Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 276
یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ
يَمْحَقُ : مٹاتا ہے اللّٰهُ : اللہ الرِّبٰوا : سود وَيُرْبِي : اور بڑھاتا ہے الصَّدَقٰتِ : خیرات وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : ہر ایک كَفَّارٍ : ناشکرا اَثِيْمٍ : گنہگار
اللہ الربوا کو مٹاتا ہے اور صدقہ و خیرات کو بڑھاتا ہے اور اللہ ایسے ناقدر شناسوں ، منکروں اور نافرمانوں کو کبھی پسند نہیں کرتا
سود کیا ہے ؟ ” اللہ سود کو مٹاتا ہے “ کا مطلب ؟ 486: سود کیا ہے ، سود کی تعریف اس طرح کی گئی ہے : الامر الذی کان مشھورا متعارفا فی الجاھلیۃ انھم کانوا یدفعن المال علٰی ان یاخذوا کل شھرا قدرا معینا و یکون رأس المال باقیا ثم إذا حل الدین طالبوا المدیون برأس المال فان تعذر علیہ الاداء ازدادوا فی الحق والاجل . (کبیر رازی) زمانہ جاہلیت میں ربوا ایک مشہور و متعارف امر تھا۔ جس میں امیر غریب کا کوئی تصور موجود نہ تھا ، ان کا قاعدہ یہ تھا کہ وہ اس شرط پر قرض دیتے کہ ہر ماہ ایک معین رقم وصول کرلیا کریں گے اور اصل رقم بدستور باقی رہے گی۔ پھر جب قرض کے ادا کرنے کا وقت آجاتا تو قرضدار سے رأس المال طلب کرتے۔ اگر وہ اصل رقم کے ادا کرنے ہی سے اپنے آپ کو معذر پاتا تو رقم اور مدت دونوں میں اضافہ کردیتے۔ ظاہر ہے کہ یہ مقروض ایسا ہی مقروض ہو سکتا ہے جو قرض لے کر کھاچکا ہے اور اب واپسی اس کے بس میں نہیں ہے اور اس لیے اسلام نے اس کو صدقہ و خیرات دینے کا حکم دیا ہے ، نہ کہ قرض کا۔ ہماری سمجھ کے مطابق پاک و ہند میں بھی بالکل اسی طرح کیا جاتا ہے۔ عرب اس کو ربا کہتے ہیں اور یہاں اس کو سود اور بیاج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، یہاں بھی شیخ و خواجہ اور ساہوکار ، مہاجن یہی کچھ کرتے ہیں کہ سود و بیاج کو اپنی سہولت کے اعتبار سے ماہوار یا سوال کے ختم پر کاغذی طور سے وصول کر کے رأس المال میں شامل کرلیتے ہیں اور جب یہ صورت ہوجاتی ہے تو پھر اس کو سود در سود کہنے لگتے ہیں۔ اس مسئلہ کے متعلق کوئی اختلاف عرب و عجم میں نہیں۔ ہاں ! جوں جوں زمانہ ترقی پذیر ہے توں توں ربوا کے بھی نئے نئے طریقوں میں اضافہ ہو رہے۔ نئے نئے نام اور نئی نئی ترکیبوں سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ نزول قرآن کے وقت تو اس کو مَس شیطان سے تعبیر کیا گیا تھا لیکن آج لوگوں نے ایسی ایسی ترکیبیں نکال لیں ہیں کہ شیطان کو بھی کان پکڑوا دیتے ہیں اور اگر یہ صحیح نہیں ہے تو پھر لوگ گویا خود ہی شیطان ہوگئے ہیں۔ خصوصاً وہ علماء حضرات جنہوں نے محض نام بدل کر ” اسلامی بنک “ کے نام سے لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ ” الربوا “ کیا ہے ؟ خوب سمجھ لو کہ کسی حاجتمند و ضرورتمند کی حاجت و ضرورت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا نام ربوا ہے۔ ہم جنس اشیاء میں سے کم دے کر زیادہ و صول کرنے کا نام ربوا ہے۔ دھوکا اور فریب کر کے مال کمانا ربوا ہے۔ سرمایہ کاری کا ہر وہ طریقہ جس سے سرمایہ دار کا سرمایہ اس طرح بڑھے کہ غریب پہلے سے بھی غریب تر ہوتا جائے ایسی سرمایہ کاری ربوا کی سرمایہ کاری ہے۔ ” اللہ ” الربوا “ کو مٹاتا ہے “ یہ فقرہ ” الربوا “ کی ممانعت کی علت ظاہر کرتا ہے اور لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ اللہ تمہارے ” الربوا “ لینے سے خوش نہیں اور نت نئے طریقے نکالنے کا یہ مطلب نہیں کہ اب ” الربوا “ ، ” الربوا “ نہیں رہا۔ دین اسلام کا مقصد یہ ہے کہ ” الربوا “ کو مٹائے اور اس کے مٹانے کا طریقہ یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کے جذبہ کو ترقی دی جائے۔ جس قدر صدقہ و خیرات میں ترقی ہوگی ، ” الربوا “ اتنا ہی مٹتا چلا جائے گا۔ اللہ ” الربوا “ کو مٹاتا ہے یعنی تم کو صدقہ و خیرات کا حکم دیتا ہے اور ” الربوا “ لینے کی عادت بد سے منع کرتا ہے۔ اگر خیرات کا جذبہ پوری طرح ترقی کر جائے تو سوسائٹی کا کوئی فرد محتاج و مفلس ہو ہی نہیں سکتا۔ ” اللہ ” الربوا “ کی خواہش کو مٹا کر صدقہ و خیرات کی خواہش کو نشو ونما دینا چاہتا ہے “ اس آیت میں ایک ایسی صداقت بیان کی گئی ہے جو اخلاقی و روحانی حیثیت سے بھی سراسر حق ہے اور معاشی اور تمد ّنی حیثیت سے بھی۔ اگرچہ بظاہر ” الربوا “ سے دولت بڑھتی نظر آتی ہے اور صدقات سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے ، اللہ کا قانون فطرت یہی ہے کہ ” الربوا “ اخلاقی و روحانی ، معاشی اور تمد ّنی ترقی میں نہ صرف مانع ہوتا ہے بلکہ تنزل کا ذریعہ بنتا ہے اور اس کے برعکس صدقات ہیں جن میں قرض حسنہ بھی شامل ہے ، ان میں اخلاق و روحانیت اور تمد ّن و معیشت ہرچیز کو نشو ونما نصیب ہوتی ہے۔ اخلاقی و روحانی حیثیت سے دیکھیے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ ” الربوا “ دراصل خودغرضی ، بخل ، تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کو جنم دیتا ہے اور انہی صفات کو انسان میں نشو ونما بھی دیتا ہے۔ اس کے برعکس صدقات و خیرات نتیجہ ہیں ، فیاضی ، ہمدردی ، فراخ دلی اور عالی ظرفی جیسی صفات کا اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر پرورش پاتی ہیں۔ کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموعہ کو بدترین اور دوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو۔ دُور نہ جاؤ کسی الربوا خور ہی سے پوچھ کر دیکھ لو۔ تمد ّنی حیثیت سے دیکھئے تو بادنیٰ تا مل سے یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آجائے گی کہ جس سوسائٹی میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ خودغرضی کا معاملہ کریں۔ کوئی شخص اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے۔ ایک آدمی کی حاجت مندی کو دوسرا آدمی اپنے لیے نفع اندوزی کا موقع سمجھے اور اس کا پورا فائدہ اٹھائے اور مالدار طبقوں کا مفاد عامۃ الناس کے مفاد کی ضد ہوجائے۔ ایسی سوسائٹی کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اس کے افراد آپس کی محبت کی بجائے باہمی بغض و حسد اور بےدردی و بےتعلقی میں نشو ونما پائیں گے۔ اس کے اجزاء ہمیشہ انتشار و پراگندگی کی طرف مائل رہیں گے اور اگر دوسرے اسباب بھی اس صورتحال کے لیے مددگار ہوجائیں تو ایسی سوسائٹی کے اجزاء کا باہم متصادم ہوجانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس سوسائٹی کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو ، جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں ، جس میں ہر شخص دوسرے کی حاجت کے موقع پر فراخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے اور جس میں باوسیلہ لوگ بےوسیلہ لوگوں سے ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں ، ایسی سوسائٹی میں آپس کی محبت ، خیر خواہی اور دلچسپی نشو ونما پائے گی ، اس کے اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ اور ایک دوسرے کے پشتبان ہوں گے۔ اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقعہ نہ مل سکے گا ، اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلی قسم کی سوسائٹی کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہوگی۔ ” اللہ ایسے ناقدر شناسوں ، منکروں اور نافرمانوں کو کبھی پسند نہیں کرتا “ اس فقرہ میں دونوں قسم کے نافرمان آگئے۔ وہ جو ” الربوا “ کا کاروبار کرتے ہیں اور وہ جو اپنے عمل کے ساتھ ساتھ حرمت ” الربوا “ عقیدتاً بھی منکر ہیں۔ ” كَفَّارٍ “ کافر سے صیغہ مبالغہ ہے یعنی ناشکرے اور کفران نعمت کرنے والے۔ مراد وہ لوگ ہیں جو ” الربوا “ کے جواز کے قائل ہیں ، یعنی ” الربوا “ کو بیع و شراء کی مانند بتاتے ہیں۔ جس شخص پر اللہ اپنا فضل کرے کہ اسے اس کی اپنی ضروریات سے زیادہ مال دے اور پھر وہ اس مال کو بندوں کی ایذاء رسانی پر صرف کرے تو اس سے بڑھ کر سوء ضروریات کی مثال اللہ کے فضل کی اور کیا ہوگی اور ایسے بدبخت سے بڑ ھ کر ناشکرا اور کون قرار پائے گا ؟ ” اَثِیْمٍ “ بڑے گنہگار ، یعنی الربوا خوری جیسی شدید معصیت میں مبتلا ، ایسا گنہگار جو دین و دنیا دونوں میں رسوائی سے دوچار ہوگا۔ یعنی بےلذت گناہ کرنے والا اور الربوا خور ہی دنیا میں وہ انسان ہے جو صحیح معنوں میں لذت گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ جس کی حقیقت یہ ہے کہ الربوا خور کو مال کے خرچ ہونے کا غم ہمیشہ بےقرار رکھتا ہے ، جس سے اس کو دن کا آرام اور رات کا چین کبھی نصیب نہیں ہوا اور یہ بھی اس کے گنہگار ہونے کی خاص علامت ہے۔
Top