Dure-Mansoor - Al-Baqara : 259
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف رَبِّكَ : اپنا رب كَيْفَ : کیسے مَدَّ الظِّلَّ : دراز کیا سایہ وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہتا لَجَعَلَهٗ : تو اسے بنا دیتا سَاكِنًا : ساکن ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الشَّمْسَ : سورج عَلَيْهِ : اس پر دَلِيْلًا : ایک دلیل
اے مخاطب کیا تو نے اپنے رب کی طرف نظر نہیں کی کہ اس نے سایہ کو کیسے پھیلایا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس کو ٹھہرا ہوا رکھتا۔ پھر ہم نے آفتاب کو اس پر علامت مقرر کیا
1۔ سعید بن منصور وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” الم تر الی ربک کیف مد الظل “ سے مراد ہے فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے (سایہ کو کیسے بڑھایا) 2۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” الم تر الی ربک کیف مد الظل سے مراد ہے کیا تو نے نہیں دیکھا جب تو نے فجر کی نماز پڑھی تو سورج کے طلوع ہونے سے لے کر اس کے غروب ہونے تک ایک سایہ ہوتا ہے ؟ پھر اللہ تعالیٰ اس پر سورج کو دلیل بنا کر بھیجتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سائے کو قبض کرلیتا ہے۔ 3۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” الم تر الی ربک کیف مد الظل “ یہاں سائے کے پھیلانے سے مراد طلوع فجر سے لے کر طلوع شمس تک کا عرصہ آیت ” ولشاء لجعلہ سکنا “ یعنی اگر ہم چاہیں تو اس کو دائمی کردیں۔ آتی ” ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلا “ یعنی طلوع شمس کو ہم نے اس پر دلیل بنا دیا۔۔ آیت ” ثم قبضنہ الینا قبضا یسیرا “ یعنی پھر ہم اس کو قبض کرلیتے ہیں جلدی سے۔ 4۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” الم تر الی ربک کیف مد الظل “ سے مراد ہے کہ صبح کا سایہ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے آیت ” ولشاء لجعلہ ساکنا “ اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس سائے کو دائمی بنا دیتا نہ اسے سورج پہنچتا اور نہ ہی وہ زائل ہوتا آیت ” ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلا “۔ پھر اس میں ہم سورج کو دلیل بناتے ہیں جو اس سے جمع کرلیتا ہے۔ آیت ” ثم قبضنہ الینا “ پھر ہم اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے۔ آیت ” قبضا یسیرا “ یعنی ہلکے ہلکے انداز میں۔ 5۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” الم تر الی ربک کیف مد الظل “ سے مراد ہے کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح فجر صادق کے طلوع ہونے سے لے کر سورج کے طلوع ہونے کے درمیان سایہ مشرق سے مغرب تک پھیلادیا ہے۔ آیت ” ولو شاء لجعلہ ساکنا “ یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے یونہی مشرق سے مغرب تک پھیلا رہنے دیتا۔ 6۔ ابن ابی حاتم نے ایوب بن موسیٰ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” الم تر الی ربک کیف مد الظل “ سے مراد ہے کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے پوری زمین کو سایہ بنادیا یہ صبح کی نماز سے لے کر سورج کے طلوع ہونے کے درمیان ہوتا ہے۔ آیت ’ ’ ثم قبضناہ الینا قبضا یسیرا “ یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے یہ اس کو سمیٹ لیتے ہیں۔ 7۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے ابراہیم تیمی ضحاک اور ابو مالک غفاری رحمہم اللہ سے آیت ” کیف مد الظل “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد وہ سایہ ہے جو طلوع فجر سے لے کر طلوع شمس تک ہوتا ہے۔ آتی ” ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلا “ یعنی پھر ہم نے سورج کو اس سایہ پر دلیل بنادیا۔ آیت ” ثم قبضناہ الینا قبضا یسیرا “ یعنی سورج جو سائے کو سمیٹتا ہے۔ 8۔ عبد بن حمید نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” کیف مد الظل “ سے وہ سایہ مراد ہے جو فجر کے طلوع ہونے سے سورج کے طلوع ہونے تک ہوتا ہے۔ 9۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” جعلنا الشمس علیہ دلیلا “ سے مراد ہے کہ سورج سایہ کا پیچھا کرتا ہے اور اس کو قبض کرلیتا ہے جہاں کہیں ہوتا ہے۔ 10۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ دن بارہ گھنٹے کا ہے پہلا گھنٹا جو طلوع فجر سے لے کر سورج کے خوب روشن ہونے تک ہے دوسرا گھنٹہ جب تو دیکھے سورج کی شعاع کو اشراق کے روشن ہونے تک اس وقت سورج کا کوئی حصہ بےنور نہیں رہتا اور اس کا رنگ صاف ہوجاتا ہے اور جب تیری آنکھ تجھے سورج دو نیزوں کے برابر دکھائے تو یہ چاشت کا آغاز ہے جو ضحی کا وقت ہے اور وہ پہلا گھنٹہ ہے چاشت کے گھنٹوں میں سے ہے پھر اس کے بعد چاشت کے دو گھنٹے ہیں پھر چھٹا گھنٹہ وہ ہے جب سورج نصف النہار کو جائے جب سورج نصف النہار سے ڈھل جائے تو وہ نماز ظہر کا گھنٹہ ہے یہی وہ وقت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا آتی ’ اقم الصلوۃ لدلوک الشمس “ (اسراء آیت 78) یعنی آفتاب کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز پڑھا کرو۔ پھر اس کے بعد دو گھنٹے ہیں پھر دسواں گھنٹہ عصر کی نماز کا گھنٹہ ہے اور یہی آصال ہے پھر اس کے بعد دو گھنٹے رات تک ہیں۔ 11۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن ابی جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وجعل النہار نشورا “ یعنی اس میں وہ دن کو پہلا پھیلا دیتا ہے۔ 12۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ آیت ” وجعل النہار نشورا “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دن کو ان کی معاش کے لیے اور ان کی ضروریات کے لیے اور دیگر کاموں کے لیے بنایا۔
Top