Madarik-ut-Tanzil - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف رَبِّكَ : اپنا رب كَيْفَ : کیسے مَدَّ الظِّلَّ : دراز کیا سایہ وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہتا لَجَعَلَهٗ : تو اسے بنا دیتا سَاكِنًا : ساکن ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الشَّمْسَ : سورج عَلَيْهِ : اس پر دَلِيْلًا : ایک دلیل
بھلا تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر کے پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس کو بےحرکت ٹھہرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنادیا ہے
سورج سے سایہ کی پہچان : 45: اَلَمْ تَرَاِلٰی رَبِّکَ (کیا تم نے اپنے رب کی صنعت وقدرت کو نہیں دیکھا) ۔ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَ (کہ کس طرح اس نے سایے کو دراز کیا) اسکو پھیلا کر زمین پر عام کردیا اور یہ طلوع فجر سے طلوع شمس کے وقت تک ہے جمہور کا قول یہی ہے۔ کیونکہ یہ ایسا دراز سایہ ہے جس کے ساتھ سورج کی شعاعیں بالکل نہیں۔ اور نہ ہی اندھیرا ہے اور یہ اس طرح ہے جیسا جنت کے سایہ کے بارے میں فرمایا وظل ممدودٍ اور نہ اندھیرا ہوگا۔ وَلَوْ شَآ ئَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا (اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سایہ کو ٹھہرنے والا بنا دیتا) یعنی دائمی بنا دیتے جو کبھی زائل نہ ہوتا اور نہ اس کو سورج ختم کرسکتا۔ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلًا (پھر ہم نے سورج کو اس سایہ کی دلیل بنادیا) دلیل کا مطلب یہ ہے کہ سورج سے سایہ کی پہچان ہوتی ہے اگر سورج نہ ہو تو سایہ کی پہچان نہ ہو اشیاء کی پہچان اضداد سے ہوتی ہے۔
Top