Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَاْكُلُوْنَ
: کھاتے ہیں
الرِّبٰوا
: سود
لَا يَقُوْمُوْنَ
: نہ کھڑے ہوں گے
اِلَّا
: مگر
كَمَا
: جیسے
يَقُوْمُ
: کھڑا ہوتا ہے
الَّذِيْ
: وہ شخص جو
يَتَخَبَّطُهُ
: اس کے حواس کھو دئیے ہوں
الشَّيْطٰنُ
: شیطان
مِنَ الْمَسِّ
: چھونے سے
ذٰلِكَ
: یہ
بِاَنَّھُمْ
: اس لیے کہ وہ
قَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
اِنَّمَا
: در حقیقت
الْبَيْعُ
: تجارت
مِثْلُ
: مانند
الرِّبٰوا
: سود
وَاَحَلَّ
: حالانکہ حلال کیا
اللّٰهُ
: اللہ
الْبَيْعَ
: تجارت
وَحَرَّمَ
: اور حرام کیا
الرِّبٰوا
: سود
فَمَنْ
: پس جس
جَآءَهٗ
: پہنچے اس کو
مَوْعِظَةٌ
: نصیحت
مِّنْ
: سے
رَّبِّهٖ
: اس کا رب
فَانْتَهٰى
: پھر وہ باز آگیا
فَلَهٗ
: تو اس کے لیے
مَا سَلَفَ
: جو ہوچکا
وَاَمْرُهٗٓ
: اور اس کا معاملہ
اِلَى
: طرف
اللّٰهِ
: اللہ
وَمَنْ
: اور جو
عَادَ
: پھر لوٹے
فَاُولٰٓئِكَ
: تو وہی
اَصْحٰبُ النَّارِ
: دوزخ والے
ھُمْ
: وہ
فِيْهَا
: اس میں
خٰلِدُوْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
مگر جو لوگ سُود کھاتے ہیں
315
، اُن کا حال اُس شخص کاسا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چُھوکر باوٴلا کر دیا ہو۔
316
اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں:”تجارت بھی تو آخر سُود ہی جیسی ہے
317
“، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔
318
لہٰذا جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سُود خوری سے باز آجائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا ، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔
319
اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا
سورة الْبَقَرَة
315
اصل میں لفظ ”رِبٰوا“ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی عربی میں زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اصطلاحاً اہل عرب اس لفظ کو اس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وصول کرتا ہے۔ اسی کو ہماری زبان میں سود کہتے ہیں۔ نزول قرآن کے وقت سودی معاملات کی اور شکلیں رائج تھیں اور جنہیں اہل عرب ”رِبٰوا“ کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے وہ یہ تھیں کہ مثلاً دوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک مدت مقرر کردیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی، تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کردیتا۔ یا مثلاً ایک شخص دوسرے شخص کو قرض دیتا اور اس سے طے کرلیتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہوگی۔ یا مثلاً قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدت کے لیے ایک شرح طے ہوجاتی تھی اور اگر اس مدت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی، تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی۔ اسی نوعیت کے معاملات کا حکم یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔ سورة الْبَقَرَة
316
اہل عرب دیوانے آدمی کو ”مجنون“ (یعنی آسیب زدہ) کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے، اور جب کسی شخص کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ وہ پاگل ہوگیا ہے، تو یوں کہتے کے اسے جن لگ گیا ہے۔ اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے قرآن سود خوار کو اس شخص سے تشبیہ دیتا ہے جو مخبوط الحواس ہوگیا ہو۔ یعنی جس طرح وہ شخص عقل سے خارج ہو کر غیر معتدل حرکات کرنے لگتا ہے، اسی طرح سود خوار بھی روپے کے پیچھے دیوانہ ہوجاتا ہے اور اپنی خود غرضی کے جنون میں کچھ پروا نہیں کرتا کہ اس کی سود خواری سے کس کس طرح انسانی محبت، اخوت اور ہمدردی کی جڑیں کٹ رہی ہیں، اجتماعی فلاح و بہبود پر کس قدر تباہ کن اثر پڑ رہا ہے، اور کتنے لوگوں کی بدحالی سے وہ اپنی خوشحالی کا سامان کر رہا ہے۔ یہ اس کی دیوانگی کا حال اس دنیا میں ہے۔ اور چونکہ آخرت میں انسان اسی حالت میں اٹھایا جائے گا جس حالت پر اس نے دنیا میں جان دی ہے، اس لیے سود خوار آدمی قیامت کے روز ایک باؤلے، مخبوط الحواس انسان کی صورت میں اٹھے گا۔ سورة الْبَقَرَة
317
”یعنی ان کے نظریے کی خرابی یہ ہے کہ تجارت میں اصل لاگت پر جو منافع لیا جاتا ہے، اس کی نوعیت اور سود کی نوعیت کا فرق وہ نہیں سمجھتے، اور دونوں کو ایک ہی قسم کی چیز سمجھ کر یوں استدلال کرتے ہیں کہ جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے، تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہو۔ اسی طرح کے دلائل موجودہ زمانے کو سود خوار بھی سود کے حق میں پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جس روپے سے خود فائدہ اٹھا سکتا تھا، اسے وہ قرض پر دوسرے شخص کے حوالہ کرتا ہے۔ وہ دوسرا شخص بھی بہرحال اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قرض دینے والے کے روپے سے جو فائدہ اٹھا رہا ہے، اس میں سے ایک حصہ وہ قرض دینے والے کو نہ ادا کرے ؟ مگر یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دنیا میں جتنے کاروبار ہیں، خواہ وہ تجارت کے ہوں یا صنعت و حرف کے یا زراعت کے، اور خواہ انہیں آدمی صرف اپنی محنت سے کرتا ہو یا اپنے سرمایے اور محنت ہر دو سے، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جس میں آدمی نقصان کا خطرہ (Risk) مول نہ لیتا ہو اور جس میں آدمی کے لیے لازماً ایک مقرر منافع کی ضمانت ہو۔ پھر آخر پوری کاروباری دنیا میں ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی کیوں ہو جو نقصان کے خطرے سے بچ کر ایک مقرر اور لازمی منافع کا حق دار قرار پائے ؟ غیر نفع بخش اغراض کے لیے قرض لینے والے کا معاملہ تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے، اور شرح کی کمی بیشی کے مسئلے سے بھی قطع نظر کر لیجیے۔ معاملہ اسی قرض کا سہی جو نفع بخش کاموں میں لگانے کے لیے لیا جائے، اور شرح بھی تھوڑی ہی سہی۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت، اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپا رہے ہیں، اور جن کی سعی اور کوشش کے بل پر ہی اس کاروبار کا بار آور ہونا موقوف ہے، ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو، بلکہ نقصان کا سارا خطرہ بالکل انہی کے سر ہو، مگر جس نے صرف اپنا روپیہ انہیں قرض دے دیا ہو وہ بےخطر ایک طے شدہ منافع وصول کرتا چلا جائے ! یہ آخر کس عقل، کس منطق، کس اصول انصاف اور کس اصول معاشیات کی رو سے درست ہے ؟ اور یہ کس بنا پر صحیح ہے کہ ایک شخص ایک کارخانے کو بیس سال کے لیے ایک رقم قرض دے اور آج ہی یہ طے کرلے کہ آئندہ
20
سال تک وہ برابر
5
فیصدی سالانہ کے حساب سے اپنا منافع لینے کا حق دار ہوگا، حالانکہ وہ کارخانہ جو مال تیار کرتا ہے اس کے متعلق کسی کو بھی نہیں معلوم کہ مارکیٹ میں اس کی قیمتوں کے اندر آئندہ بیس سال میں کتنا اتار چڑھاؤ ہوگا ؟ اور یہ کس طرح درست ہے کہ ایک قوم کے سارے ہی طبقے ایک لڑائی میں خطرات اور نقصانات اور قربانیاں برداشت کریں، مگر ساری قوم کے اندر سے صرف ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی ایسا ہو جو اپنے دیے ہوئے جنگی قرض پر اپنی ہی قوم سے لڑائی کے ایک ایک صدی بعد تک سود وصول کرتا رہے ؟ سورة الْبَقَرَة
318
تجارت اور سود کا اصولی فرق، جس کی بنا پر دونوں کی معاشی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہو سکتی، یہ ہے׃ (
1
) تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے، کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اٹھاتا ہے جو اس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اس محنت، ذہانت اور وقت کی اجرت لیتا ہے، جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیا کرنے میں صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے سودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے، جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے، لیکن اس کے مقابلے میں سود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے، جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔ اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مہلت اس کے لیے قطعی نافع نہیں ہے۔ اور اگر وہ تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے، یا ایک یقینی اور متعین فائدے اور دوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔ (
2
) تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے، بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے، ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو، بہر طور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اٹھاتا ہے، اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مدیون کی پوری کمائی، اس کے تمام وسائل معیشت، حتّٰی کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کرلے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے۔ (
3
) تجارت میں شے اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی۔ مکان یا زمین یا سامان کے کرایے میں اصل شے، جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے، صرف نہیں ہوتی، بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ مالک جائداد کو واپس دے دی جاتی ہے۔ لیکن سود کے معاملہ میں قرض دار سرمایہ کو صرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ مال دوبارہ پیدا کر کے اضافے کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے۔ (
4
) تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت، ذہانت اور وقت صرف کر کے اس کا فائدہ لیتا ہے۔ مگر سودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت کے دوسروں کی کمائی میں شریک غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اصطلاحی ”شریک“ کی نہیں ہوتی جو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے، اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے، بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظ تناسب نفع اپنے طے شدہ منافع کا دعوے دار ہوتا ہے۔ ان وجوہ سے تجارت کی معاشی حیثیت اور سود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم الشان فرق ہوجاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل، خود غرضی، شقاوت، بےرحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے، اور ہمدردی و امداد باہمی کی روح کو فنا کردیتا ہے۔ اس بنا پر سود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے۔ سورة الْبَقَرَة
319
یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ اس نے کھالیا، اسے اللہ معاف کر دے گا، بلکہ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”جو کھاچکا سو کھا چکا“ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کھاچکا، اسے معاف کردیا گیا، بلکہ اس سے محض قانونی رعایت مراد ہے۔ یعنی جو سود پہلے کھایا جا چکا ہے، اسے واپس دینے کا قانوناً مطالبہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اگر اس کا مطالبہ کیا جائے تو مقدمات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا جو کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ مگر اخلاقی حیثیت سے اس مال کی نجاست بدستور باقی رہے گی جو کسی نے سودی کاروبار سے سمیٹا ہو۔ اگر وہ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والا ہوگا اور اس کا معاشی و اخلاقی نقطہ نظر واقعی اسلام قبول کرنے سے تبدیل ہوچکا ہوگا، تو وہ خود اپنی اس دولت کو، جو حرام ذرائع سے آئی تھی، اپنی ذات پر خرچ کرنے سے پرہیز کرے گا اور کوشش کرے گا کہ جہاں تک ان حق داروں کا پتہ چلایا جاسکتا ہے، جن کا مال اس کے پاس ہے، اس حد تک ان کا مال ان کو واپس کردیا جائے۔ یہی عمل اسے خدا کی سزا سے بچا سکے گا۔ رہا وہ شخص جو پہلے کمائے ہوئے مال سے بدستور لطف اٹھاتا رہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے۔
Top