Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 259
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف رَبِّكَ : اپنا رب كَيْفَ : کیسے مَدَّ الظِّلَّ : دراز کیا سایہ وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہتا لَجَعَلَهٗ : تو اسے بنا دیتا سَاكِنًا : ساکن ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الشَّمْسَ : سورج عَلَيْهِ : اس پر دَلِيْلًا : ایک دلیل
بھلا تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر کے پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس کو بےحرکت ٹھہرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنادیا ہے
45۔ 47:۔ صبح صادق کے شروع سے آفتاب کے نکلنے تک بغیر آفتاب کی دھوپ کے جو ایک سایہ ہوتا ہے اس آیت میں اس سایہ کا ذکر ہے ‘ یہ سایہ جنت میں ایک نشانی ہے ‘ جنت میں آفتاب کی دھوپ نہیں ہوگی یہی سایہ ہوگا ‘ تفسیر عبدالرزاق میں حسن بصری اور قتادہ کی روایت سے اور تفسیر ابن ابی حاتم میں علی بن طلحہ کی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے اس آیت میں جو سایہ کا ذکر ہے ‘ اس کی یہی تفسیر آئی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے اور یہی تفسیر امام بخاری نے صحیح بخاری 1 ؎ میں بیان کے ہے۔ بعضے مفسروں نے اس تفسیر پر یہ اعتراض کیا ہے کہ غروب آفتاب کے شروع سے رات کے اندھیرے کے شروع ہونے تک بھی بغیر آفتاب کی دھوپ کے ایک اجالا ہوتا ہے ‘ اس کو بھی اس آیت کی تفسیر قرار دینا چاہیے حافظ ابن حجر نے فتح الباری 2 ؎ میں اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ جب آیت میں اس سایہ کا ذکر ہے ‘ غروب آفتاب کے وقت کا سایہ ایک الگ چیز ہے ‘ اس کو آیت سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ صحیح بخاری ومسلم اور ترمذی میں ابوسعید خدری سے روایت 3 ؎ ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ جنت میں بعضے سایہ دار درخت ایسے ہیں کہ ان کا سایہ گھوڑے کے سوار شخص سے بھی سو برس کے عرصہ میں طے نہیں ہوسکتا ‘ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی معتبر روایتوں کے موافق جنت میں نہ سورج ہے نہ دھوپ ‘ بلکہ جنت میں تو ہمیشہ ایسا وقت رہے گا ‘ جیسا وقت دنیا میں طلوع سے سورج کے نکلنے تک رہتا ہے ‘ اس حدیث سے اور حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی معتبر روایتوں سے وَلَوْ شَآئَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو صاحب قدرت اس پر قادر ہے کہ اس کی قدرت سے جنت میں ہمیشہ ایسا وقت رہے گا ‘ جیسا وقت دنیا میں طلوع فجر سے سورج کے نکلنے تک رہتا ہے ‘ وہ صاحب قدرت اگر چاہے تو دنیا میں بھی سارے دن طلوع فجر سے سورج کے نکلنے تک کے وقت کو قائم رکھ سکتا ہے لیکن سورج اس بات کا راستہ بتاتا ہے کہ سورج کے نکلنے سے پہلے کا سایہ اور چیز ہے اور سورج کی دھوپ میں مکانوں اور درختوں وغیرہ کا جو سایہ ہوتا ہے وہ اور ہے ‘ پھر فرمایا سورج کے نکلنے کے بعد سورج سے وہ پہلے کا ٹھنڈا سایہ سہج سہج اللہ تعالیٰ کے حکم سے سمیٹ لیا جاتا ہے اور بجائے اس ٹھنڈے سایہ کے تمام دنیا میں دھوپ پھیل جاتی ہے یہ ٹھنڈا سایہ رات کے اندھیرے کے بعد طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے اور پھر دن کے گزر جانے کے بعد رات ہوتی ہے اس واسطے اس ٹھنڈے سایہ کے ذکر میں رات اور دن کا تذکرہ فرمایا جس طرح اوڑھنے اور پہننے کے کپڑے سے انسان کا بدن ڈھانک دیا جاتا ہے اسی طرح رات کا اندھیرا ہر ایک چیز کو ڈھانک لیتا ہے اسی واسطے رات کو لباس کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے دن کو ہر طرح کے کام دھندے میں لگ کر آدمی کو تھکان ہوجاتی ہے اور رات کی نیند سے وہ تھکان رفع ہوجاتی ہے اس لیے رات کی نیند کو آرام فرمایا اور دن کے کام دھندے کو اٹھنا اور نکلنا ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ سونے کے بعد جاگنا مرنے کے بعد دوبارہ جینے کی نشانی ہے ‘ اسی واسطے صحیح بخاری میں حذیفہ ؓ سے جو روایت 1 ؎ ہے اس میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سوتے وقت یہ کہا کرتے تھے یا اللہ تیرے نام پر میں مرتا ہوں اور تیرے نام پر اٹھوں گا اور جب سو کر اٹھا کرتے تھے تو یہ کہتے اس کا شکر ہے جس نے نیند کی موت سے جس طرح ہمیں زندہ کیا ہے اسی طرح موت کے بعد ایک دن دوبارہ زندہ ہو کر اس کے روبرو جانا پڑے گا۔ (1 ؎ کتاب التفسیر سورة الفرقان ) (2 ؎ ص 283 ج 4 کتاب التفسیر ) (3 ؎ الترغیب والترہیب ص 520 ج 4 ) (1 ؎ مشکوٰۃ باب مایقول عند الصباح والمساء والمنام )
Top