Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلٰى
: طرف
رَبِّكَ
: اپنا رب
كَيْفَ
: کیسے
مَدَّ الظِّلَّ
: دراز کیا سایہ
وَلَوْ شَآءَ
: اور اگر وہ چاہتا
لَجَعَلَهٗ
: تو اسے بنا دیتا
سَاكِنًا
: ساکن
ثُمَّ
: پھر
جَعَلْنَا
: ہم نے بنایا
الشَّمْسَ
: سورج
عَلَيْهِ
: اس پر
دَلِيْلًا
: ایک دلیل
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے ؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا ۔ ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا
درس نمبر 159 ایک نظر میں اس سبق میں مشرکین کے اعتراضات اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کے بحث و جدل کے موضوع کو چھوڑ کر اس کائنات کے مشاہد و مناظر کی سیر کرائی جاتی ہے۔ نبی ﷺ کے دل اور آپ کے احساسات کو اس کائنات کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔ مشرکین کے لایعنی اعتراضات کی وجہ سے پیدا ہونے والے غبار خاطر کو دور کرنے کے لیے ‘ مناظر کائنات کے ساتھ یہ اتصال اور ان کی طرف یہ توجہ کافی ہے۔ کائنات کی وسعتوں کی یہ سیر آپ کے دل کے سکون اور شرح صدر کے لیے ایک وسیع میدان ہے جس کے مقابلے میں سازشیں کرنے والوں کی چھوٹی چھوٹ سازشیں اور دشمنی کرنے والوں کی بےمقصد دشمنیاں نہایت ہی حقیر نظر آتی ہیں۔ قرآن کریم انسانوں کے دل و دماغ کو ہمیشہ اس کائنات کے مشاہد و حقائق پر غور کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ انسانی سوچ اور انسانی تدبر اور مشاہدات قدرت کے درمیان ربط پیدا کیا جاتا ہے۔ اور انسان کے ذرائع شعور و ادراک کو جگا کر اس بات کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ ان کے مشاہد اور مناظر کو بالکل ایک جدید احساس کے ساتھ دیکھیں۔ اور مشاہد قدرت اور فطرت کے عجوبوں کی پکار کو سنیں اور ان کی پکار پر لبیک کہیں۔ قرآن انسان کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کائنات کی سیر کرے اور اس کے اندر بکھرے ہوئے دلائل قدرت اور آیات فطرت کو اخذکر لے۔ کیونکہ یہ کائنات دراصل ایک کھلی کتاب ہے اور اس کے صفحات میں صائع کائنات کی کاریگریاں اور صنعت کاریاں ہمارے تدبر کے لیے چشم براہ ہیں۔ قرآن کریم انسان کو حکمدیتا ہے کہ وہ دست قدرت کے ان آثار کو پانے کی کوشش کرے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنی آنکھ کو بینا ‘ احساس کو تیز اور کانوں کو کھلا رکھے اور اپنے ان ذرائع ادراک کے ذریعے غور و تدبر کے موضوعات تلاش کرے۔ اس طرح وہ اتصال با للہ حاصل کرے یعنی اللہ کی صنعت کاریوں کے ذریعے اللہ کی ذات کی معرفت حاصل کرے۔ جب انسان اس کائنات میں کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے زندگی بسر کرے ‘ اس کی روح اور اس کا احساس جاگ رہا ہو۔ اس کی فکر اور اس کی سوچ مربوط ہو ‘ تو اس پر دنیا کی معمولی و ابستگیوں سے ذرا بلند ہوجاتی ہے۔ اور اس کا تصور حیات بلند ہوجاتا ہے اور اس کا احساس بہت تیز ہوجاتا ہے۔ پھر وہ سوچنے لگتا ہے کہ اس محدود دنیا کے مقابلے میں کائنات کے آفاق بہت ہی وسیع ہیں۔ پھر اس کائنات میں جو کچھ بھی موجود ہے ‘ یہ فقط ایک ہی ارادے کے نتیجے میں موجود ہے۔ یہ تمام چیزیں ایک ہی ناموس حیات کے اندر بندھی ہوئی ہیں۔ پھر اپنی حرکت میں یہ تمام چیزیں ایک ہی خالق کی طرف متوجہ ہیں۔ اور خود انسان بھی اس کائنات کی مخلوقات میں سے ایک ہے اور یہ بھی دست قدرت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور اس کا پورا ماحول دست قدرت جکڑا ہوا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے اور جو کچھ چھو رہا ہے وہ قدرت کی صنعت کاریاں ہیں۔ اس تصور سے انسان کے پردہ احساس پر شعور تقویٰ ‘ شعور محبت اور شعور اعتماد کی ایک امتزاجی کیفیت نمودارہوتی ہے۔ جس سے انسان کی روح سرشارہوتی ہے اور اس کی دنیا معنویت سے بھر جاتی ہے اور انسان کو ایک خاص اندرونی تطہیر ‘ اطمینان اور انس و محبت حاصل ہوتی ہے۔ چناچہ اس روح ‘ اس مفہوم اور اس تصور کے ساتھ انسان اس کرئہ ارض پر چلتا پھرتا ہے اور آخر کار وہ اللہ کے ساتھ مل جاتا ہے۔ اس طرح انسان کی یہ زندگی نہایت ہی خوشگوار تفریحی سفر بن جاتی ہے۔ وہ اللہ کی صنعت کاریوں کی ایک نمائش اور ایک میلے میں گم ہوتا ہی اور وہ ہر وقت اللہ کی اس خوبصورت کائنات کے ایسے دسترخوان پر ہوتا ہے جسطرح طرح کی نعمتیں چنی ہوئی ہیں۔ اس سبق کا آغاز سایہ کی تصویرکشی سے ہوتا ہے۔ دست قدرت اس سائے کو طویل تر کردیتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اسے سیکڑا جاتا ہے۔ فیض و ہاط کا یہ عمل نہایت ہی نرمی اور لطف اور غیر محسوس طریقے سے ہوتا ہے۔ پھر ہم رات کے اندھیرے میں اپنی اپنی آرام گاہ کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ پوری کائنات پر سکون اور خاموشی طاری ہوجاتی ہے ۔ پھر ہم دن میں داخل ہوتے ہیں اور نہایت ہی ترتیب سے زندگی کی تگ و دو شروع ہوجاتی ہے۔ پھر رحمت کی ہوائیں چلتی ہیں ‘ بادل لاتی ہیں اور بارش برساتی ہیں۔ پھر ہم سمندر میں ہیں ‘ ساتھ ساتھ میٹھے پانی اور کھارے پانی باہم ملے ہوئے ہیں اور ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جو دست قدرت کی صنعت کاری ہے۔ یہ دونوں سمندر اور دونوں پانی آپس میں مل نہیں پاتے۔ پھر عام پانیوں سے ہم مرد کے ساغر حیات کی طرف آجاتے ہیں۔ یہ نطفے کی ایک بوند ہوتی ہے۔ اچانک یہ ایک زندہ انسان کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پھر ایک منظر پر ہم دیکھتے ہیں کہ پوری زمین و آسمان کی تخلیق چھ دنوں میں ہے۔ زمین و آسمان کے اندر بروج ہیں۔ سراج منیر اور قمر منیر ہیں۔ پھر رات اور دن ایک دوسرے کے پیچھے آرہے ہیں اور زمانے گزرجاتے ہیں۔ کائنات کی اس سیر کے اندر ہمارا دل زندہ ہوجاتا ہے اور ہماری سوچ مدبر کائنات کی صنعت کاریوں میں گم ہوجاتی ہے ۔ اور انسان کے دل میں اللہ کی قدرت اور تدبیر کے نظارے میں تازہ ہوجاتے ہیں۔ پھر انسان سوچتا ہے کہ مشرکین کس قدر احمق ہیں کہ وہ اس رب کیساتھ کسی کو شریک کرتے ہیں اور ایسے چیزوں کی بندگی کرتے جو ان کو نہ نفع پہنچاسکتی ہیں اور نہ ضرر دے سکتی ہیں۔ انسان سوچتا ہے کہ رب تعالیٰ کے بارے میں یہ لوگ کس قدر جاہل ہیں اور اللہ کی ذات پر کس قدر جرات کرتے ہیں اور کفر و انکار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کائنات کے اندر موجود دلائل اور آیات اور شواہد و نشانات کے ان عجوبوں کے ہوتے ہوئے مشرکین کا رویہ نہایت ہی عجیب لگتا ہے۔ اس کائنات کے یہ مناظر اور اللہ کی تخلیق کے یہ نمونے انسانی ہدایت کے لیے کافی و شافی ہیں۔ آیئے ذرا دست قدرت کی ان صنعت کارویں کی سیر کریں جس کا ہر پہلو ہمیں واصل باللہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور جس کی صرف ایک وادی کی سیر ہی ہماری پوری زندگی کے لیے کافی ہے۔ (الم تر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قبضا یسیرا) (45 : 46) کشادہ اور لطیف سائے کا تصور ہی ایک کبیدہ خاطر اور تھکے ہوئے انسان کے لیے فرحت بخش ہوتا ہے۔ ایسے سائے میں انسان اپنے آپ کو نہایت ہی پر سکون تصور کرتا ہے۔ انسان کو یوں لگتا ہے کہ ایک نہایت ہی رحیم و کریم دست شفقت انسان کی روح اور جسم کو چھورہا ہے اور زندگی کے آرام اور زخموں پر نہایت ہی آڑام دہ مرہم پٹی ہورہی ہے۔ تھکے ہارے دلوں کو قدرت کا یہ ماحول دست شفقت فراہم کرتا ہے۔ کیا اللہ یہی چاہتا کہ اس کے بندے پر طرح طرح کے الزام لگا کر ‘ اس کے ساتھ مذاق کر کے ‘ اس کے دل کو دکھایا گیا ہے ‘ لہذا اسے قدرتی شفقت کا یہ ماحول فراہم کیا جائے۔ اسے تھوڑی دیر کے لیے اس جاں گسل کشمکش کے ماحول سے نکال کر قدرتی سکون کا ماحول فراہم کیا جائے اور اس زبردست معرکہ آرائی میں آپ ﷺ کے دکھے ہوئے دل کو سکون فراہم کیا جائے۔ یاد رہے کہ یہ مکی دور ہے اور آپ کو مشرکین مکہ کے جودو انکار ‘ کبروعناد اور مکرو قریب کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک طویل زمانہ گزر گیا ہے۔ آپ کے ساتھی کم ہیں ‘ مشرکین ہر طرف سے پھیلے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ اور اہل ایمان کو اس اذیت استہزاء اور دست درازیوں کا جواب دینے کی اجازت نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسے مشکل حالات میں آپ کے دل پر قرآن کریم کا جو ٹکڑا نازل ہوتا تھا وہ بہت ہی آرام دہ مرہم کا کام دیتا تھا۔ یہ دراصل تھکے ماندے مسافر کے لیے وسیع اور گہرا سایہ ہوتا تھا۔ اور کفر و حجود اور عناد اور عصبیت کی گرم لو میں ٹھنڈی اور خوشگوار چھائوں ہوتی تھی۔ سایہ خصوصاً ایک تپتے ہوئے صحراء میں ‘ اس سورت کی روح ‘ موضوع ‘ مضمون اور جدل وجدال کے گرم ماحول میں امن و سکون اور ملجاو ماویٰ فراہم کرتا ہے۔ قرآن کریم اس سایہ کی تصویر اس طرح کھینچتا ہے کہ دست قدرت اسے لمبا کرتا جاتا ہے۔ یہ آہستہ آہستہ غیرمحسوس طور پر لمبا ہوتا جاتا ہے۔ پھر نہایت ہی نرمی اور غیر محسوس طور پر اسے لپیٹا جاتا ہے۔ الم تر الی ربک کیف مد الظل (25 : 35) ” تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے۔ “ ثم قبضنہ الینا قبضاً یسیرا (25 : 36) ” پھر ہم اس سائے کو رفتہ رفتہ اپنی طرف لپیٹتے چلے جاتے ہیں۔ “ سایہ کیا چیز ہے۔ کوئی جسم جب سورج کی شعاعوں کے سامنے حائل ہوتا ہے تو وہ ایک خفیف قسم کا اندھیرا پیدا کرتا ہے۔ جوں جوں زمین سورج کے سامنے حرکت کرتی ہے۔ یہ سایہ بھی حرکت کرتا رہتا ہے۔ اس کی وضع اور اس کی شکل بدلتی رہتی ہے۔ اس کی شکل و صورت کو سورج کی شعاعیں روشنی اور حرارت سے متعین کرتی ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ سکڑتا اور پھیلتا ہے۔ اس وجہ سے انسان کو خوشی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس کی روح کے اندر لطیف و شفاف بیداری پیدا ہوتی ہے اور نفس انسانی دست قدرت کی لطیف صنعت کاری کو اچھی طرح دیکھ سکتا ہے۔ سورج اور سائے کا یہ منظر جب غائب ہونے پر آتا ہے تو یہ سایہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب یہ طوالت کی آخری حد تک پہنچتا ہے تو یہ سایہ سورج کے غروب کے ساتھ ہی غائب ہوجاتا ہے۔ یہ کہاں چلا گیا کیا ایک یہ دست قدرت ہے جس نے اسے لپیٹ اور سمیٹ لیا۔ ایک ہمہ گیر سایہ چھا گیا اور اس کے اندر آہستہ آہستہ اب رات کی تاریکی نمودار ہونا شروع ہوگئی۔ یہ ہے صنعت دست قدرت کی ۔ انسان ہے کہ قدرت کے ان آثار و علامات کے اندر ڈوبا ہوا ہے۔ اس کے اردگرد قدرت کے شواہد پھیلے ہوئے ہیں لیکن اس کی کند عقل ان آثار کو نہیں پا رہی ہے۔ ولو شاء لجعلہ ساکنا (25 : 35) ” اگر اللہ چاہتا تو اسے دائمی بنا دیتا۔ “ لیکن اللہ نے ایسا نہ چاہا۔ کیونکہ اس کائنات کی تنظیم ہی اس طرح کی گئی ہے۔ اس نظم و نسق کا تقاضا ہے کہ ہم روز اس سائے کو یوں دیکھتے رہیں کہ اس کا مدو جزر یوں ہی جاری رہے۔ اگر اس کے اندر ذرا بھی تدبیلی کردی جائے اور اس سایہ کو ساکن بنا دیاج ائے تو اس پوری کائنات کے آثار ہی بدل جائیں۔ اگر زمین ایک جگہ رکی ہوئی ہوتی تو یہ سایہ بھی رکا ہوتا ہے۔ اس کا مدو جزر تو ختم ہوجاتا ۔ اگر زمین کی یہ حرکت نرم ہوتی تو اس سائے کے آثار بھی سست رفتار ہوتے اور اگر زمین کی حرکت تیز ہوتی تو سایوں کا مدو جزر بھی تیز ہوجاتا۔ یہ زمین کی ایک متعین حرکت ہے جو سایوں کو یہ مظاہر عطا کرتی ہے جو ہم دیکھتے ہیں اور وہ آثار پیدا کرتی ہے جو ہمارے لئے مفید ہیں اور جن کے خواص کو ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہ گردش زمین اور گردش ظلال اور ان کا مدو جزر تو ہم رات دن دیکھتے ہیں اور غفلت میں گزر جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں از سر نو اس طرف متوجہ فرماتا ہے۔ یہ قرآن کریم کے انداز بیان کا ایک مخصوص طریقہ ہے کہ وہ انسانی ضمیر کے اندر ایک مردہ تاثر کو زندہ کردیتا ہے۔ ہمارے اندر انفعالیت جگاتا ہے اور ہمیں اپنے ماحول کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ ہمارے احساسات کو جگاتا ہے ، ہمارے شعور کو تیز کرتا ہے تاکہ ہم ان مشاہد اور آیات بینات کی تہہ پر غور کریں۔ یوں ہمارے دل اس کائنات میں تدبر کے عادی ہوجائیں کیونکہ یہ کائنات بہت ہی عظیم اور عجیب ہے۔ سائے کا یہ منظر رات پر آ کر ختم ہوتا ہے۔ جب سائے طویل ہوتے ہیں تو رات چھا جاتی ہے۔ رات کے پس پردہ انسانیت آرام و سکون حاصل کرتی ہے اور پھر دن جس میں لوگ زندگی کی تگ و دو میں داخل ہوتے ہیں۔
Top