Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 29
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا١ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ١ؕ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں الرِّبٰوا : سود لَا يَقُوْمُوْنَ : نہ کھڑے ہوں گے اِلَّا : مگر كَمَا : جیسے يَقُوْمُ : کھڑا ہوتا ہے الَّذِيْ : وہ شخص جو يَتَخَبَّطُهُ : اس کے حواس کھو دئیے ہوں الشَّيْطٰنُ : شیطان مِنَ الْمَسِّ : چھونے سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَا : در حقیقت الْبَيْعُ : تجارت مِثْلُ : مانند الرِّبٰوا : سود وَاَحَلَّ : حالانکہ حلال کیا اللّٰهُ : اللہ الْبَيْعَ : تجارت وَحَرَّمَ : اور حرام کیا الرِّبٰوا : سود فَمَنْ : پس جس جَآءَهٗ : پہنچے اس کو مَوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب فَانْتَهٰى : پھر وہ باز آگیا فَلَهٗ : تو اس کے لیے مَا سَلَفَ : جو ہوچکا وَاَمْرُهٗٓ : اور اس کا معاملہ اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر لوٹے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ سود کھاتے رہتے ہیں،1066 ۔ وہ لوگ نہ کھڑے ہوسکیں گے سو اس کے کہ جیسے وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے جنون سے خبطی بنادیا ہو،1067 ۔ یہ سزا اس لئے ہوگی کہ وہ کہتے ہیں،1068 ۔ کہ بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہے،1069 ۔ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے،1070 ۔ پھر جس کسی کو نصیحت اس کے پروردگار کی طرف سے پہنچ گئی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ پہلے ہوچکا وہ اس کا ہوچکا،1071 ۔ اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالہ رہا،1072 ۔ اور جو کوئی پھر عود کرے تو یہی لوگ دوزخ والے ہیں، اس میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں گے،1073 ۔
ف۔ 1066 ۔ (اسے جائز قرار دے کر) یاکلون الربوا سے مراد اردو محاورہ میں سود لینا ہے۔ عربی اور فارسی محاورہ میں سود کھانا آتا ہے۔ اور اردو میں بھی سود کھانا نامانوس نہیں۔ (آیت) ” الربوا “۔ ربو کے لغوی معنی ہر زیادتی اور اضافہ کے ہیں خصوصا سرمایہ میں اضافہ کے۔ ربا ای زاد وعلا (راغب) الربا الزیادۃ فی راس المال (راغب) اصطلاح شریعت میں ربوا کہتے ہیں اصل قرضہ پر زیادتی کو یا بلامعاوضہ مال، مال پر زیادتی کو، خواہ یہ بڑی ہو یا چھوٹی۔ خص فی الشرع بالزیادۃ علی وجہ دون وجہ (راغب) ھو فضل مال خال عن العوض فی معاوضۃ مال بمال (مدارک) اہل عرب اس لفظ کو اس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو قرض خواہ اپنے قرض دار سے مہلت کے معاوضہ میں وصول کرتا تھا۔ اردو میں اسی کا ترجمہ سود ہے اور سود کا مفہوم ہر شخص سمجھتا ہے۔ 1067 ۔ اصل منظر تو یہ قیامت کے دن کا ہے کہ آخرت میں اپنی قبروں سے اٹھنے پر یہ سود خوار سیدھے کھڑے تک نہ ہوسکیں گے کھڑے ہوں گے بھی تو متوالوں، خبطیوں، دیوانوں کی طرح کرتے پڑتے لڑکھڑاتے ہوئے۔ لیکن اس کا ایک ہلکا سا رنگ اسی دنیا میں نظر آجاتا ہے۔ مہاجن، ساہوکار جو روپیہ کے پیچھے دیوانہ باؤلا رہتا ہے واقعی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے جن یا بھوت چمٹ گیا ہے اور اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے اس پر سود یا بیاج ہی سوار رہتا ہے۔ اور جس کی حرص وطمع کی پیاس دنیا میں اتنی بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ لازم ہے کہ اس کا حشر بھی اس مخبوط، جنون زدہ حالت کے ساتھ ہو۔ اہل کشف اور محققین کا بیان ہے کہ حشر میں انسان اسی صورت کے ساتھ اٹھے گا، جس قسم کی سیرت اور خصلتیں دنیا میں اس پر غالب رہی ہوں گی۔ قال العارف الرومی۔ ع : سیرتے کو بر نہادت غالب است ہم برآں تصویر حشرت واجب است۔ (آیت) ” من المس “۔ مس اور مس شیطانی سے مراد محاورہ میں جنون ہوتی ہے۔ کنی بالمس عن الجنون (راغب) المس الجنون (کشاف) ان الفاظ کے آجانے سے یہ الازم نہیں آتا کہ قرآن مجید خود ہی اس عقیدہ کی تعلیم دے رہا ہے کہ جنون مس شیطانی ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ قرآن بعض اوقات ایسے موقع پر صرف مخاطبین کے معتقدات کو دہرا دیتا ہے۔ اور چونکہ اہل عرب کا عقیدہ یہی تھا اس لیے ہوسکتا ہے کہ قرآن انہی کی فہم کی مناسبت اور مذاق کی رعایت سے یہ فقرہ لے آیا ہو۔ قیل اضیف الی الشیطان علی زعمات العرب ان الشیطان یخبط الانسان فیصرعہ فورا علی ماکانوا یعتقدون (بحر) الناس یصیفون الصرع الی الشیطان والی الجن فخوطبوا علی ماتعارفوہ من ھذاومن عادۃ الناس انھم اذا ارادوا تقبیح شیء ان یضیفوہ الی الشیطان (کبیر) ۔ 1068 ۔ (حکم حرمت ربو کے جواب میں بہ طور استدلال کے) مراد سود خواروں اور جواز سود کے قائلوں کی جماعت ہے۔ یہ عہد جاہلیت کے ” روشن خیال “ تھے۔ 1069 ۔ (حصول نفع واضافۂ دولت کے لحاظ سے) آج کل کے ” روشن خیالوں “ کی طرح اس عہد کے سفیہوں کا بھی کہنا یہ تھا کہ مالی نفع آخر تجارت میں بھی تو ہوتا ہے، پھر جب تجارت حرام نہیں کی تو سود کیوں حرام ہو ؟ ان نافہموں نے اسے بالکل نظر انداز کردیا تھا کہ دونوں کی ایک سطح نہ اخلاقی حیثیت سے ہے نہ معاشی حیثیت سے۔ سود کی تو ایک متعین رقم بےکھٹکے ہر حال میں مہاجن کو ملتی رہتی ہے برخلاف اس کے تجارت میں نفع ونقصان دونوں کے احتمالات ہر وقت لگے رہتے ہیں اور تاجر کو نقصان سے بچنے کے لیے وقت، محنت ذہانت سب کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ پھر تجارتی معاملت تو ہر وقت ختم ہوجاتی ہے۔ برخلاف اس کے مدت اور مہلت کے ساتھ ساتھ سود خوار کے مطالبات کی میزان بھی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اکثر اوقات قرضدار کی نوبت بالکل تباہ حالی اور بربادی کو پہنچ جاتی ہے۔ امام رازی (رح) نے تفسیر کبیر میں حرمت سود کے جو عقلی دلائل لکھے ہیں وہ طرز اداوتعبیر کی تھوڑی سی تبدیلیوں کے بعد آج بھی پوری طرح پڑھنے کے قابل ہیں۔ امام رازی (رح) نے نمبر اول پر یہ بالکل صحیح لکھا ہے کہ سود کی رقم آخر کس چیز کا معاوضہ ہوتی ہے ؟ بجز مفت خوری کی بدترین شکل کے اور یہ ہے کیا ؟ 1070 ۔ (اور معلوم ہے کہ اللہ وہ ہے جو شرائع و احکام کا مالک ہے اور حکیم بھی ہے اور حاکم بھی) جب حکیم مطلق نے ایک معاملت کو جائز اور دوسری کو حرام ٹھہرادیا ہے تو اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ جائز کے اندر بیشمار منافع ومصالح اور حرام کے اندر بیشمار مفاسد ونقصانات ہیں اور بالفرض کسی کی سمجھ میں یہ مفاسد نہ بھی آئیں۔ جب بھی حاکم مطلق کا حکم واجب العمل تو بہر حال ہے۔ اسلام کے جو احسانات ساری دنیا پر اور بہت روشن ونمایاں حیثیت سے ہیں ان میں سے ایک حرمت سود بھی ہے۔ اس کے مفاسد روشن سب پر ہوچکے تھے، اس سے عاجز سب ہی چکے تھے لیکن قطعی اور کلی صورت میں حرام اسے دنیا کے ضابطوں اور شریعتوں میں صرف اسلام ہی نے قرار دیا۔ سود خوار کے دل میں شقاوت و سنگدلی اور حرص مال اور بلامشقت مال ہاتھ آجانے سے نفس میں دناءت اور زرپرستی اور ساہوکاروں کا بخل اور باہمی حسد و رقابت اور قرضدار بیچارہ کی بےحرمتی وتذلیل یہ واقعات ومشاہدات کہنا چاہیے کہ پیش پا افتادہ تھے۔ لیکن اس کی قطعی بندش کا خیال کسی انسانی دماغ کو نہ آیا۔ اصلاح حال کی جو کوششیں زیادہ سے زیادہ ہوئیں وہ بس شرح سود کی تحدید تک رہیں۔ یونان میں سولن، انگلستان میں بیکن اور یورپ میں آبائے کلیسا کے جوش اصلاح وافادۂ خلق کی کائنات کل اسی قدر ہے۔ یہ فخر قیامت تک کے لیے عرب کے امی ﷺ کے ساتھ مخصوص ہوگیا کہ اس انسانیت کش رسم کی حرمت کی منادی اس کی زبان سے کرائی گئی اور (آیت) ” حرم الربوا “۔ کا زلزلہ افگن نعرہ اس کے دہن سے بلند کرایا گیا۔ 1071 ۔ (اور وہ اس کھائے ہوئے نوالہ کے اگلنے پر مجبور نہیں) (آیت) ’ موعظۃ من ربہ “۔ یعنی یہی حرمت سود کا حکم (آیت) ” فانتھی “ یعنی وہ باز آگیا سود لینے اور اسے جائز ٹھہرانے سے۔ (آیت) ” فلہ ماسلف “ یعنی حکم حرمت سے قبل جو کچھ لے چکا، سو لے چکا۔ توبہ کے بعد اس کے لیے گنجائش ہے کہ اس مال کو اپنے پاس رہنے دے۔ پچھلی رقموں کی واپسی پر شریعت اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتی۔ 1072 ۔ (جو دلوں کے اسرار وخفایا کا عالم ہے) مقصود یہ ہے کہ یہاں بیان بندوں کے سامنے معاملہ کے صرف ظاہری اور قانونی پہلوؤں کا ہورہا ہے۔ باقی قلب کے تقوی و طہارت اور نفس کی اصلاح کا معاملہ اللہ پر چھوڑنا چاہیے۔ (آیت) ” امرہ “ میں ضمیر باز رہنے والے (من انتھی) کی طرف ہے۔ الظاہر ان الضمیر فی امرہ عائد الی النتھی (بحر) ۔ 1073 ۔ یعنی جو کوئی اس تبلیغ کے بعد بھی عقیدۂ جواز سود پر قائم رہے، یا سودی معاملت کرتا رہے۔ (آیت) ” اولئک اصحب النار۔ یہ سزا ہے سودی معاملت کرنے والوں کی۔ معاملت سود گناہ کبیرہ ہے اور کبیرہ کی سزا جہنم ہے۔ (آیت) ” ھم فیھاخلدون “۔ یہ سزا ہے جواز سود کے قائلوں کی۔ جواز سود کا عقیدہ کفر ہے اور کفر کی سزاخلود جہنم ہے۔ معتزلہ نے آیت کے اتنے جزء سے مومن اہل معاصی کی عدم مغفرت پر استدلال کرنا چاہا ہے۔ لیکن تفسیر کا جو پہلو یہاں اختیار کیا گیا اس پر یہ شبہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ امام رازی (رح) نے بھی تفسیر کبیر میں اس مقام پر خوب تقریر کی ہے۔
Top