Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں الرِّبٰوا : سود لَا يَقُوْمُوْنَ : نہ کھڑے ہوں گے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَقُوْمُ : کھڑا ہوتا ہے الَّذِيْ : وہ شخص جو يَتَخَبَّطُهُ : اس کے حواس کھو دئیے ہوں الشَّيْطٰنُ : شیطان مِنَ الْمَسِّ : چھونے سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَا : در حقیقت الْبَيْعُ : تجارت مِثْلُ : مانند الرِّبٰوا : سود وَاَحَلَّ : حالانکہ حلال کیا اللّٰهُ : اللہ الْبَيْعَ : تجارت وَحَرَّمَ : اور حرام کیا الرِّبٰوا : سود فَمَنْ : پس جس جَآءَهٗ : پہنچے اس کو مَوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب فَانْتَهٰى : پھر وہ باز آگیا فَلَهٗ : تو اس کے لیے مَا سَلَفَ : جو ہوچکا وَاَمْرُهٗٓ : اور اس کا معاملہ اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر لوٹے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
(جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر اس شخص کی طرح جسے شیطان نے چھو کر بائولا کردیا ہو۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے۔ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ وہ لے چکا وہ اس کے لیے ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو پھر اس کا ارادہ کریں تو وہی لوگ جہنمی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ط وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ط فَمَنْ جَآئَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَـہٗ مَا سَلَفَ ط وَاَمْرُہٗٓ اِلٰی اللّٰہِ ط وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِط ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ ۔ (جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر اس شخص کی طرح جسے شیطان نے چھو کر بائولا کردیا ہو۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے۔ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ وہ لے چکا وہ اس کے لیے ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو پھر اس کا ارادہ کریں تو وہی لوگ جہنمی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) (275) ربطِ کلام اس سے پہلے دو رکوعوں میں انفاق کی ترغیب دی ‘ فضیلت بیان کی ‘ ضرورت کا احساس دلایا ‘ جن قباحتوں سے انفاق کے مقصد کو نقصان پہنچتا ہے ان کا ذکر فرمایا ‘ اللہ کے راستے میں جن چیزوں کا انفاق کرنا چاہیے ان کی پہچان بتائی اور پھر یہ بھی واضح فرمایا کہ انفاق جس طرح مسلمان معاشرے میں غربا اور ملک و ملت کی ضرورتوں کی طلب ہے اسی طرح انفاق مسلمانوں کی تربیت کا ذریعہ بھی ہے۔ جن محرکات سے انسان بگڑتا اور برائی پھیلتی ہے ان محرکات میں سے ایک اہم محرک ہوس زر اور حبِّ زر بھی ہے۔ جب تک اس محبت کا امالہ نہ کیا جائے یعنی اس کا رخ خیر ‘ مقاصد خیر اور اللہ کی طرف نہ موڑا جائے اس وقت تک اس کی برائی سے معاشرے کو بچانا ناممکن ہے۔ اور پھر اسی مضمون کی اختتامی آیت میں انفاق کے حوالے سے ان مسلمانوں کو اسوہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو جذبہ انفاق سے وجود میں آتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ وہ اسی دنیا کے رہنے والے ‘ انہی مسائل سے دوچار اور طبیعت کے انہی جذبات سے بہرہ ور جس سے معاشرے کے باقی افراد سروکار رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے مال و دولت کو رات اور دن خفیہ اور علانیہ یعنی ہر وقت اور ہرحال میں اللہ کی رضا کے حصول اور بندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمان معاشرے کا سرمایہ اور اسلامی تربیت کا نمونہ ہیں۔ انہی سے معاشرے کی آب و تاب اور اسلامی جذبات کی صحیح عکاسی ہوتی ہے۔ اور ایسے ہی لوگوں کا پیدا کرنا اسلام کا مقصد ہے۔ تُعْرَفُ الْاَشْیَـآئُ بِاَضْدَادِہَا انسانی فطرت یہ ہے کہ اسے کسی بات کا صحیح احساس اور مکمل شعور اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس کے سامنے اس چیز کی ضد اور مقابل کو لایا جاتا ہے۔ آدمی کو اس وقت تک حسن کا احساس مکمل نہیں ہوتا جب تک بدصورتی اس کے سامنے نہیں آتی۔ اندھیرے کا شعور روشنی سے اور روشنی کا احساس اندھیرے سے ہوتا ہے۔ راحت کی قدر اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک آدمی مصیبت میں گرفتار نہیں ہوتا ‘ ضدین کا وجود ایک دوسرے کے تعارف کے لیے ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ قرآن کریم کا اسلوب انسانی فطرت کا عکاس ہے۔ اس لیے وہ کسی کو سمجھانے کے لیے عموماً اس کی ضد کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ جنت کے ساتھ جہنم ‘ خیر کے ساتھ شر ‘ روشنی کے ساتھ تاریکی ‘ نعمت کے ساتھ سختی یا اس کے برعکس ضـدین کا ذکر اس کا خاص اسلوب ہے تاکہ مخاطب کو بات سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔ اسی اسلوب کے مطابق انفاق اور اس کے تمام لوازمات کو ذکر کرنے کے بعد اب اس کی سب سے بڑی ضد ربا یعنی سود کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ سود کھانے والوں کا انجام سب سے پہلی بات جو ارشاد فرمائی گئی ہے وہ سودی کاروبار کرنے والوں کا انجام ہے کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں یعنی سودی کاروبار کرتے ہیں یا سود سے کسی طرح بھی متعلق ہیں ‘ ان میں سے کچھ تو وہ لوگ ہیں جو کسی سخت مجبوری کے باعث سود میں ملوث ہوگئے ‘ لیکن ان کے دلوں میں سود کے بارے میں نفرت اور کراہت موجود ہے اور وہ اس کا یقین رکھتے ہیں کہ سود کو واقعی اللہ نے حرام کیا ہے۔ تو ایسے لوگ اگر سود سے بچنے کے لیے اللہ سے توفیق مانگیں گے تو امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی نہ کبھی اس سے نکلنے کا راستہ پید افرما دیں گے۔ اور اگر وہ اسے حرام سمجھتے ہوئے ساری عمر اس میں ملوث بھی رہے تو قیامت کے دن اس کی سزا پالینے کے بعد کبھی نہ کبھی جنت میں بھیج دیئے جائیں گے۔ لیکن جن لوگوں نے سود کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ‘ سودی کاروبار یا سودی ملازمت کو نہایت آسودگی کے ساتھ زندگی کا ہدف بنائے رکھا اور اسی پر خوش رہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سود کی محبت ان کے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ اس کی حرمت اور اس سے نفرت کا احساس دل سے مٹ جاتا ہے۔ دل و دماغ اسی کے تصورات سے معمور اور اعضاء وجوارح اسی کے حصول اور ترقی میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس کو قرآن کریم برائی کے احاطہ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اور اسی طرح وہ لوگ جو سرے سے اس کو حرام ہی نہیں سمجھتے ان کی عقل کا فیصلہ یہ ہے کہ جس طرح تجارت میں اپنے مال سے نفع کمایا جاتا ہے اسی طرح سود بھی آدمی کے اپنے مال کا نفع ہے۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک نفع حلال ہو اور دوسرا حرام ہو۔ ان لوگوں نے چونکہ اپنے دل و دماغ میں سود کی افادیت اور محبت کو بسا لیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ رفتہ رفتہ دونوں کا فرق بھی ان کے احساس سے اتر گیا ہے۔ ایسے لوگوں کا انجام دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ایک پاگل اور دیوانہ اپنی دیوانگی میں ایسی حرکتیں کرتا ہے کہ جسے وہ اپنے تئیں ضروری اور مفید سمجھتا ہے لیکن انسانی معاشرے اور انسانیت کے لیے وہ تباہ کن اور اذیت کا باعث ہوتی ہیں ‘ لیکن اسے اس کا بالکل احساس نہیں ہوتا۔ اس کا گھر اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ ہوجائے ‘ اس کے اپنے اندر سے اور اس کے اہل خانہ سے غیرت و حمیت نکل جائے ‘ اپنے اعزہ و اقرباء سے تعلقات ختم ہوجائیں ‘ اس کے احباب مایوس ہو کر اس کے پاس آنا جانا چھوڑ دیں ‘ لیکن اسے کسی بات کی بھی پرواہ ہوتی ہے نہ ہوش۔ اس کے سامنے دیوانوں کی طرح صرف ایک ہی ہدف ہوتا ہے کہ وہ مال و دولت کی دیوانگی میں جس طرح منہ اٹھائے بھاگا چلا جا رہا ہے ‘ بس اس کے اس راستے میں کسی چیز کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔ ہر رشتہ خیر کی محبت اس کے دل سے نکل جائے اسے پروا نہیں۔ کیونکہ اسے اب ایک ہی رشتہ عزیز ہے وہ ہے مال و دولت کا رشتہ ‘ حب زرہر چیز کی محبت پر غالب آجاتی ہے۔ دنیا میں اس دیوانگی کو اب اس لیے زیادہ محسوس نہیں کیا جاتا کہ ایسے دیوانوں کی اکثریت ہوگئی ہے۔ بلکہ اب اس شخص کو محسوس کیا جاتا ہے ‘ جس میں مال و دولت کی محبت کم ہوجاتی ہے اور اقدارِ انسانیت کی محبت بڑھ جاتی ہے۔ انہی احساسات کا نتیجہ اس کی زندگی کے اعمال اور مصروفیات پر بھی پڑتا ہے۔ اب اس کا وقت نیکی کے کاموں میں اور نیکی کے مراکز میں زیادہ صرف ہوتا ہے تو دنیا کے دیوانے اسے دیوانہ سمجھنے لگتے ہیں۔ بالکل اس شخض کی طرح جو نک کٹوں کے ہجوم میں ایک ہی ناک والا ہو تو تمام ناک سے محروم اسے ناک والا ناک والا کہہ کر چھیڑتے ہیں۔ اکثریت ہمیشہ اپنے آپ کو برحق سمجھتی ہے۔ آج چونکہ ایسے ہی دیوانوں کی اکثریت ہے تو انھیں کون بتائے کہ تمہاری ناک کٹ چکی ہے۔ لیکن جب کبھی انسانیت اور انسانیت کی قدریں اور اللہ کی معرفت کا احساس ایک زندہ حقیقت تھی تو اس دیوانگی کو بڑی شدت سے محسوس کیا جاتا تھا۔ چناچہ یہی دیوانے جب قیامت کو اٹھیں گے تو ان کو اس ہیئت کذائی میں اٹھایا جائے گا جو ان کی اصلی حالت کا نمونہ ہوگی۔ یہاں اس آیت کریمہ میں ان کی اسی اصل حالت کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ جس طرح کسی شخص کو آسیب لاحق ہوجائے یعنی جن اسے چھو جائے تو وہ دیوانوں کی طرح حرکتیں کرتا ہے (آسیب زدہ آدمی کو دیوانوں کی طرح حرکتیں کرتے اکثردیکھا گیا ہے) اللہ نے جن کے دلوں میں نور ایمان رکھا ہے اور جن کا نیکی سے رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور وہ شریعت کے احکام کے مطابق زندگی گزارتے ہیں کسی جن کی چھوت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی بجز اس کے کہ وہ انھیں کسی بیماری یا تکلیف میں مبتلا کر دے۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کی ابلیس اور اس کی ذریت کو مہلت ملی ہوئی ہے۔ لیکن جن لوگوں کے دل پہلے ہی شیطان کے قبضے میں ہوں اور وہ شریعت کی مخالفت کی وجہ سے پہلے ہی اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کرچکے ہوں تو شیطان کے لیے انھیں پاگل اور بائولا کردینا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ تو قیامت کے دن یہ اپنی اسی صحیح شکل و صورت میں اٹھیں گے اور دیکھنے والوں کو اس وقت احساس ہوگا کہ دنیا میں بھی ان کی دیوانگی کی یہی کیفیت تھی ‘ لیکن اس وقت اس کا پوری طرح ادراک نہیں ہوسکا۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ آدمی اپنے عقیدہ و عمل سے جس طرح زندگی گزارتا ہے اسی طرح کی زندگی اسے قیامت کے دن ملے گی۔ وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ اَعْمٰی ( جو دنیا میں عقل اور دل کا اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی اٹھے گا) لیکن میرا ناقص گمان یہ ہے کہ آخرت میں وہ آنکھوں سے بھی اندھا ہوگا تاکہ لوگوں کو اندازہ ہو سکے کہ دنیا میں یہ دل سے اندھا تھا لیکن ہم اسے آنکھوں سے بینا ہونے کی وجہ سے پہچان نہ سکے لیکن آج اس کی پہچان مکمل ہوچکی ہے۔ کیونکہ اصل بینائی تو دل کی بینائی ہے ‘ آنکھوں سے تو حیوانات بھی بینا ہیں ‘ اسی لیے اقبال نے کہا ؎ دل کا نور کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں انفاق سے دلوں کو زندگی ملتی ہے تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْسے یہی مراد ہے اور سود خوری سے دلوں کی زندگی مرجاتی ہے اور انسان بائولا ہوجاتا ہے اور قیامت کے دن اسی کا اظہار ہوگا اور اس دن ان کا جرم بھی کھول کر بیان کردیا جائے گا کہ یہ سزا ان کو اس بات کی ملی ہے کہ یہ کہتے تھے کہ تجارت تو سود کی مانند ہے۔ تو تجارت حلال ہے تو سود کیسے حرام ہوسکتا ہے ؟ حالانکہ انھیں یہ خوب معلوم تھا کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ اور جس آدمی کی عقل موت کا شکار نہیں ہوئی اسے اور کچھ نہیں تو یہ بات سمجھنے میں تو کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ حلت و حرمت کا حق اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں۔ وہ جس چیز کو چاہے حلال کر دے اور جسے چاہے حرام کر دے۔ اس کے حکم کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں یہ اس کا ذاتی اختیار ہے جس میں کسی بحث کی گنجائش نہیں۔ تو جب اس نے سود کو حرام کیا تو وہ حلال نہیں ہوسکتا۔ اور جب اس نے تجارت کو حلال کیا تو وہ حرام نہیں ہوسکتی۔ قطع نظر دوسری بحثوں کے جو شخص اس بنیادی بات کو نہیں مانتا یقینا اس کی عقل پر شیطان کا غلبہ ہوگیا ہے اور ویسے بھی دیکھا جائے تو تجارت اور سود میں آخر کیا مماثلت ہے ؟ لیکن اس کی وضاحت سے پہلے ضروری ہے کہ سود کی تعریف کے بارے میں کچھ عرض کردیا جائے۔ سود اور ربا کا مفہوم جامع صغیر میں آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد منقول ہے جسے ماہرین حدیث نے حسن قرار دیا ہے۔ کل قرضٍ جرَّ نفعاً فھو ربا (جو قرض نفع حاصل کرے وہ ربا ہے) ابن عربی نے احکام القرآن میں اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا الربوٰ فی اللغۃ الرباوۃ والمراد بہ فی الاٰیۃ کل زیادۃ لا یقابلہا عوض (یعنی ربا کے معنی اصل لغت میں زیادتی کے ہیں۔ اور آیت میں اس سے مراد وہ زیادتی ہے جس کے مقابلہ میں کوئی مال نہ ہو بلکہ محض ادھار اور اس کی میعاد ہو) اور امام جصاص نے احکام القرآن میں ربا کے معنی بیان کرتے ہوئے کہا ھوالقرض المشروط فیہ الاجل و زیادۃ مالٍ علی المستقرض ( وہ قرض ہے جس میں کسی میعاد کے لیے اس شرط پر قرض دیا جائے کہ قرض دار اس کو اصل مال سے زائد کچھ رقم دے گا) آنحضرت ﷺ کے ارشاد اور ابن عربی اور امام جصاص کی وضاحت سے ربا کی تعریف یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد وہ معین اضافہ ہے جو ایک قرض دینے والا مجرد مہلت کے عوض اپنے مقروض سے اپنی اصل رقم پر وصول کرتا ہے۔ اسلام سے پہلے بھی اور اسلام میں بھی یہ اصطلاح اسی مفہوم کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے اور آج بھی اسی کو سود کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت سودی معاملات کی دو شکلیں رائج تھیں جنھیں اہل عرب ربا کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک مدت مقرر کردیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کردیتا اور دوسری صورت یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص کو قرض دیتا اور اس سے طے کرلیتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہوگی۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدت کے لیے ایک شرح طے ہوجاتی تھی اور اگر اس مدت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادانہ ہوتی تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی۔ لیکن تمام صورتوں میں اصل حقیقت ایک ہی تھی کہ قرض دینے والا قرض دار سے معین شرح پر صرف اس حق کی بنا پر اپنے دیے ہوئے روپے کا منافع وصول کرے کہ اس نے ایک خاص مدت کے لیے اس کو روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ اور اس بات کو اس حقیقت کے تعین میں کوئی دخل نہیں تھا کہ قرض کسی غریب و نادار کو دیا گیا ہے یا کسی امیر و تاجدار کو اور نہ اس بات سے اس میں کوئی فرق واقع ہوتا تھا کہ قرض کسی میت کی تجہیز و تکفین کے لیے دیا گیا ہے یا کسی رفاہی اسکیم کے لیے دیا گیا ہے ‘ یا تجارت ‘ زراعت اور صناعت کے کسی انفرادی یا اجتماعی منصوبے کے لیے دیا گیا ہے۔ جاہلیت اور اسلام دونوں میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ قرض لینے والا امیر ہے یا غریب اور دینے والا کاروبار کے لیے دے رہا ہے یا ذاتی ضرورت کے لیے۔ جس قرض پر یہ ایک متعین اضافہ طے کیا گیا ہے اسے جاہلیت میں بھی اور اسلام میں بھی ربا کہا گیا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں نہ جانے آج تک یہ بحث کیوں جاری ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جس سود کو حرام قرار دیا گیا تھا وہ دراصل مہاجنی سود تھا جو ایک ضرورتمند اپنی انتہائی ضرورت پورا کرنے کے لیے کسی ساہوکار سے قرض لیتا تھا اور کسی کی ضرورت سے اس طرح فائدہ اٹھانا کہ اصل زر سے زائد وصول کرنا اور اگر وہ وقت پر ادا نہ کرے تو شرح سود کو بڑھاتے جانا یہ یقینا ایک ایسا ظلم ہے جسے کوئی معاشرہ بھی پسند نہیں کرتا۔ لیکن کاش سود کی وکالت کرنے والے اس کی طرف توجہ دے سکیں کہ تم بینکوں اور کاروباری سود کو حلال کرنے کے لیے جو اس طرح کی مو شگافیاں کرتے ہو اس کے نتیجے میں سود کی حرمت کا تصور ہی دماغوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ کیونکہ جب اصل حرمت ہی باقی نہ رہی تو پھر کون اس بکھیڑے میں پڑے کہ کونسا سود ظلم ہے اور کونسا نہیں۔ چناچہ آج بھی کاروباری سود کے ساتھ ساتھ مہاجنی سود بھی پوری طرح ان معاشروں میں جاری وساری ہے جن میں سود کی حرمت کا احساس مرچکا ہے۔ عہد نبوت کو سمجھنے میں کو تاہی خرابی کی بنیاد یہ ہے کہ کچھ دانشوروں نے عہد نبوت کو سمجھنے میں سخت ٹھوکر کھائی ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ وہ زمانہ انتہائی پسماندگی کا زمانہ تھا۔ عرب صحرا نشین تھے ‘ انتہائی سادہ اور معمولی زندگی گزارتے تھے۔ گلہ بانی پر ان کا گزارہ تھا۔ اگر کہیں کوئی تجارت ہوتی بھی تھی تو گندم اور جو وغیرہ کی۔ یہ جنسیں ایک دوسرے کے تبادلے میں بکتی تھیں۔ اس کے علاوہ ان میں تجارت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی۔ تو جب ان میں تجارت ہی سرے سے مفقود تھی تو کمرشل لون یا کمرشل انٹرسٹ کا اس زمانے میں کیا تصور ہوسکتا ہے۔ حالانکہ اس زمانے کے حالات سے جو شخص کسی حد تک بھی واقف ہے وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ نہر سویز کے وجود میں آنے سے پہلے تک اور بڑے بڑے بحری جہازوں کی ایجاد سے قبل مشرق و مغرب کی تجارت خشکی کے راستے سے ہوتی تھی اور اس وقت تجارتی کاروانوں کی راہ گزر جزیرہ نما عرب تھا۔ عرب کے لوگ عموماً اور اہل مکہ خصوصاً تجارت میں خوب حصہ لیتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے سردیوں میں یمن وفارس کی طرف اور گرمیوں میں شام و روم کی طرف باقاعدگی سے جاتے تھے اور یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ اور تاریخ اس پر شاہد ہے کہ جو قافلہ شام سے ابو سفیان کی قیادت میں مکہ واپس آرہا تھا اور جو جنگ بدر کا سبب بنا اس میں تمام اہل مکہ کا سرمایہ تھا۔ مکہ میں کوئی گھر ایسا نہ تھا جس نے اس میں اپنا حصہ نہ ڈالا ہو۔ ہر قبیلہ جائنٹ اسٹاک کمپنی تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے ” جائنٹ اسٹاک کمپنیاں جدید دور کی پیداوار ہیں اور اس سے پہلے ان کا تصور تک نہیں تھا “ یہ بالکل غلط ہے۔ عرب کا ہر قبیلہ ایک مستقل ” جائنٹ اسٹاک کمپنی “ تھا۔ بلکہ مختلف قبائل مل کر بھی ایک کمپنی کی صورت اختیار کرلیتے تھے۔ پورے مکہ والوں نے جائنٹ اسٹاک کمپنی کی طرز پر ایک ایک دینار اکٹھا کر کے ایک تجارتی کارواں تیار کیا تھا۔ جسے ابو سفیان ملک شام لے کے گئے تھے۔ اور یہ اتنا بڑا کاروان تھا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اور مقصود صرف یہ تھا کہ اس سے حاصل ہونے والے نفع سے مسلمانوں کا استیصال کیا جائے۔ اس قافلے کے علاوہ بھی عرب کا ہر قبیلہ اسی طرز پر اپنا کاروبار کرتا تھا کہ قبیلہ کے تمام لوگ مقدور بھر اپنی پونجی لا کر ایک جگہ جمع کرتے اور پھر اس سے ایک قافلہ تجارت وجود میں آتا تھا۔ اندازہ فرمایئے کہ جس شخص کو پورا قبیلہ اپنے قرض کا امین بنا کر تجارت کے لیے بھیجتا تھا کیا وہ ایک غریب آدمی کو قرض دیتے تھے۔ اور ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو مستقلاً تجارت پیشہ لوگوں کو تجارت کے لیے قرض دیتے۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ جب سود حرام کیا گیا تو بعض لوگوں کا سودی کاروبار دور دور تک پھیلا ہوا تھا اور یہ سارا تجارتی سود تھا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں سود کی حرمت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں آج کے دن جن جن لوگوں کا سود دوسروں کے ذمے ہے وہ ختم کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سود ختم کرتا ہوں۔ اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت عباس ( رض) کا سود جو دوسروں کے ذمے تھا وہ دس ہزار مثقال سونا تھا۔ اور ایک مثقال تقریباً چار ماشے کا ہوتا ہے۔ اور یہ دس ہزار مثقال اصل سرمایہ نہیں تھا بلکہ یہ وہ سود تھا جو لوگوں کے ذمے اصل رقوم پر واجب الادا تھا۔ اس سے اندازہ لگایئے کہ وہ قرض جس پر دس ہزار مثقال سونے کا سود لگ گیا ہو کیا وہ قرـض صرف کھانے کی ضروریات کے لیے لیا گیا تھا ؟ یقینا وہ قرض تجارتی مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ عہد صحا بہ ( رض) میں بینکاری کی مثال عہد صحابہ ( رض) میں تو ہمیں بینکاری کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ حضرت زبیر بن عوام ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنا حواری فرمایا تھا۔ انھوں نے اپنے پاس بالکل ایسا نظام قائم کیا ہوا تھا جیسے آج کل بینکنگ کا نظام ہوتا ہے۔ لوگ جب ان کے پاس اپنی امانتیں لا کر رکھواتے تو یہ ان سے کہتے کہ میں یہ امانت کی رقم بطور قرض لیتا ہوں تاکہ اگر یہ ضائع ہوجائے تو میرے ذمے اس کی ادائیگی ضروری ہو۔ اور پھر آپ ( رض) اس رقم کو تجارت میں لگاتے ‘ چناچہ جس وقت آپ ( رض) کا انتقال ہوا تو اس وقت جو قرض ان کے ذمہ تھا اس کے بارے میں ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر ( رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ان کے ذمہ واجب الادا قرضوں کا حساب لگایا تو بائیس لاکھ دینار نکلے۔ اس ایک مثال سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس زمانے میں تجارتی قرضوں کا لین دین تھا۔ اور قرآن کریم نے اسی پر زیادتی کو سود قرار دے کر حرام ٹھہرایا ہے۔ اس لیے سود کی حرمت سے راستہ نکالنے کے لیے اس طرح کے مفروضے قائم کرنا کہ اس زمانے میں کمرشل لون نہیں ہوتے تھے یہ سراسر ایک عذر لنگ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں کمپائونڈ انٹرسٹ یعنی مرکب سود تھا۔ اور قرآن کریم نے اسی کو حرام قرار دیا ہے۔ سود مفرد یعنی سمپل انٹرسٹ اس زمانے میں نہیں تھا اور نہ قرآن کریم نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ حالانکہ آگے قرآن کریم میں آیت آرہی ہے اس میں فرمایا گیا ہے کہ جو تمہارا سود باقی ہے اسے چھوڑ دو ۔ اس میں کم یا زیادہ ہونے کا کوئی سوال نہیں۔ اور اگر تم سود سے توبہ کرلو تو تمہارا جو راس المال ہے وہ تمہارا حق ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کوئی سی بھی زیادتی تمہارے لیے ناجائز ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے ہر طرح کے سود کو حرام قرار دیا ہے چاہے وہ سود مفرد ہو یا مرکب ‘ وہ ذاتی ضرورتوں کے لیے دیا جائے یا تجارتی اغراض کے لیے ‘ سود کی حرمت پر ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بینکنگ انٹرسٹ بھی حرام ہے جہاں تک بینکنگ انٹرسٹ کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سالوں تک یہ بحثیں ہوتی رہی ہیں کہ جس سود کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ان میں بینکنگ انٹرسٹ بھی شامل ہے یا نہیں ؟ لیکن اب ساری دنیا کے علماء اور ماہرین معاشیات اور مسلم بینکرز بھی اس بات پر متفق ہیں کہ بینکنگ انٹرسٹ بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح عام قرض کے لین دین پر سود حرام ہوتا ہے۔ اور اب اس پر اجماع ہوچکا ہے کسی قابل ذکر شخص کا اس میں اختلاف نہیں ‘ غالباً 1990 ء یا کم و بیش جدہ میں مجمع الفقہ الاسلامی کا ایک اجتماع ہوا تھا جس میں تقریباً پینتالیس مسلم ملکوں کے دو سو جلیل القدر علماء شریک ہوئے تھے۔ سب نے بالاتفاق یہ فتویٰ دیا تھا کہ بینکنگ انٹرسٹ بالکل حرام ہے ‘ اس کے جائز ہونے کا کوئی راستہ نہیں۔ تجارت اور سود میں فرق اس آیت کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کی عقلیں اس حد تک مائوف ہوجاتی ہیں کہ وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ آخر ربا میں اس کے سوا کیا چیز ہے کہ اپنے پیسے کے ذریعے آدمی دوسرے سے پیسہ کماتا ہے ؟ جس طرح ایک تاجر تجارت کے ذریعے پیسہ کماتا ہے اور اپنے مال کو تجارت میں صرف کر کے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح سود لینے والا بھی اپنا مال قرض دے کر اس کے بڑھانے کی تدبیر کرتا ہے۔ آج کل بھی سود کو جائز سمجھنے والے اسی دلیل کا سہارا لیتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے سود کو بیع پر قیاس کرنے والوں کی نسل دنیا میں نئی ہے۔ یہ ایک دیوانگی ہے کیونکہ اگر ان پر حب دنیا دیوانگی کی شکل اختیار نہ کرے تو وہ بھی بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک تاجر اور سود خور میں آخر کیا نسبت ہے ؟ ایک تاجر اپنا سرمایہ ایک ایسی چیز کی تجارت پر لگاتا ہے جس کی لوگوں کو طلب ہوتی ہے اور وہ اس کے لیے صرف مال ہی کو حرکت میں نہیں لاتا بلکہ رات دن اس کے لیے محنت کرتا ہے ‘ زحمت اٹھاتا ہے ‘ دوڑ بھاگ کرتا ہے ‘ وقت صرف کرتا اور نیندیں حرام کرتا ہے اور مسلسل محنت کے بعد لوگوں کو وہ اشیائے ضرورت فراہم کرتا ہے کہ لوگ اگر اس کو خود حاصل کرنا چاہتے تو کبھی حاصل نہ کرسکتے اور اگر حاصل کرتے تو کم از کم اس قیمت پر حاصل نہ کرسکتے جس قیمت پر ایک تاجر انھیں مہیا کرتا ہے۔ پھر اس محنت و ریاضت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے سرمائے کو تجارت کے اتار چڑھائو کے سپرد کردیتا ہے۔ وہ یقینا اپنا مال تجارت بازار میں نفع کی نیت سے لاتا ہے ‘ لیکن بازار کا اتار چڑھائو تو اس کے قبضہ میں نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سامان کی قیمتیں گرجائیں اور تاجر نقصان کا شکار ہوجائے ‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ قیمتیں مستقیم رہیں اور بازار ایک روش پر چلتا رہے تو تاجر اپنے مال تجارت سے نفع کمالے۔ لیکن اس کو ملنے والا نفع جن خطرات سے گزرتا ہے اور جس محنت کے سہارے آگے بڑھتا ہے اس کا یقینا یہ صلہ ہونا چاہیے کہ تاجر کو یہ نفع ملے اور وہ بجا طور پر جائز سمجھا جائے۔ لیکن اس کے بالمقابل سود پر قرض دینے والا اس کے سوا اور کچھ نہیں کرتا کہ وہ اپنے مال کو حرکت میں لاتا ہے اور طے شدہ نفع پر مال کسی شخص یا کسی پارٹی کے حوالے کرتا ہے۔ اگر یہ مال کسی کی ذاتی ضرورت کے لیے دیا جاتا ہے تو پھر تو اس پر سود لینے کی شناعت اور کراہت میں کلام ہی نہیں کہ مریض اپنے علاج میں اس مال کو صرف کرتا ہے ‘ بھوکا اپنے طعام میں ‘ ننگا اپنے کپڑوں ‘ بےمکان مکان بنانے میں ‘ لیکن یہ شخص آرام سے اپنے گھر میں بیٹھا صرف اصل زر نہیں بلکہ اس کا سود بھی وصول کرتا ہے۔ اور بعض دفعہ ضرورت مند وقت پر مال ادا نہیں کرسکتا تو اس کا سود بڑھتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قرض دار کا گھردر ‘ اس کے اثاث البیت اور اس کے زن و فرزند ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اور خاندان کے خاندان کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ قرض لینے والے پر قیامت گزر جائے سود لینے والے کی ایک دمڑی کم نہیں ہوتی۔ اسے نہ بازار کے اتار چڑھائو سے واسطہ پڑتا ہے ‘ نہ اسے کوئی زحمت اٹھانا پڑتی ہے ‘ ہر صورت میں اس کا نفع مستحکم ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ رفاہی کاموں ‘ اجتماعی منصوبوں اور ملکی اسکیموں کے لیے حکومت امراء سے قرض لیتی ہے اور یہ قرض بھی سود پہ دیا جاتا ہے۔ مثلاً ملک میں سیلاب آگیا۔ اب سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے حکومت ضروری انتظامات کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے حکومت کے خزانے میں گنجائش نہیں۔ تو ملک کے امراء سے قرض لیتی ہے۔ ابھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے بند بنائے جا رہے تھے ‘ پلوں کی مرمت ہو رہی تھی ‘ کنارے دریائوں کے اونچے کیے جارہے تھے اور ضروری انتظامات کا سلسلہ جاری تھا کہ بارشیں شروع ہوگئیں اور بارشوں کی شدت سے دریائوں میں سیلاب آگیا۔ جتنا کام ہوا تھا وہ سب سیلاب کی نذر ہوگیا لیکن جو اس کام کے لیے قرض لیا گیا تھا اس کی ادائیگی سود سمیت حکومت کے ذمے لازم ہے۔ اور یہ قرض دینے والے اسی ملک کے رہنے والے ہیں جس کی منصوبہ بندی پر یہ خرچ ہو رہا تھا ‘ لیکن اس نقصان کی تلافی کا بوجھ پورے ملک کے امیروں اور غریبوں پر پڑے گا۔ لیکن یہ قرض دینے والے ‘ قرض چھوڑنا تو دور کی بات ہے اپنی سود کی معین شرح میں کوئی کمی کرنا بھی گوارا نہیں کریں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کا سود بڑھتا چلا جائے گا۔ اندازہ فرمایئے کہ ایسے سودی کاروبار کا تجارتی کاروبار سے کیا مقابلہ ؟ اور ان کی آپس میں کیا مشابہت ؟ دنیا میں ہر کاروبار محنت چاہتا ہے اور ہر سرمایہ نقصان کے خطرے سے دوچار ہوتا ہے اور کسی بھی کاروبار میں حتمی منافع کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ‘ لیکن ایک قرض دینے والا ایسا کاروباری ہے کہ جس کے سرمائے کی حفاظت یقینی ہے اور جس کا متعین نفع کبھی نقصان سے دوچار نہیں ہوتا۔ اگر دنیا میں انصاف کی کوئی رمق بھی باقی ہے تو انھیں خود سوچنا چاہیے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت ‘ اپنی محنت ‘ اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپا رہے ہیں اور جن کی سعی و کوشش کے بل پر ہی اس کاروبار کا بار آور ہونا موقوف ہے ‘ ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو ‘ بلکہ نقصان کا سارا خطرہ بالکل انہی کے سر پر ہو ‘ مگر جس نے صرف اپنا روپیہ انھیں قرض دے دیا ہو وہ بےخطر ایک طے شدہ منافع وصول کرتا چلا جائے ‘ آخر کس عقل ‘ کس منطق ‘ کس اصول انصاف اور کس اصول معاشیات کی رو سے درست ہے ؟ تجارت اور سود کے درمیان اصولی فرق کی وجوہ صاحب تفہیم القرآن نے تجارت اور سود کے اصولی فرق کے حوالے سے چار بنیادی باتیں کہی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان سے استفادہ کیا جائے : 1 تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے ‘ کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اٹھاتا ہے جو اس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اس محنت ‘ ذہانت اور وقت کی اجرت لیتا ہے ‘ جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیا کرنے میں صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے سودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے ‘ جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے ‘ لیکن اس کے مقابلے میں سود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے ‘ جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔ اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مہلت اس کے لے قطعی نافع نہیں ہے۔ اور اگر وہ تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے ‘ یا ایک کے یقینی اور متعین فائدے اور دوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔ 2 تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے ‘ بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے ‘ ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مدیون نے اس کے مال سے خوہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو ‘ بہرطور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اٹھاتا ہے اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مدیون کی پوری کمائی ‘ اس کے تمام وسائل معیشت ‘ حتیٰ کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کرلے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے۔ 3 تجارت میں شے اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی۔ مکان یا زمین یا سامان کے کرائے میں اصل شے ‘ جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے ‘ صرف نہیں ہوتی ‘ بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ مالک جائیداد کو واپس دے دی جاتی ہے۔ لیکن سود کے معاملے میں قرض دار سرمایہ کو صرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ مال دوبارہ پید اکر کے اضافے کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے۔ 4 تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت ‘ ذہانت اور وقت صرف کر کے اس کا فائدہ لیتا ہے۔ مگر سودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کربلا کسی محنت و مشقت کے دوسرے کی کمائی میں شریک غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اصطلاحی ” شریک “ کی نہیں ہوتی جو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے ‘ بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظ تناسبِ نفع اپنے طے شدہ منافع کا دعوے دار ہوتا ہے۔ “ ان وجوہ سے تجارت کی معاشی حیثیت اور سود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم الشان فرق ہوجاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل ‘ خود غرضی ‘ شقاوت ‘ بےرحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے اور ہمدردی و امدادباہمی کی روح کو فنا کردیتا ہے۔ اس بنا پر سود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے۔ (ماخوذ از : تفہیم القرآن) سود کے نقصانات بعض لوگ مسلمان کہلاتے ہوئے بھی جو صرف عقل سے سوچتے ہیں اور عقل ہی کے ترازو میں مذہب کو بھی تولتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ تجارت اور سود یکساں نہیں ‘ ہر لحاظ سے ان میں بڑا فرق ہے ‘ لیکن اگر ایک شخص کسی کو اپنا سرمایہ قرض پردے کر اسے کاروبار کرنے کی سہولت مہیا کرتا ہے اور وہ اس سے ڈھیروں کماتا ہے ‘ اس میں سے سرمائے کا مالک اگر ایک متعین حصہ لے لیتا ہے تو اس میں آخر حرج ہی کیا ہے ؟ گذارش یہ ہے کہ اس میں سب سے بڑا حرج تو یہ ہے کہ یہ اللہ کے احکام کی صریح نافرمانی ہے۔ حلت و حرمت کا اختیار اور جائز و ناجائز کی اتھارٹی سراسر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا حکم آخری حکم ہے۔ جس میں اس کا رسول بھی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ سود کو چونکہ وہ حرام کرچکا ہے اور جان بوجھ کر اس کی نافرمانی کرنے والے کو جہنم میں بھیجنے کی دھمکی دیتا ہے تو جو شخص اپنا سرمایہ کسی بھی سودی کاروبار میں لگاتا ہے وہ اللہ کے حکم کو توڑتا ہے اور اس کا نقصان یہ ہے کہ ایسا شخص جہنم کا ایندھن بنے گا۔ لیکن محض سمجھانے کے لیے میں عرض کرتا ہوں کہ اسلام کا نقطہ نگاہ بالکل واضح ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ جب تم کسی شخص کو قرض دیتے ہو تو تمہاری نیت کیا ہے ؟ تم اس کی مدد کرنا چاہتے ہو تو پھر اس پر معاوضہ کیسا ؟ مدد کی صورت میں عوض اور معاوضہ بےمعنی چیز ہے۔ اور اگر تم اسے قرض دے کر کاروبار میں شریک ہونا چاہتے ہو تو پھر تمہیں معقولیت اور سیدھے طریقے سے کاروبار میں شریک ہونا چاہیے۔ کاروبار میں شریک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ تمہارا ہو اور محنت دوسرے کی اور نفع میں تم دونوں طے شدہ تناسب سے شرکت کرو۔ یہ وہ معقول بات ہے جس کی طرف اسلام دعوت دیتا ہے۔ لیکن اسے وہ غور کے قابل بھی نہیں سمجھتا کہ ایک شخص دوسرے کو کاروبار کے لیے سرمایہ دیتا ہے اور پھر اسے یہ کہتا ہے کہ میں اتنے فیصد تم سے نفع لوں گا۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اسے کاروبار میں نفع ہوتا ہے یا نقصان۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دینے ولا اپنا سرمایہ اور اس پر متعین نفع تو محفوظ رکھنا چاہتا ہے لیکن محنت کرنے والا اور جان مارنے والا جس کی روزی کا دارومدار ہی اس کاروبار پر ہے اس کے لیے کوئی ضمانت نہیں۔ اگر وہ گھاٹے کا شکار ہوجاتا ہے تو نقصان سارا اس کی گردن پر ہوگا۔ یہ وہ ظلم ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ آج کل جو انٹرسٹ کا نظام رائج ہے اس میں آپ جانتے ہیں کہ ایک متعین شرح سود پر کاروبار کے لیے بینک قرض دیتا ہے۔ فرض کیجئے بینک نے اسے ایک کروڑ روپیہ قرض دیا۔ ذرا غور کیجئے یہ ایک کروڑ روپیہ کہاں سے آیا ؟ یہ ایک کروڑ روپیہ بینک کا نہیں بلکہ ڈیبازیٹرس کا ہے۔ یعنی قوم کے ان افراد کا ہے جنھوں نے بینک میں اپنے اکائونٹس کھلوا رکھے ہیں۔ کاروبار کرنے والے کو سو فیصد نفع ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ایک کروڑ پر ایک کروڑ کمایا۔ اس نے بینک سے پندرہ فیصد شرح سود سے قرض لیا تھا۔ چناچہ اس نے پندرہ لاکھ بینک کو ادا کیا اور پچاسی لاکھ کا اسے فائدہ ہوا۔ بینک نے اس میں سے اپنے اخراجات نکال کر باقی سات فیصد یا دس فیصد ڈیبازیٹرس کو دیا۔ یعنی جن لوگوں کے سرمائے سے یہ کاروبار کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کاروبار کرنے والے نے تو سو فیصد فائدہ اٹھایا اور کھاتہ دار کے حصے میں دس فیصد آیا۔ لیکن وہ سو میں سے دس روپے لے کر بھی خوش ہے کہ مجھے دس روپے نفع ہوا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کے پیسوں سے سو فیصد کمایا گیا اور اسے دس فیصد پر ٹرخا دیا گیا ہے۔ اس پر بھی مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض دفعہ یہ دس روپے جو نفع میں دیے گئے ہیں قرض لینے والا یہ بھی وصول کرلیتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ قرض لینے والا ان دس روپوں کو پیداواری اخراجات یعنی کا سٹ آف پروڈکشن میں شامل کرلیتا ہے۔ فرض کیجئے اس نے ایک کروڑ روپیہ بینک سے قرض لے کر ایک فیکٹری لگائی یا کوئی چیز تیار کی۔ تو تیاری کے مصارف میں پندرہ فیصد بھی شامل کردیے جو اس نے بینک کو ادا کیے تھے۔ تو اب جو چیز تیار ہوگی اس کی قیمت پندرہ فیصد بڑھ جائے گی لہٰذا ڈیبازیٹر جسے ایک سو کے ایک سو دس روپے ملے تھے جب وہ بازار سے کپڑا خریدے گا تو اس کو اس کپڑے کی قیمت پندرہ فیصد زیادہ دینی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیبازیٹر کو جو دس فیصد منافع دیا گیا تھا وہ دوسرے ہاتھ سے پندرہ فیصد وصول کرلیا گیا۔ ڈیبازیٹر بچارہ خوش ہے کہ مجھے سو کے ایک سو دس روپے مل گئے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کو سو روپے کے بدلے پچانوے روپے ملے۔ اس لیے کہ وہ پندرہ فیصد کپڑے کی کا سٹ میں چلے گئے۔ اور دوسری طرف پچاسی فیصد منافع اس قرض لینے والے کی جیب میں چلا گیا۔ اگر یہ سارا کاروبار شرکت کی بنیاد پر ہوتا اور یہ پہلے سے طے کرلیا جاتا کہ پچاس فیصد نفع سرمایہ لگانے والے کا ہوگا اور پچاس فیصد کام کرنے والے کا تو اس صورت میں کھاتہ داروں کو پندرہ فیصد کی بجائے پچاس فیصد نفع ملتا۔ اس ایک مثال سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کھاتہ دار ہر صورت میں نقصان میں رہتا ہے۔ لیکن بظاہر اسے سود کے نام پر دھوکا دیا جاتا ہے۔ اور یہ سب کچھ بینکنگ سسٹم کے تحت ہو رہا ہے۔ اور اسی پر بس نہیں بعض دفعہ تو یہ ظلم اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے کہ فرض کیجئے کہ کسی نے ایک کروڑ روپیہ بینک سے قرض لے کر تجارت کی۔ اس تجارت میں اس کو نقصان ہوگیا۔ اور بینک اس نقصان کے نتیجے میں دیوالیہ ہوگیا۔ غور کیجئے بینک کے دیوالیہ ہونے کے نتیجے میں روپیہ کس کا گیا۔ ظاہر ہے کہ وہ ڈیبازیٹرس یعنی عوام کا روپیہ تھا ‘ نقصان ہونے کی صورت میں وہ سارا روپیہ ڈوب گیا۔ کس قدر اندھیر نگری ہے کہ اگر نفع ہے تو سارے کا سارا قرض لینے والے کا اور اگر نقصان ہے تو سارے کے سارا ڈیبازیٹرس یعنی عوام کا۔ مشارکت اس لیے اسلام بالکل سیدھی بات کہتا ہے کہ تم کاروبار کو کاروبار کے طریقے سے کرو۔ سود کے حامیوں نے یہ بھی سمجھ رکھا ہے کہ آج کے دور میں کاروبار شاید سود کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ لیکن اسلام نے اس کے متبادل بھی تجویز کیے ہیں۔ یہ اگرچہ تفصیل طلب بحث ہے اور نہایت ٹیکنیکل بھی۔ اس لیے ہم صرف نام کی حد تک اس کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں کہ انٹرسٹ کا اصل متبادل جسے کاروبار کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے وہ مشارکت ہے۔ یعنی جب کوئی شخص کاروبار کے لیے قرض لے رہا ہے تو قرض دینے والا یہ کہے کہ میں تمہیں قرض حسنہ نہیں دے رہا اور نہ تمہیں سود پر قرض دوں گا۔ بلکہ میں تمہارے کاروبار میں حصہ دار بننا چاہتا ہوں ‘ اگر تمہیں نفع ہوگا تو میں اس نفع میں شریک ہوں گا اور اگر نقصان ہوگا تو میں نقصان میں بھی شامل ہوں گا۔ اس طرح کاروبار کے نفع اور نقصان میں شرکت پر مبنی کاروبار مشارکت کہلاتا ہے۔ یہی سب سے بہتر متبادل ہے۔ اور اسی کی بنیاد پر آج دنیا میں سو سے زیادہ بینک اور سرمایہ داری کے ادارے قائم ہوچکے ہیں اور وہ نہایت کامیابی سے چل رہے ہیں۔ اور بعض جگہ مذہبی نگران کمیٹیاں بن چکی ہیں جن میں اقتصادی ماہرین کے ساتھ ساتھ علماء بھی موجود ہیں جو باقاعدہ اس کاروبار کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس میں اگرچہ عملی دشواریاں ہیں لیکن اگر کوئی ملک پوری کمٹمنٹ کے ساتھ اس طریقے کو اپنا لے تو بڑی آسانی سے ان دشواریوں پر قابو پاسکتا ہے۔ اجارہ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اصل متبادل تو مشارکت ہی ہے لیکن وقتی طور پر اجارہ یعنی لیزنگ کو بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور طریقہ مرابحہ یعنی فائینانسنگ بھی ہے۔ اجارہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص نے بینک سے قرض مانگا ہے تو بینک نے اس سے پوچھا کہ آپ کی ضرورت کیا ہے ؟ اس نے بتایا کہ میں اپنے کار خانے کے لیے باہر سے مشینری منگوانا چاہتا ہوں۔ تو بینک اگر اسے پیسے دینے کی بجائے مشینری خرید کر اسے کرایہ پردے دے تو اسے اجارہ یا لیزنگ کہتے ہیں۔ مرابحہ اسی طرح کوئی شخص بینک سے اس لیے قرض لینا چاہتا ہے کہ وہ خام مال خریدنا چاہتا ہے تو بینک اس کو خام مال خریدنے کے لیے پیسے دینے کی بجائے خود خام مال خرید کر اسے نفع پر بیچ دے اسے مرابحہ کہتے ہیں اور شریعت نے اسے جائز رکھا ہے۔ کیونکہ شریعت کے قانون کے مطابق روپیہ کے اوپر روپیہ نہیں لیا جاسکتا اور اسی طرح روپیہ پر منافع بھی نہیں لیا جاسکتا ‘ لیکن اگر درمیان میں کوئی چیز یا مال تجارت آجائے اور اس کو فروخت کر کے نفع حاصل کرے اس کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے۔ مرابحہ کے اندر بھی درمیان میں مال آجاتا ہے۔ اس لیے شریعت کے اعتبار سے وہ سودا جائز ہے۔ امرہ الی اللّٰہ کا مفہوم اس آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا گیا کہ جس شخص کے پاس یہ نصیحت پہنچ گئی اور کلام کے تیور دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ موعظۃ کا لفظ تنبیہ یا وارننگ کے معنی میں ہے۔ تو اس نے اب تک جو سودی کاروبار کیا ‘ جو سود لیا ‘ جو سود کھایا اور جتنا اس سے فائدہ اٹھایا وہ اس کے لیے ہے ‘ یعنی اس پر قانونی گرفت نہیں ہوگی۔ اسلامی حکومت اس سے نہیں پوچھے گی کہ تم اپنے پچھلے کھاتے ہمیں دکھائو اور جن جن لوگوں سے تم نے سود لیا ان کا حساب دو تاکہ ان کی لی ہوئی رقمیں انھیں واپس دلائی جاسکیں۔ اگر ایسا ہوتا تو لامتناہی مقدمات کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اس لیے اسلام نے اس قانونی رعایت کا احترام کرتے ہوئے اس حکم کے بعد نئی کاروباری زندگی کے آغاز کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سود لینے والے کو اطمینان سے بیٹھ جانا چاہیے۔ اب اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی حکومت سے تم چھوٹ گئے لیکن اب تمہارا معاملہ جس کے ساتھ ہے وہ تمہارے ایک ایک عمل سے واقف ہے۔ اس لیے اس کے سامنے جوابدہی کی تیاری کرو۔ اس کے سامنے جوابدہی کے لیے کم سے کم تیاری یہ ہے کہ اپنا معاشی اور اخلاقی نقطہ نظر پوری طرح اسلام کے مطابق ڈھال لو۔ اور اس سے پہلے جو کچھ ہوچکا اس کے اثرات جہاں تک ختم کیے جاسکتے ہیں انھیں ختم کرنے کی کوشش کرو۔ یعنی حرام ذرائع کی آمدنی کو اپنی ذات اور اپنے بچوں پر خرچ کرنے سے گریز کرو۔ اور جن جن لوگوں سے یہ حرام سرمایہ حاصل کیا گیا تھا اگر وہ مل جائیں تو انھیں واپس کرو۔ اور اگر اس کے مستحقین نہ ملیں تو کسی اجتماعی فلاح و بہبود پر اسے صرف کرو۔ اس سے امید ہے کہ اللہ کے یہاں جواب دہی آسان ہوجائے گی۔ اس کے بعد آخری وارننگ دیتے ہوئے فرمایا کہ سود کی حرمت کے نازل ہوجانے کے بعد اور اسلامی حکومت کی طرف سے پوری طرح اس کی تبلیغ و اشاعت کے بعد اب بھی اگر کسی نے اس حرام فعل کا اعادہ کیا اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے سودی کاروبار میں ملوث رہا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا جہنم ہے۔ اور یہ وہ وقتی سزا نہیں بلکہ اس جرم کے نتیجے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا پڑے گا۔ جس آدمی کے دل میں ایمان کی کچھ رمق بھی باقی ہے اسے اس سزا کے سن لینے کے بعد کبھی جرم کا تصور بھی نہیں کرنا چاہیے۔
Top