Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 276
یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ
يَمْحَقُ : مٹاتا ہے اللّٰهُ : اللہ الرِّبٰوا : سود وَيُرْبِي : اور بڑھاتا ہے الصَّدَقٰتِ : خیرات وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : ہر ایک كَفَّارٍ : ناشکرا اَثِيْمٍ : گنہگار
اللہ مٹاتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے صدقات کو، اور اللہ دوست نہیں رکھتا کسی کفر کرنے والے، گناہ کرنے والے کو
صدقات کی برکات اور سود کی بربادی سود خوروں کی مذمت بیان فرمانے کے بعد اس آیت شریفہ میں سود اور صدقات کے درمیان ایک فرق عظیم بتایا ہے اور وہ یہ کہ صدقات کو اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے اور سود کے مال کو بےبرکت کردیتا ہے اور اس کو برباد اور تلف فرما دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ سود اگرچہ بہت ہوجائے اس کا انجام کمی کی طرف ہوجائے گا۔ (رواہ ابن ماجہ والبیہقی فی شعب الایمان و احمد کما فی المشکوٰۃ ص 246) دنیا میں سودی مالوں کی بےبرکتی تو سب کی نظروں کے سامنے ہے، سود خور ہمیشہ ایک کے دس کرنے ہی کے فکر میں رہتا ہے اور پیسہ ہی اس کی زندگی بن جاتا ہے۔ خدائے پاک کی رضا کے لیے کوئی کام کرے اس سے تو اس کا ذہن فارغ ہی رہتا ہے اس میں بےرحمی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ حاجت مند کی حاجت دیکھتا ہے اور اس کی مجبوری سے مال حاصل کرنے کا راستہ نکالتا ہے اور مجبور اور بےکس کو سود پر قرض دے دیتا ہے اور خیر کے کاموں میں اس کا مال خرچ ہونے کا تو ذکر ہی کیا ہے ؟ پھر سود سے جو مال جمع ہوتا ہے اس سے اسباب معیشت تو جمع ہوجاتے ہیں لیکن سکون و اطمینان سلب ہوجاتا ہے۔ اسباب راحت ہیں۔ راحت نہیں، پھر یہ سودی اموال ہلاک ہوجاتے ہیں مالوں سے بھرے ہوئے جہاز ڈوب جاتے ہیں اور بینک دیوالیے ہوتے رہتے ہیں، یہ سب باتیں نظروں کے سامنے ہیں اگر کسی سود خود کا مال دنیا میں ہلاک اور برباد نہ ہوا تو آخرت میں لے جانے کا ذریعہ بنے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی شخص حرام مال کما کر صدقہ کرے گا تو وہ قبول نہ ہوگا اور جو کچھ اس میں سے خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہوگی۔ اور اپنے پیچھے چھوڑ کر جائے گا تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ میں لیجانے والا توشہ بنے گا۔ (رواہ احمد کمافی المشکوٰۃ ص 242) پھر جو حرام مال آل و اولاد پر زندگی میں خرچ ہوتا ہے اور جو موت کے بعد ان کو پہنچے گا اور ان پر خرچ ہوگا وہ ان کے لیے بھی و بال ہوگا۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو گوشت حرام سے بڑھا ہو، جنت میں داخل نہ ہوگا اور جو گوشت حرام سے بڑھا دوزخ کی آگ اس کی زیادہ مستحق ہوگی۔ (احمد و دارمی، مشکوٰۃ ص 242) اس مال کی کثرت کس کام کی جو صاحب مال کے لیے اور اس کی اولاد کے لیے دوزخ میں جانے کا ذریعہ بنے اور دنیا میں بےبرکت ہو اور اس کی وجہ سے آرام و چین مفقود ہو، بر خلاف حلال مال کے کہ وہ خواہ تھوڑا ہی ہو اس میں برکت ہوتی ہے۔ اس میں سے جو صدقہ کردیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوتا ہے اور تھوڑا مال بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے تو بہت زیادہ چند در چند مضاعف کردیا جاتا ہے جس کا بےانتہا ثواب آخرت میں ملے گا۔ پھر فرمایا (وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ ) یعنی جو شخص سود کی حرمت کا قائل نہ ہو اس کو حلال سمجھے اور کفر اختیار کرے اور سود کھا کھاکر خدائے پاک کی نافرمانی کرے اللہ تعالیٰ کو ایسا شخص پسند نہیں ہے وہ شخص اللہ کا مبغوض ہے۔
Top