Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 196
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ١ٙ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ١ؕ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠   ۧ
وَاَتِمُّوا : اور پورا کرو الْحَجَّ : حج وَالْعُمْرَةَ : اور عمرہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنْ : پھر اگر اُحْصِرْتُمْ : تم روک دئیے جاؤ فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ : سے الْهَدْيِ : قربانی وَلَا : اور نہ تَحْلِقُوْا : منڈاؤ رُءُوْسَكُمْ : اپنے سر حَتّٰى : یہانتک کہ يَبْلُغَ : پہنچ جائے الْهَدْيُ : قربانی مَحِلَّهٗ : اپنی جگہ فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا بِهٖٓ : اسکے اَذًى : تکلیف مِّنْ : سے رَّاْسِهٖ : اس کا سر فَفِدْيَةٌ : تو بدلہ مِّنْ : سے صِيَامٍ : روزہ اَوْ : یا صَدَقَةٍ : صدقہ اَوْ : یا نُسُكٍ : قربانی فَاِذَآ : پھر جب اَمِنْتُمْ : تم امن میں ہو فَمَنْ : تو جو تَمَتَّعَ : فائدہ اٹھائے بِالْعُمْرَةِ : ساتھ۔ عمرہ اِلَى : تک الْحَجِّ : حج فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ الْهَدْيِ : سے۔ قربانی فَمَنْ : پھر جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزہ رکھے ثَلٰثَةِ : تین اَيَّامٍ : دن فِي الْحَجِّ : حج میں وَسَبْعَةٍ : اور سات اِذَا رَجَعْتُمْ : جب تم واپس جاؤ تِلْكَ : یہ عَشَرَةٌ : دس كَامِلَةٌ : پورے ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : لیے۔ جو لَّمْ يَكُنْ : نہ ہوں اَھْلُهٗ : اس کے گھر والے حَاضِرِي : موجود الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور اعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اور خدا (کی خوشنودی) کیلیے حج اور عمرے کو پور کرو اور اگر (راستے میں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈا لے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو (کرے) اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو یہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مکہ میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے
اس آیت سے حج کا ذکر شروع ہوا حج اسلام کا ایک بڑا رکن ہے حج کی فضیلت میں اور اس وعید کی تاکید میں کہ جس کسی کو قدرت ہو اور وقت پر حج کو نہ جاوے بہت سی حدیثیں وار ہوئی ہیں اور سورة آل عمران میں یہ آیت { وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حَجَّ الْبَیْتَ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا } سے حج فرض ہوا ہے اور اس آیت میں تاکید ہے کہ حج اور عمرہ کو پورے ارکان کے ساتھ ادا کیا جائے ارکان جو پانچ ہیں احرام عرفات میں جا کر ٹھہرنے کے سوا اور بھی باقی کے چار رکن ہیں سیوطی نے لباب النقول فی اسبابالنزول 1 میں تفسیر ابن ابی حاتم کے حوالہ سے یہ جو کہا ہے کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ سے عمرہ کا سوال کرنے آیا تھا۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری ہے یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ صحیحین میں جو عمرہ کی بات سوال کرنے والے شخص کی حدیث ہے اس میں نزول آیت کا ذکر نہیں ہے 2۔ علماء مفسرین کا اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ حج کب اور کونسے سال فرض ہوا ہے بعض کہتے ہیں کہ ہجرت سے پہلے حج فرض ہوا ہے۔ مگر یہ قول بالکل شاذ ہے اور بعض ہجرت کے پانچوں اور بعض دسویں سال فرضیت حج کے قائل ہیں۔ مگر جمہور مفسرین کا یہ قول ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال حج فرض ہوا ہے۔ اور اسی سال آپ زیارت مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے سفر کرکے حدیبیہ تک تشریف لے گئے اور وہاں مشرکین مکہ نے آپ کو روکا اور صلح حدیبیہ ہوئی اور یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ جو شخص احرام کے بعد روک دیا جائے اور اس سال حج نہ کرسکتے تو مقدور کے موافق قربانی کرے اعلیٰ درجہ قربانی کا اونٹ ہے اور اوسط درجہ گائے اور ادنیٰ درجہ بکری۔ قربانی کرنے والے کا جو مقدور ہو وہی وہ کرلے اگرچہ بعض مفسرین کا یہ قول ہے کہ روکنا دشمن کا ہی اس آیت میں مراد ہے مگر صحیح حدیثوں میں یہ صراحت آچکی ہے کہ بیماری بھی آیت کے حکم میں داخل ہے۔ چناچہ صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ زبیر ؓ بن عبد المطلب کی بیٹی ضباعہ ؓ کے پاس تشریف لائے ضباعہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھا کہ حضرت میرا ارادہ حج کا ہے لیکن مجھ کو ٍبیماری کا دورہ ہوا کرتا ہے آپ نے فرمایا کہ تم اس شرط سے حج کا سفر کرو کہ جہاں بیماری کا دورہ ہوگا وہیں رک جاؤں گی۔ 1۔ حج اور عمرہ کے ادا کرنے کی تین شکلیں ہیں ایک تو حج کے مہینوں میں حج کا احرام باندھ کر حج کر لیوے اور عمرہ حج کے بعد کرے یا حج سے پہلے سوا حج کے مہینوں کے اور دنوں میں عمرہ کر لیوے حج کے مہینے یہ ہیں۔ شوال۔ ذیقعدہ۔ دس راتیں ذوالحجۃ کی دسویں تاریخ ذو الحجہ کی صبح صادق کے شروع ہوتے ہی حج کا موسم پھر باقی نہیں رہتا۔ اس شکل کو افراد کہتے ہیں اور دوسری شکل یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کرے۔ اور پھر احرام کھول ڈالے اور عین حج کے وقت پھر حج کا احرام باندھے اس کو ” تمتع “ کہتے ہیں اور اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اس طرح کا شخص ایک جانور کی قربانی کرے یا دس روزے رکھے اور یہ بھی ذکر ہے کہ مسافروں کی راحت کے لئے یہ تمتع جائز ہے اہل مکہ کو یہ تمتع جائز نہیں ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ حج اور عمرہ کا ملا کر احرام حج کے مہینوں میں باندھا جائے اس کو ” قِران “ کہتے ہیں سر میں جوئیں پڑجائیں یا اور کوئی دماغی مرض آیا ہو جس سے سر کے بال منڈانے ضرور ہوں تو بال احرام کی حالت میں منڈانے کا حکم بھی اس آیت میں ہے جو حکم حدیبیہ کے سفر کے وقت عب بن عجرہ ؓ صحابی کے جوئیں پڑجانے کے وقت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے جمہور کے مذہب کے موافق اگرچہ 6 ؁ ہجری میں حج فرض ہوا ہے۔ لیکن آپ نے فتح مکہ سے پہلے تو اس کراہت کی وجہ سے کہ مکہ اور صفا مروہ میں بت دھرے ہوئے تھے حج نہیں کیا۔ 8 ؁ ہجری میں فتح مکہ ہوجانے سے بت تو ٹوٹ پھوٹ گئے۔ مگر مشرک لوگ جاہلیت کی رسم کے موافق برہنہ ہو کر طواف کیا کرتے تھے اس لئے 9 ؁ ہجری میں حضرت ابوبکر ؓ اور علی ؓ کو آپ نے موسم حج کے وقت مکہ روانہ فرما کر لوگوں کو اعلان کردیا کہ 10 ؁ ہجری سے کوئی مشرک یا کوئی برہنہ شخص طواف کرنے نہ پائے گا۔ اور اسی میں آپ نے حج کیا جس کو حجۃ الوداع کہتے ہیں۔
Top