Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 274
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال بِالَّيْلِ : رات میں وَالنَّهَارِ : اور دن سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر فَلَھُمْ : پس ان کے لیے اَجْرُھُمْ : ان کا اجر عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو لوگ اپنے مال رات اور دن، پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے اور نہ ان کے لیے خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اس آیت میں رات اور دن، پوشیدہ اور علانیہ میں جو مناسبت اور تقابل ہے وہ ملحوظ رہے۔ اوقات بھی سب احاطہ میں آگئے ہیں۔ اور حالتیں بھی دونوں اس میں جمع ہوگئی ہیں۔ نیز اہل ایمان کے اندر انفاق کے لیے جو جوش ہونا چاہئے اسلوب کلام سے وہ خود بخود ابلا پڑ رہا ہے۔ علاوہ بریں انفاق کا خدا کے ہاں جو صلہ ہے وہ بھی پورا پورا بیان ہوگیا ہے یہ آیت انفاق کا سلسلے میں خاتمہ باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگلی آیات 275 تا 283 کا مضمون : انفق کے مضمون کے بعد اب آگے سود کی حرمت کا بیان ہوا۔ سود کا تعلق چونکہ قرض سے ہوتا ہے اس وجہ سے قرض کے لین دین سے متعلق جو ضروری ہدایات ہیں اسی سلسلے میں وہ بھی دی گئیں۔ رہن بھی اسے سی تعلق رکھنے والی چیز ہے اس وجہ سے اس کے ساتھ اس کا حکم بھی بیان ہوا۔ سود کے متعلق یہ امر محتاجِ بیان نہیں ہے کہ یہ انفاق کا بالکل ضد ہے۔ انفاق کی محرک بلند ہمتی، ہمدردی، فیاضی، ایثار، رحم دلی ہے اور سود کی محرک بزدلی، خود غرضی، سنگ دلی اور دوسروں کی مشکلات سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ہے۔ انفاق ضرورت مندوں کو سہارا دینا چاہتا ہے اور سود گرے ہوؤوں کا خون چوسنا چاہتا ہے۔ دونوں میں نسبت ضدین کی ہے اور فطرت کا اصول یہ ہے کہ کسی شے کی حقیقت اس وقت تک اچھی طرح واضح نہیں ہوتی جب تک اس کے ساتھ اس کے ضد کا بیان نہ ہو۔ اسی اصول کی بنا پر قرآن نے اکثر چیزوں کے بیان میں یہ طریقہ ملحوظ رکھا ہے کہ ضدین کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے۔ مثلاً اہل ایمان کا بیان ہے تو اس کے ساتھ اہل کفر کا بھی بیان ہوا ہے۔ جنت کا ذکر آیا ہے تو اکثر اس کے ساتھ دوزخ کا بھی ذکر ہوا ہے۔ یہاں تک کہ یہ چیز قرآن کے نظم کی ایک خصوصیت بن گئی ہے۔ اسی اصول پر قرآن نے انفاق کے ساتھ اکثر یا تو بخل کا ذکر کیا ہے یا سود خوری کا۔ یہاں اس کا ذکر انفاق کے بعد آیا ہے۔ سورة آل عمران آیت میں انفاق کے بیان سے پہلے ہے۔ لیکن مقصود دونوں جگہ ایک ہی ہے کہ ایک کی تاریکی دوسرے کی روشنی کو اور ایک کا جمال دوسرے کی بدصورتی کو بےنقاب کرسکے۔ اس نظم کلام سے حکمت کے بعض ایسے گوشے آشکارا ہوجاتے ہیں جو کسی اور طریقے سے آشکارا نہیں ہوسکتے۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیت کی تلاوت فرمائیے۔
Top