Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 196
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ١ٙ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ١ؕ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠   ۧ
وَاَتِمُّوا : اور پورا کرو الْحَجَّ : حج وَالْعُمْرَةَ : اور عمرہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنْ : پھر اگر اُحْصِرْتُمْ : تم روک دئیے جاؤ فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ : سے الْهَدْيِ : قربانی وَلَا : اور نہ تَحْلِقُوْا : منڈاؤ رُءُوْسَكُمْ : اپنے سر حَتّٰى : یہانتک کہ يَبْلُغَ : پہنچ جائے الْهَدْيُ : قربانی مَحِلَّهٗ : اپنی جگہ فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا بِهٖٓ : اسکے اَذًى : تکلیف مِّنْ : سے رَّاْسِهٖ : اس کا سر فَفِدْيَةٌ : تو بدلہ مِّنْ : سے صِيَامٍ : روزہ اَوْ : یا صَدَقَةٍ : صدقہ اَوْ : یا نُسُكٍ : قربانی فَاِذَآ : پھر جب اَمِنْتُمْ : تم امن میں ہو فَمَنْ : تو جو تَمَتَّعَ : فائدہ اٹھائے بِالْعُمْرَةِ : ساتھ۔ عمرہ اِلَى : تک الْحَجِّ : حج فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ الْهَدْيِ : سے۔ قربانی فَمَنْ : پھر جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزہ رکھے ثَلٰثَةِ : تین اَيَّامٍ : دن فِي الْحَجِّ : حج میں وَسَبْعَةٍ : اور سات اِذَا رَجَعْتُمْ : جب تم واپس جاؤ تِلْكَ : یہ عَشَرَةٌ : دس كَامِلَةٌ : پورے ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : لیے۔ جو لَّمْ يَكُنْ : نہ ہوں اَھْلُهٗ : اس کے گھر والے حَاضِرِي : موجود الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور اعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اور پورا کرو حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے۔ پھر اگر تم روک دیئے گئے تو جو میسر ہو قربانی کرو۔ اور اپنے سروں کو نہ منڈوائو یہاں تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے پر پہنچ جائے۔ پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو ، پس فدیہ ہے روزے سے یا صدقہ ہے یا قربانی ہے۔ پس جب تم امن کی حالت میں ہو ، تو پھر جس شخص نے فائدہ اٹھایا عمرہ کا حج کے ساتھ ، پس جو میسر ہو قربانی سے جو شخص قربانی کا جانور نہ پائے پس وہ تین دن کے روزے حج کے ایام میں رکھے اور سات روزے جب تم واپس لوٹو۔ یہ دس روزے پورے ہیں۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کا گھر بار مسجد حرام کے پاس نہ ہو اور نہ ڈرو اللہ تعالیٰ سے اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ اس سے پہلے نئے چاند کے متعلق ذکر آچکا ہے کہ چاند اوقات اور خاص طور پر حج کے اوقات معلوم کرنے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا قمری مہینے کی تقویم ضروری ہے۔ حج اور اس کے ساتھ جہاد کا بیان بھی آ گیا ہے۔ قتال فی سبیل اللہ کی غرض وغایت بھی آگئی ہے کہ اس سے مقصود فتنہ و فساد ک بیخ کنی ہے۔ جہاد ہی کے ضمن میں انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر بھی آ چکا ہے۔ اس کے بغیر جہاد کی تکمیل ممکن نہیں اور اگر جہاد کا جذبہ ختم ہوجائے گا تو دشمن غالب آجائے گا۔ حرمت والے مہینوں کا بیان بھی آ چکا ہے کہ یہ کون کونسے مہینے ہیں اور پھر ان میں قتال کے کیا احکام ہیں۔ مسلمانوں کو ان مہینوں کا پورا پورا احترام کرنے کا حکم دیا گیا ، تاہم اگر کفار لڑائی سے یباز نہ آئیں ، تو پھر مسلمانوں کو بھی اس کا جواب دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ حج اور عمرہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حج اور عمرہ کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور اس سفر کے دوران اگر احصار پیدا ہوجائے یعنی رکاوٹ کھڑی ہوجائے اور کوئی شخص حج وعمرہ کی تکمیل نہ کرسکے ، تو اسے کیا کرنا چاہئے ، یہ مسائل بیان ہوئے ہیں ۔ حج اور عمرہ کے ارکان ملتے جلتے ہیں ، تاہم ان کی ادائیگی کے اوقات مختلف ہیں۔ عمرہ کو حج اصغر بھی کہتے ہیں اور یہ سال بھر کے تمام ایام میں سوائے ایام حج کے ادا کیا جاسکتا ہے۔ حج مخصوص ایام یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تا تیرہویں تاریخ کو ہی ادا کیا جاسکتا ہے۔ ان ایام کے علاوہ کسی اور تاریخ پر حج ادا نہیں ہو سکتا۔ حج عمر بھر میں صاحب استطاعت کے لئے ایک دفعہ فرض ہے ، البتہ عمرہ سنت ہے ہاں اگر ایک دفعہ اس کی نیت کرے تو پھر واجب ہوجاتا ہے۔ یعنی اگر عمرہ کا احرام باندھ لیا ہے ، تو پھر لازماً اس کو پورا کرنا پڑے گا۔ اگر سفر کے دوران کوئی رکاوٹ پڑجائے اور انسان عمرہ مکمل نہ کرسکے۔ تو اسے بہرحال قضا کرنا ہوگا اب اس کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ خود حضور ﷺ کا عمل موجود ہے۔ آپ نے صحابہ کرام کے ہمراہ 6 ھ میں عمرہ کا سفر اختیار کیا مگر حدیبیہ کے مقام پر کفار نے روک دیا اور بغیر عمرہ ادا کئے واپس جانا پڑا۔ آپ نے اگلے سال یعنی 7 ھ میں اس کو قضاء کیا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے حج اور عمرہ کا اکٹھا حکم دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جہاد کا حکم بھی ہے۔ حج کے بعد جو زیادہ مشقت طلب عبادت ہے ، وہ جہاد ہے۔ اس میں مالی اور جان دونوں کی بازی لگانا پڑتی ہے چونکہ حج میں بھی مال و جان دونوں چیزوں کا حصہ ہے۔ اس لئے حضور ﷺ نے عورتوں سے فرمایا تھا جھاد کن الحج تمہارا جہاد حج ہے۔ یعنی تم پر جہاد فرض نہیں ہے ، تمہارے لئے حج ہی کافی ہے کیونکہ اس میں بھی جہاد کی طرح مال و جان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ، واتموا الحج والعمس للہ حج اور عمرہ کو اللہ کی رضا کی خاطر پورا کرلو ، یہ واجب ہے حج کا لفظی معنی قصد کرنے کا ہے اور مراد اس سے مخصوص ایام میں افعال مخصوصہ کا وقت ہے جو کہ بیت اللہ شریف اور اس کے مضافات میں خالص نیت کے ساتھ کیا جاتا ہے عمرہ کی معنی فقط زیارت ہے اور یہ حج کے مخصوص ایام کے علاوہ پورے سال میں کسی وقت بھی دکھایا ہے۔ للہ کا مفہوم اللہ کا عام فہم معنی اللہ کی رضا کے لئے ہے جس طرح دیگر عبادات نماز ، زکواۃ رزہ غیرہ پورا کرو ، تاہم اس مقام پر ایک خاص نکتہ ہے کہ حج وعمرہ جیسی مشقت طلب اور صبر آزما عبادت صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے ہونی چاہئے اس میں غرور وتکبر اور فخر اور تفاخر کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہئے حج پر روانہ ہوتے وقت بینڈ باجے کا استعمال اور گلے میں ہارون کے ذریعے تشہیر تفاخر کی نشانی ہے۔ عام طور پر تو عزیز و اقارب ہی حاجی خود اپنے گلے میں ہار ڈال کر اپنی حیثیت کو نمایاں کرتا ہے حج سے واپسی پر بھی یہی کچھ ہوتا ہے حاجی کو ہارون اور اب خاص طور پر کرنسی نوٹوں کے ہارون سے لاوا جاتا ہے۔ اگر ہار پہنانے والا کوئی نہیں پہنچا تو اپنے پاس سے ہار نکال کر گلے میں ڈال لیا جاتا ہے کہ حاجی کی پہچان ہو یہ سب فخریہ چیزیں ہیں۔ ان کی وجہ سے رضا خالص اللہ کی نہیں رہتی بلکہ اس فعل میں دوسرے لوگوں کی رضا کو بھی شامل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اور یہی چیز لفظ للہ کے مفہوم کے خلاف ہے۔ احصار کے مسائل فرمایا حج اور عمرہ کو اللہ کی رضا کے لئے پورا کرو نان احضرتم پھر اگر تم روک دیئے گئے یعنی تم نے احرام باندھ کر حج یا عمرہ کا سفرو شروع کردیا اور راستے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی تو اسے اعصار کہتے ہیں۔ احصار کی تعریف کے متعلق فہائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ امام شافعی کے نزدیک شرعی احصار صرف ایسی صورت میں شمار ہوتا ہے۔ جب حج وعمرہ کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جائے۔ اس کی مثال 6 ھ میں حضور ﷺ اور صحابہ کا واقعہ ہے۔ جب ان کو حدیبیہ کے مقام پر روک دیا گیا اور آپ بغیر عمرہ کئے مدینہ طیبہ کو لوٹ گئے۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق دشمن کی رکاوٹ کے علاوہ بیماری یا حادثہ بھی احصار کا سبب بن سکتا ہے۔ کوئی ایسی بیماری لاحق ہوگئی ہے جس کی وجہ سے عازم حج سفر نہیں کرسکتا یا کوئی ایسا حادثہ پیش آ گیا ہے ، سخت زخمی ہوگیا ہے ، ٹانگ زخمی ہوگئی ہے کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا ہے۔ کسی درندے نے راستہ روک رکھا ہے۔ سیلاب آ گیا ہے یا کسی اور وجہ سے راستہ رک گیا ہے۔ یہ بھی شرعی احصار کی تعریف میں آئے گا۔ اس قسم کی صورت حال کے متعلق ارشاد فرمایا فما استیسر من الھدی جو میسر ہو قربانی کر دو ۔ احرام باندھ کر حج وعمرہ سے محروم رہنے کی صورت میں قربانی واجب ہوجاتی ہے۔ ایک بکری یا گائے یا اونٹ جو بھی میسر ہو ، قربانی کر دے اور احرام کھول دے۔ یہ قربانی کس مقام پر رکے ، اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ جس مقام پر کوئی رک جائے ، وہیں قربانی کر کے احرام سے باہر آجائے ۔ البتہ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ قربانی حرم کی حدود میں ہونی چاہئے اور اس کا طریق کار یہ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کے ہاتھ قربانی بھیج دی جائے اور اس سے طے کرلیا جائے کہ فلاں دن فلاں وقت پر قربانی حدود حرم میں کردینا پھر جب ظن غالب ہوجائے کہ طے شدہ پروگرام کے مطابق قربانی ہوچکی ہے تو احرام کھول دے۔ اسی بات کے متعلق فرمایا ولا تخلقوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ اور اس وقت تک سر نہ منڈائو جب تک قربانی اپنے ٹھکانے پر نہ پہنچ جائے اور ٹھکانہ اس کا حدود حرم ہے ۔ جیسا کہ ” ثم محلھا الی البیت العتیق “ یعنی قربانی کا محل بیت عتیق ہے سرمنڈانے کا مطلب یہ ہے کہ اب احرام کھول سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی ترتیب ہی یہ ہے کہ پہلے قربانی کرے ، پھر سر منڈائے اور پھر احرام کھول دے۔ بعض دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ قربانی کا محل وہی جگہ ہے۔ جہاں رکاوٹ واقع ہوئی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ 6 ھ میں جب آپ اور صحابہ حدیبیہ کے مقام پر روک دیئے گئے تھے ، تو آپ نے وہیں قربانی کر کے احرام کھول دیا تھا اور واپس مدینہ طیبہ روانہ ہوگئے۔ جدہ سے مکہ جاتے ہوئے حدیبیہ مکہ سے 22 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اسے آج کل شمیسیہ کہتے ہیں۔ یہ حد حرم ہے۔ نشان کے طور پر وہاں سفید مینار بنا دیئے گئے ہیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی قربانی حدود حرم کے اندر تھی کیونکہ آپ حد حرم پر ٹھہرے ہوئے تھے اور آپ نے حد کے اندر قربانی کی تھی لہٰذا قربانی کے ٹھکانا سے مراد حد حرم ہے۔ بہرحال حج یا عمرہ نامکمل چھوڑنے کی صورت میں اس کی ادائیگی واجب ہوجاتی ہے اور اس کی قضا لازمی دینا ہوگی۔ احرام کی جنایات جب کوئی حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیتا ہے تو اس پر بعض پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں۔ مثلاً سلا ہوا لباس نہیں پہن سکتا خوشبو نہیں لگا سکتا ، بال اور ناخن نہیں کاٹ سکتا۔ بیوی کے پاس نہیں جاسکتا وغیرہ وغیرہ اور اگر مجبوراً کسی پابندی کو توڑنا پڑے۔ تو پھر اس کے عوض میں فدیہ دینا پڑتا ہے۔ یہاں پر اسی مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے۔ فمن کان منکم مریضاً تم میں سے جو کوئی بیمار ہو۔ اوبہ اذی من راسہ یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو ففدیۃ من صایم اوصدقۃ اونسک پس فدیہ ہے روزے سے یا صدقہ ہے یا قربانی ہے۔ یعنی عذر کے ساتھ احرام کی پابندی توڑنے کی صورت میں ان تین جزائوں میں سے کوئی ایک ادا کرنی ہوگی۔ تین روزے رکھے یا صدقہ میں تین صاع گندم ادا کرے یا کم از کم ایک بھیڑ یا بکری ذبح کرے۔ صدقہ کی صورت میں چھ مساکین کو نصف صاع گندم فی کس ادا کرنا ہوگا۔ حضرت کعب بن عجرہ نے احرام باندھا ہوا تھا۔ ہانڈی پکانے کے لئے آگ جلا رہے تھے اور آپ کے سر سے جوئیں نیچے گر رہی تھیں۔ حضور ﷺ کا گزر ہوا تو فرمایا تمہارے سر کے جانور تمہیں بہت ستاتے ہیں ؟ عرض کیا حضور ! واقعی بہت ستاتے ہیں۔ مگر میں نے احرام باندھا ہوا ہے ، کیا کرسکتا ہوں حکم ہوا اگر سر منڈوانا ہے تو ایک بھیڑ یا بکری کا دم دیدے یا چھ مساکین کو صدقہ دیدے یا تین دن کے روزے رکھ لے ، اس جنایت کی تلافی ہوجائے۔ حج کی اقسام حج کی تین قسمیں ہیں یعنی افراد قرآن اور تمتع افراد حج یہ ہے کہ میقات سے صرف حج کا احرام باندھے اور حج کر کے احرام کھول دے۔ اس میں عمرہ شامل نہیں ہوتا۔ دوسری صورت قرآن ہے کہ کوئی شخص میقات سے عمرہ اور حج کا مشترکہ احرام باندھے ۔ عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام نہ کھولے بلکہ اسی احرام سے ایام حج میں حج کرنے کے بعد یعنی دس تاریخ کو احرام کھول دے۔ حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے حجتہ الوداع کے موقع پر یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ امام ابن قیم فرماتے ہیں کہ صحیح بات یہی ہے کہ حضور ﷺ نے قرآن کیا تھا کیونکہ احادیث میں واضح طور پر آتا ہے کہ آپ تلبیہ میں کہتے تھے لبیک بججۃ و عمرۃ اسی لئے امام ابوحنیفہ قرآن کو افضل قرار دیتے ہیں۔ تمتع اور قربانی حج کی تیسری قسم تمتع ہے اور عام طور پر یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یعنی حج کے مہینوں میں ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج کا علیحدہ علیحدہ احرام باندھا جاتا ہے۔ میقات سے عمرہ کا احرام باندھا ، مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ کیا اور احرام کھول دیا پھر آٹھ ذی الحج کو حج کا احرام باندھا اور دس تاریخ کو قربانی کرنے اور حجامت بنوانے کے بعد کھول دیا اور حج کے باقی ارکان پورے کر لئے۔ ایسی صورت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بعض احکام ارشاد فرمائے ہیں۔ فاذا امنم پس جب تم امن کی حالت میں ہو یعنی حج وعمرہ کی ادائیگی میں کوئی امر مانع نہ ہو اور ایک ہی سفر میں فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج جس شخص نے فائدہ اٹھایا عمرہ کا حج کے ساتھ یعنی عمرہ اور حج دونوں ایک ساتھ کئے اور یہی صورت قرآن میں پیش آتی ہے کہ کوئی شخص ایک ہی سفر میں حج وعمرہ دونوں سے فارغ ہونا چاہتا ہے تو فرمایا فما استیسر من الھدی پس جو میسر ہو قربانی دی جائے۔ یہ قربانی دراصل دم ہے اس نقصان کا جو اسے حج وعمرہ ایک سفر میں پورا کرنے کی وجہ سے اٹھانا پڑا۔ اگر حج اور عمرہ کے لئے علیحدہ علیحدہ سفر اختیار کرتا ، تو وقت بھی زیادہ دینا پڑتا ، خرچ بھی دوگنا ہوتا اور محنت بھی زیادہ کرنی پڑتی اور ظاہر ہے کہ ان کا ثواب بھی زیادہ ہوتا۔ اب ان چیزوں کی بچت کرنے سے اس کے ثواب میں جو کمی واقع ہوئی یہ قربانی اس کا نعم البدل ہے۔ اسی لئے امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ قربانی عام قربانی کے حکم میں نہیں آتی ہے۔ بلکہ یہ تو جزاء ہے لہٰذا قربانی دینے والا اسے خود استعمال نہیں کرسکتا بلکہ ساری کی ساری صدقہ کرنی ہوگی حالانکہ عام قربانی میں سے ہر امیر غریب خود بھی کھا سکتا ہے۔ برخلاف اس کے امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ دم شکر کا دم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی سفر میں دو نعمتیں عطا کی ہیں یعنی عمرہ اور حج دونوں ادا کئے ہیں لہٰذا اس کا حکم عام قربانی کا ہے اور اس میں خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی دے سکتا ہے۔ البتہ ایسی قربانی کو حدود حرم کے اندر ذبح کرنا ضروری ہے۔ قربانی کا بدل بعض صورتیں ایسی بھی پیش آسکتی ہیں کہ انسان قربانی کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ ایسے ہی حالات کے متعلق فرمایا فمن لم یجہ جو کوئی قربانی نہ پائے فصیام ثلاثہ ایام فی الحج تو وہ ایام حج میں تنی روزے رکھے وسبعۃ اذا رجعتم اور سات اس وقت جب تم واپس لوٹ جائو تلک عشرۃ کاملۃ یہ پورے دس ہوگئے۔ یعنی جو شخص حج قرآن یا حج تمتع ادا کرے اور قربانی کرنے کے لئے اس کے پاس مال نہ ہو یا جانور نہ مل سکے ، تو اس قربانی کا نعم البدل دس روزے ہیں۔ تین روزے تو واضح ہیں کہ ایام حج میں رکھے جائیں گے یعنی ذی الحج کی سات ، آٹھ اور نو کو رکھے جائیں کیونکہ دس تاریخ کو روزہ رکھنا منع ہے۔ البتہ سات روزوں کے متعلق اختلاف ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ واپس لوٹنے سے مراد حاجی کا اپنے وطن پہنچنا ہے اور یہ روزے اگر قیام ہو تو حرم میں رکھے جاسکتے ہیں۔ یا راستے میں یا گھر واپس آ کر ہر طرح درست ہے۔ دس روزے پورے کرنے سے قربانی کی تلافی ہوجائے گی۔ اور حاجی کا قرآن یا تمتع درست ہوجائے گا۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں ایام حج میں تین روزے لازمی ہیں۔ اگر یہ چھوٹ گئے تو پھر باقی سات رکھنے کی ضرورت نہیں۔ اسے بہرحال دم دینا پڑے گا۔ تمتع کی شرط فرمایا حج تمتع اور قربانی کے مسائل کے متعلق شرط یہ ہے ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام کہ تمتع کرنے والے کا گھر بار مسجد حرام کے پاس نہ ہو۔ یعنی حج تمتع اس شخص کے لئے روا ہے جو حدود حرم کا رہنے اولا نہ ہو بلکہ آفاقی ہو۔ حدود حرم کے رہنے والے اور محلی تو جب چاہیں عمرہ کرسکتے ہیں۔ حدود حرم سے باہر جا کر احرام باندھیں اور مکہ مکرمہ آ کر عمرہ کے ارکان پورے کرلیں۔ حج کے لئے بھی یہ لوگ آٹھ ذی الحج کو احرام باندھ کر با آسانی حج کرسکتے ہیں۔ مگر دقت طلب مسئلہ تو بیرونی لوگوں کے لئے ہے ان کے لئے عمرہ اور حج کے لئے علیحدہ علیحدہ سفر اختیار کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا حج قرآن اور تمتع کی اجازت صرف ایسے ہی آفاقی لوگوں کو حاصل ہے۔ احکام کی پابندی فرمایا واتقوا اللہ ان احاکم کی پابندی کے لئے اللہ سے ڈرتے رہو کہیں خلاف ورزی نہ ہوجائے۔ بعض اوقات انسان باریک احکام کو نظر انداز کر جاتے ہیں ، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ واعلموا اس بات کو اچھے طریقے سے سمجھ لنیا چاہئے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑے گا۔ تو ان اللہ شدید العقاب اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بڑا سخت ہے۔ لہٰذا اس کے احکام کی تعمیل کرو۔ تاکہ اس کی خوشنودی حاصل ہو اور تم عذاب سے بچ جائو۔
Top