے تنبیہ ہے اس وجہ سے اس کو سہل نہیں خیال کرنا چاہیے۔ فَلَهٗ مَا سَلَفَ ، یعنی اس تنبیہ کے بعد جو سودی لین دین سے رک گیا، اس سے اس کے پچھلے لیے ہوئے سود کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ اس قانون کا نفاذ اگر ماضی پر بھی اثر انداز ہوتا تو اس سے ناقابل حل مشکلات پیدا ہوجاتیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ یعنی ایسے شخص سے اسلامی حکومت تو اس کے سابق سودوں پر کوئی گرفت نہیں کرے گی لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ خدا سے بھی اس کو معافی مل گئی، بلکہ اس کا معاملہ خدا کے حوالے ہے۔ خدا کے حوالے کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کی پکڑ سے بچنے کے لیے مجرد یہ بات کافی نہیں ہے کہ آدمی سود نہ لے بلکہ یہ بھی ضرور ہے کہ آدمی کے دل سے بھی سود کا ہر شائبہ نکل جائے۔ اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس طرح کے لوگ آخرت سے بےخوف ہو کر نہ بیٹھ رہیں بلکہ جس حد تک بھی ہوسکے اپنے پچھلے مظالم کی تلافی کی کوشش کریں، اس لیے کہ یہ مظالم حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے ہیں اور حقوق العباد کا معاملہ خدا کے ہاں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۔ یعنی اس واضح تنبیہ کے بعد بھی جو لوگ سودی کاروبار کریں گے وہ دوزخی ہیں اور وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے دائمی دوزخ کی سزا کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ان کا یہ رویہ اس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ وہ خدا کے اس حکم کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی اگر جذبات کے غلبے کے سبب سے ہوجاتی ہے تو توبہ کے ذریعے سے اس کی اصلاح کی راہ کھلی ہوئی ہے۔ اس کا بھی امکان ہے کہ توبہ سے غفلت کے باوجود اللہ تعالیٰ کسی کو معاف کردے یا اس کے گناہوں کے بقدر اس کو سزا دے کر رہائی دے۔ لیکن نہایت واضح تذکری و تنبیہ کے بعد بھی ایک شخص کسی حکم کی خلاف ورزی پر اصرار کیے چلا جا رہا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کے اس حکم کا منکر ہے۔ اگر وہ اس کے ساتھ ایمان کا بھی دعوی کرتا ہے تو یہ محض ایک منافقانہ قسم کی حرکت ہے جو اس عالم الغیب سے مخفی نہیں ہے جو دلوں کے تمام بھیدوں سے بخوبی واقف ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کے وہ مستحق ہیں۔ یعنی ان کو جہنم کے اس دائمی عذاب میں جھونک دے گا جو کفار و منافقین کے لیے مقرر ہے۔ گناہ کا احاطہ دائمی عذاب کا موجب ہے : یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھان چاہئے کہ ایک چیز تو ہے کسی جرم کا مرتکب ہونا اور ایک چیز ہے کسی جرم کو اوڑھنا بچھونا بنا لینا۔ جو جرم اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے وہ مجرم کی زندگی کے کسی ایک ہی پہلو کو متاثر نہیں کرتا بلکہ اس کی زندگی کا ہر پہلو اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اس کا ظاہر، اس کا باطن، اس کا عقیدہ، اس کا عمل اور اس کا ایمان و اسلام سب اس جرم کی چھاپ قبول کرلیتا ہے۔ اس حالت کو قرآن نے ‘ احاطہ ’ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے دائمی عذاب نار ہے۔ مثلاً ارشاد ہے“ بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ : البتہ جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ”(بقرہ :81)
Top