Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 276
یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ
يَمْحَقُ : مٹاتا ہے اللّٰهُ : اللہ الرِّبٰوا : سود وَيُرْبِي : اور بڑھاتا ہے الصَّدَقٰتِ : خیرات وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : ہر ایک كَفَّارٍ : ناشکرا اَثِيْمٍ : گنہگار
اللہ سود کو گھٹائے گا اور صدقات کو بڑھائے گا اور اللہ ناشکروں اور حق تلفوں کو پسند نہیں کرتا۔
محق کے معنی گھٹانے اور مٹانے کے ہیں۔ اسی سے محق اللہ الشیء نکلا جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے اس چیز کی برکت مٹادی۔ ارباء کے معنی بڑھانے اور زیادہ کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ سود خور تو یہ سمجھتا ہے کہ سود سے سرمایہ بڑھتا اور خیرات سے گھٹتا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ یہ گھٹانا اور بڑھانا دنیوی زندگی کے محدود تصور کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ دنیا اور آخرت دونوں کی مجموعی زندگی کے لحاظ سے ہے۔ جب اخروی زندگی کی صبح ہوگی تو سود خور دیکھے گا کہ دنیا کے بنک میں تو اس کے لاکھوں روپے جمع تھے لیکن خدا کے بنک میں اس کی ایک کوڑی بھی نہیں ہے، صرف حسرت و ندامت ہی اس کا سرمایہ ہے۔ برعکس اس کے خدا کی راہ میں انفاق کرنے والا جب اس زندگی میں آنکھ کھولے گا تو دیکھے گا کہ اس کے خزف ریزوں کے عوض یہاں ابدی قدر و قیمت رکھنے والے جواہرات کے پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ اس امر کی وضاحت بھی ہے کہ اس گھٹنے اور بڑھنے کا تعلق آخرت ہی کی زندگی سے ہے۔ مثلاً“ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ : اور جو مال تم سود کے لیے دیتے ہو کہ وہ لوگوں کے مال میں پل کر برھے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور یہ جو تم زکوۃ دیتے ہو، اس کی رضا طلبی میں، تو یہی لوگ خدا کے ہاں بڑھانے والے ہیں ”(روم :39)۔ احادیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ ایک حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔“ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صدقہ کو قبول کرتا ہے اور اس کو اپنے داہنے ہاتھ سے لیتا ہے، پھر وہ اس کو تمہارے لیے اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ تمہارا دیا ہوا ایک لقمہ خدا کے ہاں احد پہاڑ کی مانند بن جائے گا ”۔ اگرچہ سود کے سرمایہ میں کوئی خیر و برکت اس دنیا کی زندگی میں بھی نہیں ہوتی لیکن آیت کا تعلق آخرت ہی کے نتائج وثمرات سے ہے۔ سود کی بےبرکتی کا باعث : كَفَّار کے معنی یہاں ناشکرے کے ہیں اور اَثِيْم کے معنی، جیسا کہ ہم دوسری جگہ وضاحت کرچکے ہیں، دوسروں کے حقوق تلف کرنے والے کے ہیں۔ یہ ٹکڑا اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ سود خور کے سرمایہ کو مٹائے گا۔ فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ناشکرا اور اللہ کے بندوں کے حقوق تلف کرنے والا ہے اور اللہ ان لوگوں کو کبھی دوست نہیں رکھ سکتا جو اس کی ناشکری کرنے والے اور اس کی مخلوق کے حوق تباہ کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی ضرورت سے زیادہ مال دیتا ہے تو اس لیے دیتا ہے کہ وہ خدا کا شکر گزار بندہ اور جس طرح اللہ نے اس کے اوپر احسان فرمایا ہے اسی طرح وہ دوسروں پر احسان کرے لیکن جب وہ مال کو پا کر اس مال ہی کی بندگی میں لگ جاتا ہے اور دوسروں کے لیے سہارا بنانے کے بجائے اس کو ان کا خون چوسنے اور ان کے حقوق تلف کرنے کا ذریعہ بنا لیتا ہے تو ایسا قسی القلب اور نا شکرا اسی بات کا سزا وار ہے کہ اللہ کے ہاں اس کی دلوت صرف موجبِ وبال و خسران ہو، اور محرومی کے سوا اس کے پلے کچھ نہ پڑے۔
Top