Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں الرِّبٰوا : سود لَا يَقُوْمُوْنَ : نہ کھڑے ہوں گے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَقُوْمُ : کھڑا ہوتا ہے الَّذِيْ : وہ شخص جو يَتَخَبَّطُهُ : اس کے حواس کھو دئیے ہوں الشَّيْطٰنُ : شیطان مِنَ الْمَسِّ : چھونے سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَا : در حقیقت الْبَيْعُ : تجارت مِثْلُ : مانند الرِّبٰوا : سود وَاَحَلَّ : حالانکہ حلال کیا اللّٰهُ : اللہ الْبَيْعَ : تجارت وَحَرَّمَ : اور حرام کیا الرِّبٰوا : سود فَمَنْ : پس جس جَآءَهٗ : پہنچے اس کو مَوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب فَانْتَهٰى : پھر وہ باز آگیا فَلَهٗ : تو اس کے لیے مَا سَلَفَ : جو ہوچکا وَاَمْرُهٗٓ : اور اس کا معاملہ اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر لوٹے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ کھاتے ہیں سود وہ نہیں کھڑے ہوں گے مگر جیسے کہ کھڑا ہوتا ہے وہ شخص جسے شیطان لپٹ کر مخبوط بنا دے، یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ بیع تو سود ہی کی طرح سے ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال قرار دیا اور سود کو حرام قرار دیا، سو جس کے پاس آگئی نصیحت اس کے رب کی طرف سے پھر وہ باز آگیا تو اس کے لیے وہ ہے جو گزر چکا، اور اس کا معاملہ اللہ کی طرف ہے، اور جو شخص پھر عود کرے سو یہ لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
سود خوروں کی مذمت ان آیات میں سود خوروں کی مذمت بیان فرمائی ہے اور ان کا حال بیان فرمایا ہے جو قیامت کے دن ان کو پیش آئے گا یعنی وہ قیامت کے دن قبروں سے اس طرح حیران اور مدہوش کھڑے ہوں گے جیسے کسی کو شیطان لپٹ چپٹ جائے اور وہ اس کی وجہ سے مخبوط ہوجائے یعنی اس کے ہوش خطا ہوجائیں، مبہوت ہوجائے۔ بہکی بہکی باتیں کرے اس کا دل اور دماغ کام نہ کرسکے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جس کے پیٹ بیوت یعنی گھروں کی طرح سے تھے ان میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو ان کے پیٹوں کے باہر سے نظر آ رہے تھے۔ میں نے کہا، اے جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ سود کھانے والے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 246 بحوالہ احمد و ابن ماجہ) جس کے سامنے ایک سانپ ہو اس کی حیرانی اور پریشانی کا تصور کرو، پھر یہ سوچو کہ اگر کسی کے پیٹ میں ایک سانپ ہو تو اس کا کیا حال ہوگا اور اس کے بعد یہ غور کرو کہ جس کا پیٹ گھر کے برابر ہو اور اس میں سانپ بھرے ہوئے ہوں اس کا کیا حال ہوگا اور کیا ہوش برقرار رہے گا۔ سود خوروں کی قیامت کے دن کی حالت بتا کر یہ بتایا کہ یہ لوگ سود کو حلال قرار دینے کے لیے یوں کہتے ہیں کہ سود میں اور بیع میں فرق کیا ہے کاروبار کرنے میں بھی زیادہ مال ملتا ہے۔ اور سود کے لین دین میں بھی زیادہ مال ملتا ہے۔ لہٰذا بیع کی طرح سود لینا بھی صحیح ہوا۔ اس بات کو سود لینے والے مختلف الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔ بعض لوگ اس کو نفع کے نام سے کھا جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے پیسے کا نفع ہے حالانکہ کسی چیز کا نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدل جاتی اور حرام حلال نہیں ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے وہ ہمیشہ حرام ہی رہے گا، جب سے بینکوں کا نظام جاری ہوا ہے لوگوں کو سود لینے کی عادت ہوگئی ہے اور جب تک سود نہ کھائیں ان کے نفس کو تسلی ہی نہیں ہوتی اور علماء کو خصوصیت کے ساتھ ہدف ملامت بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مولویوں نے قوم کو سود لینے سے اور سودی کاروبار سے روک دیا جس کی وجہ سے قوم بہت نیچے چلی گئی اور دوسری قومیں سودی کار و بار کرکے بام عروج پر پہنچ گئیں۔ بھلا مولوی کی کیا مجال ہے کہ وہ اپنے پاس سے خود کچھ کہے۔ وہ تو حکم سنانے والا ہے۔ حلال چیز کو حرام قرار دینا اس کے عہدہ میں کب ہے۔ ؟ جن لوگوں کو حرام کا ذوق ہے وہ اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر اعتراض کرتے ہیں کہ بیع اور سود میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا) کہ اللہ نے بیع کو حلال قرار دیا اور سود کو حرام قرار دیا پھر کیسے فرق نہیں ہے ؟ ایک چیز حلال ہے دوسری چیز حرام ہے یہ بہت بڑا فرق ہے اور بیع اور سود کی حقیقت میں بھی فرق ہے۔ بیع تو مال سے مال کے مبادلہ کو کہا جاتا ہے پوری قیمت کے بدلہ مال آجاتا ہے اور سود میں یہ ہوتا ہے کہ جتنا قرض دیا وہ پورا وصول کرلیا جاتا ہے اور اس کے سوا الگ سے بھی زائد رقم لی جاتی ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ ہر وہ قرض جو ذرا سا بھی زائد کچھ لے کر آئے تو وہ سود ہے۔ (کل قرض جرنفعا فھو ربوا) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو کچھ قرض دے پھر قرض لینے والا کچھ ہدیہ دے یا اپنے جانور پر سوار کرلے تو نہ سوار ہو نہ ہدیہ قبول کرے۔ ہاں اگر ان کے درمیان اس سے پہلے ہدیہ لینے دینے کا تعلق تھا تو وہ اور بات ہے۔ (رواہ ابن ماجہ البیہقی فی شعب الایمان کمافی المشکوٰۃ ص 246) حضرت ابو بردہ ؓ نے بیان فرمایا کہ میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے ملاقات کی انہوں نے فرمایا کہ تم ایسی سر زمین میں رہتے ہو جہاں سود کا لین دین رواج پائے ہوئے ہے جب کسی پر کچھ قرض ہو پھر وہ تمہیں بھوسہ کی ایک گٹھڑی یا جو کی گٹھڑی یا رسی میں بندھی ہوئی سبزی بھی دینا چاہے تو اس کو مت لینا کیونکہ وہ سود ہے۔ (رواہ البخاری) حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کی احتیاط کا تو یہ عالم تھا کہ جب کسی قرضدار سے تقاضا کرنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے تو اس کی دیوار کے سایہ میں کھڑے نہ ہوتے تھے تاکہ قرضدار کی کسی چیز سے انتفاع نہ ہو جس کو قرض دیا ہو اس سے ہدیہ لینے کی ممانعت سے اس بات کا جواب بھی نکل آیا کہ جو شخص سود دیتا ہے۔ وہ اپنی خوشی سے دیتا ہے پھر اس کے لینے پر کیوں پابندی ہے ؟ ہدیہ لینے کی ممانعت سے معلوم ہوا کہ خوشی سے دینے پر بھی سود لینا حلال نہیں ہے۔ جبکہ قرضدار سے ہدیہ لینا بھی حلال نہیں ہے تو سود کے نام سے اور سود کے عنوان سے جو کچھ طے کر کے لیا جائے اس کے حلال ہونے کا ذکر ہی کیا ہے ؟ باہمی رضا مندی سے نہ سود حلال ہے نہ رشوت حلال ہے نہ زنا حلال ہے۔ سود کا لین دین پرانی امتوں میں بھی حرام تھا۔ سورة نساء میں فرمایا : (فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَھُمْ وَ بِصَدِّھِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَّ اَخْذِھِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُھُوْا عَنْہُ وَ اَکْلِھِمْ اَمْوَال النَّاس بالْبَاطِلِ وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ مِنْھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا) (سو یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر پاکیزہ چیزیں حرام کردیں جو ان کے لیے حلال تھیں اور اس وجہ سے کہ وہ کثرت سے اللہ کے راستہ سے روکنے کا کام کرتے تھے اور ان کے سود لینے کی وجہ سے حالانکہ ان کو اس سے روکا گیا تھا، اور باطل طریقوں سے لوگوں کے مال کھانے کی وجہ سے، اور ہم نے ان کے لیے جو ان میں سے کفر پر ثابت رہے، درد ناک عذاب تیار کیا ہے) چونکہ سودی لین دین میں غریبوں پر ظلم ہوتا ہے۔ اور مہاجن لوگ گھر بیٹھے ہوئے عوام کا خون چوستے ہیں اس لیے سود کھانے کی وہ سزا جو عالم برزخ میں ہے رسول اللہ ﷺ کو ایک خواب میں یوں دکھائی گئی کہ ایک شخص خون کی نہر میں کھڑا ہے اور نہر کے کنارے ایک آدمی ہے جس کے سامنے پتھر ہیں جو شخص نہر میں ہے وہ نکلنا چاہتا ہے تو یہ شخص اس کے منہ پر پتھر مار دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اسی جگہ چلا جاتا ہے جہاں پہلے تھا جب بھی وہ شخص نکلنا چاہتا ہے تو یہ شخص اس کے منہ پر پتھر مار دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی جگہ چلا جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دونوں ساتھیوں سے پوچھا جن میں ایک جبریل اور دوسرے میکائیل تھے ( علیہ السلام) کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟ ان دونوں نے بتایا کہ یہ شخص جو نہر کے اندر ہے سود کھانے والا ہے۔ (صحیح بخاری ص 185 ج 1) کیونکہ سود کا لین دین بہت ہی بڑا گناہ ہے اس لیے سود سے متعلق ہر شخص پر لعنت کی گئی ہے۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر اور اس کی لکھا پڑھی کرنے والے پر اور اس کے گواہوں پر، اور فرمایا کہ یہ لوگ گناہ میں سب برابر ہیں۔ (رواہ مسلم ص 27 ج 1) جو لوگ سودی کاغذات لکھتے ہیں اس کی فائلیں بنا کر رکھتے ہیں سودی لین دین کی فرموں اور کمپنیوں اور بینکوں میں کام کرتے ہیں اور جو سود لیتے ہیں اور سود دیتے ہیں وہ اپنے بارے میں غور کرلیں کہ لعنت کے کام میں مشغول ہیں۔ گناہ کی مدد بھی حرام ہے اور جس نوکری میں گناہ کرنا پڑے وہ بھی حرام ہے اور اس کی تنخواہ بھی حرام ہے۔ سود کا لین دین کرنے والوں اور زیادہ آمدنی کی خواہش رکھنے والوں کو مفتیوں کی بات ناگوار تو لگتی ہے مگر حق تو کہنا ہی پڑتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن حنظلہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سود کا ایک درہم جو انسان کھالے اور وہ جانتا ہو کہ یہ سود کا ہے تو یہ چھتیس (36) مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ (رواہ احمد والدار قطنی مشکوٰۃ ص 246) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سود کے ستر حصے ہیں ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ برا کام کرے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 246) بیع کی حلت اور سود کی حرمت بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا : (فَمَنْ جَآءَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ) کہ جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آگئی سو جو کچھ گزر چکا وہ اسی کے لیے ہے یعنی اب تک جو سود لیا اس پر مؤاخذہ نہ ہوگا قال النسفی فی مدارک التنزیل ص 138 ج 1 فلا یؤاخذ بما معنی منہ لأنہ اخذ قبل نزول التحریم یعنی گزشتہ عمل پر اس کا مؤاخذہ نہ ہوگا کیونکہ اس نے حرمت نازل ہونے سے پہلے لیا ہے۔ صاحب روح المعانی ص 51 ج 3 لکھتے ہیں کہ یہ سود واپس نہ کروایا جائے گا کیونکہ حرمت نازل ہونے سے پہلے حرمت کا قانون نافذ نہیں تھا۔ لہٰذا معاف کردیا گیا۔ پھر فرمایا (وَ اَمْرُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ ) کہ نصیحت اور موعظت کے بعد جس نے توبہ کرلی اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اگر سچے دل سے توبہ کی ہے تو اللہ کے یہاں قبول ہوگی۔ اور جھوٹی توبہ کی ہے تو نفع نہیں دے گی، ظاہری توبہ کے بعد بندوں کو بدگمانی کا کوئی موقع نہیں۔ اور جس نے پہلی بات کی طرف عود کیا یعنی سود کو حلال بنایا اور یوں کہا کہ وہ توبیع کی طرح سے ہے تو ایسا کہنے والے دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ تفسیر مدارک و روح المعانی کی تصریح سے معلوم ہوا کہ فَلَہٗ مَا سَلَفَ نزول تحریم سے پہلے جو سود لیا تھا اس سے متعلق ہے۔ بعد تحریم کے بعد جو شخص سود لے گا وہ واپس ہوگا۔
Top