Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف رَبِّكَ : اپنا رب كَيْفَ : کیسے مَدَّ الظِّلَّ : دراز کیا سایہ وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہتا لَجَعَلَهٗ : تو اسے بنا دیتا سَاكِنًا : ساکن ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الشَّمْسَ : سورج عَلَيْهِ : اس پر دَلِيْلًا : ایک دلیل
بھلا تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر کے پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس کو بےحرکت ٹھہرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنادیا ہے
ذکر دلائل توحید و عجائب قدرت و صنعت قال اللہ تعالیٰ الم تر الیٰ ربک کیف مدا الظل .... الیٰ .... لمن اراد ان یذکر او اراد شکورا۔ (ربط) گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور منکرین نبوت کی جہالت بیان فرما دی اور ان کی گمراہی ظاہر کردی اب آئندہ آیات میں منکرین وحدانیت کی تشنیع کے لیے اپنی قدرت کے آثار اور توحید کے چند دلائل بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اشیاء متضادہ اور مختلفہ کے پیدا کرنے پر قدرت تامہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ کے قادر مطلق اور واحد قہار ہونے کی دلیل ہے اور ایسی چیزیں ہیں کہ کفار دن رات اسکا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں اگر ذرا غور کریں تو اللہ کی قدرت اور وحدانیت ان پر واضح ہوجائے۔ اس سلسلہ میں حق جل شانہ نے پانچ قسم کے دلائل ذکر فرمائے۔ قسم اول۔ استدلال بنظر و رحالت سایہ الم تر الی ربک کیف مدالظل ولو شاء لجعلہ ساکنا ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلا ثم قبضناہ الینا قبضا یسیرا۔ دلائل توحید کی پہلی قسم یہ ہے کہ سایہ کی حالت میں غور کرو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے سایہ کو دراز کیا اگر وہ چاہتا تو اس کو ایک حال اور ایک انداز پر ٹھہرا دیتا پھر اس نے آفتاب کو سایہ کے پہچاننے کے لیے دلیل بنایا کہ آفتاب کی شعاعوں سے سایہ پہچانا گیا اور پھر اس سایہ کو آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچا۔ صبح صادق سے طلوع آفتاب تک سایہ کا دراز ہونا اور پھر آفتاب کا طلوع ہونا اور زمین پر اس کی شعاعوں کا پڑنا اور پھر بتدریج سایہ کا سمٹنا یہ سب اس کی قدرت کے دلائل ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اے دیکھنے والے کیا تو نے اپنے پروردگار کے اس کرشمہ قدرت اور عجوبہ صنعت کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے محض اپنی قدرت سے طلوع فجر یعنی صبح صادق سے لیکر طلوع آفتاب تک کس طرح سایہ کو تان دیا اور لمبا اور دراز کردیا اور زمین پر اس کو پھیلا دیا، یہ سب اس کی قدرت کا کرشمہ ہے ذرا نظر اٹھا کر تو دیکھ صبح صادق سے اور خاص کر اسفار کے بعد سے سورج نکلنے تک سایہ ہی سایہ رہتا ہے نہ سورج کی شعاع ہوتی ہے اور نہ رات کی سی تاریکی ہوتی ہے دھوپ اور تاریکی کے درمیان ایک بین بین حالت ہوتی ہے اور یہی ظل یعنی سایہ کی حقیقت ہے امام رازی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں۔ ظل یعنی سایہ حقیقت میں ایک ایسی ہی درمیانی چیز کا نام ہے جو خالص روشنی اور خالص تاریکی کے درمیان میں ہو اور یہ درمیانی کیفیت اور متوسط حالت نہایت عمدہ وقت اور بہترین زمانہ ہے اس لیے کہ خالص تاریکی طبعًا مکروہ اور ناگوار ہے۔ طبیعت اس سے نفرت کرتی ہے اور آنکھ کی بینائی اس سے معطل ہوجاتی ہے کوئی چیز نظر نہیں آتی اور آفتاب کی شعاعوں سے نظر خیرہ ہوجاتی ہے اور اس کی روشنی سے آنکھ پراگندہ ہوجاتی ہے اور ہوا گرم ہوجاتی ہے اور صبح صادق اور اسفار سے لیکر طلوع آفتاب تک جو وقت ہوتا ہے اس میں یہ دونوں باتیں نہیں ہوتیں اسی وجہ سے جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ظل ممدود بھی ہے جنت میں ایسا ہی سایہ ہوگا۔ غرض یہ کہ سایہ بندوں کے لیے اللہ کی عجیب رحمت ہے اور اس کی قدرت کی عجیب و غریب صفت ہے نہ خالص تاریکی ہے جس سے طبیعت کو نفرت ہو اور تیز روشنی ہے جس سے نگاہ پراگندہ ہو اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس سایہ کو ٹھہرائے رکھتا کہ وہ سایہ ایک ہی حال پر اور ایک ہی انداز پر ٹھہرا رہتا یعنی یہی ظل کیفیت دائم اور مستمر رہتی کہ آفتاب طلوع نہ ہوتا یا اگر طلوع بھی ہوتا تو خدا کی قدرت اور مشیت سے۔ آفتاب اس سایہ کو زائل نہ کرسکتا اور باوجود طلوع آفتاب کے یہ سایہ اپنے حال پر رہتا۔ سایہ ہو یا آفتاب ہو کسی کی بھی حرکت خود اس کے اختیار میں نہیں۔ اللہ جس کو چاہے متحرک کرے اور جس کو چاہے ساکن کرے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس سایہ کو ساکن کردیتا۔ آفتاب کا طلوع اور غروب خود اس کی اختیاری چیز نہیں کہ وہ جو حالت چاہے اپنے لیے اختیار کرے۔ جب چاہے چل پڑے اور جہاں چاہے ٹھہر جائے۔ آفتاب کی حرکت اور اس کا سکون خود اس کے اختیار میں نہیں کہ جو چاہے اپنے لیے اختیار کرے اسی طرح سایہ کا گھٹنا اور بڑھنا اور ٹھہرنا خود سایہ کے اختیار میں نہیں بلکہ سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ یہ سایہ جو طلوع فجر سے لیکر سورج نکلنے تک رہتا ہے جنت کے سایہ کا ایک نمونہ ہے۔ جنت میں آفتاب کی دھوپ نہ ہوگی۔ یہی سایہ ہوگا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ سایہ اسی طرح ٹھہرا رہتا اور آفتاب طلوع ہی نہ ہوتا جس طرح اللہ کی قدرت سے جنت میں ہمیشہ سایہ ہوگا اور دھوپ نہ ہوگی اسی طرح اللہ کی قدرت ہے کہ اگر وہ چاہتا تو دنیا میں بھی اس سایہ کو قائم رکھتا اور آفتاب طلوع ہی نہ ہوتا یا طلوع ہوتا تو تب بھی وہ اس سایہ کو قائم رکھتا۔ خدا تعالیٰ کی قدرت دنیا اور آخرت میں سب جگہ یکساں ہے۔ پھر ہم نے اپنی قدرت کا ایک اور کرشمہ دکھلایا کہ سورج کو پیدا کیا اور مشرق سے اس کو نکالا جس سے دھوپ پھیلنی شروع ہوئی اس طرح ہم نے سورج کو اس سایہ کے پہچاننے کی ایک دلیل یعنی ایک علامت اور نشانی بنایا کہ سورج نکلنے سے سایہ پہچانا گیا۔ اس طرح آفتاب سایہ کے وجود کی دلیل بنا۔ اگر دھوپ نہ ہوتی تو کوئی شخص سایہ کو نہ پہچان سکتا کہ سایہ کیا چیز ہے جب آفتاب نکلا تب سایہ نظر آیا اور اس وقت سایہ کی شناخت ہوئی کہ سایہ ایسا ہوتا ہے اور دھوپ ایسی ہوتی ہے اس لیے کہ ایک ضد کی شناخت دوسری ضد سے ہوتی ہے وبضدھا تتبین الاشیاء۔ اچھے سے برے کی تمیز ہوتی ہے اور سفید سے کالے کی تمیز ہوتی ہے اور نور سے ظلمت کی شناخت ہوتی ہے اور جس چیز سے کسی چیز کی حقیقت واضح ہو وہی اس کی دلیل ہے۔ اس اعتبار سے آیت میں طلوع آفتاب کو وجود ظل کی دلیل قرار دیا۔ طلوع آفتاب سے پہلے کسی جسم کا مثلاً انسان کا یا حیوان یا دیوار کا کوئی سایہ نہیں ہوتا۔ صبح صادق اور طلوع آفتاب کے درمیان جو ظلی کیفیت ہوتی ہے اس حالت میں جسم کی صرف دو چیزیں دکھائی دیتی ہیں ایک جسم کا وجود اور دوسرا اس کا رنگ۔ البتہ طلوع آفتاب کے بعد جب دھوپ نمودار ہوجاتی ہے تو اس وقت تین چیزیں نظر آتی ہیں۔ (1) ایک جسم کا وجود (2) اور دوسرا جسم کا رنگ یہ دو چیزیں طلوع آفتاب سے پہلے بھی دکھائی دیتی تھیں۔ (3) اور تیسری چیز جو طلوع آفتاب کے بعد دکھائی دیتی ہے وہ اس جسم کا سایہ ہے جو پہلے نظر نہیں آتا تھا۔ طلوع آفتاب کے بعد زمین پر جسم کا سایہ بھی نظر آتا ہے طلوع آفتاب سے پہلے سایہ کا وجود نہ تھا۔ طلوع آفتاب کے بعد جب دھوپ نکلی تب اس تیسری چیز کے وجود کا علم ہوا اس لیے فرمایا کہ ہم نے طلوع آفتاب کو سایہ کے لیے دلیل بنایا جس کو ذریعہ سایہ پہچانا گیا۔ اگر آفتاب کی روشنی نہ ہوتی تو دیکھنے والے کو فقط دو چیزیں نظر آتیں۔ ایک جسم کا وجود اور دوسرا اسکی رنگت اور ہیئت مگر تیسری چیز یعنی جسم کا سایہ اس کو نظر نہ آتا۔ سا یہ کا احساس اور اس کی شناخت آفتاب کے دھوپ کے ذریعہ ہوئی اگر سورج نہ نکلتا اور دھوپ نہ ہوتی تو ہم سایہ کو سمجھ بھی نہ سکتے کہ سایہ کیا چیز ہے۔ ایک ضد کے آنے سے دوسری ضد سمجھ میں آئی۔ کما قال تعالیٰ قل ارائیتم ان جعل اللہ علیکم الیل سرمدا الی یوم القیامۃ من الہ غیر اللہ یاتیکم بضیاء دیکھو تفسیر کبیر ص 377 ج 6 حاشیہ شیخزادہ علی تفسیر البیضاوی ص 445 ج 3 و روح المعانی ص 25 ج 19۔ قتادہ (رح) اور سدی (رح) کہتے ہیں کہ آفتاب کی دلیل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آفتاب اس سایہ کے پیچھے لگا آرہا ہے۔ یہاں تک کہ پورے سایہ پرچھا جاتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ دلیل کے معنی رہبر کے ہیں کہ آفتاب سایہ کا رہبر ہے اور سایہ آفتاب کا تابع ہے اس لیے کہ سایہ کی کمی اور بیشی اور اسکا پھیلنا اور سمٹنا آفتاب کی حرکت کے تابع ہے۔ پھر سورج نکلنے کے بعد ہم نے اس سایہ کو آہستہ آہستہ اور تھوڑا تھوڑا اپنی طرف سمیٹا۔ اللہ ہی کی قدرت اور مشیت سے اصل ظل کا ظہور ہوا تھا پھر اس کی قدرت اور مشیت سے اس ظل کو آہستہ آہستہ قبض کرنے سے تعبیر کیا۔ طلوع صادق سے لیکر طلوع آفتاب تک سایہ تمام روئے زمین پر پھیلا ہوا ہوتا ہے پھر جب سورج نکلتا ہے تو تھوڑا تھوڑا گھٹنا شروع ہوتا ہے جس قدر سورج اوپر چڑھتا جاتا ہے اسی قدر سایہ کم ہوتا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ آفتاب کی روشنی اور اس کی شعاع سایہ کی جگہ قائم ہوتی جاتی ہے اور زمین چمک اٹھتی ہے۔ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک یہی حال رہتا ہے اور اس طرح بتدریج سایہ کے سمیٹنے میں بڑی حکمتیں اور منفعتیں ہیں اوقات اور ساعات کی تعیین اسی طرح بتدریج سایہ کے گھٹنے اور بڑھنے سے ہوتی ہے جیسا کہ حق جل شانہ کا ارشاد ہے۔ ویسئلونک عن الاھلۃ قل ہی مواقیت للناس والحض الایۃ۔ صبح سے لیکر شام تک سایہ اور دھوپ ایک حال پر نہیں رہتا بلکہ بدلتا رہتا ہے اس تغیر اور تبدل سے اور اس کمی اور زیادتی سے دین اور دنیا کے کاروبار کے لیے اوقات معین کیے جاتے ہیں اگر صبح سے لیکر شام تک ایک ہی حالت رہتی تو ساعات اور اوقات کی تعیین ناممکن تھی پانچ نمازوں کے اوقات کیسے متعین ہوتے اور بازاروں اور دفتروں کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات کیسے مقرر ہوتے۔ غرض یہ کہ سایوں کا اس طرح آہستہ آہستہ گھٹنا اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا حق جل شانہ کے کمال قدرت کی دلیل ہے اور ہر تغیر بندوں کے حق میں نعمت ہے۔ اگر سایہ ایک بار ہی لے لیا جاتا تو لوگوں کے جو کام سایہ سے متعلق ہیں وہ معطل ہوجاتے۔ ولوشاء لجعلہ ساکنا۔ درمیان کلام میں جملہ معترضہ ہے جس سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ سایہ کا دراز ہونا اور اس کا سمٹنا محض اللہ کی قدرت اور اس کی مشیت سے ہے اسباب عادیہ اور امور مادیہ کو اس میں دخل نہیں آفتاب کا افق کے قریب ہونا اور پھر افق شرقی سے اسکا طلوع ہونا اس میں کسی مادہ اور طبیعت کو اور کسی نیچر اور فطرت کو دخل نہیں آفتاب کی حرکت اور اس کا طلوع اور غروب سب اللہ کی مشیت کے تابع ہے۔ آیت ہذا کی تفسیر میں دوسرا قول اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ کیف مدالظل میں ظل سے اجسام کثیفہ کا وہ سایہ مراد ہے جو طلوع آفتاب کے بعد شروع دن میں نمودار ہوتا ہے اور دیکھنے والوں کو نظر آتا ہے۔ کما قال تعالیٰ اولم یروا الی ما خلق اللہ من شیء یتفیؤ ظلا لہ۔ اور مطلب یہ ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ جب آفتاب افق سے طلوع کرتا ہے تو کھڑی ہوئی چیزوں کا سایہ لمبا اور دراز پڑتا ہے پھر جوں جوں سورج چڑھتا جاتا ہے تو اس کے مقابل مغرب کی جانب سے سایہ گھٹتا جاتا ہے، یہاں تک کہ ٹھیک دوپہر کے وقت ہر شئی کا سایہ اس کی جڑ میں لگ جاتا ہے تو سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے سایہ کو اپنی طرف کھینچ لیا پھر زوال کے بعد ایک طرف سے دھوپ سمٹنی شروع ہوتی ہے اور دوسری طرف سایہ لمبا ہونے لگتا ہے آخر جب آفتاب غروب ہوجاتا ہے کو تو دھوپ غائب ہوجاتی ہے اور تاریکی چھا جاتی ہے اور سایہ فنا ہوجاتا ہے اور سایہ کے اس طرح تدریجا فنا ہوجانے کو اپنے پاس آنے سے تعبیر کیا کہ وہ تمہاری نظروں سے فنا ہو کر ہمارے پاس پہنچ گیا۔ بہر حال سایہ ہو یا دھوپ ہو اسی کے حکم سے پردہ عدم سے نکل کر وجود میں آیا تھا۔ اور اسی کے حکم سے عدم کے پردہ میں چلا گیا اگر اللہ چاہتا تو ہر چیز کے سایہ کو اسی کے ساتھ لازم اور قائم کردیتا اور ایک حالت پر اس کو ٹھہرا دیتا اور سایہ کے لیے لمبے دراز ہونے سے مخلوق کو جو نفع پہنچ رہا ہے وہ نفع نہ پہنچتا۔ غرض یہ کہ سایہ اور دھوپ کا تغیر اور تبدل اور کمی اور زیادتی اور انکا فنا اور زوال یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب چیزیں حادث ہیں اور ان کے تغیرات اور انقلابات کی باگ کسی علیم و قدیر کے ہاتھ میں ہے کہ جو ان تغیرات سے اپنی قدرت کا تماشا دکھا رہا ہے۔ کہ دیکھ لو کہ وجود اور عدم کا تماشا اس طرح دکھلایا جاتا ہے اور دھوپ اور سایہ جو کارخانہ عالم کا تانا اور نانا اس کو قدرت اور مشیت کی انگلیوں پر اس طرح نچایا جاتا ہے اور سایہ اور دھوپ کے ان تغیرات میں اور ان کھیل اور تماشوں میں بندوں کے لیے نعمتوں اور راحتوں کے عجیب عجیب سامان ہیں جن کے شکر سے زبان قاصر ہے۔ دیکھو تفسیر کبیر ص 378 ج 6 و حاشیہ شیخزادہ علی تفسیر البیضاوی ص 455 ج 3۔ خلاصہ کلام یہ کہ آیت ہذا کی تفسیر میں یہ دو قول مشہور ہیں جو ہم نے ذکر کیئے۔ قول اول : جمہور علماء تفسیر کا قول یہ ہے کہ کیف تدالظل میں ظل سے وہ سایہ مراد ہے کہ جو صبح صادق سے یا وقت اسفار سے لے کر طلوع آفتاب تک رہتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور عبد اللہ بن عمر ؓ اور ابو العالیہ (رح) اور ابو مالک اور مسروق اور مجاہد اور سعید بن جبیر اور ابراہیم نخعی اور ضحاک اور قتادہ اور حسن بصری رحمہم اللہ تعالیٰ سے یہی مروی ہے کہ ” ظل “ سے وہ سایہ مراد ہے کہ جو طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے درمیان ہے۔ دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 330 ج 3 اور ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلا۔ کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے طلوع آفتاب کو اس سایہ کی دلیل بنایا اس لیے کہ طلوع آفتاب سے یہ معلوم ہوا کہ صبح صادق سے لیکر طلوع آدتاب تک جو اجالا تھا۔ وہ آفتاب کا اثر تھا اور اس کی آمد آمد کا نشان تھا اگر خدا چاہتا تو سورج کو نہ نکالتا اور وہ سایہ اسی حال پر برقرار رہتا جس حال پر وہ طلوع آفتاب سے پہلے تھا لیکن اس نے اپنی قدرت سے سورج کو نکالا اور آہستہ آہستہ اس سایہ کو ختم کیا یہ سب اس کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ دوسرا قول : اور دوسرا قول اس آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ ظل سے کھڑی ہوئی چیزوں کا سایہ مراد ہے کہ یہ طلوع آفتاب سے لیکر زوال تک اور پھر زوال سے لیکر غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ دیکھو صاوی حاشیہ جلالین ص 160 جلد 3۔ کیونکہ عرف میں ظل کا اطلاق اس سایہ پر آتا ہے کہ جو شروع دن میں ہوتا ہے فئی کے اصل معنی رجوع کے ہیں کہ جب آفتاب مشرق سے مغرب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ابن السکیت کہتے ہیں کہ ظل وہ سایہ ہے کہ جس کو آفتاب منسوخ کر دے اور فئی وہ سایہ جو آفتاب کو یعنی اس کی دھوپ کو منسوخ کر دے بہرحال ظل سے جو معنی بھی مراد لیے جائیں وہ کمال قدرت اور کمال صنعت کے بیان سے خالی نہیں جو اللہ جل شانہ کی وحدانیت اور کمال صنعت کی دلیل ہے اور علاوہ ازیں غایت رحمت اور نہایت نعمت کی بھی دلیل ہے کہ اللہ نے بندوں کی راحت کے لیے سایہ اور دھوپ کے پیدا کیا۔ (1) ظل یعنی سایہ کو دراز کرنا (2) طلوع آفتاب کو اس پر دلیل بنانا اور (3) قبض یسیر یعنی سایہ کو آہستہ آہستہ سمیٹنا یہ سب اس کی قدرت کے کرشمے ہیں۔ سایہ کا دراز ہونا اور اس کا سمٹنا یہ سایہ کا خود اختیاری فعل نہیں اور علی ہذا طلوع۔ یہ آفتاب کا فعل اختیاری نہیں بلکہ خدا کی قدرت اور مشیت کے تابع ہے۔ غرض یہ کہ ان آیات میں جن عجائب قدرت کا ذکر کیا ہے بلاشبہ وہ اس کی الوہیت اور وحدانیت کے دلائل ہیں۔ آیت ہذا کی تفسیر میں تیسرا قول : آیت ہذا کی تفسیر میں علماء کے کئی قول ہیں جو دو قول ان میں سے زیادہ مشہور تھے وہ ہدئیہ ناظرین کر دئیے گئے۔ اب دل چاہتا ہے کہ آیت ہذا کی تفسیر میں ایک تیسرا قول اور بھی ہدیہ ناظرین کردیا جائے یہ تیسرا قول اگرچہ غیر مشہور ہے لیکن باعتبار معنی کے وہ بھی لطیف ہے وہ یہ ہے کہ ظل سے رات کا اندھیرا مراد ہے اور قبضنا کی ضمیر دلیل کی طرف راجع ہے اور معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے رات کے وقت زمین کا سایہ پھیلا دیا اور سارا عالم تاریک کردیا مگر اس تاریکی کو ہمیشگی نہیں دی بلکہ آفتاب کے طلوع کو اس کی شناخت کی دلیل بنایا اس لیے کہ سب چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں اچھے سے برے کی تمیز ہوتی ہے اور گورے سے کالے کی تمیز ہوتی ہے اور دن کو بھی ہمیشہ کے لیے نہیں بنایا بلکہ غروب کرکے اس کی روشنی کو لے لیا۔ یہاں تک کہ پھر رات آگئی اور یہ دونوں وقت مخلوق کی آسائش اور آرائش کے لیے معین فرمائے۔
Top