Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 274
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال بِالَّيْلِ : رات میں وَالنَّهَارِ : اور دن سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر فَلَھُمْ : پس ان کے لیے اَجْرُھُمْ : ان کا اجر عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو لوگ اپنا مال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر راہ خدا میں خرچ کرتے رہتے ہیں ان کا صلہ پروردگار کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کی دن) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ غم
آیت نمبر 274 تا 281 ترجمہ : جو لوگ اپنا مال رات اور دن، پوشیدہ اور آشکار اخرچ کرتے رہتے ہیں سو ان لوگوں کے لیے ان کے پروردگار کے پاس اجر ہے نہ ان کے لیے کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ سود کھاتے ہیں یعنی سود لیتے ہیں اور وہ معاملات میں نقود کی زیادتی اور ماکولات میں مقدار یا مدت میں زیادتی ہے، وہ لوگ قبروں سے نہ کھڑے ہو سکیں گے مگر اس شخص کے مانند جس کو شیطان لپٹ کر خبطی بنا دیتا ہے (یعنی) جس کو شیطان پچھاڑ دیتا ہے، ان کو جنون ہونے کی وجہ سے (مِنَ المَسِّ ) یقومون کے متعلق ہے۔ ان کی یہ حالت اس وجہ سے ہوگی کہ انہوں نے کہا تھا کہ بیع تو جواز میں سود کے مانند ہے اور یہ مبالغہ کے لیے الٹی تشبیہ ہے، ان کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے، پھر جس کے پاس اس کے پروردگار کی نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود خوری سے باز آگیا تو ممانعت سے پہلے جو کچھ ہوچکا ہے وہ اس کا ہے (یعنی) اس سے واپس نہ لیا جائے گا، اور اس کے معاف کرنے کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے اور جو شخص سودخوری کی طرف لوٹے سود کو حلت میں بیع کے مشابہ قرار دیتے ہوئے تو یہی لوگ دوزخی ہیں، سو اس میں یہ لوگ ہمیشہ پڑے رہیں گے، اور اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے یعنی اس کو کم کرتا ہے اور اس کی برکت ختم کردیتا ہے اور صدقات میں اضافہ کرتا ہے (یعنی) اس کو نشو و نما دیتا ہے اور اس کا اجر دوگنا کردیتا ہے، اور اللہ سود کو حلال قرار دے کر کسی کفر کرنے والے اور سود خوری کرکے گنہگار (فاجر) کو پسند نہیں کرتا۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور نماز کی پابندی کی اور زکوٰۃ دی ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو (یعنی) اگر تم اپنے ایمان میں سچے ہو، اس لیے کہ مومن کی شان اللہ کا حکم بجالانا ہے، (آئندہ) آیت اس وقت نازل ہوئی جب بعض صحابہ نے سود کی ممانعت کے بعد سابقہ سود کا مطالبہ کیا، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے ساتھ اعلان جنگ ہے، اس میں ان کے لیے شدید دھمکی ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو (صحابہ) نے کہا ہم میں اس کے ساتھ جنگ کی طاقت نہیں، اور اگر تم توبہ کرلو یعنی اس سے باز آجاؤ تو (رأس المال) اصل سرمایہ کا تم کو حق ہے نہ تم زیادتی کرکے ظلم کرو۔ اور نہ کمی کرکے تم پر ظلم کیا جائے اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو تمہارے اوپر اس کی کشادہ دستی تک اس کے لیے مہلت ہے، (یعنی وصول یابی کو مؤخر کرنا ہے) (مَیْسَرَۃ) سین کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ، یعنی اس کی خوشحالی تک اور اگر تم معاف کردو (تَصَّدَّقُوْا) تشدید کے ساتھ تاء کو صاد میں ادغام کرکے اور تخفیف کے ساتھ تاء کو حذف کرکے، یعنی تنگ دست سے قرض معاف کرکے بری کردو۔ تو تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو کہ یہ بہتر ہے تو ایسا کرلو، حدیث میں ہے کہ جس نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس سے اپنا قرض معاف کردیا تو اللہ اس کو اپنے سایہ میں رکھیں گے جس دن کہ اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، (رواہ مسلم) اور اس دن سے ڈرو جس دن تم کو اللہ کی طرف لوٹا یا جائے گا مجہول کے صیغہ کے ساتھ۔ معنی لوٹائے جاؤ گے، اور معروف کے صیغہ کے ساتھ، یعنی تم لوٹو گے، وہ قیامت کا دن ہے پھر اس دن میں ہر شخص کو اس کے اعمال کا جو اس نے اچھے برے کئے ہوں گے، پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور ان کے اعمال حسنہ میں کمی کرکے یا اعمال سیئہ میں اضافہ کرکے ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ای یاخذوْنَہ، اس اضافہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اکل (کھانے) سے مراد صرف کھانا ہی نہیں ہے بلکہ مطلقا لینا ہے خواہ کھائے یا لباس بنائے یا جمع کرکے رکھے یا کسی دوسرے کام میں استعمال کرے، مگر کھانا چونکہ اہم مصارف میں سے ہے اس لیے صرف کھانے کا ذکر کیا ہے۔ قولہ : المطعومات، یہ قید مفسر علام نے امام شافعی (رح) تعالیٰ کے مذہب کے مطابق لگائی ہے اس لیے کہ ربوا کے لیے ان کے نزدیک ازقبیل مطعومات یا ثمنیات ہونا ضروری ہے، امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک قدروجنس میں اتحاد کافی ہے، ازقبیل مطعوم ہونا ضروری ہے۔ قولہ : فی القدر او الاجل یہ المعاملہ سے بدل ہے قدر کا تعلق ربوا فضل سے ہے اور یہ اتحاد جنس کی صورت میں ہوگا اور اَلْاَجل کا تعلق اتحاد کے ساتھ ہے، اگر جنس مختلف ہو اور قدر میں اتحاد ہو تو تفاضل جائز ہے اور ادھار ناجائز ہوگا۔ قولہ : من قبودھم مفسر علام نے مِن قبورھم کی قید لگا کر اس شبہ کا جواب دیا کہ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی سود خور ہیں مگر ان کے قیام و قعود میں کسی قسم کا خبط و عدم توازن نہیں ہوتا یہ تو واقعہ کے خلاف معلوم ہوتا ہے حالانکہ کلام باری میں کذب نہیں ہوسکتا۔ جواب : قیام سے مراد روز محشر اپنی قبروں سے کھڑا ہونا ہے نہ کہ دنیا میں کھڑا ہونا اسی شبہ کے جواب کے لیے مِن قبورھم کی قید کا اضافہ کیا ہے۔ قولہ : قِیامًا۔ سوال : لفظ قیام کے اضافہ کا کیا فائدہ ؟۔ جواب : یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ ، میں حرف استثناء حرف (کاف) پر داخل ہے حالانکہ حرف استثناء کا حرف پر داخل ہونا صحیح نہیں ہے ” ما “ خواہ موصولہ ہو یا مصدریہ۔ جواب : مستثنیٰ محذوف ہے اور وہ قیامًا، ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ قولہ : یَتَخَبَّطُہُ (تفعَل) سے مضارع واحد مذکر غائب ” ہ “ ضمیر مفعول، اس کو پاگل بنا دیتا ہے، خَبْط کے اصل معنیٰ غیر متوازن طریقہ پر چلنا کخبط العشواء بےڈھنگے پن سے چلنے والی اونٹنی یہ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی غیر متوازن طریقہ سے چلے۔ قولہ : من الجنون یہ اَلْمَسْ کی تفسیر ہے۔ قولہ : مِن عکسِ التشبیہ الخ عکس اس لیے ہے کہ کلام ربوا میں ہے نہ کہ بیع میں لہٰذا ربوا کو بیع کے ساتھ تشبیہ دینا چاہیے تھا نہ کہ بیع کو ربوا کے ساتھ، ایسا مبالغہ کے طور پر کیا ہے، اس لیے کہ جواز ربوا ان کے نزدیک اصل تھا اسی پر بیع کو قیاس کیا۔ قولہ : وعظ، موعظۃ، کی تفسیر وعظ سے کرکے اشارہ کردیا کہ موعظۃ مصدر میمی ہے نہ کہ ظرف۔ قولہ : عنہ، ای عن آکل الربوا۔ قولہ : الی اکلہٖ مشبھاً لہ بِالْبَیْعِ فی الحِلِّ اس عبارت سے ایک سوال کا جواب مقصود ہے۔ سوال : یہ ہے کہ آیت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ممانعت کے بعد اکل ربوا کا اعادہ و ارتکاب کرے گا تو وہ دائمی طور پر دوزخ میں جائے گا، جو کہ معتزلہ کا نظریہ ہے۔ جواب : کا خلاصہ یہ ہے کہ دائمی جہنم میں داخل اس صورت میں ہوگا کہ ربوا کو بیع کی مانند حلال سمجھ کر استعمال کرے۔ قولہ : یُعَاقِبہٗ یہ لَایُحبُّ کی تفسیر ہے۔ قولہ : بِحَربٍ ، حرب کی تنکیر تعظیم وشدت پر دلالت کرتی ہے، نیز اللہ اور اس کے رسول کی جانب نسبت سے اس کی شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ قولہ : لا یَدَی لَنَا، ای لاطاقۃ لنا۔ قولہ : وَقَعَ غَریمٌ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کان تامّہ ہے اس کو خبر کی ضرورت نہیں ہے یعنی کانَ ، بمعنیٰ وَقَعَ ہے۔ قولہ : ای عَلَیْکُمْ تاخیرہ، فَنَظرۃ، مبتداء ہے اس کی خبر عَلَیْکُمْ تاخِیْرَہٗ محذوف ہے، خبر کے حذف کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی تاکہ فَنَظرۃ جملہ ہو کر جواب شرط واقع ہوجائے، تاخیرہ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ نَظِرۃ، اِنظار سے ہے جو بمعنی مہلت ہے نہ کہ نظر سے بمعنیٰ رویت۔ قولہ : وقت یسرہ اس سے اشارہ کردیا کہ مَیْسرۃ، ظرف ہے مصدر میمی نہیں ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ (1) اَلَذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبٰوا (الآیۃ) اس آیت میں تشبیہ تمثیل (تشبیہ مرکب) استعمال ہوئی ہے سود خور کی جو حالت روز محشر قبر سے نکلنے کے وقت ہوگی اس کیفیت کو مشبہ بہ اور دنیا میں جو ایک سود خور کی کیفیت ہوتی ہے اس کو مشبہ قرار دے کر تشبیہ مرکب منتزع کی گئی ہے، اسی کا نام تشبیہ تمثیلی ہے۔ دراصل اس آیت میں روز قیامت سود خوروں کے قبروں سے نکلنے کی حالت کی منظر کشی کی گئی ہے، سودخور اپنی قبروں سے نکلنے کے وقت سیدھے کھڑے تک نہ ہو سکیں گے کھڑے ہوں گے بھی تو دیوانوں، متوالوں، خبطیوں اور شرابیوں کی طرف گرتے پڑتے لڑکھڑاتے ہوئے غیر متوازن طریقہ سے کھڑے ہوں گے، جیسا کہ اس حالت کی ایک ہلکی سی جھلک سود خور میں دنیا میں بھی پائی جاتی ہے، مہاجن، ساہوکار جو روپے کے پیچھے دیوانہ باؤلا رہتا ہے واقعی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسے بھوت لپٹ گیا ہے اور اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاگتے بس اس پر ایک ہی دھن سوار رہتی ہے اور وہ دھن ہوتی ہے سود کی، جس کی حرص وطمع اس قدر بڑھی ہوئی ہو لازم ہے کہ اس کا حشر بھی اسی مخبوط جنون زدہ حالت کے ساتھ ہو۔ (2) اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثَلُ الرِّبوٰا، اس میں تشبیہ قلب جس کا عکس بھی کہتے ہیں استعمال ہوئی ہے یعنی بیع کو مشبہ اور ربوا کو مشبہ بہ قرار دیا ہے بطور مبالغہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حلت میں اصل ربوا ہے اور بیع بھی حلت میں ربوا کے مانند ہے حالانکہ حلت میں اصل بیع ہے بیع کو مشبہ بہ اور ربوا کو مشبہ ہونا چاہیے تھا۔ تفسیر و تشریح اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ (الآیۃ) اس آیت میں ان لوگوں کے اجر عظیم اور فضیلت کا بیان ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے عادی ہیں، یعنی جس وقت، جس گھڑی، جب بھی ضرورت ہو خواہ دن ہو یا رات غرضیکہ ہمہ وقت فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ شان نزول : صاحب روح المعانی نے بحوالہ ابن عساکر نقل کیا ہے کہ حضرت صدیق اکبر ؓ نے چالیس ہزار دینار اللہ کی راہ میں اس طرح خرچ کئے کہ دس ہزار دن میں دس ہزار رات میں، دس ہزار پوشیدہ طریقہ سے اور دس ہزار علانیہ طریقہ سے، تو ان کی فضیلت بیان کرنے کے لیے مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ عبد الرزاق اور عبد بن حمید وغیرہ نے عبد الوہاب ابن مجاہد عن ابیہ عن ابن عباس کے طریق سے اس آیت کا نزول حضرت علی کی شان میں نقل کیا ہے، کہ حضرت علی ؓ کے پاس چار درہم تھے انہوں نے ایک کو رات میں اور ایک کو دن میں اور ایک کو پوشیدہ طریقہ سے اور ایک کو علانیہ طریقہ سے خرچ کیا، اس کے علاوہ بھی اور روایتیں مذکور ہیں۔ (فتح القدیر شوکانی)
Top