Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں الرِّبٰوا : سود لَا يَقُوْمُوْنَ : نہ کھڑے ہوں گے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَقُوْمُ : کھڑا ہوتا ہے الَّذِيْ : وہ شخص جو يَتَخَبَّطُهُ : اس کے حواس کھو دئیے ہوں الشَّيْطٰنُ : شیطان مِنَ الْمَسِّ : چھونے سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَا : در حقیقت الْبَيْعُ : تجارت مِثْلُ : مانند الرِّبٰوا : سود وَاَحَلَّ : حالانکہ حلال کیا اللّٰهُ : اللہ الْبَيْعَ : تجارت وَحَرَّمَ : اور حرام کیا الرِّبٰوا : سود فَمَنْ : پس جس جَآءَهٗ : پہنچے اس کو مَوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب فَانْتَهٰى : پھر وہ باز آگیا فَلَهٗ : تو اس کے لیے مَا سَلَفَ : جو ہوچکا وَاَمْرُهٗٓ : اور اس کا معاملہ اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر لوٹے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ ناجائز نفع [ لینے کے عادی ہوں وہ قیامت کے روز اپنے رب کے سامنے اس طرح کھڑے ہوں گے جیسے شیطان کے اثر سے مخبوط الحواس آدمی کھڑا ہوتا ہے اس لیے کہ انہوں نے کہا خریدو فروخت کرنا بھی ایسا ہی ہے جیسے قرض دے کر اس پر (الربوا) زائد مال لینا حالانکہ خریدو فروخت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور (الربوا) ناجائز نفع کو حرام ، ہاں ! اب جس کسی کو اس کے رب کی یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ اپنی اس حرکت سے باز آگیا البتہ جو پہلے لے چکا اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے لیکن جو شخص باز نہ آیا وہ یقینا دوزخی گروہ سے ہے جو ہمیشہ عذاب میں رہے گا
جو لوگ حاجتمندوں کے لیے تنگی کا باعث ہوتے ہیں ، صحیح معنوں میں وہی الرابوا خور ہیں : 481: ” الربوا “ کا مادہ ر ب و ہے۔ اس مادہ کے درج ذیل الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں : ربت۔ یربو۔ رابیا۔ رابیۃ۔ اربی۔ یربی۔ ربیانی۔ نربک۔ ربا۔ الربا۔ ربوۃ۔ مادہ (ر ب و) کے لغوی معنی ہیں : اُگنا ، بڑھنا ، پھولنا ، پالنا ، نشو ونما پانا ، پرورش کرنا ، زیادتی اور بڑھوتری۔ ربت کے لیے دیکھیں : سورة الحج 22 : 5 ، سورة حم السجدۃ 41 : 39 (دو بار) یربو کے لیے دیکھیں : سورة الروم 30 : 39 ، مکرر (د و بار) رابیا کے لیے دیکھیں : سورة الرعد 13 : 17 (ایک بار) رابیۃ کے لیے دیکھیں : سورة الحاقہ 69 : 1 (ایک بار) اربی کے لیے دیکھیں : سورة النحل 16 : 93 (ایک بار) یربی کے لیے دیکھیں : سورة البقرہ 2 : 276 (ایک بار) ربیانی کے لیے دیکھیں : سورة بنی اسرائیل 17 : 24 (ایک بار) نربک کے لیے دیکھیں : سورة الشعراء 26 : 18 (ایک بار) ربا کے لیے دیکھیں : سورة الروم 130 : 39 (ایک بار) الربوا کے لیے دیکھیں : سورة البقرہ 2 : 275 ، مکرر 276 ، 278 ۔ آل عمران 3 : 130 ، النساء 14 : 161 (سات بار) ربوۃ کے لیے دیکھیں : سورة البقرہ 2 : 265 ، سورة المؤمنون 23 : 50 (ایک بار) خیال رہے کہ ” الربوا “ کے معنی سود صحیح نہیں۔ ” سود “ فارسی زبان کا لفظ ہے اور اردو زبان میں بھی اس کا استعمال بالکل ان ہی معنوں میں ہوتا ہے جو فارسی زبان میں اس کے معنی ہیں اور فارسی زبان میں اس کے معنی ” نفع “ کے کیے جاتے ہیں اور ” سود “ کا متضاد زیاں ہے اور ” نفع “ کا متضاد نقصان ہے۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ نفع اور سود دونوں مترادف ہیں۔ اسی طرح زیاں اور نقصان بھی مترادف ہیں متضاد نہیں اور الربوا کا عربی مترادف ” ربح “ ہے ” ربا “ نہیں۔ اس لیے ” ربا “ کا ترجمہ سود کسی حال میں بھی درست نہیں بلکہ بہت سے دوسرے الفاظ کی طرح ” الربوا “ کا ترجمہ کسی بھی ایک لفظ میں ممکن نہیں اس لیے سب سے پہلی ضروری اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ” ربا “ یا ” الربوا “ کا ترجمہ ” سود “ نہ کیا جائے بلکہ ” ربا “ اور ” الربوا “ ہی رہنے دیا جائے۔ گویا ” الربوا “ کا لفظ اصطلاحاً استعمال ہوتا ہے جس کو حرام کہا گیا ہے کہ وہ غریبوں کا خون چوسنے کے مترادف ہے۔ علاوہ ازیں علمائے کرام نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ ” الربوا “ کا ترجمہ ” سود “ صحیح نہیں ہے ، جیسا کہ مولانا مودودی (رح) نے اپنی کتاب ” سود “ میں اور مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے اپنی کتاب ” سود کیا ہے ؟ “ میں درج کیا ہے۔ وضاحت کے لیے مؤلف کی کتاب ” سود کیا ہے ؟ “ ملاحظہ فرمائیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ اردو زبان میں بیشمار ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں جن کا ترجمہ ایک لفظ میں ممکن نہیں اسلئے وہ الفاظ بدستور اسی طرح مستعمل ہیں جس کی مثالیں تجارت کی ناجائز صورتوں میں بھی موجود ہیں ، جیسے بیع مزابنہ ، محاقلہ ، مخابرہ ، معاومہ ، بیع سنین ، ثنیا ، بیع عرایا یا عریہ ، بیع حصاۃ ، بیع حبل الحیلہ ، منابذہ ، ملامسہ ، بیع حصاۃ ، بیع غررء ، بیع مضطر ، بیع نجش وغیرہ اور اسی طرح علاوہ ازیں دوسری زبانوں کے الفاظ مثلاً : مرگھٹ ، فاروق ، تہذیب ، رشک ، تہوار ، پنشن ، مؤلف ، کنول ، صبا ، شمیم ، باؤلی ، بیرنگ ، اوپلا ، کلالہ اور ایلا وغیرہ۔ جس طرح یہ تمام الفاظ من و عن استعمال ہوتے ہیں اسی طرح اردو زبان میں استعمال کیے جاتے ہیں ، کہیں ان کا ترجمہ محض ایک لفظ میں نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی صحیح تفہیم کرانا مقصود ہو تو ایک جملہ یا عبارت تحریر کی جاتی ہے ورنہ اسی طرح ان کو استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح ” الربوا “ کے لفظ کو بھی من و عن اسی طرح استعمال کرنا چاہیے تاکہ ” الربوا “ کو حرام تصور کیا جائے نہ کہ ” سود “ کو کیونکہ سود اور نفع دونوں ایک ہی حیثیت کے حامل ہیں اور دونوں مترادف ہیں۔ اندریں وجہ میں نے تفسیر میں ” الربوا “ ہی کا لفظ استعمال کیا ہے اگر کہیں ” سود “ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو وہ رواجاً ہوا ہے لہٰذا معذرت خواہ ہوں ، تفصیل کے لیے میری کتاب ” سود کیا ہے ؟ “ کو دیکھیں۔ خیال رہے کہ نیکی کی راہ میں خرچ کرنے کی استعداد نشو ونما نہیں پا سکتی تھی ، اگر اس کا حکم دیتے ہوئے ان باتوں سے روک نہ دیا جاتا جو ٹھیک ٹھیک اس کی ضد ہیں ، پس انفاق فی سبیل اللہ کے حکم کے ساتھ ہی ” الربوا “ کی ممانعت کردی گئی جو دنیا میں دوسری قوموں کی طرح عرب میں بھی رائج تھی۔ دین حق انسانوں میں باہمی محبت و ہمدردی پیدا کرنا چاہتا ہے اس لیے اس نے خیرات کا حکم دیا کہ ایک انسان دوسرے انسان کی حاجت روائی کرے اور اس کی احتیاج کو اپنی احتیاج سمجھے لیکن الربوا خور کی ذہنیت بالکل اس کی ضد ہے۔ ” الربوا “ خور ایک انسان کو حاجتمند دیکھتا ہے تو اس کی مدد کا جذبہ اس میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ ” الربوا خور “ چاہتا ہے اس کی احتیاج اور بےبسی سے اپنا کام نکال لے اور اس کی محتاجی کو اپنی دولت مندی کا ذریعہ بنائے۔ خودغرضی کا یہ جذبہ اگر بےروک بڑھتا رہے تو پھر اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ انسان میں انسانی ہمدردی کی بوباس تک باقی نہیں رہتی۔ وہ ایک بےرحم درندہ بن جاتا ہے۔ مشہور و معروف ” دین “ یعنی قرض کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ قرض جو اپنی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے مجبور اور حاجت مند لوگ لیتے ہیں۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے کاموں میں خرچ کرنے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم کے قرض کو تو ایک دنیا جانتی ہے کہ اس پر ” الربوا “ حاصل کرنے کا طریقہ نہایت تباہ کن ہے۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس میں مہاجن افراد اور مہاجن ادارے اس ذریعے سے غریب مزدوروں ، کاشتکاروں اور قلیل المعاش عوام کا خون نہ چوس رہے ہوں۔ ” الربوا “ کی وجہ سے اس قسم کا قرض ادا کرنا ان لوگوں کے لیے سخت مشکل بلکہ بسا اوقات ناممکن ہوجاتا ہے پھر ایک قرض کو ادا کرنے کے لیے وہ دوسرا ، پھر تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں۔ اصل رقم سے کئی کئی گنا زیادہ دے چکنے پر بھی اصل رقم جوں کی توں باقی رہتی ہے۔ محنت پیشہ آدمی کی آمدنی کا بیشتر حصہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے بھی روپیہ نہیں بچتا۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اپنے کام سے کارکنوں کی دلچسپی ختم کردیتی ہے کیونکہ جب ان کی محنت کا پھل دوسرے لے اڑیں تو وہ کبھی دل لگا کر محنت نہیں کرسکتے ، پھر اس قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر اور پریشانی اس قدر گھلا دیتی ہے اور تنگدستی کی وجہ سے ان کے لیے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہوجاتا ہے کہ ان کی صحت کبھی درست نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح اس قرض کا ماحاصل یہ ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں بلکہ کروڑوں آدمیوں کا خون چوس چوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کی پیدائش دولت اپنے امکانی معیار کی بہ نسبت بہت ہی گھٹ جاتی ہے اور مال کار وہ خون چوسنے والے افراد بھی اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے کیونکہ ان کی اس خودغرضی سے غریب عوام کو جب تکلیفیں پہنچتی ہیں تو مالدار لوگوں کے خلاف غصے اور نفرت کا ایک طوفان غریبوں کے دلوں میں اٹھتا اور گھٹتا رہتا ہے اور کسی انقلابی ہیجان کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو تک سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ ان آیات ِکریمات میں جس الربوا کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی الربوا ہے جو اس وقت کے لوگوں میں وبائی مرض کی طرح پھیلا ہوا تھا ، جب قرآن کریم کا نزول ہوا جس کا ذکر پوری تفصیل کے ساتھ قرآن کریم نے کردیا اور مختلف مقامات پر اس کی دنیوی اور اخروی سزا کا ذکر بھی کیا گیا ، باقی جتنی صورتیں الربوا خوری کی ہیں وہ سب کی سب بعد کی بنائی ہوئی ہیں اور آئے دن نئی نئی صورتیں اور شکلیں پیدا ہو رہی ہیں اور لوگ علماء کے گرد جمع ہیں کہ کونسا ” الربوا “ جائز ہے اور کونسا ناجائز اور علماء بھی وقت کی رعایت کے ساتھ کسی کو ” الربوا “ یعنی سود اور کسی کو نفع کا نام رکھ دیتے ہیں ، جس کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ الربوا خور قیامت کے روز اس طرح ہوگا جیسے کوئی مخبوط الحواس ہوتا ہے : 482: اس جگہ چھ آیتیں ہیں جن میں ” الربوا “ کی حرمت کے احکام بیان کیے گئے ہیں یعنی آیت 275 سے 280 تک ۔ قرآن کریم نے اس پہلی آیت یعنی آیت 275 ہی میں اسی حالت کو جو الربوا خور کی حالت ہوتی ہے مرگی کے مرض سے تشبیہ دی ہے جسے عرب میں لوگ شیطان کے مَس سے تعبیر کرتے تھے یعنی مال و زر پرستی کے جوش سے تمام انسانی احساسات فنا ہوجاتے ہیں اور وہ پیسے کے پیچھے اندھا دھند دوڑتے ہیں۔ گویا اس آیت میں ان کی رسوائی اور گمراہی کا ذکر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ ” الربوا “ کھاتے ہیں وہ قیامت کے روز اپنے رب کے ہاں اس طرح کھڑے ہوں گے جس طرح شیطان کے اثر سے مخبوط الحواس آدمی کھڑا ہوتا ہے۔ یعنی مرگی کے روگ والا۔ یہ ایک حالت تھی جو اس جنونی کی بیان کی گئی ہے جس کو مال بڑھانے کا خبط ہے اور اس کو حق و ناحق اور جائز و ناجائز سے کوئی بحث نہیں۔ وہ دولت کے پیچھے ایسا اندھا دھند لگ گیا ہے کہ اس کو کچھ سجھائی نہیں دیتا ، اس کے دل و دماغ میں صرف اور صرف ایک ہی بات پیوست ہوچکی ہے کہ ہائے مال۔ جس کی حالت یہ ہے کہ : ا۟لَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَهٗۙ002 (الہمزۃ 104 : 2) ” وہ مال جمع کرنے اور اس کو گن گن کر رکھنے میں مصروف رہتا ہے۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوا : اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ001 حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ002 (التکاثر 102 : 1۔ 2) ” (اے لوگو ! ) تم کو کثرت مال کی طلب نے غفلت میں ڈال دیا۔ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔ “ یہ ان پیسے کے پجاریوں کی حالت تھی جو مختلف تماثیل میں بیان کی گئی تاکہ قوم مسلم کے افراد ان کی اس حالت سے نفرت کریں اور ان کو اچھی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے بری نظروں سے دیکھیں۔ ان عادات و خصائل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے تاکہ مسلم قوم کے کسی فرد کو یہ بیماری لگ نہ جائے کیونکہ اکثر ایسی بیماریاں نسلی ہوتی ہیں جو نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ” الربوا “ کھانے اور مال جمع کرنے کا مرض بھی ان ہی مہلک امراض میں سے ایک ہے۔ جس طرح کفر ، شرک اور منافقت ایمان کو جلا کر خاکستر بنا دتی ہیں اسی طرح ایک بیماری ” الربوا “ کی بھی ہے۔ الربوا خور خود ہو یا کوئی ادارہ ، ان کے ایمان کا بھی جنازہ نکل چکا ہوتا ہے۔ یہاں جس حالت کو : ” یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ 1ؕ “ کے الفاظ سے بیان کیا گیا تھا۔ ہمارے مفسرین کی اکثریت اور علمائے کرام کی کثیر تعداد نے اس سے یہ مسئلہ اخذ کرلیا کہ جنات و شیاطین انسان میں حلول کر جاتے ہیں اور ان سے ایسے ایسے فعل سرزد کراتے ہیں۔ بس پھر کیا ہوا کہ قوم کے نوجوانوں (زیادہ تر نوجوان عورتوں ) کو جنات کی زد میں لے آئے اور مختلف طریقوں سے ان کے نام رکھ لیے۔ پھر جِنّ ڈالنے اور نکالنے والے پیدا ہوگئے اور قوم کو ایسا بیوقوف بنایا کہ ان الربوا خوروں سے بھی بڑھ گئے جن کی مذمت میں یہ الفاظ بیان کیے گئے تھے۔ قوم مسلم کا ایک دکھ دور کرنے کی قرآن کریم نے کوشش کی اور ان دکھ دینے والوں کو انسایت سے خارج کردینے والی حرکت سے باز رکھنے کے لیے ان کو جن الفاظ سے یاد کیا تھا ان ہی الفاظ سے قوم کو ایک کی بجائے بیسیویں دکھ دینے والے لوگ خود ہوگئے ، جن کی طرف قرآن کریم جیسی ہدایت کی کتاب آئی تھی۔ اب مولویوں ، پیروں اور عالموں نے اس کاروبار کو اتنی ترقی دی کہ الربوا خوری کا کاروبار کرنے والوں کو شکست دے کر بہت پیچھے چھوڑ گئے۔ الربوا خوروں کی قرآن کریم نے مذمت کی اور قوم کے ہر فرد خواہ وہ الربوا خور ہو یا ” الربوا “ دینے والا سب نے اس فعل کو برا جانا ، مانا اور سمجھا لیکن ان شاطروں نے اتنی چالاکی اور بےباکی سے کام لیا کہ اس کو قرآن کریم سے ثابت کر دکھایا اور اپنے پیٹ کی خاطر ان الربوا خوروں سے نجات دلانے کی بجائے نئے الربوا کی راہیں کھول دیں۔ وہ الربوا خور تو کچھ رقم صرف کر کے بڑھوتری کے نام پر ” الربوا “ لیتے تھے ، ان الربوا خوروں کی نہ ہلدی لگی نہ پھٹکری اور ” الربوا “ کی ایسی راہیں نکالیں کہ دَم چھو کو رأس المال بنا کر من مانا ” الربوا “ کھایا اور ایسی شاطرانہ چال چلی کہ ” الربوا “ بھی ثابت نہ ہونے دیا بلکہ ہم خرما و ہم صواب کے مصداق ہوگئے۔ اس وقت پوری قوم کے اندر پھر کر دیکھ لو شہر ہو یا دَہ ، بستی ہو یا گاؤں ، جنگل ہو یا ڈیرہ کوئی جگہ بھی ان ساحروں کی الربوا خوری سے بچی ہوئی نظر نہیں آئے گی۔ قوم کے بڑے بڑے مترفین اور و ڈیرے ، اس ” الربوا “ کا کاروبار کرنے والے حتیٰ کہ ڈاکو اور لٹیرے بھی ان کے چنگل سے بچ نہ سکے۔ آج اگر سارا ” الربوا “ کا نظام ختم کردیا جائے تو بھی ان الربوا خوروں کا کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ اس ” الربوا “ کی سند جواز انہوں نے قرآن کریم سے اخذ کرلی ہے اور پھر جتنے مکاتب فکر اس ملک کے اندر موجود ہیں ، ان سب کے مذہبی راہنماؤں کی تائید بھی ان کو حاصل ہے ، الا ماشاء اللہ۔ یا للعجب۔ تعجب ہے کہ آج عالم اسلام میں کتنی پریشانیاں ہیں ، اگر ان کو شمار کرنا شروع کیا جائے تو کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ اگر ان الربوا خور ساحروں اور سحر زدہ مولویوں ، پیروں اور صوفیوں کے پاس خبطی کردینے والے جنات و شیاطین موجود ہیں تو یہ کیوں ان عالم اسلام میں پریشانیاں پیدا کرنے والوں پر نہیں چھوڑتے تاکہ یہ ان کو تہس نہس کریں اور عالم اسلام کو ان پریشانیوں سے بچا لیں۔ آخر ان کے جنات و شیاطین مسلم قوم کی جوان عورتوں اور مردوں ہی پر کیوں کام کرتے ہیں ؟ حالانکہ دوسری جگہ قرآن کریم نے یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ 1ؕ کی تشریح خود کردی جہاں مشرکین کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ : قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤى اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ہَدٰىنَا اللّٰهُ کَالَّذِی اسْتَهْوَتْهُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ 1۪ لَهٗۤ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَهٗۤ اِلَى الْهُدَى ائْتِنَا 1ؕ قُلْ اِنَّ ہُدَى اللّٰهِ ہُوَ الْهُدٰى1ؕ وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ0071 (الانعام 6 : 71) ” ان لوگوں سے پوچھو کیا تم چاہتے ہو ہم اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکاریں جو نہ تو ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ؟ اور باوجودیکہ اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھا چکا ہے لیکن ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ؟ اور ہماری مثال اس آدمی کی سی ہوجائے جسے شیطان نے بیابان میں گمراہ کردیا ہو حیران و پریشان پھر رہا ہے اور اس کے ساتھ ہیں جو اس راہ کی طرف بلا رہے ہیں کہ تو کدھر کھو گیا ؟ اِدھر آ ! کہہ دو اللہ کی ہدایت وہی { اَلْھُدٰی } ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تمام جہانوں کے پروردگار کے آگے سر اطاعت جھکا دیں۔ “ اس آیت میں جس طرح ایک منکر حق کی مثال بیان کی گئی ہے اور زیر نظر آیت میں جس کی یہاں تشریح کی جا رہی ہے اس میں الربوا خور کی مثال بیان کی ہے۔ یہاں بھی یہی ارشاد ہو رہا ہے کہ مؤمن وحی و نبوت کی ہدایت اور علم یقین کی روشنی اپنے سامنے رکھتا ہے ، اس لیے فلاح وسعادت کی شاہراہ سے وہ کبھی نہیں بھٹک سکتا لیکن منکر حق کے سامنے کوئی روشنی نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی بیابان میں کھویا گیا ہو اور حیران و سرگرداں پھر رہا ہو کبھی ایک طرف کو دوڑے کبھی دوسری طرف کو کوئی معین اور یقینی راہ اس کے سامنے نہ ہو۔ ایمان و کفر کو سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کرو ، جس قدر غور کرتے جاؤ گے حقیقت کی وضاحت خودبخود ہوتی چلی جائے گی۔ الربوا خور مخبوط الحواس کیوں ہوگا ؟ 483: کسی مریض کا علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مرض کا کھوج لگایا جائے۔ وجہ معلوم کی جائے کہ یہ مرض کیوں ہے ؟ جب تک یہ معلوم نہ ہو اس وقت تک علاج کوئی علاج نہیں بلکہ ایک تکہ ہے کہ لگ گیا تو لگ گیا۔ اگر نہ لگا تو طبیب کی بلا سے۔ اس کی غرض تو پوری ہوگئی کہ پیسہ اس کو مل گیا۔ الربوا خور کی بیماری بھی بالکل اس طرح کی بیماری ہے کہ اس نے اس بیماری کو کبھی بیماری تسلیم ہی نہیں کیا اور یہی اس کے شیطان سے خبطی ہونے کی علامت ہے۔ اس لیے اس کا یہ روگ کبھی جانے والا نہیں۔ یہاں دراصل شیطان اس کی اپنی ہی قوت وہمہ کو کہا گیا ہے اور وہم کا مریض ہمیشہ اپنے وہم کے ساتھ ہی قبر کے گڑھے میں دفن ہوتا ہے۔ فرمایا الربوا خور بھی اس وہم میں مبتلا ہوتا ہے کہ ایک تاجر تجارت پر پیسہ خرچ کر کے دوگنا کرتا ہے تو وہ حلال ہے اور ایک الربوا اپنے روپے کو خرچ کر کے سوا یا ڈیوڑھا کرلیتا ہے تو وہ حرام کیسے ہوگیا ؟ اس طرح کی دلیلیں قائم کر کے وہ دراصل الربوا کے ناجائز ہونے سے انکاری ہے ، اس کو جواب دیا جاتا ہے کہ اللہ نے خریدو فروخت کو حلال ٹھہرایا ہے اور ” الربوا “ کو حرام تو پھر دونوں باتیں ایک طرح کی کیسے ہو سکتی ہیں ؟ یہ جواب اس کو کیوں دیا گیا ؟ اس لیے کہ موضوع تھا صدقات و خیرات کار اور ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا۔ ایک انسان پر دوسرے انسان کے حقوق کا ، الٰہی رضامندی حاصل کرنے کا۔ بتایا یہ جا رہا تھا کہ ” الربوا “ کی لعنت وہ لعنت ہے جو صدقات و خیرات کے جذبہ کو روکتی ہے۔ دوسروں کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرنے سے مانع ہے۔ انسان کے انسان پر جو حقوق ہیں ، ان کی نفی کرتی ہے اور رضائے الٰہی کی جگہ خواہش نفس کی پرستار بناتی ہے اس لیے وہ حرام ہے۔ لیکن الربوا خوری کے وہم و گمان نے ان سب باتوں کو چھوڑ کر مثال میں منطبق کرنے کے لیے تجارت کے موضوع کو تلاش کیا ، ان ساری باتوں کو کیوں چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ خواہش نفس کا پرستار اصل موضوع کو خلط ملط کر کے اپنا مطلب حاصل کرتا ہے اور قرآن کریم ایسے لوگوں سے کبھی الجھنا پسند نہیں کرتا وہ صرف اپنا مؤقف بیان کر کے آگے بڑھ جاتا ہے اور یہاں بھی اس نے یہی کیا ہے۔ کسی بات کو سمجھانا اس جگہ مفید ہوتا ہے جب مخاطب بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور جب مخاطب سمجھنے کی بجائے الجھنے کی کوشش کرے ، وہاں سمجھانا کبھی مفید نہیں ہوتا۔ یہ وہ نکتہ یا اصول ہے جس کو قرآن کریم نے اختیار کیا ہے اور وہ کسی موقعہ پر بھی اس کو نہیں چھوڑتا بلکہ وہ اپنے قارئین کو یہ اصول اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ امید ہے کہ اب بات سمجھ میں آجائے گی کہ الربوا خور مخبوط الحواس کیوں ہوگا ؟ جیسا جرم ویسی سزا قانون الٰہی کے عین مطابق ہے : 484: جرم و سزا میں مناسبت ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو سزا کسی شخص یا جماعت کو کسی جرم کے مقابلہ میں دی جاتی ہے وہ یقیناً اس جرم کے مناسب ہوتی ہے۔ اس لیے الربوا خوروں کو خبطی بنا کر محشر میں اٹھانا شاید اس کا اظہار ہے کہ الربوا خور روپیہ پیسہ کی حرص میں اس قدر مدہوش ہوتا ہے کہ اس کو نہ کسی غریب پر رحم آتا ہے ، نہ کسی کی شرم مانع ہوتی ہے وہ چونکہ اپنی زندگی میں درحقیقت بےہوش و بدمست تھا اس لیے محشر میں بھی اسی حالت میں اٹھایا جائے گا ، گویا یہ سزا اس لیے دی گئی کہ دنیا میں اس نے اپنی بےعقلی کو عقلی رنگ میں ظاہر کیا کہ بیع کو مثل ” الربوا “ قرار دیا اس لیے اس کو بےعقل ہی اٹھانا چاہیے تھا گویا اس کے ساتھ وہی ہوا جو اس نے خود اپنے لیے اختیار کیا تھا اور آخرت میں ہے ہی کیا ؟ اپنے کیے کی جزا۔ اب دو صورتوں میں سے ایک ضرور ہوگی یا تو الربوا خور ” الربوا “ کی ناپاکی و خبث کو سمجھ کر سود لینا چھوڑ دے گا ہاں ! جو پہلے لے چکا وہ لے چکا اور پھر اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ، اس کے ذمہ صرف معافی کی درخواست کرنا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ” الربوا “ کو بزعم خویش بیع و شرا پر منطبق کر کے کھاتا رہے گا یعنی وصول کرتا رہے گا۔ یاد رہے کہ اگر دوسری صورت اختیار کی یعنی ” الربوا “ لیتا ہی رہا تو وہ اب دوزخی گروہ میں ہوگیا۔ یہ سزا تو اس کی آخرت کی سزا ہے لیکن دنیا میں بھی وہ کبھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا کیونکہ اس کی پیٹھ پیچھے تو ہر کوئی اس کو برا کہے گا۔ الربوا خور کا انجام یقیناً برا ہے : 485: ذرا غور کریں کہ برے کام کا انجام کبھی اچھا بھی ہو سکتا ہے ؟ الربوا خور تو دوہرے جرم کا مجرم ہے ، اس نے بیک وقت دو جرم کیے۔ ایک تو بذریعہ ” الربوا “ حرام مال کھایا اور دوسرے اس کو حلال سمجھا اور حرام کہنے والوں کے جواب میں یہ کہا کہ بیع و شراء بھی تو ” الربوا “ ہی کی مثل ہے ، جس طرح ربا کے ذریعہ نفع حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح بیع و شراء کے ذریعہ نفع لیا ہے۔ اگر ” الربوا “ حرام ہے تو بیع بھی حرام ہونی چاہیے حالانکہ اس کو تو کوئی بھی حرام نہیں کہتا۔ اس جگہ بظاہر مقتضائے مقام یہ تھا کہ وہ اس طرح کہتا کہ ربوا بھی تو مثل بیع کے ہے جب بیع حلال ہے تو ربا بھی حلال ہونی چاہیے مگر اس نے طرز بیان بدل کر حرام کہنے والوں پر ایک قسم کا استہزاء کیا ، کہ تم ربا کو حرام کہتے ہو تو بیع کو بھی حرام کہو۔ فرمایا کہ عجیب منطق ہے ، ان لوگوں کی کہ یہ بیع کو ربوا کی مثل اور برابر قرار دیتے ہیں حالانکہ عنداللہ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے کہ اللہ نے ایک کو حلال قرار دیا ہے اور دوسرے کو حرام ، پھر دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اگر ان سے یہ پوچھ لیا جائے کہ دنیا کے علائق و تعلقات میں ایک کو تم ماں یا بہن کہتے ہو اور ایک کو بیوی۔ آخر عورت ہونے میں ان کا ذرا فرق واضح کر دو ، اپنی نظر دوڑاو جہاں تک دوڑانا چاہتے ہو ایک بار نہیں بار بار دوڑاؤ اور فرق بیان کرو۔ اگر بیوی عورت ہے تو کیا ماں یا بہن عورت نہیں ؟ پھر ایک کو حلال اور دوسری کو حرام کیوں کہتے ہو ؟ اگر ان سے پوچھ لیا جاتا ہے کہ جانوروں میں سے جو حلال کہتے ہیں جیسے گائے ، بھینس ، بکری تم نے اپنے گھر رکھ کر پرورش کیا لیکن مشیت ایزدی کے مطابق ان میں سے ایک کی موت واقع ہوگئی۔ جس کی موت واقع ہوئی اس کو تم کیا کہتے ہو ؟ حلال یا حرام ؟ انہی جانوروں میں سے آپ نے ایک جانور کو پکڑا اور اپنی ضرورت کے لیے اس پر چھری چلا کر اللہ کے نام سے ذبح کرلیا۔ ذرا بتاؤ کہ حلال ہوا یا حرام ؟ کس کو کھاؤ گے اور کس کو نہیں ؟ اگر طبعی موت مرے ہوئے کو نہیں کھا رہے تو کیا ذبح شدہ زندہ ہے ؟ کیا دونوں مر نہیں گئے ؟ ہاں ! ایک کو اللہ نے مارا ہے اور دوسرے کو تم نے۔ کیا اللہ کا مارا حرام اور تمہارے مارا حلال ہے ؟ تم خود ہی بتاؤ کہ الربوا خور کا انجام برا کیوں نہ ہوگا ؟ جو شخص نصیحت سن کر بھی اسی قول و فعل کی طرف عود کرے جس سے اللہ نے منع فرمایا اور اللہ کے منع فرمانے میں ایک نہیں سو حکمت ہوگی۔ اگر اس نے غور نہیں کیا یا سمجھ کا اتنا بودا ہے کہ حکمت کی بات کو وہ سمجھ ہی نہیں سکتا۔ اللہ کا حکم اس کے گلے میں اس لیے اٹک گیا ہے کہ اس کی خواہش نفس کے خلاف ہے۔ گویا وہ اللہ کی بجائے اپنے نفس کا پجاری ہے۔ اس نے اپنی خواہش ہی کو اپنا معبود بنا لیے ہے اور اسی وجہ سے تو وہ دوزخ کا مستحق قرار پایا ؟ کیا دوزخی فرد ہو یا جماعت اس کا انجام اچھا ہے ؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو الربوا خور کا انجام بھی یقیناً برا ہے۔
Top