Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف رَبِّكَ : اپنا رب كَيْفَ : کیسے مَدَّ الظِّلَّ : دراز کیا سایہ وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہتا لَجَعَلَهٗ : تو اسے بنا دیتا سَاكِنًا : ساکن ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الشَّمْسَ : سورج عَلَيْهِ : اس پر دَلِيْلًا : ایک دلیل
بھلا تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر کے پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس کو بےحرکت ٹھہرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنادیا ہے
( الم ترالی ربک۔۔۔۔۔۔۔ ) الم ترالی ربک کیف مدا الظل یہ جائز ہے کہ روایت سے مراد آنکھ سے دیکھنا ہو۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس سے مراد علم ہو۔ حضرت حسن بصری، قتادہ اور دوسرے علماء نے کہا : فجر کے طلوع سے لے کر سورج کے طلوع تک سایہ کو لمبا کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد سورج کے غائب ہونے سے اس کے طلوع تک کا وقت ہے۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس پر یہ دلیل یہ ہے کہ اس ساعت پر بڑھ کر کوئی ساعت اچھی نہیں کیونکہ اس میں مسافر ہو اور ہر بیمار راحت پاتا ہے، ان میں مرد و زن کی روحیں اور نفوس جسموں کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، اس میں زندوں کے نفوس خوش ہوتے ہیں مغرب کے بعد یہ صفت مفقود ہوتی ہے۔ ابو العالیہ نے کہا : جنت کا دن اس طرح ہوگا۔ صبح کی نماز پڑھنے والوں کی ساعت کی طرف اشارہ کیا۔ ابو عبیدہ نے کہا : ظل پہلے پہر اور فئی پچھلے پہر ہوتا ہے کیونکہ سورج کے ڈھلنے کے بعد وہ لوٹتا ہے۔ اسے فئی کا نام دیا گیا ہے کیونکہ وہ مشرق سے مغرب کی جانب پلٹتا ہے۔ شاعر جو حمید بن ثور ہے وہ سرحہ درخت کی صفت بیان کرتا ہے اور اس کے ساتھ اپنی بیوی کا کنایہ کے طور پر ذکر کرتا ہے : فلا الظل من برد الضحی تستطیعہ ولا الفئی من برد العشی تذوق تو چاشت کے ٹھنڈے سایہ کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ پچھلے پہر کے سایہ کو چکھتا ہے۔ ابن سکیت نے کہا : ظل اسے کہتے ہیں جسے سورج ختم کردیتا ہے اور فئی اسے کہتے ہیں جو سورج کو ختم کردیتا ہے۔ ابو عبید نے رئوبہ سے یہ حکایت بیان کی ہے جس پر سورج ہو اور سورج اس سے زائل ہوجائے تو وہ لئی اور ظل ہے جب تک اس پر سورج نہ چمک رہا ہو تو وہ ظل ہوتا ہے۔ ولو شاء لعجلہ ساکنا اگر اللہ تعالٰ چاہتا تو اسے دائمی اور ساکن بنا دیتا سورج اس کو ختم نہ کرتا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس سے مراد یوم قیامت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سورج کو طلوع ہونے سے روک دیتا۔ ثم جعلنا الشمس علیہ ولیلاً ہم نے سورج کو ( اس لیے کہ اس کے آنے کے وقت وہ سایہ کو ختم کردیتا ہے) اس امر پر دلیل بنا دیا ہے کہ ظل شے اور معنی ہے کیونکہ اشیاء کو اضداد سے پہچانا جاتا ہے اگر سورج نہ ہو تو سایہ کی پہچان نہ ہوتی اگر نور نہ ہوتا تو تاریکی کی پہچان نہ ہوتی۔ دلیل کا لفظ فعیل کے وزن پر ہے اور ہم فاعل کے معنی میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ مفعول کے معنی میں ہے جس طرح قتیل، دھین اور خصیب مفعول کے معنی میں ہیں۔ ہم نے سورج کو سایہ پر دلیل بنایا یہاں تک کہ سورج اسے لے گیا یعنی ہم نے اسے اس پر دلیل بنایا، یعنی سورج دلیل یعنی حجت اور برہان ہے وہی ذات ہے جو مشکل کو دور کرتی ہے اور اسے واضح کرتی ہے۔ دلیل کو مونث نہیں بنایا جب کہ یہ الشمس کی صفت ہے کیونکہ یہ اسم کے معنی میں ہے جس طرح کہا جاتا ہے : الشمس برہان والشمس حق۔ ثم فضنہ ہ ضمیر سے مراد پھیلا ہوا سایہ ہے۔ الینا قبضا یسیرا اس کا قبض کرنا ہم پر آسان ہے ہر امر اللہ تعالیٰ پر آسان ہے سایہ اس قضا میں اتنی دیر ہی رہتا ہے جتنا وقت فجر کے طلوع ہونے سے سورج کے طلوع ہونے تک رہتا ہے جب سورج طلوع ہوجاتا ہے تو سایہ مقبوض ہوجاتا ہے۔ فضاء میں اس کے پیچھے سورج کی شعاع ہوتی ہے جو سورج کے غروب ہونے تک زمین اور اشیاء پر چمکتی ہے۔ جب وہ غروب ہوجاتا ہے تو وہاں کوئی سایہ نہیں ہوتا، بیشک وہ دن کے نور کا باقی ماندہ حصہ ہوتا ہے۔ ایک قوم نے کہا : سایہ کا قبض غروب شمس کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ جب تک سورج غروب نہیں ہوتا تو اس میں سایہ باقی رہتا ہے اس کا زوال رات کے آنے اور ظلمت کے داخل ہونے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ قبض سورج کے ساتھ واقع ہوتا ہے کیونکہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ چلا جاتا ہے یہ ابو مالک اور ابراہیم تیمی کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ثم قبضنہ اس سے مراد ہے ہم نے سورج کی روشنی کو سایہ کے ساتھ آسانی سے قبضہ میں لے لیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یشیرا کا معنی تیز ہے : یہ ضحاک کا قول ہے۔ قتادہ نے کہا : مخفی یعنی جب سورج غائب ہوتا ہے تو سایہ کو مخفی طریقہ سے قبض کرلیا جاتا ہے جب بھی اس میں سے کسی جز کو قبضہ میں لیا جاتا ہے تو اس کی جگہ تاریکی میں سے حصہ رکھ دیا جاتا ہے وہ ایک ہی دفعہ زائل نہیں ہوتا : یہ قتادہ کا قول کا معنی ہے : یہی مجاہد کا قول ہے۔
Top