Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَاْكُلُوْنَ
: کھاتے ہیں
الرِّبٰوا
: سود
لَا يَقُوْمُوْنَ
: نہ کھڑے ہوں گے
اِلَّا
: مگر
كَمَا
: جیسے
يَقُوْمُ
: کھڑا ہوتا ہے
الَّذِيْ
: وہ شخص جو
يَتَخَبَّطُهُ
: اس کے حواس کھو دئیے ہوں
الشَّيْطٰنُ
: شیطان
مِنَ الْمَسِّ
: چھونے سے
ذٰلِكَ
: یہ
بِاَنَّھُمْ
: اس لیے کہ وہ
قَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
اِنَّمَا
: در حقیقت
الْبَيْعُ
: تجارت
مِثْلُ
: مانند
الرِّبٰوا
: سود
وَاَحَلَّ
: حالانکہ حلال کیا
اللّٰهُ
: اللہ
الْبَيْعَ
: تجارت
وَحَرَّمَ
: اور حرام کیا
الرِّبٰوا
: سود
فَمَنْ
: پس جس
جَآءَهٗ
: پہنچے اس کو
مَوْعِظَةٌ
: نصیحت
مِّنْ
: سے
رَّبِّهٖ
: اس کا رب
فَانْتَهٰى
: پھر وہ باز آگیا
فَلَهٗ
: تو اس کے لیے
مَا سَلَفَ
: جو ہوچکا
وَاَمْرُهٗٓ
: اور اس کا معاملہ
اِلَى
: طرف
اللّٰهِ
: اللہ
وَمَنْ
: اور جو
عَادَ
: پھر لوٹے
فَاُولٰٓئِكَ
: تو وہی
اَصْحٰبُ النَّارِ
: دوزخ والے
ھُمْ
: وہ
فِيْهَا
: اس میں
خٰلِدُوْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنادیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سود بیچنا بھی (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام تو جس کے پاس خدا کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا اور (قیامت میں) اس کا معاملہ خدا کے سپرد اور جو پھر لینے لگے گا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں جلتے رہیں گے
تین آیات سود کے احکام بیع کو عقود کے جواز اور اس کے لئے وعید کو متضمن ہیں جو کوئی سود کو حلال سمجھے اور اس پر عمل کرنے پر مصر ہو۔ اس میں اڑتیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الذین یاکلون الربوا “۔ یہاں ” یاکلون “ بمعنی یاخذون ہے (یعنی وہ جو سود لیتے ہیں) اور اخذ (لینے) کو اکل (کھانے) کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ سود کھانے کے لئے ہی لیا جاتا ہے اور ربا کا لغوی معنی مطلق زیادتی ہے۔ کہا جاتا ہے : ربا الشیء یربو۔ جب کوئی شے زیادہ ہوجائے اور اس معنی میں حدیث طیبہ بھی ہے : فلا واللہ ما اخذنا من لقمۃ الا ربا من تحتھا “۔ (قسم بخدا ! ہم نے جو لقمہ بھی لیا تو وہ اپنے نیچے سے اور زیادہ ہوگیا) مراد وہ کھانا ہے جس میں حضور نبی کریم ﷺ نے برکت کی دعا فرمائی، اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ (
1
) (صحیح بخاری، باب السرمع الصیف والاھل، حدیث نمبر
567
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) قیاس یہ ہے کہ یہ یاء کہ ساتھ لکھا جائے کیونکہ اس کے اول میں کسرہ ہے، حالانکہ انہوں نے اسے قرآن کریم میں واؤ کے ساتھ لکھا ہے۔ پھر شریعت نے اس اطلاق میں تصرف کیا اور اسے بعض مواقع کے ساتھ محصور کردیا، پس ایک بار اس کا اطلاق حرام کمائی پر کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یہود کے بارے میں فرمایا : (آیت) ” واخذھم الربوا وقد نھوا عنہ “۔ (النسا :
161
) ترجمہ : اور بوجہ اس کے سود لینے کے حالانکہ منع کئے گئے تھے اس سے۔ اور اس سے وہ شرعی ربا مراد نہیں لیا جس کے حرام ہونے کا ہم پر حکم لگایا، بلکہ اس سے حرام مال مراد لیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :۔ (آیت) ” سمعون للکذب اکلون للسحت “۔ (المائدہ :
42
) ترجمہ ؛ قبول کرنے والے ہیں جھوٹ کو بڑے حرام خور ہیں۔ اس سے مراد مال حرام ہے رشوت وغیرہ، اور وہ جسے انہوں نے ” امیین “ کے اموال میں سے حلال سمجھ لیا تھا جہاں انہوں نے کہا : (آیت) ” لیس علینا فی الامین سبیل “۔ (العمران :
75
) ترجمہ : کہ نہیں ہے ہم پر ان پڑھوں کے معاملہ میں کوئی گرفت۔ اس بنا پر اس میں نہی ہر مال حرام کو شامل ہے جس طریقہ سے بھی مال کمایا جائے اور وہ ربا جس پر شرعی اصطلاح ہے وہ دو چیزیں ہیں : نساء کو حرام قرار دینا اور عقود اور مطعومات میں تفاضل (زیادتی) جیسا کہ ہم اسے بیان کریں گے اور اس میں غالب وہی ہے جو عرب کرتے تھے، قرض دینے والے کے لئے ان کا یہ قول ہے : اتقضی ام تربی ؟ (کیا تو ادا کرے گا یا تو اضافہ کرے گا) پس وہ (قرض دینے والا) مال کی تعداد میں اضافہ کردیتا اور قرض لینے والا اس پر صبر کرتا اور یہ سب حرام کردیا گیا ہے اس پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) اکثر وہ بیعیں جنہیں ممنوع قرار دیا گیا ہے ان میں ممنوع ہونے کی علت زیادتی کے معنی کا پایا جانا ہے یا تو عینمال میں زیادتی یا پھر (بائع اور مشتری میں سے) کسی ایک کے لئے تاخیر کے سبب منفعت میں زیادتی وغیرہ۔ اور بیوع میں سے وہ جس میں زیادتی کا معنی نہ ہو جیسا کہ پھل کی بیع کرنا اس کے پکنے کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اور اسی طرح وہ بیع جو جمعہ کے دن اذان کے وقت ہو، اگر ان کے کرنے والے کو کہا جائے، سود کھانے والا تو یہ مجازا اور تشبیہا ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
3
) ائمہ نے روایت کیا ہے اور الفاظ مسلم شریف کے ہیں، حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” سونے کی بیع سونے کے عوض، چاندی کی بیع چاندی کے عوض، گندم کی بیع گندم کے عوض، جو کی بیع جو کے عوض، کھجور کی بیع کھجور کے عوض اور نمک کی بیع نمک کے عوض برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ ہے، پس جس نے زیادتی کی یا زیادتی کا مطالبہ کیا تو اس نے سود لیا لینے اور دینے والا اس میں برابر ہیں۔ “ اور حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی حدیث میں ہے : ” جب یہ اصناف مختلف ہوں تو پھر انکی بیع کرو جیسے تم چاہو بشر طی کہ دست بدست ہو ، “ اور ابو داؤد نے حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ” سونے کی بیع سونے کے عوض اس کی پتریاں ہوں اور اس کا عین ہو، چاندی کی بیع چاندی کے عوض اس کی پتریاں ہوں اور اس کا عین ہو، گندم کی بیع گندم کے عوض (یعنی) مد کی بیع مد کے عوض، جو کی بیع جو کے عوض (یعنی) مد کی بیع مد کے عوض، کھجور کی بیع کھجور کے عوض (یعنی) مد کے بدلے مد اور نمک کی بیع نمک کے عوض (یعنی) مد کے بدلے مد، پس جس نے زیادہ دیا یا زیادتی کا طالب ہوا تحقیق اس نے سود لیا اور سونے کو چاندی کے عوض بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ ان میں سے چاندی کی مقدار زیادہ ہو درآنحالیکہ بیع دست بدست ہو اور رہی نسیئہ (ادھار) تو یہ جائز نہیں ہے اور گندم جو کے عوض بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جو ان دونوں میں زیادہ ہو درآنحالیکہ بیع دست بدست ہو اور رہی ادھار تو یہ جائز نہیں۔ (
1
) (سنن ابی داؤد باب فی الصرف، حدیث نمبر
2907
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) علماء نے اس سنت کے تقاضا کے مطابق قول پر اجماع کیا ہے اور اسی طریقہ پر مسلمان فقہاء کی جماعت ہے مگر گندم اور جو میں، کیونکہ امام مالک (رح) نے ان دونوں کو ایک صنف قرار دیا ہے۔ پس ان دونوں میں سے دو کی بیع ایک کے عوض جائز نہیں ہے اور یہی قول لیث، اوزاعی اور مدینہ اور شام کے عظیم علماء کا ہے، اور امام مالک نے ان دونوں کی طرف السلت (جو کی ایک قسم جس پر چھلکا نہیں ہوتا) کی اضافت کی ہے اور لیث نے کہا : السلت (جو) باجرہ اور مکئی یہ ایک ہی صنف ہے اور ابن وہب نے یہی کہا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جب طیبہ ثابت ہے تو اس کے ساتھ کسی قول کی کوئی حیثیت نہیں اور حضور ﷺ نے فرمایا ہے : ” جب یہ اصناف مختلف ہوں تو تم جیسے چاہو انہیں بیچو بشرطیکہ بیع دست بدست ہو ، “ اور آپ کا یہ ارشاد بھی ہے : ” کہ گندم کی بیع گندم کے عوض اور جو کی بیع جو کے عوض “ تو یہ اس پر دلیل ہے کہ یہ دونوں دو مختلف قسمیں ہیں جیسا کہ گندم اور کھجور مختلف ہیں کیونکہ دونوں کی صفات مختلف ہیں اور دونوں کے نام بھی مختلف ہیں اور اگانے والے اور کاٹنے والے کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ شریعت نے اس کا اعتبار نہیں کیا، بلکہ جدائی اور فرق بالکل واضح اور بین ہے اور امام شافعی، امام ابو حنیفہ، ثوری اور اصحاب حدیث کا یہی مذہب ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ یہ موقف اختیار کرتے تھے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی جانب سے نہی اور تحریم ڈھلے ہوئین دینار اور ڈھلے ہوئے درہم کے بارے میں وارد ہے نہ کہ سونے کی پتریوں اور ڈھالی گئی چاندی کے بارے میں اور نہ ہی اس کے بارے میں جو ڈھلی ہوئی (چاندی) سے شے بنائی گئی ہو، اور کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نہی صرف اس کے بارے میں جو اس سے خاص نمونہ پر تیار کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ ان کی ملاقات حضرت عبادہ ؓ کے ساتھ ہوگئی، جسے مسلم وغیرہ نے بیان کیا ہے، بیان فرمایا : ہم جہاد میں شریک ہوئے اور لوگوں پر حضرت امیر معاویہ ؓ حکمران تھے پس ہم نے بہت زیادہ مال غنیمت اکٹھا کیا اور ہمارے اس مال غنیمت میں چاندی کے برتن بھی تھے، تو حضرت امیر معاویہ ؓ نے ایک آدمی کو لوگوں کے عطیات میں انہیں بیچ ڈالنے کا حکم دیا، تو اس بارے میں لوگوں کے مابین تنازع شروع ہوگیا، پس اس کی اطلاع حضرت عبادہ بن صامت ؓ کے پاس پہنچی آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا : بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سونا سونے کے عوض، چاندی چاندی کے عوض گندم گندم کے عوض، جو جو کے عوض، کھجور کھجور کے عوض اور نمک نمک کے عوض بیچنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے مگر (اس صورت میں کہ وہ) برابر برابر ہو اور عین کے عوض عین ہو، جس نے زیادہ کیا یا زیادتی کا طالب ہوا تو تحقیق اس نے سود لیا، پس لوگوں نے جو لیا تھا وہ واپس لوٹا دیا۔ پس یہ خبر جب حضرت امیر معاویہ ؓ تک پہنچی تو آپ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا : خبردار ! سنو کیا حال ہے ان لوگوں کا جو رسول اللہ ﷺ سے احادیث بیان کرتے ہیں حالانکہ ہم آپ کے پاس حاضر رہتے تھے اور آپ کی صحبت ومعیت میں رہتے تھے اور ہم نے آپ ﷺ سے ایسی احادیث نہیں سنیں، تو حضرت عبادہ بن صامت ؓ کھڑے ہوئے اور دو بار وہی حدیث بیان فرمائی، پھر فرمایا ہم ضرور بہ ضرور اس کے بارے حدیث بیان کریں گے، جو ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، اگرچہ حضرت امیر معاویہ ؓ اسے ناپسند کریں، مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں نے سیاہ رات میں آپ کے لشکر میں آپ کی صحبت اختیار نہیں کی، حماد نے یہی یا اسی طرح کہا ہے۔ ابن عبدالبر نے کہا ہے : یہ بھی روایت ہے کہ یہ قصہ حضرت ابو الدرداء ؓ کا حضرت امیر معاویہ ؓ کے ساتھ پیش آیا اور یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں کا آپ کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہو لیکن عرف میں حضرت عبادہ ؓ کی حدیث محفوظ رہی۔ اور یہی وہ اصل ہے جس پر علماء نے ربا کے باب میں اعتماد اور بھروسہ کیا ہے اور انہوں نے اس بارے میں حضرت امیر معاویہ ؓ کے فعل کے جائز نہ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں کیا ہے اور اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ معاملہ حضرت امیر معاویہ ؓ پر مخفی رہا ہو حالانکہ حضرت ابوالدرداء اور حضرت عبادہ ؓ دونوں نے اسے جان لیا ہو، کیونکہ یہ دونوں فقہاء اور کبار صحابہ کرام میں سے جلیل القدر صحابی ہیں، کبھی حضرت ابوبکر وعمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر کوئی ایسی شے مخفی رہی جوان کے سوا دوسرے صحابہ کرام سے پالی گئی جو درجہ اور رتبہ میں ان سے کم ہیں، پس حضرت امیر معاویہ ؓ بھی دوسرے ہیں۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا مذہب حضرت ابن عباس ؓ کے مذہب کی طرح ہو۔ اس کے باوجود کہ وہ علم کا سمندر تھے وہ ایک درہم کی بیع دو درہم کے ساتھ کرنے کوئی حرج نہ دیکھتے تھے یہاں تک کہ حضرت ابو سعید ؓ نے انہیں اس سے پھیر دیا۔ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کا واقعہ بھی حضرت عبادہ ؓ کے ساتھ اسی طرح ہے اور یہ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں پیش آیا، قبیصہ بن ذؤیب نے کہا ہے : بیشک حضرت عبادہ ؓ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کو کسی شے سے منع کیا تو انہوں نے کہا : میں تجھے اس زمین پر نہیں رہنے دوں گا جہاں تو رہ رہا ہے تو وہ مدینہ میں داخل ہوگئے تو حضرت عمر ؓ نے انہیں کہا : کون سی شے تجھے لے آئی ہے ؟ تو انہوں نے آپ کو سارا واقعہ بیان کردیا۔ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا : تو اپنی جگہ کی طرف لوٹ جا، اللہ تعالیٰ اس زمین کو فاسد کرے جس میں تم اور تمہاری مثل لوگ نہ ہوں، اور ساتھی ہی حضرت امیر معاویہ ؓ کی طرف لکھ دیا لا امارۃ لک علیہ (تجھے اس پر کوئی ولایت حاصل نہیں ہے) مسئلہ نمبر : (
5
) ائمہ نے روایت کیا ہے اور الفاظ دارقطنی کے ہیں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دینار کے عوض ہے اور درہم درہم کے عوض ہے ان کے درمیان کوئی فضل اور زیادتی نہیں ہے جسے چاندی کی حاجت ہو اسے چاہیے کہ وہ اسے سونے کے عوض بدل لے اور اگر سونے کی ضرورت ہو تو پھر اسے چاہیے کہ وہ چاندی کے عوض اسے بدل لے دست بدست (یعنی ایک ہاتھ سے لے اور دوسرے سے دے) علماء نے بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد گرامی : ” الدینار بالدینار والدرھم بالدرھم لافضل بینھما یہ اس اصل کی جنس کی طرف اشارہ ہے جو ڈھلی ہوئی ہو اور اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : الفضۃ بالفضۃ والذھب بالذھب الدیث “۔ چاندی چاہے سفید ہو یا سیاہ اور سونا سرخ ہو یا زرد کسی کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیع جائز نہیں ہوتی مگر یہ کہ دونوں ہم مثل ہوں اور ہر حال میں برابر ہوں، اسی پر علماء کی ایک جماعت ہے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا ہے۔ اور حضرت امام مالک (رح) سے فلوس کے بارے میں روایت مختلف ہے، سو آپ نے انہیں دراہم کے ساتھ ملحق کیا ہے اس حیثیت سے کہ یہ اشیاء کے ثمن ہیں اور ایک بار انہیں انکے ساتھ ملانے سے منع بھی کیا ہے اس اعتبار سے کہ یہ ہر شہر میں ثمن نہیں ہیں بلکہ بعض شہر ان کے ساتھ مختص ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
6
) اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے جو امام مالک (رح) کے بہت سے اصحاب سے مروی ہے ان میں سے بعض اسے امام مالک (رح) سے تاجر کے بارے میں روایت کرتے ہیں درآنحالیکہ خروج (گھر سے نکلنا) اسے دھوکہ دے رہا ہو۔ اور اس کے سبب اسے ڈھا لے گئے دراہم یا دنانیر کی حاجت پڑجائے، پس وہ اپنی چاندی یا اپنا سونا لے کر ٹکسال میں آتا ہے اور ڈھالنے والے کو کہتا ہے، میری یہ چاندی یا یہ سونا تو لے لے اور اپنی محنت بھی لے لے اور تو مجھے میرے سونے کے بدلے ڈھلے ہوئے دنانیر یا میری اس چاندی کے بدلے ڈھلے ہوئے دراہم مجھے دے دین کیونکہ مجھے خروج کے وقت دھوکا دیا گیا ہے اور مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے چھوڑ دے گا جس ساتھ میں نکلا ہوں، تو ضرورت کے تحت اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے اور بعض لوگوں نے اس کے مطابق عمل کیا ہے، ابن عربی (رح) نے اپنی قبس میں امام مالک (رح) سے تاجر کے سوا دوروں کے بارے میں بھی اسے بیان کیا ہے کہ امام مالکرحمۃ اللہ علیہ نے اس میں تخفیف فرمائی ہے۔ اور یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی وہ چاندی بیچے جس کا وزن ایک سو پانچ درہم تھا اور وہ اس کے بدلے اسے سو درہم دے اور یہ خالص ربا ہے اور جس نے اس کے جواز کو ثابت کیا ہے کہ اگر وہ اسے اس طرح کہے : یہ چاندی مجھے ڈھال دے اور اس پر تو اس سے اجرت کاٹ لے، پس جب وہ اسے ڈھال لے اور یہ اس سے لے لے اور یہ اسے اس کی اجرت دا کر دے، پس جو امام مالک نے پہلے کہا ہے وہ وہی ہے جو آخر میں ہوگا، امام مالک (رح) نے مال کی طرف دیکھا ہے اور اس پر حال کا حکم مرتب کیا ہے اور تمام فقہاء نے اس کا انکار کیا ہے : ابن عربی نے کہا ہے : اس میں امام مالک (رح) کی حجت واضح ہے۔ ابو عمر (رح) نے کہا ہے یہ وہ عین ربا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس قول سے حرام کیا ہے : من زادا وزاداد فقد اربی (جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تحقیق اس نے سود لیا۔ ابن وہب نے اس مسئلہ میں امام مالک (رح) کا رد کیا ہے اور اس کا انکار کیا ہے۔ اور علامہ ابہری نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ تجارت کے فروغ کے لئے نرم رویہ اپنایا گیا ہے تاکہ تجارتی منڈی ختم ہی نہ ہوجائے اور ربا (سود) نہیں اس پر جو اس سے زیادہ لینے کا ارادہ کرے جو اس کا قصد کرتا ہو اور اسے چاہتا ہو۔ اور ابہری بھول گئے اس کی اصل سد ذرائع میں ہے اور ان کا قول اس آدمی کے بارے میں ہے جس نے کپڑا ادھار بیچا اور وہ اسے خریدنے کی نیت اور ارادہ نہ رکھتاہو پھر وہ اسے بازار میں پاتا ہے کہ اسے بیچا جا رہا ہے۔ بیشک اس کے لئے اس سے کم قیمت کے ساتھ اسے خریدنا جائز نہیں ہے جتنے کے اس نے اسے بیچا تھا، اگرچہ وہ اس کا قصد نہ بھی کرے، اور نہ اسے چاہے اور اس کی کثیر مثالیں ہیں، اور اگر ربا نہیں ہے مگر اسی پر جو اس کا قصد کرے تو پھر (ہر شے) فقہاء پر ہی حرام کی گئی ہے اور حضرت عمر ؓ نے کہا ہے : ہمارے بازار میں کوئی تجارت نہیں کرے گا مگر وہی جو اس کی خوب سمجھ بوجھ رکھتا ہو ورنہ وہ ربا کھائے گا، یہ اس کے لئے بالکل واضح ہے جسے انصاف عطا کیا گیا اور اسے رشد ہدایت عطا فرمائی گئی۔ (
1
) (جامع ترمذی، باب ماجاء فی فضل الصلوۃ علی النبی، حدیث نمبر
449
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میں (مفسر) کہتا ہوں : امام مالک (رح) نے زیادتی (لینے دینے) سے روکنے میں انتہائی مبالغہ کیا ہے یہاں تک کہ انہوں نے متوھم (موھومہ) کو متحقق (ثابت شدہ) کی مثل قرار دیا ہے، سو آپ نے ایک دینار اور ایک درہم کی بیع ایک دینار اور ایک درہم کے بدلے کرنے سے منع کیا ہے، یہ سد ذرائع کے لئے اور توہمات کی جڑ کاٹنے کے لئے کیا ہے کیونکہ اگر زیاتی کا وہم نہ ہوتا تو وہ آپس میں تبادلہ نہ کرتے اور تقسیم کے وقت مماثلت متعذر ہونے کو اس منع کی علت قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس سے سونے اور چاندی کا تبادلہ سونے کے عوض لازم آتا ہے اور اس سے زیادہ واضح یہ ہے کہ انہوں نے تفاضل معنوی سے بھی منع کیا ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے اس سے منع کیا ہے کہ کوئی اعلی اور عمدہ سونے کے ایک دینار اور گھٹیا سونے کے ایک دینار کی بیع اعلی کے مقابلہ میں کرے اور گھٹیا پن کو لغو قرار دے، اور یہ آپکی دقت نظر کی علامت ہے، پس یہ اس پر دلیل ہے کہ آپ سے وہ روایت منکر ہے اور وہ صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
7
) خطابی نے کہا ہے : تبر سے مراد سونے اور چاندی کا وہ ایک ٹکڑا ہے جسے ابھی تک ڈھالا نہ گیا ہو اور نہ ہی اس سے دراہم یا دنانیر بنائے گئے ہوں، اس کی واحد تبرۃ ہے اور العین سے مراد وہ ہے جس سے دراہم یا دنانیر بنا لئے گئے ہوں، رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا ہے کہ ایک مثقال عین سونا بیچا جائے مثقال اور ایسی پتریوں کے ساتھ جو ڈھلی ہوئی نہ ہوں اور اسی طرح مضروب چاندی اور غیر مضروب چاندی کے درمیان تفاوت کو بھی حرام قرار دیا ہے اور آپ ﷺ کے اس ارشاد ” تبرھا وعینھا “۔ سواء کا یہی معنی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ کھجور کی بیع کھجور سے کرنا جائز نہیں ہوتی مگر برابر ابرابرا، اور انہوں نے ایک کھجور کی بیع دو کھجوروں کے ساتھ کرنے میں اور گندم کے ایک حبہ (دانہ یا دو جو کے برابر وزن) کی بیع دو جو وں کے ساتھ کرنے میں اختلاف کیا ہے، اور امام شافعی، امام احمد، اسحاق، اور ثوری رحمۃ اللہ علہیم نے اس سے منع کیا ہے۔ یہی امام مالک (رح) کے قول کا قیاس ہے اور یہی صحیح ہے، کیونکہ وہ شے جس میں ربا جاری ہوتا ہے اس کی کثیر مقدار میں تفاضل کے سبب تو قیاسا اور نظرا اس کی قلیل مقدار بھی اس میں داخل ہے اور جنہوں نے اس بیع کو جائز قرار دیا ہے انہوں نے اس سے استدلال کیا ہے کہ ایک یا دو کھجوریں ضائع کرنے والے پر قیمت واجب نہیں ہوتی، فرمایا : کیونکہ اس کا کوئی ماپ اور وزن نہیں ہے لہذا اس میں تفاضل (زیادتی) جائز ہے۔ مسئلہ نمبر : (
9
) تو جان ! تجھ پر رحم فرمائے کہ اس باب کے مسائل کثیر ہیں اور اس کی فروع پھیلی ہوئی ہیں، وہ شے جو تیرے لئے مضبوط ہو وہ یہ ہے کہ تو ربا کی اس علت میں غور وفکر کرے جس کا علماء میں سے ہر ایک نے اعتبار کیا ہے، پس امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : اس کی علت جنس کے اعتبار سے کیلی یا وزنی ہونا ہے پس وہ شے جس میں کیل یا وزن داخل ہوگا آپ کے نزدیک وہ ایک جنس میں سے ہے اور اس کے بعض کی بعض کے ساتھ متفاضلا یانسئیا بیع کرنا جائز نہ ہوگا، پس آپ نے مٹی کی مٹی کے ساتھ بیع متفاضل سے منع کیا ہے، کیونکہ اس میں کیل داخل ہوتا ہے اور ایک روٹی کی بیع دو روٹیوں کے ساتھ کرنے کو جائز قرار دیا ہے، کیونکہ آپ کے نزدیک یہ اس کیل میں داخل نہیں ہیں جو اس کی اصل ہے۔ پاس یہ اس جنس سے خارج ہوگئی جس میں ربا داخل ہوتا ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : اس کی علت جنس کے اعتبار سے اس شے کا مطعوم (وہ شے جو کھائی جائے) ہونا ہے، یہ آپ کا جدید قول ہے، پس آپ کے نزدیک آٹے کی بیع روٹی کے ساتھ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی روٹی کی بیع روٹی کے ساتھ کرنا جائز ہے نہ متفاضلا اور نہ سیئا، چاہے روٹی خمیری ہو یا تازہ ہو، اور آپ کے نزدیک ایک انڈے کی بیع دو انڈوں سے کرنا جائز نہیں ہے، ایک انار کی بیع دو اناروں سے کرنا جائز نہیں ہے، ایک تربوز کی بیع دو تربوزوں سے کرنا جائز نہیں ہے نہ دست بدست اور نہ ہی ادھار کیونہک یہ سب کھایا جانے والا طعام ہے۔ اور آپ نے اپنے پرانے قول میں کہا ہے کہ اس کی علت کیلی یا وزنی ہونا ہے۔ اور اس بارے میں ہمارے اصحاب مالکیہ کی عبارات مختلف ہیں اور ان میں سے جو سب سے اچھی اور حسین ہے وہ یہ ہے کہ وہ شے ایسی جنس سے ہو جو خوراک بن سکتی ہو اور اغلبا زندگی گزارنے کے لئے ذخیرہ کی جاسکتی ہو، جیسا کہ گندم، جو کھجور اور نمک جن پر نص بیان کی گئی ہے اور وہ چیزیں جو ان کے معنی میں جیسا کہ چاول، مکئی باجرہ اور تل اور وہ دانے جو ہانڈی میں پکائے جاتے ہیں مثلا لوبیا، دالیں، سیم اور جنے وغیرہ، اور طرح گوشت، دودھ، سرکہ اور تیل وغیرہ، اور پھل مثلا انگور، کشمش اور زیتون وغیرہ اور انجیر میں اختلاف کیا گیا ہے اور شہد اور شکر اس کے ساتھ ملحق کئے جاتے ہیں پس یہ تمام وہ چیزیں ہیں جن میں نساء کی جہت سے ربا داخل ہوتا ہے اور ان میں تفاضل جائز ہے کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے : ” جب یہ اصناف مختلف ہوں تو تم جیسے چاہو ان کی بیع کرو بشرطیکہ وہ دست بدست ہو۔ “ اور ان تازہ پھلوں میں رب نہیں ہے جو باقی نہیں رہتے مثلا سیب، تربوز، انار، ناشپاتی، ککڑی، کھیرا بینگن، اور اس کے علاوہ دیگر سبزیاں۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : انڈے کی بیع انڈے کے ساتھ متفاضلا جائز نہیں ہوتی، کیونکہ یہ ان میں سے ہیں جو ذخیرہ کئے جاسکتے ہیں اور ان کے نزدیک برابر برابر بیع جائز ہوتی ہے۔ اور محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم نے کہا ہے : ایک انڈے کی بیع دو انڈوں سے اور زیادہ سے کرنا بھی جائز ہے کیونکہ یہ ان چیزوں میں سے ہیں جو ذخیرہ نہیں کی جاسکتیں اور یہی امام اوزاعی (رح) کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
10
) الریا کے لفظ میں علماء نحو نے اختلاف کیا ہے بصریوں نے کہا ہے یہ وادی الفاظ میں سے ہے کیونکہ تو اس کے تثنیہ میں کہتا ہے : ربوان۔ سیبویہ نے یہی کہا ہے اور کو فیوں نے کہا ہے : یہ یا کے ساتھ لکھا جائے گا اور اس کا تثنیہ یا کے ساتھ ہے، کیونکہ اس کے اول میں کسرہ ہے۔ زجاج نے کہا ہے : میں نہیں کوئی خطا نہیں دیکھی جو اس سے زیادہ قبیح اور زیادہ شنیع ہو اور لکھنے میں خطا انہیں کافی نہ ہوتی یہاں تک کہ انہوں نے تثنیہ میں غلطی کی، حالانکہ وہ یہ پڑھتے ہیں : وما اتیتم من ربالیربوا فی اموال الناس “ محمد بن یزید نے کہا ہے : مصحف میں الربا واؤ کے ساتھ لکھا گیا ہے تاکہ اس کے درمیان اور زنا کے درمیان فرق ہوجائے۔ ربا واؤ کے ساتھ لکھنا اولی ہے کیونکہ یہ ربا یربو سے ہے۔ مسئلہ نمبر : (
11
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبط الشیطن من المس “۔ یہ جملہ مبتدا کی خبر ہے اور وہ (آیت) ” الذین “ ہے، اور معنی یہ ہے کہ وہ اپنی قبروں سے نہیں اٹھیں گے مگر جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو، حضرت ابن عباس ِ ؓ ، حضرت مجاہد ؓ ، حضرت ابن جبیر ؓ ، قتادہ ؓ ، ربیع ؓ ، ضحاک ؓ ، سدی ؓ ، اور ابن زید رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین و رحمۃ اللہ علہیم نے یہی کہا ہے۔ اور بعض نے یہ کہا ہے کہ اس کے ساتھ شیطان رکھا جائے گا وہ اس کا گلا دباتا رہے گا، اور تمام نے کہا ہے : اسے بطور سزا اور تمام اہل محشر کے کے نزدیک ناپسندیدہ قرار دینے کے لئے مجنون کی طرح اٹھایا جائے گا، اور اس تاویل کو جس پر اجماع کیا گیا ہے یہ بات قوی اور پختہ کرتی ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ کی قرات میں ہے : لا یقومون یوم القیامۃ الا کما یقوم “۔ (کہ قیامت کے دن وہ کھڑے نہیں ہوں گے مگر جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : جہاں تک آیت کے الفاظ کا تعلق ہے وہ دنیوی تجارت کی طرف انتہائی حرص و لالچ کے ساتھ کھڑے ہونے والے کی حالت کو پاگل کے کھڑے ہونے کے ساتھ تشبیہ دینے کا احتمال رکھتے ہیں کیونکہ طمع اور رغبت اسے مضطرب کردیتی ہے یہاں تک کہ اس کے اعضاء مضططرب ہوجاتین ہیں اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ تو تیز چلنے والے کے بارے کہتا ہے کہ وہ اپنی حرکات کی ہئیت میں پاگل لگتا ہے یا تو گھبراہٹ کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے اسے پاگل کہا گیا ہے اور اعشے نے اپنی ناقہ کو اپنے اس قول میں اس کی چشتی اور تیزی میں جنون کے ساتھ تشبیہ دی ہے : وتصبح عن غب السری وکانما الم بھا من طائف الجن اولق۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے : لعمرک بی من حب اسماء اولق۔ لیکن وہ جس کے مطابق حضرت ابن مسعود ؓ کی قرات ہے اس کے مطابق مفسرین کے اقوال ظاہر ہیں۔ وہ اس تاویل کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ اور یتخبطہ یہ یتفعلہ کے وزن پر خبط یخبط سے ہے جیسا کہ آپ کہتے ہیں تملکہ وتعبدہ، اللہ تعالیٰ نے اسے سود کھانے والوں کے لیے علامت قرار دیا ہے اور وہ یہ کہ وہ اسے ان کے پیٹوں میں بڑھا دے گا اور انہیں خوب بوجھل کر دے گا پس وہ جب اپنی قبروں سے نکلیں گے تو وہ کھڑے ہوں گے اور گرپڑیں گے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے، بیشک انہیں قیامت کے دن اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ ان کے پیٹ حاملہ عورتوں کی طرح ہے بلاشبہ یہ ان کی علامت اور نشانی ہوگی اس سے وہ قیامت کے ند پہچانیں جائیں گے پھر عذاب اس کے پیچھے ہوگا جیسا کہ کینہ رکھنے والا قیامت کے دن اس شے کی شہرت کے ساتھ آئے گا جس کے ساتھ اس نے کینہ رکھا اس کے ساتھ اسے مشہور کیا جائے گا پھر اس کے پیچھے اسے عذاب دیا جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” یاکلون “ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ سود کھاتے ہیں اور اس کا کاروبار کرتے ہیں، بیشک اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اکل (کھانے) کا ذکر کیا ہے اس لئے کہ انسان کا مال میں سب سے قوی مقصد یہی ہوتا ہے اور اس لئے کہ یہا انتہائی رغبت اور حرص پر دلالت کرتا ہے۔ الجشع کا معنی شدید حرص ہے کہا جاتا ہے : رجل جشع بین الجشع وقوم جشعون “۔ (یعنی انتہائی شدید حرص رکھنے والا آدمی اور قوم) المجمل میں یہی ہے اور کسب (کمائی) کے توابع میں سے اس بعض کو کل کسب کے قائم مقام رکھا گیا ہے پس لباس، رہائش، ذخیرہ اور اہل و عیال پر خرچ کرنا سب اس ارشاد میں داخل ہے۔ (آیت) ” الذین یاکلون “۔ مسئلہ نمبر : (
12
) اس آیت میں ان کے انکار کے فاسد ہونے پر دلیل ہے جنہوں نے جن کی جانب سے گرا دینے کا انکار کیا ہے اور یہ گمان کیا ہے کہ یہ طبائع کے فعل میں سے ہے اور یہ کہ شیطان نہ انسان میں چل سکتا ہے اور انہ اس کی جانب سے چھوا جاسکتا ہے اس کتاب میں پہلے ان کا رد گزر چکا ہے۔ نسائی نے ابو الیسر سے روایت بیان کی ہے انہوں نے بیان کیا ہے : رسول اللہ ﷺ اس طرح دعا مانگتے تھے : ” اللھم انی اعوذبک من التردی والھدم والغرق والحریق واعوذبک ان یتخبطنی الشیطان عند الموت واعوذبک ان اموت فی سبیلک مدبرا واعوذ بلک ان اموت لدیغا (اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں (کنویں میں) گرنے سے اور (اس سے کہ مجھ پر کوئی عمارت) گر پڑے اور (پانی میں) غرق ہونے سے اور (آگ میں) جلنے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ شیطان موت کے وقت مجھے پاگل بنا دے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں تیرے راستے میں (میدان جہاد سے) پیٹھ پھیرتے ہوئے مروں اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ مجھے کسی شے کے ڈسنے سے موت آئے) اور محمد بن مثنی کی حدیث سے مروی ہے کہ ابو داؤد نے ہمام سے انہوں نے حضرت قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ دعا مانگتے تھے : (آیت) ” اللہم انی اعوذبلک من الجنون والجذام والبرص وسی الاسقام (اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں جنون سے، جذام سے، برص سے اور بیماریوں کی شدت اور تلخی سے) اور مس کا معنی جنون ہے، کہا جاتا ہے مس الرجل والس، فھو ممسوس، ومالوس، جب وہ آدمی مجنون ہو، اور یہ آخرت میں ربا کی علامت ہوگی، اور حدیث اسراء میں روایت کیا گیا ہے، ” جبرائیل امین (علیہ السلام) مجھے لے کر چلے تو میں بہت سے لوگوں کے پاس سے گزرا ان میں سے ہر آدمی کا پیٹ، بہت بڑے گھر کی مثل ہے درآنحالیکہ وہ آل فرعون کے راستے پر پڑے ہوئے ہیں، اور آل فرعون کو صبح وشام آگ پر پیش کیا جاتا ہے پس وہ شدید پیاسے اونٹوں کی مثل آتے ہیں وہ پتھروں اور درختوں سے ٹکراتے ہیں نہ وہ کچھ سنتے ہیں اور نہ عقل رکھتے ہیں پس جب ان بڑے پیٹوں والوں نے انہیں محسوس کیا تو وہ کھڑے ہوئے اور ان کے پیٹ ان پر غالب آگئے اور وہ گرنے لگے پھر ان میں سے کوئی کھڑا ہوتا تو وہ اس کا پیٹ اس پر بھاری ہوجاتا اور وہ گڑ پڑتا، پس وہ واضح استطاعت اور قدرت نہ رکھتے تھے، یہاں تک کہ آل فرعون نے انہیں ڈھانپ لیا اور وہ انہیں آتے جاتے ہوئے روندنے لگے، پس دنیا اور آخرت نہ رکھتے تھے، یہاں تک کہ آل فرعون نے انہیں ڈھانپ لیا اور وہ انہیں آتے جاتے ہوئے روندنے لگے، پس دنیا اور آخرت کے درمیان برزخ میں یہی ان کا عذاب ہے، اور آل فرعون کہتے ہیں اے اللہ ! کبھی قیامت قائم نہ کر، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” ویوم تقوم الساعۃ، ادخلوا ال فرعون اشدالعذاب “۔ (الغافر) ترجمہ : اور جس روز قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا) داخل کر دو فرعونیوں کو سخت تر عذاب میں۔ میں نے پوچھا اے جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟ تو اس نے کہا : ” یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے ہیں وہ کھڑے نہیں ہوں گے مگر جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو “ اور مس سے مراد مجنون ہے اور اسی سے اولق، المس اور الرود کے الفاظ بھی اسی معنی میں ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
13
) قولہ تعالیٰ ؛ (آیت) ” ذلک بانھم قالوا انما البیع مثل الربوا “۔ تمام متاولین کے نزدیک اس کا معنی ہے کہ یہ کفار کے بارے میں ہے اور ان کو کہا گیا ہے : (آیت) ” فلہ ماسلف “۔ (تو جائز ہے اس کے لئے جو گزر چکا ہے) اور کسی گنہگار مومن کو یہ نہیں کہا جاتا، بلکہ اس کی بیع ٹوٹ جاتی ہے اور اس کا فعل رد کردیا جاتا ہے اگرچہ وہ ناواقف ہو، سو اسی لئے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھورد ‘ (جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے بارے ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ کام مردود ہے) لیکن نافرمان اور معصیت کا ارتکاب کرنے والے اس آیت کی وعید سے ایک طرف ہو کر سود لیتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
14
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” انما البیع مثل الربوا “ اور عربوں میں صرف یہی ربا معروف تھا، پس جب ان کے قرض کی ادائیگی کا وقت آپہنچتا تو وہ مقروض کو کہتے : کیا پورا دا کرے گا یا اسے بڑھائے گا، یعنی قرض میں اضافہ کرے گا پس اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا ہے اور اپنے اس قول حق کے ساتھ ان کے قول کو رد کردیا ہے : (آیت) ” واحل اللہ البیع وحرم الربوا “۔ اور واضح کردیا ہے جب مدت گزر جائے اور اس کے پاس ادائیگی کے لئے کچھ نہ ہو تو اسے آسانی اور خوشحالی آنے تک مہلت دی جائے اور یہی وہ ربا ہے جسے حضور نبی مکرم ﷺ نے نویں ذی الحجہ کے دن اپنے قول کے ساتھ منسوخ کردیا۔ جب آپ نے فرمایا : ” خبردار “ سنو بلاشبہ تمام سود ختم کردیا گیا ہے اور وہ پہلا سود جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ کا سود ہے وہ سارے کا سارا ختم کردیا گیا ہے ، “ پس آپ ﷺ نے اپنے چچا سے اور لوگوں میں سے خاص ترین آدمی سے اس کا آغاذ کیا اور یہی امام وقت کے عدل کے طریقوں میں سے ہے کہ وہ عدل کو اپنی ذات پر اور اپنے خواص پر نافذ کرتا ہے اور پھر وہ تمام لوگوں میں پھیل جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
15
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واحل اللہ البیع وحرم الربوا “۔ یہ قرآن کریم کے عمومات میں سے ہے، اور اس پر الف لام جنس کیلئے ہے، عہد کے لئے نہیں ہے، کیونکہ اس سے پہلے بیع کا ذکر نہیں ہوا جس کی طرف رجوع کیا جائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” والعصر، ان الانسان لفی خسر “ ‘۔ ترجمہ : قسم ہے زمانے کی بیشک انسان خسارے میں ہے۔ پھر استثنی فرمائی : (آیت) ” ان الذین امنوا وعملوالصلحت “۔ ترجمہ : سوائے انکے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے۔ (اس میں الانسان پر الف لام جنسی ہے) اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ بیع عام ہے تو پھر اسے اس کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے جس ربا وغیرہ کا ذکر ہم نے کردیا ہے کہ اس سے منع کردیا گیا ہے اور ان کا عقد کرنے سے روکا گیا ہے، جیسا کہ خمر، مردار اور کسی حاملہ جانور کا حمل وغیرہ ذالک اور اس بارے میں یہی سنت ہے اور اجماع امت سے ثابت ہے اور اس کی نظیر یہ بھی ہے : (آیت) ’ اقتلوا المشرکین “۔ اور وہ تمام کے تمام ظواہر جو عمومات کا تقاضا کرتے ہیں اور ان میں تخصیص داخل ہوسکتی ہے اور یہ اکثر فقہاء کا مذہب ہے۔ اور بعض نے کہا ہے یہ قرآن کریم کی وہ مجمل آیت ہے جس کی تفسیر بیع کی اس قسم کے ساتھ کی گئی ہے جو حلال کی گئی ہے اور اس کے ساتھ جو حرام کی گئی ہے اور یہ ممکن نہیں ہے یہ اسے بیع کو حلال کرنے اور اسے حرام کرنے کے بارے میں استعمال کیا جائے مگر تب جب اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی سنت میں سے کوئی بیان مقترن ہو، اگرچہ یہ تفصیل کے بغیر فی الجملہ بیوع کی اباحت پر دال ہے اور یہ عموم اور مجمل کے درمیان فرق ہے، پاس عموم فی الجملہ اور تفصیل کے ساتھ بیوع کی اباحت پر دلالت کرتا ہے جب تک وہ کسی دلیل کے ساتھ مخصوص نہ ہو، اور مجمل ان کی اباحت پر تفصیل سے دلالت نہیں کرتا یہاں تک کہ اس کے ساتھ بیان مقترن ہو، اور پہلا زیادہ صحیح ہے، واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
16
) البیع لغت میں مصدر ہے باع کذا بکذا، یعنی اس نے عوض دیا اور مغوض لیا، اور یہ بائع (بیچنے والا) کا تقاضا کرتی ہے اور وہ مالک ہوتا ہے یا اس کا نائب ہوتا ہے اور بیع مشتری (خریدار) کا تقاضا کرتی ہے اور یہ وہ ہے جو ثمن ادا کرتا ہے، اور مبیع کا تقاضا کرتا ہے، اور مبیع وہ شے ہوتی ہے جس کے ثمن لگائے جائیں یعنی جس کے مقابلے میں ثمن دیئے جاتے ہیں، اور اس بنا پر بیع کے چار ارکان ہوئے، بائع (بیچنے والا) مشتری (خریدار) ثمن (قیمت) اور مثمن (مبیع وہ شے جو بیچی جارہی ہو) پھر عربوں کے نزدیک معاوضہ اپنے مضاف الیہ کے اختلاف کے سبب مختلف ہوتا رہتا ہے، پس اگر معاوضہ رقبہ یعنی ذات کے مقابلہ میں ہو تو اسے بیع کا نام دیا گیا ہے اور اگر رقبہ کی منفعت کے مقابلہ میں ہو تو اگر وہ منفعت بضع ہو تو اسے نکاح کا نام دیا گیا ہے اور اگر اسے کے سوا کسی اور منفعت کے مقابلہ میں ہو تو اس کے نام اجارہ ہے اور عین (دراہم ودنانیر) کی بیع عین کے عوض ہو تو وہ بیع النقد ہے اور وہی بیع الصرف ہے اور اگر بیع دین موجل کے ساتھ ہو تو وہ بیع سلم ہے۔ اس کا بیان آگے آیۃ الدین میں آئے گا، اور بیع الصرف کا حکم گزر چکا ہے اور اجارہ کا حکم سورة القصص میں آئے گا اور نکاح میں مہر کا حکم سورة النساء میں آئے گا ہر ایک کا ذکر اپنے اپنے محل میں آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (
17
) بیع قبول اور ایجاب (کانام) ہے یہ مستقبل اور ماضی کے الفاظ کے ساتھ منعقد ہوتی ہے، اس میں ماضی حقیقتہ ہوتی ہے اور مستقبل کنایۃ ہوتا ہے اور یہ ایسے لفظ صریح اور کنایہ سے واقع ہوجاتی ہے جس سے ملکیت کا منتقل ہونا سمجھا جائے، چاہے وہ یہ کہے : بعتک ھذہ السلعۃ بعشرۃ میں نے تجھے یہ سامان دس کے عوض بیچا اور خریدنے والا کہے : اشتری تھا۔ میں نے اسے خریدلیا، یا خریدنے والا پہلے کہے : اشتری تھا میں نے اسے خرید لیا اور پھر بیچنے والا کہے : بعتکھا میں نے اسے تجھے بیث دیا یا بائع کہے : میں تجھے دس کے عوض بیچوں کا اور پھر مشتری کہے، میں خرید لوں گا یا میں نے خرید لیا۔ اور اسی طرح ہے اگر وہ کہے تو اسے دن کے عوض لے لے یا میں نے تجھے یہ دے دیا تو اسے لے لے یا تجھے اس میں برکت دی جائے دس کے عوض یا میں نے اسے تیرے حوالے کردیا اور وہ دونوں بیع کا ارادہ رکھتے ہوں تو ان تمام الفاظ کے ساتھ بیع لازم ہوجائے گی، اور اگر بائع نے کہا : میں نے تجھے دس کے عوض بیچ دی پھر وہ مشتری کے قبول کرنے سے پہلے رجوع کرلے تو امام مالک (رح) نے کہا ہے : اس کے لئے رجوع کرنا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ وہ مشتری کے قبول یا اس کے رد کو سن لے، کیونکہ اس نے اپنی جانب سے اسے دے دیا ہے اور اسے اس پر ثابت کردیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس کے لئے جائز ہے کیونکہ ابھی اس پر عقد مکمل نہیں ہوا۔ اور اگر بائع کہے : میں نے تو مذاق کیا تھا تو اس بارے میں روایت مختلف ہے، پس آپ نے ایک بار کہا : بیع لازم ہوجائے گی اور اس کے قول کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی، اور ایک بار فرمایا : سامان کی قیمت کی طرف دیکھا جائے گا، پس اگر ثمن اس کی قیمت سے موافقت رکھتے ہوں تو بیع لازم ہوگی اور اگر متفاوت ہوں جیسے کہ غلام ایک درہم کے عوض اور گھر ایک دینار کے بدلے تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ اس نے اس سے بیع کا ارادہ نہیں کیا، بلاشبہ وہ مذاق کرنے والا نتیجتا بیع لازم نہیں ہوئی۔ مسئلہ نمبر : (
18
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وحرم الربوا “۔ یہاں الف لام عہدی ہے اور اس سے مراد وہی ربا ہے جس کا کاروبار عرب کرتے تھے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا ہے، پھر یہ شامل ہوگا اسے جسے رسول اللہ ﷺ نے حرام کیا ہے اور آپ ﷺ کی جانب سے ایسی بیع سے منع کیا گیا ہے جس میں ربا داخل ہو سکتا ہے اور جو بھی اس کے معنی میں بیوع ہیں ان سے منع کردیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
19
) عقد ربا کو فسخ کردیا گیا ہے وہ کسی حال میں بھی جائز نہیں ہوسکتا، جیسا کہ ائمہ نے اسے روایت کیا ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں، حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ حضرت بلال ؓ سرخ کھجوریں لے کر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : ” یہ کہاں سے لائے ہو ؟ “ حضرت بلال ؓ نے عرض کی : ہمارے پاس کچھ ردی کھجوریں تھیں تو میں نے ان میں سے دو صاع ایک صاع کے عوض بیچ دیں حضور نبی کریم ﷺ کے کھانے کے لئے، تو رسول اللہ ﷺ نے اس وقت فرمایا : ” اوہ ! یہی تو عین ربا ہے تو اس طرح نہ کر، البتہ جب تو کھجوریں بیچنے کا ارادہ کرے تو تو پہلے ایک بیع کے ساتھ انہیں بیچ دے پھر ان (کے ثمن) کے عوض وہ خریدلے۔ “ اور ایک روایت میں ہے۔ ” یہ ربا ہے پس تم اسے لوٹا دو پھر تم ہماری کھجوریں بیچو اور ان کے (ثمن کے) عوض ہمارے لئے کھجوریں خریدلو۔ “ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الوکالۃ، حدیث نمبر
2145
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ہمارے علماء نے کہا ہے : آپ ﷺ نا یہ ارشاد : وہ عین الربا سے مراد وہ ربا ہے جو فی نفسہ حرام ہے نہ کہ وہ جو اس سے مشابہت رکھتا ہے اور آپ کے قول : فردوہ عقد ربا کو فسخ کرنے کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے اور یہ بیع کسی اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہو سکتی اور یہی جمہور کا قول ہے، بخلاف امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے کہ وہ فرماتے ہیں : بلاشبہ ربا کی بیع اپنے اصل کے اعتبار سے جائز ہے اس حیثیت سے کہ وہ بیع ہے اور اپنے وصف کے اعتبار سے ممنوع ہے اس اعتبار سے کہ وہ ربا ہے، پس ربا ساقط ہوجائے گا اور بیع صحیح ہوجائے گی اور اگر اس طرح ہوتا جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے تو حضور نبی کریم ﷺ اس عقد کو فسخ نہ کرتے اور آپ ایک صاع پر جو زیادتی تھی اسے واپس لوٹانے کا حکم ارشاد فرماتے، اور یقینا ایک صاع کے مقابلہ میں صفقہ کو صحیح قرار دیتے۔ مسئلہ نمبر : (
20
) ہر وہ عقد جو واضح طور پر حرام ہو اور اسے فسخ کردیا جائے تو مشتری پر سامان بعینہ واپس لوٹانا واجب ہے اور اگر مشتری کے ہاتھ سے وہ ضائع ہوگیا تو وہ اس سامان میں قیمت لوٹائے گا جس کی قیمت ہو اور وہ یہ ہیں مثلا زمین سامان اور حیوان وغیرہ، اور جن کی مثل موجود ہو اس کی مثل واپس لوٹائے گا وزنی چیزوں میں سے ہو یا کیلی چیزوں میں سے طعام ہو یا غرض (سامان) ہو۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : جس کا حرام ہونا بین ہو وہ واپس لوٹایا جائے گا چاہے وہ ضائع ہو یا نہ ہو، اور وہ جو اس میں سے ہو جسے لوگوں نے مکروہ جانا ہو تو اسے رد کر کردیا جائے مگر یہ سامان ضائع ہوجائے تو پھر اسے چھوڑ دیا جائے، (یعنی رد نہ کیا جائے۔ ) مسئلہ نمبر : (
21
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فمن جآءہ موعظۃ من ربہ “ حضرت امام جعفر بن محمد صادق رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے اللہ تعالیٰ نے سود حرام کردیا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کو قرض دیں اور حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” دو بار قرض دینا ایک بار صدقہ دینے کے مساوی ہوتا ہے۔ “ اسے بزار نے نقل کیا ہے اور اس کا مکمل معنی پہلے گزر چکا ہے۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا ہے کیونکہ یہ مالوں کے لئے باعث ضیاع اور لوگوں کے لئے باعث ہلاکت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” فمن جآء ہ “ میں فعل کے آخر سے علامت تانیث ساقط ہے کیونکہ الموعظۃ مونث غیر حقیقی ہے اور یہ بمعنی وعظ ہے اور حسن نے علامت تانیث کو ثابت رکھتے ہوئے (آیت) ” فمن جائتہ پڑھا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو جب حضرت زید بن ارقم ؓ کے فعل کی خبر دی گئی تو آپ نے یہ آیت پڑھی۔ دارقطنی نے عالیہ بنت انفع سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا کہ میں اور ام محبہ مکہ کی طرف نکلیں اور ہم حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس داخل ہوئیں اور آپ پر سلام عرض کیا تو آپ نے ہم سے پوچھا تم کن میں سے ہو ؟ ہم نے عرض کی۔ ہم اہل کوفہ میں سے ہیں، اس نے کہا گویا آپ نے ہم سے اعراض کرلیا، پھر ام محبہ نے آپ سے عرض کی : اے ام المومنین ! میری ایک کنیزتھی اور میں نے اسے حضرت زید بن ارقم انصاری ؓ کو آٹھ سو درہم کے عوض انہیں عطیہ ملنے تک فروخت کردیا، اور پھر انہوں نے اسے بیچنے کا ارادہ کیا تو میں نے ان سے اسے نقد چھ سو درہم کے عوض خرید لیا ہے، وہ کہتی ہیں، پس آپ ؓ ہماری طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا : تیری خرید بہت بری ہے اور وہ بھی جو تو نے خریدی ہے۔ اور زید ؓ کو یہ پیغام پہنچا دے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں کئے جانے والے اپنے جہاد کو باطل کردیا ہے مگر یہ کہ وہ توبہ کرلے۔ پھر اس نے آپ سے عرض کی : آپ کی کیا رائے ہے اگر میں ان سے اپنے راس المال کے سوا اور کچھ نہ لوں ؟ تب آپ نے کہا۔ (آیت) ” فمن جآءہ موعظۃ من ربہ فانتھی فلہ ماسلف “۔ ترجمہ : پس جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آئی اور وہ (سود سے) رک گیا تو اس کے لئے جائز ہے جو گزر چکا ہے۔ عالیہ ابو اسحاق ہمدانی کو فی السبیعی کی بیوی اور یونس بن ابی اسحاق کی ماں ہے۔ اور یہ حدیث امام مالک (رح) نے بیوع الآجال کے بیان میں نقل کی ہے جو آپ سے ابن وہب نے روایت کی ہے۔ پس اگر بیوع میں ایسی شے ہو جو ممنوع میں پڑنے تک پہنچاتی ہو تو آپ (امام مالکرحمۃ اللہ علیہ) نے اس بیع سے منع کیا ہے اگرچہ ظاہرا وہ جائز ہو، اور جمہور فقہاء نے اس اصل (بنیاد) میں امام مالک (رح) سے اختلاف کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے : احکام کا دارومدار ظاہر پر ہے نہ کہ ظنون پر، اور ہماری دلیل سد ذرائع کے بارے قول ہے۔ پس اگر اسے تسلیم کرلیا جائے (توفبہا) ورنہ ہم نے اس کی صحت پر استدلال بیان کیا ہے اور وہ گزر چکا ہے اور یہ حدیث نص ہے۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ یہ نہ فرماتیں : ابلغی زیدا انہ قد ابطل جھادہ الاان یتوب “ یہ ارشاد توقیفی ہے، کیونکہ فقط رائے سے ایسا قول نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اعمال کو باطل کرنے کی معرفت بغیر وحی کے حاصل نہیں ہو سکتی، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، اور صحیح مسلم (
1
) (صحیح بخاری، باب فضل من استبرالدینہ، حدیث نمبر
50
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میں حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” بیشک حلال واضح اور بین ہے اور حرام بھی واضح اور بین ہے اور ان دونوں کے درمیان امور مشتبہات ہیں، لوگوں میں سے بہت سے انہیں نہیں جانتے پس جو کوئی شبہات سے بچتا رہا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کرلیا اور جو کوئی شبہات میں پڑگیا تو وہ حرام میں واقع ہوگیا، اس چرنے والے کی طرح جو چراگاہ کے اردگرد چرتا ہے، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع (داخل) ہوجائے، خبردار ! سنو بلاشبہ ہر مالک کے لئے ایک چراگاہ ہے، خبردار ! سنو اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں “۔ اور وجہ دلالت یہ ہے کہ آپ نے محرمات میں واقع ہونے کے خوف سے متشا بھات میں پڑھنے سے منع کیا ہے۔ اور یہی ذریعہ کو بند کرنا اور ختم کرنا ہے، اور آپ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک کبائر میں سے یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالیاں دے۔ “ صحابہ نے عرض کی : آدمی اپنے والدین کو گالیاں کیسے دے سکتا ہے ؟ “ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ دوسرے آدمی کے باپ کو گالیاں دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالیاں دیتا ہے اور وہ اس کی ماں کا گالیاں دیتا ہے اور وہ اس کی ماں کو گالیاں دیتا ہے۔ (٭) (مسندا امام احمد، حدیث نمبر
6529
) ‘ پس آپ ﷺ نے تعریضا کسی کے والدین کو گالیاں دینے کو اپنے والدین کو گالیاں دینے کی طرح قرار دیا ہے، اور آپ ﷺ نے یہود پر لعنت فرمائی جب انہوں نے ان (چیزوں کے ثمن کھائے جن) کے کھانے سے انہیں منع کیا گیا تھا (
1
) صحیح بخاری، باب لایجمع بین متفرق ولا یفرق بین مجتمع، حدیث نمبر
1358
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور ابوبکر نے اپنی کتاب میں کہا ہے : صدقہ کے خوف سے متفرق اشیاء کو جمع نہیں کیا جمع نہیں کیا جائے گا اور مجتمع کو متقرق نہیں کیا جائے گا۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے دراہم کی بیع دراہم کے ساتھ کرنے سے منع کیا ہے جبکہ ان کے درمیان گناہ ہو۔ اور علماء نے بیع اور قرض کو جمع کرنے سے روکنے پر اتفاق کیا ہے اور اس پر شراب کی قلیل مقدار حرام ہے اگرچہ وہ نشہ نہ بھی لائے اور اس پر کہ اجنبیہ عورت سے خلوت اختیار کرنا حرام ہے اگرچہ وہ عنین ہو اور اس پر کہ نوجوان عورت کے چہرہ کی طرف دیکھنا حرام ہے، علاوہ ازیں بہت سی چیزیں ہیں اور ان کے بارے قطعی اور یقینی علم ہے کہ شریعت نے ان سے باز رہنے کا حکم دیا ہے، اس لئے کہ وہ محرمات تک پہنچنے کے ذرائع ہیں، اور ربا اس کا زیادہ حق رہتا ہے کہ اس کی چراگاہ کی حفاظت کی جائے اور اس کے راستوں کو بند کیا جائے۔ اور جنہوں نے ان اسباب کو مباح قرار دیا ہے تو انہیں چاہئے کہ مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہلاک کرنے کے لئے کنواں کھودنے اور پھندے گاڑنے کو بھی مباح قرار دیں، اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے اور یہ بھی کہ ہم نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ آدمی کو زیادہ قیمت کے ساتھ ادھار شے بیچنے کو منع کیا جائے گا، بشرطیکہ یہ معروف ہو اور اس کی عادت ہو، اور یہ اسی باب کے معنی میں ہے۔ واللہ الموفق للصواب۔ مسئلہ نمبر : (
22
) ابو داؤد نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” جب تم زیادہ قیمت کے ساتھ ادھار چیزیں بیچنے لگو اور بیلوں کی دمیں پکڑنے لگو اور کھیتی پر ہی راضی ہوجاؤ اور جہاد چھوڑ دو ، اللہ تعالیٰ تم پر ایسا رعب اور خصلت مسلط کر دے گا وہ اسے تم سے دور نہیں کرے گا یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف واپس لوٹ آؤ (
1
) (سنن بیداؤ، باب فی النھی من العینۃ، حدیث نمبر
3003
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس کی اسناد میں ابو عبدالرحمن خراسانی ہے وہ مشہور راوی نہیں ہے۔ ابو عبید ہر وی نے العینہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آدمی سامان ثمن معلوم کے عوض کسی آدمی کو ایک مقررہ مدت تک ادھار بیچ دے اور پھر اسے اس سے ان ثمنوں سے کم کے عوض خرید لے جتنے کے عوض اسے بیچا تھا، فرمایا : اگر کسی نے عینہ کے طالب کی موجودگی میں ایک سامان دوسرے آدمی سے ثمن معلوم کے عوض خریدا اور اس پر قبضہ کرلیا پھر اسے عینہ کے طالب کو اس سے زیادہ ثمن کے عوض مقررہ مدت تک ادھار بیچ دیا جتنے کے عوض اسے خریدا تھا پھر وہ مشتری پہلے بائع سے نقد اس سے کم ثمن کے ساتھ بیچ دے تو یہ بھی عینہ ہے اور یہ پہلے سے زیادہ آسان ہے اور یہ بعض کے نزدیک جائز ہے اور صاحب عینہ کے پاس نقد موجود ہونے کی وجہ سے اسے عینہ کا نام دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ العین سے مراد مال حاضر ہے اور مشتری بلاشبہ اسے خرید رہا ہے تاکہ وہ اسے حاضر مال کے عوض بیچے جو اسے جلدی مل جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (
23
) ہمارے علمائے نے کہا ہے : جس نے کچھ سامان ایک خاص مدت تک ثمن کے عوض فروخت کیا پھر اسے خرید لیا ایسے ثمن کے عوض جو اس ثمن کی جنس میں سے تھے جن کے عوض اسے بیچا تھا تو وہ اس سے خالی نہیں ہے کہ وہ اسے نقد ثمن کے عوض خریدے گا یا اتنی مدت تک ادھار جو اس مدت سے کم تھی جس تک اس نے اسے بیچا تھا یا اس تک جو اس مدت سے زیادہ تھی، ثمن مثلی کے عوج یا اس سے کم کے عوض یا اس سے زیادہ کے عوض، پس یہ تین مسائل ہیں، جہاں تک پہلے اور دوسرے کا تعلق ہے تو اگر وہ مثل ثمن یا اکثر ثمن کے عوض خریدے تو یہ جائز ہے اور کم ثمن کے عوض ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث کے مقتضاء کے مطابق جائز نہ ہوگا، کیونکہ اس نے چھ سو دیئے ہیں تاکہ وہ آٹھ سو لے لے اور سامان لغو ہوگیا، اور یہ ہی خالص ربا ہے، اور رہا تیسرا مسئلہ کہ وہ اس سے زیادہ مدت تک ادھار لے لے، پس اگر اس نے صرف اسے ہی خریدا یا کچھ اور بھی، تو مثل ثمن یا اقل ثمن کے ساتھ یہ جائز ہوگی، البتہ زیادہ ثمن کے عوض جائز نہ ہوگی، اور اگر اس نے اس میں سے بعض حصہ خرید لیا تو پھر کسی حال پر بھی یہ خرید جائز نہ ہوگی نہ مثل ثمن کے ساتھ نہ اقل کے ساتھ اور نہ ہی اکثر کے ساتھ، اس باب کے مسائل کو ہمارے علماء نے ستائیس مسائل میں محصور کیا ہے اور ان کا دارومدار اسی پر ہے جو ہم نے ذکر کردیا ہے، پس تو جان لے۔ مسئلہ نمبر : (
24
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فلہ ما سلف “۔ یعنی سود کے معاملہ میں سے جو گزر چکا ہے اس پر نہ دنیا میں کوئی مواخذہ ہوگا اور نہ آخرت میں، سدی وغیرہ نے یہی کہا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کے لئے حکم ہے جس نے کفار قریش میں سے اسلام قبول کیا اور بنی ثقیف اور ان میں سے جو وہاں تجارت کرتے تھے (ان میں سے جس نے اسلام قبول کیا) اور سلف کا معنی ہے وہ زمانہ جو پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
25
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وامرہ الی اللہ “ اس میں چار تاویلات ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ضمیر ربا کی طرف لوٹ رہی ہے، معنی یہ ہے کہ سود کا معاملہ اس کی یا دوسری چیزوں کی تحریم کو جاری رکھنے میں اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ اور دوسری یہ کہ ضمیر ماسلف کی طرف لوٹ رہی ہو یعنی جو کچھ گزر چکا ہے اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اسے معاف کرنے کے بارے میں اور اس میں تاوان اور سزا کو ساقط کرنے کے بارے میں، اور تیسری یہ ہے کہ ضمیر سود لینے والے (ذی الربا) کی طرف لوٹ رہی ہے، اس معنی میں کہ اس کا معاملہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے کہ وہ اسے اس سے رکنے پر ثابت قدم رکھے یا اسے دوبارہ ربا میں گناہ کی طرف لوٹا دے۔ اس قول کو نحاس نے اختیار کیا ہے اور کہا ہے : یہ قول اچھا اور واضح ہے، یعنی مستقبل میں اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اگر وہ چاہے تو اسے تحریم پر ثابت رکھے اور اگر چاہے تو اسے مباح قرار دے، اور چوتھی تاویل یہ ہے کہ ضمیر رکنے والے اور باز رہنے والے کی طرف لوٹ رہی ہو لیکن اسے مانوس کرنے اور خیر اور بھلائی میں اس کی آرزو اور امید پھیلانے کے معنی میں، جیسا کہ تو کہتا ہے : اس کا معاملہ اطاعت اور خیر کے سپرد ہے اور جیسا کہ تو کہتا ہے : اس کا معاملہ نمو اور توجہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کی اطاعت کے سپرد ہے۔ مسئلہ نمبر : (
26
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ومن عاد “ یعنی جو فعل ربا کی طرف لوٹ آیا (یعنی دوبارہ سود کھانے لگا) یہاں تک کہ وہ مرگیا، حضرت سفیان نے یہ کہا ہے۔ اور ان کے سوا دوسروں نے کہا : جو لوٹا اور اس نے کہا بیشک بیع ربا کی مثل ہے تو وہ کافر ہوگیا، ابن عطیہ نے کہا ہے اگر ہم کہیں کہ یہ آیت کافر کے بارے میں ہے تو پھر خلود سے مراد حقیقی طور پر ہمیشہ رہنا ہے۔ اور اگر ہم کہیں کہ یہ آیت کافر کے بارے میں ہے تو پھر خلود سے مراد حقیقی طور پر ہمیشہ رہنا ہے اور اگر ہم اسے گنہگار مسلمان کے بارے قرار دیں تو پھر خلود کا لفظ مجازا مبالغہ کے معنی میں ہوگا، جیسا کہ عرب کہتے ہیں : ملک خالد یہ ایسے دوام سے عبارت ہے جو حقیقی طور پر ہمیشہ باقی نہیں رہے گا۔
Top