Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلٰى
: طرف
رَبِّكَ
: اپنا رب
كَيْفَ
: کیسے
مَدَّ الظِّلَّ
: دراز کیا سایہ
وَلَوْ شَآءَ
: اور اگر وہ چاہتا
لَجَعَلَهٗ
: تو اسے بنا دیتا
سَاكِنًا
: ساکن
ثُمَّ
: پھر
جَعَلْنَا
: ہم نے بنایا
الشَّمْسَ
: سورج
عَلَيْهِ
: اس پر
دَلِيْلًا
: ایک دلیل
( اے مخاطب) کیا تو نے نہیں دیکھا اپنے پروردگار کی طرف کہ اس نے سائے کو کیسے دراز کیا ۔ اور اگر وہ چاہتا تو بنا دیتا اس کو ٹھہرا ہوا ۔ پھر ہم نے مقرر کیا سورج کو اس کے اوپر راہ بتلانے والا
ربط آیات گزشتہ آیات میں تسلی کا مضمون تھا۔ اس کے بعد مشرکوں کا رد تھا۔ عبرت کے لیے بعض سابقہ اقوام کا حال بیان ہوا اور ان کی سزا کا ذکر کیا گیا ۔ اللہ نے فرمایا کہ کافر اور مشرک لوگ اللہ کے نبی کو دیکھ کر اس کا تمسخر اڑاتے تھے ۔ اور اپنے باطل عقیدے پر پختگی کا اظہار کرتے تھے ۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ عنقریب عذاب الٰہی کو دیکھیں گے تو پھر انہیں پتہ چلے گا کہ گمراہ کون تھا اور راہ راست پر کون ۔ نیز یہ کہ ان لوگوں سے قبولیت حق کو توقع نہیں رکھنی چاہئے ، جو شخص اپنی خواہش کو ہی معبود بنا لیتا ہے ۔ وہ حق و باطل کی تمیز سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ نہ تو حق بات سنتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر کیونکہ جانور تو اپنے مقصد حیات کو پورا کر رہے ہیں مگر مشرک اور کافر اس سے بھی عاری ہیں ۔ اب آج کی بات میں اللہ تعالیٰ نے بعض دلائل قدرت بیان فرماتے ہیں اور اسی ضمن میں نبوت و رسالت کا تذکرہ بھی آ گیا ہے۔ سایہ بطور دلیل قدرت گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ کفار و مشرکین سننے اور سمجھنے سے محروم ہیں اگر یہ دلائل قدرت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ، تو توحید خداوندی آسانی سے سمجھ میں آسکتی تھی ۔ اب آج کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے دلیل توحید ہی کے علے میں سائے کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے الم ترالی ربک اے مخاطب ! کیا تو نے نہیں دیکھا اپنے رب کی طرف یہاں پر رویت بصری مراد نہیں بلکہ رویت قلبی اور رذیت علمی مراد ہے کیا تمہارے علم و فہم میں یہ بات نہیں کیف مد الظا کہ تیرے پروردگار نے سائے کو کس طرح دراز کیا ہر چیز کا سایہ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ۔ ولو شاء لجعلہ ساکنا اور وہ چاہتا تو اس سائے کو ساک یعنی ایک جگہ ٹھہرا ہوا با دیتا ہے اور ہر چیز کا سایہ گھٹنے بڑھنے کی بجائے ہمیشہ ایک ہی حالت پر قائم رہتا ۔ گویا سایہ میں کمی بیشی دلیل قدرت خداوندی ہے۔ پھر فرمایا ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلا کہ ہم نے سورج کو اس پر راہ بتلانے والا بنایا ہے ۔ سورج کی روشنی کی وجہ سے چیزوں کے سائے بنتے اور آگے پیچھے ہوتے ہیں ۔ گویا سائے کا گھٹنا اور بڑھنا سورج پر موقوف ہے ۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ہر چیز کا سایہ مغرب کی جانب پھیلتا ہے۔ پھر جوں جوں اوپر کی طرف آتا ہے۔ سایہ گھٹتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ عین دوپہر کے وقت سایہ اپنے فضل کے ساتھ آ کر مل جاتا ہے۔ پھر جب سورج مغرب کی طرف سفر شروع کرتا ہے تو سایہ مشرق کی طرف پھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔ اور غروب شمس کے ساتھ ہی سایہ بھی غائب ہوجاتا ہے۔ غرضیکہ سائے کا وجود سورج کے ساتھ متعلق ہے۔ سائے کے فوائد قرآن و سنت میں سائے کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ سایہ بھی دلائل قدرت میں سے ہے۔ بعض حالات میں سایہ تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے ، جب کہ بعض حالات میں یہ ایک نعمت ہوتا ہے۔ دھوپ اور شدید گرمی میں انسان کسی درخت ، پہاڑ یا دیوار کے سائے کے متلاشی ہوتے ہیں ۔ ترمذی شریف میں حضور ﷺ کا فرمان موجود ہے کہ جب مجاہد جہاد کے لیے جاتے ہیں تو اس وقت بہترین صدیقہ ظل فسطاط یعنی خیمہ کا سایہ ہے۔ مجاہدین کو خیمہ مہیا کردیا جسے وہ دوران سفر و حضر سائے کے طور پر استعمال کرسکیں ، بہت بڑی نیکی ہے۔ سائے کا ذکر دوزخیوں کی سزا کیلئے میں بھی آتا ہے۔ فِیْ سَمُوْمٍ وَّحَمِیْمٍ وَّ ظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ (الواقعہ : 24 ، 34) ا ن کے لیے تند و تیز ہوا اور سخت تپش ہوگی ۔ نیز دھوئیں کا سایہ ہوگا ، جو بہت ہی تکلیف دہ ہوگا ۔ جس طرح ہائیڈروجن بم سے زہریلا دھواں نکل کر تباہی پھیلاتا ہے۔ اسی طرح دوزخیوں کے لیے بھی نہایت ہی مہلک دھواں کا سایہ ہوگا ۔ زمانہ جاہلیت کا شاعر ابو کبیر ہذلی اپنے شکار کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ؎ ولقد صبرت علی السموم یکتنی قرد علی الیتین غیر مرجل میں نے سخت لو میں بڑا صبر کیا ۔ جب کہ میرے پاس کوئی چیز نہ تھی سو ائے سر کی لٹوں کے جو کہ غیر کنگی شدہ تھیں اور میری گردن پر سایہ فگن تھیں۔ مطلب یہ کہ اس قدر شدید تپش میں میرے سر کے بالوں کی لٹیں ہی میری گردن کو لو سے بچا رہی تھیں گردن کے پٹھے بڑے نازک ہوتے ہیں جو دھوپ لگنے سے خراب ہوجاتے ہیں ۔ اس کو لو لگنا یا (Sun Staoke) کہتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے اکثر لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ اسی لیے عرب کے لوگ سر پر رومال باندھتے ہیں ۔ جو ان کی گردن کو لو لگے سے محفوظ رکھتی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ اتقوا اللعین یعنی دو لعنت والی چیزوں سے بچو۔ لوگوں نے عرض کیا ! حضور ! وہ دو چیزیں کون سی ہیں ؟ فرمایا راستے میں پاسائے کی جگہ میں پاخانہ کرنا ۔ ظاہر ہے کہ اگر ان مقامات پر کوئی شخص گندگی پھیلائے گا تو راستہ چلنے والے یا سائے میں تھوڑی دیر آرام کرنے والے مسافروں کو تکلیف ہوگی ۔ لہٰذا ان دو جگہوں پر بول و برا نہ کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ایسا کرنے والوں کے حق میں مسافر لعنت کرینگے ۔ غزوہ فتح مکہ ماہ رمضان میں پیش آیا ۔ سخت گرمی کے ایام تھے ۔ حضور ﷺ دس ہزار صحابہ ؓ کی جماعت لے کر مدینہ سے نکلے۔ حضور ﷺ نے سفر میں روزہ افطار نہ کرنے کا حکم دیا ۔ پھر جب ایک دن کا سفر باقی رہ گیا تو فرمایا کہ کل تو دشمن سے مٹھ بھیڑ ہوجانے کا احتمال ہے لہٰذا روزہ نہ رکھو۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ اس سفر کے دوران ہم میں سے سایہ صرف اس شخص کے پاس ہوتا تھا جس کے پاس کوئی کمبل ہوتا تھا جسے وہ تان کر سایہ بنا لیتا تھا ، ورنہ ہم میں سے اکثر لوگ سورج کی تپش سے بچنے کے لیے اپنے چہروں کو ہاتھوں سے ہی ڈھانپتے تھے ، سایہ کے لیے کوئی خیمہ ، کپڑا یا درخت نہیں تھا۔ سایہ کے نقصانات موسم گرما میں جہاں سایہ راحت کا باعث ہوتا ہے وہاں سخت سرد ی میں سایہ تکلیف کا باعث بھی ہوتا ہے۔ جوں جوں سورج خط استوا سے دور اور قطبین سے قریب ہوتا جاتا ہے تو سردی بڑھتی جاتی ہے ۔ اور دھوپ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ مشہور ہے کہ سکندر اعظم کے زمانے میں یونان میں بڑے بڑے حکماء گزرے ہیں ۔ ان میں سے ایک دیو جانس کلبی تھا جو کتوں کے ساتھ بڑا انس رکھتا تھا۔ سردی کا موسم تھا ، یہ شخص دھوپ میں بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔ اسی اثناء میں آدھی دنیا کا حکمران سکندر اعظم اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور دست بستہ عرض کیا ۔ جناب عالی ! کوئی کار خدمت ہو تو حاضر ہوں ۔ کلبی نے نگاہ اٹھا کر سکندر اعظم کی طرف دیکھنا تو بولا ، مہربانی کر کے اپنا سایہ یہاں سے ہٹا دو اور مجھے دھوپ سے لطف اندوز ہونے دو ۔۔۔ بڑے آئے ہو۔ دنیاوی حاجتیں پوری کرنے والے ۔ جاد اپنا کار کرو ، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ یہ واقعہ علم کے استغناء کے سلسلے میں بیان کیا جاتا ہے۔ بہر حال اس وقت ایک آدمی کا سایہ بھی ناقابل برداشت ہو رہا تھا جب کہ یہی سایہ بعض اوقات باعث ِ رحمت ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ دنیا میں دو سکندر بڑے مشہور گزرے ہیں ۔ ایک سکندر ذوالقرنین ہے جس کا ذکر سورة الکہف میں ہے جس نے مشرق و مغرب کا سفر کیا تھا اور لوگوں کو یاجوج ماجوج کی یلغار سے بچانے کے لیے سد سکندری تعمیر کی تھی ، یہ شخص ایماندار تھا۔ دوسرا سکندر جو سکندر اعظم کے نام سے مشہو رہے ، یونان میں ہوا ہے۔ اس نے 13/ 23 سال کی عمر میں نصف دنیا کو فتح کیا ۔ اس کا زمانہ مسیح (علیہ السلام) سے کچھ عرصہ پہلے کا ہے ۔ یہ شخص مشرک تھا اور مذکورہ بالا واقعہ اسی کا ہے۔ سائے کی حقیقت سایہ حقیقت میں ایک تاریکی ہوتی ہے جو کبھی ہلکی اور کبھی بھاری ہوتی ہے ۔ اس مقام پر اللہ نے سائے کو بطور دلیل بیان فرماتا ہے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں کہ ان کے پہلے پہر کسی چیز کا سایہ سورج کی الٹی طرف گھٹتا چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اصل چیز کی جڑ سے آ کر مل جاتا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں ثم قبضنہ الینا قبضا یسیرا کا یہی مطلب ہے کہ ہم اس کو سمیٹ لیتے ہیں اپنی طرآہستہ آہستہ سمیٹنا ۔ وہ سایہ آہستہ آہستہ متعلقہ شے کی جڑ سے آ ملتا ہے۔ ہر چیز کی اصل تو ذات خداوندی ہے اور اس کا ارشاد ہے۔ وَاِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ (ہود : 321) سب چیزیں اسی کی طرف (1 ؎۔ موضع القرآن ص 534) (فیاض) رجوع کرتی ہیں ۔ کائنات کی کسی چیز کا اپنا کوئی مستقبل وجود نہیں بلکہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا عکس یا سایہ ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر چیز اس کی طرف لوٹتی ہے۔ بہر حال فرمایا کہ دن کے پہلے پہر میں ہر چیز کو اپنی طرف آہستہ آہستہ سمیٹ لیتے ہیں ۔ اور جب پچھلے پہر دوسرا رخ شروع ہوتا ہے تو سایہ دوسری طرف لمبا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ حتیٰ کہ جب سورج غروب ہوجاتا ہے تو سایہ بھی غائب ہوجاتا ہے۔ حضرت مولانا شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی (رح) اور بعض دیگر مفسرین 1 ؎ بیان کرتے ہیں کہ اسی سائے سے ہم دنیا کی ہستی کی مثال بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ اول عدم یعنی کچھ نہیں تھا ۔ پھر نور یعنی دنیا کا وجود آیا اور آخر میں یہ سب کچھ پھر عد میں چلا جائے گا یعنی پوری کائنات ختم ہوجائے گی ۔ جس طرح جسمانی نور اور سائے کی مثال ہے۔ اسی طرح ۔۔۔ روحانی نور اور ظلمت کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ جب انسانیت کفر ، شرک اور معاصی کی تاریکی میں مبتلا ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ آفتاب نبوت کی روشنی بھیجنا ہے جس کے ذریعے لوگوں کو صحیح راستہ نصیب ہوتا ہے گویا انبیاء کے ذریعہ نور ہدایت میسر آتا ہے ۔ توحید روشنی ہے اور کفر ، شرک اور معاصی ظلمت ہے۔ یہ ظلمت نبوت کی تعلیم یعنی آسمانی ہدایت کے ذریعے ہی دور ہوتی ہے۔ غرضیکہ اللہ نے فرمایا کہ اے مخاطب ! کیا تم نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں سائے کو کس طرح دراز کیا ، اور اگر وہ چاہتا تو یہ سایہ ایک ہی مقام پڑے رہتا ۔ مگر اس نے نظام شمسی اس طریقے سے قائم کیا ہے کہ سورج کی رفتار کے ساتھ ساتھ سایہ بھی گھٹتا بڑھتا رہتا ہے اور آخر میں بالکل ختم ہوجاتا ہے ۔ مطلب یہ کہ سائے کا گھٹنا بڑھنا سورج پر بیوقوف ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبین ﷺ (1 ؎۔ تفسیر عثمانی ص 174 ) (فیاض) کو سرا جامنیرا ( الاحزاب : 64) فرمایا ہے یعنی آپ ﷺ روشن چراغ ہیں ۔ اس طرح قرآن ، تورات اور انجیل کو بھی اللہ نے نور یعنی روشنی کا لقب دیا ہے۔ تو گویا جو روشن چراغ انبیاء کرام کتب سمایہ کی صورت میں لے کر آتے ہیں اس سے نور ہدایت پھیلتا ہے اور کفر ، شرک اور معاصی کی تاریکی دور ہوتی ہے۔ تو گویا یہ سایہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی توحید کی دلیل ہے تو دوسری طرف نبوت کی دلیل بھی بنتی ہے کہ نور نبوت کی بدولت ہی دنیا سے تاریکی دور ہوتی ہے۔ رات ، نیند اور دن آگے اللہ نے مزید تین چیزوں کو اپنی قدرت و وحدانیت کی دلیل کے طور پر بیان کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وھو الذی جعل لکم الیل لباسا اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے بمنزلہ لباس کے بنایا ہے۔ لباس سے انسان کو دو فوائد حاصل ہوتے ہیں ، ایک زینت اور دوسرا پردہ ۔ اللہ نے قرآن پاک میں لباس کی حکمت اس طرح بیان فرمائی ہے یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا (الاعراف : 62) اے آدم کے بیٹو ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہارے لیے پردہ پوشی کرتا ہے اور باعث زینت بھی ہے۔ ویسے بھی یہ عام مقولہ ہے الناس یا اللناس یعنی لوگ لباس پہن کر ہی اچھے لگتے ہیں جب کہ یہ برہنگی ایک عیب ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں 1 ؎ کہ تمام متمدن دنیا کے لوگ خواہ وہ کسی مذہب ، مسلک ، فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ، اس بات پر متفق ہیں کہ لباس باعث زینت اور برہنگی عیب ہے۔ برہنہ انسان جانوروں کی طرح ہوتا ہے۔ اللہ نے لباس نازل کر کے انسان کو شرف بخشا ہے ۔ گویا جس طرح انسان لباس پہن کر آرام پکڑتے ہیں ۔ اسی طرح رات بھی لوگوں کے لیے آرام و سکون کا باعث ہوتی ہے۔ (1 ؎۔ حجۃ اللہ البالغہ ص 04 ) (فیاض) پھر اللہ نے نیند کے متعلق فرمایا والیوم سباتا یعنی ہم نے نیند کو آرام کا ذریعہ بنایا ۔ انسانی صحت کے لیے نیند بہت ضروری ہے ۔ اطباء کے مطابق دن رات میں سات گھنٹے سونا ضروری ہے۔ مختلف طبائع کے مطابق کم و بیش بھی ہوتا ہے ۔ اگر کئی دن تک نیند نہ آئے تو دماغ میں خشکی پیدا ہو کر انسان شدید قسم کے مالیخولیا میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔ جب نیند آتی ہے تو انسان کی تحلیل شدہ قوتیں بحال ہوجاتی ہیں اور وہ تازہ دم ہو کر دوبارہ کام کاج کے قابل ہوجاتا ہے۔ بہر حال فرمایا کہ اللہ نے رات کو تمہارے لیے زینت اور پردہ پوشی کا ذریعہ بنایا اور نیند کو آرام و استراحت کا سبب بنایا۔ وجعل النھار نشورا اور دن کو اٹھ کر باہر نکلنے کا ذریعہ بنایا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل ہیں ۔ اگر انسان شب و رو کے اس نظام پر ہی غور کرے تو اسے اللہ کی وحدانیت سمجھ میں آسکتی ہے ۔ وہ جان سکتا ہے کہ یہ پورا نظام اللہ تعالیٰ ہی کا قائم کردہ ہے ، اس میں کسی دوسرے کا کوئی دخل نہیں ہے۔
Top