Asrar-ut-Tanzil - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف رَبِّكَ : اپنا رب كَيْفَ : کیسے مَدَّ الظِّلَّ : دراز کیا سایہ وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہتا لَجَعَلَهٗ : تو اسے بنا دیتا سَاكِنًا : ساکن ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الشَّمْسَ : سورج عَلَيْهِ : اس پر دَلِيْلًا : ایک دلیل
(اے مخاطب ! ) بھلا تو نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کیسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ چاہتے تو اس کو ایک حالت پر ٹھہرا دیتے پھر ہم نے سورج کو اس (درازی وکوتاہی) پر ملامت مقرر فرمایا
(رکوع نمبر 5) اسرارومعارف اے مخاطب تو دیکھتا نہیں کہ تیرے پروردگار نے ہر شے میں اور ہر کام میں ایک رشتہ قائم کردیا ہے یہی رشتہ سبب اور اس کے نتیجے میں ہے سورج کی روشنی اور سائے میں ہے کس طرح قدرت باری نے چیزوں کو سایہ بخشا کہ دور تک پھیلا ہوتا ہے ، اگر اللہ جل جلالہ چاہتا تو اسے ہمیشہ ایسے ہی رکھنے پر قادر تھا مگر اس نے سائے کے بڑھنے گھٹنے کو سورج اور دھوپ سے متعلق کردیا ، سورج اوپر اٹھتا ہے تو سائے سمٹتے چلے جاتے ہیں اور دھوپ اور گرمی کی تپش پھیلتی ہے اور پھر سورج ڈھلتا ہے تو دوبارہ سائے پھیلنا شروع ہوجاتے ہیں اور یہ رشتے یہ اسباب ونتائج اللہ نے دنیا کی آبادی اور بنی آدم کے آرام کا سبب بنائے ہیں اگر چاہتا تو انہیں وجود ہی نہ بخشتا کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور نہیں بلکہ اس کی صنعت کا کمال ہے اور وہ ایسا قادر ہے کہ اس نے رات بنا دی جو سارے نظام پر چھا جاتی ہے اور اس میں نیند کا موقع بخشا خود نیند کو پیدا فرمایا جو انسان کو آرام بخشتی ہے اور اس کے بدن کی کھوئی ہوئی توانائیاں دوبارہ بحال ہوجاتی ہیں اور ہمیشہ رات بھی نہیں رہتی اس کے بعد طلوع ہوتا ہے جو جاگ اٹھنے اور کام کاج کی دعوت دیتا ہے ، یوں ہر کوئی تازہ دم اٹھ کر کاروبارحیات پھر سے شروع کرتا ہے اگر یہ رشتے مجروح ہوں کہ رات دن کا آنا جانا درست نہ رہے بلکہ جو بھی مسلط ہوجائے جانے کا نام نہ لے کبھی برسوں رات مسلط رہے اور کبھی صدیوں دن ٹلنے کا نام لے تو انسانی زندگی کس قدر دشوار ہوجائے پھر ان بادلوں اور ہواؤں میں خشکی اور بارش میں ایک خوبصورت رشتہ اور تعلق پیدا فرما دیا اور وہ اتنا مضبوط رشتہ ہے کہ ایک خاص ہوا سے لوگ بارش کی نوید پاتے ہیں اور سمجھ جاتے ہیں کہ بارش ہونے والی ہے اور پھر واقعی بارش برستی ہے اور خوبصورت پاکیزہ صحت مند اور میٹھا پانی کتنی بلندیوں سے برسایا جاتا ہے جو سراپا حیات اور حیات آفریں ہوتا ہے کہ ہم اس سے مرادہ زمین کو زندہ کردیتے ہیں اور اس میں سے سبزہ وگل اگلتے اور فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں اور جانداروں کے پینے کے کام آتا ہے اور بیشمار انسان بھی محض بارشی پانی پر گذارہ کرتے ہیں جہاں کوئی دریا وچشمہ نہیں ہوتا بارش وہاں بھی پانی پہنچانے کا سبب بن جاتی ہے یہ سارے کام رشتوں ہی کی وجہ سے خوبصورتی اور آرام سے انجام پاتے ہیں جو اللہ جل جلالہ نے عالم اسباب میں سبب اور نتیجے میں رکھ دئیے ہیں اور انہیں قائم رکھے ہوئے ہے جہاں کہیں اور جب کبھی اس نے ان میں ذرا سی تبدیلی فرمائی تو لوگوں پر تباہی آئی اور عذاب نازل ہوا ، کبھی طوفان میں غرق ہوئے تو کبھی بادلوں سے آگ برسی ، یہ سب رشتے اس بات کی کھلی دعوت دیتے ہیں اور بہت بڑی نصیحت ہیں کہ مالک اور بندے ہیں جو رشتہ ہے وہ بھی کس قدر اہم اور ضروری ہے پھر جبکہ مالک اپنی طرف سے بہت خوبصورتی سے نبھاتا ہے پیدا کرنے وجود اور قوتیں عطا کرنے میں جوانی طاقت مال و دولت دینے میں تو بندے کو بھی اپنا بندہ ہونے کا رشتہ نبھانا ضروری ہے اگر یہ توڑے گا تو انسانی حیات کس قدر پریشان اور تباہ کن ہوگی اور اکثر لوگوں نے انکار ، کفر اور اللہ کی ناشکری کرکے اس کو تباہ کردیا ہوا ہے اور حیات انسانی کو مصیبت و پریشانی میں ڈال رکھا ہے اب یہ کفر وناشکری دنیا میں بہت ہے اور اس کے نتیجے میں انسانی معاشرے میں بیشمار خرابیاں بھی ہیں جو بہت زیادہ کام ہے اگر ہم چاہتے تو ہر آبادی میں ایک نبی معبوث فرما دیتے جو ان لوگوں کو نافرمانی کے اثرات بد اور تکلیف دہ نتائج سے خبردار کرتا ، مگر اے حبیب ﷺ یہ سارا کام آپ ﷺ ہی کو کرنا ہے گویا نبی اکرم ﷺ کو وہ قوت عطا ہوئی علوم کا وہ بےبہا خزانہ عطا ہوا کہ ساری کائنات اور ساری انسانیت کی تمام خرابیوں کا حل اور سارے سوالوں کا جواب آپ ﷺ ہی کی ذات ہے چناچہ ارشاد ہوا کہ آپ کفار کی بات کو ذرا اہمیت نہ دیجئے کہ ان کا خیال ہے روئے زمین پہ تو کفر قابض ہے بھلا ایک بندہ اس کا کیا مقابلہ کرسکے گا بلکہ آپ ﷺ اپنے اللہ جل جلالہ کے ارشادات پورے زور شور سے اور پوری محنت سے بیان کرتے رہیے مفسرین کرام کے مطابق اس وقت تک جہاد کا حکم نازل نہ ہوا تھا لہذا اس کا معنی احکام الہی کو پہنچانے اور تبلیغ میں سخت محنت سے کیا گیا اور یہ بھی جہاد ہی کی ایک صورت ہے مگر آج جبکہ جہاد بالسیف کا حکم موجود ہے اسے چھوڑ کر صرف تبلیغ پہ قناعت کرنا ہرگز صحیح نہیں ہو سکتا وہ ایسا قادر ہے کہ اس نے دو طرح کے پانی بنا دیئے کڑوا اور میٹھا اور دونوں اسی دنیا میں اپنی اپنی خصوصیات کے ساتھ موجود ہیں کبھی ایک دوسرے کو مغلوب نہیں کرسکے کہ سب کڑوا ہوجائے بلکہ درمیان میں حد فاصل ہے جو انسان کو نظر نہ آئے مگر اپنا کام کر رہی ہے کہ تین حصے زمین پر گہرے سیاہ سمندر چھائے ہوئے ہیں جن کا پانی سخت تلخ اور کڑوا ہے مگر جب اللہ جل جلالہ چاہتا ہے تو بادل اٹھاتا ہے بارش برساتا ہے اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے خوبصورت چشمے ندیاں ، نہریں جاری کردیتا ہے ، دریا بہا دیتا ہے چوٹیوں پر برف کے خزانے جمع کردیتا ہے کیا سمندر کی کڑواہٹ اس کی سیاہی یا اس کی کثرت اس عمل کو روک سکتی ہے ہرگز نہیں آپ ﷺ بھی اپنا کام جاری رکھیے جو قبول کریں گے اللہ جل جلالہ انہیں کفر کے سمندر سے نکال کر میٹھا چشمہ بنانے پر قادر ہے ، مفسرین کرام نے یہاں خوبصورت بحث لکھی ہے جو اپنی جگہ درست بھی ہے اور بہت مفید بھی کہ سمندر کی کڑواہٹ بھی اسی کی بنائی ہوئی اور دنیا کی آبادی کا سبب ہے مگر یہاں اس تفصیل کی گنجائش نہیں ہاں مفہوم عرض کیا جا رہا ہے ، اب کلام کا رخ انسان کی طرف ہوا کہ ایسے ہی اسباب وعلل سے انسانوں میں رشتے پیدا کردیے کہ نطفے سے وجود بخشا مگر ذرات کو نطفہ بننے تک اور نطفے سے انسان بننے تک کتنے انسانی رشتے قائم فرما دیئے کہیں والدین کی طرف سے اور کہیں پھر آگے سسرال اور اولاد کے باعث کہ اللہ جل جلالہ بہت بڑی قدرت کاملہ کا مالک ہے تو یہ سب رشتے اپنی اہمیت کے حامل ہیں جہاں یہ ٹوٹتے ہیں تو کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں ایسے ہی خالق و مخلوق ، رب اور مربوب اللہ اور اس کے بندے کا رشتہ ہے یہ کیسے اللہ کو چھوڑ کر رشتہ عبدیت توڑ کر غیر اللہ کی عبادت کرنے لگتے ہیں جو اس رشتے کے ٹوٹنے سے پیدا ہونے والے نقصانات کا مداوا بھی نہیں کرسکتے اور اگر ان کی پوجا نہ کی جائے تو کچھ بگڑتا ہی نہیں کوئی رشتہ ہی نہیں ٹوٹتا کہ وہ اس کا حق ہی نہیں رکھتے ہاں یہ کفار بےنصیب ہیں اور انہوں نے اللہ کی طرف سے منہ ہی موڑ لیا ہوا ہے کہ اس کے ارشادات بھی نہیں سنتے نہ اس کی تخلیق اور نظام تخلیق میں فکر کرتے ہیں ۔ اور آپ ﷺ کا منصب جلیلہ تو یہ ہے کہ آپ ان بندوں کو بشارت دیں جو آپ ﷺ کی اطاعت کریں ایمان لائیں اور رشتہ بندگی بنائیں اور جو ان رشتوں کو توڑنے پہ تل گئے ہیں انہیں ان کے اس خطرناک کام کے انجام بد سے خبردار کریں اور آپ ﷺ ان سے فرما دیجئے کہ آپ ﷺ کو ان سے کوئی مال و دولت یا اقتدار وغیرہ کی خواہش نہیں ہے نہ ان سے کوئی اجرت لینا ہے بلکہ آپ ﷺ اللہ جل جلالہ کے رسول ہیں اسی کا کام آپ ﷺ کو کرنا ہے اسی سے آپ ﷺ کو بدلہ اور انعام لینا ہے لہذا آپ ﷺ کی خوشی تو اس میں ہے کہ ان میں سے بھی جو چاہے آپ ﷺ کی بات قبول کرکے اپنے رب سے رشتہ استوار کرلے جو اسی کے لیے فائدہ مند بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی ، اگر کوئی آپ ﷺ کے ارشادات ماننے کو تیار نہیں تو آپ ﷺ کا کچھ نہیں بگاڑ رہا خود اپنا ہی نقصان کر رہا ہے ۔ آپ ﷺ صرف اللہ جل جلالہ پر بھروسہ کیجئے جو ہمیشہ زندہ ہے اور جس پر کبھی موت نہیں یعنی جس کی ذات پہ کوئی تبدیلی نہیں آسکتی جس کو کوئی سبب متاثر نہیں کرسکتا جو ہمیشہ سے قدرت کاملہ کا مالک ہے اور ہمیشہ کے لیے قادر ہے وہی ایک ذات بھروسے کے لائق بھی ہے اور جو ذوات خود تغیر پذیر ہیں وہ بھلا بھروسے کے قابل کیسے ہو سکتی ہیں آپ اسی کی عظمت بیان کیجئے اسی کے کمالات بیان کیجئے اور جو آپ ﷺ کی بات نہیں سننا چاہتے اور بدستور برائی کفر اور گناہ کا ارتکاب کیے جا رہے ہیں اللہ جل جلالہ ان سے خوب واقف ہے یہ حقیر بندے بھلا کہاں جائیں گے کہ سارا وسیع تر نظام ارض وسما اور ان کا سارا نظام اس نے چھ دن میں پیدا فرمایا ایسا قادر کہ جب چاہتا بغیر کسی دیر کے سب کچھ بن جاتا مگر اس نظام کی تخلیق تک میں ترتیب رکھی ، اوقات اور تبدیلیوں کا رشتہ قائم رکھا پھر عرش کو مرکز قرار دے دیا کہ سارے نظام کی ڈور وہاں سے ہلتی ہے ساری دعائیں ، آرزؤئیں تمنائیں ادھر کو اٹھتی ہی اور سارے احکام وہاں سے ملتے ہیں ، وہ بہت ہی بڑا رحمت کرنے والے ہے ، اے مخاطب ذرا جاننے والوں سے پوچھ پہلی کتابوں کے علماء سے اس کی عظمت شان کا پتہ لے مگر یہ تو ایسے بدک گئے ہیں کہ اگر انہیں اس عظیم اور بہت بڑی رحمت والی ذات کو سجدہ کرنے کا کہا جائے تو کہتے ہیں بھلا رحمن ہے کیا کس کی بات کرتے ہو اور کیا ہم ایسے گئے گذرے ہیں کہ آپ ﷺ جس کو کہیں ہم سجدہ کریں گے ہرگز نہیں اور یوں ان کے دلوں میں مزید کدورت بڑھتی ہے اور حق سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں ۔
Top