Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلٰى
: طرف
رَبِّكَ
: اپنا رب
كَيْفَ
: کیسے
مَدَّ الظِّلَّ
: دراز کیا سایہ
وَلَوْ شَآءَ
: اور اگر وہ چاہتا
لَجَعَلَهٗ
: تو اسے بنا دیتا
سَاكِنًا
: ساکن
ثُمَّ
: پھر
جَعَلْنَا
: ہم نے بنایا
الشَّمْسَ
: سورج
عَلَيْهِ
: اس پر
دَلِيْلًا
: ایک دلیل
بھلا تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر کے پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس کو بےحرکت ٹھہرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنادیا ہے
آیت نمبر 45 تا 60 ترجمہ : کیا تو اپنے رب کی صنعت کو نہیں دیکھتا وقت اسفار سے طلوع شمس کے وقت تک اگر وہ چاہتا تو اس کو ایک ھالت پر ٹھہرا ہوا رکھتا، یعنی ساکن رکھتا جو طلوع شمس سے زائل نہ ہوتا پھر ہم نے سورج کو اس سایہ کو اپنی طرف بتدریج سمیٹ لیا یعنی طلوع شمس کی وجہ سے شیئاً فشیئاً اور وہ ایسا ہے کہ اس نے تمہارے لئے رات کا لباس یعنی لباس کے مانند ساتر بنایا اور نیند کو قطع کرنے والی یعنی جسموں کے لئے اعمال کو موقوف کرکے راحت کی چیز بنایا اور دن کو منتشر ہونے کا وقت بنایا اس میں رزق وغیرہ حاصل کرنے کے لئے اور وہ ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ خوش کردیتی ہیں اور ایک قرأت میں (الریاح کے بجائے) الریح ہے یعنی بارش سے پہلے پھیلتی ہوئی (ہوائیں) اور ایک قرأت میں نُشْرًا میں شین کے سکون کے ساتھ ہے تخفیف کے لئے اور ایک قرأت میں شین کے سکون اور نون کے فتحہ کے ساتھ ہے (نَشْرًا) مصدر ہے اور دوسری قرأت میں شین کے سکون اور نون کے بجائے با کے ضمہ کے ساتھ (یعنی بُشْرًا ہے خوشخبری دینے والی، (پہلی قرأۃ یعنی نُشُرًا) کا مقرر نشورٌ ہے، جیسا کہ رُسُلٌ کا واحد رَسُوْلٌ ہے (اور اسی طرح ثانی قرأۃ یعنی نُشْرًا) کا مفرد ہے، اور قرأت اخیرہ یعنی بُشْرًا کا واحد بشیرٌ ہے اور ہم آسمان سے پاک یعنی پاک کرنے والا پانی برساتے ہیں تاکہ ہم اس کے ذریعہ خشک زمین کو سرسبز اور شاداب کریں مَیْتًا تخفیف کے ساتھ ہے، بَلْدَۃً میں مذکر اور مؤنث دونوں برابر ہیں، یا بَلْدۃً کی صفت مَیْتًا کو اس لئے مذکر لایا گیا ہے کہ بلدۃ کو مکان کی تاویل میں کرلیا ہے اور ہم وہ پانی اپنی مخلوق میں سے (بہت سے) چوپایوں (مثلاً ) اونٹ، گائے، اور بکریوں کو اور بہت سے انسانوں کو پلاتے ہیں، اَنَاسیّ انسان کی جمع ہے اَناسِیّ کی اصل اَناسِین تھی نون کو یا سے بدلا اور یا لو یا میں ادغام کردیا اَناسِیٌّ اِنسِیٌّ کی جمع ہے اور ہم اس پانی کو مخلوق کے درمیان تقسیم کردیتے ہیں تاکہ لوگ غور و فکر کریں یَذَّکَّرُوْا کی اصل یَتَذَکَّرُوا تھی تا کو ذال میں ادغام کردیا اور ایک قرأۃ میں لِیَذْکُرُوْا ذال کے سکون اور کاف کے ضمہ کے ساتھ ہے یعنی تاکہ بارش (پانی) کے سبب سے اللہ کی نعمتوں کو یاد کریں پھر اکثر لوگ ناشکری ہی کرتے رہے یعنی نعمت کے منکر رہے، اس طرح سے کہ وہ کہتے تھے کہ فلاں ستارے کے طلوع (یا غروب) ہونے کی وجہ سے ہم کو بارش دی گئی اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ڈرانے والا (پیغمبر) بھیج دیتے جو اس بستی والوں کو ڈراتا لیکن ہم نے آپ کو تمام بستی والوں کی جانب نذیر بنا کر بھیجا تاکہ آپ کا اجر زیادہ ہو لہٰذا آپ کافروں کا ان کی خواہشات میں اتباع نہ کریں اور آپ ان کے ساتھ قرآن کے ذریعہ پوری طاقت سے جہاد کریں اور وہ ایسا ہے کہ جس نے دو دریا ملا کر جاری کئے ہیں جن میں ایک میٹھا مزایدار یعنی نہایت شیریں ہے اور دوسرا نمکین اور کڑوا یعنی نہایت شور ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب آڑ ہے تاکہ ایک دوسرے سے نہ مل سکے اور قوی مانع رکھ دیا یعنی ایسا مانع کہ جس کی وجہ سے ان دونوں دریاؤں کا ملنا ممنوع ہوگیا وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے انسان کو اپنی یعنی منی سے پیدا کیا پھر اس کو صاحب نسب (خونی رشتہ والا) اور صاحب صہر (سسرالی رشتوں والا) بنایا بایں طور کہ وہ افزائش نسل کے لئے نکاح کرتا ہے مذکر ہو یا مؤنث، اور تیرا پروردگار بڑی قدرت والا ہے جو وہ چاہے اس پر قادر ہے اور یہ لوگ یعنی کافر اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی بندگی کرتے ہیں کہ جو ان کی بندگی کی وجہ سے نہ ان کو نفع پہنچانے پر قادر ہیں اور نہ ترک بندگی پر نقصان پہنچانے پر قادر ہیں، اور وہ بت ہیں اور کافر تو اپنے رب کی مخالفت میں شیطان کا مددگار ہے ہی شیطان کی اطاعت کرکے اور ہم نے آپ کو صرف اس لئے بھیجا ہے کہ آپ جنت کی خوشخبری سنائیں اور نار جہنم سے ڈرائیں آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس چیز کی تبلیغ پر جس کو میں دیکر بھیجا گیا ہوں کوئی معاوضہ نہیں چاہتا مگر یہ کہ جو چاہے اپنے رب کی مرضیات میں مال خرچ کرکے اپنے رب تک (رسائی) کا راستہ اختیار کرے تو میں اس کو اس سے منع نہیں کرتا اور آپ اس حی لایموت پر توکل رکھئے اور اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کیجئے یعنی سبحان اللہ وبحمدہٖ کہئے، اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے بخوبی واقف ہے، بذنوب خبیراً سے متعلق ہے اور وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا دنیا کے دنوں کے حساب سے یعنی ان کی مقدار میں اس لئے کہ اس وقت سورج نہیں تھا، اور اگر وہ چاہتا تو ان کو ایک لمحہ میں پیدا کردیتا، اب رہا اپنی اس قدرت سے عدول تو یہ اپنی مخلوق کو جلدی نہ کرنے (اور نرمی) کی تعلیم کے لئے ہے پھر وہ عرش پر مستوی ہوگیا عرش لغت میں تخت شاہی کو کہتے ہیں وہ رحمٰن ہے رحمٰن استویٰ کی ضمیر سے بدل ہے، اور استویٰ سے وہ استویٰ مراد ہے جو اس کی شایان شان ہے تو رحمٰن (کی شان) کے بارے میں کسی واقف کار سے دریافت کر وہ تجھے اس کی صفات کے بارے میں بتائے گا اور جب کفار مکہ سے کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمٰن کیا چیز ہے ؟ کیا ہم اس کو سجدہ کریں جس کو تو سجدہ کرنے کا حکم دے رہا ہے تامرنا تا اور یا دونوں کے ساتھ ہے اور فاعل محمد ہیں، حال یہ ہے کہ ہم اس (رحمٰن) کو نہیں جانتے، ہم ایسا نہیں کریں گے، اس قول نے ان کو ایمان سے اور زیادہ نفرت کرنے والا بنادیا۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد اَلَمْ تَرَ تنظر، تَنْظُر سے رویت بصری کی طرف اشارہ ہے نیز اس کی تائید الیٰ سے بھی ہو رہی ہے اس لئے کہ رویت بصری کا صلہ الیٰ آتا ہے۔ قولہ : اِلیٰ ربکَ میں مضاف محذوف ہے اس لئے کہ ذات باری کی رویت دنیا میں ممکن نہیں ہے اس لئے تقدیر عبارت یہ ہوگی اَلَمْ تَرَ اِلیٰ صنِیْعِ رَبِّکَ اور بعض حضرات نے رویت سے رویت قلبی بھی مراد لی ہے اور اَلَمْ تَرَ معنی میں اَلَمْ تَعلَمْ کے لیا ہے اور مخاطب آنحضرت ﷺ اور ہر وہ شخص ہے جو کائنات عالم میں غور و فکر کی صلاحیت رکھتا ہو، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات میں اپنے منفرد بالا لوہیۃ ہونے پر پانچ دلیلیں از قبیل محسوسات بیان فرمائی ہیں (1) اَلَمْ تَرَ کیفَ مَدّ الظِّلَّ (2) ھو الَّذِیْ جَعَلَ لکُم اللَّیل لباسًا (3) ھو الَّذِی اَرْسلَ الرِّیاحَ (4) ھو الَّذِیْ مرجَ البحرینِ (5) ھو الَّذِی خَلَقَ من الماءِ بشرًا۔ قولہ : من وقت الاسفار الیٰ وقت طلوع الشمس مفسر (رح) کے لئے زیادہ مناسب تھا کہ ای من طلوع الفجر الیٰ طلوع الشمس کہتے اور اگر مطلق رکھتے اور کسی بھی قید کے ساتھ مقید نہ کرتے تو اور زیادہ بہتر ہوتا اس لئے کہ رات میں تو زمین کا ظل ہوتا ہے دن میں اشجار وغیرہ کا ظل ہوتا ہے، اسفار کو شاید سہانا وقت ہونے کی وجہ سے خاص کیا ہو، کَیْفَ مَدَّ الظِّلِّ کی تفسیر میں مفسرین کے تین قول ہیں (1) من الفجر الیٰ الشمس (2) من المغرب الیٰ طلوعِ الشمس (3) من طلوع الشمسِ الیٰ زوال الشمس صاحب بحر نے پہلے قول کو جمہور کا قول نقل کیا ہے، اور مفسر علام نے جو تفسیر فرمائی ہے وہ دیگر مفسرین کے موافق نہیں ہے (صاوی وجمل) ۔ قولہ : جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْلَ لِبَاسًا اس میں لیل کو لباس سے تشبیہ دی ہے وجہ شبہ ساترہونا ہے حرف تشبیہ اور وجہ شبہ کی حذف کردیا ہے اس کو تشبیہ بلیغ کہتے ہیں، جیسے زیدٌا اسدٌ میں تشبیہ بلیغ ہے۔ قولہ : بُشْرًا اس میں چند قرأتیں ہیں، مفسر علام کے سامنے قرآن کریم کا وہ نسخہ ہے کہ جس میں بُشرًا کے بجائے نُشرًا ہے اس میں چار قرأتین ہیں نُشُرًا، نُشْرًا، نَشْرًا، نَشْرًا، بُشْرًا پہلی اور دوسری نَشُورٌ کی جمع ہیں جیسا کہ رسولٌ کی جمع رُسُلٌ اور رُسْلٌ آتی ہے اور تیسری یعنی نَشْرًا یہ مصدر ہے جس میں واحد اور جمع برابر ہیں اور چوتھی یعنی بُشْرًا بشیرٌ کی جمع ہے خوشخبری دینے والا۔ قولہ : مفرد الاولیٰ ای والثانیۃ یعنی مفسر علام کو اولیٰ کے ساتھ والثانیہ بھی کہنا چاہیے تھا اس لئے پہلی اور دوسری قرأت کا واحد ایک ہی ہے اور وہ ہے نشورٌ اور چوتھی قرأت یعنی بُشْرا کا واحد بشیرٌ ہے، قولہ : مَیْتًا مَیْت اور مَیّتْ میں فرق یہ ہے کہ میْت اس کو کہتے ہیں جو مرچکا ہو اور میت اسے کہتے ہیں جو مرنے والا ہو یا مرنے کے قریب ہو۔ قولہ : یستوی فیہ المذکر والمؤنث یہ اس اعتراض کا جواب ہے کہ بَلْدَۃً موصوف اور مَیْتًا اس کی صفت ہے مَیْتًا کے بجائے مَیْتَۃً ہونا چاہیے تھا تاکہ موصوف اور صفت میں مطابقت ہوجاتی، اس کا ایک جواب تو یہ دیا کہ مَیْت کا اطلاق مذکر اور مؤنث دونوں پر ہوتا ہے، دوسرا جواب وَذَکَّرَہٗ باعتبار المکان مفسر علام کو واؤ کے بجائے اَوْ کہنا چاہیے تھا تاکہ دوسرے جواب کی طرف اشارہ ہوجاتا، دوسرے جواب کا خلاصہ یہ ہے بَلْدۃ، مکان کی تاویل میں ہے لہٰذا میتًا لانا درست ہے۔ قولہ : ونُسْقیَہ اس کا عطف نجییْ پر ہے۔ قولہ : اَنْعَامًا یہ نُسْقِیَّۃٗ کا مفعول ثانی ہے اور خَلَقْنَا پر اَنْعامًا مقدم ہونے کی وجہ سے حال ہے ورنہ تو خَلَقْنَا اَنْعَامًا کی صفت ہے، قاعدہ ہے کہ موصوف اگر نکرہ ہو اور اس کی صفت کو مقدم کردیا گیا ہو تو وہ حال ہوجاتی ہے۔ قولہ : اَنَاسِیّ یہ انسانٌ کی جمع ہے یہ سیبویہ کا مذہب اور یہی راجح ہے اور بعض نے کہا ہے اِنسِیّ کی جمع ہے یہ فراء کا مذہب ہے اور یہ اعتراض سے خالی نہیں ہے اس لئے کہ اِنِسِیٍّ میں یا نسبتی ہے اور جس میں یا نسبتی ہوتی ہے اس کی جمع فعالِیٍّ کے وزن پر نہیں آتی، جیسا کہ ابن مالک نے فرمایا وَاجْعَلْ فَعَالِیٍّ لغیرِ ذِی نَسَبٍ ۔ قولہ : وَلَقَدْ صَرَّفْنَاہٗ ای وَاللہِ لقد صرّفناہٗ ای الماء مفسر علام نے صَرَّفناہٗ کی ہٗ ضمیر کا مرجع ماء قرار دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم نے بارش کو مختلف شہروں اور علاقوں میں مقدار کے اعتبار سے تقسیم کردیا اسی طرح صفت کے اعتبار سے بھی تقسیم کردیا کہیں موسلا دھار ہوتی ہے تو کہیں ہلکی، اسی طرح مختلف اوقات میں تقسیم کردیا، حضرت ابن عباس ؓ سے یہی تفسیر منقول ہے، بعض حضرات نے صَرّفناہٗ کی ہٗ ضمیر کا مرجع قرآن کو قرار دیا ہے اور اس کا قرینہ جاھِدھُمْ بہٖ کو قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے المطر کو مرجع قرار دیا ہے، صاحب جلالین نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، قرآن کو مرجع قرار دینے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اس قرآن میں مختلف امثال و عنوان سے عمدہ عمدہ مضامین بیان کئے اور مختلف حجج وبراہین سے لوگوں کو سمجھایا تاکہ وہ غور و فکر کریں (صفوۃ التفاسیر ملخصاً ) ۔ قولہ : اَلنَّوْءُ اس کی جمع َنواء آتی ہے اس کے معنی مائل ہونے اور ساقط ہونے کے ہیں یقال نَاءَ بہٖ الجملُ ای اثقلہٗ واَمَالَہٗ بوجھ نے اس کو گراں بار کردیا اور جھکا دیا زمانہ جاہلیت میں عرب کواکب کو موثر حقیقی مانتے تھے اور سردی گرمی نیز بارش وغیرہ کی نسبت بعض نجوم کے طلوع یا غروب کی طرف کرتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ آخر شب میں جب ایک مخصوص تارہ جانب مغرب میں غروب ہوتا ہے اور اس کے بالمقابل مشرق میں اس کا حریف طلوع ہوتا ہے تو بارش ہوتی ہے، یہ لوگ اللہ کو مؤثر حقیقی نہ مان کر نجوم و کواکب کو مؤثر حقیقی مانتے تھے اسی لئے اس کو کفران سے تعبیر کیا ہے (روح البیان ملخصاً ) ۔ قولہ : مَرَجَ (ماضی باب نصر) مُرُوْجٌ آزاد چھوڑنا، جاری کرنا، فُرَات بہت شیریں خوش ذائقہ تسکین بخش (ک) الرَّحْمٰنُ رحمٰن کے مرفوع ہونے کی تین وجہ ہوسکتی ہیں (1) اَلَّذِیْ خَلَقَ الخ مبتداء کی خبر ہو (2) ھو مبتداء محذوف کی خبر ہو (3) استویٰ کی ضمیر سے بدل ہو مفسر (رح) نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ قولہ : فأسأل بہٖ خبیرًا بہٖ خبیرًا سے متعلق ہے، رعایت فواصل کی وجہ سے مقدم کردیا گیا ہے ای فسأل خبیرًا بہ یا اسئل سے متعلق ہے ای اِسئل عنہٗ خبیراً یعنی رحمٰن کی صفات کے بارے میں عالم سے معلوم کرلے۔ قولہ : یُخّبِرُکَ بِصِفَاتِہٖ یہ جواب امر ہے۔ تفسیر و تشریح الم تر۔۔۔۔ مد الظل یہاں اللہ تعالیٰ پھر توحید کے دلائل کا اغاز فرما رہے ہیں، صبح صادق کے بعد سے طلوع شمس تک سب جگہ سایہ رہتا ہے یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی اگر حق تعالیٰ سورج کو طولع نہ ہونے دیتا تو یہ سایہ ہی قائم رہتا، مگر اس نے اپنی قدرت سے سوج نکالا جس کی وجہ سے دھوپ پھیلنی شروع ہوئی اور سایہ بتدریج ایک طرف سمٹنے لگا اگر دھوپ نہ آتی تو ہم سایہ کو نہ سمجھ سکتے اس لئے کہ شئ اپنی ضد ہی سے پہچانی جاتی ہے اور ہمیشہ سایہ ہی قائم رہ جاتا ہے۔ وھو الذی ارسل الریح الخ یعنی رات کی تاریکی چادر کی طرح سب پر محیط ہوجاتی ہے جس میں لوگ کاروبار چھوڑ کر آرام کرتے ہیں، جب دن کا اجالا ہوجاتا ہے تو لوگ نیند سے اٹھ کر ادھر ادھر چلنے پھرنے لگتے ہیں، اسی طرح موت کی نیند کے بعد قیامت کی صبح آئے گی جس میں سارا جہاں اٹھ کھڑا ہوگا، اور یہی حالت اس وقت پیش آتی ہے جب انبیاء کرام وحی والہام کی روشنی سے دنیا میں اجالا کرتے ہیں تو جہل و غفلت کی نیند میں سوئی ہوئی مخلوق ایک دم آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھتی ہے۔ ھو الذی ارسل الریح یعنی اول برساتی ہوئیں بارش کی خوشخبری لاتی ہیں پر آسمان کی طرف سے پانی برستا ہے جو کہ خود پاک اور دوسروں کو پاک کرنے والا ہے، پانی پڑتے ہی مردہ زمین میں جان پڑجاتی ہے کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اور کتنے جانور اور انسان بارش کا پانی پی کر سیراب ہوتے ہیں۔ ولقد صرفناہ بعض نے صَرَّفْنَاہٗ میں ھا کا مرجع قرآن قرار دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن میں عمدہ اور اعلیٰ قسم کے مضامین اور ضرب الامثال اور نصیحتیں مختلف عنوان سے بار بار بیان فرمائی ہیں تاکہ اہل عقل و دانش اس میں غور کریں اور خدا کی توحید کے قائل ہوجائیں اور بعض حضرات نے ھا کا مرجع بارش کو قرار دیا ہے، جیسا کہ مفسر علام کی رائے بھی یہی ہے مطلب یہ ہے کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقہ میں اور کبھی دوسرے علاقہ میں حتی کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شہر کے ایک حصہ میں بارش ہوتی ہے اور دوسرے حصہ میں نہیں ہوتی کبھی ایک علاقہ میں زیادہ ہوئی اور دوسرے علاقہ میں کم، اور کبھی اس کا برعکس ہوتا ہے، یہ سب اس کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہوتا ہے اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگ اس کی وحدت اور قدرت کے قائل ہوجائیں اور اس کی نعمت کے شکر گزار ہوں، لیکن بہت سے لوگ پھر بھی نہیں سمجھتے اور نعمت الٰہی کا شکریہ ادا نہیں کرتے، الٹے کفر اور ناشکری پر اتر آتے ہیں، مثلاً یہ کہ بارش کو مشیت الٰہی کے بجائے ستاروں کی گردش یا کسی ستارے کے غروب و طلوع کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جیسا کہ اہل جاہلیت کیا کرتے تھے۔ ولو شئنا لبعثنا الخ مطلب یہ ہے کہ نبی کا آنا کوئی تعجب کی بات نہیں اللہ اگر چاہے تو اب بھی نبیوں کی کثرت کر دے کہ ہر بستی میں علیحدہ علیحدہ نبی ہو مگر اس کو منظور ہی یہ ہوا کہ اب آخر میں سارے جہاں کے لئے اکیلئے محمد ﷺ کو نبی بنا کر بھیجے تاکہ تمام نبیوں کا اجر آپ ہی کو ملے سو آپ کافروں کی احمقانہ طعن وتشنیع اور سفیہانہ نکتہ چینیوں کی طرف التفات نہ کریں، اپنا کام پوری قوت اور تندہی سے انجام دئیے جائیں اللہ آپ کو کامیاب کرنے والا ہے۔ وھو الذی مرج البحرین لفظ مَرَجَ آزاد چھوڑنے کے معنی میں آتا ہے، اسی وجہ سے مَرَجْ چراگاہ کو کہتے ہیں جہاں جانور آزادی سے چل پھر کر چر سکیں، عَذْبٌ میٹھے پانی کو کہتے ہیں فرات خوش ذائقہ اور خوشگوار تسکین بخش کو کہتے ہیں مِلْحٌ نمکین کو کہتے ہیں اُجَاج تیز اور تلخ کو کہتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے اپنے فضل اور حکمت بالغہ سے دنیا میں دو قسم کے پانی پیدا فرمائے ہیں، بحر محیط جو کہ زمین کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں، زمین جو کہ کرۂ ارض کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے اور باقی تین حصہ پانی ہے بحرمحیط کا پانی بتقاضائے حکمت نہایت نمکین اور بدمزہ ہے زمین کے آباد حصہ پر بارش کے پانی کے چشمے، ندیاں، نہریں اور بڑے بڑے دریا ہیں یہ سب میٹھے خوشگوار اور خوش ذائقہ ہیں انسان کو اپنے پینے اور روزمرہ کے استعمال کے لئے شیریں پانی کی ضرورت ہے، جو حق تعالیٰ نے زمین کے آباد حصہ میں مختلف صورتوں میں مہیا فرمایا ہے، لیکن بحر محیط کا پانی اگر شیریں ہوتا تو پوری دنیا میں تعفن پیدا ہوجاتا اور تمام جاندار تعفن اور بدبو کی وجہ سے مرجاتے، اسلئے کہ میٹھے پانی کا خاصہ ہے کہ بہت جلد سڑ جاتا ہے خصوصاً سمندر کہ جس کی مخلوق خشکی کی مخلوق سے کہیں زیادہ ہیں جو سمندر ہی میں مرتے گلتے سڑتے ہیں اور تمام روئے زمین سے بہہ کر جانے والی گندگیاں سب سمندر میں جاکر مل جاتی ہیں اگر سمندر کا پانی میٹھا ہوتا تو دو چار روز ہی میں سڑ جاتا جس کی بدبو سے نہ صرف یہ کہ اہل زمین کو بدبو کی وجہ سے رہنا مشکل ہوجاتا بلکہ فضاء کی آلودگی کی وجہ سے کسی جاندار کا زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا، اس لئے حکمت خداوندی نے سمندری پانی کو اتنا نمکین اور کڑوا اور تیز بنادیا کہ دنیا بھر کی گندگیاں اس میں جاکر بھسم ہوجاتی ہیں خود اس میں رہنے والی مخلوق جو اسی میں مرتی ہیں وہ بھی سڑنے نہیں پاتیں۔ وجعل بینھما برزخا وہ ایسی قدرت والا ہے جس نے دو دریاؤں کو (صورۃً ) ملایا جن میں ایک کا پانی نہایت شیریں تسکین بخش ہے اور دوسرے کا نمکین اور کڑوا، اختلاط صوری کے باوجود اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایک حجاب اور قوی مانع رکھ دیا ہے، ان دو دریاؤں سے وہ مواقع مراد ہیں جہاں شیریں ندیاں سمندر میں جاکر گرتی ہیں، باوجود یکہ دونوں کی اوپری سطح ایک معلوم ہوتی ہے لیکن قدرت الٰہیہ نے ان کے درمیان ایک ایسی حد فاصل رکھ دی ہے کہ متقی کی ایک جانب اگر پانی لیا جائے تو شیریں اور دوسری جانب جو کہ اول جانب سے بالکل قریب ہے پانی لیا جائے تو تلخ دنیا میں جہاں بھی شیریں پانی کی ندیاں سمندر میں گرتی ہیں اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ میلوں دور تک شیریں اور کھارا پانی دور تک الگ الگ چلتے ہیں ان ہی مقامات میں سے ایک مقام آرکان اور چاٹگام تک دریا کی شان یہ ہے کہ اس کی دو جانبیں بالکل الگ الگ نوعیت کے دو دریا نظر آتے ہیں، ایک کا پانی سفید ہے اور ایک کا سیاہ، سیاہ میں سمندر تلاطم اور تموج ہوتا ہے اور سفید بالکل ساکن رہتا ہے دونوں کے درمیان ایک دھاری سی برابر چلی گئی ہے جو دونوں کا ملتقی ہے (معارف القرآن ملخصاً ) نسب سے وہ رشتہ داریاں مراد ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے ہوتی ہیں اور صہر سے وہ قرابتداریاں مراد ہیں جو شادی کے بعد بیوی کی طرف سے ہوں جس کو عرف میں سسرالی رشتے کہتے ہیں۔ قل ما اسئلکم علیہ من اجر اے محمد ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ ایمان کی دعوت اور اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانے کا میں تم سے کوئی صلہ نہیں چاہتا اور نہ اس میں میرا کوئی ذاتی فائدہ ہے، اگر میرا کوئی فائدہ ہے تو یہ کہ تم رب کا راستہ اختیار کرلو، اور یہ بات ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص راہ مستقیم اختیار کرلے تو یہ اسی کا فائدہ ہے، اس فائدہ کو اپنا فائدہ قرار دینا یہ پیغمبرانہ شفقت کی طرف اشارہ ہے کہ میں تمہارے فائدہ کو اپنا فائدہ سمجھ رہا ہوں، اور یہ بھی احتمال ہے اس کو اپنا فائدہ اس لحاظ سے فرمایا ہو کہ اس کا اجر آپ ﷺ کو ملے گا جیسا کہ احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص کسی کو نیک کاموں کی ہدایت کرتا ہے اور وہ اس کے کہنے کے مطابق نیک عمل کرے تو اس کے عمل کا ثواب خود کرنے والے کو بھی پورا پورا ملے گا اور اتنا ہی ثواب ہدایت کرنے والے شخص کو بھی۔ (مظہری) واذا قیل۔۔۔ للرحمن، رحمٰن اور رحیم اللہ کی صفات اور اسماء حسنیٰ میں سے ہیں لیکن عرب اللہ کو ان ناموں سے نہیں جانتے تھے، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب نبی کریم ﷺ نے معاہدہ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوایا تھا تو مشرکین مکہ نے کہا تھا کہ ہم رحمٰن و رحیم کو نہیں جانتے، باسمک اللہ لکھو۔
Top