Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلٰى
: طرف
رَبِّكَ
: اپنا رب
كَيْفَ
: کیسے
مَدَّ الظِّلَّ
: دراز کیا سایہ
وَلَوْ شَآءَ
: اور اگر وہ چاہتا
لَجَعَلَهٗ
: تو اسے بنا دیتا
سَاكِنًا
: ساکن
ثُمَّ
: پھر
جَعَلْنَا
: ہم نے بنایا
الشَّمْسَ
: سورج
عَلَيْهِ
: اس پر
دَلِيْلًا
: ایک دلیل
تو نے نہیں دیکھا اپنے رب کی طرف کیسے دراز کیا سایہ کو اور اگر چاہتا تو اس کو ٹھہرا رکھتا پھر ہم نے مقرر کیا سورج کو اس کا راہ بتلانے والا
خلاصہ تفسیر
اے مخاطب کیا تو نے اپنے پروردگار (کی اس قدرت) پر نظر نہیں کی کہ اس نے (جب آفتاب افق سے طلوع کرتا ہے اس وقت کھڑی ہوئی چیزوں کے) سایہ کو کیونکر (دور تک) پھیلایا ہے (کیونکہ طلوع کے وقت ہر چیز کا سایہ لمبا ہوتا ہے) اور اگر وہ چاہتا تو اس کو ایک حالت پر ٹھہرایا ہوا رکھتا (یعنی آفتاب کے بلند ہونے سے بھی نہ گھٹتا اس طرح پر کہ اتنی دور تک آفتاب کی شعاعوں کو نہ آنے دیتا کیونکہ آفتاب کی شعاعوں کا زمین کے حصوں پر پہنچنا بارادہ حق ہے نہ کہ بالاضطرار مگر ہم نے اپنی حکمت سے اس کو ایک حالت پر نہیں رکھا بلکہ اس کو پھیلا ہوا بنا کر) پھر ہم نے آفتاب کو (یعنی اس کے افق کے قریب ہونے اور پھر افق سے بلند ہونے کو) اس (سایہ کی درازی و کو تاہی) پر (ایک ظاہری) علامت مقرر کیا (مطلب یہ کہ اگرچہ روشنی اور سایہ اور ان کے گھٹنے بڑھنے کی اصل علت حق تعالیٰ کا ارادہ اور مشیت ہے، آفتاب یا کوئی دوسری چیز موثر حقیقی نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیدا ہونے والی چیزوں کے لئے کچھ ظاہری اسباب بنا دیئے ہیں اور اسباب کے ساتھ ان کے مسببات کا ایسا رابطہ قائم کردیا کہ سبب کے تغیر سے مسبب میں تغیر ہوتا ہے) پھر (اس تعلق ظاہری کی وجہ سے) ہم نے اس (سایہ) کو اپنی طرف آہستہ آہستہ سمیٹ لیا (یعنی جوں جوں آفتاب اونچا ہوا وہ سایہ زائل اور معدوم ہوتا گیا اور چونکہ اس کا غائب ہونا محض قدرت الٰہیہ سے بلا شرکت غیرے ہے اور عام لوگوں کی رویت سے غائب ہونے کے باوجود علم الٰہی سے غائب نہیں ہے اس لئے یہ فرمایا گیا کہ اپنی طرف سمیٹ لیا) اور وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ کی چیز اور نیند کو راحت کی چیز بنایا اور دن کو (اس اعتبار سے کہ سونا مشابہ موت کے ہے اور دن کا وقت جاگنے کا ہے گویا) زندہ ہونے کا وقت بنایا اور وہ ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ (بارش کی امید دلا کر دل کو) خوش کردیتی ہیں اور ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں جو پاک صاف کرنے کی چیز ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے مردہ زمین میں جان ڈال دیں اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چار پایوں اور بہت سے آدمیوں کو سیراب کریں اور ہم اس (پانی) کو (بقدر مصلحت) ان لوگوں کے درمیان تقسیم کردیتے ہیں تاکہ لوگ غور کریں (کہ یہ تصرفات کسی بڑے قادر کے ہیں کہ وہی مستحق عبادت ہے) سو (چاہئے تھا کہ غور کرکے اس کا حق ادا کرتے لیکن) اکثر لوگ بغیر ناشکری کئے نہ رہے (جس میں سب سے بڑھ کر کفر و شرک ہے لیکن آپ ان کی اور بالخصوص اکثر کی ناشکری سنا کر یا دیکھ کر سعی فی التبلیغ سے ہمت نہ ہاریئے کہ میں تنہا ان سب سے کیسے عہدہ برآ ہوں گا بلکہ آپ تنہا ہی اپنا کام کئے جائیے کیونکہ آپ کو تنہا ہی نبی بنانے سے خود ہمارا مقصود یہ ہے کہ آپ کا اجر اور قرب بڑھے) اور اگر ہم چاہتے تو (آپ کے علاوہ اسی زمانہ میں) ہر بستی میں ایک ایک پیغمبر بھیج دیتے (اور تنہا آپ پر تمام کام نہ ڈالتے لیکن چونکہ آپ کا اجر بڑھانا مقصود ہے اس لئے ہم نے ایسا نہیں کیا تو اس طور پر اتنا کام آپ کے سپرد کرنا خدا تعالیٰ کی نعمت ہے) سو (اس نعمت کے شکریہ میں) آپ کافروں کو خوشی کا کام نہ کیجئے (یعنی کافر تو) اس سے خوش ہوں گے کہ تبلیغ نہ ہو یا کمی ہوجائے اور ان کی آزادی سے تعرض نہ کیا جاوے) اور قرآن (میں جو دلائل حق کے مذکور ہیں جیسا اسی مقام پر دلائل توحید کے ارشاد ہوئے ہیں ان) سے ان کا زور شور سے مقابلہ کیجئے (یعنی عام اور مکمل دعوت و تبلیغ کیجئے، یعنی سب سے کہیئے اور بار بار کہیئے اور ہمت قوی رکھئے جیسا اب تک آپ کرتے رہے ہیں اس پر قائم رہئے۔ آگے پھر بیان ہے دلائل توحید کا) اور وہ ایسا ہے جس نے دو دریاؤں کو (صورة) ملایا جن میں ایک (کا پانی) تو شیریں تسکین بخش ہے اور ایک (کا پانی) شور تلخ ہے اور (باوجود اختلاط صوری کے حقیقتہ) ان کے درمیان میں (اپنی قدرت سے) ایک حجاب اور (اختلاط حقیقی سے) ایک مانع قوی رکھ دیا (جو خود خفی غیر محسوس ہے مگر اس کا اثر یعنی امتیاز دونوں پانی کے مزہ میں محسوس اور مشاہد ہے۔ مراد ان دو دریاؤں سے وہ مواقع ہیں جہاں شیریں ندیاں اور نہریں بہتے بہتے سمندر میں آکر گری ہیں وہاں باوجود اس کے کہ اوپر سے دونوں کا سطح ایک معلوم ہوتا ہے لیکن قدرت الٰہیہ سے ان میں ایک ایسی حد فاصل ہے کہ ملتقیٰ کے ایک جانب سے پانی لیا جاوے تو شیریں اور دوسری جانب سے جو کہ جانب اول سے بالکل قریب ہے پانی لیا جاوے تو تلخ۔ دنیا میں جہاں جس جگہ شیریں پانی کی نہریں چشمے سمندر کے پانی میں گرتے ہیں وہاں اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ میلوں دور تک میٹھا اور کھاری پانی الگ الگ چلتے ہیں، دائیں طرف میٹھا بائیں طرف تلخ کھاری یا اوپر نیچے شیریں اور تلخ پانی الگ الگ پائے جاتے ہیں (حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ بیان القرآن میں دو معتبر بنگالی علماء کی شہادت نقل کی ہے کہ ارکان سے چاٹگام تک دریا کی شان یہ ہے کہ اس کی دو جانبین بالکل الگ الگ نوعیت کے دو دریا نظر آتے ہیں ایک کا پانی سفید ہے اور ایک کا سیاہ، سیاہ میں سمندر کی طرح طوفانی تلاطلم اور تموج ہوتا ہے اور سفید بالکل ساکن رہتا ہے۔ کشتی سفید میں چلتی ہے اور دونوں کے بیچ میں ایک دھاری سی برابر چلی گئی ہے جو دونوں کا ملتقی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سفید پانی میٹھا ہے اور سیاہ کڑوا، اھ، اور مجھ سے باریسال کے بعض طلباء نے بیان کیا کہ ضلع باریسال میں دو ندیاں ہیں جو ایک ہی دریا سے نکلی ہیں، ایک کا پانی کھاری بالکل کڑوا اور ایک کا نہایت شیریں اور لذیذ ہے۔ یہاں گجرات میں راقم الحروف جس جگہ آجکل مقیم ہے (ڈابھیل سملک ضلع سورت) سمندر وہاں سے تقریباً دس بارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ ادھر کی ندیوں میں برابر مد و جزر (جوار بھاٹا) ہوتا رہتا ہے بکثرت ثقافت نے بیان کیا کہ مد کے وقت جب سمندر کا پانی ندی میں آجاتا ہے تو میٹھے پانی کی سطح پر کھاری پانی بہت زور سے چڑھ جاتا ہے لیکن اس وقت بھی دونوں پانی مختلط نہیں ہوتے۔ اوپر کھاری رہتا ہے نیچے میٹھا، جزر کے وقت اوپر سے کھاری اتر جاتا ہے اور میٹھا جوں کا توں میٹھا باقی رہ جاتا ہے۔ واللہ اعلم، ان شواہد کو دیکھتے ہوئے آیت کا مطلب بالکل واضح ہے یعنی خدا کی قدرت دیکھو کہ کھاری اور میٹھے دونوں دریاؤں کے پانی کہیں نہ کہیں مل جانے کے باوجود بھی کسی طرح ایک دوسرے سے ممتاز رہتے ہیں) اور وہ ایسا ہے جس نے پانی سے (یعنی نطفہ سے) آدمی کو پیدا کیا پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا (چناچہ باپ دادا وغیرہ شرعی خاندان اور ماں، نانی وغیرہ عرفی خاندان ہیں جن سے پیدائش کے ساتھ ہی تعلقات پیدا ہوجاتے ہیں پھر شادی کے بعد سسرالی رشتے پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ دلیل قدرت بھی ہے کہ نطفہ کیا چیز تھا پھر اس کو کیسا بنادیا کہ وہ اتنی جلد خون والا ہوگیا اور نعمت بھی ہے کہ ان تعلقات پر تمدن اور امداد باہمی کی تعمیر قائم ہے) اور (اے مخاطب) تیرا پروردگار بڑی قدرت والا ہے اور (باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات میں ایسا کامل ہے جیسا بیان ہوا اور یہ کمالات مقتضی ہیں کہ اسی کی عبادت کی جاوے مگر) یہ (مشرک) لوگ (ایسے) خدا کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں (جو عبادت کرنے پر) نہ ان کو کچھ نفع پہنچا سکتی ہیں اور نہ (درصورت عبادت نہ کرنے کے) اور کو کچھ ضرر پہنچا سکتی ہیں اور کافر تو اپنے رب کا مخالف ہے (کہ اس کو چھوڑ کر دوسرے کی عبادت کرتا ہے اور کفار کی مخالفت معلوم کرکے آپ نہ تو ان کے ایمان نہ لانے سے غمگین ہوں کیونکہ) ہمنے آپ کو صرف اس لئے بھیجا ہے کہ (ایمن والوں کو جنت کی) خوشخبری سنائیں اور (کافروں کو دوزخ سے) ڈرائیں۔ (ان کے ایمان نہ لانے سے آپ کا کیا نقصان ہے، پھر آپ کیوں غم کریں اور نہ آپ اس مخالفت کو معلوم کرکے فکر میں پڑیں کہ جب یہ حق تعالیٰ کے مخالف ہیں تو میں جو حق تعالیٰ کی طرف دعوت کرتا ہوں اس دعوت کو یہ لوگ خیر خواہی کب سمجھیں گے بلکہ میری خود غرضی پر محمول کرکے التفات بھی نہ کریں گے تو ان کے گمان کی کیونکہ اصلاح کی جاوے تاکہ مانع مرتفع ہو۔ سو اگر آپ کو ان کا یہ خیال قرینہ سے یا زبانی گفتگو سے معلوم ہو تو) آپ (جواب میں اتنا) کہہ دیجئے (اور بےفکر ہوجائے) کہ میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی معاوضہ (مالی یا جاہی) نہیں مانگتا ہاں جو شخص یوں چاہے کہ اپنے رب تک (پہنچنے کا) رستہ اختیار کرلے (تو البتہ میں یہ ضرور چاہتا ہوں چاہے اس کو معاوضہ کہو یا نہ کہو) اور (نہ اس مخالفت کفار کو دریافت کرکے ان کی ضرر رسانی سے اندیشہ کیجیئے بلکہ تبلیغ میں) اس حی لایموت پر توکل رکھئے اور (اطمینان کے ساتھ) اس کی تسبیح وتحمید میں لگے رہیئے اور (نہ مخالفت سن کر تعجیل عقوبت کی اس خیال سے تمنا کیجئے کہ ان کا ضرر دونوں کو نہ پہنچ جاوے کیونکہ) وہ (خدا) اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی (طور پر) خبردار ہے (وہ جب مناسب سمجھے گا سزا دیدے گا۔ پس ان جملوں میں رسول اللہ ﷺ سے حزن و فکر اور خوف کو زائل فرمایا ہے آگے پھر توحید کا بیان ہے) وہ ایسا ہے جس نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب چھ روز (کی مقدار) میں پیدا کیا پھر عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہوا (جو کہ اس کی شان کے لائق ہے جس کا بیان سورة اعراف کے رکوع ہفتم کے شروع آیت میں گزر چکا) وہ بڑا مہربان ہے سو اس کی شان کسی جاننے والے سے پوچھنا چاہیئے (کہ وہ کیسا ہے کافر مشرک کیا جانیں اور اس معرفت صحیحہ کے نہ ہونے سے شرک کرتے ہیں کما قال اللہ تعالیٰ وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖٓ) اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو (بوجہ جہل وعناد کے) کہتے ہیں کہ رحمن کیا چیز ہے (جس کے سامنے ہم کو سجدہ کرنے کو کہتے ہو) کیا ہم اس کو سجدہ کرنے لگیں گے جس کو تم سجدہ کرنے کے لئے ہم کو کہو گے اور اس سے ان کو اور زیادہ نفرت ہوتی ہے (لفظ رحمن ان میں کم مشہور تھا مگر یہ نہیں کہ جانتے نہ ہوں مگر اسلامی تعلیم سے جو مخالفت بڑھی ہوئی تھی تو محاورات اور بول چال میں بھی مخالفت کو نباہتے تھے۔ قرآن میں جو یہ لفظ بکثرت آیا وہ اس کی بھی مخالفت کر بیٹھے) وہ ذات بہت عالیشان ہے جس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے بنائے اور (ان ستاروں میں سے دو بڑے نورانی اور فائدہ بخش ستارے بنائے یعنی) اس (آسمان) میں ایک چراغ (یعنی آفتاب) اور نورانی چاند بنایا (شاید آفتاب کو سراج بوجہ تیزی کے کہا) اور وہ ایسا ہے جس نے رات اور دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والے بنائے (اور یہ سب کچھ جو دلائل توحید اور اللہ کی نعمتوں کا ذکر ہوا ہے) اس شخص کے (سمجھنے کے) لئے (ہیں) جو سمجھنا چاہے یا شکر کرنا چاہئے (کہ اس میں سمجھنے والے کی نظر میں استدلالات ہیں اور شکر گزاری کرنے والے کی نظر میں انعامات ہیں) ورنہ
اگر صد باب حکمت پیش ناداں بخوانی آیدش بازیچہ در گوش
معارف و مسائل
مخلوقات الٰہیہ میں اسباب و سببات کا رشتہ اور ان سب کا قدرت حق کا تابع ہونا
مذکور الصدر آیات میں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور بندوں پر اس کے انعامات و احسانات کا ذکر ہے جس سے حق تعالیٰ کی توحید اور استحقاق عبادت میں اس کے ساتھ کسی کا شریک نہ ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ ، دھوپ اور چھاؤں دونوں ایسی نعمتیں ہیں کہ ان کے بغیر انسانی زندگی اور اس کے کاروبار نہیں چل سکتے۔ ہر وقت ہر جگہ دھوپ ہی دھوپ ہوجائے تو انسان اور ہر جاندار کے لئے کیسی مصیبت ہوجائے۔ یہ تو ظاہر ہے اور سایہ کا بھی یہی حال ہے کہ اگر ہر جگہ ہر وقت سایہ ہی رہے کبھی دھوپ نہ آوے تو انسان کی صحت و تندرستی نہیں رہ سکتی، اور بھی ہزاروں کاموں میں خلل آئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں نعمتیں اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرمائیں اور انسانوں کے لئے ان کو موجب راحت و سکون بنایا۔ لیکن حق تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے اس دنیا میں پیدا ہونے والی تمام اشیاء کو خاص خاص اسباب کے ساتھ مربوط کردیا ہے کہ جب وہ اسباب موجود ہوتے ہیں تو یہ چیزیں موجود ہوجاتی ہیں جب نہیں ہوتے تو یہ چیزیں بھی نہیں رہتیں۔ اسباب قوی یا زیادہ ہوتے ہیں تو ان کے مسببات کا وجود قوی اور زیادہ ہوجاتا ہے، وہ کمزور یا کم ہوتے ہیں تو مسببات بھی کمزور یا کم ہوجاتے ہیں۔ غلہ اور گھاس اگانے کا سبب زمین اور پانی اور ہوا کو بنا رکھا ہے روشنی کا سبب آفتاب مہتاب کو بنا رکھا ہے۔ بارش کا سبب بادل اور ہوا کو بنا رکھا ہے اور ان اسباب اور ان مرتب ہونے والے اثرات میں ایسا مستحکم اور مضبوط ربط قائم فرما دیا ہے کہ ہزاروں سال سے بغیر کسی ادنی فرق کے چل رہے ہیں۔ آفتاب اور اس کی حرکت اور اس سے پیدا ہونے والے دن رات اور دھوپ چھاؤں پر نظر ڈالو تو ایسا مستحکم نظام ہے کہ صدیوں بلکہ ہزاروں سال میں ایک منٹ بلکہ ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا۔ نہ کبھی آفتاب و ماہتاب وغیرہ کی مشینری میں کوئی کمزوری آتی ہے، نہ کبھی ان کو اصلاح و مرمت کی ضرورت ہوتی ہے جب سے دنیا وجود میں آئی ایک انداز ایک رفتار سے چل رہے ہیں حساب لگا کر ہزار سال بعد تک کی چیزوں کا وقت بتلایا جاسکتا ہے۔
سبب اور مسبب کا یہ مستحکم نظام جو حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی عجیب و غریب شاہکار اور اس کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی برہان قطعی ہے اس کے استحکام ہی نے لوگوں کو غفلت میں ڈال دیا کہ ان کی نظروں میں صرف یہ اسباب ظاہرہ ہی رہ گئے اور انہی اسباب کو تمام چیزوں اور تاثیرات کا خالق ومالک سمجھنے لگے۔ مسبب الاسباب کی اصلی قوت جو ان اسباب کی پیدا کرنے والی ہے وہ اسباب کے پردوں میں مستور ہوگئی۔ اس لئے انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں انسان کو بار بار اس پر تنبہ کرتی ہیں کہ ذرا نظر کو بلند اور تیز کرو، اسباب کے پردوں کے پیچھے دیکھو کون اس نظام کو چلا رہا ہے، تاکہ حقیقت تک راہ پاؤ۔ اسی سلسلے کے ایہ ارشادات ہیں جو آیات مذکورہ میں آئے۔ آیت اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ میں غافل انسان کو اس پر تنبیہ کیا گیا ہے کہ تو روزانہ دیکھتا ہے کہ صبح کو ہر چیز کا سایہ جانب غرب دراز ہوتا ہے، پھر وہ گھٹنا شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ نصف النہار کے وقت معدوم یا کالعدم ہوجاتا ہے پھر زورال کے بعد یہی سایہ اسی تدریجی رفتار کے ساتھ مشرق کی جانب میں پھیلنا شروع ہوتا ہے۔ ہر انسان اس دھوپ اور چھاؤں کے فوائد ہر روز حاصل کرتا ہے اور اس کی آنکھیں دیکھتی ہیں کہ یہ سب کچھ آفتاب کے طلوع ہونے پھر بلند ہونے پھر غروب کی طرف مائل ہونے کے لازمی نتائج وثمرات ہیں، لیکن آفتاب کے کرہ کی تخلیق پھر اس کے ایک خاص نظام کے تحت باقی رکھنے کا کام کس نے کیا، یہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا اس کیلئے دل کی آنکھیں اور بصیرت درکار ہے۔
آیت مذکورہ میں یہی بصیرت انسان کو دینا مقصود ہے کہ یہ سایوں کا بڑھنا گھٹنا اگرچہ تمہاری نظروں میں آفتاب سے متعلق ہے مگر اس پر بھی تو غور کرو کہ آفتاب کو اس شان کے ساتھ کس نے پیدا کیا اور اس کی حرکت کو ایک خاص نظام کے اندر کس نے باقی رکھا، جس کی قدرت کاملہ نے یہ سب کچھ کیا ہے وہ ہی درحقیقت اس دھوپ چھاؤں کی نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے اگر وہ چاہتا تو اس دھوپ چھاؤں کو ایک حالت پر قائم کردیتا جہاں دھوپ ہے وہاں ہمیشہ دھوپ رہتی، جہاں چھاؤں ہے ہمیشہ چھاؤں رہتی مگر اس کی حکمت نے انسانی ضروریات فوائد پر نظر کرکے ایسا نہیں کیا وَلَوْ شَاۗءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا کا یہی مطلب ہے۔
انسان کو اسی حقیقت سے آگاہ کرنے کے لئے سایہ کے واپس لوٹنے اور گھٹنے کو آیت مذکورہ میں اس عنوان سے تعبیر فرمایا ہے کہ قَبَضْنٰهُ اِلَيْنَا قَبْضًا يَّسِيْرًا، یعنی پھر سایہ کو ہم نے اپنی طرف سمیٹ لیا، یہ ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ جسم اور جسمانیت اور جہت اور سمت سے بالاتر ہے، اس کی طرف سایہ کا سمٹنا، اس کا مفہوم یہی ہے کہ اس کی قدرت کاملہ سے یہ سب کام ہوا۔
Top