Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں الرِّبٰوا : سود لَا يَقُوْمُوْنَ : نہ کھڑے ہوں گے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَقُوْمُ : کھڑا ہوتا ہے الَّذِيْ : وہ شخص جو يَتَخَبَّطُهُ : اس کے حواس کھو دئیے ہوں الشَّيْطٰنُ : شیطان مِنَ الْمَسِّ : چھونے سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَا : در حقیقت الْبَيْعُ : تجارت مِثْلُ : مانند الرِّبٰوا : سود وَاَحَلَّ : حالانکہ حلال کیا اللّٰهُ : اللہ الْبَيْعَ : تجارت وَحَرَّمَ : اور حرام کیا الرِّبٰوا : سود فَمَنْ : پس جس جَآءَهٗ : پہنچے اس کو مَوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب فَانْتَهٰى : پھر وہ باز آگیا فَلَهٗ : تو اس کے لیے مَا سَلَفَ : جو ہوچکا وَاَمْرُهٗٓ : اور اس کا معاملہ اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر لوٹے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ کھاتے ہیں سود نہیں اٹھیں گے قیامت کو مگر جس طرح اٹھتا ہے وہ شخص کہ جس کے حواس کھو دئیے ہوں جن نے لپٹ کر یہ حالت ان کی اس واسطے ہوں گی کہ انہوں نے کہا کہ سوداگری بھی تو ایسی ہے جیسے سود لینا حالانکہ اللہ نے حلال کیا ہے سوداگری کو اور حرام کیا ہے سود کو، پھر جسکو پہنچی نصیحت اپنے رب کی طرف سے اور وہ باز آگیا تو اس کیواسطے ہیں جو پہلے ہوچکا اور معاملہ اس کا اللہ کے حوالے ہے اور جو کوئی پھر لیوے سود تو وہی لوگ ہیں دوزخ والے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،
خلاصہ تفسیر
جو لوگ سود کھاتے ہیں (یعنی لیتے ہیں) نہیں کھڑے ہوں گے (قیامت میں قبروں سے) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان نے خبطی بنادیا ہو لپٹ کر (یعنی حیران مدہوش) یہ سزا اس لئے ہوگی کہ ان (سود خوار) لوگوں نے (سود کے حلال ہونے پر استدلال کرنے کے لئے) کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے (کیونکہ اس میں بھی مقصود نفع حاصل کرنا ہوتا ہے، اور بیع یقیناً حلال ہے پھر سود بھی جو کہ اس کا مثل ہے حلال ہونا چاہئے) حالانکہ (دونوں میں کھلا فرق ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے (جو کہ مالک ہیں احکام کے) بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے (اس سے زیادہ اور کیا فرق ہوگا) پھر جس شخص کو اس کے پروردگار کی طرف سے (اس بارہ میں) نصیحت پہنچی اور وہ (اس سود کے فعل اور اس کفر کے قول سے یعنی حلال کہنے سے) باز آگیا (یعنی حرام سمجھنے لگا اور لینا بھی چھوڑ دیا) تو جو کچھ (اس حکم کے آنے سے) پہلے (لینا) ہوچکا ہے وہ اس کا رہا (یعنی ظاہر شرع کے نزدیک اس کی یہ توبہ قبول ہوگئی اور لیا ہوا مال اسی کی ملک ہے) اور (باطنی) معاملہ اس کا (کہ وہ دل سے باز آیا ہے یا منافقانہ توبہ کرلی ہے یہ) خدا کے حوالے رہا (اگر دل سے توبہ کی ہوگی عنداللہ نافع ہوگی ورنہ کالعدم ہوگی تم کو بدگمانی کا کوئی حق نہیں) اور جو شخص (نصیحت مذکور سن کر بھی اسی قول اور اسی فعل کی طرف) پھر عود کرے تو (بوجہ اس کے کہ ان کا یہ فعل خود گناہ کبیرہ ہے) یہ لوگ دوزخ میں جائیں گے (اور بوجہ اس کے کہ ان کا یہ قول کفر ہے اس لئے) وہ اس (دوزخ) میں ہمیشہ رہیں گے (اور سود لینے سے فی الحال مال بڑہتا نظر آتا ہے لیکن مآل کار) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں (کبھی تو دنیا ہی میں سب برباد ہوجاتا ہے ورنہ آخرت میں تو یقینی برباد ہے کیونکہ وہاں اس پر عذاب ہوگا) اور (برخلاف اس کے صدقہ دینے میں گو فی الحال مال گھٹتا معلوم ہوتا ہے لیکن مآل کار اللہ تعالیٰ) صدقات کو بڑھاتے ہیں (کبھی تو دنیا میں بھی ورنہ آخرت میں تو یقیناً بڑہتا ہے کیونکہ وہاں اس پر بہت سا ثواب ملے گا جیسا اوپر آیات میں مذکور ہوا) اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا (بلکہ مبغوض رکھتے ہیں) کسی کفر کرنے والے کو (جو کہ قول مذکور کے مثل کلمات کفر منہ سے بکے اور اسی طرح پسند نہیں کرتے) کسی گناہ کے کام کرنے والے کو (جو کہ فعل مذکور یعنی سود کے مثل کبائر کا مرتکب ہو) بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے اور (بالخصوص) نماز کی پابندی کی اور زکوٰۃ دی ان کے لئے ان کا ثواب ہوگا ان کے پروردگار کے نزدیک اور (آخرت میں) ان پر کوئی خطرہ (واقع ہونے والا) نہیں ہوگا اور نہ وہ (کسی مقصود کے فوت ہونے سے) مغموم ہوں گے،
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو (کیونکہ ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ کی اطاعت کی جائے) پھر اگر تم (اس پر عمل) نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے (یعنی تمہارے خلاف جہاد ہوگا) اور اگر تم توبہ کرلو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جاویں گے (اس قانون کے بعد) نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے (کہ تم اصل مال سے زیادہ لینے لگو) اور نہ تم پر کوئی ظلم کرنے پاوے گا (کہ تمہارا اصل مال بھی نہ دلایا جاوے) اور اگر (قرضدار) تنگ دست ہو (اور اس لئے میعاد پر نہ دے سکے) تو (اس کو) مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک (یعنی جب اس کے پاس ادا کی گنجائش ہو) اور یہ (بات) کہ (بالکل) معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم کو (اس کے ثواب کی) خبر ہو۔
اور (مسلمانو) اس دن سے ڈرو جس میں تم (سب) اللہ تعالیٰ کی پیشی میں لائے جاؤ گے پھر ہر شخص کو اس کا کیا ہوا (یعنی اس کا بدلہ) پورا پورا ملے گا اور ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہوگا، تو تم پیشی کے لئے اپنی کارگزاری درست رکھو اور کسی قسم کی خلاف ورزی مت کرو۔

معارف و مسائل
ان آیات میں رباء یعنی سود کی حرمت اور اس کے احکام کا بیان شروع ہوا ہے، یہ مسئلہ کئی حیثیتوں سے بہت اہم ہے، ایک طرف سود وربوٰ پر قرآن وسنت کی شدید وعیدیں اور دوسری طرف دنیا کی اقتصادیات میں اس کا جزء لازم بن جانا اور اس سے نجات کی مشکلات کا مسئلہ طویل الذیل ہے اور کئی حیثیتوں سے اس پر غور کرنا ہے۔
اول اس بارے میں قرآن کی آیات کی صحیح تفسیر اور احادیث صحیحہ کے ارشادات میں غور کرکے یہ متعین کرنا کہ قرآن وسنت کی اصطلاح میں ربوٰ کیا چیز ہے اور کن کن معاملات کو شامل ہے اور اس کی حرمت کس حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اس میں کس قسم کی مضرتیں ہیں، دوسری حیثیت اس کی عقلی اور معاشی ہے کہ کیا فی الواقع سود و ربوٰ ایسی چیز ہے جو دنیا کی اقتصادی ترقی کی ضامن ہوسکے اور جس کو نظر انداز کرنے کا لازمی نتیجہ تجارت اور عام اقتصادیات کی تباہی ہو یا سارا چکر نہ صرف مشکلات کا حل بلکہ دنیا میں اقتصادی امن و اطمینان سود کے چھوڑنے پر موقوف ہے اور یہ کہ دنیا کے اقتصادی مصائب کا سب سے بڑا سبب سود ورباء ہے یہ دوسری بحث ایک معاشی اور اقتصادی مسئلہ ہے جس کے تحت میں بہت سی اصولی اور فروعی طویل بحثیں ہیں جن کا تعلق تفسیر قرآن سے نہیں اس لئے اس جگہ پہلی ہی بحث پر اکتفاء کیا جاتا ہے وہ بھی خاصی طویل ہے۔
یہ چھ آیتیں ہیں جن میں سود کی حرمت اور احکام کا بیان ہے ان میں سے پہلی آیت کے پہلے جملہ میں سود خوروں کے انجام بد اور محشر میں ان کی رسوائی اور گمراہی کا ذکر ہے ارشاد ہے کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں کھڑے ہوتے مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے وہ آدمی جس کو کسی شیطان جن نے لپٹ کر خبطی بنادیا ہو۔ حدیث میں ہے کہ کھڑے ہونے سے مراد محشر میں قبر سے اٹھنا ہے کہ سود خور جب قبر سے اٹھے گا تو اس پاگل ومجنون کی طرح اٹھے گا جس کو کسی شیطان جن نے خبطی بنادیا ہو۔
اس جملہ سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ جنات و شیاطین کے اثر سے انسان بیہوش یا مجنون ہوسکتا ہے اور اہل تجربہ کے متواتر مشاہدات اس پر شاہد ہیں اور حافظ ابن قیم جوزی نے لکھا ہے کہ اطباء اور فلاسفہ نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ صرع بیہوشی، یا جنون مختلف اسباب سے ہوا کرتا ہے ان میں بعض اوقات جنات و شیاطین کا اثر بھی اس کا سبب ہوتا ہے جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے ان کے پاس بجر ظاہری استبعاد کے کوئی دلیل نہیں۔
دوسری بات یہ غور طلب ہے کہ قرآن نے یہ نہیں فرمایا کہ سود خور محشر میں پاگل یا مجنون ہو کر اٹھیں گے بلکہ دیوانہ پن یا بےہوشی کی ایک خاص صورت کا ذکر کیا ہے کہ جیسے کسی کو شیطان نے لپٹ کر خبطی بنادیا ہو اس میں شاید یہ اشارہ ہے کہ بیہوش ومجنون تو بعض اوقات چپ چاپ پڑا بھی رہتا ہے ان کا یہ حال نہ ہوگا بلکہ شیطان کے خبطی بنائے ہوؤں کی طرح بکواس اور ہذیان اور دوسری مجنونانہ حرکتوں کی وجہ سے پہچانے جائیں گے۔
اور شاید اس طرف بھی اشارہ ہو کہ بیماری سے بیہوش یا مجنون ہوجانے کے بعد چونکہ احساس بالکل باطل ہوجاتا ہے اس کو تکلیف یا عذاب کا بھی احساس نہیں رہتا ان کا یہ حال نہ ہوگا بلکہ آسیب زدہ کی طرح تکلیف و عذاب کو پوری طرح محسوس کرے گا۔
اب یہاں یہ دیکھنا ہے کہ جرم وسزا میں کوئی مناسبت ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو سزا کسی شخص یا جماعت کے کسی جرم کے مقابلہ میں دی جاتی ہے وہ یقیناً اس جرم کے مناسب ہوتی ہے اس لئے سود خوروں کو خبطی بنا کر محشر میں اٹھانا شاید اس کا اظہار ہے کہ سودخور روپے پیسہ کی حرص میں اس قدر مدہوش ہوتا ہے کہ اس کو نہ کسی غریب پر رحم آتا ہے نہ کسی کی شرم مانع ہوتی ہے وہ چونکہ اپنی زندگی میں درحقیقت بیہوش تھا اس لئے محشر میں بھی اسی حالت میں اٹھایا گیا یا یہ سزا اس لئے دی گئی کہ دنیا میں اس نے عقلی رنگ میں اپنی بےعقلی کو ظاہر کیا کہ بیع مثل سود قرار دیا اس لئے اس کو بےعقل کرکے اٹھا دیا گیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آیت میں سود کھانے کا ذکر ہے اور مراد مطلقاً سود لینا اور اس کا استعمال کرنا ہے خواہ کھانے میں استعمال کرے یا لباس میں یا مکان اور اس کے فرنیچر میں لیکن اس کو کھانے کے لفظ سے اس لئے تعبیر کیا کہ جو چیز کھائی جائے اس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں رہتا بخلاف دوسری ضرورتوں کے استعمال کے کہ اس چیز کو واپس لیا دیا جاسکتا ہے، اس لئے مکمل قبضہ اور تصرف کو کھا جانے کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور نہ صرف عربی زبان میں بلکہ اردو فارسی وغیرہ اکثر زبانوں کا یہی محاورہ ہے۔
اس کے بعد دوسرے جملہ میں سود خوروں کی اس سزا کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ان لوگوں نے دو جرم کئے ایک تو بذریعہ سود کے حرام مال کھایا دوسرے اس کو حلال سمجھا اور حرام کہنے والوں کے جواب میں یہ کہا بیع وشراء بھی تو ربوٰ ہی کی مثل ہے جس طرح ربوٰ کے ذریعہ نفع حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح بیع وشعراء کے ذریعہ نفع مقصود ہے اگر سود حرام ہے تو بیع بھی حرام ہونی چاہئے حالانکہ اس کے حرام ہونے کا کوئی قائل نہیں، اس جگہ بظاہر مقتضائے مقام یہ تھا کہ لوگ یوں کہتے کہ ربوٰ بھی تو مثل بیع کے ہے جب بیع حلال ہے تو ربوٰ بھی حلال ہونا چاہئے مگر انہوں نے طرز بیان بدل کر حرام کہنے والوں پر ایک قسم کا استہزا کیا کہ تم ربوٰ کو حرام کہتے ہو تو بیع کو بھی حرام کہو۔
تیسرے جملے میں ان لوگوں کے اس قول کا جواب حق تعالیٰ نے یہ دیا کہ یہ لوگ بیع کو ربوٰ کی مثل اور برابر قرار دیتے ہیں حالانکہ بحکم خداوندی ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو حلال قرار دیا اور دوسرے کو حرام پھر دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں۔
اس جواب میں یہ بات قابل غور ہے کہ ان لوگوں کا اعتراض تو عقلی طور پر تھا کہ جب دونوں معاملوں کا مقصد نفع کمانا ہے تو دونوں کا حکم ایک ہی ہونا چاہئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے عقلی شبہ کا جواب عقلی طور پر فرق بیان کرکے نہیں دیا بلکہ حاکمانہ انداز میں یہ جواب دیا کہ مالک والملکوت اللہ جل شانہ ہے وہ ہی ہر چیز کے نفع وضرر اور بھلے برے کو پوری طرح جانتا ہے جب اس نے ایک کو حلال اور دوسرے کو حرام قرار دے دیاتو سمجھ لو کہ جس چیز کو حرام کیا ہے اس میں ضرور کوئی نقصان وضرر اور کوئی خباثت ہے خواہ عام انسان اس کو محسوس کرے یا نہ کرے کیونکہ مجموعہ نظام عالم کی پوری حقیقت اور اس کے نفع وضرر کا احاطہ نہیں کرسکتے بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ کسی شخص یا جماعت کے حق میں مفید نظر آتی ہیں مگر پوری قوم یا پورے ملک کے لئے اس میں مضرت ہوتی ہے۔
اس کے بعد تیسرے جملہ میں یہ ارشاد ہے کہ سود حرام ہونے سے پہلے جس شخص نے کوئی رقم جمع کرلی تھی لیکن جب سود کو حرام قرار دے دیا گیا تو اگر آئندہ کے لئے اس نے توبہ کرلی اور باز آگیا تو اس سے پہلے جمع شدہ رقم ظاہر شرع کے حکم سے اسی کی ہوگئی اور باطنی معاملہ اس کا کہ وہ دل سے باز آگیا تو اس سے پہلے جمع شدہ رقم ظاہر شرع کے حکم سے اسی کی ہوگئی اور باطنی معاملہ اس کا کہ وہ کل سے باز آیا یا منافقانہ توبہ کرلی اس کا یہ معاملہ خدا کے حوالہ رہا۔
اگر دل سے توبہ کی ہے تو عنداللہ نافع ہوگی ورنہ کالعدم ہوگی عام لوگوں کو بدگمانی کرنے کا حق نہیں ہے اور جو شخص نصیحت سن کر بھی اسی قول وفعل کی طرف پھر عود کرے چونکہ یہ فعل سود خوری گناہ ہے یہ لوگ دوزخ میں جائیں گے اور چونکہ ان کا قول کہ سود مثل بیع کے کفر ہے اس لئے وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
مسئلہ سود وربا کی کچھ مزید تشریح و تفصیل
آجکل ربا چونکہ عام نظام تجارت کا رکن اعظم اور عمود بن گیا ہے اس لئے جب کتاب وسنت کی آیات وروایات میں اس کی حرمت و ممانعت سامنے آتی ہے تو عام طبائع اس کی حقیقت کو سمجھنے سمجھانے کے وقت اس کی حرمت سے ہچکچاتی ہیں اور حیلہ جوئی کی طرف مائل ہوتی ہیں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ بحث کا تجزیہ کرکے اس کے ہر پہلو پر علیحدہ علیحدہ غور و فکر کرنا چاہئے خلط ملط کرنے کا نتیجہ بحث کے الجھنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا یہاں بحث کے تین حصے ہیں۔
اول یہ کہ قرآن وسنت میں رباء کی کیا حقیقت ہے اور کن کن صورتوں پر حاوی ہے ؟
دوسرے یہ کہ اس رباء کی حرمت و ممانعت کس حکمت و مصلحت پر مبنی ہے ؟
تیسرے یہ کہ سود و ربا کتنا ہی برا سہی لیکن آج کل کی دنیا میں وہ نظام معاشیات و تجارت کا رکن اعظم بن چکا ہے اگر قرآنی احکام کے ماتحت اس کو چھوڑ دیا جائے تو نظام بنک و تجارت کیسے چلے گا ؟
اصل ربا کی تعریف میں کبھی کوئی ابہام نہیں رہا ایک مغالطہ کا جواب
اب سنئے کہ لفظ ربواٰ عربی زبان کا معروف لفظ ہے، رسول کریم ﷺ کی بعثت اور نزول قرآن سے قبل جاہلیت عرب میں بھی یہ لفظ متعارف تھا اور نہ صرف متعارف بلکہ رباء کا لین دین عام طور پر جاری تھا بلکہ سورة نسآء کی آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رباء کا لفظ اور اس کے معاملات زمانہ تورات میں بھی معروف تھے اور تورات میں بھی اس کو حرام قرار دیا گیا تھا۔
ظاہر ہے کہ ایسا لفظ جو زمانہ قدیم سے عرب اور اس کے قرب و جوار میں معروف چلا آتا ہے اور اس پر لین دین کا رواج چل رہا ہے اور قرآن اس کی حرمت و ممانعت بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی خبر دیتا ہے کہ موسیٰ ؑ کی امت پر بھی سود و رباء حرام کیا گیا تھا اس لفظ کی حقیقت کوئی ایسی مبہم چیز نہیں ہوسکتی جس کے سمجھنے سمجھانے میں دشواریاں پیش آئیں، یہی وجہ ہے کہ جب 8 ہجری میں سورة بقرہ کی آیات رباء کی حرمت کے متعلق نازل ہوئیں تو صحابہ کرام سے کہیں منقول نہیں کہ ان کو لفظ رباء کی حقیقت سمجھنے میں کوئی اشتباہ پیش آیا ہو اور حضور ﷺ سے دوسرے معاملات کی طرح اس کی تحقیق کی نوبت آئی ہو بلکہ جس طرح شراب کی حرمت نازل ہوتے ہی صحابہ کرام ؓ اجمعین نے اس پر عمل کیا اسی طرح رباء کی حرمت نازل ہوتے ہی رباء کے سب معاملات ترک کردیئے پچھلے زمانہ کے معاملات میں مسلمانوں کا جو رباء غیر مسلموں کے ذمہ واجب الاداء تھا وہ بھی مسلمانوں نے چھوڑ دیا اور جو غیر مسلموں کا مسلمانوں کے ذمہ واجب الاداء تھا اور مسلمانوں پر نزول ممانعت کے بعد اس کو دینا نہیں چاہتے تھے اس کا جھگڑا امیر مکہ کی عدالت میں پیش ہوا انہوں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا تو اس کا فیصلہ سورة بقرہ کی آیات میں آسمان سے نازل ہوا کہ پچھلے زمانہ کے بقایا رباء کا لین دین بھی اب جائز نہیں۔
اور اس میں چونکہ غیر مسلموں کو یہ شکایت کا موقع مل سکتا تھا کہ ایک اسلامی حکم شرعی کی وجہ سے ہمارا روپیہ کیوں مارا جائے تو اس کے ازالہ کے لئے رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں یہ واضح کردیا کہ اس حکم شرعی کا اثر صرف غیر مسلموں پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر بھی یکساں ہے اور سب سے پہلے جو سود کی رقم چھوڑی گئی وہ آنحضرت محمد ﷺ کے عم محترم حضرت عباس کی کثیر التعداد رقم تھی۔
الغرض رباء کی ممانعت ہونے کے وقت رباء کا مفہوم کچھ مخفی نہ تھا عام طور پر معروف تھا وہی رباء جس کو عرب رباء کہتے تھے اور اس کا لین دین کرتے تھے قرآن نے حرام کیا اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو صرف اخلاقی انداز میں نہیں بلکہ قانون ملک کی حیثیت سے نافذ فرمایا البتہ بعض ایسی صورتوں کو بھی آپ نے رباء میں شامل قرار دیا جس کو عام طور پر رباء نہیں سمجھا جاتا تھا انھیں صورتوں کی تعیین میں حضرت فاروق اعظم کو اشکال پیش آیا اور انہی میں ائمہ مجتہدین کے نظریات میں اختلاف ہو اور نہ اصل رباء جس کو عرب رباء کہتے تھے نہ اس میں کسی کو اشتباہ کا موقع تھا نہ اس میں کسی کا اختلاف ہوا۔
اب سنئے عرب کا مروجہ ربا کیا تھا ؟ امام تفسیر ابن جریر نے حضرت مجاہد سے نقل کیا ہے کہ جو رباء جاہلیت میں جاری تھا اور قرآن نے اسے منع کیا وہ یہ تھا کہ کسی کو ایک میعاد معین کے لئے قرض دے کر اس پر اصل راس المال سے زائد مقررہ زیادتی لیتے تھے اور اگر میعاد مقررہ پر وہ قرض ادا نہ کرسکا تو مزید میعاد اس شرط پر بڑھا دیتے تھے کہ سود میں اضافہ کیا جائے یہی مضمون حضرت قتادہ اور دوسرے حضرات ائمہ تفسیر سے نقل کیا ہے (تفسیر ابن جریرص 62: 3)
اندلس کے مشہور امام تفسیر ابوحیان عزناطی کی تفسیر بحر محیط میں بھی جاہلیت کے رباء کی یہی صورت لکھی ہے کہ ادھار دے کر اس پر نفع لیتے اور جتنی مدت ادھار کی بڑھ جائے اتنا ہی سود اس پر بڑھا دینے کا نام ربا تھا اسی جاہلیت عرب کے لوگ یہ کہتے تھے کہ جیسے بیع وشراء میں نفع لینا جائز ہے اسی طرح اپنا روپیہ ادھار پر دے کر نفع لینا بھی جائز ہونا چاہئے قرآن کریم نے اس کو حرام قرار دیا اور بیع ورباء کے احکام کا مختلف ہونا واضح فرمایا۔
یہی مضمون تمام مستند کتب تفسیر ابن کثیر، تفسیر کبیر، اور روح المعانی وغیرہ میں معتبر روایات کے ساتھ منقول ہے۔
ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا، الربوٰا فی اللغۃ الرباوۃ والمراد بہ فی الایۃ کل زیادۃ لا یقابلہا عوض (ص 101 ج 1) یعنی رباء کے معنی اصل لغت میں زیادتی کے ہیں اور آیت میں اس سے مراد وہ زیادتی ہے جس کے مقابلہ میں کوئی مال نہ ہو بلکہ محض ادھار اور اس کی میعاد ہو . امام رازی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ رباء کی دو قسمیں ہیں ایک معاملات بیع وشراء کے اندر رباء ، دوسرے ادھار کا رباء اور جاہلیت عرب میں دوسری قسم ہی رائج اور معروف تھی کہ وہ اپنا مال کسی کو معین میعاد کے لئے دیتے تھے اور ہر مہینہ اس کا نفع لیتے تھے اور اگر میعاد معین پر ادائیگی نہ کرسکا تو میعاد اور بڑھا دی جاتی تھی بشرطیکہ وہ سود کی رقم اور بڑھا دیتے یہی جاہلیت کا رباء تھا جس کو قرآن نے حرام کیا .
امام جصاص نے احکام القرآن میں رباء کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں
ھو القرض المشروط فیہ الاجل وزیادۃ مال علی المسقرض، یعنی وہ قرض ہے جس میں کسی میعاد کے لئے اس شرط پر قرض دیا جائے کہ قرضدار اس کو اصل مال سے زائد کچھ رقم ادا کرے گا،
حدیث میں رسول کریم ﷺ نے رباء کی تعریف یہ فرمائی ہےکل قرض جر نفعا فھو ربا۔ یعنی جو قرض نفع حاصل کرے وہ ربا ہے۔
یہ حدیث جامع صغیر میں ہے اور عزیزی نے اس کو حسن کہا ہے۔
خلاصہیہ ہے کہ ادھار دے کر اس پر نفع لینے کا نام ربا ہے جو جاہلیت عرب کے زمانہ میں رائج اور معروف تھا جس کو قرآن کریم کی آیت مذکورہ نے صراحۃ حرام قرار دیا اور ان آیات کے نازل ہوتے ہی صحابہ کرام ؓ اجمعین نے اس کو چھوڑ دیا اور رسول کریم ﷺ نے قانونی خصومات میں اس کو نافذ فرمایا اس میں نہ کوئی ابہام تھا نہ اجمال نہ اس میں کسی کو کوئی اشتباہ واشکال پیش آیا۔
البتہ نبی کریم ﷺ نے ربا کے مفہوم میں بیع وشراء کی چند صورتوں کو بھی داخل فرمایا جن کو عرب رباء نہ سمجھتے تھے مثلا چھ چیزوں کی بیع وشراء میں یہ حکم دیا کہ اگر ان کا تبادلہ کیا جائے تو برابر ہونا چاہئے اور نقد دست بدست ہونا چاہئے اس میں کمی بیشی کی گئی یا ادھار کیا گیا تو وہ بھی ربا ہے یہ چھ چیزیں سونا، چاندی، گیہوں جو، کھجور اور انگور ہیں۔
اسی اصول کے ماتحت عرب میں معاملات کی جو چند صورتیں مزابنہ اور محاقلہ کے نام سے رائج تھیں آیات رباء نازل ہونے کے بعد رسول کریم ﷺ نے ان کو رباء میں شامل قرار دے کر منع فرمایا (ابن کثیر بحوالہ مستدرک حاکم ص 327: ج 1)
اس میں یہ بات قابل غور تھی کہ ان چھ چیزوں کی خصوصیت ہے یا ان کے علاوہ اور بھی کچھ چیزیں ان کے حکم میں ہیں اور اگر ہیں تو ان کا ضابطہ کیا ہے کس کس صورت کو داخل رباء سمجھا جائے یہی اشکال حضرت فاروق اعظم کو پیش آیا جس کی بناء پر فرمایا،
ان آیۃ الربوا من اخر ما نزل من القران و ان النبی ﷺ قبض قبل ان یبینہ لنا فدعوا الربواٰ والریبۃ (احکام القرآن جصاص ص 551، تفسیر ابن کثیر بحوالہ ابن ناحہ ص 328 ج 1)
یعنی آیت ربا قرآن کی آخری آیتوں میں ہے اس کی پوری تفصیلات بیان فرمانے سے پہلے رسول ﷺ کی وفات ہوگئی اس لئے اب احتیاط لازم ہے رباء کو تو چھوڑنا ہی ہے جس صورت میں ربا کا شبہ بھی ہو اس کو بھی چھوڑ دینا چاہئے۔
فاروق اعظم کی مراد معاملات بیع وشراء کی وہ صورتیں اور ان کی تفصیلات ہیں جو جاہلیت عرب میں رباء نہیں سمجھی جاتی تھیں رسول کریم ﷺ نے ان کو رباء میں داخل قرار دے کر حرام فرمایا باقی اصل رباء جو تمام عرب میں معروف و مشہور تھا اور صحابہ کرام نے اس کو چھوڑا رسول کریم ﷺ نے اس کا قانون نافذ فرمایا اور حجۃ الوداع کے خطبہ میں اس کا اعلان کیا اس میں فاروق اعظم کو کوئی اشکال یا اشتباہ ہونے کا کوئی امکان نہیں پھر جب فاروق اعظم کو رباء کی جن خاص صورتوں میں اشتباہ پیش آیا تو اس کا حل یہ تجویز فرمایا کہ جن صورتوں میں رباء کا شبہ بھی ہو ان کو بھی چھوڑ دیا جائے۔
مگر حیرت ہے کہ آج بعض وہ لوگ جو یورپ کی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور دولت مندی اور موجودہ نظام تجارت وغیرہ میں سود کے رکن بن جانے سے مرعوب ہیں انہوں نے فاروق اعظم کے اس ارشاد کا یہ نتیجہ نکالا کہ ربا کا مفہوم ہی مجمل رہ گیا تھا اس لئے اس میں رائے کی گنجائش ہے جس کے غلط ہونے کا کافی مواد سامنے آچکا ہے احکام القرآن میں ابن عربی نے ان لوگوں پر سخت انکار کیا ہے جنہوں نے اس فاروقی ارشاد کی بناء پر آیات رباء کو مجمل کہا تھا۔
ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا
ان من زعم ان ھذہ الایۃٰ مجملۃ فلم یفہم مقاطع الشریعۃ فان اللہ تعالیٰ ارسل رسولہ الیٰ قوم ھو منہم بلغتہم وانزل علیہ کتابہ تیسیرا منہ بلسانہ ولسانہم والربا فی اللغۃ الرباوۃ والمراد بہ فی الایۃ کل زیادۃ لا یقابلہا عوض، یعنی جس نے یہ کہا کہ یہ آیت مجمل ہے اس نے شریعت کی تصریحات کو نہیں سمجھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ایسی قوم کی طرف بھیجا کہ وہ خود اسی قوم میں سے تھے انہی کی زبان میں بھیجا ان پر اپنی کتاب آسانی کے لئے انہی کی زبان میں نازل فرمائی اور لفظ ربا کے معنی ان کی زبان میں زیادتی کے ہیں اور مراد آیت میں وہ زیادتی ہے جس کے مقابلہ میں مال نہیں بلکہ میعاد ہے۔
اور امام رازی نے تفسیر کبیر میں فرمایا کہ ربا کی دو قسمیں ہیں ایک ادھار کا ربا دوسرے نقد بیع میں زیادہ لینے کا ربا پہلی قسم وہ ہے جو زمانہ جاہلیت میں مشہور و معروف تھی اور اہل جاہلیت اس کا لین دین کرتے تھے اور دوسری قسم وہ ہے جو حدیث نے بیان کی کہ فلاں چیزوں کی بیع وشراء میں کمی زیادتی ربا میں داخل ہے۔
اور احکام القرآن جصاص میں ہے کہ ربا کی دو قسمیں ہیں ایک بیع وشراء کے اندر دوسری بغیر بیع وشراء کے اور زمانہ جاہلیت کا ربوا یہی دوسری قسم کا تھا اور اس کی تعریف یہ ہے کہ وہ قرض جس میں بحساب میعاد کوئی نفع لیا جائے، اور یہی مضمون ابن رشد نے بدایۃ المجتہد میں لکھا ہے اور قرض ادھار پر نفع لینے کے ربا کا حرام ہونا قرآن، سنت اور اجماع امت سے ثابت کیا ہے۔
امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں اس موضوع پر بڑی تفصیل سے کلام کرتے ہوئے یہ بتلایا ہے کہ قرآن میں جو ربا مذکور ہے اس سے جلی اور واضح طور پر وہ ربا مراد ہے جو قرض ادھار پر لیا دیا جاتا تھا اور اسی کو زمانہ جاہلیت میں ربا کہا جاتا تھا اس کے بعد نبی کریم ﷺ کے بیان اور آپ کی سنت سے دوسری قسم کا رباء کا علم ہوا جو خاص خاص اقسام بیع وشراء میں کمی زیادتی یا ادھار کرنے کا نام ہے اور اس ربا کی تفصیلات پوری واضح نہ ہونے کے سبب اس میں بعض صحابہ کرام ؓ اجمعین کو اشکال پیش آیا اور فقہاء کے اختلافات ہوئے (معانی الآثارص 232 ج 2)
اور حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں فرمایا ہے کہ ربا ایک حقیقی ہے اور ایک وہ جو بحکم ربا ہے حقیقی ربا قرض ادھار پر زیادتی لینے کا نام ہے اور بحکم رباء وہ ہے جس کا بیان حدیث میں آیا کہ بعض خاص چیزوں کی بیع میں زیادتی لینے کو ربا کہا گیا ہے اور ایک حدیث میں آیا ہے لا ربا الا فی النسیۃ (رواہ البخاری) یعنی ربا صرف ادھار میں ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ حقیقی اور اصلی ربا جس کو عام طور پر ربا سمجھا اور کہا جاتا ہے وہ ادھار پر نفع لینے کا نام ہے اس کے سوا جتنی اقسام اس کے ساتھ ملحق کی گئی ہیں وہ سب حکما ربوٰ میں داخل ہیں۔
اس تفصیل سے چند چیزیں واضح ہوگئیں
اول یہ کہ نزول قرآن سے پہلے ربا ایک متعارف چیز تھی قرض ادھار پر بحساب میعاد زیادتی لینے کو ربا کہا جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ قرآن میں حرمت ربا نازل ہوتے ہی سب صحابہ کرام ؓ اجمعین نے اس ربا کو ترک کردیا اس کے معنے سمجھنے سمجھانے میں کسی کو نہ اشکال پیش آیا نہ اشتباہ۔
تیسرے یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے چھ چیزوں کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ ان کی باہمی بیع وشراء میں برابری شرط ہے کمی بیشی ربا میں داخل ہے اور ان میں ادھار کرنا بھی رباء میں داخل ہے، یہ چھ چیزیں سونا، چاندی، گیہوں، جو، کھجور، انگور ہیں اور اسی قانون کے تحت عرب میں مروجہ اقسام بیع مزابنہ، محاقلہ وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا، رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد میں چھ چیزوں کی بیع وشراء میں کمی بیشی اور ادھار کو تو صراحۃ ربا میں داخل کرکے قرار دے دیا تھا لیکن اس میں یہ بات محل تفقہ و اجتہاد تھی کہ یہ حکم ان چھ چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے یا دوسری اشیاء میں بھی ہے اور اس کا ضابطہ کیا ہے ؟ اس ضابطہ میں فقہاء نے اپنے اپنے غور وفکر اور اجتہاد سے مختلف صورتیں تجویز کیں اور چونکہ یہ ضابطہ خود رسول اللہ کریم ﷺ نے بیان نہ فرمایا تھا اس میں اشتباہ رہنے کے سبب حضرت فاروق اعظم نے اس پر اظہار افسوس کیا کہ کاش رسول اللہ ﷺ خود ہی اس کا کوئی ضابطہ بیان فرما دیتے تو مشتبہ حالات میں اطمینان پیدا ہوجاتا اور پھر یہ ارشاد فرمایا کہ جہاں ربا کا شبہ بھی ہو اس سے بچنا چاہئے۔
چوتھے یہ معلوم ہوا کہ اصلی اور حقیقی رباء جس کو فقہاء نے ربوالقرآن ربوالقرض کے نام سے موسوم کیا ہے وہی ہے جو عرب میں متعارف تھا یعنی قرض ادھار پر بحساب میعاد نفع لینا، دوسری قسم کے ربا جو حدیث میں بتلائے گئے وہ سب اسی ربا کے ساتھ ملحق اور اسی کے حکم میں ہیں اور جو کچھ خلاف واختلاف امت میں ہو وہ سب اسی دوسری قسم کے معاملات ربا میں ہوا پہلی قسم کا رباالقرآن کہلاتا ہے اس کے حرام ہونے میں پوری امت محمدیہ میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا،
اور آجکل جو ربا انسانی معاشیات کا مدار سمجھا جاتا ہے اور مسئلہ سود میں جو زیر بحث ہے وہ یہی ربا ہے جس کی حرمت قرآن کی سات آیات اور چالیس سے زیادہ احادیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
ربا کی دوسری قسم جو بیع وشراء کے ضمن میں ہوتی ہے نہ اس کا رواج عام ہے نہ اس میں کوئی بحث کرنے کی ضرورت ہے، یہاں تک یہ بات واضح ہوگئی، کہ قرآن وسنت میں ربا کی حقیقت کیا ہے جو مسئلہ سود کی پہلی بات ہے۔
حرمت سود کی حکمت و مصلحت
اس کے بعد دوسری بحث اس کی ہے کہ ربا کی حرمت و ممانعت کس حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اور اس میں وہ کونسی روحانی یا معاشی مضرتیں ہیں جن کی وجہ سے اسلام نے اس کو اتنا بڑا گناہ قرار دیا ہے۔
اس جگہ پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ دنیا کی ساری مخلوقات اور ان کے معاملات میں ایسی کوئی چیز نہیں جس میں کوئی بھلائی یا فائدہ نہ ہو، سانپ، بچھو، بھیڑیا، شیر اور سنکھیا جیسے زہر قاتل میں بھی انسان کے لئے ہزاروں فوائد ہیں۔
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
چوری، ڈاکہ، بدکاری، رشوت، ان میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں کچھ نہ کچھ فائدہ نہ ہو، مگر ہر مذہب وملت اور ہر مکتب فکر میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس چیز کے منافع زیادہ اور مضرتیں کم ہیں ان کو نافع ومفید کہا جاتا ہے اور جن کے مفاسد ومضرات زیادہ اور منافع کم ہیں ان کو مضر اور بیکار سمجھا جاتا ہے، قرآن کریم نے بھی شراب اور قمار کو حرام قرار دیتے ہوئے اس کا اعلان فرمایا کہ ان میں بڑے گناہ بھی ہیں اور لوگوں کے کچھ منافع بھی، ان کے گناہ کا وبال منافع کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے اس لئے ان چیزوں کو اچھا یا مفید نہیں کہا جاسکتا بلکہ ان کو نہایت مضر اور تباہ کن سمجھ کر ان سے اجتناب لازم ہے۔
رباء یعنی سود کا بھی یہی حال ہے اس میں سود خور کے لئے کچھ وقتی نفع ضرور نظر آتا ہے لیکن اس کا دنیوی اور اخروی وبال اس نفع کے مقابلہ میں نہایت شدید ہے۔
ہر چیز کے نفع و نقصان یا مفاسد ومصالح کا موازنہ کرنے میں یہ بات بھی ہر عقلمند کے نزدیک قابل نظر ہوتی ہے کہ اگر کسی چیز میں نفع محض وقتی اور ہنگامی ہو اور نقصان اس کا دیرپا یا دائمی ہو تو اس کو کوئی عقلمند مفید اشیاء کی فہرست میں شمار نہیں کرسکتا اسی طرح اگر کسی چیز کا نفع شخصی اور انفرادی ہو اور اس کا نقصان پوری ملت اور جماعت کو پہنچتا ہو تو اس کو بھی کوئی ہوشمند انسان مفید نہیں کہہ سکتا چوری اور ڈاکہ میں چور ڈاکو کا تو نفع کھلا ہوا ہے مگر وہ پوری ملت کے لئے مضر اور ان کے امن و سکون کو برباد کرنے والا ہے، اسی لئے کوئی انسان چوری اور ڈاکہ کو اچھا نہیں کہتا۔
اس تمہید کے بعد مسئلہ سود پر نظر ڈالئے تو اس میں ذرا سا غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اس میں سود خور کے وقتی اور ہنگامی نفع کے مقابلہ میں اس کا روحانی اور اخلاقی نقصان اتنا شدید ہے کہ وہ اس کو انسانیت سے نکال دیتا ہے اور یہ کہ اس کا جو وقتی نفع ہے وہ بھی صرف اس کی ذات کا نفع ہے اس کے مقابلہ میں پوری ملت کو نقصان عظیم اور معاشی بحران کا شکار ہونا پڑتا ہے لیکن دنیا کا حال یہ ہے کہ جب اس میں کوئی چیز رواج پاجاتی ہے تو اس کی خرابیاں نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور صرف اس کے فوائد سامنے رہ جاتے ہیں اگرچہ وہ فوائد کتنے ہی حقیر و ذلیل اور ہنگامی ہوں اس کے نقصانات کی طرف دھیان نہیں جاتا اگرچہ وہ کتنے ہی شدید اور عام ہوں۔
رسم و رواج طبائع انسانی کے لئے ایک کلوروفارم ہے جو اس کو بےحس بنا دیتا ہے، بہت کم افراد ہوتے ہیں جو چلے ہوئے رسم و رواج پر تحقیقی نظر ڈال کر یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس میں فائدے کتنے ہیں اور نقصان کتنا بلکہ اگر کسی کے متنبہ کرنے سے اس کے نقصانات سامنے بھی آجائیں تو پابندی رسم و رواج اس کو صحیح راستہ پر نہیں آنے دیتی۔
سود ورباء اس زمانہ میں ایک وبائی مرض کی صورت اختیار کرچکا ہے اور اس کا رواج ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اس نے انسانی فطرت کا ذائقہ بدل دیا ہے کہ کڑوے کو میٹھا سمجھنے لگی اور جو چیز پوری انسانیت کے لئے معاشی بربادی کا سبب ہے اس کو معاشی مسئلہ کا حل سمجھا جانے لگا آج اگر کوئی مفکر محقق اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اس کو دیوانہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ ہے لیکن وہ ڈاکٹر ڈاکٹر نہیں بلکہ انسانیت کا ڈاکو ہے جو کسی ملک میں وباء پھیل جانے کو اور علاج کے غیر مؤ ثر ہونے کا مشاہدہ کرنے کی بناء پر اب یہ طے کرے کہ لوگوں کو یہ سمجھائے کہ یہ مرض مرض ہی نہیں بلکہ عین شفا اور عین راحت ہے ماہر ڈاکٹر کا کام ایسے وقت میں بھی یہی ہے کہ لوگوں کو اس مرض اور اس کی مضرت سے آگاہ کرتا رہے اور علاج کی تدبیریں بتاتا رہے۔
انبیاء (علیہم السلام) اصلاح خلق کے ذمہ دار ہو کر آتے ہیں وہ کبھی اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ کوئی ان کی بات سنے گا یا نہیں وہ اگر لوگوں کے سننے اور ماننے کا انتظار کیا کرتے تو ساری دنیا کفرو شرک ہی سے آباد ہوتی، کلمہ لا الہ الا اللہ کا ماننے والا اس وقت کون تھا جب کہ خاتم الانبیاء ﷺ کو اس کی تبلیغ وتعلیم کا حکم منجانب اللہ ملا تھا ؟
سود و رباء کو اگرچہ آج کی معاشیات میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جانے لگا ہے لیکن حقیقت وہ ہے جو آج بھی بعض حکمائے یورپ نے تسلیم کی کہ وہ معاشیات کے لئے ریڑھ کی ہڈی نہیں بلکہ ریڑھ کی ہڈی میں پیدا ہوجانے والا ایک کیڑا جو اس کو کھا رہا ہے۔
مگر افسوس ہے کہ آجکل کے اہل علم وفن بھی کبھی رسم و رواج کے تنگ دائرہ سے آزاد ہو کر اس طرف نظر نہیں کرتے اور سیکڑوں برس کے تجربے بھی ان کو اس طرف متوجہ نہیں کرتے کہ سود ور با کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عام خلق خدا اور تمام ملت فقر وفاقہ اور معاشی بحران کا شکار ہو اور وہ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جائیں اور چند سرمایہ دار پوری ملت کے مال سے فائدہ اٹھا کر یا یوں کہئے کہ ملت کا خون چوس کر اپنا بدن بڑھاتے اور پالتے چلے جائیں اور حیرت ہے کہ جب کبھی ان حضرات کے سامنے اس حقیقت کو بیان کیا جاتا ہے تو اس کے جھٹلانے کے لئے ہمیں امریکہ، اور انگلینڈ کے بازاروں میں لے جاکر سود کی برکات کا مشاہدہ کرانا چاہتے ہیں اور یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ یہ لوگ سود ور باء کی بدولت کیسے پھلے اور پھولے ہیں لیکن اس کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی مردم خوروں کی کسی قوم اور ان کے عمل کی برکات کا مشاہدہ کرانے کے لئے آپ کو مردم خوروں کے محلہ میں لے جاکر یہ دکھلائے کہ یہ کتنے موٹے تازے اور تندرست ہیں اور اس سے یہ ثابت کرے کہ ان کا یہ عمل بہترین عمل ہے۔
لیکن اس کو کسی سمجھ دار آدمی سے سابقہ پڑے تو وہ کہے گا کہ تم مردم خوروں کے عمل کی برکات مردم خوروں کے محلہ میں نہیں دوسرے محلوں میں جاکر دیکھو جہاں سینکڑوں ہزاروں مردے پڑے ہوئے ہیں جن کا خون اور گوشت کھا کر یہ درندے پلے ہیں اسلام اور اسلامی شریعت کبھی ایسے عمل کو درست اور مفید نہیں مان سکتی جس کے نتیجہ میں پوری انسانیت اور ملت تباہی کا شکار ہو اور کچھ افراد یا ان کے جتھے پھولتے پھلتے چلے جائیں۔
سود وربا کی معاشی خرابیاں
سود و ربا میں اگر کوئی دوسرا عیب بھی اس کے سوا نہ ہوتا کہ اس کے نتیجہ میں چند افراد کا نفع اور پوری انسانیت کا نقصان ہے تو یہی اس کی ممانعت اور قابل نفرت ہونے کے لئے کافی تھا حالانکہ اس میں اس کے علاوہ اور بھی معاشی خرابیاں اور روحانی تباہ کاریاں پائی جاتی ہیں۔
پہلے اس کو سمجھئے کہ سود کے ذریعہ ملت کی تباہی اور خاص افراد کا نفع کیونکر ہے سود و ربا کے مہاجنی اور فرسودہ طریقہ میں تو ایسا بھونڈا پن تھا کہ عام ملت کا ضرر اور کسی خاص فرد کا نفع ہر موٹی عقل والے کو بھی سمجھ میں آجاتا تھا مگر آج کل کی نئی روشنی جس کو نئی اندھیری کہنا زیادہ موزوں ہے اس نے جس طرح شراب کو مشینوں میں صاف کرکے چوری اور ڈاکہ کی نئی نئی صورتیں ایجاد کرکے بدکاری وبے حیائی کے نئے نئے ڈھنگ نکال کر کے سب کو ایسا مہذب بنا لیا ہے کہ سطحی نظر والوں کو اس کی اندرونی خرابیاں نظر نہ آئیں اسی طرح ربا اور سود کے لئے بجائے شخصی دکانوں کے مشترک کمپنیاں بنالی ہیں جن کو بینک کہا جاتا ہے اور اب دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کے لئے یہ بتلایا جاتا ہے کہ ربا کے اس جدید طریقہ سے پوری ملت کا فائدہ ہے۔
کیونکہ عوام جو اپنے روپے سے تجارت کرنا نہیں جانتے یا قلت سرمایہ کی بنا پر نہیں کرسکتے ان سب کا روپیہ بینکوں میں جمع ہو کر ان میں سے ہر ایک کو گو قلیل ہی سہی کچھ نہ کچھ نفع سود کے نام سے مل جاتا ہے اور بڑے تاجروں کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ بینکوں سے سودی قرض لے کر بڑی تجارت کرکے فائدہ اٹھاتے ہیں اس طرح سود ایسی مبارک چیز بن گئی کہ ساری ملت کے افراد کو اس سے نفع پہنچ رہا ہے۔
لیکن ذرا انصاف سے کام لیا جائے تو یہ وہ ابلہ فریبی ہے جو شراب کی گندی بھٹیوں کو صاف ستھرے ہوٹلوں میں اور عصمت فروشی کے اڈوں کو سینماؤں اور شبینہ کلبوں میں تبدیل کرکے زہر کو تریاق اور مضر کو مفید بنا کر دکھلانے کے لئے عمل میں لائی گئی ہے اور جس طرح اہل بصیرت پر یہ بات روشن ہے کہ اخلاق سوز جرائم کو جدید غلاف پہنانے کا نتیجہ اس کے سوا نہیں کہ یہ جرائم پہلے سے زیادہ ہوگئے اور ان کا زہر پہلے سے زیادہ تیز ہوگیا اسی طرح سود و ربا کی اس نئی شکل نے سود کے چند آنے فی سیکڑہ عوام کے منہ کو لگا کر ایک طرف ان کو اپنے جرم کا شریک کرلیا اور دوسری طرف اپنے لئے اس جرم کے ارتکاب کا غیر محدود میدان فراہم کرلیا۔
کون نہیں جانتا کہ یہ چند آنے فی سیکڑہ کا سودجو سیونگ بینکوں اور ڈاکخانہ جات سے لوگوں کو ملتا ہے یہ کسی طرح ان کے معاش کی کفالت نہیں کرسکتا اس لئے وہ مجبور ہیں کہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے مزدوری یا ملازمت تلاش کریں تجارت کی طرف اول تو ان کی نظر خود نہیں جاتی اور اگر کسی کو اس طرف توجہ بھی ہوجائے تو پوری ملت کا سرمایہ بینکوں میں جمع ہو کر جو صورت تجارت کی بن گئی ہے اس میں کسی چھوٹے سرمایہ والے کو داخل ہونا خود اپنی موت کو دعوت دینے سے کم نہیں کیونکہ بینک کوئی بڑا سرمایہ قرض پر صرف اسی کو دے سکتے ہیں جس کی بازار میں اپنی ساکھ ہو اور بڑا کاروبار ہو دس لاکھ کے مالک کو ایک کروڑ قرض مل سکتا ہے وہ اپنے ذاتی روپے کی نسبت سے دس گنا زیادہ کی تجارت چلا سکتا ہے اور تھوڑے سرمایہ والے کی نہ کوئی ساکھ ہوتی ہے نہ بینک اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ ان کو دس گنا زیادہ قرض دیدیں ایک ہزار کی مالیت والے کو دس ہزار تو کیا ایک ہزار ملنا بھی مشکل ہے اور جب کہ ایک شخص جو ایک لاکھ کی ملکیت رکھنے والاہو نو لاکھ بنک کا سرمایہ لگا کر دس لاکھ کی تجارت کرتا ہے اور فرض کرلیجئے کہ اس کو ایک روپیہ فی صد نفع ہوتا ہے تو گویا اس کو اپنے ایک لاکھ پر دس فی صد نفع ہوا اس کے بالمقابل اگر کوئی شخص صرف اپنے ذاتی روپے سے ایک لاکھ کی تجارت کرتا ہے اس کو ایک لاکھ پر صرف ایک ہی فی صد کا نفع ہوگا جو اس کے ضروری اخراجات کے لئے بھی کافی نہ ہوں گے ادھر مارکیٹ میں بڑے سرمایہ والے کو خام سامان جس نرخ اور والا مفلوج اور محتاج ہو کر رہ جاتا ہے اور اگر اس کی شامت آئی اور اس نے بھی کسی ایسی تجارت میں ہاتھ ڈال دیا تو بڑے سرمایہ والا اس کو اپنی خدائی کا شریک سمجھ کر کچھ اپنی گرہ سے نقصان اٹھا کر بھی بازار کو ایسا ڈاؤن کردیتا ہے کہ چھوٹے سرمایہ والا اصل اور نفع سب سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تجارت صرف ان چند افراد میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے جو بڑے سرمایہ دار ہیں۔
(1) یہ ملت پر کتنا بڑا ظلم ہے کہ ساری ملت اصلی تجارت سے محروم ہو کر صرف بڑے سرمایہ داروں کی دست نگر بن جائے ان کو وہ جتنا نفع دینا چاہیں بخشش کے طور پر دیدیں۔
(2) اور دوسرا اس سے بڑا نقصان جس کی زد میں پورا ملک آجاتا ہے یہ ہے کہ ایسی صورت میں اشیاء کے نرخ پر ان بڑے سرمایہ دارروں کا قبضہ ہوجاتا ہے وہ گراں سے گراں فروخت کرکے اپنی گرہ مضبوط کرلیتے اور پوری ملت کی گرہیں کھلوا لیتے ہیں اور قیمت بڑھانے کے لئے جب چاہیں مال کی فروخت بند کردیتے ہیں اگر ساری ملت کا سرمایہ بنکوں کے ذریعہ کھینچ کر ان خود غرض لوگوں کی پرورش نہ کی جاتی اور یہ مجبور ہوتے کہ صرف اپنے ذاتی سرمایہ سے تجارت کریں تو نہ چھوٹے سرمایہ والوں کو یہ مصیبت پیش آتی اور نہ یہ خود غرض درندے پوری تجارت کریں تو نہ چھوٹے سرمایہ والوں کو یہ مصیبت پیش آتی اور نہ یہ خود غرض درندے پوری تجارت کے ناخدا بنتے، چھوٹے سرمایہ والوں کی تجارت کے منافع سامنے آتے تو دوسروں کا حوصلہ بڑہتا، تجارت کا کاروبار عام ہوتا جس سے ہر ایک کا اسٹاف علیحدہ ہوتا جس سے ہزاروں حاجت مندوں کی روزی پیدا ہوتی اور تجارتی نفع بھی عام ہوتا اور اشیاء کی ارزانی پر بھی یقینی اثر پڑتا کیونکہ باہمی مقابلہ (کمپٹیشن) ہی ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ کوئی آدمی اس پر تیار ہوتا ہے کہ اپنا نفع کم کرلے، اس عیارانہ طریق کار نے پوری قوم کو ایک مہلک بیماری لگا دی اور دوسرے اس کی ذہنیت خراب کردی کہ اس بیماری ہی کو شفا سمجھے۔
(3) بنکوں کے سود سے ملت کا ایک تیسرا معاشی نقصان اور دیکھئے کہ جس شخص کا سرمایہ دس ہزار ہے اور وہ بنک سے سودی قرض لے کر ایک لاکھ کا بیوپار کرتا ہے اگر کہیں اس کا سرمایہ ڈوب گیا اور تجارت میں اس کو نقصان پہنچ گیا اور وہ دیوالیہ ہوگیا تو غور کیجئے کہ نقصان صرف دس فی صد تو اس پر پڑا باقی نوّے فی صد نقصان پوری ملت کا ہوا جن کا سرمایہ بنک سے لے کر اس نے لگایا تھا اگر بنک نے دیوالیہ کے نقصان کو سردست خود ہی برداشت کرلیا تو یہ ظاہر ہے کہ بنک تو قوم کی جیب ہے اس کا نقصان انجام کار قوم پر عائد ہوگا جس کا حاصل یہ ہوا کہ سرمایہ دار کو جب تک نفع ہوتا رہا تو نفع کا وہ تنہا مالک تھا اس میں ملت کے لئے کچھ نہ تھا یا برائے نام تھا اور جب نقصان آیا تو نوّے فی صد نقصان پوری ملت پر پڑگیا۔
(4) سود سے ایک معاشی نقصان یہ بھی ہے کہ سودخور جب گھاٹے میں آجائے تو پھر وہ پنپنے کے قابل نہیں رہتا کیونکہ اتنا سرمایہ تو تھا نہیں جس کے نقصان کو یہ برداشت کرسکے، نقصان کے وقت اس پر دوہری مصیبت ہوتی ہے ایک تو اپنا نفع اور سرمایہ گیا اور اوپر سے بنک کے قرض میں دب گیا جس کی ادائیگی کے لئے اس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں اور بےسود کی تجارت میں اگر سارا سرمایہ بھی کسی وقت چلا جائے تو فقیر ہی ہوگا مقروض نہ ہوگا۔
1954 ء میں پاکستان میں روئی کے بیوپار پر قرآنی ارشاد کے مطابق محاق کی آفت آئی اور حکومت نے کروڑوں روپے کا نقصان اٹھا کر تاجروں کو سنبھالا مگر کسی نے اس پر غور نہیں کیا کہ وہ سب سود کی نحوست تھی کیونکہ کاٹن کے تاجروں نے اس کاروبار میں بیشتر سرمایہ بنکوں کا لگایا ہوا تھا اپنا سرمایہ برائے نام تھا بقضائے خداوندی روئی کا بازار اتنا گرگیا کہ اس کا دام ایک سو پچیس سے گر کر دس پر آگئے، تاجر اس قابل نہ رہے کہ بینکوں میں مارجن پوری کرنے کے لئے روپیہ واپس دیں مجبور ہو کر مارکیٹ بند کردی گئی اور حکومت سے فریاد کی حکومت نے دس کے بجائے نوّے کے دام لگا کر خود مال خریدا اور کروڑوں روپیہ کا نقصان برداشت کرکے ان تاجروں کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا حکومت کا روپیہ کس کا تھا وہی بیچاری غریب ملت وقوم کا غرض بینکوں کے کاروبار کا کھلا ہوا نتیجہ یہ ہے کہ پوری ملت کے سرمایہ سے چند افراد نفع اٹھاتے ہیں اور جہاں نقصان ہوجائے تو وہ پوری قوم وملت پر پڑے۔
اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ معارف القرآن جلد سے پڑہ لیں
Top