Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف رَبِّكَ : اپنا رب كَيْفَ : کیسے مَدَّ الظِّلَّ : دراز کیا سایہ وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہتا لَجَعَلَهٗ : تو اسے بنا دیتا سَاكِنًا : ساکن ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الشَّمْسَ : سورج عَلَيْهِ : اس پر دَلِيْلًا : ایک دلیل
اے مخاطب ! کیا تو نے اپنے رب کی قدرت کو نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح سایہ کو پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا بنا دیتا، پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا
اَلَمْ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّالظِّلَّ ج وَلَوْشَآئَ لَجَعَلَـہٗ سَاکِـنًا ج ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلاً ۔ ثُمَّ قَبَضْنٰـہُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا۔ (الفرقان : 45، 64) (اے مخاطب ! کیا تو نے اپنے رب کی قدرت کو نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح سایہ کو پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا بنا دیتا، پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا۔ پھر ہم اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ ) سابقہ آیات میں تاریخ کے شواہد کی روشنی میں مخالفین کو تنبیہ کی گئی ہے اور آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے۔ آنحضرت ﷺ کو یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ کے جواب میں مخالفت اور معاندت کا جو طوفان اٹھا ہے یہ کوئی پہلا موقع نہیں۔ آپ سے پہلے آنے والے رسولوں کے ساتھ بھی ان کے مخالفین نے یہی رویہ اختیار کیا۔ لیکن آہستہ آہستہ حق غالب آیا اور باطل مغلوب ہوگیا۔ آپ کی دعوت بھی انشاء اللہ تعالیٰ غالب ہو کے رہے گی اور سابقہ امتوں کو تکذیبِ رسل کے نتیجے میں جس طرح عذاب کا شکار ہونا پڑا آنحضرت ﷺ کے مخالفین کو اس سے تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو تمہارا انجام بھی سابقہ امتوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ رات اور دن کا آنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے پیشِ نظر آیات کریمہ میں بعض آفاقی اور کائناتی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن سے نبی کریم ﷺ کی ان تمام باتوں کی تصدیق ہوتی ہے جو آپ اپنی قوم کے سامنے پیش کررہے تھے۔ دلائلِ آفاق میں سے سب سے پہلی دلیل جو پیش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کے وسیع اطراف و جوانب اور اس کی پہنائیوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی جو بیشمار نشانیاں ہیں ان میں سے اگرچہ ایک ایک نشانی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی بےپایاں قدرت پر دلالت کرتی ہے، لیکن انھیں سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک ایسی نشانی جس سے ہر شخص کو واسطہ پڑتا ہے اور وہ انسانی زندگی کی پیش پا افتادہ حقیقت ہے۔ سب سے پہلے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اور اس میں خطاب ایک ایسے لفظ سے کیا گیا ہے جس سے فرداً فرداً ہر مخاطب مراد ہے۔ یعنی ایک ایک شخص کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم نے کبھی غور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سائے کو کیسے پھیلا دیا ہے۔ ظِل عربی زبان میں اس سایہ کو کہتے ہیں جو صبح کے وقت سورج نکلنے سے پہلے ہوتا ہے یعنی رات بھر کا سایہ۔ اور وہ سایہ جو دوپہر کے بعد ہوتا ہے جو سورج کے ڈھلنے سے وجود میں آتا ہے اسے فَیٔ کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ رات بھر جو تم پر سایہ طاری رہتا ہے کبھی تم نے اس کی افادیت اور اپنی زندگی کے لیے اس کی اہمیت پر غور کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس سائے کو مستقل تم پر مسلط رکھتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ انسانی زندگی ناممکن ہوجاتی۔ حیوانی اور نباتاتی زندگی کے امکانات بھی ختم ہوجاتے۔ کیونکہ سورج ایک ایسا انجن ہے جس سے کائنات کا نظام چلتا اور ہمارے چولہے جلتے ہیں۔ سائے کے مسلط ہونے کے نتیجے میں چونکہ سورج طلوع ہونے میں نہ آتا تو زندگی کی رات دراز ہوجاتی۔ اور اگر اس سائے کو ہٹا کر سورج کی روشنی کو مسلط کردیا جاتا تو تب بھی ہر طرح کی زندگی ناممکن ہوجاتی۔ گرمیوں کا طویل دن پانی کو بھاپ بنا کے اڑا دیتا، سمندر صحرا میں تبدیل ہوجاتے۔ سورج کا مسلسل سامنا ہر چیز کو جلا کر خاکستر کردیتا۔ نہ انسانی زندگی باقی رہتی اور نہ حیوانی اور نباناتی زندگی اپنا وجود باقی رکھ سکتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سائے کو دراز ضرور کیا ہے لیکن اس کو ساکن اور مستقل مسلط نہیں کیا۔ پھر اپنی قدرت اور حکمت کے مطابق سورج کو اس پر دلیل بنایا۔ جس طرح دلیل کسی چیز کو کھولتی اور واضح کرتی ہے اسی طرح سورج شب کی عالمگیر تاریکی کے اندر دلیل راہ بنتا اور اس کو ہٹاتا اور کھولتا ہے۔ ملاحوں کی اصطلاح میں دلیل اس شخص کو کہتے ہیں جو کشتیوں کو راستہ بتاتا ہوا چلے۔ سورج بھی دھیرے دھیرے اور آہستہ آہستہ طلوع ہوتا اور پھر اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا ہے روشنی اس کی رکاب میں آگے بڑھتی ہے اور سایہ سمٹتا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ یک لخت سایہ اٹھا لیا جائے اور سورج کی گرمی برسنے لگے۔ اگر ایسا ہوتا تو اچانک گرمی ہر چیز کو بھسم کر کے رکھ دیتی اور ایسا بھی نہیں ہوتا کہ اچانک گرمی سمٹ جائے اور ٹھنڈک برسنے لگے۔ اور اگر ایسا ہوتا تو سردی ہر چیز کو منجمد کردیتی۔ سائے کے سمٹنے اور سورج کے آگے بڑھنے میں جو ایک تدریج کا عمل پایا جاتا ہے یہی ہماری زندگی کا بقا کا اصل راز ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی جس قدرت اور نشانی کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے ایک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ رات بھر سائے کا پھیلا رہنا اور پھر سورج کے طلوع ہونے سے اس کا آہستہ آہستہ سمٹنا یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ہمیں ہر روز واسطہ پڑتا ہے، ہم اس کی افادیت سے فائدہ تو اٹھاتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں سوچتے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہماری بقا کا ضامن ہے۔ لیکن اس کا سررشتہ کس کے ہاتھ میں ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور رات طاری کرسکتا ہے ؟ کیا کسی میں یہ قدرت ہے کہ وہ سورج کو نکلنے کا حکم دے سکے ؟ جب ہر شخص اپنی آنکھوں سے اس کی اس قدرت کا نمونہ دیکھتا ہے تو یہ کس قدر حماقت کی بات ہے کہ اتنی واضح نشانی کے بعد بھی ہم دوسروں کو اس کا شریک کرنے لگتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کا سورة قصص میں ذکر فرمایا گیا۔ ارشادِخداوندی ہے : قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَۃِ مَنْ اِلٰـہٌ غَیْرُاللّٰہِ یَاتِیَکُمْ بِضِیَـآئٍ ط اَفَلاَ تَسْمَعُوْنَ ۔ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّھَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَۃِ مَنْ اِلٰـہٌ غَیْرُاللّٰہِ یَا تِیَکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِ ط اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ ۔ وَمِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَـکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضُلِہٖ وَلَعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ (قصص : 71۔ 73) (ان سے کہو کہ بتائو، اگر اللہ رات کو تمہارے اوپر قیامت تک کے لیے مسلط کر دے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے لیے روشنی کو لائے گا، کیا تم سنتے نہیں ! ان سے پوچھو کہ بتائو، اگر اللہ تمہارے اوپر دن کو قیامت تک کے لیے مسلط کردے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے لیے شب کو لائے گا جس میں تم سکون پا سکو ! کیا تم دیکھتے نہیں ! یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور تاکہ تم اس کے فضل کے طالب بنو اور تاکہ تم اسی کے شکرگزار بنو۔ ) ایک اور حکمت جو ہمیں اس آیت کریمہ کی روشنی میں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح رات کا سایہ اس قدر ہمہ گیر ہوتا ہے کہ جس شخص نے اپنی آنکھوں سے رات اور دن کی آمد و رفت کا منظر نہ دیکھا ہو وہ کبھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ رات کی حکومت بھی کبھی زوال پذیر ہوگی۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ آخر وہ ختم ہو کے رہتی ہے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت کفروشرک اور جہالت کا سایہ پوری دنیا پر چھایا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اب کبھی روشنی طلوع نہیں ہوگی۔ اور یہ تاریکی ہمیشہ ہم پر مسلط رہے گی۔ لیکن جس طرح آفتاب کے طلوع ہوجانے کے بعد رات کی تاریکی چھٹ جاتی ہے، اسی طرح اب آفتابِ نبوت طلوع ہوچکا ہے۔ جیسے جیسے اس کی کرنیں پھیلتی جائیں گی اور جوں جوں یہ آفتاب اوپر اٹھتا جائے گا، کفر و شرک اور جہالت کی تاریکی سمٹتی جائے گی۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ جس طرح رات کی تاریکی ایک تدریج کے ساتھ آہستہ آہستہ سمٹتی اور دن کا اجالا آہستہ آہستہ پھیلتا ہے، دھوپ اور سائے میں یک لخت تغیرات نہیں ہوتے، کیونکہ یک لخت تغیر ایک جھٹکے کی صورت میں کہیں بھی شکست و ریخت کا باعث ہوسکتا ہے۔ اسی طرح حق کی روشنی بھی حادثاتی طور پر نہیں پھیلتی بلکہ تبلیغ و دعوت اور اخلاص کی قوت سے آہستہ آہستہ اس کا دائرہ اثر پھیلتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب کفر و شرک کی تاریکیوں کو کہیں جائے پناہ نہیں ملتی، اب بھی ایسا ہی ہو کے رہے گا۔
Top