Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف رَبِّكَ : اپنا رب كَيْفَ : کیسے مَدَّ الظِّلَّ : دراز کیا سایہ وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہتا لَجَعَلَهٗ : تو اسے بنا دیتا سَاكِنًا : ساکن ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الشَّمْسَ : سورج عَلَيْهِ : اس پر دَلِيْلًا : ایک دلیل
( اے مخاطب) کیا تو نے نہیں دیکھا اپنے پروردگار کی طرف کہ اس نے سائے کو کیسے دراز کیا ۔ اور اگر وہ چاہتا تو بنا دیتا اس کو ٹھہرا ہوا ۔ پھر ہم نے مقرر کیا سورج کو اس کے اوپر راہ بتلانے والا
ربط آیات گزشتہ آیات میں تسلی کا مضمون تھا۔ اس کے بعد مشرکوں کا رد تھا۔ عبرت کے لیے بعض سابقہ اقوام کا حال بیان ہوا اور ان کی سزا کا ذکر کیا گیا ۔ اللہ نے فرمایا کہ کافر اور مشرک لوگ اللہ کے نبی کو دیکھ کر اس کا تمسخر اڑاتے تھے ۔ اور اپنے باطل عقیدے پر پختگی کا اظہار کرتے تھے ۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ عنقریب عذاب الٰہی کو دیکھیں گے تو پھر انہیں پتہ چلے گا کہ گمراہ کون تھا اور راہ راست پر کون ۔ نیز یہ کہ ان لوگوں سے قبولیت حق کو توقع نہیں رکھنی چاہئے ، جو شخص اپنی خواہش کو ہی معبود بنا لیتا ہے ۔ وہ حق و باطل کی تمیز سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ نہ تو حق بات سنتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر کیونکہ جانور تو اپنے مقصد حیات کو پورا کر رہے ہیں مگر مشرک اور کافر اس سے بھی عاری ہیں ۔ اب آج کی بات میں اللہ تعالیٰ نے بعض دلائل قدرت بیان فرماتے ہیں اور اسی ضمن میں نبوت و رسالت کا تذکرہ بھی آ گیا ہے۔ سایہ بطور دلیل قدرت گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ کفار و مشرکین سننے اور سمجھنے سے محروم ہیں اگر یہ دلائل قدرت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ، تو توحید خداوندی آسانی سے سمجھ میں آسکتی تھی ۔ اب آج کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے دلیل توحید ہی کے علے میں سائے کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے الم ترالی ربک اے مخاطب ! کیا تو نے نہیں دیکھا اپنے رب کی طرف یہاں پر رویت بصری مراد نہیں بلکہ رویت قلبی اور رذیت علمی مراد ہے کیا تمہارے علم و فہم میں یہ بات نہیں کیف مد الظا کہ تیرے پروردگار نے سائے کو کس طرح دراز کیا ہر چیز کا سایہ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ۔ ولو شاء لجعلہ ساکنا اور وہ چاہتا تو اس سائے کو ساک یعنی ایک جگہ ٹھہرا ہوا با دیتا ہے اور ہر چیز کا سایہ گھٹنے بڑھنے کی بجائے ہمیشہ ایک ہی حالت پر قائم رہتا ۔ گویا سایہ میں کمی بیشی دلیل قدرت خداوندی ہے۔ پھر فرمایا ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلا کہ ہم نے سورج کو اس پر راہ بتلانے والا بنایا ہے ۔ سورج کی روشنی کی وجہ سے چیزوں کے سائے بنتے اور آگے پیچھے ہوتے ہیں ۔ گویا سائے کا گھٹنا اور بڑھنا سورج پر موقوف ہے ۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ہر چیز کا سایہ مغرب کی جانب پھیلتا ہے۔ پھر جوں جوں اوپر کی طرف آتا ہے۔ سایہ گھٹتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ عین دوپہر کے وقت سایہ اپنے فضل کے ساتھ آ کر مل جاتا ہے۔ پھر جب سورج مغرب کی طرف سفر شروع کرتا ہے تو سایہ مشرق کی طرف پھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔ اور غروب شمس کے ساتھ ہی سایہ بھی غائب ہوجاتا ہے۔ غرضیکہ سائے کا وجود سورج کے ساتھ متعلق ہے۔ سائے کے فوائد قرآن و سنت میں سائے کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ سایہ بھی دلائل قدرت میں سے ہے۔ بعض حالات میں سایہ تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے ، جب کہ بعض حالات میں یہ ایک نعمت ہوتا ہے۔ دھوپ اور شدید گرمی میں انسان کسی درخت ، پہاڑ یا دیوار کے سائے کے متلاشی ہوتے ہیں ۔ ترمذی شریف میں حضور ﷺ کا فرمان موجود ہے کہ جب مجاہد جہاد کے لیے جاتے ہیں تو اس وقت بہترین صدیقہ ظل فسطاط یعنی خیمہ کا سایہ ہے۔ مجاہدین کو خیمہ مہیا کردیا جسے وہ دوران سفر و حضر سائے کے طور پر استعمال کرسکیں ، بہت بڑی نیکی ہے۔ سائے کا ذکر دوزخیوں کی سزا کیلئے میں بھی آتا ہے۔ فِیْ سَمُوْمٍ وَّحَمِیْمٍ وَّ ظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ (الواقعہ : 24 ، 34) ا ن کے لیے تند و تیز ہوا اور سخت تپش ہوگی ۔ نیز دھوئیں کا سایہ ہوگا ، جو بہت ہی تکلیف دہ ہوگا ۔ جس طرح ہائیڈروجن بم سے زہریلا دھواں نکل کر تباہی پھیلاتا ہے۔ اسی طرح دوزخیوں کے لیے بھی نہایت ہی مہلک دھواں کا سایہ ہوگا ۔ زمانہ جاہلیت کا شاعر ابو کبیر ہذلی اپنے شکار کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ؎ ولقد صبرت علی السموم یکتنی قرد علی الیتین غیر مرجل میں نے سخت لو میں بڑا صبر کیا ۔ جب کہ میرے پاس کوئی چیز نہ تھی سو ائے سر کی لٹوں کے جو کہ غیر کنگی شدہ تھیں اور میری گردن پر سایہ فگن تھیں۔ مطلب یہ کہ اس قدر شدید تپش میں میرے سر کے بالوں کی لٹیں ہی میری گردن کو لو سے بچا رہی تھیں گردن کے پٹھے بڑے نازک ہوتے ہیں جو دھوپ لگنے سے خراب ہوجاتے ہیں ۔ اس کو لو لگنا یا (Sun Staoke) کہتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے اکثر لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ اسی لیے عرب کے لوگ سر پر رومال باندھتے ہیں ۔ جو ان کی گردن کو لو لگے سے محفوظ رکھتی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ اتقوا اللعین یعنی دو لعنت والی چیزوں سے بچو۔ لوگوں نے عرض کیا ! حضور ! وہ دو چیزیں کون سی ہیں ؟ فرمایا راستے میں پاسائے کی جگہ میں پاخانہ کرنا ۔ ظاہر ہے کہ اگر ان مقامات پر کوئی شخص گندگی پھیلائے گا تو راستہ چلنے والے یا سائے میں تھوڑی دیر آرام کرنے والے مسافروں کو تکلیف ہوگی ۔ لہٰذا ان دو جگہوں پر بول و برا نہ کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ایسا کرنے والوں کے حق میں مسافر لعنت کرینگے ۔ غزوہ فتح مکہ ماہ رمضان میں پیش آیا ۔ سخت گرمی کے ایام تھے ۔ حضور ﷺ دس ہزار صحابہ ؓ کی جماعت لے کر مدینہ سے نکلے۔ حضور ﷺ نے سفر میں روزہ افطار نہ کرنے کا حکم دیا ۔ پھر جب ایک دن کا سفر باقی رہ گیا تو فرمایا کہ کل تو دشمن سے مٹھ بھیڑ ہوجانے کا احتمال ہے لہٰذا روزہ نہ رکھو۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ اس سفر کے دوران ہم میں سے سایہ صرف اس شخص کے پاس ہوتا تھا جس کے پاس کوئی کمبل ہوتا تھا جسے وہ تان کر سایہ بنا لیتا تھا ، ورنہ ہم میں سے اکثر لوگ سورج کی تپش سے بچنے کے لیے اپنے چہروں کو ہاتھوں سے ہی ڈھانپتے تھے ، سایہ کے لیے کوئی خیمہ ، کپڑا یا درخت نہیں تھا۔ سایہ کے نقصانات موسم گرما میں جہاں سایہ راحت کا باعث ہوتا ہے وہاں سخت سرد ی میں سایہ تکلیف کا باعث بھی ہوتا ہے۔ جوں جوں سورج خط استوا سے دور اور قطبین سے قریب ہوتا جاتا ہے تو سردی بڑھتی جاتی ہے ۔ اور دھوپ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ مشہور ہے کہ سکندر اعظم کے زمانے میں یونان میں بڑے بڑے حکماء گزرے ہیں ۔ ان میں سے ایک دیو جانس کلبی تھا جو کتوں کے ساتھ بڑا انس رکھتا تھا۔ سردی کا موسم تھا ، یہ شخص دھوپ میں بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔ اسی اثناء میں آدھی دنیا کا حکمران سکندر اعظم اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور دست بستہ عرض کیا ۔ جناب عالی ! کوئی کار خدمت ہو تو حاضر ہوں ۔ کلبی نے نگاہ اٹھا کر سکندر اعظم کی طرف دیکھنا تو بولا ، مہربانی کر کے اپنا سایہ یہاں سے ہٹا دو اور مجھے دھوپ سے لطف اندوز ہونے دو ۔۔۔ بڑے آئے ہو۔ دنیاوی حاجتیں پوری کرنے والے ۔ جاد اپنا کار کرو ، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ یہ واقعہ علم کے استغناء کے سلسلے میں بیان کیا جاتا ہے۔ بہر حال اس وقت ایک آدمی کا سایہ بھی ناقابل برداشت ہو رہا تھا جب کہ یہی سایہ بعض اوقات باعث ِ رحمت ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ دنیا میں دو سکندر بڑے مشہور گزرے ہیں ۔ ایک سکندر ذوالقرنین ہے جس کا ذکر سورة الکہف میں ہے جس نے مشرق و مغرب کا سفر کیا تھا اور لوگوں کو یاجوج ماجوج کی یلغار سے بچانے کے لیے سد سکندری تعمیر کی تھی ، یہ شخص ایماندار تھا۔ دوسرا سکندر جو سکندر اعظم کے نام سے مشہو رہے ، یونان میں ہوا ہے۔ اس نے 13/ 23 سال کی عمر میں نصف دنیا کو فتح کیا ۔ اس کا زمانہ مسیح (علیہ السلام) سے کچھ عرصہ پہلے کا ہے ۔ یہ شخص مشرک تھا اور مذکورہ بالا واقعہ اسی کا ہے۔ سائے کی حقیقت سایہ حقیقت میں ایک تاریکی ہوتی ہے جو کبھی ہلکی اور کبھی بھاری ہوتی ہے ۔ اس مقام پر اللہ نے سائے کو بطور دلیل بیان فرماتا ہے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں کہ ان کے پہلے پہر کسی چیز کا سایہ سورج کی الٹی طرف گھٹتا چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اصل چیز کی جڑ سے آ کر مل جاتا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں ثم قبضنہ الینا قبضا یسیرا کا یہی مطلب ہے کہ ہم اس کو سمیٹ لیتے ہیں اپنی طرآہستہ آہستہ سمیٹنا ۔ وہ سایہ آہستہ آہستہ متعلقہ شے کی جڑ سے آ ملتا ہے۔ ہر چیز کی اصل تو ذات خداوندی ہے اور اس کا ارشاد ہے۔ وَاِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ (ہود : 321) سب چیزیں اسی کی طرف (1 ؎۔ موضع القرآن ص 534) (فیاض) رجوع کرتی ہیں ۔ کائنات کی کسی چیز کا اپنا کوئی مستقبل وجود نہیں بلکہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا عکس یا سایہ ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر چیز اس کی طرف لوٹتی ہے۔ بہر حال فرمایا کہ دن کے پہلے پہر میں ہر چیز کو اپنی طرف آہستہ آہستہ سمیٹ لیتے ہیں ۔ اور جب پچھلے پہر دوسرا رخ شروع ہوتا ہے تو سایہ دوسری طرف لمبا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ حتیٰ کہ جب سورج غروب ہوجاتا ہے تو سایہ بھی غائب ہوجاتا ہے۔ حضرت مولانا شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی (رح) اور بعض دیگر مفسرین 1 ؎ بیان کرتے ہیں کہ اسی سائے سے ہم دنیا کی ہستی کی مثال بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ اول عدم یعنی کچھ نہیں تھا ۔ پھر نور یعنی دنیا کا وجود آیا اور آخر میں یہ سب کچھ پھر عد میں چلا جائے گا یعنی پوری کائنات ختم ہوجائے گی ۔ جس طرح جسمانی نور اور سائے کی مثال ہے۔ اسی طرح ۔۔۔ روحانی نور اور ظلمت کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ جب انسانیت کفر ، شرک اور معاصی کی تاریکی میں مبتلا ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ آفتاب نبوت کی روشنی بھیجنا ہے جس کے ذریعے لوگوں کو صحیح راستہ نصیب ہوتا ہے گویا انبیاء کے ذریعہ نور ہدایت میسر آتا ہے ۔ توحید روشنی ہے اور کفر ، شرک اور معاصی ظلمت ہے۔ یہ ظلمت نبوت کی تعلیم یعنی آسمانی ہدایت کے ذریعے ہی دور ہوتی ہے۔ غرضیکہ اللہ نے فرمایا کہ اے مخاطب ! کیا تم نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں سائے کو کس طرح دراز کیا ، اور اگر وہ چاہتا تو یہ سایہ ایک ہی مقام پڑے رہتا ۔ مگر اس نے نظام شمسی اس طریقے سے قائم کیا ہے کہ سورج کی رفتار کے ساتھ ساتھ سایہ بھی گھٹتا بڑھتا رہتا ہے اور آخر میں بالکل ختم ہوجاتا ہے ۔ مطلب یہ کہ سائے کا گھٹنا بڑھنا سورج پر بیوقوف ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبین ﷺ (1 ؎۔ تفسیر عثمانی ص 174 ) (فیاض) کو سرا جامنیرا ( الاحزاب : 64) فرمایا ہے یعنی آپ ﷺ روشن چراغ ہیں ۔ اس طرح قرآن ، تورات اور انجیل کو بھی اللہ نے نور یعنی روشنی کا لقب دیا ہے۔ تو گویا جو روشن چراغ انبیاء کرام کتب سمایہ کی صورت میں لے کر آتے ہیں اس سے نور ہدایت پھیلتا ہے اور کفر ، شرک اور معاصی کی تاریکی دور ہوتی ہے۔ تو گویا یہ سایہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی توحید کی دلیل ہے تو دوسری طرف نبوت کی دلیل بھی بنتی ہے کہ نور نبوت کی بدولت ہی دنیا سے تاریکی دور ہوتی ہے۔ رات ، نیند اور دن آگے اللہ نے مزید تین چیزوں کو اپنی قدرت و وحدانیت کی دلیل کے طور پر بیان کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وھو الذی جعل لکم الیل لباسا اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے بمنزلہ لباس کے بنایا ہے۔ لباس سے انسان کو دو فوائد حاصل ہوتے ہیں ، ایک زینت اور دوسرا پردہ ۔ اللہ نے قرآن پاک میں لباس کی حکمت اس طرح بیان فرمائی ہے یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا (الاعراف : 62) اے آدم کے بیٹو ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہارے لیے پردہ پوشی کرتا ہے اور باعث زینت بھی ہے۔ ویسے بھی یہ عام مقولہ ہے الناس یا اللناس یعنی لوگ لباس پہن کر ہی اچھے لگتے ہیں جب کہ یہ برہنگی ایک عیب ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں 1 ؎ کہ تمام متمدن دنیا کے لوگ خواہ وہ کسی مذہب ، مسلک ، فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ، اس بات پر متفق ہیں کہ لباس باعث زینت اور برہنگی عیب ہے۔ برہنہ انسان جانوروں کی طرح ہوتا ہے۔ اللہ نے لباس نازل کر کے انسان کو شرف بخشا ہے ۔ گویا جس طرح انسان لباس پہن کر آرام پکڑتے ہیں ۔ اسی طرح رات بھی لوگوں کے لیے آرام و سکون کا باعث ہوتی ہے۔ (1 ؎۔ حجۃ اللہ البالغہ ص 04 ) (فیاض) پھر اللہ نے نیند کے متعلق فرمایا والیوم سباتا یعنی ہم نے نیند کو آرام کا ذریعہ بنایا ۔ انسانی صحت کے لیے نیند بہت ضروری ہے ۔ اطباء کے مطابق دن رات میں سات گھنٹے سونا ضروری ہے۔ مختلف طبائع کے مطابق کم و بیش بھی ہوتا ہے ۔ اگر کئی دن تک نیند نہ آئے تو دماغ میں خشکی پیدا ہو کر انسان شدید قسم کے مالیخولیا میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔ جب نیند آتی ہے تو انسان کی تحلیل شدہ قوتیں بحال ہوجاتی ہیں اور وہ تازہ دم ہو کر دوبارہ کام کاج کے قابل ہوجاتا ہے۔ بہر حال فرمایا کہ اللہ نے رات کو تمہارے لیے زینت اور پردہ پوشی کا ذریعہ بنایا اور نیند کو آرام و استراحت کا سبب بنایا۔ وجعل النھار نشورا اور دن کو اٹھ کر باہر نکلنے کا ذریعہ بنایا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل ہیں ۔ اگر انسان شب و رو کے اس نظام پر ہی غور کرے تو اسے اللہ کی وحدانیت سمجھ میں آسکتی ہے ۔ وہ جان سکتا ہے کہ یہ پورا نظام اللہ تعالیٰ ہی کا قائم کردہ ہے ، اس میں کسی دوسرے کا کوئی دخل نہیں ہے۔
Top