Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں الرِّبٰوا : سود لَا يَقُوْمُوْنَ : نہ کھڑے ہوں گے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَقُوْمُ : کھڑا ہوتا ہے الَّذِيْ : وہ شخص جو يَتَخَبَّطُهُ : اس کے حواس کھو دئیے ہوں الشَّيْطٰنُ : شیطان مِنَ الْمَسِّ : چھونے سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَا : در حقیقت الْبَيْعُ : تجارت مِثْلُ : مانند الرِّبٰوا : سود وَاَحَلَّ : حالانکہ حلال کیا اللّٰهُ : اللہ الْبَيْعَ : تجارت وَحَرَّمَ : اور حرام کیا الرِّبٰوا : سود فَمَنْ : پس جس جَآءَهٗ : پہنچے اس کو مَوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب فَانْتَهٰى : پھر وہ باز آگیا فَلَهٗ : تو اس کے لیے مَا سَلَفَ : جو ہوچکا وَاَمْرُهٗٓ : اور اس کا معاملہ اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر لوٹے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنادیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سود بیچنا بھی (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام تو جس کے پاس خدا کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا اور (قیامت میں) اس کا معاملہ خدا کے سپرد اور جو پھر لینے لگے گا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں جلتے رہیں گے
احکام ربا (سود) ۔ قال تعالی، الذین یاکلون الربو۔۔۔ الی۔۔۔ لایظلمون۔ ربط) ۔ گزشتہ آیات میں خیرات اور صدقات کا بیان تھا اب آئندہ آیات میں سود کے احکام ذکر فرماتے ہیں جو کہ صدقات اور خیرات کی ضد اور نقیض ہے اس لیے کہ صدقہ اور خیرات سے اخلاق اور مروت اور خلق اللہ کی نفع رسانی میں ترقی ہوتی ہے اور سود میں سراسر بےمروتی اور ضرر رسانی ہے صدقہ اور خیرات میں صلہ رحمی اور غریبوں کی امداد ہوتی ہے اور سود میں سخت دلی اور غریبوں زیادتی ہوتی ہے اس لیے صدقہ کی فضیلت کے بعد سود کی مذمت اور حرمت کا بیان نہایت مناسب ہوا تاکہ سود کی مذمت اور حرمت سے صدقہ کی فضیلت اور پختہ ہوجائے اور یہ معلوم ہوجائے کہ جس درجہ سود میں برائی ہے اسی درجہ خیرات میں بھلائی ہے ایک ضد کی قباحت سے دوسری ضد کا حسن و جمال واضح ہوتا ہے نیز صدقہ سے مال ظاہر میں گھٹتا ہے اور حقیقت میں بڑھتا ہے اور سود میں مال ظاہر میں تو بڑھتا ہے اور حقیقت میں گھٹتا ہے نیز گزشتہ آیات میں صدقہ کرنے والوں کا حال بیان فرمایا کہ دنیا اور آخرت میں ان کو خیرات کا عوض اور ثواب ملے گا اور آخرت میں ان کو کسی قسم کا رنج وغم نہ ہوگا اب آئندہ آیات میں سود خواروں کا حال بیان فرماتے ہیں کہ وہ قبروں سے مدہوش اور وحشت زدہ اٹھیں گے اس لیے کہ ان لوگوں نے حلال اور حرام کو یکساں کردیا اور سود اور خرید وفروخت کو برابر سمجھا اور ظاہر ہے کہ حلال اور حرام اور جائز اور ناجائز کو یکساں کردینا مخبوط الحواس آدمی کا کام ہے اس لیے سود خواروں کی سزا یہ تجویز ہوئی کہ قیامت کے دن قبروں سے آسیب زدہ اور مجنوں کی طرح اٹھیں گے۔ چناچہ فرماتے ہیں جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اپنی قبروں سے نہیں کھڑے ہوں گے مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے وہ شخص جس کو جنات نے خبطی اور بدحواس بنادیا ہو لپٹ کر سود خوار مال کے عشق اور خبط میں گرفتار رہا اور اسی خبط اور خیال میں مرا اور اسی خبط کی حالت میں اس کا حشر ہوگا یہ سزا اس لیے تجویز ہوئی کہ یہ سود خوار حلال اور حرام کو ایک کرنا چاہتے ہیں اور سود کو حلال کرنے کے لیے استدلال میں یہ کہتے ہیں کہ بیع یعنی خریدوفروخت اور سوداگری بھی تو مثل سود کے ہے جس طرح بیع میں زیادتی اور نفع ہوتا ہے اسی طرح سود میں بھی زیادتی اور نفع ہوتا ہے دونوں میں فرق نہیں پھر کیا وجہ کہ بیع تو جائز اور سود حرام ہو۔ ف) ۔ اصل کلام اس طرح تھا کہ انما الربا مثل البیع یعنی سود مثل سوداگری کے ہے لیکن کفار نے حرمت ربوا کی نفی میں مبالغہ کرنے کے لیے اصل کلام کا عکس کردیا اور یہ کہا کہ انما البیع مثل الربوا یعنی بیع حلال ہونے میں مثل سود کے ہے گویا کہ حلت یعنی حلال ہونے میں سود اصل ہے اور بیع حلال ہونے میں مثل سود کے ہے گویا کہ حلت یعنی حلال ہونے میں سود کے مشابہ ہے غرض یہ کہ ان لوگوں نے فقط اس وجہ سے کہ دونوں میں نفع مقصود ہوتا ہے دونوں کو حلال سمجھ لیا حالانکہ بیع اور ربوا میں بڑا فرق ہے جو اہل علم پر مخفی نہیں اور اگر بالفرض والتقدیر کوئی فرق بھی نہ ہوتا تو فرق کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ اللہ تعالیٰ جو کہ مالک مطلق اور حاکم مطلق ہے اس نے بیع اور تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ مالک مطلق ہیں تو ان کو اختیار ہے کہ جس چیز کو چاہیں حلال کریں اور جس چیز کو چاہیں حرام کریں کسی کو دریافت کرنے کا بھی حق نہیں لایسئل عما یفعل وھم یسئلون۔ اوست سلطاں آں چہ خواہد آں کند۔ بیع اور سود میں فرق۔ بیع میں جو نفع اور زیادتی ہوتی ہے وہ مال کے مقابلہ اور عوض میں ہوتی ہے اور سود میں جو نفع اور زیادتی ہوتی ہے وہ بلاعوض کے ہوتی ہے مثلا کسی نے ایک درہم کی قیمت کا کپڑا دو درہم میں فروخت کیا تو یہ دونوں درہم کپرے کے عوض اور مقابل سمجھیجائیں گے اور اگر ایک درہم کو دو درہم کے مقابلہ میں فروخت کیا تو ایک درہم تو ایک درہم کے مقابلہ میں ہوجائے گا اور دوسرا درہم بلاعوض اور کسی مقابلہ کے ہوگا کیونکہ سب دراہم ایک جنس ہیں اور کپڑا اور درہم علیحدہ علیحدہ قسم ہیں ہر ایک کا نفع اور ہرا یک کی غرض بھی علیحدہ علیحدہ ہے اس لیے کپڑے اور درہم میں فی نفسہ موازانہ اور مقابلہ ناممکن اور محال ہے خریدوفروخت میں مقابلہ حاجت اور ضرورت اور رغبت کا ہوتا ہے کسی کی ضرورت اور رغبت کچھ ہے اور کسی کی کچھ کسی کو ایک درہم کی اتنی حاجت ہوتی ہے کہ دس روپیہ کا کپڑا اس کی نظر میں کچھ نہیں ہوتا اور کسی کو ایک کپڑے کی جس کی قیمت بازار میں ایک درہم ہے اتنی حاجت ہوتی ہے کہ دس رہم میں بھی خریدے تو وہ سود نہ ہوگا یعنی یہ نفع خالی از عوض نہ ہوگا کیونکہ کپڑے اور روپیہ میں فی نفسہ تو موازانہ اور مساوات ممکن نہیں اس لیے کہ جنس مختلف ہے لہذا معیار اور پیمانہ اپنی اپنی ضرورت اور رغبت ہوگی اور ضرورتوں اور رغبتوں میں بےانتہاتفاوت ہے پس اگر ایک روپیہ کی قیمت کا کپڑا دس روپیہ میں فروخت کیا تو مجموع قیمت کا مجموع مال سے مقابلہ کیا جائے گا اجزاء کا اجزاء سے مقابلہ نہ ہوگا اور اگر ایک درہم کو دو درہم کے مقابلہ میں فروخت کیا تویہاں مقابلہ مجموعہ کا مجموعہ سے نہ ہوگا بلکہ اجزاء کا اجزاء سے مقابلہ ہوگا ہم جنس ہونے کی وجہ سے اجزاء میں مساوات اور موازنہ ممکن ہے لہذا ایک درہم ایک درہم کے مقابلہ میں ہوگا اور دوسرا درہم خالی از عوض ہوکرسود ہوجائے گا جس کو شریعت نے حرام کیا ہے بیع میں قابل معاوضہ چیزوں کا مبادلہ ہوتا ہے اور ربا اصل قرض پر کچھ زیادہ لینے کو کہتے ہیں کہ جو مہلت اور تاخیر وقت کے عوض میں زیادتی کی جاتی ہے اور تاخیر وقت اور مہلت نہ عقلا کوئی مال ہے اور نہ عرفا کوئی ایسی چیز ہے کہ جس پر قبضہ کیا جاسکے اور عوض اور مقابل بن سکے اور جو چیز بلاعوض وبدل حاصل کی جائے وہ باطل اور ناحق ہے پس جس شخص نے بیع اور سود کو برابر قرار دیا اور اس نے مقابلہ اور معاوضہ میں خبط اور بدحواسی سے کام لیا اس لیے کہ اس کا انجام یہ ہوا کہ سودخوار قبر سے دیوانہ اور مخبوط الحواس بناکراٹھایاجائے گا ہر عمل کی جزاء اس کے مناسب ہوتی ہے۔ سود خوار کے استدلال کی ایک مثال) ۔ سود خوار کا اپنے استدلال میں یہ کہنا کہ جس طرح بیع میں نفع اور زیادتی ہوتی ہے اسی طرح سود میں بھی نفع اور زیادتی ہوتی ہے دونوں میں کوئی فرق نہیں اس استدلال کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی یہ کہے کہ جیسے بیوی عورت ہے اسی طرح ماں بھی عورت ہے پھر کیا وجہ ہے کہ بیوی تو حلال ہے اور ماں حرام ہے۔ یا یوں کہے کہ کتاب بھی بکری کی طرح ایک جانور ہے کیا وجہ ہے کہ ایک حلال ہے اور ایک حرام ہے۔ ربا کی اقسام) ۔ ربا کی دو قسمیں ہیں، ایک ربانسئیۃ اور ایک رباالفضل۔ ربا نسئیۃ تو وہ سود ہے جو قرض اور ادھار میں ہو زمانہ جاہلیت میں اسی قسم کاربوا شائع تھا وہ یہ تھا کہ کوئی شخص کسی کو معین میعاد پر قرض دیتا ہے اور اس پر کچھ ماہوار مقرر کرلیتا ہے پھر جب میعاد معین پر وہ روپیہ ادا نہ ہوتا تو قرض خواہ اصل میں کچھ اور بڑھا کر اس کو مہلت دے دیتا ہے اور کبھی سود کو اصل میں جمع کرکے اس پر سود لگاتا یہاں تک کہ سود اصل قرض سے اضعافا مضاعفہ دو چند اور سہ چند اور چہار چند ہوجاتا اور ربا فضل وہ سود ہے کہ جو ایک جنس کی چیزوں میں کمی اور زیادتی کے ساتھ مبادلہ کرنے میں ہو مثلا ایک سیر گیہوں کو ڈیڑھ سیر گیہوں کے معاوضہ میں فروخت کیا جائے یہ ربا فضل ہے آیت قرآنی کا اصل نزول باجماع مفسرین ربا کی قسم اول میں ہوا مگر آیت اپنے عموم کی وجہ سے ربا کی قسم ثانی کو بھی شامل ہے جس کی تفصیل احادیث متواترہ سے معلوم ہوئی اور مزید تفصیل اقوال صحابہ اور تابعین سے معلوم ہوئی اور احادیث میں ربا کی جس قدر صورتیں مذکور ہیں آیت قرآنی اپنے عموم کی وجہ سے سب کو شامل ہے۔ سود کے حرام ہونے کی وجہ) ۔ تمام عقلاء کا اس پر اتفاق ہے کہ ضرورت مند کی اعانت اور امداد عین مروت اور کمال انسانیت ہے اور غریب اور فقیر کی ضرورت اور حاجت کو تحصیل زر اور حصول منفعت کا ذریعہ بنانا کمال دنائت اور غایت خست ہے سوائے بخیلوں اور خود غرضوں کے کسی کا اس مسئلہ میں خلاف نہیں۔ (1) ۔ سودخوار بلاکسی عوض کے اپنے روپیہ سے نفع حاصل کرنا چاہتا ہے جب اصل روپیہ بعینہ اور بتمامہ واپس آگیا تو یہ زائد روپیہ کس چیز کا معاوضہ ہے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ یہ معاوضہ اس مہلت اور تاخیر کا ہے جو قرض خواہ کی طرف سے مقروں کو ملی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ زمانہ اور مدت کوئی مال نہیں کہ جس کے معاوضہ میں روپیہ لیاجاسکے۔ (2) ۔ نیز سود آدمی کو بےرحم بنا دیتا ہے اور بےایمانی اور فریب دہی کے عجیب عجیب طریقے اس کے نفس میں القاء کرتا ہے حتی کہ آدمی کو آدمیت سے خارج کردیتا ہے۔ (3) ۔ نیز سود سے ملک کی ترقی پر اثر پڑتا ہے اس لیے کہ جب مال دار سود کے ذریعہ سے اپنا مال بڑھائیں گے تو تجارت اور زراعت اور صنعت اور حرفت پر روپیہ نہیں لگائیں گے جس پر ملک کی ترقی کا مدار ہے اس شخص کو بلامشقت اور بلامحنت اگرچہ فائدہ ہوجائے گا مگر یہ فائدہ انفرادی اور شخصی ہوگا اجتماعی نہ ہوگا۔ (4) ۔ سودخواری سے صلہ رحمی اور انسانی ہمدردی اور مروت کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ (5) سود خواری کی وجہ سے مال دنیاوی کی محبت قلب میں اس درجہ راسخ ہوجاتی ہے کہ طمع اور حرص اس کو ہر عیب اور معصیت سے اندھا بنادیتی ہے۔ (6) ۔ نیز تجارت کا دارومدار باہمی رضامندی پر ہے کماقال تعالی، الاان تکون تجارۃ عن تراض منکم اور اسی رضامندی کی تکمیل کے لی شریعت نے خریدوفروخت میں خیار عیب اور خیار شرط اور خیار روئیت کو مشروع کیا۔ تجارت میں جو شخص مثلا غلہ خریدتا ہے تو وہ اپنے کھانے کے لیے یا کاشت کے لیے یافروخت کرنے کے لیے خریدتا ہے اور یہ سب حقیقی منافع اور واقعی فوائد ہیں جن کا حصول کے لیے روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اور بائع اور مشتری کے اختیار اور ان کی رضاء ورغبت سے یہ معاملہ ہوتا ہے اور سود کا جو بھی معاملہ ہوتا ہے وہ مجبوری اور ناگواری کے ساتھ ہوتا ہے جو شخص بھی سوروپیہ لے کر ایک سودس دینے کا معاملہ کرتا ہے وہ ہرگز ہرگز خوشی سے نہیں کرتا بلکہ مجبورا اور لاچار ہو کر بصد تلخی اور ناگواری کرتا ہے اور دل سے یقین رکھتا ہے کہ اس سودی معاملہ سے مجھ کو حقیقی اور واقعی فوائد حاصل نہیں ہوئے آئندہ کے موہوم منافع کی امید پر سودی قرض لیتا ہے غرض یہ کہ سود خواری انسانی ہمدردی اور ترحم کے بھی خلاف ہے اور مصلحت عامہ کے بھی خلاف ہے اور اصول تجارت کے بھی خلاف ہے کہ معاملہ کی بنا پر مجبوری اور لاچاری اور تلخی اور ناگواری پر ہے اس معاملہ میں دل بجائے شادمانی کے پریشانی محسوس کرتا ہے اور اس سودی قرض کو اپنی گردن پر ایک بوجھ سمجھتا ہے اور اس کے اظہار سے شرماتا ہے اور اخیر میں پچھتاتا ہے اور اجتماع اور تمدن کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور روحانی اور اخلاقی مفاسد کا ذریعہ ہے جو شریعت کی نگاہ میں نہایت سخت اور بالکل ہی ناقابل درگذر ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ربا کو حرام کیا جو کمال ترحم اور کمال مصلحت پر مبنی ہے۔ (7) ۔ نیزسودی کاروبار حکمت کے خلاف ہے اور درہم و دینار کے اصل وضع کے منافی ہے اس بارے میں ہم امام غزالی کے کلام معرفت التیام کا خلاصہ ہدیہ ناظرین کرتے ہیں جو غایت درجہ لطیف اور لذیذ ہے۔ امام غزالی احیاء العلوم کی کتاب الشکر ص 79 ج 4 میں فرماتے ہیں کہ ربا کی حقیقت یہ ہے کہ روپیہ کی روپیہ سے تجارت کرکے نفع اٹھایائے اور روپیہ کی روپیہ سے تجارت کرنا اس کی اصل وضع کے خلاف ہے اس لیے کہ درہم و دینار مقصود بالذات نہیں بلکہ ضروریات زندگی کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور وسیلہ اور غیر مقصود کو اس کی حد سے نکال کر اس کو مقصود بالذات تک پہنچانا یہ سراسر اس کی وضع کے خلاف ہے جب روپیہ کی روپیہ سے تجارت ہونے لگے تو وسیلہ وسیلہ نہ رہا بلکہ مقصود بن گیا سونا اور چاندی مقصود باالذات نہیں فقط سونے اور چاندی سے انسان کی زندگی نہیں گذرسکتی جب تک سونے اور چاندی کو کھانے اور پینے اور رہنے سہنے کا ذریعہ نہ بنائے محض سونے اور چاندی سے دنیا کی کوئی ضرورت پوری نہیں ہوسکتی، سونا اور چاندی اپنی ذات سے ایک قسم کے پتھر ہیں حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے سونے اور چاندی کو ایک میزان (ترازو) بنایا ہے جس سے اشیاء عالم کی قیمتوں کا وزن ہوتا ہے اور یہ سونا چاندی خدا کی پیدا کردہ عجیب ترازو ہے جو شخص اس کا مالک ہوگیا وہ دراصل سب چیزوں کا مالک ہوگیا جو چاہے وہ سونے اور چاندی کے ذریعہ خرید سکتا ہے کپڑے سے کھانے کی ضرورت پوری نہیں ہوسکتی اور کھانے سے کپڑے کی ضرورت پوری نہیں ہوسکتی مگر روپیہ سے ہر قسم کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے مگر بایں ہمہ محض سونے اور چاندی کی مقصود بالذات نہیں بلکہ ضروریات مقصود کا وسیلہ اور ذریعہ میں درہم و دینار، نحویوں کے حرف کی طرح ہیں کہ معنی فی نفسہ کے لیے وضع نہیں ہوتے بلکہ معنی فی غیرہ کے لیے وضع ہوئے ہیں آئینہ کی طرح ہیں کہ جس طرح آئینہ دوری اشیاء کے الوان (رنگتوں) کے دیکھنے کا آلہ ہے خود مقصود نہیں سونا اور چاندی ظاہر میں سب کچھ ہے مگر حقیقت میں کچھ بھی نہیں ضرورت کے وقت سوکھی روٹی کا ٹکڑا اور پھٹے ہوئے کپڑے کا چیتھڑا کام دے جاتا ہے مگر سونے کا ٹکڑا کام نہیں دیتا تندرستی میں غذا مقصود ہے اور بیماری میں دو امقصود ہے اور سونا اور چاندی اس مقصود کے حاصل کرنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے پیدا کیا ہے کہ اس کے ذریعہ اپنی ضروریات زندگی کو حاسل کرو پس جس شخص نے روپیہ کی روپیہ سے تجارت کرکے نفع اٹھایا اس نے اس کی اصل وضع کے بالکل خلاف کیا اور بڑا ہی ظلم کیا اور کسی شی کے بےمحل رکھنا اور خلاف وضع استعمال کرنے ہی کا نام ظلم ہے دیکھو احیاء العلوم کتاب الشکر ص 79 ج 4) اور دیکھو اتحاف شرح احیاء للعلامۃ الزبیدی از ص 63 ج 9 تا ص 66 ج 9) ۔ سود تمام شریعتوں میں حرام رہا ہے۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ سود تمام شریعتوں اور آسمانی دینوں میں حرام رہا ہے اللہ نے یہود کی مذمت میں یہ فرمایا ہے کہ واخذھم الربوا وقد نھو عنہ کہ یہود سود لیتے ہیں حالانکہ توریت میں ان کو سود سے منع کیا گیا تھا (تفسیر قرطبی ص 366 ج 3) ۔ توریت سفر خروج باب 22 درس 25 میں ہے ، ، اگر تو میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کو کچھ قرض دے تو اس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اس سے سود لینا، اور علی ھذا انجیل لوقاباب ششم درس 35 میں بغیر سود کے قرض دینے کی ترغیب مذکور ہے۔ سود ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ تنزلی کا ذریعہ ہے۔ لوگوں کی زبان پر ہے کہ مسلمان مٹتے جاتے ہیں حالانکہ سود خواری مسلمانوں میں بڑھ رہی ہے اور دن بدن تنزل ہے مسلمانوں کا جو ترقی کا زمانہ گذرا ہے اس میں سود کا نام ونشان نہ تھا باقی مغربی اقوام کی ترقی ان کی صنعت اور حرفت کی وجہ سے ہے نہ کہ سود کی وجہ سے بارہ سو سال تک مسلمانوں کی سلطنت عروج اور ترقی پر رہی اور کبھی سود کی ضرورت لاحق نہیں ہوئی جب سے مسلمان امیروں اور وزیروں نے دین سے منہ موڑا اور عیش ونشاط اور رقص و سرور میں مبتلا ہوئے تب سے زوال شروع ہوا اور پھر ہوا جو ہوا۔ رہا یہ سوال کہ اس زمانہ میں بغیر سود کے کام کیسے چلے ؟ جواب یہ ہے کہ جیسے پہلے چلتا تھا اور خوب چلتا تھا رشوت خوار بھی رشوت کے جواز کے لیے یہی دلیل پیش کردیتے ہیں کہ بغیر رشوت کے کام نہیں چلتا پس جس کو پہنچ گئی نصیحت اس کے پروردگار کی جانب سے یعنی ربوا کی حرمت اور اس کی ممنوعیت اس کو پہنچ گئی پس باز آگیا اس فعل حرام اور قول کفر سے یعنی سود لینا بھی چھوڑ دیا اور انما البیع مثل الربوا کہنا بھی چھوڑ دیا تو اس کے لیے ہے جو کچھ اس حکم کے آنے سے پہلے لے چکا ہے یعنی سود حرام ہونے سے پہلے جس قدر لے چکا ہے وہ اس سے واپس نہ لیاجائے گا وہ اس کی ملک ہے اور نہ اس پر عنداللہ کوئی مواخذہ ہوگا اور دل کا معاملہ اللہ کے سپر دے ہے اگر صدق نیت سے باز آیا ہے تو اللہ اس کی جزا دے گا اور اگر کسی دنیاوی مصلحت اور ظاہرداری کی بنا پر توبہ کی ہے تو اس کے مطابق معاملہ ہوگا۔ اور جو شخص اس نصیحت کے بعد پھر اسی فعل حرام اور قول کفر کی طرف رجوع کرے یعنی حکم تحریم کے بعد سود سے باز نہ آئے بلکہ سود لیتا رہے اور حسب سابق انما البیع مثل الربوا کہتار ہے یعنی سود کے حلال ثابت کرنے کے لیے تقریر کرتا رہے یا مضمون لکھتا رہے تو ایسے لوگ دوزخی ہیں وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے کیونکہ حرام کو حلال سمجھنا کفر ہے جو دوزخ میں ہمیشہ رہنے کا باعث ہے۔ اور سود میں اگرچہ فی الحال مال بڑھتا نظر آتا ہے لیکن مال اور انجام اس کاتباہی اور بربادی ہے اس لیے کہ اللہ سبحانہ کی عادت یہ ہے کہ سود کو مٹاتے ہیں اس میں برکت نہیں ہوتی سودخوار پر کبھی تو دنیا ہی میں بربادی آجاتی ہے اور اگر دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ڈھیل دی تو آخرت میں توتباہی اور بربادی یقینی ہے۔ ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ یمحق اللہ الربوا کے معنی یہ ہیں کہ سود کے مال میں سے نہ کوئی صدقہ اور خیرات مقبول ہے اور نہ حج اور جہاد اور کوئی صلہ رحمی مقبول ہے یہ دنیا کی بربادی ہوئی کہ سود کے روپیہ کا کوئی عمل مقبول نہ ہوا اور اہل عقل کی نظر میں بھی حرام مال کے ہدیہ کی کوئی وقعت اور قیمت نہیں اور خداوند قدوس کے یہاں اگر پاک اور حلال بھی قبول ہوجائے تو اس کا فضل اور احسان ہے۔ اور صدقہ اور خیرات میں اگرچہ مال گھٹتا لیکن حقیقت میں مال بڑھاتا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ صدقات اور خیرات کو بڑھا دیتا ہے صدقہ اور خیرات سے جس قدر نکلتا ہے اس سے کہیں زائد اللہ اس میں برکت دے دیتا ہے غافل مال کی ظاہری کثرت کو دیکھتا ہے اور عاقل اور دانا مال کی باطنی طہارت اور نظافت کو دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آپ کہہ دیجئے کہ پاک اور ناپاک برابر نہیں ہوتے اگرچہ (اے نادان) تجھ کو ناپاک کی کثرت اچھی معلوم ہو۔ ایک پرہیزگار ملازم اپنے سوروپیہ پر قناعت کرتا ہے اور دوسرا سوروپیہ کارشوت خوار ملازم ایک مہینہ میں سو کے ایک ہزار کرلیتا ہے اول کے سو عطر اور گلاب ہیں اور وہ دوسرے کے ایک ہزار پیشاب ہیں۔ صدقہ اور خیرات کی مثال مسہل کی سی ہے کہ مسہل سے بدن دبلا اور پتلا تو ہوجاتا ہے مگر طبیب اور ڈاکٹر جانتا ہے کہ یہ تندرستی ہے بدن سے فاسد مادہ نکل گیا اور سود اور رشوت کو مثال ورم کی سی ہے کہ اگر کسی کے منہ اور ہاتھ اور پیروں پر ورم آجائے تو نادان اس کو مٹاپا سمجھتا ہے اور طبیب اور ڈاکٹر اس ورم کو دیکھ کر پیغام موت سمجھتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گناہ گار سے راضی نہیں جو گناہوں میں منہمک ہو اس سود خوار کی اس سے بڑھ کر کیا ناشکری ہوگی کہ خدا نے اس کو مال دیا اور مال دار ہونے کے باوجود اس سے اتنا نہ ہوا کہ اس نعمت کے شکر میں کسی محتاج کو کچھ صدقہ اور خیرات دے دیتا اور اگر صدقہ اور خیرات پر اس کا دل آمادہ نہ ہوا تھا تو کم ازکم بلاسود کے اس کو قرض ہی دے دیتا بھلا اس سے بڑھ کر خدا کی نعمت کی کیا ناشکری ہوگی ایسے ناسپاسوں اور ناشکروں کے مال میں اللہ برکت نہیں دیتا اور صدقات اور خیرات میں جو برکت ہوتی ہے وہ ایمان اور اعمال صالحہ کا ثمرہ ہے چناچہ فرماتے ہیں کہ تحقیق جو لوگ ایمان لائے یعنی اللہ کے تمام احکام کو مانا اور جس چیز کو خدا نے حلال اور حرام کیا اسی کے مطابق اس کو حلال اور حرام کیا اسی کے مطابق اس کو حلال اور حرام سمجھا اور نیک عمل کیے اور نماز کو قائم کیا اور زکوٰۃ ادا کی ایسے لوگوں کے مال میں اللہ تعالیٰ برکت دیتا ہے ان کو اپنے اعمال اور خیرات کا بدلہ اور ثواب ملے گا اپنے پروردگار کے پاس یعنی آخرت میں اور قیامت کے دن ان پر نہ کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ یہ لوگ غمگین ہوں گے بخلاف ان لوگوں کے کہ جنہوں نے حلال اور حرام میں فرق نہ کیا تھا وہ طرح طرح کی مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار ہوں گے اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو اور حلال اور حرام اور جائز اور ناجائز کو ایک نہ بناؤ اور جو سود تمہارا لوگوں کے ذمہ بقایا رہ گیا ہے اس کو چھوڑو اگر تم اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہو یعنی بقایا رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم اللہ تعالیٰ کے اوامر اور ناجائز کو ایک نہ بناؤ اور جو سود تمہارا لوگوں کے ذمہ بقایا رہ گیا ہے اس کو چھوڑو اگر تم اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہو یعنی ممانعت سے پہلے جو سود لے چکے وہ لے چکے اب ممانعت کے بعد جو سود بقایا رہ گیا ہے اس کے لینے اور مانگنے کی اجازت نہیں ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ جس چیز کی ممانعت کردی جائے اس کو چھوڑ دیا جائے پس اگر تم اس حکم کے بعد ایسا نہ کرو یعنی بقایا سود کو نہ چھوڑو تو خبردار ہوجاؤ تم اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑنے کو یعنی اگر تم اس حکم پر عمل نہ کرو تو سمجھ لو کہ خدا اور اس کے رسول کے وفاداروں کی فہرست سے تمہارا نام کٹ گیا اور اللہ تعایل اور اس کے رسول سے تمہاری گرفتاری کے احکام جاری ہوں گے اور گرفتاری کے بعد تم کو حسب قواعد شریعت اور حسب احکام قتل کیا جائے گا یا قید میں رکھا جائے گا اور اسلامی عدالت ان احکام کو تم پر جاری کرے گی اور اگر تم توبہ کرتے ہو تو تمہارے اصل مال اور اصل رقم تم کو مل جائے گی اس حکم کے بعد نہ تم کسی پر ظلم اور زیادتی کرو اور نہ تم پر کوئی ظلم اور زیادتی کی جائے یعنی جو سود تم پہلے لے چکے ہو اگر اس کو تمہارے اصل مال میں محسوب کرلیاجائے تو وہ تم پر طلم ہے اور ممانعت کے بعد جو سود چڑھا ہے وہ اگر تم مانگو تو یہ تمہارا ظلم ہے اور تمہارا قرض دار اگر مفلس اور تنگ دست ہے تو اس کو فراخی کے زمانہ تک مہلت دینی چاہیے اور اگر تم اس کو بالکل معاف کرو تو تمہارا یہ صدقہ کرنا تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہوگا کہ سود تو کیا لیتے اصل ہی معاف کردیا اگر تم جانتے ہو کہ مہت دینے اور صدقہ کردینے اور معاف کردینے میں کیا فضیلت ہے جس فضیلت کو تم حاصل کرسکو اس میں دریغ نہ کرو اور اس دن کی پیشی سے ڈرتے رہو جس میں تم کو اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کی پوری پوری جزاء مل گی اور ان پر کسی قسم کا ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا لہذا جو شخص دنیا میں مقروض کے ساتھ چشم پوشی اور نرمی کا معاملہ کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے ساتھ اپنے حقوق میں چشم پوشی اور نرمی فرمائیں گے۔ فوائد ولطائف۔ (1) ۔ جو شخص سود کو حلال سمجھے وہ باجماع امت کافر اور مرتد ہے اور اگر سود کو حلال تو نہیں سمجھتا مگر چھوڑتا بھی نہیں تو بادشاہ اسلام کے ذمہ ایسے شخص کا قید کرنا واجب ہے یہاں تک کہ توبہ کرے اور اگر کوئی اس قسم کی جماعت اور جتھا کہ جن کا قید کرنا مشکل ہے تو بادشاہ اسلام کے ذمہ ایسی جماعت سے جہاد اور قتال واجب ہے اور یہی حکم ہے ہراس شخص کا جو فرائض کو چھوڑ دے مثلا نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کو یا علی الاعلان گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا اور اس پر اڑ رہے تفصیل کے لیے ابوبکر رازی جصاص کی احکام القرآن ص 473 ج 1 کی مراجعت کریں یا تفسیر مظہری دیکھیں۔ (2) ۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سود کو اس لیے حرام فرمایا کہ تاکہ قرض سے ایک دوسرے کی مدد کریں۔ عبداللہ بن مسعود روای ہیں کہ نبی اکرم کا ارشاد ہے کہ کسی کو دو مرتبہ قرض دینا ایک مرتبہ صدقہ دینے کے برابر ہے۔ (3) ۔ حرام مال سے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ سود اور رشوت کا جو پیسہ اس کے پاس ہے وہ صاحب حق کو واپس کرے یا اس سے معاف کرائے اور اگر اس شخص کو نہ تلاش کرسکے اور نہ کہیں اس کو پاسکے تو اس کی طرف سے خیرات کرے اور ایسے مصرف میں اس کو خرچ کرے جس میں اسلام اور مسلمانوں کا نفع ہو اور اگر کسی کی کل آمدنی حرام ہو تو سب کا خیرات کرنا واجب اور فرض ہے سوائے ستر عورت کے کپڑے کے کسی شے کا اپنی ملک میں رکھنا جائز نہیں جو کیا ہے اس کو بھگتنا پڑیگا تفصیل کے لیے تفسیر قرطبی ص 366 ج 3 کی مراجعت کریں۔ (4) ۔ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ حرام مال پر زکوۃ نہیں لہذا جس شخص کے پاس سود یارشوت کا کروڑ روپیہ بھی جمع ہو اس پر زکوۃ نہیں زکوٰۃ حلال مال پر واجب ہوتی ہے جو مال سود یا رشوت یا خیانت یا چوری سے حاصل کیا جائے تو وہ دوسروں کا حق ہے اس پر زکوٰۃ کیسے واجب ہو۔ جو شخص حرام مال کا صدقہ کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے تو اندیشہ کفر کا ہے بارگاہ خداوندی میں ناپاک اور گندی چیز پیش کرنا اور پھر اس پر اس کی رضا اور خوشنودی کی امید رکھنا کمال بےادبی اور گستاخی ہے۔ (5) ۔ احکام ربوا کو، واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ پر ختم فرمایا تاکہ دنیا اور مافیہا کا فناء اور زوال اور آخرت کی طرف سب کا رجوع کرنا اور ذرہ ذرہ کا حساب ہونا نظروں میں گھوم جائے اور دنیا کے حریص اور دلدادہ ہوش میں آجائیں دنیا کے مخبوط الحواس کا علاج سوائے آخرت کی یاد کے کچھ نہیں۔
Top