Baseerat-e-Quran - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف رَبِّكَ : اپنا رب كَيْفَ : کیسے مَدَّ الظِّلَّ : دراز کیا سایہ وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہتا لَجَعَلَهٗ : تو اسے بنا دیتا سَاكِنًا : ساکن ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الشَّمْسَ : سورج عَلَيْهِ : اس پر دَلِيْلًا : ایک دلیل
کیا آپ ﷺ نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی طرف) دیکھا کہ اس نے کس طرح سائے کو پھیلا دیا۔ اگر وہ چاہتا تو سائے کو ایک حالت پر ٹھہرائے رکھتا۔ پھر ہم نے سورج کو اس کا راستہ بتانے والا بنایا۔
لغات القرآن : آیت نمبر 45 تا 50 : مد (پھیلایا) ‘ الظل (سایہ) ‘ ساکن (ٹھرا ہوا) ‘ دلیل (نشانی۔ راستہ بتانے والا) ‘ قبضنا ( ہم نے سمیٹ لیا) ‘ سبات (آرام و راحت کی چیز) ‘ الریاح ( ہوائیں) ‘ طھور (پاکیزہ۔ صاف ستھرا) ‘ بلدۃ ( بستی ۔ شہر) ‘ انعام (جو پائے جانور) ‘ ابی (انکار کیا) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 45 تا 50 : اللہ تعالیٰ کا نظام و انتظام ایسا ہے کہ وہ ہر آن اس کا ئنات کی کیفیات اور حالات کو تبدیل کرتارہتا ہے تاکہ انسان یکسانیت سے اکتانہ جائے کبھی دن کبھی رات ‘ کہیں بہار اور کسی جگہ خزاں ‘ کبھی سردی کبھی گمی یا برسات۔ اگر اللہ تعالیٰ ایک ہی کیفیت رکھتا تو زندگی بےکیف ہو کر رہ جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے سائے کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک سایہ ہوتا ہے جو گھٹتا بڑھتارہتا ہے اور جب دن کا پورا اجالا پھیل جاتا ہے تو سایہ تقریباً ختم ہوجاتا ہے۔ سائے کا پیدا ہونا ‘ گھٹنا ‘ بڑھنا اور سکڑنا سورج کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر آسمان پر بادل چھا جائیں تو سورج ہونے کے باوجود سائے کا وجود نہیں ہوتا۔ اس طرح کائنات پر مختلف کیفیات آتی رہتی ہیں۔ اللہ کو اس بات پر پوری قدرت حاصل ہے کہ اگر وہ چاہتا تو یہ سایہ ایک ہی طرح رہتا مگر اس نے ہر جگہ اپنی قدت کا مظاہرہ فرمایا ہے تاکہ ہر شخص اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے اور ذہن میں بٹھا لے کہ یہ سب کارخانہ قدرت اللہ کے قبضے اور اختیار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری مثال رات اور دن کے آنے جانے کی بیان کی ہے۔ فرمایا کہ دن اور رات کے آنے اور جانے میں بھی اللہ کی قدر تیں صاف نظر آرہی ہیں۔ فرمایا کہ نیند اس لباس کی طرح ہے جو انسانی وجود کو ڈھانپ لیتی اور اس کو چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے۔ جب یہ نیند آتی ہے تو انسان کتنا ہی تھکا ماندہ ہو وہ کچھ دیر میں پر سکون اور تازہ دم ہوجاتا ہے۔ اس کے اعضا کو سکون ملتا ہے۔ اگر دن ہی دن ہوتا تو آدمی تھک کر اپنا وجود کھو بیٹھتا۔ معلوم ہوا کہ رات دن کی تبدیلی میں انسان کے لئے معاشی اور جسمانی سکون ہے جو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ تیسری مثال بارش سے دی گئی ہے کہ جب آدمی زمین کی خشکی اور گرمی سے نڈھال ہوجاتا ہے تو اللہ ایسی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بھیجتا ہے جو طبعیت میں سکون پیدا کردیتی ہیں اور اس بات کی علامت بھی ہوتی ہیں کہ اب بارش ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ بارش کی ذریعہ نہ صرف مردہ زمین کو ایک نئی زندگی عطا فرماتے ہیں بلکہ بارش کا صاف ستھرا اور پاکیزہ پانی جو ہر طرح کی گندگی سے پاک و صاف ہوتا ہے وہ زمین میں ہی نہیں بلکہ پیاسے انسانوں اور جانوروں میں بھی ایک نئی زندگی پھون دیتا ہے۔ پھر پانی کو بھی اللہ تعالیٰ ایسے اندازے اور مقدار سے برساتے ہیں کہ جہاں جتنی ضرورت ہے اتنا ہی پانی برستا ہے تاکہ یہ انسانوں کے لئے باعث سکون ہو کیونکہ بہت زیادہ پانی کا برس جانا بھی ایک مشکل اور مصیبت بن جاتا ہے۔ یہ سب اللہ کی قدرت کے نشانات ہیں۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے حضرت جبرئیل سے بادلوں کے متعلق پوچھا۔ حضرت جبرائیل نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بادلوں پر جس فرشتے کو مقرر کیا ہے وہ حاضر ہے۔ آپ اس سے جو چاہیں پوچھ سکتے ہیں۔ فرشتے نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہمارے پاس جب اللہ کا حکم آتا ہے کہ فلاں بستی میں اتنے اتنے پانی کے قطرات پہنچا دو تو ہم اللہ کے حکم کے مطابق اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ یہ ارشاد فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سمجھنا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہوئی ہے بہت غلط ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ لمبے لمبے سائے ‘ دن اور رات کا بدل بدل کر آنا ‘ نیند کے ذریعے سکون اور دن کے اجالے میں فکر معاش اور بادلوں کا اٹھنا ان کا برسنا یہ سب چیزیں اللہ کو پہچاننے کی نشانیاں ہیں۔ اگر انسان ذرا بھی غور فکر سے کام لے تو کائنات میں بکھری ہوئی یہ تمام حقیقتیں ایک اللہ کی قدرت کو پہچاننے کی نشانیاں ہیں۔
Top