Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں الرِّبٰوا : سود لَا يَقُوْمُوْنَ : نہ کھڑے ہوں گے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَقُوْمُ : کھڑا ہوتا ہے الَّذِيْ : وہ شخص جو يَتَخَبَّطُهُ : اس کے حواس کھو دئیے ہوں الشَّيْطٰنُ : شیطان مِنَ الْمَسِّ : چھونے سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَا : در حقیقت الْبَيْعُ : تجارت مِثْلُ : مانند الرِّبٰوا : سود وَاَحَلَّ : حالانکہ حلال کیا اللّٰهُ : اللہ الْبَيْعَ : تجارت وَحَرَّمَ : اور حرام کیا الرِّبٰوا : سود فَمَنْ : پس جس جَآءَهٗ : پہنچے اس کو مَوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب فَانْتَهٰى : پھر وہ باز آگیا فَلَهٗ : تو اس کے لیے مَا سَلَفَ : جو ہوچکا وَاَمْرُهٗٓ : اور اس کا معاملہ اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر لوٹے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کے پاس خدا کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا۔ اور (قیامت میں) اس کا معاملہ خدا کے سپرد اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں (جلتے) رہیں گے
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا ( جو لوگ سود کھاتے ہیں) الرِّبوا کو الصلٰوۃ کی طرح واؤ کے ساتھ ان لوگوں کے نزدیک لکھا جاتا ہے جو اس کو پُر پڑھتے ہیں اور الربوا کی کتابت میں واؤ کے بعد الف بھی لکھا جاتا ہے کیونکہ یہ واؤ جمع کے مشابہ ہے۔ لَا يَقُوْمُوْنَ ( یعنی وہ اپنی قبروں سے نہیں اٹھیں گے۔ عبد الرزاق نے اپنی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن سلام کی روایت سے یہی مطلب لکھا ہے۔ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ( مگر اس طرح اٹھیں گے جیسے جن کے جھپٹے میں آیا ہوا شخص اٹھتا ہے۔ ) شیطان سے مراد ہے جن۔ خبط کا معنی ہے سخت ضرب جس کے ساتھ بگاڑ بھی ہو۔ قاموس میں ہے : خَبَطَ الشَّیْطَانُ فُلَانًا یا تَخَبَّطَ (الشَّیْطَانُ ) فُلَانًا فلاں شخص کو جن نے چھو کر دکھ پہنچا دیا۔ اَلْمَسُّ سے مراد ہے جنون یا چھو جانا۔ من المس کا تعلق یقوم سے ہے یا یتخبط سے مطلب اس طرح ہوگا کہ سود خور قبروں سے اس طرح ہی اٹھیں گے جیسے جن کے جھپٹے میں آیا ہوا آدمی جنون زدہ ہو کر اٹھتا ہے اور شیطان اس کی عقل خراب کردیتا ہے یا ( اگر مَسَّ کا معنی لَمْس لیا جائے تو) یہ معنی ہوگا کہ وہ اس طرح اٹھیں گے جیسے وہ شخص اٹھتا ہے جس کو شیطان کے چھو جانے سے دکھ پہنچ گیا ہو۔ یعنی جن کے چھو جانے سے اس کا دماغ خراب ہوگیا۔ جسمانی بیماری مرگی اور جنون کبھی جن کے چھو جانے سے پیدا ہوجاتا ہے اس لیے آیت میں کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جن کے چھوجانے سے مرض کا پیدا ہوجانا قرآن سے بھی ثابت ہے اور حدیث سے بھی۔ قرآن میں حضرت ایوب کے قصہ میں آیا ہے : رَبِّ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَ عَذَابٍ اور حدیث رسول اللہ میں استحاضہ کے بیان میں ہے کہ یہ شیطان کی ایک رگڑ ( ایڑ) لگنے سے ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ عرب کا خیال تھا کہ جن انسان کو خبطی بنا دیتا ہے عرب ہی کے گمان کے موافق آیت میں اظہار کیا گیا (یعنی واقع میں تو جن انسان کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ یہ صرف دور جاہلیت کا مفروضہ اور مسلمہ تھا اسی مفروضہ کے ساتھ سود خور کے قیام کو تشبیہ دی) لیکن جب لمس جن سے مرض پیدا ہوجانا کتاب اللہ اور حدیث سے ثابت ہے تو اس توجیہ کی ضرورت نہیں۔ سود خوروں کے پیٹوں کو بھی بڑھا بڑھا کر اللہ ان کو ٹھڑیوں کی طرح کردے گا جن کے اندر سانپ بھرے ہوں اس لیے وہ بوجھل ہو کر ٹھیک طرح کھڑے نہ ہو سکیں گے۔ حضرت ابو سعید خدری راوی ہیں کہ رسول اللہ نے شب معراج کے قصہ میں فرمایا : پھر جبرائیل مجھے لے کر بہت سارے آدمیوں کے پاس پہنچے ان میں سے ہر ایک کا پیٹ بڑی کوٹھڑی کی طرح تھا یہ لوگ فرعون کے ساتھیوں کی گذر گاہ میں بالکل سامنے تھے فرعونیوں کی پیشی صبح شام دوزخ پر ہوتی ہے۔ فرعونی لوگ بھڑکائے ہوئے ان اونٹوں کی طرح جو اندھا دھند پتھروں اور ( چھوٹے موٹے) درختوں کو روندتے چلے جاتے ہیں نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں سامنے سے ( دوڑے) آرہے تھے جب ان پٹیل لوگوں کو ان کی آہٹ محسوس ہوئی تو وہ کھڑے ہونے لگے ( تاکہ راستہ سے ہٹ جائیں) لیکن ان کے پیٹ ان کو لے جھکے آخر وہ بچھڑ گئے پھر ایک شخص اٹھنے لگا لیکن اس کا پیٹ اس کو لے جھکا اور وہ بچھڑ گیا غرض وہ ہٹ نہ سکے اور فرعونی ان پر آپہنچے اور آتے جاتے ان کو روندتے رہے ان پر یہ عذاب برزخ میں دنیا و آخرت کے درمیان ہو رہا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : فرعونی کہہ رہے تھے الٰہی کبھی قیامت برپا نہ کرنا کیونکہ قیامت کے روز اللہ فرمائے گا کہ فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔ میں نے پوچھا : جبرئیل یہ کون لوگ ہیں۔ جبرئیل نے کہا : یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے یہ نہیں اٹھیں گے مگر اس طرح جیسا کہ جن زدہ آدمی جن کے جھپٹے کی وجہ سے اٹھتا ہے۔ (رواہ البغوی) حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : شب معراج میں میں ایسے لوگوں پر پہنچا جن کے پیٹ سانپ بھری کوٹھڑیوں کی طرح تھے اور پیٹ کے باہر ہی سے سانپ نظر آرہے تھے میں نے پوچھا : جبرائیل یہ کون ہیں ؟ جبرائیل نے کہا : یہ سود خور ہیں۔ (رواہ احمد و ابن ماجہ) ابو یعلی نے اس آیت کی تشریح میں حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن وہ لوگ اسی علامت سے پہچان لیے جائیں گے وہ کھڑے نہ ہو سکیں گے مگر جس طرح جن زدہ لرزتا اٹھتا ہے۔ ابن ابی حاتم نے صحیح سند سے حضرت ابن عباس ؓ کا قول بیان کیا ہے کہ سود خوا قیامت کے دن پاگل دیوانہ ( ہو کر) اٹھے گا۔ طبرانی نے حضرت عوبن مالک ؓ کی روایت سے رسول اللہ کا فرمان بھی اسی طرح نقل کیا ہے کہ مگر اس روایت میں مجنون خبطی کا لفظ ہے۔ آیت کا معنی اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ سود خور سود خوری کے مقام سے دیوانہ کی طرح ہی اٹھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ سود کا لقمہ کھاتے ہی سود خور کا دل سیاہ پڑجاتا ہے۔ حق و باطل اور حلال حرام کی تمیز اس کو جاتی رہتی ہے جس طرح دیوانہ کو اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی۔ بات یہ ہے کہ لقمہ حرام اس کے بدن کا جزو بن جاتا ہے جس کی وجہ سے اسکی حقیقت ہی بدل جاتی ہے۔ دوسرے گناہ چونکہ بیرونی ہوتے ہیں اس لیے ان سے اندرونی جو ہر نہیں بدلتا عارضی احوال کا تغیر ہوجاتا ہے اس لیے رسول اللہ نے سود خور پر لعنت کی ہے اور سود خوری کو زنا سے بھی سخت قرار دیا ہے۔ مسلم (رح) نے حضرت جابر ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے اور بخاری (رح) نے حصرت ابو جحیفہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے سود کھانے والے اور سود کھلانے والے پر لعنت کی ہے۔ (ابوداؤد) اور ترمذی نے حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں اور مسلم (رح) نے حضرت جابر ؓ کی روایت میں اتنا زائد نقل کیا ہے کہ ( حضور ﷺ نے لعنت کی ہے) سود کے لکھنے والے پر اور سود کے گواہوں پر (بھی) اور فرمایا : یہ سب برابر ہیں۔ نسائی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ ٗ کی روایت سے بھی حدیث اسی طرح نقل کی ہے کہ لیکن اس روایت میں گواہان سود کی جگہ زکوٰۃ روکنے والے کا ذکر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا : آدمی جو سود کا ایک درم دانستہ کھاتا ہے۔ اس کا جرم چھتیس بار زنا سے زیادہ سخت ہے۔ (رواہ احمد والدار قطنی) ابن ابی الدنیا نے حضرت انس ؓ کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے اور حضرت ابن عباس ؓ کی روایت بھی اسی طرح منقول ہے اس روایت میں حسب نقل بیہقی اتنا زائد ہے کہ جس کا گوشت حرام کھا کر پیدا ہوا آگ اس کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : سود سترّ گناہ ( کا مجموعہ) ہے جن میں سے سب سے چھوٹا گناہ ماں سے زنا کرنا ہے۔ ( رواہ ابن ماجہ والبیہقی) ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا : یہ عذاب اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔ یعنی یہ عذاب ان کے کفر اور حرام کو حلال قرار دینے کی وجہ سے ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عذاب مذکور صرف کافروں کے ساتھ مخصوص ہے مؤمن سود خور جس کو اپنے گناہ کا اقرار ہو ایسا عذاب نہیں پائے گا یا آیت میں عذاب کے دوامی ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہلَا یقومون میں غیر معین مستقبل کی نفی ہے۔ مستقبل کا کوئی حصہ مقرر نہیں اور فعل کے اندر مصدر ہوتا ہے تو گویا غیر معین مصدر کی نفی ہوئی اور نکرہ جب نفی کے بعدآتا ہے تو نفی عمومی اور استغراقی ہوتی ہے اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ دوامی عذاب صرف کافروں کیلئے ہے اگر کوئی مؤمن سود خواری کا مرتکب ہو تو اسکو یہ عذاب ہوگا ضرور مگر ( دوامی نہ ہوگا) نبی کی شفاعت یا رب کی ( براہ راست) رحمت اور توحید و رسالت محمدیہ کے اقرار کی وجہ سے جاتا رہے گا۔ آیت میں کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے ترتیب الفاظ کو الٹ دیا ہے ہونا تو چاہئے : انما الربوا مثل البیع سود بیع کی طرح ہے لیکن انہوں نے کہا کہ بیع تو سود ہی کی طرح تھا گویا سود کو اصل قرار دیا اور بیع کو اس کے مشابہ ( مطلب یہ کہ سود تو حلال ہی ہے اور بیع بھی منفعت خیزی میں کسی قدر سود کی طرح ہوتی ہے۔ اس لیے وہ بھی درست ہے غرض اصلی صرف فائدہ اندوزی ہے۔ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ : اور اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔ فخر الاسلام ( بزدوی) نے لکھا ہے کہ لغت میں بیع مالی تبادلہ کو کہتے ہیں شریعت میں بھی اسی تبادلۂ مالی کو بیع کہا گیا ہے۔ مگر باہم رضا مندی کی شرط شرعاً زائد لگا دی گئی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ لغوی معنی میں تراضی کی شرط ماخوذ ہے بغیر رضا مندی کے اگر مالی تبادلہ ہو تو اس پر غصب کا اطلاق کیا جاتا ہے اختیار اور تراضی کے لیے اچھے برے اور نفع نقصان کی تمیز ضروری ہے اسی لیے پاگل اور ناسمجھ بچہ کی بیع اجماعاً درست نہیں ( کیونکہ ان کے اندر قوت تمیز نہیں ہوتی) البتہ سمجھدار بچہ کی بیع کے متعلق علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک اس کی بیع بھی درست نہیں کیونکہ اس کی سمجھ ناقص ہوتی ہے۔ امام اعظم (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک درست ہے مگر اس کے سر پرست کی رائے کا شامل ہونا ضروری ہے کیونکہ نقصان عقل کی وجہ سے اس کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہے جب سر پرست کی رائے بھی اس کے موافق ہوجائے گی تو ضرر کا اندیشہ جاتا رہے گا یہ شرط شریعت نے خود لگائی ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہٗ بالْعَدْلِ دوسری آیت میں ہے : وَابْتَلُوْا الْیَتَامٰی حَتّٰی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْآ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ. بیع سے مبادلۂ مالی کا ایجاب و قبول ہوتا ہے اور ایجاب و قبول حقیقت میں انشاء ہے ( بائع مشتری سے کہتا ہے یہ مال اتنے کو لے لے اور مشتری بائع سے کہتا ہے کہ یہ مال اتنے کو دیدے) لیکن شرعاً ایجاب و قبول کے لیے ماضی کے صیغے مقرر کئے گئے ہیں ایک کہتا ہے میں نے بیچ ڈالا دوسرا کہتا ہے میں نے قبول کیا خریدلیا۔ لیکن اگر ( دست بدست) لین دین ہو اور الفاظ نہ استعمال کیے جائیں (جس کو بیع بالتعاطی کہتے ہیں) تو امام اعظم اور امام مالک کے نزدیک یہ لین دین لفظی ایجاب و قبول کے قائم مقام مان لیا جائے گا ایک روایت میں امام احمد اور امام شافعی کا بھی یہی قول آیا ہے۔ کرخی (رح) کا قول ہے کہ بیع بالتعاطی کم قیمت چیز کی تو ہوجائے گی اعلیٰ چیز کی نہ ہوگی امام احمد (رح) کا ( قوی) قول یہی ہے۔ امام شافعی (رح) کا قوی قول یہ ہے کہ بیع بالتعاطی قطعاً نہیں ہوتی ہم کہتے ہیں کہ اصل مقصد ہے باہمی رضا مندی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ اور تعاطی بھی باہمی رضا پر دلالت کرتی ہے۔ عقد بیع کرنے والے کو شرعی ولایت حاصل ہونا ضروری ہے خواہ مالک ہو یا وکیل ( مختار ایجنٹ) یا وصی یا عزیز قریب وغیرہ (یعنی مشتری اور بائع خود روپیہ اور مال کے مالک ہوں یا طرفین میں سے کسی نے ان کو خریدو فروخت کے لیے مقرر کیا ہو وغیرہ) ۔ (مسئلہ) بیع فضولی کے متعلق علماء کا اختلاف ہے امام اعظم (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک اس کی فروخت درست ہے اور ( بائع بعد کو اس کی خرید فروخت کو جاری اور قائم رکھ سکتا ہے) کیونکہ بعد کو حاصل ہونے والی اجازت سابقہ وکالت کی طرح ہوجائے گی ( گویا اس کو پہلے سے فروخت کا اختیار حاصل تھا ( مگر بعد کو بائع کی اجازت ضروری ہے صاحبین کے نزدیک فضولی کی خریداری بھی بعد کو مشتری کی اجازت پر موقوف ہے بشرطیکہ فضولی نے یہ کہا ہو کہ میں فلاں شخص کے لیے خرید رہا ہوں تم فلاں شخص کے لیے اپنا یہ مال فروخت کردو لیکن اگر فضولی نے خرید کے وقت یہ نہ کہا ہو کہ میں فلاں شخص کے لیے خرید رہا ہوں تو خریداری اسی فضولی کی مانی جائے گی اور اصل مشتری اس کو نہیں لے سکتا) امام شافعی (رح) کا قوی قول یہ ہے کہ فضولی کی بیع ہی درست نہیں۔ امام احمد (رح) کے بھی دونوں قول مروی ہیں۔ امام شافعی (رح) کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ نے حکیم بن حزام سے فرمایا تھا جو چیز تیرے پاس نہ ہو اس کو فروخت نہ کر۔ ابن جوزی نے بسلسلۂ عمرو بن شعیب نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو چیز تیرے پاس نہ ہو اس کی بیع ( تیرے لیے) جائز نہیں اور نہ اس چیز کا تجارتی نفع ( تیرے لیے) جائز ہے جو تیری ذمہ داری میں نہ ہو۔ ہم کہتے ہیں اس حدیث میں بیع سے مراد وہ بیع ہے جس میں جانبین ( یعنی جن کے لیے خریدو فروخت کی گئی ہو) کی طرف سے مطالبہ ہو سکے یعنی بیع نافذ پس حدیث کی مراد ہے اس بیع کی ممانعت جس کا مال وقت بیع بائع کے پاس موجود نہ ہو بلکہ بیع پہلے کردے اور پھر کہیں سے خرید کر لا کر مشتری کو دیدے۔ حضرت حکیم بن حزام کا قصہ ہمارے اس بیان کی تائید کرتا ہے حضرت حکیم ؓ نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ بعض لوگ میرے پاس ایسا سامان خریدنے آتے ہیں جو میرے پاس ( اس وقت) نہیں ہوتا میں فروخت کردیتا ہوں پھر بازار جا کر خرید کر ‘ لا کر دیدیتا ہوں سرکار عالی ﷺ نے فرمایا : جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کو نہ فروخت کیا کرو۔ بروایت یوسف بن ماہک از حکیم۔ یہ حدیث امام احمد اور اصحاب السنن نے نقل کی ہے اور ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں بیان کی ہے۔ اس روایت میں یوسف نے صراحت کی ہے کہ مجھ سے حکیم نے یہ حدیث بیان کی۔ بعض اسنادوں میں یوسف اور حکیم کے درمیان عبد اللہ بن عصمہ کا نام آتا ہے لیکن شیخ عبد الحق نے عبد اللہ کو ضعیف اور ابن حزم نے مجہول قرار دیا ہے مگر ابن حجر نے اس جرح کی تردید کی ہے۔ اصحاب ثلٰثہ نے عبد اللہ ؓ کی روایت لی ہے اور نسائی نے اس کی روایت حجت میں پیش کی ہے اور ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح کہا ہے۔ ہم دلیل میں عروہ بارقی کی روایت کو پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے حکیم کو ایک دینار دے کر ایک بکری خریدنے بھیجا۔ حکیم نے ایک دینار کی دو بکریاں خریدیں۔ ایک بکری تو ایک دینار کو فروخت کردی اور دوسری بکری اور ایک دینار لا کر خدمت اقدس میں پیش کردی رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : اللہ تیرے ہاتھ کی خریدو فروخت میں برکت عطا فرمائے چناچہ ( اس کے بعد) اگر حکیم مٹی بھی خریدتے تھے تو اس میں بھی ان کو نفع ہوجاتا تھا۔ (رواہ ابو داؤد والترمذی وابن ماجہ والدارقطنی) لیکن اس کی اسناد میں ایک راوی سعید بن زید بھی ہے جس کو قطان اور دارقطنی نے ضعیف کہا ہے مگر ابن معین نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے مسلم نے بھی ( یہ حدیث) سعیدہی کے سلسلہ میں اپنی صحیح میں نقل کی ہے لیکن اس سلسلہ میں ایک راوی ابو لبید لمازہ بن زیادہ واقع ہے جس کو مجہول کہا گیا ہے مگر ابن سعد نے اس کی توثیق اور امام احمد نے اس کی تعریف کی ہے اور منذری و نووی نے لکھا ہے کہ اس کی اسناد حسن صحیح ہے امام شافعی اور کرخی نے اس حدیث کو دوسرے سلسلہ سے نقل کیا ہے جس کی اسناد یہ ہے کہ ابن عیینہ نے شبیب بن عرفدہ سے سنا اور شبیب نے اپنی قوم سے اور اس کی قوم نے عروہ بارقی سے۔ امام شافعی (رح) نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا : اگر یہ صحیح ہوتی تو میں اس کا قائل ہوجاتا۔ بیہقی نے لکھا ہے کہ شبیب کی قوم چونکہ معروف نہ تھی اس لیے شافعی (رح) نے اس کو ضعیف قرار دیا لا محالہ یہ حدیث مرسل ہے۔ ( اور شافعی کے نزدیک مرسل قابل حجت نہیں ہے) کذا قال الخطابی کرخی نے اس اسناد کے ساتھ یہ حدیث نقل کی ہے لیکن اس اسناد میں شبیب اور عروہ کے درمیان حسن کا نام صراحۃً آیا ہے لہٰذا حدیث کا سلسلہ متصل ہوگیا اور روایت مرسل نہیں رہی اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ مرسل ہمارے نزدیک حجت ہے اور اس کی تائید تو مسند روایت سے ہو رہی ہے جو بحوالۂ ابو لبید از عروہ ہم نے اوپر نقل کردی ہے۔ ترمذی نے حبیب بن ابی ثابت کی وساطت سے حضرت حکیم بن حزام کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے مجھے قربانی کا جانور خریدنے کے لیے ایک دینار دیا میں نے ایک بکری خرید کر دو دینار کے عوض فروخت کردی پھر ایک دینار کی ایک بکری خرید کر خدمت والا میں لا کر حاضر کردی اور ایک دینار بھی پیش کردیا اور حضور ﷺ سے واقعہ عرض کردیا آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تجھے خریدو فروخت میں برکت عطا فرمائے پھر آپ نے بکری کی قربانی کردی اور دینار خیرات کردیا۔ ترمذی نے لکھا ہے کہ یہ حدیث صرف اسی طریق اسناد سے آئی ہے اور کسی طریقہ سے معروف نہیں۔ لیکن میرے خیال میں حبیب نے ( خود) حضرت حکیم سے سماعت نہیں کی۔ ابو داؤد نے کسی مدنی بوڑھے کی وساطت سے حضرت حکیم ؓ کا مذکورہ بیان نقل کیا ہے۔ بیہقی نے لکھا ہے کہ اسی ( غیر معروف) بوڑھے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ وا اللہ اعلم۔ (مسئلہ) بیع کی حقیقت مبادلۂ مالی ہے اور مال دو طرح کا ہوتا ہے : (1) وہ مال جو بعینہٖ مقصود ہوتا ہے یعنی اس کی شخصیت اور ذات مطلوب ہوتی ہے اس کو عین کہتے ہیں۔ (جو نقدی نہیں ہوتا ‘ حافظؔ ) (2) وہ مال جو بعینہٖ مقصود نہیں ہوتا ( وہ ہو یا اس کی مثل دوسرا ہو) ایسا مال کسی دوسری چیز کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے اور فطری طور پر وہ دوسری ( ضرورت زندگی کی چیزیں حاصل کرنے کے کام میں آتا ہے ( یہ ثمن یعنی قیمت کہلاتا ہے) ثمن بننے کے لیے فطرۃً سونا چاندی معین ہے اس تقسیم کی روشنی میں بیع کی چار قسمیں ہوگئیں۔ (1) کسی عین کی فروخت سونے چاندی کے عوض۔ اسی کو عموماً بیع کہتے ہیں۔ لفظ بیع سے اس مفہوم کی طرف انتقال ذہنی ہوتا ہے۔ ایسی بیع میں عین مبیع ( فروخت شدہ چیز) ہوتا ہے اور سونا چاندی اس کی قیمت اس بیع کے لیے ضروری ہے کہ بیع کے وقت مبیع موجود اور معین ہو کیونکہ اس وقت مبیع کی ذات صورت اور مالیت ہی مقصود ہوتی ہے حضرت حکیم والی حدیث سے مبیع کا بوقت بیع موجود ہونا ضروری قرار پاتا ہے حضرت ابن عمر کی بھی روایت ہے کہ رسول اللہ نے بیع الکأی بالکأی کی ممانعت فرمائی ہے۔ ( کائی نسیۂ کو کہتے ہیں یعنی وہ چیز جس کی بعینہٖ سپردگی ضروری نہ ہو بلکہ وہ یا اس جیسی دوسری چیزیں دینا اس شخص کے ذمہ میں واجب ہو جیسے کسی چیز کی قیمت دس روپیہ ہو تو کوئی معین اور خاص دس روپیہ کا نوٹ دینا ضروری نہیں کوئی ایک نوٹ ہو یا ایک ایک روپیہ کے دس نوٹ ہوں یا پانچ پانچ کے دو ہوں بہر حال دس روپیہ کی ثمنیت ہو اس کا ادا کرنا خریدار کے ذمہ لازم ہوتا ہے مگر مبیع اگر موجود نہ ہوگا تو اس کی ذات معین نہ ہوگی بیچنے والے کے پاس موجود ہی نہیں ہے تو تعیین کا معنی ہی کیا ہوسکتا ہے لہٰذا وہ بھی کائی ہوجائے گی اور اس طرح یہ بیع الکأی بالکأی جو بحکم حدیث ناجائز ہے) ۔ حضرت ابن عمر ؓ والی حدیث دار قطنی نے نقل کی ہے۔ ثمن کا مشتری کے پاس موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔ نہ سامنے حاضر اور معین ہونا بلکہ مشتری کے ذمہ پر اسکی ادائیگی ضروری ہے کیونکہ بعینہٖ اسکی شخصیت اور ذات مقصود نہیں۔ قیاس کا تو تقاضا تھا کہ اگر مشتری کے پاس ثمن نہ ہو تو بیع جائز نہ ہو کیونکہ جو چیز موجود نہیں وہ (مشتری کا) مال ہی نہیں ہے ( اور تبادلہ کیلئے دونوں طرف مال ہونا چاہئے) ۔ لیکن اہل معاملہ کی دشواری کو دور کرنے کے لیے ثمن میں شارع (علیہ السلام) نے موجود ہونے کی شرط نہیں لگائی بلکہ مشتری کے ادائیگی کا وجوب کافی قرار دیا لیکن اگر قیمت فوری ادا نہ کی جائے تو چار چیزوں کو بیان کرنا لازم ہے۔ مدت اداء کی تعیین۔ جنس ثمن۔ مقدار ثمن۔ صفات ثمن تاکہ آئندہ جھگڑا پیدا نہ ہو۔ آئندہ نزاع کا اندیشہ جو از بیع کو روک دیتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے کسی یہودی سے کچھ غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی فولادی زرہ رہن رکھ دی اور قیمت ادا کرنے کی مدت مقرر کردی۔ (متفق علیہ) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہی کی دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس 30 صاع جو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔ (رواہ البخاری) اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی نے بھی حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے لکھا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ یہ فیصلہ باتفاق علماء ہے کہ مبیع کی تعیین ضروری ہے اور ثمن کی تعیین ( سامنے موجود ہونا یا قبضہ مشتری میں ہونا) ضروری نہیں البتہ (امور اربعہ مذکورہ کا) معلوم ہونا لازم ہے۔ (2) دوسری بیع عین بعین ( یعنی ایک جنس کا دوسری جنس سے تبادلہ) ہے۔ (اس کو ” مقائضد “ بھی کہتے ہیں ‘ 12) اس بیع میں دونوں جانب مبیع ہوتا ہے ( نقد یعنی ثمن نہیں ہوتی) اس لیے جو مبیع میں شرط ہے وہی دونوں طرف یہاں شرط ہوتی ہے بشرطیکہ دونوں جانب ایسی چیزیں ہوں جو قیمت والی ہوں مثلی نہ ہوں لیکن اگر ایک جانب قیمت والی چیز ہو اور دوسری طرف مثلی ہو تو مثلی چیز مبیع اور قیمت والی چیز ثمن قرار پائے گی کیونکہ ثمن کا موجود ہونا تو ضروری نہیں ہے۔ بلکہ مشتری کے ذمہ اس کا وجوب ہوتا ہے اور ذمہ میں کسی چیز کا وجوب اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس چیز کی مقدار اور صفت معلوم ہو لہٰذا قیمت والی چیز کا ثمن ہونا یقینی ہے اور مثلی چیز کا مبیع ہونا متعین ہے۔ لیکن دونوں طرف اگر قیمت والی چیز ہو تو علماء حنفیہ کے نزدیک ایک وجود اور تعیین یعنی مبیع قرار پانا اور دوسری کا وجوب فی الذمہ یعنی ثمن قرار دیا جانا ضروری ہے میرے نزدیک دونوں کا موجود اور معین ہونا لازم ہے کیونکہ ایک کا ثمن اور دوسری کا مبیع ہونا یا برعکس ہونا بلادلیل ہے ہر ایک ثمن یا مبیع بن سکتی ہے۔ رسول اللہ نے بھی فرمایا ہے جب دونوں جنسیں مختلف ہوں تو جس طرح چاہو ( کمی بیشی کے ساتھ) فروخت کرو مگر دست بدست ہونا چاہئے دوسری روایت میں دست بدست کی جگہ عین بمقابلہ عین آیا ہے۔ ( یعنی دونوں موجود اور معین ہوں) دست بدست کا بھی یہی معنی ہوگا۔ اس بیع کو مقایضہ کہتے ہیں۔ (3) تیسری قسم بیع صرف ہے اس میں دونوں طرف قیمت ( یعنی سونا چاندی) ہوتی ہے کسی جانب مبیع ( سونے چاندی یعنی نقود کے علاوہ کوئی چیز) نہیں ہوتی نہ تعیین کے ساتھ کسی ایک کو مبیع اور دوسرے کو ثمن قرار دیا جاسکتا ہے ( کیونکہ حقیقت میں دونوں طرف ثمن ہے اور فرضی طور پر ہر ایک کو مبیع کہا جاسکتا ہے دونوں کو مبیع کہہ سکتے ہیں لہٰذا دونوں کا موجود اور معین ہونا ضروری ہے ( کیونکہ مبیع کا موجود اور معین ہونا لازم ہے) بلکہ دونوں پر مجلس عقد کے اندر ہی قبضہ واجب ہے ( مجلس بیع کے اندر مبیع پر قبضہ کرنا لازم ہے) تاکہ قبضہ کی وجہ سے ثمن کی تعیین ہوجائے ( اور اس کو مبیع قرار دیا جاسکے) ۔ (4) چوتھی قسم بیع سَلَم ہے یہ بیع مطلق کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ ( بیع مطلق میں مبیع موجود ہوتی ہے اور قیمت مشتری کے ذمہ واجب ہوتی ہے قیمت کا موجود اور معین ہونا ضروری نہیں ہوتا) بیع سلم میں مبیع ( یعنی خریدی ہوئی چیز) بالفعل موجود نہیں مگر قیمت موجود ہوتی ہے ( اور مشتری پر قیمت فی الفور ادا کرنا اور بائع کا اس پر قبضہ کرلینا ضروری ہوتا ہے) گویا قیمت مبیع کا حکم رکھتی ہے مبیع کی جانب کچھ مخصوص شرطیں ہونی لازم ہیں جن کا تذکرہ ہم آیت : اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ الآی اَجَلٍ مُّسَمّٰی۔۔ کی تفسیر میں کریں گے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ بیع میں مال کا مال سے تبادلہ ہوتا ہے تو یہ امر واضح ہوگیا کہ مردار یا خون یا شراب یا خنزیر کی بیع درست نہیں (کیونکہ شریعت کی نظر میں یہ چیزیں مال ہی نہیں ہیں) بلکہ ہر وہ چیز جو واقع میں مال نہ ہو یا لوگ اس کو مال جانتے ہوں مگر شریعت نے اس کی مالیت کو لغو قرار دیا ہو اس کی بیع باطل ہے کیونکہ بیع کی حقیقت ہی موجود نہیں اگر ان اشیاء کو قیمت قرار دیا جائے اور کپڑا جوتا اور اسی طرح کی دوسری (حلال چیزوں کو مبیع بنایا جائے تب بھی بیع باطل ہے۔ مگر امام اعظم (رح) کا قول ہے کہ شراب اور خنزیر کو اگر ثمن قرار دیا ہو اور کپڑے وغیرہ کو مبیع تو بیع لغو باطل نہ ہوگی ہاں فاسد الحکم ضرور ہوجائے گی جس کو (فسخ کرنا ضروری ہے لیکن) اگر مشتری کپڑے وغیرہ پر قبضہ کرلے تو کپڑے کا مالک ہوجائے گا مگر اس وقت کپڑے کی طے شدہ قیمت یعنی شراب ‘ خنزیر وغیرہ بائع کو نہیں دی جائے گی بلکہ کپڑے کی جو قیمت بازاری ہوگی وہ ادا کی جائے گی لیکن بیع فاسد بھی (اگرچہ مبیع پر قبضہ کے بعد مفید ملک ہوجاتی ہے مگر) گناہ ہے اس لیے بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو فسخ کردینے کا حق ہوگا۔ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا : اور اللہ نے سود کو حرام کردیا۔ ربوا کا لغوی معنی ہے بیشی ‘ اللہ نے فرمایا ہے : وَ یُرْبِی الصَّدَقَات اور اللہ صدقات (خیرات) کو بڑھاتا ہے آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرض میں دی ہوئی رقم سے زیادہ لینے کو اور خریدو فروخت میں کسی ایک عوض کو دوسرے عوض کے مقابل زیادہ لینے دینے کو حرام کردیا ہے۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ آیت کا حکم مجمل ہے کیونکہ تجارتی نفع تو شرعاً حرام نہیں ہے ایک آیت میں صاف صراحت ہے کہ : لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ اپنے رب کا فضل (تجارتی نفع) طلب کرنے میں تم پر گناہ نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ تجارتی نفع کی کوئی مخصوص شکل حرام ہے۔ (جس کو آیت میں بیان نہیں کیا گیا) اور اس کا علم شارع کی طرف سے ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا آیت مذکورہ مجمل قرار پائی (اور دوسری جگہ شارع کے بیان سے اس کی توضیح ہوئی ہے۔ ) حضرت عبادہ ؓ بن صامت کی روایت کردہ مندرجہ ذیل حدیث میں جن چھ چیزوں کے تبادلہ میں کمی بیشی کو ممنوع قرار دیا ہے وہ اجمال آیت کا بیان ہوجائے گا۔ حضرت عبادہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : سونا سونے کے عوض، چاندی چاندی کے عوض، گیہوں گیہوں کے عوض، جوَ جوَکے، چھوارے چھواروں کے عوض اور نمک نمک کے عوض برابر برابر دست بدست فروخت کرو اور جب یہ اقسام مختلف ہوں تو جیسا (کمی بیشی کے ساتھ) چاہو فروخت کرو (مگر) دست بدست۔ (رواہ مسلم) دوسری روایت میں ہے مت فروخت کرو۔ سونے کو سونے کے عوض نہ چاندی کو چاندی کے عوض نہ گیہوں کو گیہوں کے عوض۔ نہ جو کو جو کے عوض۔ نہ چھواروں کو چھواروں کے عوض۔ نہ نمک کو نمک کے عوض۔ مگر برابر برابر۔ نقد بہ نقد دست بدست۔ ہاں سونا چاندی کے عوض۔ چاندی سونے کے عوض۔ گیہوں جو کے عوض، جو گیہوں کے عوض۔ چھوارے نمک کے عوض اور نمک چھواروں کے عوض (یعنی اختلاف جنس کے ساتھ) فروخت کرو۔ دست بدست جس طرح چاہو نمک کم ہو یا چھوارے یا دونوں میں سے کوئی زیادہ (اتحاد جنس کی صورت میں جو زیادہ دے گا یا زیادہ لے گا وہ سود لے گا دے گا۔ (رواہ الشافعی) مسلم نے حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت بھی حضرت عبادہ ؓ کی روایت کردہ حدیث کی طرح نقل کی ہے لیکن اس روایت کے آخر میں اتنا زائد ہے کہ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود دیا لیا اس میں لینے والا اور دینے والا (دونوں) برابر ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری سے دوسرے سلسلۂ اسناد کے ساتھ مروی ہے کہ سونے کو سونے کے عوض نہ بیچو مگر برابر برابر ایک کو دوسرے سے نہ بڑھاؤ اور چاندی کو چاندی کے عوض نہ بیچو۔ مگر برابر برابر ایک کو دوسرے سے نہ بڑھاؤ اور غائب کو نقد (حاضر) کے عوض نہ فروخت کرو۔ (رواہ البخاری و مسلم) ایک اور روایت میں آیا ہے کہ نہ فروخت کرو سونے کو سونے کے عوض اور نہ چاندی کو چاندی کے عوض مگر برابر وزن کے ساتھ چھ چیزوں میں حرمت ربوا کی احادیث حضرت عمر ؓ کی روایت سے صحاح ستہ میں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سے (حاکم کی) مستدرک میں اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے مسلم میں حضرت انس ؓ کی روایت سے دار قطنی میں اور حضرت ابوبکر ؓ کی روایت سے صحیحین میں اور حضرت بلال ؓ کی روایت سے بزار میں اور حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے بیہقی میں مذکور ہیں۔ حدیث مذکور میں تعداد اشیاء کے پیش نظر اصحاب ظواہر (داؤد ظاہری اور ان کے متبعین) اور ابن عقیل حنبلی کا قول ہے کہ حرمت سود صرف انہی چھ چیزوں میں ہے۔ قتادہ اور طاؤس کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔ جمہور کے نزدیک مذکورہ اشیاء میں تو حرمت منصوص ہی ہے لیکن حکم کی بناء سبب پر ہے لہٰذا جہاں سبب حرمت موجود ہوگا حکم حرمت بھی ہوگا چناچہ ایک گروہ کے نزدیک محض مالیت علت ربوا۔ اس قول پر تمام اموال میں ربوا حرام ہوگا۔ اکثر علماء کا مسلک ہے کہ ہر جگہ علت ایک نہیں ہو بلکہ سونے چاندی میں علت جدا ہے اور باقی چار چیزوں میں جدا ہے چناچہ امام شافعی اور امام مالک (رح) چاندی سونے میں ثمنیت کو علت قرار دیتے ہیں پس سونے چاندی کے علاوہ جو چیزیں بطور ثمن استعمال کی جاتی ہوں ان میں بھی کمی بیشٰ کے ساتھ تبادلہ حرام ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک وزن علت ہے پس جو چیزیں وزن سے فروخت ہوتی ہوں جیسے لوہا، رانگ، زعفران وغیرہ ان سب میں ربوا حرام ہے۔ باقی چاروں چیزوں میں جنسی اتحاد کے ساتھ دونوں کا پیمانہ اور ناپ سے فروخت ہونا حرمت ربوا کی علت ہے خواہ وہ کھائی جاتی ہوں یا نہ کھائی جاتی ہوں یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے اور امام احمد (رح) کا قول بھی ایک روایت میں یہی آیا ہے دوسری روایت کے اعتبار سے امام احمد کے نزدیک جنسی اتحاد کے ساتھ دونوں کا مطعوم ہونا علت ربوا ہے امام مالک کے نزدیک جنسیت اور غذائیت علت ہے امام شافعی کے اوّلین قول کے مطابق کسی چیز کا مطعوم ہونا اور مکیلی یا موزونی ہونا علت حرمت ہے لہٰذا جو مطعوم (کھائی جانے والی) چیز پیمانے یا وزن سے بکتی ہو اس میں حکم ربوا ثابت ہے لیکن اگر مکیلی یا موزونی نہ ہو جیسے انڈے تو اس میں ربوا حرام نہیں۔ شافعی (رح) کا آخری قول یہ ہے کہ جنسی اتحاد کے ساتھ دونوں چیزوں کا مطعوم ہونا علت ربوا ہے لہٰذا تمام کھائی جانے والی چیزوں میں پھل ہوں یا سبزیاں ترکاریاں، دوائیں (مٹھائیاں وغیرہ) جنسی اتحاد کی صورت میں ربوا حرام ہے گویا شافعی (رح) کے نزدیک اثمان میں ثمنی ہونا اور باقی چیزوں میں خوردنی ہونا علت ہے اور امام مالک کے نزدیک خوردنی اشیاء میں قابل غذائیت ہونا علت ہے۔ دونوں قولوں کی دلیل یہ ہے کہ شارع نے ان چیزوں میں برابر برابر ہونے اور دست بدست قبضہ کرلینے کی شرط لگائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شارع کی نظر میں یہ چیزیں عظمت اور وقعت رکھتی ہیں جیسے نکاح کے لیے شہادت کی شرط بتارہی ہے کہ عورت سے تمتع اندوزی ایک باوقعت چیز ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس حکم کی علت بھی ایسی مستنبط کی جائے جو با وقعت اور عظمت والی ہو اور ظاہر ہے کہ اشیاء کا خوردنی بلکہ غذائی ہونا بہت ہی وقعت رکھتا ہے کیونکہ اسی سے بقاء حیات وابستہ ہے اور ثمنیت میں بھی غیر معمولی اہمیت ہے کیونکہ ثمنیت سے ہی تمام چیزوں کا حصول ہوتا ہے لہٰذا یہی دونوں چیزیں علت ربوا ہیں۔ اتحاد جنسی اور وزن یا پیمانہ سے فروخت ہونے کو اس میں کوئی دخل نہیں اس لیے ان اوصاف کو ہم نے اصل علت نہیں قرار دیا بلکہ شرط خارجی قرار دیا اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حکم کا تحقق شرط پر موقوف ہوتا ہے شرط مفقود ہو تو حکم بھی مرتفع ہوجاتا ہے جیسے زناء کی سزا سنگسار کرنا ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ زنا کرنے والا کت خدا ہو (اگر کت خدا نہ ہوگا تو اس کو سنگسار نہ کیا جائے گا) اس کے علاوہ حضرت معمربن عبد اللہ ؓ کی روایت کردہ مرفوع حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ خوردنی ہونا علت ہے حضور ﷺ نے فرمایا : طعام طعام کے عوض برابر برابر فروخت کرو۔ (رواہ مسلم) دیکھو (طعام مشتق ہے طعم سے اور) مشتق پر حکم کا نفاذ دلالت کرتا ہے اس بات پر کہ ماخذ اشتقاق (یعنی مصدر) علت حکم ہے لہٰذا طعام سے طعام کے تبادلہ کی حرمت کی علت دونوں کا مطعوم ہونا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ علت کا مناسب حکم ہونا ضروری ہے۔ ماخذ اشتقاق بھی مشتق پر حکم مرتب ہونے کی علت اسی وقت ہوگا جب مناسبت رکھتا ہو لیکن یہاں آپ کی بیان کردہ علت غیر مناسب ہے کیونکہ جس چیز سے بقائے حیات وابستہ ہے اور جس کی حاجت بیش از بیش ہے اس میں تو عمومی اجازت ہونی چاہے ( شرائط اور قیود سے) تنگی نہ ہونی چاہئے جیسے پانی، گھاس ( وغیرہ) کی حلت عمومی اور مطلق ہے اس کے علاوہ یہ کہ طعام مشتق ہی نہیں ہے (ہر وہ چیز جس میں طعم ہو طعام نہیں ہوتی) بلکہ گندم اور جو جیسی چند اجناس کو طعام کہتے ہیں۔ مخاطب لفظ طعام سے انہی چیزوں کو سمجھتا ہے۔ عرب باوجودیکہ چھواروں اور کھجوروں کے زیادہ ضرورتمند تھے اور زیادہ تر ان کی خوراک انہی سے ہوتی تھی لیکن لفظ طعام سے وہ چھوارے نہیں سمجھتے تھے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اتحاد جنسی اور مکیلی یا موزونی ہونا علت حرمت ہے اس قول کی دلیل یہ ہے کہ حرمت سود کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کا مال تلف ہونے سے محفوظ رہے اس حفاظت کے لیے ہی ناپ تول کی وضع ہوئی ہے اور ناپ تول میں عدل رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے فرمایا : وَزِنُوْا بالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ دوسری جگہ فرمایا : وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ وَاِ ذَا کَالُوْھُمْ اَوَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ رسول اللہ نے بیشی کو حرام قرار دیا اور برابر برابر لین دین کو واجب کیا اور مساوات کی شناخت صرف پیمانہ کی ناپ یا تول سے ہوتی ہے اس لیے مناسب یہ ہے کہ کیل اور وزن کو ہی علت قرار دیا جائے خود رسول اللہ نے بھی اسی کا اعتبار کیا ہے اور فرمایا ہے جو موزوں ہو اس کو برابر برابر بدلو جب کہ وہ ایک نوع کی ہو اور جو مکیل ہو اس کا بھی اسی طرح تبادلہ کرو اور جب نو عیں الگ الگ ہوں توکمی بیشی میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عبادہ اور حضرت انس ؓ کی روایت سے یہ حدیث دارقطنی نے بیان کی ہے حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے سواد بن عریہ کو خیبر کا امیر بنا کر بھیجا سواد نے وہاں کے عمدہ چھوارے خدمت مبارک میں پیش کیے رسول اللہ نے فرمایا : کیا خیبر کے سب چھوارے ایسے ہی ہوتے ہیں سواد نے عرض کیا : جی نہیں حضور ﷺ ہم گڈے کے (مخلوط کے) دو صاع دے کر ایک صاع اور تین صاع دے کر دو صاع خرید لیتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا : ایسا نہ کیا کرو بلکہ اس کو قیمت سے بیچ دیا کرو پھر اس قیمت سے یہ خرید لیا کرو یہی حکم ترازو کا یعنی ان چیزوں کا ہے جو تولی جاتی ہیں۔ (رواہ دار قطنی) میری رائے میں آیت ربوا مجمل نہیں ہے کیونکہ مجمل وہی ہوتا ہے جس کے معنی دماغی کاوش اور غور کے بعد بھی حاصل نہ ہو سکیں بلکہ صرف شارع کے بیان سے ہی معلوم ہوں لیکن آیت ربوا ایسی نہیں ہے ہاں اس میں ایک طرح کا اشکال ضرور ہے جو غور کرنے سے حل ہوجاتا ہے توضیح مقصد یہ ہے کہ ربوا کا لغوی معنی ہے زیادتی جس کے مقابلہ میں کمی اور نقصان کا لفظ آتا ہے یعنی مساوات اور برابری سے بیشی ہوجانا اور بڑھ جانا مثلیت کا یہی مفہوم دوسری آیت میں بھی مراد ہے اللہ نے فرمایا : فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ یعنی جتنی زیادتی اس نے تم پر کی ہو اتنی ہی تم اس پر کرو گویا عدوان کا بدلہ برابر و مساوی واجب ہے بیع اور قرض میں بھی یہی مساوات اور برابری واجب ہے اب جو چیز مکیلی یا موزونی ہیں یعنی پیمانوں سے ناپ کر یا وزن کرکے لی دی جاتی ہیں ان میں تعدی کا ضمان تعدی کے برابر ہوگا اور یہ برابری ظاہری بھی ہوگی اور معنوی بھی یعنی ویسی ہی جنس اتنی ہی مقدار میں دینی ہوگی لیکن جو چیزیں مثلی نہیں ہیں بلکہ قیمت سے ان کا لین دین ہوتا ہے ان میں ظاہری مثلیت تو ممکن ہی نہیں صرف معنوی برابر ملحوظ ہوگی اور ایسی چیزوں میں عدوان کے عوض ان کی قیمت دی جائے گی قیمت سے مراد ہے وہ قیمت جو بازار کے بصیرت رکھنے والے لوگ اس چیز کی قرار دیتے ہوں اور چونکہ زمانہ کے اختلاف اور خواہشمندوں کی کمی بیشی سے قیمت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اس لیے قیمت والی چیزوں میں نقصان کرنے کا بدلہ بھی کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ یہ تو ضرر مالی کے تاوان کی صورت تھی رہے اشیاء کے تبادلے تو مثلی چیزوں کے باہمی تبادلہ میں اتحاد جنسی کی صورت میں مقداری برابری ہونا لازم ہے اور اختلاف جنسی کی صورت میں صرف معنوی برابری ہونا کافی ہے خواہ دونوں چیزیں مثلیات میں سے ہوں یا نہ ہوں یا ایک مثلی ہو اور دوسری غیر مثلی کیونکہ اختلاف جنسی ہونے کی وجہ سے ظاہری برابری ممکن ہی نہیں ہے۔ ضرر مالی کے تاوان اور تبادلۂ اشیاء (بیع وغیرہ) دونوں کا حکم اس صورت میں ایک ہی ہے دونوں میں معنوی مساوات کافی ہے فرق یہ ہے کہ ضرر کے تاوان کی مثلیت کا فیصلہ اہل بصیرت اوراقدار مالی کے ماہروں کے سپرد کیا جائے گا کیونکہ مالک نے اپنے مال کی کوئی قیمت پہلے سے مقرر نہیں کی اور تبادلہ اشیاء کی صورت میں فریقین اپنے اپنے مال کی قیمت کی تعیین پہلے ہی کر چکتے ہیں اور ایک چیز کو دوسری کے مثل قرار دے چکتے ہیں لہٰذا انکا باہمی فیصلہ مثلی اقدار معلوم کرنے کے لیے کافی ہوگا اسی لیے رسول اللہ نے فرمایا کہ جب جنس مختلف ہو تو جس طرح (کمی بیشی کے ساتھ) چاہو فروخت کرو اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ مکیلی اور موزونی چیزیں اگر متحد الجنس ہوں تو ان کی باہمی خریدو فروخت مساوات مقداری کے ساتھ ہونی چاہئے کمی بیشی ناجائز ہے ربوا حرام ہے نیز ایک طرف سے فوری قبضہ اور دوسری طرف سے ادھا ربھی درست نہیں طرفین کا دست بدست قبضہ ہونا چاہئے کیونکہ فوری قبضہ اور عدم قبضہ سے اشیاء کی اقدار مالیت میں فرق آجا تا ہے نقد کی مالی قدر ادھار سے زائد ہوتی ہے اس لیے اگر ایک طرف سے فوری قبضہ اور دوسری طرف سے ایک مدت کے بعد قبضہ کا وعدہ ہوگا تو سود کی شکل پیدا ہوجائے گی اور مساوات باقی نہیں رہے گی یہ بھی درست نہیں کہ فوری ادا نہ کرنے والا تاخیر ادا کے عوض مقدار مال میں کچھ بیشی کردے اور اس طرح فوری لینا اور تاخیر سے اس کا معاوضہ دینا باہم برابر ہوجائیں کیونکہ تاخیر ادا کے عوض مقدار مالی کی بیشی کوئی معنی نہیں رکھتی تاخیر ادا ایک وصف (یعنی عرض) ہے اور مالی بیشی نفس شئ کی بیشی ہوتی ہے تاخیر ادا کا مقابلہ نفس شیئ کی بیشی سے کس طرح کیا جاسکتا ہے دس درہم نقد لے کر گیارہ درہم ادا کرنے کا وعدہ کرنا اور ایک زائد درہم کو مدت ادا کی تاخیر کا عوض قرار دینا دس کو گیارہ کے مساوی نہیں بنا سکتا۔ شریعت نے اس کی ممانعت کی ہے۔ اسی طرح کھری چیز کے عوض بری چیز زیادہ دینا اور اوّل الذکر چیز کے کھرے پن کا عوض بری چیز کی بیشی کو قرار دینا بھی درست نہیں۔ مقدار زائد زائد ہی رہے گی۔ کم مقدار والی کھری چیز کا وزن، کھرے پن سے نہیں بڑھ جاتا اور نہ بری چیز اپنی بیشی کی وجہ سے کھری بن سکتی ہے۔ حضرت سواد بن عریہ ؓ کے واقعہ میں بروایت حضرت ابو سعید و حضرت ابوہریرہ ؓ جو حدیث ہم نقل کرچکے ہیں اس میں اس کی ممانعت کردی گئی ہے۔ لیکن اگر ناپ تول میں دونوں چیزیں برابر ہوں لیکن ایک کھری اور دوسری خراب ہو تو کیا ایک کا کھرا پن سود پیدا کردیتا ہے جمہور کا قول یہ ہے کہ کھرے پن کا کوئی اعتبار نہیں مقدار کی مساوات میں کسی ایک چیز کے کھرے پن سے کوئی فرق نہیں آتا اس لیے وصف جودت موجب ربوا نہیں۔ صاحب ہدایہ نے اس قول کی دلیل میں رسول اللہ کا فرمان نقل کیا ہے کہ کھری اور بری (اجناس) برابر ہیں۔ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو یقیناً کافی دلیل ہے لیکن اگر حدیث کی صحت ثابت نہ بھی ہو تب بھی ہم کہیں گے کہ اوصاف کا صحیح اندازہ اوراقدار وصفی کی حدود کی تعیین ممکن نہیں اس لیے وصف جودت و ردائت ناقابل اعتبار ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ (اگر وصف کے تفاوت کو موجب ربوا قرار دیا جائے گا تو) بیع و شراء کا دروازہ ہی بندہو جائے گا میں کہتا ہوں کہ دروازہ تو بند نہیں ہوگا کیونکہ ردی چیز کو فروخت کرکے اس کی قیمت سے کھری چیز خریدی جاسکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ نے (سواد بن عریہ کو) حکم دیا تھا البتہ قرض کا دروازہ بندہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَ لَسْتُمْ بآخِذِیْہِ اِلَّا اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ یعنی اگر تم میں سے کسی کا کوئی حق قرض وغیرہ ہو تو وہ کھری چیز کے عوض ردی چیز نہیں لیتا مگر چشم پوشی اور اغماض کرے تو خیر۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرض میں جنس کے کھرے برے ہونے کا لحاظ ضروری نہیں (کھرے کے عوض برا بھی اغماض کی صورت میں لیا جاسکتا ہے) لیکن اگر حق دار اپنے کھرے قرض کے عوض ردی چیز لینے سے انکار کردے تو اس کو اس کا حق ہے۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top