Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَاْكُلُوْنَ
: کھاتے ہیں
الرِّبٰوا
: سود
لَا يَقُوْمُوْنَ
: نہ کھڑے ہوں گے
اِلَّا
: مگر
كَمَا
: جیسے
يَقُوْمُ
: کھڑا ہوتا ہے
الَّذِيْ
: وہ شخص جو
يَتَخَبَّطُهُ
: اس کے حواس کھو دئیے ہوں
الشَّيْطٰنُ
: شیطان
مِنَ الْمَسِّ
: چھونے سے
ذٰلِكَ
: یہ
بِاَنَّھُمْ
: اس لیے کہ وہ
قَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
اِنَّمَا
: در حقیقت
الْبَيْعُ
: تجارت
مِثْلُ
: مانند
الرِّبٰوا
: سود
وَاَحَلَّ
: حالانکہ حلال کیا
اللّٰهُ
: اللہ
الْبَيْعَ
: تجارت
وَحَرَّمَ
: اور حرام کیا
الرِّبٰوا
: سود
فَمَنْ
: پس جس
جَآءَهٗ
: پہنچے اس کو
مَوْعِظَةٌ
: نصیحت
مِّنْ
: سے
رَّبِّهٖ
: اس کا رب
فَانْتَهٰى
: پھر وہ باز آگیا
فَلَهٗ
: تو اس کے لیے
مَا سَلَفَ
: جو ہوچکا
وَاَمْرُهٗٓ
: اور اس کا معاملہ
اِلَى
: طرف
اللّٰهِ
: اللہ
وَمَنْ
: اور جو
عَادَ
: پھر لوٹے
فَاُولٰٓئِكَ
: تو وہی
اَصْحٰبُ النَّارِ
: دوزخ والے
ھُمْ
: وہ
فِيْهَا
: اس میں
خٰلِدُوْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنادیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سود بیچنا بھی (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام تو جس کے پاس خدا کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا اور (قیامت میں) اس کا معاملہ خدا کے سپرد اور جو پھر لینے لگے گا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں جلتے رہیں گے
اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبوٰا لَایَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْنُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ۔ ” ربوا “ کے معنی زیادتی اور اضافہ کے ہیں اور شریعت میں اس کا استعمال ربا الفضل اور ربا النسیئہ پر ہوتا ہے ربا الفضل اس کو کہتے ہیں جو اشیاء میں بلا عوض حاصل ہوتا ہے اور ربا النسیئہ اس فائدہ کو کہتے ہیں جو مدت کے عوض حاصل ہو۔ اصطلاح میں ربوا اس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے ہیں جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وصول کرتا ہے اسی کو ہماری زبان میں سود کہتے ہیں۔ نزول قرآن کے وقت سودی معاملات کی متعدد شکلیں رائج تھیں۔ اور وہ یہ تھیں مثلاً ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک وقت مقرر کردیتا اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کردیتا، یا مثلاً ایک شخص دوسرے شخص کو قرض دیتا اور اس سے طے کرلیتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہوگی، یا مثلاً قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدت کے لیے ایک خاص شرح طے ہوجاتی تھی، اور اگر اس مدت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی اور اگر اس مدت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی تو پھر مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی اسی نوعیت کے معاملات کا بیان یہاں کیا جارہا ہے۔ یہ کل چھ آیتیں ہیں جن میں سود کی حرمت اور احکام کا بیان ہے، پہلی آیت کے جملہ میں سود خوروں کے انجام بد اور محشر میں ان کی رسوائی اور گمراہی کا ذکر ہے جس میں سودخور کی حالت کو ایک آسیب زدہ کی حالت سے تشبیہ دی ہے، ضمنا اس آیت سے یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ شیطان کے اثر سے انسان بیہوش یا مجنون ہوسکتا ہے، اور اہل تجربہ کے متواتر مشاہدات اس پر شاہد ہیں۔ اور حافظ ابن رقیم (رح) تعالیٰ نے لکھا ہے کہ اطباء اور فلاسفہ نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ صرع، بیہوشی یا جنون مختلف اسباب سے ہوتا ہے ان میں بعض اوقات جنات و شیاطین کے اثر کا سبب بھی ہوتا ہے جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے ان کے پاس بجز ظاہری استبعاد کے کوئی دلیل نہیں۔ ذٰلِکَ بِأَنَّھُمْ قَالُوْآ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبوٰا ان کا کہنا تھا کہ بیع اور ربوا میں کیا فرق ہے دونوں میں مقصد حصول نفع ہے پھر تجارت حلال اور ربوا کیوں حرام ہو ؟ یہ نظریہ کی خرابی بلکہ عقل کا دیوالیہ پن نہیں تو اور کیا ہے ؟ کہ تجارت میں اصل لاگت پر جو نفع لیا جاتا ہے اس کی نوعیت اور سود کی نوعیت کا فرق وہ نہیں سمجھتے اور دونوں کو ایک ہی قسم کی چیز سمجھ کر یوں استدلال کرتے ہیں کہ جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دئیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے ؟ اسی قسم کے دلائل موجودہ زمانہ کے سود خور کے حق میں پیش کرتے ہیں، مگر یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دنیا میں جتنے کاروبار ہیں خواہ وہ تجارت کے ہوں یا صنعت و حرفت کے یا زراعت کے، اور خواہ انہیں آدمی صرف اپنی محنت سے کرتا ہو یا اپنے سرمایہ اور محنت سے ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جس میں آدمی نقصان کا خطرہ مول نہ لیتا ہو اور جس میں آدمی کے لیے لازماً ایک حقیر منافع کی ضمانت ہو، پھر آخر پوری کاروباری دنیا میں ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی ایسا کیوں ہو جو نقصان کے خطرہ سے بچ کر ایک مقرر لازمی نفع کا حقدار قرار پائے ؟ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت، اپنی محنت، اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپاتے رہے ہیں اور جن کی سعی و کوشش کے بل پر ہی اس کاروبار کا بار آور ہونا موقوف ہے ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو بلکہ نقصان کا سارا خطرہ ان ہی کے سر ہو مگر سرمایہ دار جس نے اپنا روپیہ انہیں قرض دیا ہو وہ بےخطر ایک طے شدہ منافع وصول کرتا چلا جائے یہ آخر کس عقل اور کس اصول انصاف اور کس اصول معاشیات کی رو سے درست ہیں ؟ متجددین کو نہ معلوم اس کی قباحت کیوں نظر نہیں آتی ؟ یہ ظلم کی ایک واضح صورت ہے جسے شریعت اسلامیہ کس طرح جائز قرار دے سکتی ہے ؟ علاوہ ازیں شریعت تو اہل ایمان کو معاشرے کے خرورت مندوں پر بغیر کسی دنیوی غرض اور منفعت کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ میں اخوت، بھائی چارے، ہمدردی، تعاون اور شفقت و محبت کے جذبات فروغ پاتے ہیں، اس کے برعکس سودی نظام سے سنگ دلی خود غرضی نفرت، وحشت و عداوت کا جذبہ فروغ پاتا ہے، ایک سودخور سرمایہ دار کو اپنے سرمایہ سے غرض ہوتی ہے چاہے معاشرہ میں ضرورت مند بیماری و افلاس سے کراہ رہے ہوں شریعت اس سنگدلی کو کس طرح پسند کرسکتی ہے ؟ بہرحال سود مطلقاً حرام ہے خواہ ذاتی غرض کے لیے ہو یا تجارتی مقاصد کے لئے۔ تجارت اور سود میں اصولی فرق : جس کی بنا پر دونوں کی معاشی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہوسکتی یہ ہے کہ۔ (1) تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے، کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اٹھاتا ہے جسے اس نے بائع سے خریدا ہے اور بائع اپنی محنت، ذہانت اور وقت کی اجرت لیتا ہے، جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیا کرنے میں صرف کیا ہے بخلاف اس کے سودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سود لینے والا تو مال کی ایک مقررہ مقدار لے لیتا ہے جو اس کے لیے یقیناً نفع بخش ہے، لیکن اس کے مقابلہ میں سود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں، اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضرورت پر خرچ کرنے کے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مہلت اس کے لیے قطعی نافع نہیں ہے، اور اگر وہ تجارت، زراعت یا صنعت وحرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا مکان ہے اسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے، پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے یا ایک کے یقینی اور متعین فائدے اور دوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔ (2) تجارت میں بائع، مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد نفع لے بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے ایک ہی بار لیتا ہے، لیکن سود کے معاملہ میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے، مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو بہرحال اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا، مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اٹھاتا ہے اس کے لئے کوئی حد نہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ مدیون کی پوری کمائی، اس کے تمام وسائل معیشت حتی کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کرلے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہے۔ (3) تجارت میں شئی اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہوجاتا ہے اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی۔ مکان یا دکان یا زمین یا سامان کے کرایہ میں اصل شئ جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے صرف نہیں ہوتی بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ مالک جائداد کو واپس دیدی جاتی ہے، لیکن سود کے معاملہ میں قرض دار سرمایہ کو صرف کرسکتا ہے اور پھر اس کو صرف شدہ مال دوبارہ پیدا کرکے اضافہ کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے، ان وجوہ کی بناء پر تجارت اور سود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم فرق ہوجاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے پھر اخلاقی حیثیت سے سود کی یہ عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل، خود غرضی، شقاوت، نفرت، بےرحمی اور زرپرستی جیسی صفات پیدا کرتا ہے۔ اور ہمدردی و امداد باہمی کی روح کو فنا کرتا ہے اس بنا پر سود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیت سے نوع انسانی کے لیے تبا کن ہے۔ سود کا اخلاقی نقصان : اخلاقی اور روحانی حیثیت سے آپ دیکھیں تو آپ کو یہ بات بالکل واضح طور پر نظر آئے گی کہ سود دراصل خود غرضی، بخ، تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کا نتیجہ ہے اور وہ ان ہی صفات کو انسان میں نشو و نما دیتا ہے۔ اس کے برعکس صدقات کے نتیجہ میں فیاضی، ہمدردی، فراخ دلی اور علی ظرفی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں، اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے ہی صفات انسان کے نادر پرورش پاتی ہیں، کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموعہ کو بدترین اور دوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو۔ سود کا معاشی نقصان : معاشیات کے نقطہ نظر سے سودی قرض دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ قرض جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت، صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں، پہلی قسم کے قرض کے بارے میں تو دنیا جانتی ہے کہ اس پر سود و صول کرنے کا طریقہ نہایت ہی تباہ کن ہے، دنیا کا کوئی ملک ایس انہیں کہ جس میں مہاجن افراد اور مہاجن ادارے اس ذریعہ سے غریب مزدوروں، کاشتکاروں، قلیل المعاش عوام کا خون نہ چوس رہے ہوں، سود کی وجہ سے اس قسم کا قرض لوگوں کے لیے ادا کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات ناممکن ہوجاتا ہے ایک قرض ادا کرنے کے لیے دوسرا اور تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں، اصل رقم سے کئی گنا سود دے چکنے کے باوجود بھی اصل رقم جوں کی توں باقی کھڑی رہتی ہے، محنت پیشہ کی آمدنی کا بیشتر حصہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے بھی کافی روپیہ نہیں بچتا، یہ صورت حال رفتہ رفتہ کارکن کی اپنے کام سے دلچسپی ختم کردیتی ہے جس کی وجہ سے ملکی پیداوار میں شدید نقصان ہوتا ہے، جس سے ملک کی معیشت زوال پذیر ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ سودی قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر و پریشانی گھلا دیتی ہے اور تنگدستی کی وجہ سے ان کے لئے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہوجاتا ہے کہ ان کی صحیتیں کبھی درست نہیں رہ سکتیں، سودی قرض کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں آدمیوں کا خون چوس چوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں۔ مگر نادار اور کمزور اور زیادہ نادار اور کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، اور انجام کار خود خون چوسنے والے افراد اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے، کیونکہ ان کی اس خود غرضی سے غریب عوام کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس کی بدولت مالداروں کے خلاف غصے اور نفرت کا ایک طوفان دلوں میں اٹھتا رہتا ہے اور کسی انقلاب کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتا ہے۔ فَمَنْ جَآءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ۔ اس جملہ میں یہ ارشاد ہے کہ سود حرام ہونے سے پہلے جس شخص نے کوئی رقم جمع کرلی تھی لیکن جب سود کو حرام قرار دیا گیا تو اگر آئندہ کے لئے اس نے توبہ کرلی اور باز آگیا تو اس سے پہلے جمع شدہ رقم ظاہر شرع کے حکم سے اسی کی ہوگی اور باطنی معاملہ اس کا کہ وہ دل سے باز آیا یا منافقانہ توبہ کی اس کا یہ معاملہ خدا کے حوالہ رہا، عام لوگوں کو بدگمانی کرنے کا حق نہیں ہے، اور جو شخص نصیحت سنکر بھی اسی قول و فعل کی طرف پھر عود کرے تو چونکہ سود خوری گناہ ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
Top