Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 196
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ١ٙ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ١ؕ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠   ۧ
وَاَتِمُّوا : اور پورا کرو الْحَجَّ : حج وَالْعُمْرَةَ : اور عمرہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنْ : پھر اگر اُحْصِرْتُمْ : تم روک دئیے جاؤ فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ : سے الْهَدْيِ : قربانی وَلَا : اور نہ تَحْلِقُوْا : منڈاؤ رُءُوْسَكُمْ : اپنے سر حَتّٰى : یہانتک کہ يَبْلُغَ : پہنچ جائے الْهَدْيُ : قربانی مَحِلَّهٗ : اپنی جگہ فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا بِهٖٓ : اسکے اَذًى : تکلیف مِّنْ : سے رَّاْسِهٖ : اس کا سر فَفِدْيَةٌ : تو بدلہ مِّنْ : سے صِيَامٍ : روزہ اَوْ : یا صَدَقَةٍ : صدقہ اَوْ : یا نُسُكٍ : قربانی فَاِذَآ : پھر جب اَمِنْتُمْ : تم امن میں ہو فَمَنْ : تو جو تَمَتَّعَ : فائدہ اٹھائے بِالْعُمْرَةِ : ساتھ۔ عمرہ اِلَى : تک الْحَجِّ : حج فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ الْهَدْيِ : سے۔ قربانی فَمَنْ : پھر جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزہ رکھے ثَلٰثَةِ : تین اَيَّامٍ : دن فِي الْحَجِّ : حج میں وَسَبْعَةٍ : اور سات اِذَا رَجَعْتُمْ : جب تم واپس جاؤ تِلْكَ : یہ عَشَرَةٌ : دس كَامِلَةٌ : پورے ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : لیے۔ جو لَّمْ يَكُنْ : نہ ہوں اَھْلُهٗ : اس کے گھر والے حَاضِرِي : موجود الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور اعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اور خدا (کی خوشنودی) کیلیے حج اور عمرے کو پور کرو اور اگر (راستے میں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈا لے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو (کرے) اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو یہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مکہ میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے
آیا عمرہ فرض ہے یا نقل ؟ ارشاد باری ہے (واتموا الحج والعمرۃ للہ، اللہ کے لئے حج اور عمرہ پورا کرو) اس آیت کی تاویل میں سلف کا اختلاف ہے۔ حضرت علی ، حضرت عمر، سعید بن جبیر اور طائوس سے مروی ہے کہ حج اور عمرہ کے اتمام کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے دونوں کا احرام باندھ لو۔ مجاہد کا قول ہے کہ اتمام کا مفہمو یہ ہے کہ حج اور عمرہ میں داخل ہونے کے بعد ان دونوں کے آخری افعال تک ادا کئے جائیں۔ سعید بن جبیر اور عطاء کا قول ہے۔ اللہ کے لئے ان کے تمام افعال و ارکان کو قائم کرنا اس لئے کہ یہ دونوں واجب ہیں۔ گویا ان دونوں نے آیت کی یہ تاویل کی کہ اس میں ان دونوں چیزوں کی ادائیگی کا حکم ہے گویا یوں فرمایا گیا کہ حج اور عمرہ کرو۔ حضرت ابن عمر اور طائوس سے مروی ہے کہ اتمام سے مراد افراد ہے ینی الگ الگ احرام کے ذریعے ان دونوں کی ادائیگی ہے ۔ قتادہ کا قول ہے عمرہ پورا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں کے سوا دوسرے مہینوں میں عمرہ ادا کیا جائے۔ عمرہ کے وجوب کے متعلق بھی سلف میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن مسعود، ابراہیم نخعی اور شعبی سے مروی ہے کہ یہ نفل ہے ۔ مجاہد نے قول باری (واتموا الحج والعمرۃ للہ) کی تفسیر میں کہا ہے کہ ان دونوں کے اندر جن افعال کا ہم نے حکم دیا ہے انہیں پورا کرو۔ حضرت عائشہ ، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حسن بصری اور ابن سیرین سے مروی ہے کہ عمرہ واجب ہے۔ مجاہد سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ طائوس نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ یہ واجب یعنی فرض ہے ۔ جو لوگ عمرے کے وجوب یعنی فرضیت کے قائل ہیں انہوں نے ظاہر آیت (واتموا الحج والعمرۃ للہ) سے استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آیت کے الفاظ میں احتمال ہے کہ حج اور عمرہ میں داخل ہونے کے بعد انہیں پورا کیا جائے اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ ان دونوں کے اعفال کے ابتداء کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس لئے آیت کے الفاظ کو ان دونوں احتمالات پر محمول کرنا واجب ہے اور اس کی حیثیت اس عموم کی طرح ہے جو ہر اس چیز کو شامل ہوتا ہے جو اس میں شامل ہوسکتی ہے اور کوئی چیز اس کے دائرے سے کسی دلیل کے بغیر نکل نہیں سکتی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں وجوب عمرہ پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ وہ اس طرح کہ آیت میں زیادہ سے زیادہ جو بات ہے وہ حج اور عمرے کے اتمام کا حکم ہے اور یہ حکم صرف اس بات کا متقاضی ہے کہ ان کی ادائیگی میں کوئی کمی نہ رہے بلکہ ان کے ارکان و افعال پورے پر وے ادا کئے جائیں۔ اس لئے کہ لغت کے لحاظ سے نقصان یعنی کمی رہ جانا تمام یعنی پورا ہونے کے مفہوم کی ضد ہے۔ بطلان اس کی ضد نہیں ہے۔ آپ ناقص کو غیر تام کہتے ہیں لیکن کسی ایسی چیز کو غیر تام نہیں کہتے جس کے کسی حصے کا وجود ہی نہ ہو۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ اتمام کا حکم نقصان کی نفی کا متقاضی ہے۔ اسی بنا پر حضرت علی اور حضرت عمر کا قول ہے کہ ان دونوں کے اتمام کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے ہی ان دونوں کے لئے احرام باندھ لو۔ اگر بات اسی طرح ہے جو ہم نے یان کی ہے تو آیت کی تاویل یہ ہوگی کہ ان کی ادائیگی ناقص طریقے سے نہ ہو۔ اب ناقص طریقے سے ادائیگی کا نہ ہونا وجوب پر دلالت نہیں اس لئے کہ نوافل پر بھی اب فقرے کا اطلاق درست ہے۔ آپ حسب موقع یہ کہتے ہیں کہ نفلی حج یا نفلی عمرہ نقاص طرقیے سے ادا نہ کرو۔ اسی طرح نفل نماز کو بھی ناقص ادائیگی سے بچائو۔ اس لئے جب اتمام کا حکم نقصان کی نفی کا متقاضی ہے تو اس صورت میں وجوب پر اس کی دلالت نہیں ہوگی۔ ہمارے استدلال کی صحت پر یہ بات دلالت کر رہی ہے کہ آیت میں نفلی حج اور نفلی عمرہ مراد ہیں جنہیں ناقص طور پر ادا کرنے سے منع کیا گیا ہے اور بنیادی طور پر ان دونوں کے وجوب پر آیت کی دلالت نہیں ہے۔ نیز یہ پہلو بھی موجود ہے کہ لفظ اتمام کے زیادہ ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس کا اطلاق کسی چیز میں دخول یا ابتداء کے بعد اس پر کیا جاتا ہے۔ قول باری ہے (ثم اتموا الصیام الی اللیل) یہاں روزے میں دخو ل کے بعد اس پر اتمام کے لفظ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اسی طرح حدیث ہے (ماادرکتم فصلوا وما فاتکم فاتموا جماعت کے ساتھ نماز کا جتنا حصہ مل جائے اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کرلو) حضور ﷺ نے لفظ اتمام کا اطلاق نماز میں دخول کے بعد کی حالت پر کیا ہے۔ اس بات پر کہ آیت سے مراد حج اور عمرہ میں داخل ہونے کے بعد ان کے اتمام کو واجب کرنا ہے یہ چیز دلالت کر رہی ہے کہ آیت کی رو سے نفلی حج اور عمرہ شروع کرنے کے بعد ان کا اتمام لازم ہوجاتا ہے گویا کہ آیت میں یوں کہا گیا کہ حج اور عمرہ میں داخل ہونے کے بعد انہیں پورا بھی کرو۔ اب جبکہ دخول کے بعد اتمام کالزوم ثابت ہوگیا تو اس لزوم کو ابتداء پر محمول کر کے یہ کہنا کہ یہ دونوں واجب ہیں درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان دونوں مفہوم میں تضاد ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر آیت سے دخول کی وجہ سے لازم کردینا مراد لیا جائے تو پھر دخول سے پہلے لازم کردینے کا معنی خود بخود منتفی ہوجائے گا۔ اس لئے کہ دخول سے پہلے لازم کردینے کی صورت دخول کی وجہ سے واجب ہونے کے مفہوم کے مناف ہے آپ نہیں دیکھتے کہ فرض حج کے متعلق یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ دخول کے بعد لازم ہوجاتا ہے یا مثلاً ظہر کی نماز دخول کی وجہ سے لازم ہوجاتی ہے۔ درج بالا صورت حال اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دخول کی وجہ سے ان دونوں کے ایجاب اور دخول سے قبل ابتداء سے ایجاب کا ارادہ کرنا درست نہیں ہے۔ اس لئے ہمارے بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس آیت میں عمرہ کے، وجوب پر اس میں داخل ہونے سے پہلے کوئی دلالت نہیں ہے۔ عمرے کے بارے میں مختلف خیالات عقلی طور پر بھی عمرہ کے عدم وجوب پر اس طرح استدلال کیا جاسکتا ہے کہ جو عبادات فرض ہیں وہ ایسے اوقات کے ساتھ مخصوص ہیں کہ ان اوقات کے وجود کے ساتھ ان عبادات کی فرضیت کا تعلق ہوتا ہے۔ مثلاً نماز، روزہ، زکواۃ اور حج ۔ اب اگر عمرہ فرض ہوتا تو اس کے لئے بھی کوئی دقت مخصوص ہوتا جب ایسا نہیں ہے تو عمرہ کرنے والا آزاد ہے جس وقت چاہے عمرہ کرسکتا ہے۔ اس طرح اس کی مشابہت نفل نماز اور نفلی روزے کے ساتھ ہوگئی۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ نفلی حج بھی تو ایک وقت کے ساتھ مخصوص ہے لیکن اس کا اس طرح ہونا اس کے وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تمہاری یہ بات لازم نہیں آتی۔ اس لئے کہ ہم نے یہ کہا تھا کہ ایسی فرضی عبادت جو ہر شخص کے لئے اس کی ذاتی حیثیت میں لازم ہوتی ہیں۔ ان کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ اوقات کے ساتھ مخصوص ہیں اور جو عبادت کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہ ہو وہ فرض عبادت نہیں ہوتی۔ اس سے یہ امتناع لازم نہیں آتا کہ بعض نوفال کسی وقت کے ساتھ مخصوص ہوں اور بعض اس سے آزاد ہوں، سا لئے کلیہ یہ بنا کر ہر وہ عبادت جو کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہ ہو وہ نفل ہوت ی ہے اور جو وقت کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ بعض فرض ہیں اور بعض نوافل۔ ایسے آثار و مرویات بھی ہیں جن سے عمرہ کے عدم وجوب پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جس کی ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی ہے، انہیں احمد بن بحتر عطار نے، انہیں محمد بن ب کرنے ، انہیں محمد بن فضل بن عطیہ نے سالم افطس سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الحج جھاد والعمرۃ تطوع ، حج جہاد ہے اور عمرہ نفل) ۔ جو لوگ عمرہ کے وجوب کے قاتل ہیں وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جو ابن لھیعہ نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر سے کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الحج والعمرۃ فریضتان واجبتان حج اور عمرہ و لازمی فریضے ہیں۔ ) اسی طرح ان کا اس روایت سے بھی استدلال ہے جو حسن بصری نے حضرت سمرۃ سے کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (اقیموالصلوۃ واتوالزکوۃ وحجوا واعتمووا واستغیموا الیستقم لکم، ) نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو حج اور عمرہ کرو سیدھے رہو تمہارے تمام معاملات سیدھے رہیں گے) اور ظاہر ہے کہ آپ کے امر کو وجوب پر محمول کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور روایت ہے کہ حضور ﷺ سے اسلام کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے نماز وغیرہ کے ذکر کے بعد فرمایا (وان تحج وتعتمو اور یہ کہ تم حج اور عمرہ کرو) اسی طرح ان کا استدلال صبی بن معبد کے قول سے بھی ہے کہ ” میں نے حج اور عمرہ کو اپنے اوپر فرض پایا۔ “ حضرت عمر کے سامنے یہ بات کہی گئی اور آپ نے اس کی تردید نہیں کی۔ بلکہ اس سے یہ فرمایا کہ ” حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرلیا کرو۔ “ اسی طرح ان کا استدلال ابو رزین کی حدیث سے ہے جو بنو عامر کا ایک شخص تھا۔ اس نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرا باپ بہت بوڑھا ہے وہ نہ اونٹ پر سفر کرسکتا ہے اور نہ ہی حج اور عمرہ ادا کرسکتا ہے۔ “ آپ نے فرمایا :” اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کرلو۔ “ وجوب عمرہ میں ابولھیعہ کے طریق سے حضرت جابر کی جو حدیث ہے وہ اس لحاظ سے ضعیف ہے کہ ابولھیعہ ایک ضعیف اور بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا راوی ہے کہا جاتا ہے کہ اس کی کتابیں جل گئی تھیں اور سا نے روایت کرنے کے لئے اپنے حفظ کا سہارا لیا تھا لیکن اس کا حافظہ بہت خراب تھا عدم وجوب کی جو روایت ہم نے حضرت جابر سے کی ہے اس کی سند ابن لھیعہ کی سند سے بہتر ہے۔ اگر سند کے لحاظ سے دونوں روایتوں کو یکساں تلیم کرلیا جائے تو زیادہ سے زیادہ ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے سے متعارض ہونے کی وجہ سے ساقط ہوجائیں گی اور ہمارے لئے طلحہ اور ابن عباس کی روایت باقی رہ جائے گی جس کا کسی روایت سے تعارض نہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ایجاب عمرہ کی نفی میں جو حدیث آپ نے حجاج سے، انہوں نے محمد بن المنکدر سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے وہ ایجاب عمرہ کی اس حدیث سے متعارف نہیں ہے جو ابن لھیعہ نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے۔ اس لئے کہ حجاج کی حدیث اصل کے طور پر مروی ہے جبکہ ابن لھیعہ کی حدیث اس اصل کی ناقل ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ ایک مسئلے کے متعلق دو حدیثیں مروی ہوں جن میں ایک نفی کرنے والی اور دوسری اثبات کی حامل ہو تو اثبات والی روایت اولیٰ ہوگی۔ اسی طرح اگر ایک روایت موجب ہو اور دوسری غیر موجب تو پہلی روایت اولیٰ ہوگی۔ اس لیء کہ ایجاب اس کے ترک کی ممانعت کا متقاضی ہوتا ہے جبکہ نفی کی صورت میں کوئی ممانعت نہیں ہوتی اور ترک کی ممانتع کرنے والی روایت ممانعت نہ کرنے والی روایت سے اولیٰ ہوتی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس بنا پر ضروری نہیں ہے کہ ایجاب عمرہ والی ابن لھیعہ کی روایت اگر ثابت ہوتی تو اس کی بکثرت روایت ہوتی کیونکہ لوگوں کو اس کی عام ضرورت تھی اور اس سے ہر وہ شخص واقف ہوتا جو وجوب حج سے واقف تھا۔ اس لئے کہ اس کا وجوب بھی حج کے وجوب کی طرح ہوتا ہے اور جسے حج کی ادائیگی کا مخاطب بنایا جاتا وہ عمرہ کی ادائیگی کا بھی مخاطب ہوتا۔ اس لئے جس حدیث کی یہ حدیث ہو اس کا ورود خبر واحد کی شکل میں درست نہیں ہوتا علاوہ ازیں اس کی سند میں بھی ضعف ہے اور ایک دوسری روایت اس کی معارض ہے۔ نیز یہ بھی واضح ہے کہ یہ روایتیں ایک ہی صحابی سے مروی ہیں۔ اگر وجوب کیر وایت تاریخ کے اعتبار سے نفی وجوب کی روایت سے متاخر ہوتی تو حضرت جابر اس کی ضرور وضاحت کردیتے اور یوں فرماتے کہ حضور ﷺ نے عمرہ کے متعلق فرمایا تھ ا کہ یہ نفل ہے پھر بعد میں آپ نے فرمایا تھا کہ یہ واجب ہے، کیونکہ یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کہ حضرت جابر کو دونوں روایتوں کا علم ہو اور ان کی تاریخ بھی انہیں معلوم ہو اور پھر آپ تاریخ کا ذکر کئے بغیر کبھی ایجاب کی روایت بیان کردیتے اور کبھی نفی ایجاب کی روایت جو اس کی ضد ہے۔ یہ وضاحت اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ دونوں حدیثیں ایک دوسرے کی متعارق منقول ہوئی ہیں۔ البتہ اگر دو حدیثیں دو صحابیوں سے اثبات اور نفی کے ساتھ منقول ہوئی ہوں تو ان میں اعتبار کا وہی طریقہ ہوگا جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ حضرت سمرہ بن جندب کی روایت میں امر کے لفظ (فاعتموا عمرہ کرو) کو ہمارے بیان کردہ دلائل کی روشنی میں ندب یعنی استحباب پر محمول کیا جائے گا۔ حضور ﷺ سے جب اسلام سکے متعلق پوچھا گیا تھا تو آپ نے نماز وغیرہ کے ذکر کے بعد یہ فرمایا تھا کہ (وان تحج وتعتمو اور یہ کہ تم حج اور عمرہ کرو) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نوافل بھی تو آخر اسلام کا حصہ ہیں۔ اسی طرح ہر وہ عبادت اسلام کا حصہ ہے جو تقرب الٰہی کے حصول کی خاطر ادا کی جائے۔ چناچہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ اسلام کے کچھ اوپر ستر شعبے ہیں اور راستے سے تکلیف وہ چیز کو ہٹا دینا بھی ایک شعبہ ہے۔ حضرت عمر کے سامنے صبی بن معبد نے یہ کہا تھا کہ ۔” میں نے حج اور عمرہ کو اپنے اوپر فرض پایا ہے۔ حضرت عمر یہ سن کر خاموش رہے اور اس پر نکیر نہیں کی اس کی تاویل یہ ہے کہ صبی نے یہ کہا تھا کہ یہ دونوں مجھ پر فرض ہیں۔ “ یہ نہیں کہا تھا کہ ” یہ دونوں لوگوں پر فرض ہیں۔ “ اس قول کے ظاہر کا تقاضا تو یہ ہے کہ انہوں نے اس کی نذر مانی ہو۔ اسطرح نذر کی وجہ سے یہ دونوں ان پر لازم ہوگئے ہوں۔ نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے آیت حج و عمرہ کی یہی تاویل کی ہو جبکہ اس میں تاویل کی گنجائش موجود ہے اور اسی گنجاش کی بنا پر حضرت عمر نے انہیں ٹوکا تھا۔ اس کی حیثیت بالکل وہی ہے جو وجوب عمرہ کے قائل کے قول کی ہے ۔ اس لئے کہ اجتہادی طور پر اس کے لئے اس قول کی گنجائش ہے اس بن اپر اسے ٹوکا نہیں جاسکتا۔ بنو عامر کے جس شخص نے حضور ﷺ سے اپنے بوڑھے باپ کے متعلق مسئلہ پوچھا تھا آپ نے اسے فرمایا تھا کہ اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کرو تو آپ کے اس قول میں وجوب عمرہ پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ آپ کا یہ قول وجوب کو لازم کرنے کے موقعہ و محل میں نہیں تھا کیونکہ بنو عامر کے اس شخص پر اپنے باپ کی طرف سے نہ تو حج کرنا لازم تھا اور نہ ہی عمرہ کرنا۔ بعض لوگ قول باری (وافعلوا الخیر، نیکی کے کام کرو) سے عمرہ کے وجوب پر استدلال کرتے ہیں اس لئے کہ عمرہ بھی نیکی ہے۔ ظاہر لفظ تو تمام نیکیوں کے ایجاب کا متقاضی ہے لیکن یہ استدلال کئی وجوہ سے ساقط ہے پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ عمرہ کے وجوب کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کی ادائیگی نیکی ہے۔ اس لئے جس شخص کا اس کے وجوب کے متعلق اعتقاد نہ ہو اس کے لئے وجوب کے طور پر اس کی ادائیگی درست نہیں ہوگی اور اگر وہ اسی طرح اعتقاد پر اسے ادا کرے گا تو یہ نیکی نہ ہوگی جس طرح کہ ایک شخص نفل نماز پڑھے اور اس میں فرض کا اعتقاد کرے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری صوافعلوا الخیر) ایک مجمل لفظ ہے اس لئے کہ یہ ایسے مجمل پر مشتمل ہے کہ اگر یہ لفظاً وارد بھی ہوجائے تو اس پر عمل لازم نہیں ہوتا ۔ اگر آپ دیکھیں تو اس میں آپ کو نماز، روزہ اور زکوۃ وغیرہ سب داخل نظر آئیں گے اور یہ سب کے سب فرائض مجملہ ہیں اور جب لفظ ایسے معانی پر مشتمل ہو جو مجمل ہو تو وہ لفظ خود مجمل بن جائے گا اور اپنے حکم کے اثبات کے لئے کسی اور دلیل کا محتاج ہوگا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ لفظ الخیر، میں الف لام جنس کا ہے جس کا استغراق ممکن نہیں۔ اس بنا پر یہ اس کم سے کم نیکی کو شامل ہوگا جس پر لفظ خیر کا اطلاق کیا جاسکتا ہو۔ مثلاً کوئی یہ کہے کہ اگر میں نے پانی پی لیا یا عوتروں سے نکاح کیا تو … اب اگر وہ ان دونوں کاموں کا کم سے کم درجہ بھی سر انجام دے دے گا تو وہ اس لفظ سے عہدہ برا ہوجائے گا۔ اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ ہمیں لفظ کے ورود کے ساتھ یہ علم ہوگیا تھا کہ یہاں خیر سے مراد خیر کی بعض صورتیں ہیں اس لئے کہ خیر کی تمام صورتوں کا احاطہ مشکل امر ہے۔ اس لئے اس فقرے کا مفہوم یہ ہوگا کہ خیر کی بعض صورتوں پر عمل کرو۔ اس مفہوم کے تحت حکم کے لزوم کے لئے بیان اور وضاحت کی ضرورت پڑے گی۔ اس سلسلے میں بعض لوگوں کا یہ استدلال ہے کہ ہمیں نفل کی صورت میں جو چیز بھی نظر آئی اس کی کوئی نہ کوئی اصل فرض میں موجود ملی ۔ اگر عمرہ بھی تطوع ہوتا تو فرض میں اس کی اصل موجود ہوتی۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ عمرہ نام ہے طواف اور سعی کا اور اس کے لئے فرض میں اصل موجود ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عمرہ کے سوا کسی اور جگہ طواف اور سعی مفرد فرض کی شکل میں موجود نہیں ہوتے جبکہ فرض میں طواف وسعی تابع کی صورت میں موجود ہوتے ہیں اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کبھی نفلی طور پر بیت اللہ کا طواف کیا جاتا ہے۔ اگرچہ فرض میں الگ سے اس کی کوئی اصل نہیں ہوتی اسی طرح عمرہ بھی نفلی طور پر ادا کی اجاتا ہے کیونکہ یہ نام ہے طواف اور سعی کا، اگرچہ فرض میں اس کی کوئی اصل نہیں ہوتی۔ امام شافعی نے یہ استدلال کیا ہے کہ جب حج اور عمرہ کی اکٹھی ادائیگی جائز ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عمرہ فرض ہے کیونکہ اگر یہ نفل ہوتا تو حج کے اعمال کے ساتھ اس کے افعال کو جمع کرنا جائز نہ ہوتا جس طرح کہ ایسی دو نمازوں کو جمع نہیں کیا جاسکتا جن میں ایک فرض ہو اور دوسری نفل جبکہ چار رکعات فرضوں کے عمل کو جمع کردیا جاتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ ایک غلط کلیہ ہے جس پر وجوب عمرہ کا قول باطل ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ جب حج اور عمرہ کو جمع کرنا جائز ہوگیا اور دو فرض نمازوں کو جمع کرنا جائز نہ ہوا تو یہ خود اس بات کی دلیل ہوگئی کہ عمرہ فرض نہیں ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ چار رکعات فرض کے عمل کو جمع کیا جات ا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چاروں رکعتیں ایک نماز ہوتی ہیں جس طرح کہ ایک حج جو اپنے تمام ارکا ن پر مشتمل ہوتا ہے یا جس طرح کہ ایک طواف جو سات اشواط پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی موجود ہے کہ اس استدلال سے امام شافعی کا اصول ٹوٹ جاتا ہے وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص پہلے عمرہ کرے پھر فرض حج قرآن کی شکل میں اس طرح ادا کرے کہ اس کے ساتھ عمرہ بھی ملا لے تو یہ عمرہ نفلی ہوگا اور حج فرض ہوگا۔ اس طرح فرض اور نفل کے درمیان جمع درست ہوجائے گا اور اس سے ان لوگوں کا استدلال ختم ہوجائے گا جو حج کے ساتھ عمرہ کو وجوب کی بنا پر جمع کرنے کے قائل ہیں۔ امام شافعی کا یہ بھی استدلال ہے کہ حج کی طرح عمرے کے بھی میقات ہیں جس سے معلوم ہوا کہ یہ فرض ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب کوئی شخص فرض عمرہ ادا کر کے گھر واپس ہوجائے اور دوبارہ پھر عمرہ کی ادائیگی کے ارادے سے آئے تو اس وقت بھی اس کے عمرے کے وہی میقات ہوں گے جو حج کے ہیں۔ جبکہ اس کا یہ عمرہ نفلی ہوگا۔ اس لئے میقات کی شرط وجوب پر دلالت نہیں کرتی اسی طرح نفلی حج کے بھی فرض حج کی طرح میقات ہوتے ہیں۔ امام شافعی نے حج قرآن کرنے والے پر وجوب دم سے بھی استدلال کیا ہے لیکن اس سے وجوب عمرہ پر دلالت کی وجہ بیان نہیں کی ہے صرف دلیل سے خلای ایک دعویٰ کیا ہے۔ اس کے باوجود ان کا یہ اصول ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص فرض حج کے ساتھ نفلی عمرہ کرے تو اس پر بھی دم واجب ہوگا تو اگر دونوں کو جمع کر دے جبکہ دونوں نفلی ہوں تو پھر بھی دم واجب ہوگا۔ اس مثال سے امام شافعی کا اصول ٹوٹ گیا۔ محصورین کے لئے حج کے احکام قول باری ہے (فان احصر تم فما استیسر من الھدی) اور اگر تم کہیں گھر جائو تو جو قربانی میسر آئے اللہ کی جناب میں پیش کر دو ) کسائی، ابوعبیدہ اور اکثر اہل لغت کا قول ہے کہ مرض یا نفقہ کے ختم ہونے کی وجہ سے پیش آنے والی رکاوٹ کو احصار کہتے ہیں اور دشمن کی وجہ سے پیدا ہونے والی رکاوٹ کو حصر کہتے ہیں۔ چناچہ محاورے میں یوں کہا جاتا ہے۔ ” احصرہ المرض وحصرہ العدو (بیماری اس کے لئے رکاوٹ بن گئی اور دشمن نے اسے روک دیا۔ ) فرآء سے یہ منقول ہے دونوں الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوسکتے ہیں۔ ابو العباس مبرو اور زجاج نے فراء کے اس قول کو ناپسند کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دونوں الفاظ معنی کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ کیونکہ بیماری ک صورت میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ ” حصرہ المرض “ اور نہ دشمن کی صورت میں ” احمرہ العدو “ بولا جائے گا۔ ان دونوں لفظوں کا استعمال بالکل اسی طرح ہے جس طرح یہ دو محاورے ہیں۔ اول ” حبسہ “ جس کا مفہوم ہے ” قید میں ڈال دیا “ اور دوم ” احبسہ “ جس کے معنی ہیں ” قید کے لئے پیش کیا “ بالکل اسی طرح قتلہ (اسے قتل کردیا) اور اقتلہ (اسے قتل کے لئے پیش کیا) یا قبرہ (اسے قبر میں دفن کردیا) اور اقبرہ (اسے قبر میں دفن کے لئے پیش کیا) ٹھیک اسی طرح حصرہ (اسے محصور کردیا) اور احصرہ (اسے حصر کے لئے پیش کیا) کے معانی ہیں۔ ابن ابی نجیع نے عطاء کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حصر صرف دشمن کی وجہ سے ہوتا ہے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے بیماری یا ہڈی وغیرہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے روک دیا ہو وہ حصر نہیں کہلائے گا۔ حضرت ابن عباس نے یہ بتایا کہ حصر صرف دشمن کی بنا پر ہوتا ہے اور بیماری کی وجہ سے رکاوٹ کو حصر نہیں کہتے۔ یہ روایت اہل لغت کے اس قول کے موافق ہے جسے ہم نے اوپر نقل کیا ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ اگر حصر کے معنی وہی لئے جائیں جو حضرت ابن عباس نے بیان کئے تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ بیمار کے لئے احرام کھول دینا جائز نہیں ہوگا اور وہ محصر نہیں کہلائے گا۔ لیکن حضرت ابن عباس کے قول میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہے جو معترض کے اس گمان کی تائید کرتی ہو۔ انہوں نے تو صرف اسم کے معنی کی نشاندہی کی ہے ۔ حکم کے معنی کی نشاندہی نہیں کی۔ انہوں نے تو یہ بتایا کہ احصار کا لفظ بیماری کی رکاوٹ کے ساتھ اور حصر کا لفظ دشمن کی رکاوٹ کے ساتھ خاص ہے۔ محصر (گھر جانے والے شخص) کے حکم کے متعلق سلف سے تین اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن بع اس اور حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ دشمن یا بیماری میں گھر جانے والے شخص کا حکم یکساں ہے۔ وہ ایک دم (یعنی قربانی کے لئے اونٹ، گائے بکری میں سے جو جانور میسر ہو) بھیج دے گا اور جب یہ جانو رحرم میں ذبح ہوجائے گا تو وہ اپنا احرام کھول دے گا۔ یہی امام ابوحنیفہ، ابو یوسف، محمد، زفر اور سفیان ثوری کا قول ہے۔ دوسرا قول حضرت ابن عمر کا ہے کہ بیمار احرام نہیں کھولے گا اور کوئی شخص دشمن کی بن اپر ہی محصر ہوگا۔ یہ امام مالک امام شافعی اور لیث بن سعد کا قول ہے۔ تیسرا قول حضرت عبداللہ بن الزبیر اور عروہ بن الزبیر کا ہے کہ اس مسئلے میں بیماری اور دشمن کی رکاوٹ دونوں کا یکساں حکم ہے اور حالت احصار میں گھرا ہوا شخص صرف طواف کے بعد ہی احرام کھول سکتا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ فقہا امصار میں سے کوئی اس قول کا قائل ہے یا نہیں۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اہل لغت کے جو اقوال ہم نے گزشتہ سطور میں نقل کئے ہیں ان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ احصار کا لفظ بیماری کے ساتھ خاص ہے اور قول باری ہے (فان احصرتم فما استیسرمن الھدی) اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ یہ لفظ اپنی حقیقی معنی، بیماری میں استعمال کیا جائے اور دشمن معنوی طور پر اس میں داخل سمجھا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ فرآء سے بیماری اور شدمن دونوں کے لئے لفظ احصار کے استعمال کا جواز منقول ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ قول درست بھی ہوا تو بھی بمیاری میں اس کے اثبات پر آیت کی دلالت بحالہ باقی رہے گی۔ اس لئے کہ فرآء نے بیماری پر اس لفظ کے اطلاق کو رد نہیں کیا۔ اس نے صرف دشمن کی صورت میں اس لفظ کے استعمال کے جواز کی بات بتائی ہے۔ اب اگر اس لفظ کا اطلاق دونوں باتوں پر ہوجائے تو یہ ایک عموم ہوگا جو مریض اور دشمن میں گھرے ہوئے انسان دونوں کے لئے حکم کو واجب کر دے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ راویوں میں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس آیت کا شان نزول حدیبیہ کا واقعہ ہے جس میں حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو دشمنوں یعنی کفار مکہ نے روک دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے احرام کھول دینے کا حکم دیا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت میں دشمن مراد ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس آیت کے نزول کا سبب تو یقینا دشمن تھا پھر اس میں حصہ کے ذکر سے جو دشمن کے ساتھ خاص ہے احصار کے ذکر کی طرف جو کہ بیماری کے ساتھ مختص ہے روئے سخن منتقل ہوگیا ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت میں بیماری کی صورت میں عائد ہونے والا حکم بتانا مقصود ہے تاکہ اس لفظ کو اس کے ظاہر پر محمول کیا جائے۔ پھر جب حضور ﷺ نے صحابہ کرام کو احرام کھول دینے کا حکم دے کر خود بھی احرام کھول دیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ نے اس لفظ کے معنی سے حصر عدو مراد لیا ، نہ کہ لفظ سے، اور سا طرح آیت کا نزول دونوں صورتوں میں عائد ہوتے ہوئے حکم کی نشاندہی کر گیا۔ اگر اس سے اللہ کی مراد صرف دشمن والی صورت کی تخصیص ہوتی اور بیماری مراد نہ ہوتی تو پھر آیت میں ایسے الفاظ بیان کئے جاتے جن کا تعلق صرف والی صورت سے نہ ہوتا کسی اور سے نہ ہوتا ۔ علاوہ ازیں اگر لفظ دو معنوں کے لئے اسم ہوتا تو کسی خاص سبب کی بنا پر اس کا نزول اس کے حکم کو صرف اسی سبب تک محدود نہ کرتا بلکہ عموم لفظ کا اعتبار کرنا واجب ہوتا نہ کہ سبب کا۔ سنت سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے ، ہمیں محمد بن بکر نے روایت کی ، انہیں ابو دائود نے انہیں مسدد نے، انہیں یحییٰ نے حجاج صواف سے، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے عکرمہ سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حجاج بن عمرو انصاری سے سنا کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من کسواو عرج فقد حل وعلیہ الحج من قابل ، جس شخص کی ہڈی ٹوٹ گئی یا وہ لنگڑا ہوگیا تو اس کا احرام کھل گیا ۔ اب اس پر اگلے سال کا حج ہے۔ ) عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ سے دریافت کیا، دونوں نے فرمایا کہ حجاج بن عمرو نے سچ کہا ہے ۔ اب حضور ﷺ کے قول (فقد حل) کا مفہوم یہ ہے کہ اس شخص کے لئے احرام کھول دینا جائز ہوگیا جس طرح کہ کہا جاتا ہے (حلت المراۃ للزوج) جس کا مفہوم یہ ہے کہ عوت کے لئے ناکح کرنا جائز ہوگیا۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ حماد اور ابن زید نے ایوب سے اور انہوں نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے محصر کے متعلق فرمایا کہ وہ قربانی کا جانور بھیج دے گا جب جانور اپنی قربانی کی جگہ پہنچ جائے گا تو اس کا احرام کھل جائے گا اور وہ آئندہ سال حج کرے گا۔ عکرمہ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے قصاص (مساوی بدلے) پر راضی ہوجاتا ہے یعنی حج کے بدلے حج اور احرام کے بدلے احرام ۔ البتہ جب بندے کی طرف سے اللہ کے حق میں زیادتی ہوتی ہے تو پھر مواخذہ کرتا ہے۔ اس معترض کا یہ خیال ہے کہ اگر یہ حدیث عکرمہ کے پاس ہوتی تو وہ ” یبعث بالھدی “ (قرباین کے لئے جانور بھیجے گا) کہنے کی بجائے ” یحل “ (وہ احرام کھول دے گا) کہتے جس طرح کہ ہماری روایت کردہ حدیث کے الفاظ ہیں۔ معترض کو غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ اس نے یہ خیال کیا ہے کہ حضور ﷺ کے قول (حل) کا مطلب یہ ہے کہ احصار کے ساتھ ہی اس کا احرام کھل جائے گا۔ حالانکہ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے احرام کھول دینا جائز ہوگا جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ لوگ اپنی بول چلا میں جب یہ فقرہ کہتے ہیں کہ ’ حلت المرأۃ للازواج “ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس کا نکاح پڑھانا جائز ہوگیا ہے۔ عقلی طور پر بھی ہمارے استدلال کی تائید اس طرح ہوتی ہے کہ دشمن میں گھر جانے والا شخص اس لئے احرام کھول دیتا ہے کہ اب بیت اللہ تک پہنچنا اس کے لئے ممکن نہیں رہا اور بعینہ یہی بات بیماری کی صورت میں بھی موجود ہوتی ہے۔ اس لئے یہ ضرو ریہو گیا کہ بیماری کی وہی حیثیت اور حکم ہو جو دشمن کی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر دشمن کی رکاوٹ کے باوجود اس شخص کے لئے بیت اللہ تک پہنچ جانا مشکل نہ ہو تو ایسی صورت میں احرام کھول دینا اس کے لئے درست نہیں ہوگا۔ اس سے یہ پتہ چلا کہ اصل بات بیت اللہ تک رسائی کا متعذر ہونا ہے۔ اس بات پر یہ حقیقت بھی دلالت کرتی ہے کہ ہمارا مخالف بھی ہم سے اس مسئلے میں متفق ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر اسے نفلی حج سے روک دے جبکہ اس عورت نے حج کا احرام باندھ لیا ہو تو اس کے لئے احرام کھول دینا جائز ہوگا اور سا کی حیثیت محصر کی ہوگی حالانکہ دشمن موجود نہیں، اسی طرح اگر کوئی قرضوں کی وجہ سے قرض خواہوں میں پھنس جائے اور سا کے لئے بیت اللہ تک پہنچنا مشکل ہوجائے تو وہ بھی محصر کے حکم میں ہوگا۔ اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ مریض کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ ہمارے دعوے کی اس بات سے بھی تائید ہوتی ہے کہ تمام فرائض کے حکم میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا کہ ان کی ادائیگی میں دشمن کی وجہ سے رکاوٹ ہوئی ہے یا بیماری کی وجہ سے آپ نہیں دیکھتے کہ خوف زدہ انسان کے لئے اشارے سے یا بیٹھ کر نماز ادا کر لینی جائز ہے جبکہ کھڑے ہو کر ادا کرنا اس کے لئے متعذر ہو اور بیماری کی صورت میں بھی مریض کے لئے اس طرح کی ادائیگی جائز ہے، اس لئے احرام جاری رکھنے کے سلسلے میں بھی حکم مختلف نہیں ہونا چاہیے جبکہ کسی بیماری یا دشمن کے خوف کی وجہ سے بیت اللہ تک پہنچناا س کے لئے معتذر ہوجائے۔ خوف یا بیماری کی وجہ سے استقبال قبلہ کا بھی یہی حکم ہے۔ یا کسی کو طہارت حاصل کرنے کے لئے پانی نہ ملنے یا پانی موجود ہو لیکن وہ بیمار ہو یا کوئی شخص جہاد پر جانے کے لئے تیار ہو لیکن اس کے پاس میدان جنگ میں استعمال ہونے والے ضروری ہتھیار اور سامان نہ ہو یا سب کچھ موجود ہو لیکن وہ خود بیمار ہو۔ تو فرض کے سقوط کے لئے ان تمام اعذار کا حکم یکساں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بعض اعذار میں تو سقوط فرض کا حکم عائد ہوجائے گا اور بعض میں نہیں ہوگا اس لئے احرام جاری رکھنے کی فرضیت کے سقوط اور احرام کھول دینے کے جواز کے سلسلے میں بھی ان اعذار کا حکم مختلف نہیں ہونا چاہیے۔ فعل کا متعذر ہونا سب میں قدر مشترک کے طور پر موجود ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ قول باری (فان احصرتم فما استیسر من الھدی) اور اس کے بعد پھر یہ ارشاد ہے (فمن کان منکم مریضا اوبہ اذی من راسہ فقدیا من صیام اوصدقۃ پھر تم میں جو شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزے یا صدقہ کا فدیہ دے۔ ) اس میں دو طرح سے اس بات پر دلالت ہے کہ احصار کے ذکر سے مریض مراد نہیں ہے اس لئے کہ اگر وہ اول خطاب میں مراد ہوا تو نئے سرے سے ان کا ذکر نہ ہوتا، نیز اگر وہ مراد ہوتا تو وہ دم دے کر احرام کھول دیتا، اس فدیہ دینے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ (ولا تحلقوا رئو و سکم حتی یبلغ الھدی محلہ) اور تم اپنے سر نہ مونڈ جب تک کہ قربانی کا جانور حرم میں ذبح نہ ہوجائے) تو احصار کے باوجود اس قربانی کا جانور حرم میں ذبح ہوجانے تک احرام کھول دینے سے روک دیا گیا۔ محلہ کے معنی قربانی کے جانور کا حرم میں ذبح ہونے کے ہیں۔ اس طرح آیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کے جانور کا حرم میں ذبح ہوجانے سے پہلے مریض پر عائد ہونے والا حکم بیان کردیا گیا اور اس پر فدیہ واجب کر کے اسے سرمونڈنے کی اجازت دے دی۔ اس میں ایک پہلو اور بھی ہے کہ ہر بیماری بیت اللہ تک پہنچنے سے مانع نہیں ہوتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ سے دریافت فرمایا تھا کہ آیا سر میں پائی جانے الی جوئیں وغیرہ تمہاری تکلیف کا باعث ہیں ؟ تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا تھا اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ اب ظاہر ہے کہ سر کی یہ جوئیں وغیرہ بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سرمونڈنے کی اجازت دے دی اور فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح یہ جائز ہے آیت میں مذکور مرض ایسی بیماری ہو جس کی موجودگی میں احصار کی حالت نہ پائی جاتی ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کو احصار قرار دیا ہے جو بیت اللہ تک مریض کے پہنچنے میں مانع ہو اس لئے آیت میں مریض کے حکم کا ذکر کوئی ایسی بات نہیں کہ جو یہ ثابت کر دے کہ مرض احصار نہیں بن سکتا۔ اس میں ایک پہلو اور بھی ہے کہ افمن کان منکم مریضاً ) کا تعلق احصار کے حکم کی طرح خطاب کی ابتداء یعنی (واتموا الحج والعمرہ للہ) کے ساتھ ہو پھر اس پر (فان لحصرتم) کو عطف کر کے احصار کی صورت میں ان کا حکم بیان کردیا اور اس کے بعد فرمایا (فمن کان منکم مریضاً ) یعنی ” اے وہ لوگو ! جنہوں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا ہے۔ “ ان کا حکم اسی طرح یہاں بیان کردیا جبکہ وہ احصار سے قبل بیمار پڑجائیں جس طرح کہ احصار کی حالت میں مبتلا ہونے کی صورت میں ان کا حکم بیان کردیا۔ اس بنا پر قول باری (فمن کان منکم مریضاً ) میں کوئی ایسی دلالت نہیں جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ مرض احصار نہیں بن سکتا۔ یہ معلوم ہو سکے کہ مرض احصار نہیں بن سکتا۔ اگر یہ کہاجائے کہ سیاق آیت میں قول باری (فاذا امتتم فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج، پھر اگر تمہیں امن نصیب ہوجائے (اور تم حج سے پہلے مکہ پہنچ جائو) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے ……) اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں مراد وہ دشمن ہے ج سکا خوف ہو اس لئے کہ امن اس بات کا مقتضی ہے کہ پہلے خوف موجود ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا اگر اس سے مراد مرض کے ضرر کے خوف سے امن ہو تو اس میں کونسی رکاوٹ ہے اور صرف دشمن کے ساتھ اسے مخصوص کردینے کی کیا وجہ ہے، مرض کے ساتھ اسے متعلق کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ دشمن اور بیماری دونوں میں امن اور خوف کا پہلو موجود ہوتا ہے۔ چناچہ حضرت عروہ بن الزبیر سے مروی ہے کہ (فاذا امنتم) کے معنی ہیں کہ جب تمہیں ہڈی وغیرہ ٹوٹ جانے اور درود وغیرہ لاحق ہونے سے امن ہو تو پھر تم پر بیت اللہ پہنچنا لازم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دشمن اور مرض میں یہ فرق ہے کہ دشمن کی وجہ سے محصر کے لئے اگرچہ آگے جانا ممکن نہیں ہوتا لیکن واپس ہوجانا ممکن ہوتا ہے جبکہ بیمار انسان نہ آگے جاسکتا ہے اور نہ پیچھے واپس ہوسکتا ہے ۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ جس شخص کے لئے نہ آگے جانا ممکن ہو نہ پیچھے واپس آنا تو ایسا شخص محصر کہلانے کا اس شخص سے بڑھ کر مستحق ہوگا جس کے لئے اگرچہ آگے جانا متعذر ہونا ہے لیکن پیچھے واپسی کا راستہ کھلا ہوتا ہے۔ معترض سے یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپ اس محصر کے متعلق کیا کہتے ہیں جو دشمن کے گھیرے میں آگیا ہو اور اس کے لئے نہ آگے جانا ممکن ہو اور نہ پیچھے آنا کیا اس کے لئے فقہاء کے نزدیک متفقہ طور پر احرام کھولنا جائز نہیں ہوگا ؟ اس طرح آپ نے دشمن اور مرض کے درمیان فرق کی جو علت بیان کی تھی وہ اس خاص صورت میں منتقض ہوگئی۔ تاہم امام شافعی کا قول ہے کہ عورت جب احرام باندھ لے اور پھر اس کا شوہر اسے جانے سے روک دے یا کوئی شخص احرام باندھنے کے بعد قید ہوجائے تو یہ دونوں محصر کہلائیں گے اور ان کے لئے احرام کھول دینا جائز ہوگا اور ان کے حق میں آگے جانا اور واپس ہوجانا، دونوں برابر ہوگا کیونکہ ان کو ان دونوں باتوں سے روک دیا گیا ہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ مریض اور خائف کے درمیان یہ فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ میں خوف زدہ انسان کے لئے یہ جائز کردیا ہ کہ وہ کسی دوسری فوج میں جا ملے اور اس طرح خوف سے امن کی طرف منتقل ہوجائے۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے تو مریض کو جنگ میں سرے سے حصہ نہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔ قول باری ہے (لیس علی الضعفاء ولا عل المرض ولا علی الذین لایجدون ماینفقون حرج) کمزوری بیماریوں اور ایسے لوگوں پر کوئی گناہ نہیں جن کے پاس خرچ کرنے کے لئے بھی کچھ نہیں ہے) اس بنا پر مریض کو ملنے والی رخصت خائف کو منلے والی رخصت سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے کہ خائف جنگ میں تر ک شمولیت میں معذور نہیں گردانا جاتا جبکہ مریض گردانا جاتا ہے۔ خائف کا کسی دوسری فوج سے جا ملنا قابل قبول عذر ہے لیکن اس کا جنگ میں سرے سے شامل ہونا ناقابل قبول ہے اس لئے مریض اس بات کا زیادہ مستحق ٹھہرے گا کہ احرام کھول کر حلال ہونے کی صورت میں اس کا عذر قابل قبول کرلیا جائے۔ امام شافعی نے فرمایا کہ جب ایک طرف ارشاد باری ہے (واتموا الحج والعمرۃ للہ) اور دوسری طرف محصر خائف کو احرام کھولنے کی اجازت مل گئی تو اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حج اور عمرہ کے اتمام کی فرضیت صرف خائف کے سوا اور کسی محرم سے ساقط اور زائل نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس ذات باری کا یہ ارشاد ہے کہ صواتمو الحج والعمرۃ للہ) اسی کا یہ بھی ارشاد ہے کہ (فان احصرتم) اس لفظ میں جو عموم ہے وہ خائف اور غیر خائف سب کو شامل ہے۔ اس لئے کسی دلالت کے بغیر اس عموم سے کوئی صورت خارج نہیں کی جاسکتی۔ اب وہ کون سی دلالت ہے جو اسے صرف خائف کے ساتھ مخصوص کرتی ہے اور اس میں غیر خائف کو شامل نہیں ہونے دیتی ؟ دوسری جانب آپ نے اپنا اصول یہ کہہ کر خود یہ توڑ دیا کہ اگر عورت کو اس کا شوہر احرام کے باوجود حج پر جانے سے روک دے تو وہ احرام کھول سکتی ہے ۔ حالانکہ وہ خائف نہیں ہوتی۔ اسی طرح قیدی بھی جسے قتل ہونے کا خوف نہ ہو اپنا احرام کھول سکتا ہے۔ مزنی کا کہنا ہے کہ دشمن سے خوف زدہ محرم کو احرام کھول دینے کا حکم رخصت کے طور پر دیا گیا ہے اور کسی دوسرے کو اس کے مشابہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ جس طرح کہ مسح کرنے کا حکم موزوں کے ساتھ خاص ہے اور دستانوں کو ان کے مشابہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر خائف کے لئے احرام کھول دینے کی بنیاد رخصت ہے تو پھر اس رخصت میں کسی اور کو اس کے مشابہ قرار نہیں دینا چاہیے۔ حضور ﷺ نے جب پتھر یا مٹی کے ڈھییل کے ساتھ استنجا کرنے کی رخصت دے دی تو یہ ضروری ہوگیا کہ استنجا کے جواز میں پتھر یا ڈھیلے کے ساتھ کسی اور چیز مثلاً چیتھڑے یا لکڑی وغیرہ کی مشابہت نہ ہو۔ اسی طرح جوئیں وغیرہ کی وجہ سے سرمنڈانا رخصت ہے تو یہ ضرو ری ہے کہ جسم کی کسی اور تکلیف کو سر منڈانے اور فدیہ ادا کرنے کی اجازت کے لئے اس کے مشابہ قرار نہ دیا جائے جس سے یہ لازم آت ا ہے کہ قیدی کو نیز اس محرم عورت کو جسے اس کا شوہر حج پر جانے سے روک دے خائف کے مشابہ قرار نہ دیا جائے۔ ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے امام شافعی اور مزنی کی تعلیل منقوض ہوجاتی ہے۔ فصل حضرت ابوبکر ؓ کا قول ہے کہ حج اور عمرہ میں احصار کا حکم یکساں ہے۔ محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ احصار صرف حج میں ہوتا ہے ، عمرہ میں نہیں ہوتا۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ عمرے کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا اور اس کے فوت ہونے کا بھی خطرہ نہیں ہوتا اس لئے عمرہ میں احصار نہیں ہوتا ۔ حضور ﷺ سے متواتر روایات کی بن اپر یہ ثابت ہے کہ آپ نے حدیبیہ کے سال عمرہ کا احرام باندھا تھا اور پھر طواف کے بغیر آپ نے عمرہ کا احرام کھول دیا اور اگلے سال ذی قعدہ میں اس یقضا کیا جس کی بنا پر اس کا نام عمرۃ القضاء پڑگیا۔ نیز ارشاد باری ہے (واتموا الحج والعمرۃ للہ) پھر ارشاد ہوا (فان احصرتم فما استیسر من الھدی) اس میں مذکورہ حکم حج اور عمرہ دونوں پر عائد ہوتا ہے اور یہ جائز ہی نہیں ہے کہ حکم کو صرف ایک تک محدود رکھا جائے اور دوسرے کو چھوڑ دیا جائے اس لئے کہ اس سے یہ خرابی لازم آئے گی کہ دلیل کے بغیر لفظ کے حکم کی تخصیص کردی جائے۔ قربانی کے جانور کے بارے میں احکام ارشاد باری ہے (فما استیسرمن الھدی ، جو قربانی میسر آ جائے اللہ کی جناب میں پیش کر دو ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس کے متعلق سلف کے اقوال مختلف ہیں۔ حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر کا یہ قول مروی ہے کہ اونٹ اور گائے کے سوا کوئی جانور ہدی کے طور پر نہیں بھیجا جاسکتا جبکہ حضرت ابن عباس سے بکری کا جواز بھی منقول ہے۔ فقہاء امصار بھی اس بارے میں مختلف الرائے ہیں۔ امام ابوحنیفہ، ابو یوسف، محمد، زفر، امام مالک، اور امام شافعی کا قول ہے کہ ہدی، تین قسم کے جانوروں یعنی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری میں سے ہوسکتا ہے یہی ابن شبرمہ کا قول ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بد نہ یعنی حج کے موقع پر قربانی کیا جانے والا جانور صرف اونٹ ہوتا ہے لیکن ہمارے اصحاب اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ اونٹ اور گائے دونوں ہوسکتے ہیں۔ پھر قربانی کے جانور کی عمر میں اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول ہے کہ اونٹ، گائے یا بھیڑ بکری میں سے بطور ہدی جو جانور لیا جائے وہ کم از کم ثنی یا اس سے زائد ہو (یعنی گائے، بھینس وغیرہ وغیرہ کم از کم دو برس کی۔ اونٹ پانچ برس کا اور بکری یا بکرا ایک برس کا) البتہ بھیڑیا دنبہ ایک سال سے کم کا ہو تو وہ جائز ہے (بشرطیکہ موٹا تازہ ہو اور جب ریوڑ میں سال بھر کے بھیڑ دنبوں کے ساتھ چلے پھرے تو فرق معلوم نہ ہوتا ہو) امام مالک کا قول ہے کہ ہدی کا جانور ثنی یا اس سے بڑا ہو اور زاعی کا قول ہے کہ ہدی کے طور پر پیش کیا جانے والا جانور کر اونٹ ہو اور گائے یا اونٹ کا نر بچہ بھی جائز ہے۔ اونٹ یا گائے میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہدی اس جانور کو کہتے ہیں جسے بیت اللہ کی طرف تقرب الٰہی حاصل کرنے کی غرض سے اللہ کی جناب میں پیش کرنے کے لئے لے جایا جائے۔ لفظ ہدی سے ایسا جانور بھی مراد لینا درست ہے جو بطور صدقہ دیا جائے اگر چہ اسے بیت اللہ نے لے جایا جائے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے :(المکوالی الجمعۃ کا لھدی بدلۃ ثم الذی یلیہ کالمھدی بقرۃ ثم الذی یلیہ کالمھدی شاہ ثم الذی یلیہ کالمھدی دجاجۃ ثم الذی یلیہ کالمھدی بیضۃ جمعہ کی نماز کے لئے سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح ہے، سا کے بعد آنے والا آنے والا گائے کی، اس کے بعد آنے والا بکری کی، اس کے بعد آنے والا مرغی کی اور اس کے بعد آنے والا انڈے کی قربانی دینے والے کی طرح ہے۔ آپ نے مرغی اور انڈے کو ہدی کا نام دیا اگرچہ آپ کا مقصد انہیں بیت اللہ لے جانا نہیں بلکہ صرف صدقہ تھا جس سے تقرب الٰہی حاصل ہو۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ ” اللہ کے لئے میرے ذمے میرا یہ کپڑا یا گھر بطور ہدی دینا ہے۔ “ تو اسے نذر پوری کرنے کے لئے اپنا کپڑا یا گھر صدقہ کے طور پردے دینا ضروری ہوگا۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے جانوروں کے ان تینوں اصناف یعنی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری کے سوا اور کوئی جانور بطور ہدی بھیجا نہیں جاسکتا جس کا ذکر قول باری (فما استیسو من الھدی) میں آیا ہے۔ البتہ ان جانوروں میں سے عمر کے لحاظ سے ہدی کے لئے کیسے جانور مراد ہیں۔ اس میں اختلاف ہے جس کا ہم سابقہ سطور میں ذکر کر آئے ہیں۔ ظاہر آیت اس بات کا مقتضی ہے کہ اس میں بکری بھی داخل ہو کیونکہ لفظ ہدی اکا اس پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ اس ارشاد باری (ھدیا بالغ الکعبۃ ) ایسا ہدی جو کعبہ تو پہنچنے والا ہو) کے معنی میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ بکری بھی اس میں شامل ہے اور اسے حرم میں شکار کے بدلے میں بطور ہدی دیا جاسکتا ہے۔ ابراہیم نخعی نے اسود کے واسطے سے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ بکریاں بطور ہدی بھیجیں، اعمش نے ابوسفیان کے واسطے سے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے بطور ہدی جو جانور بھیجے تھے ان میں بکریاں بھی تھیں جن کی گردنوں میں پٹے پڑے ہوئے تھے۔ اگر اعتراض کیا جائے کہ بکریاں بطور ہدی بھیجنے کی حضرت عائشہ سے یہ روایت درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ قاسم نے حضرت عائشہ سے یہ روایت کی ہے کہ آپ بکریوں کو (فما استیسر من الھدی) میں شامل نہیں سمجھتی تھیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت عائشہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بکری بطور ہدی لے کر چلے گا وہ اس کی وجہ سے محرم نہیں ہوگا۔ اونٹ اور گائے کو بطور ہدی لے جانا احرام کو واجب کردیتا ہے۔ بشرطیکہ وہ شخص احرام کا ارادہ کرلے اور جانور کے گلے میں پٹہ ڈال دے۔ رہا، ہدی، کے جانوروں میں ثنی کا اعتبار کرنا تو اس کی بنیاد وہ روایت ہے جو حضرت ابو بردہ بن دینار کے واقعہ میں حضور سے مروی ہے ۔ جب انہوں نے نماز سے پہلے قربانی دے دی تو آپ نے دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس بکری کا بچہ ہے۔ جو دو بکریوں کے گوشت سے بہتر ہے، آپ نے فرمایا :” تمہارے لئے اس کی قربانی کفایت کر جائے گی لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لئے نہیں۔ “ آپ نے قربانی میں بکری کا بچہ دینے سے منع کردیا اور ہدی بھی اضحیہ یعنی قربانی کی طرح ہے کیونکہ کسی نے بھی ان دونوں میں فرق نہیں کیا ہے۔ فقہاء نے بھیڑ کا بچہ اس لئے جائز کردیا ہے کہ حضور ﷺ سے منقول ہے کہ آپ نے بھیڑ کے بچے کی قربانی کا حکم دیا تھا جبکہ وہ چھ مہینے کا ہوچکا ہو۔ ہم نے شرح المختصر، میں اس کی وضاحت کردی ہے۔ واجب ہدی میں ایک سے زائد لوگوں کی رشکت میں اختلاہے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول ہے کہ اونٹ اور گائے میں سات آدمی شریک ہو سکت یہیں۔ امام مالک کا قول ہے کہ نفلی قربانی میں تو یہ جائز ہے لیکن واجب میں جائز نہیں۔ حضرت جابر نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے حدیبیہ کے دن اونٹ اور گائے سات سات آدمیوں کی طرف سے قربانی دینے کا حکم دیا۔ یہ واجب قربانی تھی اس لئے کہ یہ احصار کی وج ہ سے تھی۔ پھر جب نفلی قربانی میں سات آدمیوں کی شرکت کے جواز پر سب کا اتفاق ہے تو واجب قربانی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ نفلی اور واجب قربانی میں جواز کے لحاظ سے تمام وجوہ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اس پر قول باری (فما استیسر من الھدی) کا ظاہر لفظ بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ ” من “ تبعیض کا تقاضا کرتا ہے اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ ’ ہدی ‘ کا ایک حصہ آیت کے ظاہر لفظ کے لحاظ سے کافی ہوجائے۔ واللہ اعلم۔ محصر ہدی ، کو کس جگہ ذبح کرے گا ارشاد باری ہے (ولا تحلقوا رئو وسکم حتی یبلغ الھدی محلہ، اور تم اپنے سرنہ مونڈو یہاں تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے) قربانی کی جگہ یعنی محلل کے متعلق سلف کا اختلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابن عباس، عطاء طائوس، مجاہد، حسن بصری اور ابن سیرین کا قول ہے کہ قربانی کی جگہ حرم ہے۔ یہی ہمارے اصحاب اور ثوری کا قول ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ محرم جس جگہ حالت احصار میں آ جائے اسی جگہ جانور ذبح کر کے احرام کھول دے۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ لفظ ” المحل ‘ کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے ۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے وقت ذبح مراد لیا جائے اور یہ بھی احتمال ہے کہ مکان ذبح مراد ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قرض کی ادائیگی محل وہ وقت ہوتا ہے جس میں اس کی واپسی کا مطالبہ ضروری ہوجاتا ہے۔ حضور ﷺ نے ضباعہ بنت الزبیر سے فرمایا تھا کہ صاشترطی فی الحج و قولی محلی حیث حبستی، حج کا احرام باندھتے وقت اسے مشروط کرتے ہوئے کہو میرا محل یعنی احرام کھول دینے کی جگہ وہی ہے جہاں، اے میرے اللہ ! تو مجھے محصو رکر دے گا۔ ) اس قول میں ’ المحل ‘ کا اطلاق مکان پر ہوا ہے۔ اب جب یہ لفظ دونوں معنوں کا احتمال رکھتا ہے اور دوسری طرف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ عمرہ کے احرام میں احصار کی شکل میں قربانی کی ذبح کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا جبکہ آیت میں لا محالہ مقررہ وقت مراد ہے۔ تو اب لازمی ہوگیا کہ یہاں المحل سے مکان مراد لیا جائے جس کا مقتضی یہ ہے کہ محرم اس وقت تک احرام نہ کھولے جب تک کہ قربانی اس جگہ نہ پہنچ جائے جو احصار کی جگہ کے علاوہ ہو۔ اس لئے کہ اگر احصار کی جگہ ہی قربانی کی ذبح کی جگہ ہوتی تو اس صورت میں احصار کے پیدا ہوتے ہی قربانی اپنی ذبح کی جگہ کو پہنچ جاتی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ آیت میں لفظ حتی کے ذریعے جو غایت بیان کی گئی ہے وہ بیکار ہوجاتی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ المحل سے مراد حرم ہے اس لئے کہ جو شخص احصار کی جگہ کو قربانی کی جگہ قرار دینے کا قائل نہیں ہوگا وہ پھر حرم کو ہی قربانی کی ذبح کی جگہ قرار دے گا اور جو شخص اس کا قاتل نہیں ہوگا وہ آیت کے فائدے کو باطل اور اس کے معنی کو ساقط کرنے کا مرتکب ہوگا۔ ایک اور جہت سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے۔ قول باری ہے (واحلت لکم الا نعام الا مایتلی علیکم) اور تمہارے لئے ان چوپایوں کے سوا جن کے نام تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں، تمام چوپائے حلال کردیئے گئے ہیں) تاقول باری (لکم فیھا منافع الی اجل مسمی ثم محلھا الی البیت العتیق ) ان جانوروں میں تمہارے لئے ایک مقررہ مدت تک فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے پھر ان ک یذبح کی جگہ بیت عتیق یعنی کعبتہ اللہ کی طرف ہے۔ ) ہمارے قول کی صحت پر یہ آیت دو طرح سے دلالت کر رہی ہے۔ اول یہ کہ اس میں تمام ہدایا یعنی قربانی کے جانوروں کے لئے عموم ہے۔ دوم یہ کہ اس میں المحل کا مفہوم بیان کردیا گیا ہے۔ جو قول باری (حتی یبلغ الھدی محلہ) میں مجمل تھا۔ اس لئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بیت عتیق کو قربانی ذبح کرنے کی جگہ مقرر کردیا تو اب کسی کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے سوا کسی اور جگہ کو اس کام کے لئے متعین کرے۔ شکار کے بدلے کے متعلق قول باری (ھدیا بالغ الکعبۃ ) بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آیت میں کعبہ تک پہنچنا اس جانور کی ایک صفت قرار دی گئی ہے۔ اس بنا پر اس صفت کے عدم وجود سے کوء یجانور ھدی نہیں بن سکتا جس طرح کہ کفارئہ قتل اور کفارہ ظہار میں فرمایا گیا کہ (فصیام شھرین متتابعین مسلسل دو مہینوں کا روزہ) چونکہ اس روزے کو تسلسل کی قید سے مقید کردیا گیا ہے۔ اس بنا پر تسلسل کے بغیر کفارہ کے روزوں کا وجود نہیں ہوگا۔ اسی طرح قول باری ہے (فتحریر رقبۃ مومنۃ ایک مومن گردن آزاد کرنا ہے) اگر مومن غلام آزاد نہ کیا گیا تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ کیونکہ غلام اس صفت کے ساتھ مشروط ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ھدی کے تمام جانوروں کی ذبح حرم کے سوا اور کہیں جائز نہیں۔ قول باری جو احصار کے ذکر کے بعد خطاب کے تسلسل کے دوران وارد ہوا وہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ ارشاد ہے (فمن کان منکم مریضاً اوبہ اذی من راسہ ففدیۃ من صیام او صدققا ونسلک) اس میں محصر پر دم یعنی جانور کی قربانی واج بکر کے اسے سرمونڈنے سے منع کردیا گیا جب تک کہ جانور ذبح نہ ہوجائے۔ اگر حرم سے باہر کسی جگہ اس کی قربانی جائز ہوتی تو سر کی تکلیف والا محرم اپنے احصار کا جانور ذبح کر کے احرام کھول دیتا اور اسے سر کی تکلیف کی بنا پر حلق کرنے کا فدیہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حل یعنی حرم سے باہر کی جگہ قربانی کی ذبح کی جگہ نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جسے احصار کی حالت میں قربانی کرنے کے لئے جانور نہ ملے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ خطاب درج بالا شخص کے لئے نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو روزہ رکھنے یا صدقہ کرنے یا دم دینے کا اختیار دیا ہے اور یہ اختیار اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے جبکہ اسے یہ تینوں اشیاء میسر ہوں۔ اس لئے کہ ایسی چیزوں میں اختیار دینے کا تو کوئی مطلب ہی نہیں جن میں سے بعض تو دستیاب ہوں اور بعض نہ ہوں اس لئے اس استدلال سے یہ ثابت ہوگیا کہ قربانی کی ذبح کی جگہ حرم ہے۔ احصار کی جگہ نہیں ہے۔ اب آئیے ذرا عقلی طور پر اس مسئلہ پر نظر ڈالیں۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ شکار کے بدلے میں ذبح ہونے والا جانور حرم کے سوا اور کہیں ذبح نہیں ہوسکتا اس لئے ہر اس قربانی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ جس کے وجوب کا تعلق احرام کی وجہ سے ہوا ہو۔ ان دونوں کے درمیان جو مشترک بات ہے وہ یہ ہے کہ ان کا تعلق احرام کے ساتھ ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ قول باری ہے (ھو الذی کفروا وصدوکم عن المسجد الحرام وا لھدی معکوفاً ان یبلغ محلہ، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام میں جانے سے روکا اور قربانی کے جانور کو جور کا ہوا رہ گیا تھا اس کی ذبح کی جگہ پہنچنے سے روک دیا۔ ) اس آیت کا شان نزول حدیبیہ کا واقعہ ہے اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ نے حرم سے باہر اپنی قربانیاں ذبح کیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو قربانی کا جانور ضرور اپنی ذبح کی جگہ پہنچ جاتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس واقعہ سے تو اس حقیقت پر زیادہ دلالت ہو رہی ہے کہ قربانی کی ذبح کی جگہ حرم ہے۔ اس لئے کہ اگر احصار کی جگہ ذبح کی جگہ ہوتی تو آیت میں یہ ارشاد نہ ہوتا کہ (والھدی معکوفا ان یبلغ محلہ) اس میں یہ اطلاع دی گئی ہے کہ مشرکین مکہ نے قربانی کو اس کی ذبح کی جگہ پہنچنے سے روک دیا، اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذبح کی جگہ حل یعنی حرم سے باہر نہیں ہے۔ آیت میں یہ گنجائش ہے کہ وہ اس مسئلے میں دلیل کی ابتداء کا کام دے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام نے اپنی قربانیاں حل یعنی غیر حرم میں ذبح نہیں کیں تو پھر (والھدی معکوفاً یبلغ محلہ) کا کیا مطلب ہوگا ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب ادنیٰ درجے کی رکاوٹ پیدا ہوگئی تو یہ کہنا درست ہوگیا کہ انہیں روک دیا گیا تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ کے لئے ایسا کیا گیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص دور سے شخص کا حق مار کر اسے محروم کردیتا ہے تو اس وقت یہ فقرہ کہنا درست ہے کہ فلاں نے فلاں کا حق روک دیا یا محبوس کردیا ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کا حق ہمیشہ کے لئے محبوب ہو کر رہ گیا۔ اس واقعہ میں بھی صورت حال یہی ہے۔ مشرکین مکہ نے جب قربانی کو ابتداء ہی سے حرم میں پہنچنے سے روک دیا تو یہ کہنا دسرت ہوگیا کہ انہوں نے قربانی کو اس کی ذبح کی جگہ پہنچنے سے روک دیا اگرچہ اس کے بعد انہوں نے یہ رکاوٹ دور کردی تھی۔ آیت پر ذرا غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی خاص بات یہ بتائی کہ انہوں نے مسلمانوں کو مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا۔ اگرچہ انہوں نے اگلے سال مسلمانوں کو اس کی اجازت دے دی تھی جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے سلسلے میں برادران یوسف کا قول اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے کہ (قالوایا ابانا منع منا الکیل، برادران یوسف نے کہا اے ہمارے باپ ! آئندہ ہم کو غلہ دینے سے انکار کردیا گیا ہے۔ ) یہاں انہیں ایک موقع ہپر غلہ دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔ جبکہ دوسرے موقعہ پر ایسا نہیں کیا گیا۔ ٹھیک اسی طرح مشرکین مکہ نے ابتداء میں قربانی کو حرم میں لے جانے سے روک دیا تھا پھر جب حضور ﷺ اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح ہوگئی تو انہوں نے اس کی اجازت دے دی تو آپ نے قربانی کو حرم میں لیجا کر ذبح کیا۔ اس میں ایک قول یہ بھی ہے کہ حضو ر ﷺ اپنے ساتھ قربانی لے کر اس لئے آئے تھے کہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد اسے ذبح کریں گے۔ جب مشرکین نے آپ کو اس سے روک دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (والھدی معکوفاً ان یبلغ محلہ) اس لئے کہ قربانی ذبح کے وقت مقررہ تک حرم میں نہیں پہنچ سکی تھی۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ جگہ جہاں قربانی کا جانور ذبح کرنا مستحب ہوتا ہے ۔ وہ مردہ کے قریب جگہ یا منی کا مقام ہے۔ جب حضور ﷺ کو اس جگہ قربانی کرنے سے روک دیا گیا تو اس پر آیت میں وہ اطلاق ہوا جو ہم بیان کر آئے ہیں۔ مسور بن مخرمہ اور مردان بن الحکم نے بیان کیا ہے کہ حدیبیہ کا کچھ حصہ حرم سے باہر ہے اور کچھ حصہ حرم کے اندر ہے ۔ حضور ﷺ کا خیمہ تو حرم سے باہر تھا لیکن نماز گاہ حرم کے اندر تھی۔ اب جبکہ آپ کے لئے نماز کی ادائیگی حرم کے اندر ممکن تھی تو لا محالہ قربانی کا جانور بھی حرم کے اندر ذبح کرنا ممکن تھا۔ یہ بھی روایت ہے کہ ناجیہ بن جندب اسلمی نے حضور ﷺ سے عرض کیا تھا کہ اپنے قربانی کے جانور مجھے دے دیجیے میں انہیں گھاٹیوں اور وادیوں سے گذار کر مکہ میں ذبح کر دوں گا۔ چناچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اس صورت میں یہ ممکن ہے کہ آپ نے کچھ جانور تو اس کے ذریعے بھیج دیئے ہوں گے اور کچھ کو حرم میں خود ذبح کیا ہوگا۔ واللہ اعلم ۔ ہدی احصار کے لئے ذبح کا وقت فرمان الٰہی ہے (فما استیسر من الھدی) جو اہل علم قربانی کا جانور بھیج کر احرام کھول دینے کے قائل ہیں ان میں اس مسئلے کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عمرہ کی صورت میں احصار کی حالت کے تحت قربانی کا جو جانور بھیجا جائے گا۔ اس کی ذبح کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ جب چاہے ذبح کرا لے اور احرام کھو ل دے۔ حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام حدیبیہ کے مقام پر حالت احصار میں تھے اور سب نے عمرہ کا احرام باندھ رکھا تھا۔ پھر قربانی کے جانور ذبح کرنے کے بعد احرام کھول دیا۔ یہ واقعہ ذی قعدہ کے مہینے میں پیش آیا تھا۔ البتہ فقہاء کا حج کے احرام کی صورت میں احصار پیش آنے پر جانور ذبح کرنے کے وقت کے متعلق اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ جب چاہے ذبح کرسکتا ہے یعنی دسویں ذی الحجہ سے قبل بھی وہ جانور ذبح ہوسکتا ہے، امام ابو یوسف، امام محمد اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ دسویں ذالحجہ سے قبل ذبح نہیں ہوسکتا۔ ظاہر آیت (فما استیسر من الھدی) کا اقتضاء یہ ہے کہ اس کی ذبح کا کوئی وقت مقرر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس کے لئے کوئی وقت مقرر کیا گیا تو اس سے بلا دلیل لفظ کی تخصیص عمل میں آئے گی جو ناجائز ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (ولا تحلقوا ارئو وسکم حتی یبلغ الھدی محلہ) میں لفظ المحل کا اطلاق توقیت (تعیین وقت) پر ہوتا ہے۔ اس لئے ذبح کا موقف ہونا ضروری ہوگیا جواب میں کہا جائے گا کہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ المحل کا اطلاق جگہ پر ہوتا ہے ۔ اگرچہ کبھی کبھی وقت پر بھی ہوجاتا ہے۔ تاہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ المحل سے یہاں مراد مکان ذبح ہے۔ اس لئے جس وقت قربانی کا جانور حرم میں پہنچ جائے اور وہاں ذبح ہوجائے تو ظاہر آیت کی رو سے ایسا کرنا جائز ہوگا۔ اس بنا پر اس میں وقت کی شرط ایک زائد بات ہوگی اس لئے کہ اکثر احوال میں جب یہ لفظ جگہ اور وقت دونوں کو شامل ہوگا تو ان میں سے جو بھی پایا جائے گا اس کے ساتھ شرط کا پورا ہوجانا ضروری ہوگا۔ اس لئے کہ قربانی کا اپنی ذبح کی جگہ پہنچ جانا احرام کی انتہاء قرار دیا گیا ہے اور حرم میں اس کی ذبح کے ساتھ بلوغ المحل کا مفہوم وجود میں آگیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا (والھدی معکوفاً ان یبلغ محلہ) اور یہ محل حرم تھا۔ پھر بعینہ اسی سلسلے میں (حتی یبلغ الھدی محلہ) فرمایا تو اس سے یہ بات ضروری ہ وگئی کہ یہاں المحل سے مراد وہی مفہوم ہو جو دوسری آیت میں تھا اور یہ حرم ہے۔ حج کے احرام میں دم احصار کی ذبح کے غیر موقف ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فان احصر تم فما استیسرمن الھدی) آیت میں حج اور عمرہ دونوں مراد ہیں اس لئے کہ خطاب کی ابتداء ان دونوں کے ذکر کے ساتھ ان الفاظ میں کی گئی تھی (واتموا الحج والعمرہ للہ) آیت میں حج کے لئے جس قربانی کے جانور کا ذکر ہے، عمرے کے لئے بھی اسی کا ذکر ہے اور جب اس پر اتفاق ہے کہ عمرے کی صورت میں ذبح کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے تو حج کے لئے یہی ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ لفظ میں اطلاق کا مفہو م مراد ہے اور توقیت کی صورت میں اطلاق کا مفہوم باقی نہیں رہ سکتا۔ اس پر یہ قول باری (حتی یبلغ الھدی محلہ) بھی دلالت کر رہ ا ہے۔ اس لئے کہ عمرے کی صورت میں لفظ ، محلہ، سے مراد حرم ہے نہ کہ وقت۔ اس طرح عمرے کے سلسلے میں حرم کے مفہوم کے لئے اس لفظ کی حیثیت منطوق حکم کی طرح ہوگئی جس کا مقتضی یہ ہے کہ حرم میں جس وقت بھی اس جانور کی قربانی کی جائے گی اس کی قربانی درست ہوگی اس لئے حج کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ نیز عمرے کی صورت میں جب لفظ کے اطلاق کو بحالہ باقی رکھا گیا ہے تو حج کی صورت میں اسے مقید کرنا درست نہیں ہوگا، اس لئے کہ ذبح کا حکم حج اور عمرہ دونوں کے لئے ایک ہی لفظ اور ایک ہی وجہ کے تحت وارد ہوا ہے ۔ اس لئے یہ دسرت نہیں ہوگا کہ بعض صورتوں میں لفظ سے وقت ذبح مراد لیا جائے اور بعض دوسر صورتوں میں مکان ذبح مراد لیا جائے۔ جس طرح کہ قول باری (والسابق والسارقۃ) میں یہ جائز نہیں ہے کہ بعض صورتوں میں دس درہم چرانے والا مراد لیا جائے اور بعض میں چوتھائی دینار چرانے والا۔ سنت سے بھی عدم توقیت کی تائید ہوتی ہے حجاج بن عمرو انصاری کی حدیث ہے جس میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے (من کسر او اعرج فقد حل وعلیہ الحج من قابل جس کی ہڈی ٹوٹ جائے یا لنگڑا ہوجائے تو اس کا احرام کھل گیا اور اس پر اگلے سال کا حج ہے) اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے شخص کے لئے احرام کھول دینا جائز ہوگا کیونکہ اس پر اتفاق ہے کہ ہڈی ٹوٹنے یا لنگڑا ہوجانے پر احرام نہیں کھلتا۔ درج بالا مسئلے پر ضباعہ بنت الزبیر کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے انہیں فرمایا تھا کہ (اشترطی وقولی ان محلی حیث حبستنی ، احرام باندھتے وقت شرط رکھ لو اور کہو کہ میرا احرام اس جگہ کھل جائے گا جس جگہ اے خدا تو مجھے روک دے گا۔ ) اس کا مفہوم یہ ہے کہ ضباء کی طرف سے یہ اظہار ہوگیا کہ مقام حبس ان کے احرام کھولنے کی جگہ ہے۔ کیونکہ یہ اصول ہے کہ احرام کی وجہ سے عائد ہونے والے احکام کسی شرط کی وجہ سے منتفی نہیں ہوتے، اس اصول کی بھی درج بالا مسئلے پر دلالت ہو رہی ہے پھر اس حدیث میں ذبح کے لئے وقت بھی مقرر نہیں کیا گیا جس سے ہمارے قول کی تائید ہوتی ہے۔ عقلی طور پر بھی درج بالا مسئلے کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ تمام کا اس پر اتفاق ہے کہ حج فوت ہوجانے کی صورت میں جس عمرے کے ذریعے وہ احرام کھول رہا ہے اس کی ادائیگی کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ اسی طرح اس قربانی کا حکم بھی ہونا چاہیے جو احصار کی وجہ سے اس پر لازم ہوگئی ہے۔ یعنی جس طرح حج فوت ہوجانے کی صورت میں حج کا احرام کھولنے کے لئے واجب ہونے والا عمرہ غیر موقت ہے۔ اسی طرح یہ قربانی بھی غیر موقت ہونی چاہیے کیونکہ اس کے ذریعے فسخ حج کے طور پر انسان احرام کھول دیتا ہے۔ اس لئے اس کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو حج فوت ہوجانے کی صورت میں واجب ہونے والے عمر کا ہوتا ہے۔ دونوں باتیں عمرہ اور قربانی وقت کی قید سے آزاد ہونی چاہئیں۔ قول باری ہے (ولا تحلقوا رئوسکم، اور تم اپنے سر نہ منڈائو) احرا مکی حلات میں حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے دونوں کو سرمنڈانے سے روک دیا گیا ہے اس لئے کہ اس قول باری کا عطف (واتموا الحج والعمرۃ للہ) پر ہے۔ اس کا اقتضا یہ ہے کہ اس میں ایک دوسرے کے سرمونڈنے کی اسی طرح ممانعت ہے جس طرح خود اپن اسر مونڈنے کی کیونکہ لف ظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے۔ اس کی ایک مثال یہ قول باری ہے (ولا تقتلوا انفسکم ، اپنی جانوں کو قتل نہ کرو) اس کا اقتضا یہ ہے کہ ایک دوسرے کی جان لینے کی اسی طرح ممانعت ہے جس طرح اپنی جان لینے کی۔ اس لئے درج بالا آیت میں محرم کو کسی دوسرے کا سرمونڈنے کی بھی ممانعت ہے اور اگر اس نے یہ حرکت کی تو اس پر جز الازم آئے گی۔ نیز اس کی اس امر پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ قران اور تمتع کی صورت میں ذبح حلق یعنی سرمنڈانے پر مقدم ہے۔ اس لئے کہ آیت میں ان تمام لوگوں کے لئے عموم ہے جن پر ایک ہی وقت میں قربانی بھی لازم ہے اور سر منڈانا بھی۔ اس لئے ایسا قارن یا متمتع جو قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے سرمنڈا لے۔ اس آیت کی دلالت کی بن اپر اس پر دم کا وجوب ہوگا۔ اس لئے کہ اس نے یہ حرتک کر کے ایک ممنوع شئی کا ارتکاب کیا ہے۔ کیا محصر سر منڈانا جائز ہے اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ آیا محصر کے لئے سر منڈانا ضرو ری ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ سر منڈانا ضروری نہیں۔ امام ابویوسف سے ایک روایت کی بن اپر اسے حلق کرا لینا چاہیے اگر نہیں کراتا تو اس پر کوئی جرمانہ وغیرہ عائد نہیں ہوگا۔ امام ابو یوسف سے دوسری روایت کی بنا پر اس کے لئے حلق کرانا ضروری ہے۔ تاہم فقہا کا اس مسئلے میں اتفاق ہے کہ اگر بیوی شوہر کی اور غلام آقا کی اجازت کے بغیر نفلی احرام باندھ لے تو شوہر اور آقا کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ حلق یا بال کٹوانے کے بغیر ہی ان کے احرام کھول دیں۔ وہ اس طرح کہ احرام کی وجہ سے ممنوعہ اشیاء میں سے کوئی معمولی سی چیز مثلاً خوشبو یا سلے ہوئے کپڑے انہیں لگایا پہنا دیا تو ان کا احرام ختم ہوجائے گا۔ اس مسئلے سے اس بات پر دلالت ہو رہی ہے کہ محصر پر حلق واجب نہیں ہے۔ اس لئے کہ درج بالا مسئلے میں بیوی اور غلام کی حیثیت محصر کی سی تھی۔ اور شوہر اور آقا کے لئے جائز ہوگیا کہ وہ حلق کے بغیر ہی بیوی اور غلام کا احرام کھول دیں۔ اگر حلق واجب وہتا تو شوہر کے لئے ضروری ہوتا کہ وہ بیوی کے بال چھوٹے کر کے اس کا احرام کھولے اور آقا غلام کا سرمونڈ کر اس کا احرام کھولے۔ نیز اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مناسک میں حلق کی باری اس وقت آتی ہے جب محرم حج یا عمرے کے کچھ مناسک ادا کرے ۔ اب حالت احصار میں مناسک کی ادائیگی کے بعد حلق کی صورت تو نہیں پائی گئی اس لئے اسے کسی دلیل کے بغیر نسک قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حلق بنیادی طور پر کوئی نسک یعنی عبادت نہیں ہے۔ اسی علت کی بن اپر بیوی اور غلام کے مسئلے پر بھی قیاس کیا جائے گا کہ شوہر اور آقا کو علی الترتیب ان دونوں کا احرام حلق یا تقصیر (بال چھوٹے کرنا) کے بغیر کھول دینا اس لئے جائز ہوگیا کہ بیوی اور غلام نے وہ مناسک ادا نہیں کئے تھے جن کے بعد حلق یا تقصیر کی باری آتی تھی۔ اس لئے یہ بھی ضروری ہوگیا کہ اس علت کی بنیاد پر حالت احصار میں آنے والے تمام لوگوں کے لئے حلق کے بغیر احرام کھول دینا جائز ہوجائے۔ محصر کے لئے عدم حلق کے مسئلے پر حضور ﷺ کی اس حدیث سے بھی دلالت ہو رہی ہے جس میں آپ نے حضرت عائشہ کو عمرہ کے افعال کی ادائیگی مکمل کرنے سے پہلے عمرہ ترک کردینے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا (انقضی راس کو امتشطی ودعی العمرۃ واغتسلی واھلی بالحج، اپنے بالوں میں کنگھی کرلو، عمرہ چھوڑ دو ، غسل کرلو اور حج کا احرام باندھ لو۔ ) اس حدیث میں آپ نے حضرت عائشہ کو اس وقت حلق یا تقصیر کا حکم نہیں دیا۔ جب آپ عمرہ کے افعال کی ادائیگی مکمل نہ کرسکیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس شخص کے لئے مناسک ادا کرنے سے پہلے احرام کھول دینا جائز ہوتا ہے۔ اس پر حلق کے ذریعے احرام کھولنا ضروری نہیں ہوتا۔ اس میں اس بات کی بھی دلیل موجود ہے کہ حلق مناسک کی ادائیگی پر اسی طرح ترتیب سے آتا ہے جس طرح مناسک کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ترتیب ہوتی ہے۔ اسی لئے امام محمد نے یہ استدلال کیا ہے کہ محصر سے جب تمام مناسک کی ادائیگی ساقط ہوگئی تو حلق بھی ساقط ہوگیا۔ امام محمد کے اس قول کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ اول یہ کہ اس قول سے ان کی مراد وہی ہو جو ہم اپنے استدلال میں بیان کر آئے ہیں کہ محصر سے جب تمام مناسک ساقط ہوگئے تو حلق بھی ساقط ہوگیا۔ اس لئے کہ حلق کا نمبر ترتیب میں مناسک کی ادائیگی کے بعد آتا ہے۔ دوم یہ کہ احرام کی صورت میں جب حلق واجب ہوتا ہے تو اس کی حیثیت نسک کی ہوتی ہے۔ جب محصر سے تمام مناسک ساقط ہوگئے تو ضرور ی ہوگیا کہ حلق بھی ساقط ہوجائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ محصر سے تمام مناسک اس لئے ساقط ہوگئے کہ ان کی ادائیگی اس کے لئے متعذر ہوگئی لیکن حلق تو ایسا فعل ہے جس کی ادائیگی اس کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے اس لئے اسے حلق ضروری کرنا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ مفروضہ غلط ہے اس لئے کہ اگر محصر کو مزدلفہ جانا اور رمی جمار کرنا ممکن ہو لیکن بیت اللہ تک پہنچنا اور وقوف عرفات کرنا متعذر ہو تو اس پر وقوف مزدلفہ لازم نہیں ہوگا اور نہ ہی رمی جمار اگرچہ ان دونوں کاموں کا امکان بھی ہو۔ اس لئے کہ ان دونوں افعال کا نمبر مناسک حج میں ایسے چند مناسک کے بعد آتا ہے جن کا ان دونوں سے پہلے سر انجام پالینا ضروری ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح حلق کا نمبر کچھ مناسک کی ادائیگی کے بعد آت ا ہے۔ اگر ا ن سے پہلے حلق ہوجائے تو صرف حلق ہی ہوگا نسک نہیں بنے گا۔ اس استدلال سے معترض کا اعتراض رفع ہوگیا اس لئے کہ ایسے مناسک موجود ہوتے ہیں جن کی ادائیگی اس کے لئے ممکن ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود حالت احصار میں وہ اس کے لئے لازم نہیں ہوتے۔ اگر کوئی شخص امام ابویوسف کے مسلک پر استدلال کے لئے یہ آیت پیش کرے صولا تحلفوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ) اور کہے کہ اس میں قربانی کے جانور کا اپنی ذبح کی جگہ پہنچ جائے کو پابندی ختم ہونے کی غایت یا انتہا قرار دی گئی ہے۔ اور قاعدے کے مطابق یہ ضروری ہے کہ غایت کا حکم اس کے ماقبل کے حکم کی ضد ہو۔ اس بنا پر تقدیر آیت یوں ہوگی :” تم اپنے سر منڈائو جب تک قربانی اپنی ذبح کی جگہ نہ پہنچ جائیخ جب پہنچ جائے تو سرمنڈا دو ۔ “ یہ مفہوم حلق کے وجوب کا تقاضا کرتا ہے ۔ جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ اباحت پابندی کی ضد ہوتی ہے جس طرح ایجاب اباحت کی ضد ہوتا ہے۔ اس بنا پر حظر پابندی کے ان دونوں اضداد میں سے ایک ضد یعنی ایجاب کو اختیار کرلینا دوسری ضد یعنی اباحت کو اختیار کرلینے سے اولیٰ نہیں ہوگا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ حظر یعنی پابندی کا خاتمہ اس بات کا متقاضی نہیں ہوتا کہ اس کی ضد پر ایجاب کے طور پر عمل کیا جائے اس کا تقاضا تو صرف یہ ہوتا ہے کہ پابندی اٹھ جانے کے بعد وہ شئی اپنی اصل حالت پر آ اجتی ہے اور اس کا حکم وہی ہو جات ا ہے جو پابندی سے پہلے کا تھا۔ اس بن اپر زیر بحث مسئلے میں حلق کی حیثیت وہی ہوجائے گی جو احرام سے پہلے کی تھی اگر چاہے تو سر کے بال صاف کرا دے اور اگر چاہے تو اسے بحالہ باقی رہنے دے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ جمعہ کی وجہ سے خرید و فروخت پر اور احرام کی وجہ سے شکار پر لگی ہوئی پابندی جب ختم ہوتی ہے تو یہ تقاضا نہیں کرتی کہ ایک شخص جمعہ سے فارغ ہو کر لازم طور پر خرید و فروخت کرے یا ایک شخص احرام سے نکل کر لازمی طور پر شکار کرے۔ پابندی یا حظر کے خاتمے کا تقاضا صرف یہ ہوتا ہے کہ اب ممنوعہ افعال کی اباحت یا اجازت ہوگئی ہے۔ امام ابویوسف کے لئے حضور ﷺ کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے حلق کرانے والوں کے لئے اللہ کی رحمت کی تین دفعہ دعا کی اور بال چھوٹے کرانے والوں کے لئے ایک دفعہ دعا مانگی۔ یہ بات عمرئہ حدیبیہ میں احصار کی حالت پیش آنے پر ہوئی۔ حضور ﷺ کی یہ دعا اس بات کی دلیل ہے کہ حلق ایک نسک ہے اور جب نسک ہے تو اس کی ادائیگی ہے جس طرح کہ غیر محصر کے لئے اس کی ادائیگی دیگر مناسب کی ادائیگی کے ساتھ ضروری ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام کے لئے بیت اللہ کے طواف سے پہلے حلق کرنا اور احرام کھول دینا ذہنی طور پر بری پریشانی کا سبب تھا۔ لیکن جب حضور ﷺ نے انہیں احرام کھولنے کا حکم دیا تو سب نے اس امید پر توقف کیا کہ شاید بیت اللہ تک پہنچنا ممکن ہوجائے۔ حضور ﷺ نے دوبارہ اپنا حکم دہرایا اور ساتھ ہی ساتھ احرام کھولنے کے افعال کی ابتداء خود کردی کہ آپ نے قربانی کا جانور ذبح کیا اور حلق کرایا جب صحابہ کرام نے یہ دیکھا تو بعض نے حلق کرا لیا اور بعض نے تقصیر۔ اس پر حضور ﷺ نے حلق کرانے والوں کے لئے دعا ماگنی کیونکہ انہوں نے حضور ﷺ کی متابعت اور آپ کا حکم بجا لانے میں پوری تندہی دکھائی تھی۔ جب حضور ﷺ سے یہ عرض کیا گیا کہ آپ نے حلق کرانے والوں کے لئے تین دفعہ دعا مانگی اور بال چھوٹے کرانے والوں کے لئے ایک دفعہ، اس کی کیا وج تھی ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ ” ان لوگوں نے شک نہیں کیا تھا۔ “ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان لوگوں نے اس چیز کے متعلق کوئی شک نہیں کیا تھا کہ حلق تقصیر سے افضل ہے۔ اس بنا پر وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ثواب کے مستحق ٹھہرے۔ اگر یہ کہا جائے کہ چاہے جو بھی صورت حال ہو حضور ﷺ نے انہیں حلق کا حکم دیا تھا اور حضور ﷺ کا حکم وجوب پر محمول ہوتا ہے پھر حلق کرانے والوں اور بال چھوٹے کرانے والوں کے لئے آپ کی دعا اس بات کی دلیل ہے کہ حلق ایک نسک ہے۔ آپ کا یہ استدلال کہ حضور ﷺ نے انہیں حلق کا حکم دیا تھا لیکن صحابہ کرام بیت اللہ تک پہنچنے سے پہلے حلق کرانا ناپسند کرتے تھے تو یہ استدلال حلق کے نسک ہونے کی دلالت کے منافی نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مسور بن مخزمہ اور مروان بن الحکم نے حدیبیہ کے واقعہ کی روات کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ حضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا تھا کہ احرام کھول کر قربانی کرلو۔ بعض روایات میں حلق کا بھی ذکر ہے ۔ اب ہم دونوں لفظوں پر عمل کرتے ہوئے کہیں گے کہ جس چیز کے ذریعے وہ احرام کھولے گا اس کا احرام کھل جائے گا کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (احلوا) یعنی احرام کھول لو۔ اور آپ کے قول (احلقوا) کا مقصد احلال یعنی احرام کھول دینا ہے۔ اس میں حلق کے ذریعے احرام کھولنے کی تعیین نہیں ہے کہ اس کے سوا اور کسی چیز کے ذریعے احرام کھولا نہیں جاسکتا۔ حلق کرنے والے ثواب کے اس لئے مستحق ٹھہرے کہ انہوں نے احرام کھولنے میں حضور ﷺ کے حکم کی فرمانبرداری کی تھی اور آپ کی متابعت اور پیروی میں ان کی کوشش اور تندہی کی بنا پر حلق تقصیر سے افضل قرار پایا۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ قربانی کے ذریعے احرام حج کھول دینے کے بعد محصر پر کیا واجب ہوتا ہے ؟ محصر کی کیفیت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی، پس جو شخص حج کا زمانہ آنے سے پہلے عمرے سے فائدہ اٹھائے تو جو قربانی میسر ہو وہ پیش کرے۔ ) سلف اور فقہائے امصار میں اس محصر کے مسئلے میں اختلاف ہے جس نے حج کا احرام باندھا ہو اور پھر قربانی کا جانور بھیج کر احرام کھول دے ۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس اور مجاہد نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روات کی ہے کہ اس پر عمرہ اور حج دونوں لازم ہوں گے۔ اگر اس نے ان دونوں کو حج کے مہینوں میں ادا کرنے کی نیت سے اکٹھا کردیا ہے تو اس پر قربانی واجب ہوگی اور وہ متمتع قرار پائے گا۔ اگر اس نے ان دونوں کو حج کے مہینوں میں اکٹھا نہ کیا ہوگا تو اس پر کوئی قربانی واجب نہیں ہوگی۔ یہی قول علقمہ ، حسن بصری، ابراہیم نخعی، سالم، قاسم اور محمد بن سیرین کا ہے اور یہی ہمارے اصحاب کا قول ہے۔ ایوب نے عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ قصاص یعنی برابری کا معاملہ کیا ہے۔ حج کے بدلے حج اور عمرہ کے بدلے عمرہ الایہ کہ تمہاری زیادتی پر اس کی طرف سے مواخذہ ہو تو یہ اور صورت ہے ۔ شعبی سے روایت ہے کہ اس پر حج واجب ہوگا۔ امام ابوحنیفہ صرف اس محرم پر حج اور عمرہ دونوںں واجب کرتے ہیں جو حالت احصار کی وجہ سے قربانی دے کر احرام کھول دیتا ہے اور پھر اسی سال حج نہیں کرتا۔ اگر ایسا شخص یوم نحر سے پہلے احرام کھول دے پھر احصار ختم ہوجائے اور وہ حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرے لے تو اس پر عمرہ واجب نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ یہ عمرہ حج قوت ہونے کی صورت میں واجب ہوتا ہے۔ کیونکہ جس شخص کا حج فوت ہوجائے اس پر احرام کھولنا عمرہ ادا کرنے کے ذریعے ہی واجب ہوجاتا ہے۔ اس لئے جب اس کا حج فوت ہوا تھا۔ اس پر اس کی وجہ سے عمرہ واجب ہوا تھا۔ اور احصار کی حالت میں اس پر جو دم واجب ہوا تھا وہ صرف احلال یعنی احرام کھولنے کے لئے تھا۔ یہ دم اس نمرہ کے قائم مقام نہیں ہوسکتا جو حج فوت ہونے کی وجہ سے اس پر لازم ہوا تھا۔ اس لئے کہ اصولی طور پر کوئی عمرہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی دم اس کے قائم مقام ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ کوئی شخص اگر عمرہ کرنے کی نذر مان لے تو وہ اس کی جگہ دم نہیں دے سکے گا خواہ اسے کوئی عذر پیش آ جائے یا عمرہ ادا کرنا اس کے لئے ممکن ہو۔ اسی طرح جو شخص عمرہ کی فرضیت کا قائل ہے وہ دم کو عمرہ کے قائم مقام تسلیم نہیں کرتے ہے۔ اس لئے حج فوت ہونے کی وجہ سے لازم ہونے والا عمرہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی دم کا اس کے قائم قمام ہونا جائز نہیں وہتا۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دم یعنی قربانی کے ذریعے صرف احرام کھل جاتا ہے اور بس ۔ اس حقیقت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حج فوت ہونے کی وجہ سے جو عمرہ واجب ہوتا ہے حج فوت ہونے سے پہلے اس کا ادا کرنا جائز نہیں ہوتا کیونکہ ابھی نہ اس کا وقت ہوتا ہے اور نہ ہی سبب پایا اجتا ہے (اس عمرے کا سبب حج کا فوت ہونا ہے اور اس کا وقت حج فوت ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے) جبکہ دم احصار کو ذبح کرنا اور اس کے ذریعے احرام کھول دینا حج فوت ہونے سے قبل بھی درست ہے۔ اس پر ہمارا اور ہمارے مخالفین کا اتفاق ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دم احصار صرف احرام کھولنے کے لئے ہوتا ہے اور یہ عمرہ کے قائم مقام نہیں ہوتا۔ یہاں امام مالک اور امام شافعی کے لئے یہ گنجائش نہیں ہے کہ دم احصار کو اس عمرہ کے قائم مقام بنادیں جو حج فوت ہونے کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔ اس لئے کہ یہ دونوں حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ جس شخص کا حج فوت ہوگیا ہو اس پر عمرہ کے ساتھ ساتھ قربانی بھی واجب ہوتی ہے۔ (بقیہ تفسیر۔ اگلی آیت میں)
Top