Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 276
یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ
يَمْحَقُ : مٹاتا ہے اللّٰهُ : اللہ الرِّبٰوا : سود وَيُرْبِي : اور بڑھاتا ہے الصَّدَقٰتِ : خیرات وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : ہر ایک كَفَّارٍ : ناشکرا اَثِيْمٍ : گنہگار
اللہ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اور اللہ ناشکروں اور حق تلفی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ ط وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ ۔ (اللہ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اور اللہ ناشکروں اور حق تلفی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا) (276) اس آیت کریمہ میں اللہ نے ایک ایسی بات ارشاد فرمائی ہے جو نظر بہ ظاہر خلاف عقل معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہاں ربا کے مقابلے میں صدقات کا لفظ آیا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ صدقات صدقہ کی جمع ہے اور صدقہ اپنے مال میں سے ایک حصہ یا اپنی اشیاء میں سے کوئی چیز اللہ کے راستے میں دینے کا نام ہے۔ اور ربا اپنے مال پر نفع لینے کا نام ہے۔ اصل راس المال محفوظ رہے اور اس کے ساتھ منافع بھی وصول ہو تو صاف نظر آتا ہے کہ مال بڑھ رہا ہے۔ لیکن اگر اصل مال میں سے بھی کچھ حصہ اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے تو یقینا اصل مال میں کمی آجائے گی۔ لیکن اس آیت کریمہ میں اس کے برعکس ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ تم جسے اضافہ کا باعث سمجھتے ہو وہ کمی کا باعث ہے۔ اور جسے تم کمی کا سبب جانتے ہو وہ برکت اور اضافے کا سبب ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے گہری نگاہ کی ضرورت ہے۔ ایک بات تو بالکل سامنے کی ہے کہ پروردگار جب کسی مال کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ وہ بڑھتا ہے اور دوسرے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ گھٹتا ہے اور پھر ایسا بھی نہیں کہ مال خود بخود گھٹتا یا بڑھتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ایک مال کو بڑھاتے ہیں اور ایک مال کو گھٹاتے ہیں تو اسے دیکھتے ہوئے ایک مسلمان اس بات میں تو شبہ نہیں کرسکتا کہ پروردگار کا یہ ارشاد غلط بھی ہوسکتا ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ہمیں سمجھنے میں دشواری پیش آئے یا ہماری عقل نارسا ثابت ہو لیکن اس حقیقت کے صحیح ہونے میں کسی شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اللہ کا یہ ارشاد اپنے اندر کیا معنویت رکھتا ہے۔ صدقات کے بڑھنے اور سود کے گھٹنے کا مفہوم بعض اہل علم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ گھٹنا اور بڑھنا دنیوی زندگی کے محدود تصور کے لحاظ سے نہیں ہے ‘ بلکہ دنیا اور آخرت دونوں کی مجموعی زندگی کے لحاظ سے ہے۔ کیونکہ دنیا کی زندگی ہی ّحقیقی اور مکمل زندگی نہیں بلکہ اس زندگی کی تکمیل قیامت کو ہوگی۔ اور دوسرا یہ کہ یہ زندگی تو چند روزہ اور فانی ہے اور دوسری زندگی حقیقی اور ابدی ہے۔ یہاں کسی فائدے کا مل جانا ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی کو چار دن کی چاندنی مل جائے اور اس کے بعد اسے لمبی رات سے واسطہ پڑے۔ لیکن اگر کسی شخص کو دوسری اور اخروی زندگی میں کوئی نعمت نصیب ہوتی ہے تو درحقیقت وہ نعمت ہے جو ہمیشہ رہے گی اور جو قابل ذکر بھی ہے اور قابل فخر بھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیوی زندگی کا خاتمہ ایسا ہی ہے جیسے آدمی سو جاتا ہے اور اخروی زندگی کا طلوع ایسے ہی ہے جیسے آدمی نیند سے بیدار ہوجاتا ہے۔ ایک سودی کاروبار کرنے والا جب اخروی زندگی کے ظہور کے بعد اپنی نیند سے بیدار ہوگا تو اس کے ذہن میں یقینا یہ تصور موجود ہوگا کہ بنکوں میں میرا لاکھوں کا سرمایہ موجود ہے ‘ لیکن جیسے ہی حقیقت اس کے سامنے ظاہر ہوگی تو وہ دیکھے گا کہ خدا کے بنک میں اس کی ایک کوڑی بھی نہیں۔ لیکن اس کے مقابل جب اللہ کے راستے میں انفاق کرنے والا اخروی زندگی میں اٹھے گا تو وہ دیکھے گا کہ اس نے جو اپنی بساط کے مطابق اللہ کے راستے میں ایک محدود مال خرچ کیا تھا اس کے بدلے میں ابدی قدروقیمت رکھنے والے جواہرات کے انبار اس کے انتظار میں ہیں۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگا کہ اس کے خزف ریزے آخرت میں موتیوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سود لینے والے کا مال نہ صرف اللہ کم کرتا ہے بلکہ آخرت میں بالکل تباہ کردیا جائے گا۔ البتہ اس کا اثر سود خور کے انجام پر یہ پڑے گا کہ وہ صدیوں تک اس کی سزا بھگتے گا۔ لیکن اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والا ‘ اللہ کی طرف سے بیش بہا اجر وثواب سے نوازا جائے گا۔ اسی لیے سورة روم کی آیت 39 میں ارشاد فرمایا ہے وَمَا اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبَا لِّیَرْبُوَ فِی اَمْوَالِ النَّاسِ فَلاَ یَرْبُوْا عِنْدَاللّٰہِ وَمَا اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَّکٰوْۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ المُضْعِفُوْنَ (جو مال تم سود کے لیے دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں پل کے بڑھے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور یہ جو تم زکوۃ دیتے ہو اس کی رضا طلبی میں تو یہی لوگ خدا کے ہاں بڑھانے والے ہیں) آنحضرت ﷺ ایک ارشادِ گرامی سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ صدقہ کو قبول کرتا ہے اور اس کو اپنے داہنے ہاتھ سے لیتا ہے اور پھر وہ اس کی تمہارے لیے اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ تمہارا دیا ہوا ایک لقمہ خدا کے ہاں احد پہاڑ کی مانند بن جائے گا۔ “ سود کے مضر اثرات مختلف پہلوئوں سے جہاں تک آخرت میں اللہ کے بندوں کو دیا ہوا قرض اور اللہ کے راستے میں دیے گئے صدقات کا تعلق ہے اس کے بڑھنے میں تو کوئی شبہ نہیں ‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں سود سے کمایا ہوا مال و دولت اور سودی کاروبار اپنے حقیقی نتائج کے اعتبار سے بڑھتا نہیں بلکہ کم ہوتا ہے۔ البتہ ہمیں اسے سمجھنے کے لیے اس کے مختلف پہلوئوں پر غور کرنا ہوگا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں کی نگاہ مال و دولت کے اعتبار سے صرف اعداد و شمار پر رہتی ہے وہ تو یقینا اسی نقطہ نگاہ سے قوم کی ترقی اور ملک کے وسائل کی افزائش کو جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ ان کا معیار صرف یہ ہوتا ہے کہ ملک میں لگائے گئے ٹیکسوں سے کتنی آمدنی ہوئی ‘ سی بی آر نے کتنا کسٹم اکٹھا کیا ‘ ہمارے کھیتوں نے کتنا غلہ اگلا ‘ ہمارا زر مبادلہ کس سطح تک پہنچ گیا ہے ‘ ان کے لیے یہ بات سمجھنا تو واقعی مشکل ہے۔ البتہ جو لوگ دولت کو اخلاق اور تمدن سے الگ رکھ کر نہیں بلکہ اس کے خادم کے طور پر دیکھتے ہیں وہ سب سے پہلے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ کمایا اس کے ملک و ملت پر کیا اثرات پڑے ؟ ہماری قوم کے افراد میں کس طرح کی ذہنیت پیدا ہوئی ؟ اس مال و دولت کی وجہ سے کس طرح کے اخلاق وجود میں آئے ؟ کیونکہ مال افراد اور قوم کی ضرورت کے تحت وجود میں آیا ہے بجائے خود اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ملک کا زر مبادلہ بڑھتا جائے لیکن ساتھ ساتھ غریب کے جھونپڑے میں چراغ کی لو مدھم پڑتی جائے تو اسے بڑھنا نہیں گھٹنا کہتے ہیں۔ مال و دولت میں وسعت آئے لیکن طبیعتوں میں بخل ‘ سنگدلی ‘ خودغرضی جیسی صفات پیدا ہوجائیں تو دولت کے ان خزف ریزوں کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے گا ؟ اس لیے جو دولت اور جو کمائی اخلاق کے زوال تمدن میں انتشار اور باہمی تعلقات کے بگاڑ کا سبب بنے ‘ اسے بڑھنا نہیں گھٹنا کہنا چاہیے۔ اس لحاظ سے اگر آپ دیکھیں تو آپ اتفاق کریں گے کہ صدقات انفاق فی سبیل اللہ اور دوسروں کے کام آنے کا جذبہ افراد میں فیاضی ‘ ہمدردی ‘ فراخدلی اور عالیٰ ظرفی جیسی صفات پیدا کرتے ہیں۔ اور جیسے جیسے یہ بےغرض لین دین بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے افراد ایک دوسرے کے قریب آتے جاتے ہیں اور قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس سود انسانوں میں بالکل دوسری طرح کی صفات پیدا کرتا ہے۔ سود کمانے والا شخص کبھی فیاض نہیں ہوسکتا۔ دوسرے کی مصیبت دیکھ کر اس کے دل میں کبھی رحمدلی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ وہ اتنا تنگ دل اور سنگدل واقع ہوتا ہے کہ ملک و ملت کی بڑی سے بڑی ضرورت ‘ اس کی تجوری کا دروازہ نہیں کھول سکتی۔ اسے انسانوں سے نہیں اپنی دولت سے واسطہ ہوتا ہے۔ ملک کدھر جا رہا ہے ؟ ملک کے حالات کیسے ہیں ؟ غربت کہاں تک پہنچ گئی ہے ؟ خود اسکے ہمسائے کس حال میں ہیں ؟ یہ باتیں اس کے لیے اجنبی ہوتی ہیں۔ وہ رات دن اپنی دولت کو نشو و نما دینے کی سوچ میں ڈوبا رہتا ہے۔ ایسے لوگ اگر سوسائٹی میں ایک بڑی تعداد میں پھیل جائیں اور معاشرہ انہی افراد کے زیر اثر پرورش پائے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس قوم کے تمدن کا کیا بنے گا۔ ایسی قوم میں طبقات میں اضافے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ مالدار طبقہ روز بروز مالدار ہوگا اور غریب طبقہ میں غربت بڑھتی چلی جائے گی۔ دونوں کے درمیان پہلے تعلقات ٹوٹیں گے ‘ پھر اس کی جگہ نفرتیں لیں گی۔ افراد میں آپس کی محبت کی بجائے باہمی بغض و حسد اور بےدردی و بےتعلقی نشو و نما پائے گی۔ اس معاشرے کے افراد کسی بھی وقت باہمی تصادم کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اور اگر ایسانہ بھی ہو تو خدا نہ کرے کہ اس قوم پر باہر سے حملہ ہوجائے تو ملک کی اکثریت مالداروں کے ظلم میں پسنے اور ریاست کی بےتعلقی کے باعث ریاست سے بےتعلق ہوجائے گی اور وہ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے ہاتھ ہلانا بھی گوارا نہ کرے گی۔ ملک کی سا لمیت تباہ ہوجائے گی اور قوم انسانوں کی بھیڑ بن کے رہ جائے گی۔ اندازہ فرمایئے ایسی صورت حال میں کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ سودی کاروبار میں اضافہ ہوا۔ اور وہ اضافہ ملک کے لیے خیر و برکت کا باعث بنا۔ جس قوم کی کوئی اخلاقی اقدار نہ ہوں ‘ روحانی تصورات نہ ہوں ‘ اور اس کے پاس کوئی منزل من اللہ دین نہ ہو اس کی اخلاقیات اور اس کی اقدار کاروبار کے نشیب و فراز سے وجود میں آتی ہیں۔ اور وہ قوم از اول تا آخر ایک کاروباری قوم ہوتی ہے۔ ان کے یہاں سودی کاروبار ایک عرصے تک پھل پھول سکتا ہے ‘ لیکن دیرپا کبھی نہیں ہوسکتا۔ وہ بھی اپنے سارے وسائل کے باوجود غربت کا علاج کرنے سے قاصر رہتی ہیں اور مجموعی طور پر ایسی قومیں دوسری قوموں کے لیے عذاب بن جاتی ہیں۔ آج دنیا کی بالا دست قومیں اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لیکن جس قوم کا ایک روحانی نظام ہو ‘ اس کے خاص تصورات ہوں ‘ اس کی اخلاقی اقدار ہوں ‘ وہ ایک منزل من اللہ دین رکھتی ہو ‘ وہ کبھی اپنے احساسات ‘ اپنے مقاصد ‘ اپنی اقدار اور اپنے تصورات سے ہٹ کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس کے یہاں کاروبار ‘ ان تصورات سے الگ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کاروبار کا جو طریقہ ان تصورات کو نقصان پہنچاتا ہے وہ تصادم کو جنم دیتا اور قوم کی وحدت کو تباہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ ربا اور سود قومی وحدت کو توڑنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر امت مسلمہ کو اپنی وحدت عزیز ہے تو اسے اس طرح کی ہر اسکیم ‘ ہر کاروبار اور ہر کوشش کو قبول کرنے سے انکار کردینا چاہیے۔ معاشی نقطہ نظر سے معاشی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو سودی کاروبار ترقی اور اضافے کا باعث نہیں ہے۔ بلکہ نقصان اور تنزل کا باعث ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشیات کے نقطہ نگاہ سے سودی قرض کی دو قسمیں ہیں ‘ ایک وہ قرض جو ضرورت مند اور حاجت مند لوگ اپنی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ساہوکاروں سے لیتے ہیں۔ اور دوسرا وہ قرض جو تجارت ‘ صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں۔ جہاں تک پہلی قسم کے قرض کا تعلق ہے اس سے تو شاید کسی کو اختلاف نہ ہو کہ یہ ایک تباہ کن قرض ہے جس میں قرض دینے والے ادارے پلتے ‘ بڑھتے اور ترقی پاتے ہیں۔ لیکن قرض لینے والے غریب ‘ مزدور ‘ کاشتکار اور بےوسیلہ لوگ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ اصل قرض ادا کرنا ہی مقروض کے لیے آسان نہیں ہوتا چہ جائیکہ اس پر سود کا بوجھ لاد دیا جائے۔ اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سود کی رقم میں اضافہ بھی ہوتا جائے۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ مقروض اپنی ہمت سے بڑھ کر محنت کرتا ہے ‘ اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر قرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی صحت روز بروز گرتی چلی جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب وہ صحت کی توانائی کے ساتھ قرض ادا نہ کرسکا اور سود ادا کرتے کرتے اس کی کمر ٹوٹ گئی تو اب وہ کمزور صحت اور علاج کے اخراجات کے بوجھ سمیت کس طرح سودی قرض ادا کرسکے گا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ محنت سے روزی کمانے والوں کی ہر معاشرے میں اکثریت ہوتی ہے جب وہ اس طرح کی مصیبتوں میں ڈوب کر صحت کھو دیتے ہیں تو محنت کرنے والے ہاتھ روز بروز کم ہوتے جاتے ہیں۔ ہاتھوں کی کمی کے باعث ملکی معیشت تنزل کا شکار ہوجاتی ہے۔ غیر جانبداری سے غور فرمایئے کہ ملکی معیشت کے تنزل کا سبب کون بنا ؟ اگر اس معاشرے میں صدقات کا چلن ہوتا ‘ ہمدردی اور خیر خواہی ہوتی ‘ ایک دوسرے کے کام آنے کا جذبہ ہوتا ‘ بلا سود قرض ملنے کے امکانات ہوتے تو غریب لوگ اپنی حالت بہتر بنانے کے امکانات سے مایوس نہ ہوتے۔ ان کے کام کی صلاحیت میں کمی نہ آتی۔ ان کی صحتیں ضرورت سے زیادہ محنت کے کام نہ آتیں۔ سرمایہ بہت سے ہاتھوں میں پھیل کر ملکی معیشت میں ترقی کا باعث ہوتا ‘ لیکن جب اس کے بالکل برعکس ہم نے ان لوگوں کو سود کے حوالے کردیا تو اس کا نتیجہ تنزل کی شکل میں نکلا۔ اور بعض دفعہ تو صورت حال اور بھی خطرناک ہوجاتی ہے کہ اگر کبھی ایسے ملک میں کسی انقلاب کی فضا پیدا ہوجائے تو دولت مندوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ اپنی محرومیوں کا حساب ان دولت مندوں سے لیتے ہیں۔ پھر کوئی محل کھڑا نہیں رہتا ‘ کوئی تجوری سلامت نہیں رہتی ‘ سڑکوں پہ خون بہتا ہے۔ یہ انجام ہوتا ہے غریب معاشرے میں سود اور سودی ذہنیت کے عام ہونے کا۔ جہاں تک دوسری قسم کے سود کا تعلق ہے جو تجارت ‘ صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ پر دیا جاتا ہے ‘ اس کی صورت حال بھی بہت دلچسپ ہے۔ سود دینے والے ادارے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ سود پر قرض لینے والا ہمارا سرمایہ کس طرح کے منصوبے پر خرچ کرنا چاہتا ہے ؟ اگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ جس منصوبے کے لیے قرض مانگا جا رہا ہے وہ ملک و ملت کے لیے چاہے جتنا بھی ضروری ہو لیکن منافع کے نقطہ نگاہ سے اس میں افزائش کے امکانات بہت کم ہیں تو وہ ایسے کام کے لیے قرض دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ وہ تو ایسے کاموں پر قرض دیتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ منافع لاسکتے ہیں ‘ چاہے ان کی ملک کو ضرورت ہو یا نہ ہو ؟ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کے تمام مالی وسائل کا بہائو ایسے کاموں کی طرف ہوجاتا ہے جو اجتماعی حیثیت سے انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یا کم از کم مفید نہیں ہوتے۔ آپ خود اندازہ فرمایئے کہ ایسے سودی قرض کے نتیجے میں یہ تو ہوسکتا ہے کہ قرض دینے والوں کو فائدہ پہنچے اور قرض لینے والے بھی ذاتی طور پر کچھ کما لیں لیکن اگر ملکی معیشت چند افراد کا نہیں پوری ملک کی نسبت سے دیکھی جاتی ہے تو غیر ضروری کاموں پر خرچ ہونے والا سرمایہ نہ صرف کہ ملکی معیشت کو کوئی سنبھالا نہیں دیتا بلکہ ملک کو ترقی دینے والے کام اور اجتماعی ضرورتیں دیکھتی رہ جائیں گی اور سرمایہ کسی اور طرف نکل جائے گا۔ اس لیے جب ملکی حیثیت سے دیکھا جائے گا تو صاف معلوم ہوگا کہ سودی ذہنیت اور سودی قرض نے اس ملک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ کہ سود پر قرض دینے والا شخص یا ادارہ کاروبار کے نفع نقصان سے زیادہ اپنے سود کی حفاظت کی فکر کرتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ قرض لینے والوں نے سرمایہ ایک ایسے کاروبار پر لگایا ہے جس میں کساد بازاری کا حملہ ہونے والا ہے تو وہ صرف اس اندیشے سے ہی اپنا روپیہ کھینچنے کی فکر کرنے لگتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی خود غرضی کے باعث تجارت کی دنیا پر واقعی کساد بازاری کا حملہ ہوجاتا ہے۔ اور اگر کہیں کسی دوسرے سبب سے کساد بازاری آگئی ہے ہو تو سرمایہ دار کی خود غرضی اس کو بڑھا کر نتہائی تباہ کن حد تک پہنچا دیتی ہے۔ اندازہ فرمایئے کہ ایسی صورت حال میں معیشت میں اضافہ ہوگا یا دھچکا لگے گا اور سرمایہ بڑھے گا یا کم ہوگا۔ ان میں سب سے زیادہ سہل اور آسان بات یہ ہے کہ بعض دفعہ سودی سرمایہ خود بخود ہلاک ہوجاتا ہے اور پچھلے مال کو بھی ساتھ لے ڈوبتا ہے ‘ جس طرح ربا اور سٹہ کے بازاروں میں ہمیشہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بڑے بڑے کروڑ پتی اور سرمایہ دار دیکھتے دیکھتے دیوالیہ اور فقیر ہوگئے۔ بلا سود تجارت میں بھی اگرچہ نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ نقصان ہو بھی جاتا ہے لیکن ایسا نقصان کبھی نہیں ہوتا کہ کل کروڑ پتی تھا اور آج ایک ایک پیسہ کا محتاج ہوجائے۔ یہ صرف سود اور سٹہ کے بازاروں میں ہوتا ہے۔ حضرت معمر ( رح) نے فرمایا کہ ہم نے بزرگوں سے سنا ہے کہ سود خور پر چالیس سال گزرنے نہیں پاتے کہ اس کے مال پر تباہی آجاتی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ سود بظاہر ایک منافع کا نام ہے۔ سرمایہ دار اپنے سرمائے پر ایک متعین شرح سے سود لے کر اپنے سرمائے میں اضافہ کرتا ہے لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے ایک ذہنیت کارفرما ہے۔ جس ذہنیت کے پیدا ہوجانے کے بعد سرمایہ انسان کی ضرورت نہیں رہتا ‘ بلکہ مقصد زندگی بن جاتا ہے۔ اور مقصد زندگی بھی ایسا جس کی پوجا کی جاتی ہے ‘ جس کے سامنے ایمان کو قربان کردیا جاتا ہے۔ تمام انسانی رشتے اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ‘ اخلاقی اقدار اس کے سامنے دم توڑ جاتی ہیں ‘ ایک فرد فرد سے غیر متعلق ہوجاتا ہے اور قوم قوم سے رشتہ توڑ لیتی ہے ‘ دو دوست آپس میں اس وقت تک دوست رہتے ہیں جب تک ان میں مالی ضرورت پیدا ہونے کے باعث قرض لینے یا دینے کی نوبت نہیں آتی۔ قومیں اگر فضائل اخلاق سے زندہ رہتی ہیں اور مال ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے اور مقاصد کو جلا دیتا ہے اور معاشرتی رشتے اگر معاشرتی اخلاق سے وجود پذیر ہوتے اور باقی رہتے ہیں اور انسان انسانوں کے کام آنے کی وجہ سے انسان کہلاتا ہے تو پھر جو قوم بھی ان بنیادی احساسات کی حامل ہے کہ وہ اپنا ایک مقصد زندگی رکھتی ہے اس کے یہاں حقوق و فرائض کا ایک سلسلہ ہے اور اسے زندگی کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد آخرت میں اللہ کے حضور حاضر بھی ہونا ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ مال و دولت کا بڑھنا ‘ اس میں برکت کا پیدا ہونا اور لوگوں کو اس مال و دولت سے حقیقی فائدہ پہنچنا اور مال و دولت کے حقیقی مقاصد سے بہرہ ور ہونا یہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو دلوں کو غربت میں بھی سکون عطا فرما دیتا ہے اور نہ چاہے تو مال و دولت کی فراوانی بھی زندگی میں راحت کا سامان نہیں بن سکتی ‘ ایسی قوم سب کچھ ہوسکتی ہے لیکن وہ سودی ذہنیت کو قبول نہیں کرسکتی۔ اور اگر اس کے افراد اس میں ملوث ہوتے ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ قوم تنزل کی راہ پر چل نکلی ہے۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتی جائے گی ویسے ویسے فضائل اخلاق سے دور ہوتی جائے گی اور ویسے ویسے اس کے قومی شعور کو گھن لگتا جائے گا۔ اور اس کے اجتماعی جسد میں دراڑیں آنا شروع ہوجائیں گی۔ اس کی عظیم قومی عمارت تباہی کے خطرے سے دوچار ہونے کے قریب پہنچ جائے گی ‘ یہ وہ خطرناک نتائج ہیں جس سے بچانے کے لیے پروردگار نے سود کی ہر صورت کو ناقابل برداشت قرار دیا۔ اور اس کے ارتکاب کو فوجداری جرم قرار دے دیا۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی حقیقت کے پیش نظر کلام کے تیور بھی تیکھے ہوگئے ہیں اور اللہ کا کلام اسلامی ریاست کی زبان بن کر پورے جلال کا اظہار کر رہا ہے۔ کفاراثیم کا مفہوم آیتِ کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ” کفاراثیم “ کو پسند نہیں فرماتا۔ کفار کا ایک معنی ہے کفر کرنے والا۔ اور اثیم کا معنی ہے گناہگار۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص جو سود کی حرمت سے انکار کرتا ہے اور سرے سے اس کو حرام ہی نہیں جانتا اور دوسرا وہ شخص ہے جو اس کو حرام تو جانتا ہے ‘ لیکن اس کا ارتکاب بھی کرتا ہے تو ایسا شخص جو کسی حکم کو تسلیم کرے لیکن اس کا عمل اس کے خلاف ہو اسے کافر نہیں گناہگار یعنی فاسق کہا جاتا ہے۔ دونوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کے ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ دوسرا معنی یہ ہوسکتا ہے کہ ” کفار “ کا معنی ہے ناشکرا اور ” اثیم “ کہتے ہیں دوسروں کے حق تلف کرنے والے کو۔ تو اس صورت میں اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ناشکرے اور اللہ کے بندوں کے حقوق تلف کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو اس کی ضرورت سے زائد مال دیتا ہے تو وہ اس پر احسان کرتا ہے اور یہ احسان اس لیے کرتا ہے تاکہ وہ اس کا شکر گزار بندہ بنے اور وہ اپنے مال کو اللہ کی بندگی میں صرف کرے اور دوسرا یہ کہ وہ اللہ کے بندوں کے لیے سہارا بنے اور ان کی ضرورتوں کے لیے انھیں قرض دے یا صدقہ دے ‘ لیکن جو شخص اللہ کے اس فضل کا شکر گزار بننے کی بجائے اسے سودی کاروبار میں لگاتا ہے تو اس سے زیادہ ناشکری اور کیا ہوگی کہ وہ اللہ کے ایک نہایت اہم حکم کو توڑ رہا ہے اور دوسرا اس کا جرم یہ ہے کہ جو مال اللہ کے بندوں کی ضرورت میں استعمال ہونا چاہیے تھا اسے وہ ان کے خون چوسنے اور حقوق تلف کرنے کا ذریعہ بناتا ہے تو ایسا سنگ دل اور ناشکرا شخص اس بات کا سزاوار ہے کہ اللہ کے یہاں اس کا مال اس کے لیے وبال کا باعث بنے۔ اور اسے اس سے اس طرح محروم کردیا جائے کہ محرومی کے سوا اس کے نصیب میں کچھ نہ ہو۔
Top