Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں الرِّبٰوا : سود لَا يَقُوْمُوْنَ : نہ کھڑے ہوں گے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَقُوْمُ : کھڑا ہوتا ہے الَّذِيْ : وہ شخص جو يَتَخَبَّطُهُ : اس کے حواس کھو دئیے ہوں الشَّيْطٰنُ : شیطان مِنَ الْمَسِّ : چھونے سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَا : در حقیقت الْبَيْعُ : تجارت مِثْلُ : مانند الرِّبٰوا : سود وَاَحَلَّ : حالانکہ حلال کیا اللّٰهُ : اللہ الْبَيْعَ : تجارت وَحَرَّمَ : اور حرام کیا الرِّبٰوا : سود فَمَنْ : پس جس جَآءَهٗ : پہنچے اس کو مَوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب فَانْتَهٰى : پھر وہ باز آگیا فَلَهٗ : تو اس کے لیے مَا سَلَفَ : جو ہوچکا وَاَمْرُهٗٓ : اور اس کا معاملہ اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر لوٹے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنادیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سود بیچنا بھی (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام تو جس کے پاس خدا کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا اور (قیامت میں) اس کا معاملہ خدا کے سپرد اور جو پھر لینے لگے گا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں جلتے رہیں گے
ربوٰ کا بیان قول باری ہے (الذین یاکلون الربوٰا لایقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطن من المس۔ ذلک بانھم قالوا انما البیع مثل الربوٰا واحل اللہ البیع وحرم الربوٰا۔ (a) جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھوڑ کر بائولا کردیا ہو۔ اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام) ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ ربوا کے معنی زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اسی سے لفظ الرابیۃ ہے جس کے معنی ابھری ہوئی زمین کے ہیں کیونکہ اپنے ارد گرد کی زمین کے مقابلے میں زیادہ ابھری ہوئی ہوتی ہے۔ اسی سے الربوۃ (a) بھی ہے جس کے معنی ٹیلے کے ہیں۔ اسی سے یہ محاورہ بھی ہے ” اربی فلان علی فلان فی القول او الفعل (فلاں شخص فلاں سے قول یا فعل میں بڑھ گیا) شرعی لحاظ سے یہ لفظ کئی معانی پر محمول ہوتا ہے جس کے لئے لغت میں یہ اسم موضوع نہیں تھا۔ اس پر حضرت اسامہ بن زید ؓ کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس میں حضور ﷺ نے نسا (a) یعنی ادھار کو ربوٰ قرار دیا۔ آپ کا قول ہے (انما الربوٰ فی النسیۃ (a) ربو ادھار میں ہوتا ہے) ۔ حضرت عمر ؓ کا قول ہے : ” ربوا کے کئی دروازے یعنی صورتیں ہیں جو پوشیدہ نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک صورت جانور کی بیع سلم ہے۔ “ حضرت عمر ؓ کا یہ قول بھی ہے کہ : ” ربوٰ کی آیت قرآن کی ان آیتوں میں سے ہے جو آخر میں نازل ہوئیں اور حضور ﷺ اس کی وضاحت کرنے سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہوگئے اس لئے ربوٰ اور ریبۃ (a) یعنی شک والی بات کو ترک کردو۔ “ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ لفظ ربوٰ ایک اسم شرعی بن گیا ورنہ اگر یہ اپنے اصلی معنی پر برقرار رہتا تو حضرت عمر ؓ سے اس کا معنی مخفی نہ ہوتا۔ جبکہ آپ اہل زبان تھے اور لغوی لحاظ سے اسموں کے معانی سے واقف تھے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اہل عرب سونے کے بدلے سونا اور چاندی کے بدلے چاندی کی ادھار خریدو فروخت کو ربوٰ (a) نہیں سمجھتے تھے جبکہ شریعت میں یہ چیز ربوٰ ہے۔ (a) ہمارے اس بیان سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ربوٰ کا شمار بھی ان اسماء میں ہوگیا جو مجمل تھے اور انہیں بیان کی ضرورت تھی۔ اس قسم کے اسماء وہ ہیں جو لغت سے شرع کی طرف منتقل کئے گئے تھے اور ان کا اطلاق ایسے معانی پر ہوتا تھا جن کے لئے یہ اسماء لغوی لحاظ سے موضوع نہیں تھے۔ مثلاً صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ۔ اس لئے اس لفظ ربوٰ کو بیان کی ضرورت ہے اور عقود کی کسی صورت کی تحریم کے لئے اس لفظ کے عموم سے استدلال درست نہیں ہے۔ صرف ان صورتوں کی تحریم کے لئے اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے جہاں یہ دلالت قائم ہوجائے کہ شرع میں یہ صورت اس لفظ کا مسمی اور مدلول بن رہی ہے۔ حضور ﷺ نے بہت سی آیتوں میں اللہ کی مراد کی نص اور توقیف یعنی الفاظ اور بیان کی صورت میں وضاحت فرمائی ہے اور بعض مقامات پر دلیل کے طور پر بیان کی ہے اس لئے اہل علم توقیف اور استدلال کے ذریعے اللہ کی مراد معلوم کرنے میں ناکام نہیں رہے۔ اہل عرب کے ہاں ربوا کا جو مفہوم تھا اور جس پر وہ آپس کی لین دین میں عمل پیرا ہوتے تھے یہ تھا کہ درہم و دینار قرض لیے جائیں۔ قرض کی ایک مدت ہو اور مدت گزرنے پر لی ہوئی رقم کچھ اضافے کے ساتھ واپس کردی جائے۔ اس اضافے کا فیصلہ باہمی رضامندی سے ہوتا تھا۔ ان کے بیع بالتقد یعنی سونا چاندی کی سونا چاندی کے بدلے اور ایک ہی جنس میں تفاضل یعنی کمی بیشی کی صورت کے ساتھ خریدو فروخت معروف و مروج نہیں تھی۔ ان کے ہاں ربوٰ کی جو صورت معروف و مروج تھی وہ قرض کی لین دین کی شکل میں پائی جاتی تھی۔ اسی لئے ارشاد باری ہے (وما اٰتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس فلا یربوا عنداللہ، (a) اور جو چیزتم اس غرض سے دوگے کہ لوگوں کے مال میں پہنچ کر زیادہ ہوجائے وہ اللہ کے پاس نہیں بڑھتی) اللہ نے یہ بتایا کہ قرض میں جس زیادتی کی شرط لگا دی جاتی ہے وہ اس قرض لئے ہوئے مال میں ربوٰ ہے کیونکہ قرض دینے والے کی طرف سے اس کے مقابلے میں کوئی عوض یا مال نہیں ہوتا۔ ارشاد باری ہے (لاتا کلوا الربوٰا اضعافاً مضاعفۃ (a) اے ایمان والو ! یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو ) اس میں اس حالت کی نشاندہی کی گئی ہے جس کے ضمن میں یہ خطاب وارد ہوا یعنی کئی گنا اضافے کی شرط۔ اللہ تعالیٰ نے اس ربوٰ یعنی سود کو باطل قرار دیا جو ان لوگوں کے ہاں مروج و متعارف تھا۔ اس کے ساتھ ہی خریدو فروخت کی اور کئی صورتوں کو بھی باطل قرار دے کر انہیں ربوٰ یعنی سود کا نام دیا۔ اس بنا پر قول باری (وحرم الربوٰ ) (a) ان تمام صورتوں کی تحریم پر مشتمل ہے کیونکہ شریعت میں ان تمام صورتوں پر لفظ ربوٰ کا اطلاق ہوتا ہے تاہم عربوں کے ہاتھ سودی لین دین کی صرف وہی صورت تھی جس کا ہم نے ذکر کیا ہے یعنی ایک مقررہ مدت تک کسی کو قرض دینا اور اس میں زیادتی اور اضافے کی شرط لگا دینا شریعت میں ربوٰ کے اسم کا اطلاق کئی معانی پر ہوتا ہے۔ اول تو وہ ہے جس پر زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا تعامل تھا۔ دوم مکیل اور موزون کے تحت آنے والی اشیاء میں سے کسی ایک جنس میں تفاضل یعنی کمی بیشی کے ساتھ خریدو فروخت جیسا کہ ہمارے اصحاب کا قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ جنس کی یکسانیت کے ساتھ یہ اعتبار کیا جائے گا کہ وہ چیز اشیائے خوردنی میں سے ہو اور اس کا ذخیرہ کرلیا جاتا ہو۔ امام شافعی جنس کے ساتھ اکل یعنی اشیائے خوردنی ہونے کا اعتبار کرتے ہیں۔ گویا تمام کے نزدیک جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں، تفاضل کی تحریم کے حکم کے سلسلے میں جنس کا اعتبار کیا گیا ہے۔ سوم نساء یعنی ادھار ۔ اس کی کئی صورتیں ہیں۔ اول جنس ایک ہو۔ اس صورت میں ادھار بیع جائز نہیں ہوگی۔ خواہ فروخت ہونے والی چیز اور ثمن کا تعلق مکیل یا موزون یا کسی اور سے ہو۔ اس لئے ہمارے نزدیک مرد کا بنا ہوا کپڑا مرد کے بنے ہوئے کپڑے کے بدلے ادھار فروخت نہیں ہوسکتا کیونکہ جنس کی یکسانیت موجود ہے۔ دوم اس معنی کا وجود جس کے ساتھ تحریم تفاضل کی شرط میں جنس کو بھی ملادیا گیا ہے۔ یہ مکیل اور موزون کے تحت آنے والی اشیاء ہیں جو اثمان یعنی درہم و دینار کے علاوہ ہوتی ہیں۔ اس لئے اگر کسی نے گندم چونے کے بدلے ادھار فروخت کی تو یہ بیع جائز نہیں ہوگی کیونکہ اس میں کیل موجود ہے۔ اگر کسی نے لوہا، پیتل کے بدلے ادھار فروخت کیا تو یہ بیع بھی جائز نہیں ہوگی کیونکہ اس میں وزن موجود ہے۔ واللہ تعالیٰ الموفق۔ جانوروں میں بیع سلم شرعی ربوٰ کی ایک صورت ہے حضرت عمر ؓ کا قول ہے۔ ” ربوٰ کی کئی صورتیں ہیں جو پوشیدہ نہیں ہیں ان میں سے ایک صورت سن (حیوان میں بیع سلم ہے۔ “ عربوں کے ہاں یہ صورت ربوٰ کی صورت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عمر ؓ نے یہ بات توقیفی طور پر کہی ہے یعنی آپ نے شریعت کی طرف سے اس بارے میں رہنمائی کی بنا پر یہ فرمایا ہے۔ کیونکہ شریعت میں ربوٰ کے اسم کا اطلاق جن صورتوں پر کیا جاتا ہے وہ تفاضل اور نساء یعنی ادھار کی صورتیں ہیں جن کی اپنی اپنی شرطیں ہیں جو فقہاء کے ہاں معلوم و مقرر ہیں۔ اس کی دلیل حضور ﷺ کا یہ قول ہے (الحنطۃ بالحنطۃ مثلا بمثل بداً بیدو الفضل ربا والشعیر بالشعیر مثلا بمثل یداً بید والفضل ربا۔ (a) گندم کے بدلے گندم برابر برابر ہاتھوں ہاتھ اور زیادتی سود ہے۔ جو کے بدلے جو برابر برابر ہاتھوں ہاتھ۔ اگر زائد ہو تو یہ سود ہوگا) ۔ آپ نے اسی ضمن میں تمرینی خرما، نمک ، سونے اور چاندی کا بھی ذکر فرمایا اور مکیل و موزون سے تعلق رکھنے والی اشیاء کی ایک جنس کے اندر یع و شراء میں زیادتی کو سود قرار دیا۔ حضور ﷺ نے اسامہ بن زید کی حدیث میں جسے عبدالرحمن بن عباس نے ان سے روایت کی ہے فرمایا (انما الربا فی النسیۃ۔ (a) ادھار میں سود ہوتا ہے) اور بعض روایت میدں یہ الفاظ ہیں (لا ربا الا فی النسیۃ۔ (a) سود تو صرف ادھار میں ہوتا ہے) اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ شریعت میں اسم ربوٰ کا اطلاق کبھی تفاضل پر ہوتا ہے اور کبی ادھار پر۔ حضرت ابن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ” سود صرف ادھار میں ہوتا ہے “ آپ سونے کے بدلے سونے اور چاندی کے بدلے چاندی کی متفاضل بیع کو جائز قرار دیتے تھے اور اس بارے میں حضرت اسامہ بن زید کی حدیث کو اپنا مسلک قرار دیتے تھے۔ لیکن جب تواتر کے ساتھ حضور ﷺ سے چھ اصناف میں متفاضل بیع کی تحریم کی روایتیں آپ تک پہنچیں تو آپ نے اپنے درج بالا قول سے رجوع کرلیا۔ جابر بن زید کا قول ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے بیع صرف یعنی سونا چاندی کی بیع اور متعہ کے بارے میں اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا۔ حضرت اسامہ بن زید کی روایت کردہ حدیث کا مفہوم تو صرف یہ ہے کہ ادھار دو جنسوں میں ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عبادہ بن الصامت ؓ اور کچھ دوسرے صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یداید) (a) پھر آپ نے چھ اصناف کا ذکر کیا اور فرمایا (بیعوا الحنطۃ بالشعیر کیف شئتم یداً بیداً ۔ (a) جو کے بدلے گندم فروخت کرو جس طرح چاہو لیکن ہاتھوں ہاتھ ہو) بعض روایت میں یہ الفاظ ہیں (واذا اختلف النوعان نبی عوا کیف شئتم یداً بید (a) جب نوع مختلف ہو تو پھر جس طرح چاہو ہاتھوں ہاتھ فروخت کرو) آپ نے مکیل اور موزون کی دو جن سو میں ادھار کی ممانعت کردی اور تفاضل کو مبارح کردیا۔ حضرت اسامہ ؓ کی حدیث اسی معنی پر محمول ہے۔ آیت میں جو سود مراد ہے اس کی ایک صورت ایک ایسی چیز کی خریداری ہے جسے پہلے فروخت کردیا گیا ہو اور قیمت وصول کرنے سے پہلے اسے قیمت فروخت سے کم قیمت پر خرید لیا جائے اس قسم کے سودے کے سود ہونے کی دلیل وہ روایت ہے جسے یونس بن اسحاق نے اپنے والد سے اور انہوں نے ابو العالیہ سے نقل کیا ہے۔ ابو العالیہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس تھا، ایک عورت نے ان سے کہا کہ میں نے اپنی ایک لونڈی آٹھ سو درہم میں زید بن ارقم ؓ کو فروخت کردی اور قیمت کی وصولی کی مدت انہیں بیت المال سے ملنے والے وظیفہ تک مقرر کردی۔ زید ؓ نے یہ لونڈی فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے اس سے یہ لونڈی چھ سو درہم میں خریدلی، یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ نے اس عورت سے کہا کہ تم نے بہت بری خریدو فروخت کی۔ میری طرف سے زید بن ارقم ؓ کو یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو حضور ﷺ کی معیت میں ان کا سارا جہاد فی سبیل اللہ باطل ہوجائے گا۔ یہ سن کر عورت کہنے لگی ام المومنین، آپ کا کیا خیال ہے اگر میں صرف میں اپنا راس المال لے لوں، اس پر حضرت عائشہ ؓ نے یہ آیت پڑھی (فمن جاء ہ موعظۃ من ربہ فانتھیٰ فلہ ما سلف وامرہ الی اللہ۔ (a) پس جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لئے وہ سود خواری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا سو کھاچکا اس کا معاملہ اب اللہ کے حوالے ہے) ۔ اس عورت کی بات سن کر حضرت عائشہ ؓ کا سود کی یہ آیت تلاوت کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہسودا سودا تھا۔ اسے سود قرار دینا توقیف کے سوا اور کسی ذریعے سے نہیں ہوسکتا تھا۔ عبداللہ بن المبارک نے حکیم بن زریق سے اور انہوں سے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ میں نے سعید بن المسیب سے ایک شخص کے متعلق مسئلہ پوچھا جس نے ایک شخص کے ہاتھوں کوئی خوردنی شے فروخت کی اور قیمت کی وصولی کے لئے ایک مدت مقرر کردی۔ خریدار نے وہی خوردنی شے اسی فروخت کنندہ کے ہاتھوں نقد قیمت کے بدلے فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، آیا یہ درست ہے یا نہیں۔ سعید بن المسیب نے فرمایا کہ یہ سود ہے۔ اس سودے میں یہ بات تو ظاہر ہے کہ خریدار نے وہ چیز قیمت فروخت سے کم قیمت پر فروخت کرنا چاہا ہوگا ورنہ اگر وہ قیمت فروخت یا اس سے زائد قیمت پر اسے فروخت کرنا چاہتا تو اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہ ہوتا۔ غرض سعید بن المسیب نے اس سودے کو سود قرار دے دیا۔ ایسے سودے کی ممانعت حضرت ابن عباس ؓ ، قاسم بن محمد، مجاہد، ابراہیم نخعی اور شعبی سے بھی مروی ہے، حسن بصری، ابن یسرین اور کچھ دوسرے تابعین سے مروی ہے کہ اگر وہ شخص اس چیز کو نقد قیمت پر فروخت کردے تو اس کے لئے اسے خرید لینا جائز ہے۔ لیکن اگر اس نے ادھار فروخت کی ہو تو وہ اسے قیمت فروخت سے کم قیمت پر اس وقت تک نہیں خرید سکتا جب تک کہ قیمت کی ادائیگی کا وقت نہ آجائے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک چیز فروخت کردے اور پھر قیمت فروخت سے کم قیمت پر اسے خریدلے تو یہ جائز ہوگا۔ لیکن اس روایت میں قیمت کی وصولی کا ذکر نہیں ہے اس لئے یہ جائز ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کی مراد یہ ہو کہ وہ اس وقت ایسا کرسکتا ہے جب وہ ثمن یعنی فروخت شدہ چیز کی قیمت وصول کرچکا ہو۔ بہرحال حضرت عائشہ ؓ اور سعید بن المسیب کے قول سے ایسے سودے کا سود ہونا ثابت ہوتا ہے اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ ان دونوں نے اس سودے کو صرف توقیف کے ذریعے ہی سود قرار دیا کیونکہ لغوی لحاظ سے اس سودے پر سود کا اطلاق غیر معروف ہے۔ اس لئے اسے سود کا نام دینا صرف شرعی طریقے سے ممکن ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ شریعت میں استعمال ہونے والے اسماء سب کے سب حضور ﷺ کی جانب سے توقیفی ہوتے ہیں۔ والہ اعلم بالصواب۔ دین کے بدلے دین بھی سود کی ایک صورت ہے موسیٰ بن عبیدہ نے عبداللہ بن دینار سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ادھار کے بدلے ادھار سے منع فرمایا ہے۔ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے دین کے بدلے دین سے منع فرمایا۔ دونوں کا معنی ایک ہے۔ اسامہ بن زید کی حدیث میں آپ کے الفاظ یہ ہیں (انما الربوا فی النسیۃ۔ (a) سود تو ادھار میں ہوتا ہے) البتہ اسے دین کے بدلے دین والے عقد پر منطبق کیا جاتا ہے اور یہ کہ جب تک سودے کی مجلس باقی ہے اس وقت تک طرفین کو چھوٹ ہے۔ کیونکہ مجلس ختم ہونے تک اس کی گنجائش ہے کہ سودے میں اگرچہ نہ فروخت ہونے والی چیز موجود ہے اور نہ اس کی قیمت یعنی ادھار ہیں تاہم سودا کرنے والا مثلاً ایک کر (ایک پیمانہ جس سے گندم ماپ کردی جاتی ہے) گندم کی قیمت کے طور پر فروخت کنندہ کو دراہم ادا کردے۔ لیکن اگر یہ دونوں مجلس ختم کردیں اور فروخت کنندہ نے قیمت نہ وصول کی ہو تو یہ سودا باطل ہوجائے گا۔ اسی طرح ادھار کی صورت میں دینار کے بدلے درہم فروخت کرنا جائز ہے لیکن اگر طرفین قیمت اور مبیع کی وصولی سے پہلے علیحدہ ہوجائیں تو یہ سودا باطل ہوجائے گا۔ سود کی چند صورتیں جن کی تحریم پر آیت مشتمل ہے ایک شخص پر ہزار درہم قرض ہوتا ہے جس کی ادائیگی کے لئے مدت مقرر ہوتی ہے پھر وہ شخص قرض خواہ کے ساتھ فوری ادائیگی کی بنیاد پر پانچ سو پر تصفیہ کرلیتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔ سفیان نے حمید سے، انہوں نے میسرہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا کہ فرض کریں کسی کے ذمہ میرا قرض ہو اور ادائیگی کی مدت مقرر ہو۔ پھر میں اس سے کہوں کہ اگر تم مجھے فوری ادائیگی کردوگے تو میں رقم میں کمی کردوں گا آیا یہ درست ہے یا نہیں ؟ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا یہ سود ہے۔ حضرت زید بن ثابت ؓ سے بھی اس کی ممانعت منقول ہے۔ سعید بن جبیر، شعبی اور حکم کا بھی یہی قول ہے اور یہی ہمارے اصحاب او عام فقہاء کا مسلک ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس قول کے بطلان پر دو باتیں دلالت کرتی ہیں۔ اول یہ کہ حضرت ابن عمر ؓ نے اس صورت کو سود کا نام دیا اور ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ شریعت میں استعمال ہونے والے اسماء توقیفی ہوتے ہیں۔ دوم یہ کہ یہ بات واضح ہے کہ زمانہ جاہلیت کا سود موجل قرض ہوتا تھا جس میں زیادتی کی شرط لگادی جاتی تھی اور یہ زیادتی اس دی ہوئی مدت کے بدلے میں ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے باطل کرکے حرام قرار دے دیا اور فرمایا (وان تبتم فلکم رئو وس اموالکم (a) اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہیں تمہارا راس المال یعنی اصل زرمل جائے گا) نیز فرمایا (وذروا ما بقی من الربوٰ ۔ (a) جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ) اس آیت میں مدت کے بدلے میں عوض لینے کی ممانعت ہے۔ اب اگر ایک شخص پر ہزار درہم موجل قرض کے طور پر ہیں اور قرض خواہ فوری ادائیگی کی بنیاد پر اس رقم میں کمی کردیتا ہے تو وہ حقیقت میں یہ کمی مدت کی کمی کے مقابلہ میں کرتا ہے اور یہی سود کا معنی ہے جس کی تحریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصوص ہے۔ اسی لئے اس صورت کے عدم جواز میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی پر ایک ہزار درہم قرض ہوں اور ادائیگی بھی معجل یعنی فوری ہو پھر وہ شخص قرض خواہ سے کہے کہ مجھے مہلت دے دو میں ایک سو زائد درہم تمہیں واپس کردوں گا کیونکہ یہ زائد سو درہم مدت اور مہلت کے عوض میں ہیں۔ اسی طرح قرض کی رقم میں کمی بھی زیادتی کے معنی میں ہے کیونکہ اس کمی کو اجل یعنی مدت کا معاوضہ بنایا گیا ہے یہ ہے وہ بنیاد جس کی بنا پر آجال کے ابدال کا لینا ممنوع ہے یعنی اجل اور مدت کے عوض اور بدل کے طور پر کوئی رقم لے لی جائے یا چھوڑ دی جائے۔ اسی لئے امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر کسی نے درزی کو قمیض سینے کے لئے دیتے ہوئے کہا کہ اگر تو اسے آج سی دے تو تجھے ایک درہم ملے گا اور اگر کل سی دے گا تو آدھا درہم ملے گا اس کی دوسری شرط باطل ہوگی۔ اگر وہ کل سی کر دے گا تو اسے ایک ہی درہم ملے گا۔ یہ شرط اس لئے باطل ہے کہ اس نے اجرت میں کمی مدت کے مقابلے میں کی ہے۔ جبکہ ان دونوں وقتوں میں خیاطی کا یہ کام ایک ہی انداز اور صفت سے ہوتا اس لئے یہ شرط جائز نہیدں ہوگی کیونکہ یہ وہ صورت ہے جو مدت کی بنا پر سودے میں اختیار کی جاتی تھی جس کے عدم جواز پر ہم سابقہ سطور میں پوری وضاحت کر آئے ہیں۔ سلف میں سے جن حضرات نے اس صورت کے جواز کا قول اختیار کیا ہے کہ تو مجھے فوری ادائیگی کردے میں قرض کی رقم میں کمی کردوں گا تو ہوسکتا ہے کہ ان کے ہاں یہ جواز اس وقت ہوگا جب قرض خواہ قرض دیتے وقت اسے شرط نہ بنائے۔ اور وہ اس طرح کہ قرض کی رقم میں بلاشرط کمی کردے اور قرضدار بلاشرط باقی رقم کی فوری ادائیگی کردے۔ ہم نے دلیل کے ساتھ پہلے ذکر کردیا ہے کہ تفاضل کبھی سود ہوتا ہے جس طرح کہ حضور ﷺ سے چھ اصناف یعنی اجناس کے متعلق مروی ہے اور ادھار کبھی بیع میں سود بن جاتا ہے۔ اس بارے میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے (واذا اختلف التوعان فبیعوا شئتم یداً بید۔ (a) اور جب نوع مختلف ہوں تو پھر جس طرح چاہو انہیں دست بدست فروخت کرو) اسی طرح آپ کا ارشاد ہے (انما الربا فی النسیۃ۔ (a) سود تو ادھار میں ہوتا ہے) حیوان میں بیع سلم بھی کبھی سود ہوجاتا ہے۔ اس کی بنیاد حضور ﷺ کی درج بالا دونوں حدیثیں ہیں نیز حضرت عمر ؓ نے حیوان میں بیع سلم کو سود کا نام دیا۔ اسی طرح ایک فروخت شدہ چیز کی قیمت کی وصولی سے پہلے قیمت فروخت سے کم قیمت پر خرید لینا بھی سود ہے۔ اسی طرح فوری ادائیگی کی شرط پر قرض کی رقم میں کمی کردینا بھی سود ہے ان کی وجوہات ہم درج بالا سطور میں بیان کر آئے ہیں۔ فقہاء کا ان چھ اصناف میں تفاضل کی تحریم پر اتفاق ہے جن کے متعلق حضور ﷺ سے کئی طرق سے احادیث منقول ہیں۔ ان کے راویوں کی کثرت اور فقہاء کا ان پر عمل پیرا ہونے کی بناء پر ہمارے نزدیک ان احادیث کو درجہ تواتر حاصل ہے۔ فقہاء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ ان چھ اصناف کے متعلق نص کے مضمون میں وہ علت موجود ہے جس کے ساتھ تحریم کے حکم کا تعلق ہے اور جس کا دوسری اشیاء میں بھی اعتبار کرنا واجب ہے جنس کی یکسانیت کو بطور علت ماننے میں فقہاء اتفاق کرتے ہیں لیکن پھر ان میں جو اختلاف رائے ہے اس پر ہم نے اس باب کے گزشتہ سطور میں روشنی ڈالی ہے اور اس پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ تفاضل کی تحریم کا حکم صرف ان چھ اصناف میں منحصر نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ تفاضل کی تحریم کا حکم صرف ان چھ اصناف میں منحصر ہے جن کے متعلق شریعت کی طرف سے ہدایات دی گئی ہیں۔ ہمارے نزدیک ان کا یہ اختلافی قول قابل اعتناء نہیں ہے کیونکہ یہ معدودے چند لوگ ہیں۔ ہمارے اصحاب نے کیل اور وزن کا جو اعتبار کیا ہے اس کے لئے ان کے پاس روایات کی صورت میں دلائل موجود ہیں۔ نیز عقلی دلائل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ہم نے کئی مواقع پر ان دلائل کا تذکرہ کیا ہے۔ حضور ﷺ کی اس حدیث کے مضمون سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے آپ کا ارشاد ہے (الذھب بالذھب مثلا بمثل وزنابوزن۔ والحنطۃ بالحنطۃ مثلا بمثل کیلا بکیل (a) سونے کے بدلے سونا برابر برابر ہم وزن، گندم کے بدلے گندم برابر برابر ہم کیل) اس حدیث نے موزونات میں وزن میں مماثلت اور مکیلات میں کیل میں مماثلت واجب کردی اس لئے یہ حدیث اس پر دال ہوگئی کہ تحریک کے حکم میں جنس کے ساتھ وزن اور کیل کا اعتبار کیا جائے گا۔ جو لوگ ہم سے اختلاف کرتے ہوئے اکل یعنی شے کے خوردنی ہونے کا اعتبار کرتے ہیں وہ اس قول باری (الذین یا کلون الربولا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطن من المس۔ (a) جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بائولا کردیا ہو) سے استدلال کرتے ہیں نیز ان کا استدلال اس قول باری (لاتا کلوا الربوٰ (a) سود مت کھائو) سے بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ماکول یعنی خوردنی اشیاء پر سود کا اطلاق کیا۔ اس بنا پر ان حضرات کا یہ قول ہے کہ ماکولات میں سود کے اثبات کے لئے ان آیات میں عموم ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ آیات ان کے دعویٰ پر دلالت نہیں کرتی ہیں اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اول وہ وجہ ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ شرع میں لفظ ربوٰ ایک مجمل لفظ ہے جسے تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے اس بنا پر اس کے عموم سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ فلاں چیز سود کے ضمن میں آتی ہے کسی اور دلالت کی ضرورت ہے حتیٰ کہ آیت کی بنا پر اسے حرام قرار دیا جائے اور اس کے کھانے سے پرہیز کیا جائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت سے زیادہ سے زیادہ کسی ایک ماکول میں سود ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں یہ نہیں ہے کہ تمام ماکولات میں سود کا وجود ہوتا ہے۔ ہم نے بھی تو بہت سی ماکولات میں سود ثابت کردیا ہے اور اتنا کرکے ہم گویا آیت کے مضمون اور حکم سے عہدہ برا ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے سود کے متعلق توقیف کا ثبوت ہوگیا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ گیارہ سو کے عوض ایک ہزار کی بیع کی تحریم پر سب کا اتفاق ہے۔ جس طرح کہ یہ معلوم ہوگیا ہے کہ ایک ہزار مؤجل کے عوض ایک ہزار کی بیع بھی باطل ہے اور اس طرح وہ اجل یعنی مدت جس کی شرط لگائی گئی ہے مال میں کمی کی قائم مقام بن کر اسی طرح ہوگئی ہے جس طرح گیارہ سو کے عوض ایک ہزار کی بیع ہے۔ اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ قرض میں اجل یعنی مدت درست نہ ہو جس طرح گیارہ سو کے بدلے ہزار کا قرض درست نہیں ہے کیونکہ مدت میں کمی وزن میں کمی کی طرح ہے اور سود کبھی تو وزن میں کمی کی بنا پر ہوت ہے اور کبھی اجل میں کمی کی بنا پر اس لئے ضروری ہے کہ قرض کی بھی صورت حال یہی ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس معاملے میں قرض بیع کی طرح نہیں ہے کیونکہ قرض میں تو بدل کو قبضہ میں لینے سے پہلے جدا ہوجانا درست ہے لیکن ہزار کے عوض ہزار کی بیع میں ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ عدت میں کمی اس وقت پیش آتی ہے جب یہ مشروط ہو لیکن اگر مشروط نہ ہو تو قبضہ نہ کرنا دونوں مالی یعنی مبیع اور ثمن میں سے کسی کے نقص اور کمی کا سبب نہیں بنتا۔ البتہ ایسی بیع کا بطلان کسی اور وجہ سے ہوتا ہے جو اس سبب کے علاوہ ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مجلس عقد بیع میں مبیع اور ثمن کو طرفین سے اپنے اپنے قبضہ میں لینے کے وجوب کے لحاظ سے دو اصناف اور ایک صنف میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یعنی چاندی کے بدلے سونا اور ساتھ ساتھ ان دونوں میں تفاضل کا جواز بھی ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ان دونوں کو طرفین یعنی بائع کی مشتری کی جانب سے اپنے اپنے قبضے میں لینے کا موجب اس جہت سے نہیں ہے کہ ترک قبض غیر مقبوض میں نقصان کا موجب ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص نے کسی کے ہاتھ کوئی غلام ایک ہزار درہم میں فروخت کردیا ہو اور اس کے ثمن یا قیمت کو کئی سالوں تک اپنے قبضے میں نہ لیا ہو تو خریدار کے لئے جائز ہے کہ فی الحال ایک ہزار کے ساتھ منافع لے کر اسے فروخت کردے لیکن اگر وہی شخص اس غلام کو ایک ماہ کی مہلت کی شرط کے ساتھ ایک ہزار پر فروخت کردیتا پھر مدت بھی ختم ہوجاتی تو خریدار کے لئے یہ گنجائش نہ ہوتی کہ وہ فی الحال ایک ہزار کے ساتھ منافع لے کر اسے فروخت کردے جب تک کہ وہ یہ بیان نہ کردے کہ اس نے یہ غلام موجل قیمت پر خریدا ہے۔ اس سے اس پر دلالت ہوگئی کہ عقد بیع میدں اجل مشروط ثمن میں کمی کا سبب بنتی ہے اور حکم میں یہ وزن میں کمی کی طرح ہوتی ہے جب یہ بات اس طرح ہے تو قرض اور بیع کے درمیان ہماری بیان کردہ صورت کے لحاظ سے تشبیہ درست ہے اور اس پر معترض کا مذکورہ بالا اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ قرض میں مدت مقرر کرنے کے بطلان پر حضور ﷺ کا یہ قول دلالت کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا (انما الربوا فی النسیۃ۔ (a) سود تو ادھار میں ہوتا ہے) آپ نے بیع اور قرض کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا اس لئے یہ قول تمام صورتوں پر محمول ہوگا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ قرض چونکہ ایک قسم کا تبرع یعنی نیکی ہے جو اسی وقت درست ہوتا ہے جب اسے اپنے قبضے میں لے لیا جائے اس لئے یہ ہبہ کے مشابہ ہوگیا اس لئے اس میں تاجیل اسی طرح درست نہیں جس طرح ہبہ میں درست نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے ہبہ میں تاجیل کو یہ فرما کر باطل کردیا تھا کہ (من) عمر عمری فھی لہ ولورثتہ من بعدہ (a) جس شخص نے کسی زمین کو آباد کیا وہ زمین اس کی ہوگئی او اس کے بعد اس کے ورثاء کو مل جائے گی) عمریٰ ، (a) اس جگہ یا زمین کو کہتے ہیں جسے زندگی بھر کے لئے دے دیا جائے۔ آپ نے ملکیت کے لئے مشروط تاجیل کو باطل کردیا۔ نیز دراہم کو بطور قرض دینا گویا بطور رعایت دینا ہے اور انہیں بطور عاریت دینا گویا انہیں بطور قرض دینا ہے کیونکہ اس میں منافع کی تملیک ہوتی ہے اور دراہم لینے والے شخص کو منافع کی تملیک اسی وقت حاصل ہوگی جب وہ ان دراہم کو صرف کردے گا۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب کوئی شخص کسی کو عاریۃً کچھ دراہم دے دے تو یہ قرض ہوگا اس بنا پر ہمارے اصحاب نے دراہم کرائے کے طور پر لینے کو درست قرار نہیں دیا کیونکہ یہ قرض ہوگا اور گویا اس نے دراہم اس شرط پر قرض لئے کہ اس سے زائد واپس کرے گا اب جبکہ عاریت میں د اجل درست نہیں ہے تو قرض میں بھی درست نہیں۔ دراہم قرض دینا عاریت ہے اس پر ابراہیم الہجری کی حدیث دلالت کرتی ہے جو انہوں نے ابو الاحوص سے روایت کی۔ انہوں نے عبید ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (تدرون ای الصدقۃ خیر، قالوا اللہ ورسولہ اعلم، قال خیر الصدقۃ المختران تمنح اخاک الدرراھم او ظھرا الدایۃ ولین الشاۃ۔ (a) کیا تم جانتے ہو کہ کون سا صدقہ سب سے بہتر ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اس کی خبر تو اللہ اور اس کے رسول کو ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا بہترین صدقہ منحہ یعنی عطیہ ہے مثلاً تم اپنے بھائی کو دراہم کا یا سواری کی پشت کا یا بکری کے دودھ کا عطیہ دے دو ) اور منحہ عاریت ہوتی ہے۔ آپ نے دراہم کو بطور قرض دینا اسے عاریت کے طور پر دینا قرار دیا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک دوسری حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ (المنحۃ مردودۃ۔ (a) منحہ یعنی عطیہ قابل واپسی ہے) اب جبکہ عاریت میں تاجیل درست نہیں ہے اسی طرح قرض میں بھی درست نہیں ہے۔ امام شافعی نے قرض میں تاجیل کو جائز قرار دیا ہے۔ وباللہ التوفیق۔ (a) بیع کا بیان قول باری ہے (واحل اللہ البیع۔ (a) اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کردیا) یہ حکم تمام اقسام کی بیع کے لئے عام ہے کیونکہ لفظ بیع ایسے معنی کے لئے موضوع ہے جو لغوی لحاظ سے پوری طرح سمجھ میں آجاتی ہے اور وہ ہے طرفین یعنی بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی اور ایجاب و قبول کے ذریعے مال کے بدلے مال کی تملیک۔ لغت کے مفہوم کے مطابق یہی بیع کی حقیقت ہے۔ پھر بیع کی بعض صورتیں جائز ہیں اور بعض فاسد لیکن یہ بات کسی بیع کے جواز یا فساد میں اختلاف کی صورت کے اندر لفظ کے عموم کے اعتبار سے مانع نہیں ہے۔ اہل علم کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس آیت کے انداز بیان میں اگرچہ عموم پایاجاتا ہے لیکن اس سے مراد خصوص ہے۔ کیونکہ تمام اہل علم بیع کی بہت سی صورتوں کی ممانعت پر متفق ہیں۔ مثلاً ایسی چیز کی بیع جو فروخت کنندہ کے قبضے میں ابھی نہ آئی ہو یا ایسی چیز کی بیع جس کا انسان کے پاس وجود ہی نہ ہو یا ایسی بیع جس میں دھوکے کا پہلو موجود ہو یا نامعلوم اشیاء کی بیع یا شرعی لحاظ سے حرام اشیاء کی بیع وغیرہ۔ آیت کا لفظ بیع کی ان تمام صورتوں کے جواز کا متقاضی ہے لیکن دوسرے دلائل کی بنا پر ان صورتوں کی تخصیص کردی گئی ہے۔ پھر بھی تخصیص ان صورتوں میں جہاں تخصیص کے دلائل موجود نہ ہوں آیت کے لفظ کے عموم کے اعتبار سے مانع نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ لفظ کے عموم سے بیع موقوف کے جواز پر استدلال کیا جائے کیونکہ قول باری ہے (واحل اللہ البیع) (a) لفظ بیع ایجاب اور قبول کے لئے اسم ہے۔ اس کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ اس کے ذریعے بیع کرنے والے کو ملکیت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بائع یا مشری یا دونوں کی طرف سے اختیار کی شرط پر کی جانے والی بیع، جسے بیع خیام کہتے ہیں۔ ایسی ہوتی ہے جو ملکیت کو واجب نہیں کرتی۔ حالانکہ وہ بیع ہوتی ہے۔ اسی طرح بائع اور مشتری کے نمائندے یا وکیل بیع کرتے ہیں لیکن وہ کسی چیز کے مالک نہیں بنتے۔ قول باری ہے (وحرم الربوٰ ۔ (a) اللہ نے سود کو حرام کردیا) ربوٰ کے متعلق گزشتہ سطر میں ہم بیان کر آئے ہیں کہ یہ ایک مجمل لفظ ہے جسے تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے اور اس کا شرعی مفہوم توقیفی ہے یعنی صاحب شرع کی طرف سے کی جانے والی وضاحت پر موقوف ہے۔ ربوٰ کی بعض صورتیں ایسی ہیں جو بیع ہیں اور بعض صورتیں بیع نہیں ہیں۔ یہ اہل جاہلیت کا سود ہے یعنی وہ قرض جس میں مدت کی شرط لگادی گئی ہو نیز قرض لینے والے پر قرض کی رقم سے زائد رقم بھی لازم کردی گئی ہو۔ قول باری (واحل اللہ البیع) (a) کے عموم سے بیع کی وہ صورتیں جو سود تھیں آیت کے سیاق میں وہ مفہوم موجود ہے جو اس عموم سے ان صورتوں کی تخصیص کو واجب کردیتا ہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ لفظ ربوٰ کا اجمال لفظ بیع کے اجمال کو واجب کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے۔ کیونکہ بیع کی وہ صورتیں جن پر ربوٰ کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا ان میں لفظ کے عموم کا حکم جاری ہے۔ صرف بیع کی ان صورتوں میں توقف ہوتا ہے جن کے متعلق ہمیں شک ہوتا ہے کہ آیا سود ہیں یا نہیں۔ لیکن جن صورتوں کے متعلق ہمیں یہ یقین ہے کہ یہ سود نہیں ہیں تو ان پر تحریم ربوٰ کی آیت کے ذریعے اعتراض کرنا درست نہیں ہے۔ ہم نے یہ بات اصول فقہ میں بیان کردی ہے۔ قول باری ہے (وحرم الربوٰ ۔ (a) اللہ نے سود کو حرام کردیا) ربوٰ کے متعلق گزشتہ سطر میں ہم بیان کر آئے ہیں کہ یہ ایک مجمل لفظ ہے جسے تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے اور اس کا شرعی مفہوم توقیفی ہے یعنی صاحب شرع کی طرف سے کی جانے والی وضاحت پر موقوف ہے۔ ربوٰ کی بعض صورتیں ایسی ہیں جو سبع ہیں اور بعض صورتیں بیع نہیں ہیں۔ یہ اہل جاہلیت کا سود ہے یعنی وہ قرض جس میں مدت کی شرط لگادی گئی ہو نیز قرض لینے والے پر قرض کی رقم سے زائد رقم بھی لازم کردی گئی ہو۔ قول باری (واحل اللہ البیع) (a) کے عموم سے بیع کی وہ صورتیں جو سود تھیں آیت کے سیاق میں وہ مفہوم موجود ہے جو اس عموم سے ان صورتوں کی تخصیص کو واجب کردیتا ہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ لفظ ربوٰ کا اجمال لفظ بیع کے اجمال کو واجب کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے کیونکہ بیع کی وہ صورتیں جن پر ربوٰ کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا ان میں لفظ کے عموم کا حکم جاری ہے۔ صرف بیع کی ان صورتوں میں توقف ہوتا ہے جن کے متعلق ہمیں شک ہوتا ہے کہ آیا سود ہیں یا نہیں۔ لیکن جن صورتوں کے متعلق ہمیں یہ یقین ہے کہ یہ سود نہیں ہیں تو ان پر تحریم ربوٰ کی آیت کے ذریعے اعتراض کرنا درست نہیں ہے۔ ہم نے یہ بات اصول فقہ میں بیان کردی ہے۔ قول باری ہے (ذلک بانھم قالوا انما البیع مثل الربوٰ ۔ (a) یہ اس لئے کہ انہوں نے یہ کہا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہے) اس میں ان منکرین کے خیال کی ترجمانی ہے جو سود کی اباحت کے قائل تھے ان کا گمان تھا کہ سود کی بنا پر حاصل شدہ زیادتی اور بیع کی مختلف صورتوں میں حاصل شدہ منافع کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن ان لوگوں نے دنیا اور آخرت کے ان مصالح کو نظرانداز کردیا جن کی خاطر اللہ تعالیٰ نے نظام شریعت نازل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس جہالت کی مذمت کرتے ہوئے قیامت میں ان پر پیش آنے والی حالت اور لازم ہونے والی سزا کی اطلاع دی۔ قول باری ہے (واحل اللہ البیع) (a) اس سے ایسی چیز کی بیع کے جواز کے لئے استدلال کیا گیا ہے جسے مشتری نے نہ دیکھا ہو۔ نیز بیع کی اس صورت کے جواز کے لئے بھی استدلال کیا گیا ہے جس میں گندم کے بدلے مساوی مقدار میں بعینہ وہی گندم خریدی گئی ہو اور قبضہ سے پہلے سودے کی مجلس ختم ہوگئی ہو، اسی طرح طرفین کی علیحدگی سے بیع باطل نہیں ہوتی۔ وجہ اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ لفظ کے ورود سے بیع کے تمام لزوم اور اس کے حقوق یعنی قبضے میں لینا، تصرف کرنا اور ملکیت وغیرہ کا علم ہوجاتا ہے جس کا تقاضا ہے کہ طرفین کی طرف سے مبیع اور ثمن پر قبضہ نہ کرنے کے باوجود بھی یہ احکام باقی رہیں۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (حرمت علیکم امھاتکم (a) تم پر تمہاری مائیں حرام کردی گئی ہیں) اس سے مراد ان سے جنسی تلذذ کے حصول کی حرمت ہے۔ اس مسئلے کے لئے قول باری (ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم۔ (a) اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھائو الا (a) یہ کہ آپس کی رضامندی سے تجارت کی شکل ہو) سے بھی دو طریقوں سے استدلال کیا گیا ہے۔ اول یہ کہ آیت کا تقاضا ہے کہ بائع اور مشتری کی علیحدگی سے قبل اور علیحدگی کے بعد قبضہ کے بغیر کھانے کی اباحت ہے۔ دوم یہ کہ مشتری کے لئے علیحدگی کے بعد بائع کے ثمن پر قبضہ کرنے سے پہلے کھانے کی اباحت ہے۔ قول باری ہے (فمن جآئہ موعظۃ من ربہ فانتھیٰ فلہ ما سلف وامرہ الی اللہ (a) پس جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچے اور وہ آئندہ کے لئے سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا سو کھاچکا اس کا معاملہ اب اللہ کے حوالے ہے) ۔ آیت کا مفہوم یہ کہ جو شخص سود کی نہی کے بعد سود خوری سے باز آجائے تو اس کے لئے سود کی وہ رقمیں حلال ہیں جو سود کی تحریم کے نزول سے پہلے اس کے قبضے میں آگئی تھیں لیکن جو رقمیں ابھی قبضے میں نہیں آئیں وہ یہاں مراد نہیں ہیں کیونکہ آیت کے نسق و تسلسل میں قبضے میں نہ آئی ہوئی رقموں کی ممانعت اور ان کے ابطال کا ذکر آگیا ہے۔ چنانچہ قول باری ہے (یآیھا الذین اٰمنوا تقوا اللہ وذروا مابقی من الربوٰۃ ان کنتم مومنین (a) اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تمہارا اللہ پر ایمان ہے) اللہ تعالیٰ نے وہ تمام سودی رقمیں باطل کردیں جو ابھی قبضے میں نہیں آتی تھیں اگرچہ تحریم کے نزول سے قبل یہ سودی سودے پکے ہوچکے تھے لیکن ان سودوں کے نسخ کا حکم دیا جن کی رقمیں قبضے میں آچکی تھیں اس کے لئے یہ قول باری ہے (فمن جاء ہ موعظۃ من ربہ فانتھیٰ فلہ ماسلف) (a) سدی اور دیگر مفسرین سے یہی تفسیر مروی ہے قول باری ہے (وذروا مابقی من الربوٰا ان کنتم مؤمنین) (a) اس کے ذریعے وہ سودی سودے باطل کردیے جو باقی رہ گئے تھے اور جن کی رقموں پر ابھی قبضہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن قبضے میں آئے ہوئے سود کو باطل نہیں کیا۔ پھر فرمایا (وان تبتم فلکم رئو وس اموالکم (a) اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہیں تمہارا راس المال یعنی اصل زر مل جائے گا) اس میں قبضے میں نہ آئے ہوئے سودی سودوں کے ابطال کی تاکید ہے اور اپنا راس المال لے لینے کا حکم ہے جس میں نہ کوئی سود ہوتا ہے اور نہ کوئی زیادتی۔ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت جابر ؓ کے واسطحے سے حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے مکہ میں فرمایا اور حضرت جابر ؓ کے قول کے مطابق عرفات میں فرمایا (ان کل ربا کان فی الجاھلیۃ موضوع واول رباً اضعہ ربا العباس بن المطلب۔ (a) وہ تمام سود جو زمانہ جاہلیت میں تھا آج منسوخ کیا جاتا ہے اور سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کی سودی رقموں کو منسوخ کرتا ہوں) ۔ حضور ﷺ کا یہ فعل آیت کے معنی کے مطابق تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے قبضے میں نہ آئی ہوئی رقموں کو باطل کردیا تھا اور قبضے میں آئی ہوئی رقموں کو برقرار رکھا تھا۔ حضور ﷺ کا یہ خطبہ بہت سے احکامات پر مشتمل ہے۔ اول یہ کہ عقد بیع میں قبضہ سے پہلے اگر ایسی بات پیدا ہوجائے جو اس عقد کی تحریم کی موجب ہو تو یوں سمجھا جائے گا کہ یہ بات عقد بیع کے وقوع کے وقت بھی موجود تھی دوسرے الفاظ میں یہ بیع فاسد ہوجائے گی۔ اگر قبضہ کے بعد تحریم کو واجب کرنے والی بات پیدا ہوجائے تو وہ بیع کو نسخ نہیں کرے گی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ عیسائی اگر شراب کے بدلے میں کسی غلام کا سودا کریں تو ہمارے نزدیک ان کی یہ بیع درست ہوگی لیکن شراب پر قبضہ کرنے سے پہلے اگر کوئی ایک مسلمان ہوگیا تو بیع فاسد ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کسی مسلمان نے کوئی شکار خریدلیا اور پھر بائع یا مشتری نے احرام باندھ لیا تو عقد باطل ہوجائے گا کیونکہ اس پر قبضے سے پہلے ایسی حالت طاری ہوگئی جو اس کی تحریم کو واجب کرتی ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے ان سودی رقموں کو باطل کردیا جو ابھی قبضے میں نہیں گئی تھیں۔ کیونکہ ان پر وہ حالت طاری ہوگئی جو قبضے سے پہلے ان کی تحریم کو واجب کرنے والی تھی۔ اگر اوپر کی مثالوں میں شراب اپنے قبضے میں لی جاچکی ہوتی پھر دونوں یا ایک مسلمان ہوجاتا یا شکار پر قبضہ کے بعد جانبین یا ایک احرام باندھ لیتا تو دونوں سودے باطل نہ ہوتے جس طرح کہ قبضے میں لی ہوئی سودی رقموں کو اللہ تعالیٰ نے باطل قرار نہیں دیا جس وقت تحریم کی آیت نازل کی۔ ان مسائل کی نظائر میں اس اصول کے مطابق عمل جائز ہے۔ اس اصول سے یہ لازم نہیں آتا کہ اگر کسی شخص نے کوئی غلام خریدا ہوا اور اس پر قبضہ کرنے سے پہلے وہ غلام قتل ہوجائے گا اور اسی کو مبیع سمجھا جائے گا نیز مشتری کو اب اختیار ہوگا غلام کی جگہ اس کی قیمت رکھ لے یا بیع فسخ کرکے فروخت کنندہ سے اپنی رقم واپس لے لے۔ اس میں اس پر بھی دلالت ہے کہ بائع کے ہاتھ میں مبیع کی ہلاکت اور اس پر اس کے قبضے کا خاتمہ عقد کو باطل کردیتا ہے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ بیع باطل نہیں ہوتی اور مشتری کے لئے ثمن لازم ہوتا ہے جبکہ بائع مبیع کو اس کے حوالے کرتے میں مانع نہ ہوا ہو۔ آیت کی دلالت یہ ظاہر کرتی ہے کہ مبیع یعنی فروخت شدہ چیز پر قبضے سے دراصل عقد بیع کی تکمیل ہوتی ہے اور قبضہ اٹھ جانا بیع کو باطل کردیتا ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے سود پر قبضے کو ساقط کردیا تو طرفین کے لئے ہوئے عقد کو باطل کردیا اور صرف راس المال پر انحصار کا حکم دے دیا۔ یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فروخت شدہ چیز کو اپنے قبضے میں لے لینا سودے کی صحت کے شرائط میں سے ہے اور جب سودے پر کوئی ایسی حالت طاری ہوجائے جو اس سودے کو ساقط کرنے والی ہو تو وہ سودے کے بطلان کو واجب کردیتی ہے۔ اس میں اس پر بھی دلالت ہے کہ دارالحرب میں کیے جانے والے سودے اگرچہ فاسد بنیادوں پر کئے گئے ہوں دارالحرب پر امام المسلمین کے غلبے کی وجہ سے فسخ نہیں ہوں گے کیونکہ یہ بات تو معلوم ہے کہ تحریم ربوٰ کی آیت کے نزول اور مکہ میں حضور ﷺ کے خطبہ اور قبضے میں نہ لی گئی سودی رقوم کی منسوخی کے درمیان مکہ میں فتح مکہ سے قبل بہت سے سودی سودے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان سودوں کے فسخ کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی نزول آیت سے قبل اور نزول آیت کے بعد کے سودوں میں کوئی فرق کیا۔ اس سے یہ دلالت ہوئی کہ دارالحرب میں کافروں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے سودے دارالحرب پر امام المسلمین کے غلبہ کی وجہ سے فتخ نہیں ہوں گے بشرطیکہ ان سودوں میں فروخت شدہ چیزوں پر قبضے کا عمل مکمل ہوچکا ہو۔ قول باری (فمن جاء ہک موعظۃ من ربہ فانتھیٰ فلہ ما سلف) (a) بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے کہ اسلام سے پہلے جن سودی رقموں پر قبضہ ہوگیا تھا وہ قبضہ کرنے والوں کے لئے حلال کردی گئیں۔ ایک قول یہ ہے کہ (فلہ ما سلف) (a) کا مطلب نزول آیت سے قبل سود کھانے کے گناہوں کی معافی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کردے گا لیکن یہ تفسیر درست نہیں ہے اس لئے کہ قول باری ہے (وامرہ الی اللہ) (a) یعنی ثواب اور عقاب کے استحقاق کے لحاظ سے اس کا معاملہ اب اللہ کے سپرد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت میں ایسے شخص کے متعلق حکم کی ہمیں اطلاع نہیں دی۔ ایک اور جہت سے دیکھئے، اگر قائل کی بیان کردہ تفسیر ہی آیت کی مراد ہو تو اس سے ہماری بیان کردہ بات کی نفی نہیں ہوتی۔ اس طرح آیت دونوں باتوں پر محمول ہوگی اس لئے کہ اس میں ان دونوں باتوں کا احتمال موجود ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردے گا اور اسلام سے پہلے اس کی لی ہوئی سودی رقمیں اس کی ہوں گی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اہل حرب کے تمام سودے ان کے مسلمان ہوجانے کے بعد باقی رکھے جائیں گے بشرطیکہ اسلام لانے سے پہلے طرفین میں مبیع اور ثمن کو قبضے میں لینے کا عمل مکمل ہوچکا ہو۔ کیونکہ قول باری ہے (فلہ ما سلف وامرہ الی اللہ) (a)
Top