Dure-Mansoor - Al-Baqara : 196
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ١ٙ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ١ؕ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠   ۧ
وَاَتِمُّوا : اور پورا کرو الْحَجَّ : حج وَالْعُمْرَةَ : اور عمرہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنْ : پھر اگر اُحْصِرْتُمْ : تم روک دئیے جاؤ فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ : سے الْهَدْيِ : قربانی وَلَا : اور نہ تَحْلِقُوْا : منڈاؤ رُءُوْسَكُمْ : اپنے سر حَتّٰى : یہانتک کہ يَبْلُغَ : پہنچ جائے الْهَدْيُ : قربانی مَحِلَّهٗ : اپنی جگہ فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا بِهٖٓ : اسکے اَذًى : تکلیف مِّنْ : سے رَّاْسِهٖ : اس کا سر فَفِدْيَةٌ : تو بدلہ مِّنْ : سے صِيَامٍ : روزہ اَوْ : یا صَدَقَةٍ : صدقہ اَوْ : یا نُسُكٍ : قربانی فَاِذَآ : پھر جب اَمِنْتُمْ : تم امن میں ہو فَمَنْ : تو جو تَمَتَّعَ : فائدہ اٹھائے بِالْعُمْرَةِ : ساتھ۔ عمرہ اِلَى : تک الْحَجِّ : حج فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ الْهَدْيِ : سے۔ قربانی فَمَنْ : پھر جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزہ رکھے ثَلٰثَةِ : تین اَيَّامٍ : دن فِي الْحَجِّ : حج میں وَسَبْعَةٍ : اور سات اِذَا رَجَعْتُمْ : جب تم واپس جاؤ تِلْكَ : یہ عَشَرَةٌ : دس كَامِلَةٌ : پورے ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : لیے۔ جو لَّمْ يَكُنْ : نہ ہوں اَھْلُهٗ : اس کے گھر والے حَاضِرِي : موجود الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور اعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اور پورا کرو حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے، پس گر تم کو روک دیا جائے تو قربانی کا جانور جو میسر ہو ذبح کر دو ، اور اپنے سروں کو اس وقت تک نہ مونڈو جب تک کہ قربانی کا جانور اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے، سو جو شخص تم میں سے مریض ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو تو فدیے دے دے روزوں سے یا صدقے سے یا قربانی کے جانور سے۔ پھر جب تم امن کی حالت میں ہو سو جو شخص عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر منتفع ہو تو قربانی کا جانور جو میسر ہو ذبح کر دے، سو جو شخص نہ پائے تو تین دن کے روزے ہیں حج میں اور سات دن کے روزے ہیں جب کہ تم لوٹ آؤ، یہ پورے دس ہوئے، یہ اس کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام میں حاضر نہ ہوں اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بلاشبہ اللہ سخت عذاب والا ہے
(1) ابن ابی حاتم، ابو نعیم نے دلائل میں، ابن عبد البراء نے التمہید میں یعلی بن امیہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ (اس وقت) جعرانہ میں تھے وہ آدمی جبہ پہنے ہوئے تھا جس پر خوشبو کا اثر تھا۔ اس آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے بتائیے میں اپنا عمرہ کیسے ادا کریں ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عمرہ کے بارے میں پوچھنے والا سائل کہاں ہے ؟ اس نے کہا میں یہاں ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اپنا جبہ اتار دے اور خوشبو کے اثر کو دھو ڈال پھر جیسے تو اپنے حج میں افعال کرتا ہے۔ ویسے ہی اپنے عمرہ میں (افعال) کر۔ نزول وحی کی شدت (2) امام شافعی، احمد، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی نے یعلی بن امیہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ جعرانہ میں تشریف فرما تھے۔ وہ آدمی ایک جبہ پہنے ہوئے تھا اور اس پر خوشبو (لگی ہوئی) تھی اس نے عرض کیا مجھے بتائیے میں اپنا عمرہ کیسے ادا کروں ؟ نبی اکرم ﷺ پر (کچھ) نازل ہونے لگا تو آپ نے کپڑا اوڑھ لیا۔ یعلی ؓ کہا کرتے تھے کہ میں اس بات کا خواہش مند تھا کہ میں نبی اکرم ﷺ کو اس حالت میں دیکھوں جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کیا مجھ کو یہ بات پسند ہے کہ تو نبی اکرم ﷺ کو دیکھے جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ آپ نے کپڑے کا ایک کنارہ اوپر اٹھایا میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ سے ایسی آواز آرہی تھی جیسے جوان اونٹ کی آواز ہوتی ہے۔ جب آپ سے یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ نے فرمایا عمرہ کے بارے میں پوچھنے والا سائل کہاں ہے ؟ (پھر فرمایا) خوشبو کے اثر کو اپنے سے دھو ڈالو اور اپنے جبہ کو اتار دے اور اپنے عمرہ میں وہی کام کر جو تو اپنے حج میں کرتا ہے۔ (3) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم النحاس حاکم، (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ سے مراد ہے کہ تو اپنے اہل و عیال کے گھر سے احرام باندھے۔ (4) ابن عدی اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ کے بارے میں فرمایا کہ اتمام حج وعمرہ یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو۔ (5) عبد الرزاق اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے لفظ آیت ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ حج وعمرہ کا اتمام یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کو الگ الگ ادا کرے اور حج کے مہینوں کے علاوہ (دوسرے مہینوں) میں عمرہ (ادا) کرے۔ (6) ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ جو شخص حج یا عمرہ کا احرام باندھے اس کے لئے حلال ہونا جائز نہیں یہاں تک کہ اس کو مکمل کرے اور حج کا اہتمام دسویں کے دن ہے جب جمرہ عقبہ کی رمی کرے اور بیت اللہ کا طواف زیارت بھی کرے تو وہ حلال ہوجائے گا اور عمرہ کا اتمام یہ ہے کہ جب بیت اللہ کا طواف کرلے اور صفا مروہ کی سعی کرے تو وہ حلال ہوجائے گا۔ (7) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ان دونوں (یعنی حج اور عمرہ) کا اتمام وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں حکم فرمائے۔ (8) ابو عبید نے فضائل میں، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابن الانباری نے علقمہ اور ابراہیم رحمہا اللہ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ کی قرأت میں یوں ہے لفظ آیت ” واقیموا الحج والعمرۃ الی البیت “ (یعنی) عمرہ کرنے والا بیت اللہ سے تجاوز نہ کرے (اور) حج افعال و ارکان کا نام ہے (اور) عمرہ بیت اللہ (کا طواف) اور صفا مروہ (کی سعی) کا نام ہے۔ (9) عبد بن حمید اور ابن جریر نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ وہ لفظ آیت ” واقیموا الحج والعمرۃ الی البیت “ پڑھتے تھے پھر فرمایا یہ (عمرہ) واجب ہے مثل حج کے۔ عمرہ چھوٹا حج ہے (10) ابن مردویہ، بیہقی نے سنن میں اور اصبہانی نے الترغیب میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ تم کو چار چیزوں کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا۔ نماز کو قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، حج کو قائم کرو، اور عمرہ الی البیت قائم کرو اور حج، بڑا حج ہے اور عمرہ چھوٹا حج ہے۔ (11) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں یزید بن معاویہ (رح) سے روایت کیا کہ میں ولید بن عقبہ کے زمانہ میں مسجد کے ایک حلقہ میں بیٹھا تھا جس میں حضرت حذیفہ ؓ بھی تھے اور نہ وہاں کوئی رکاوٹ تھی نہ کوئی سپاہی تھا اچانک ایک غیبی آواز آئی کہ جو شخص ابو موسیٰ ؓ کی قرأت پڑھتا ہو اس کو چاہئے کہ اس گوشہ میں آجائے جو ابواب کندہ کے پاس ہے اور جو شخص عبد اللہ بن مسعود ؓ کی قرأت پر پڑھتا تھا اس کو چاہئے کہ اس گوشہ میں آجائے جو عبد اللہ ؓ کے گھر کے پاس ہے ان دونوں نے سورة بقرہ کی اس آیت کے بارے میں اختلاف کیا ایک نے اس طرح پڑھا۔ لفظ آیت ” واقیموا الحج والعمرۃ الی البیت “ اور (دوسرے نے پڑھا) لفظ آیت ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ (یہ سن کر) حضرت حذیفہ غصہ ہوگئے اور ان کی آنکھیں سرخ ہوگئیں پھر کھڑے ہوگئے اور یہ حضرت عثمان ؓ کا دور خلافت تھا فرمانے لگے یا تم امیر المؤمنین کی طرف جاؤ یا میں جاتا ہوں اور اسی طرح تم سے پہلے بھی لوگ تھے۔ آپ آئے اور بیٹھ گئے (پھر) فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو بھیجا انہوں نے قتال کیا جو (دشمن) آگے آیا یا پیٹھ پھیری یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو (دنیا سے) اٹھالیا (اس کے بعد لوگوں نے اسلام میں بہت طعنہ زنی کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر ؓ کو خلیفہ بنایا اور وہ باقی رہے جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھا لیا تو لوگوں نے اسلام میں بڑی تیزی سے عیب لگائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کو خلیفہ بنایا انہوں نے اسلام کو عدل و انصاف پر قائم فرمایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اٹھا لیا تو لوگوں نے اسلام میں تیزی سے طعنہ زنی کی پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان ؓ کو خلیفہ بنایا اور اللہ کی قسم ! البتہ قریب ہے کہ تم اس میں طعنہ زنی کرو گے اور سارے (دین کو) مونڈ دو گے (یعنی ختم کر دو گے) ۔ (12) سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واتموا الحج “ پڑھا پھر (آیر کو) کاٹ دیا پھر فرمایا لفظ آیت ” والعمرۃ للہ “ یعنی تاء کے رفع کے ساتھ اور فرمایا یہ نفل ہے۔ (13) سفیان بن عینیہ، شافعی اور بیہقی نے اپنی سنن میں طاؤس سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ سے کہا گیا آپ حج سے پہلے عمرہ کا حکم فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ (یعنی اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ پہلے حج کا ذکر فرماتے ہیں پھر عمرہ کا) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا تم (اس آیت کو) کس طرح پڑھتے ہو۔ لفظ آیت ” من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین “ (النساء آیت 11) (یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلے وصیت کا ذکر فرمایا پھر دین کا (اب بتاؤ) ان دونوں (حکموں) میں سے تم کس (حکم) کو پہلے کرتے ہو تو لوگوں نے کہا دین کو پھر فرمایا وہ بھی اسی طرح ہے یعنی لفظ آیت ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ (کہ پہلے عمرہ کو پورا کرو پھر حج کو پورا کرو) ۔ (14) عبد الرزاق، عبد بن حمید، دار قطنی، حاکم اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عمرہ واجب ہے جیسے حج واجب ہے جو اس کی طرف پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو۔ (15) سفیان بن شیبہ، شافعی (رح) نے الام میں اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کی قسم یہ عمرہ حج سے متصل ہے اللہ کی کتاب میں (جیسے فرمایا) لفظ آیت ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “۔ (16) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد اللہ بن حمید نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ تم کو قرآن میں چار چیزوں کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا نماز کو قائم کرو، زکوٰۃ کو ادا کرو، حج اور عمرہ کو قائم کرو۔ (17) ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عمرہ چھوٹا حج ہے۔ (18) عبد بن حمید اور ابن ابی داؤد نے المصاحف میں روایت کیا کہ حضرات ابن مسعود ؓ نے یوں پڑھا لفظ آیت ” واقیموا الحج والعمرۃ للبیت “ پھر فرمایا اللہ کی قسم اگر مجھے ایسی چیز کا ڈرنہ ہوتا کیونکہ میں نے عمرہ کے وجوب کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کچھ نہیں سنا ورنہ میں کہہ دیتا کہ عمرہ حج کی طرح واجب ہے۔ (19) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ عمرہ واجب ہے اللہ کی مخلوق میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس پر حج اور عمرہ لازم نہ ہو یہ دونوں واجب ہیں اس شخص پر جو اس کی طرف جانے کی طاقت رکھتا ہو۔ مکی میقات کے باہر جاکر واپس آئے تو عمرہ ادا کرنا لازم ہے (20) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ عمرہ تمام لوگوں پر ہے سوائے اہل مکہ کے کیونکہ ان پر عمرہ نہیں ہے مگر یہ کہ ان سے کوئی آفاق میں سے کسی افق سے آئے (یعنی کسی میقات کے باہر سے آئے) تو ان پر عمرہ واجب ہے۔ (21) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس پر حج اور عمرہ نہ ہو یہ دونوں واجب ہیں اس شخص پر جو اس کی طرف جانے کی طاقت رکھتا ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہاں تک کہ ہمارے دیہات کے رہنے والوں پر بھی مگر مکہ والوں پر نہیں کیونکہ کیونکہ ان پر حج ہے اور ان پر عمرہ نہیں ہے اس وجہ سے کہ وہ بیت اللہ کے رہنے والے ہیں اور ان کا عمرہ طواف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (22) ابن ابی شیبہ اور حاکم نے عطاء بن ابی رباح کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حج اور عمرہ دونوں سارے لوگوں پر فرض ہیں اور سوائے مکہ والوں کے۔ کیونکہ ان کا عمرہ ان کا طواف ہے۔ اور جو شخص اپنے اور حرم کے درمیان بطن وادی کو عبور کرلے۔ (یعنی حرم کی حد سے باہر نکل جائے) تو وہ مکہ میں بغیر احرام کے داخل نہ ہو۔ (23) ابن ابی شیبہ نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ مکہ والوں پر عمرہ نہیں ہے۔ کیونکہ عمرہ وہ شخص کرتا ہے جو بیت اللہ کی زیارت کرنے کے لئے اس کا طواف کرے اور مکہ والے جب چاہتے ہیں طواف کرلیتے ہیں۔ (24) ابن ابی شیبہ اور عبد بن حمید نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ حج فرض ہے اور عمرہ نفل ہے۔ (25) شافعی نے الام میں عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ اور عبد بن حمید نے ابو صالح ماھان حنفی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حج جہاد ہے اور عمرہ نفل ہے۔ (26) ابن ماجہ نے طلحہ بن عبید اللہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا حج جہاد ہے اور عمرہ نفل ہے۔ (27) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ترمذی (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عمرہ کے بارے میں سوال کیا کیا وہ واجب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اگر تم عمرہ کرو تو یہ بہتر ہے تمہارے لئے۔ (28) امام حاکم نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حج اور عمرہ دو فرض ہیں تجھے یہ بات نقصان دے گی کہ ان دونوں میں سے جس کے ساتھ بھی تو شروع کرے۔ (29) ابن ابی شیبہ نے حاکم نے ابن سیرین سے روایت کیا کہ زید بن ثابت ؓ سے حج سے پہلے عمرہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا یہ دو نمازیں ہیں (یعنی دونوں نمازوں کی طرح فرض ہیں) اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ یہ اللہ کے لئے تجھ پر دو عبادتیں ہیں تجھے یہ بات نقصان نہیں دے گی کہ ان دونوں میں سے جس کے ساتھ بھی تو شروع کرے۔ (30) امام شافعی (رح) نے الام میں عبد اللہ بن ابی بکر ؓ سے روایت کیا کہ اس خط میں جس کو رسول اللہ ﷺ نے عمرہ بن حزم ؓ کے لئے لکھا تھا (یوں تھا) کہ عمرہ چھوٹا حج ہے۔ (31) امام بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں آکر عرض کیا مجھے وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کس کو شریک نہ کر نماز قائم کر، زکوٰۃ ادا کر، رمضان کے مہینہ کے روزے رکھ، حج کر، عمرہ کر، اپنے امیر کی بات کو سن اور اطاعت کر اور تجھ پر یہ چیزیں اعلانیہ واجب ہیں اور خفیہ ادا کرنے سے بچ۔ (32) ابن خزیہ اور ابن حبان نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل اعمال (میں سے) وہ ایمان ہے جس میں کوئی شک نہ ہو۔ (اور) وہ جہاد افضل ہے جس میں خیانت نہ ہو اور نیکیوں والا حج (جو مقبول ہو) ۔ (33) امام مالک نے، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کفارہ ہے ان گناہوں کا جو ان کے درمیان ہوئے اور نیکی والے حج کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ احمد نے عامر بن ربیعہ (رح) سے مرفوعا اسی طرح روایت کیا ہے۔ (34) بیہقی نے الشعب میں الاصبہانی نے الترغیب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حاجی جو تسبیح پڑھتا ہے اور جو تہلیل (یعنی لا الہ الا اللہ) پڑھتا ہے۔ اور جو تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہتا ہے۔ یو اس کو ہر ایک کے بدلے میں خوشخبری دی جائے۔ (35) امام مسلم اور ابن خذیمہ نے عمرہ بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام پہلے سارے گناہوں کو گرا دیتا ہے۔ اور ہجرت سابقہ سارے گناہوں کو گرا دیتی ہے اور حج بھی پہلے والے سارے گناہوں کو گرا دیتا ہے یعنی مٹا دیتا ہے (36) طبرانی نے حسن بن علی ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آکر کہنے لگا میں بزدل اور کمزور ہوں (جہاد نہیں کرسکتا) آپ نے فرمایا ایسے جہاد کی طرف آجاؤ جس میں کوئی کانٹا (یعنی تکلیف) نہیں اور وہ ہے حج۔ (37) عبد الرزاق نے المصف میں علی بن حسین ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے جہاد کے بارے میں سوال کیا آپ ﷺ نے فرمایا میں تم کو ایسا جہاد نہ بتاؤں جس میں کوئی کانٹا نہیں اور وہ ہے حج۔ (38) عبد الرزاق نے عبد الکریم جزری ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آکر کہنے لگا میں بزدل آدمی ہوں اور دشمن سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتا آپ نے فرمایا کیا میں تم کو ایسا جہاد نہ بتاؤں جس میں قتال نہیں ہے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا حج اور عمرہ کو لازم پکڑلے۔ (39) بخاری نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم جہاد کو افضل اعمال میں سے دیکھتے ہیں کیا ہم بھی جہاد کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا لیکن افضل جہاد نیکی والا حج ہے۔ (40) ابن ابی شیبہ، ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اور ابن خزیمہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا عورتوں پر جہاد ہے ؟ آپ نے فرمایا ان پر ایسا جہاد ہے جس میں قتال نہیں اور وہ ہے حج اور عمرہ۔ (41) نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بوڑھے ضعیف لوگ اور عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔ اسلام کی تعلیمات (42) ابن خزیمہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کر، زکوٰۃ ادا کر، حج اور عمرہ کر، جنابت کی حالت میں غسل کر، وضو کو پورا کر اور رمضان کے روزے رکھ۔ (43) ابن ابی شیبہ اور ابن ماجہ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا ہر ضعیف کے لئے حج کرنا جہاد ہے۔ (44) امام احمد اور طبرانی نے عمرہ بن عبسہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افضل عمل نیکی والا حج یا نیکی والا عمرہ ہے۔ (45) امام احمد اور طبرانی نے ماعز ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے انہوں نے پوچھا کون سا عمل افضل ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ایک اللہ پر ایمان لانا پھر جہاد پھر نیکی والا حج سارے اعمال سے افضل ہیں جیسے سورج کے مطلع اور مغرب کے درمیان (فضیلت ہے) (46) امام احمد، ابن خزیمہ، طبرانی نے الاوسط میں، حاکم اور بیہقی نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا نیکی والے حج کا بدلہ جتن کے سوا کچھ نہیں۔ پوچھا گیا اس کی نیکی کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کھانا کھلانا، اچھی بات کرنا، اور دوسرے لفظ میں یہ بھی ہے کہ سلام کو پھیلانا۔ (47) طبرانی نے الاوسط میں عبد اللہ بن جراد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حج کرو، کیونکہ حج گناہوں کو اسی طرح دھو دیتا ہے جس طرح پانی میل کو دھو دیتا ہے۔ (48) بزار نے ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حاجی اپنے گھر والوں میں سے چار سو آدمیوں کی سفارش کرے گا اور گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا (اور وہ گناہوں سے پاک تھا) ۔ (49) بیہقی نے الشعب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ابو القاسم ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص بیت الحرام کا ارادہ کرتے ہوئے چاند اور اپنے اونٹ پر سوار ہوا تو اونٹ جو بھی قدم اٹھاتا ہے یا نیچے رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اس کی نیکی لکھ دیتے ہیں اور اس سے ایک برائی مٹا دیتے ہیں اور اس کے لئے ایک درجہ بلند کردیتے ہیں یہاں تکہ کہ جب وہ بیت اللہ کی طرف پہنچتا ہے طواف کرتا ہے صفا مروہ کی سعی کرتا ہے پھر حلق یا قصر کرتا ہے تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہوجاتا ہے جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا اب اس کو چاہئے کہ نئے سرے سے عمل کرے (کیونکہ پہلے گناہ تو سب ختم ہوگئے) ۔ (50) امام حاکم اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے وفد تین ہیں جہاد کرنے والا، حج کرنے والا، اور عمرہ کرنے والا۔ (51) البزار نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والے اللہ کے وفد ہیں اللہ نے ان کو بلایا تو انہوں نے اللہ کی دعوت کو قبول کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تو اللہ نے ان کو عطا فرمایا۔ (52) ابن ماجہ، ابن حبان اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے وفد ہیں اگر وہ دعا کریں گے تو وہ ان کی دعائیں قبول فرمائے گا اگر وہ مغفرت طلب کریں گے تو ان کی مغفرت فرمائے گا۔ حجاج وعمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں (53) بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اگر (مکہ کے) رہنے والے یہ جان لیتے کہ حجاج کے لئے ان پر کتنا حق ہے تو یہ حاجیوں کی آمد پر ان کا استقبال کرتے یہاں تک کہ ان کی سواریوں کو بوسہ لیتے اس لئے کہ وہ تمام لوگوں میں سے اللہ کے وفد ہیں۔ (54) البزار، ابن خریمہ، طبرانی نے الصغیر میں حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حجاج کی مغفرت کردی جاتی ہے اور اس شخص کی بھی جس کے لئے حجاج مغفرت طلب کریں اور دوسرے لفظ میں یوں ہے۔ اے اللہ ! حجاج کی مغفرت فرما اور اس شخص کی بھی جس کے لئے حاجی مغفرت طلب کرے۔ (55) ابن ابی شیبہ اور مسدد نے اپنی مسند میں حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ حاجی کی اور حاجی جن کے لئے دعا کرتے ہیں ذی الحجہ، محرم، صفر اور دس دن ربیع الاول کے اوقات میں مغفرت ہوجاتی ہے۔ (56) ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ کعبہ شریف کے دروازہ کے پاس خطبہ دیا اور فرمایا کہ جو کوئی آدمی اس گھر کی زیارت کے لئے آیا اور وہ اس میں نماز کی غرض سے اس کے قریب ہوتا ہے یہاں تک کہ حجر اسود کا استلام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب گناہ مٹا دیتے ہیں جو اس سے پہلے کئے تھے۔ (57) ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے اس گھر کا حج کیا اس کے علاوہ اور کوئی اس کا ارادہ نہیں تھا تو وہ وہ گناہوں سے ایسے پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔ (58) حاکم نے ام معقل ؓ سے روایت کیا کہ ان کے شوہر نے ایک جوان نر اونٹ اللہ کے راستے کے لئے تیار کیا اور ام معقل نے عمرہ کرنے کا ارادہ کیا اس نے اپنے شوہر سے اس اونٹ کا سوال کیا تو اس نے انکار کردیا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور سارا معاملہ ذکر کیا تو آپ ﷺ نے اس کے شوہر کو اونٹ دینے کا حکم فرما دیا اور فرمایا کہ حج اور عمرہ اللہ کے راستہ میں سے ہے اور رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے (ثواب کے لحاظ سے) یا فرمایا حج سے کفایت کرتا ہے۔ (59) حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کا ارادہ فرمایا تو ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا کہ میرے ساتھ حج پر چل اس نے کہا میرے پاس کوئی سواری نہیں کہ میں اس پر تیرے ساتھ حج کروں عورت نے کہا اپنے اونٹ پر سوار ہو کر میرے ساتھ حج پر چل اس نے کہا اس (اونٹ) کو میں نے اپنے لئے اور تیری اولاد کے لئے روک رکھا ہے بیوی نے کہا میرے ساتھ حج کر اپنے فلاں اونٹ پر اس نے کہا اس کو میں نے اللہ کی راہ کے لئے روکا ہوا ہے پھر کہنے لگی افک (باغ) کی کھجوروں کو بیچ کر چلو اس نے کہا وہ میری اور تیری خوراک ہے جب نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ سے واپس تشریف لائے تو اس عورت نے اپنے خاوند کو ان کی طرف بھیجا اور کہا رسول اللہ ﷺ کو میری طرف سے سلام کہہ دینا اور ان سے پوچھنا آپ کے ساتھ حج کرنے کا کتنا ثواب ہے ؟ اس کا خاوند نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور ان کو ساری بات بتائی آپ نے فرمایا کاش کہ تو اپنی عورت کے ساتھ اس اونٹ پر حج کرتا جو تو اس اونٹ پر حج کرتا جو تو نے اللہ کے راستے میں روکا ہوا تو بھی فی سبیل اللہ میں ہوتا رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور اس عورت کے حج پر جانے کی حرص پر تعجب کرتے ہوئے اور فرمایا اس کو میری طرف سے السلام علیک و (رح) کہہ دینا۔ اور اس کو بتادینا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ (60) ابن ابی شیبہ اور حاکم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے عمرہ کے دوران ان سے فرمایا کہ تیری محنت اور تیرے خرچ کرنے کے بقدر تیرے لئے اجر ہے۔ (61) ابن ابی شیبہ نے حبیب (رح) سے روایت کیا کہ ایک قوم حضرت ابوذر ؓ کے پاس ربذہ کے مقام سے گزری اور انہوں نے ان لوگوں سے فرمایا تم لوگ حج کی وجہ سے تھک گئے ہو (اس وجہ سے تمہارے سب گناہ معاف ہوگئے ہیں) ان نئے سرے سے عمل کرو۔ (62) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ نے بھی ایک قوم سے یہ فرمایا تھا۔ (63) ابن ابی شیبہ نے حبیب بن زبیر (رح) نے بیان کیا کہ میں نے عطا (رح) سے عرض کیا۔ کہا آپ کو یہ بات پہنچائی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حج کے بعد نئے سرے سے اعمال کرو ؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن حضرت عثمان و ابوذر ؓ نے کہا تھا۔ (64) ابن ابی شیبہ نے حضرت کعب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے حجاج میں سے ایک قوم کو دیکھا اور فرمایا کہ اگر یہ لوگ جان لیتے کہ مغفرت کے بعد ان کے لئے کیا (نعمتیں) ہیں تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ (65) ابن ابی شیبہ نے حضرت کعب ؓ سے روایت کیا کہ جب حاجی عمرہ کرنے والا اور غازی تکبیر کہتا ہے تو اس سے ملی ہوئی اونچی جگہ بھی تکبیر کہتی ہے پھر وہ جگہ جو اس سے ملی ہوئی ہوتی ہے تکبیر کہتی ہے یہاں تک کہ افق ختم ہوجاتا ہے۔ (66) امام احمد اور قاسم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے حج کا ارادہ کرلیا اس کو چاہئے کہ جلدی کرے کیونکہ کوئی چیز گم ہوسکتی ہے اور کوئی فرد بیمار ہوسکتا ہے۔ اور کوئی حاجت پیش آسکتی ہے (تو حج سے رہ جاتا ہے) ۔ حج فرض جلدی ادا کرے (67) الاصبہانی نے الترغیب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فرض حج کی طرف جلدی کرو تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کیا چیز اس کو پیش آجائے (اور وہ حج پر نہ جاسکے) ۔ (68) الاصبہانی نے ابو جعفر محمد بن علی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے حج کو کسی دنیا کی حاجت کے لئے چھوڑ دیا تو وہ حاجیوں کو واپس آئے ہوئے دیکھ لے گا اپنی حاجت کے پورا ہونے سے پہلے اور جو انسان اپنے بھائی کی حاجت کے لئے اس کے ساتھ نہیں چلتا خواہ وہ حاجت پوری ہو یا نہ ہو اس کو اللہ تعالیٰ ایک ایسے شخص کی مدد پر لگا دے گا جو اس سے ناجائز کام کرائے گا اور اس کو اس میں اجر بھی ملے گا۔ (69) طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا داؤد (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے خدا تیرے بندوں کے لئے کیا اجر ہوگا اگر وہ تیرے گھر میں تیری زیارت کریں ؟ فرمایا ہر زیارت کرنے والے کا حق ہے اس پر جس کی زیارت کی جائے۔ اے داؤد ! مجھ پر ان کے لئے یہ حق ہے کہ میں ان کو دنیا میں عافیت دیتا ہوں اور میں ان کی مغفرت کروں گا جب میں ان سے (قیامت کے دن) ملاقات کروں گا۔ (70) طبرانی نے الاوسط میں سھل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مسلمانو اللہ کے راستے میں چلا جہاد کرتے ہوئے یا حج کرتے ہوئے احرام باندھے ہوئے یا تلبیہ کہتے ہوئے تو سورج غروب ہوجاتا ہے اس کے گناہوں کے ساتھ اور وہ اپنے گناہوں سے پاک ہو کر نکل جاتا ہے۔ (71) بیہقی نے الشعب میں عمرو بن شعب (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے وفد ہیں اگر وہ سوال کریں تو ان کو عطا کیا جاتا ہے اگر دعا کریں تو قبول کی جاتی ہیں۔ اگر خروج کریں تو ان کو بدلہ دیا جاتا ہے۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس نے قبضہ میں ابو القاسم (یعنی محمد ﷺ کی جان ہے جو اونچی جگہ پر تکبیر کہنے والا اور تلبیہ کہنے والا بلند جگہ پر تلبیہ کہتا ہے۔ مگر یہ کہ تلبیہ کہتی ہے ہر چیز جو اس کے سامنے ہوتی ہے اور تکبیر کہتی ہے حتی کہ زمین کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ (72) بیہقی نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے وفد ہیں جو وہ سوال کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو عطا فرماتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول فرماتے ہیں اور جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں ایک درہم کے بدلہ میں لاکھوں درہم عطا فرماتے ہیں۔ (73) البزار، طبرانی اور بیہقی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے مرفوع روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ حاجی کبھی بھی فقیر نہیں ہوا حضرت جابر سے پوچھا گیا امعار سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے ما افتقر یعنی جو فقیر و تنگ دست ہوتا۔ (74) ابن ابی شیبہ، ترمذی (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) نسائی، ابن جریر، ابن خزیمہ ابن حبان نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حج کے ساتھ عمرہ کرو اور عمرہ کے ساتھ حج۔ کیونکہ یہ دونوں غربت اور گناہوں کو مٹا دیتے ہیں جیسے کہ بھٹی لوہے سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے۔ اور نیکی والے حج کا بدلہ سوائے جنت کے اور کچھ نہیں اور مؤمن بندہ جس دن احرام باندھتا ہے تو اس کے گناہوں کے ساتھ سورج غائب ہوتا ہے (یعنی سب گناہ اس کے معاف ہوجاتے ہیں) ۔ (75) ابن ابی شیبہ، ابن ماجہ، ابن جریر اور بیہقی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا حج اور عمرہ کے درمیان میابعت رکھو کیونکہ ان کی متابعت غربت اور گناہوں کو ختم کردیتی ہے جیسے آگ بھٹی لوہے کے زنگ کو ختم کردیتی ہے۔ البزار نے جابر ؓ سے مرفوعا روایت کیا۔ حرث بن ابی اسامہ نے اپنی مسند میں ابن عمر ؓ سے مرفوعا اسی طرح روایت کیا۔ ابن ابی شیبہ نے عامر بن ربیعہ سے اسی طرح مرفوعا روایت کیا۔ تلبیہ پر جنت کی بشارت (76) طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو تلبیہ کہنے والا کبھی تلبیہ کہتا ہے اور جو تکبیر کہنے والا کبھی تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہتا ہے تو اس کو خوشخبری دی جاتی ہے پوچھا گیا یا رسول اللہ ! جنت کی (خوشخبری) آپ نے فرمایا ہاں۔ (77) بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی تلبیہ کہنے والے نے تلبیہ نہیں کہا مگر سورج اس کے گناہوں کے ساتھ غروب ہوا (یعنی وہ گناہوں سے پاک صاف ہوگیا) (78) ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جو شخص اس گھر کی طرف آیا دین یا دنیا کی حاجت لے کر تو وہ اپنی حاجت لے کر واپس لوٹا۔ (79) ابو یعلی، طبرانی، دار قطنی اور بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اس طرح نکلا حج کے لئے یا عمرہ کے لئے اور اس میں مرگیا تو اس پر نہ اعمال کی پیشی ہوگی اور نہ اس کا حساب لیا جائے گا اور اس کو جنت میں داخل ہونے کو کہا جائے گا (پھر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ طواف کرنے والوں پر فخر فرماتے ہیں۔ (80) الحرث بن اسامہ نے اپنی سند میں اصبہانی نے الترغیب میں جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص مکہ کے راستے میں جاتے ہوئے یا آتے ہوئے مرگیا تو اس پر نہ اعمال کی پیشی ہوگی اور نہ اس کا حساب لیا جائے گا۔ (81) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے الشعب میں ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے مسجد اقصی سے مسجد حرام تک حج یا عمرہ کا احرام باندھا اس کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ (82) بیہقی نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب حج کرنے والا اپنے گھر سے نکلتا ہے اور تین دن یا تین راتیں سفر کرلیتا ہے تو وہ گناہوں سے اس طرح صاف ہوتا ہے جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا اور سارے دنوں میں اس کے درجات کی بلندی ہوتی ہے۔ اور جس شخص نے کسی میت کو کفن پہنایا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا لباس پہنائیں گے اور جس نے کسی میت کو غسل دیا تو اس کے گناہ معاف ہوجائیں گے اور جس نے اس کی قبر پر لپ بھر بھر کر مٹی ڈالی تو اس کا چلو اس کے میزان میں پہاڑ سے بھی بھاری ہوگا۔ حاجی کے لئے ہر قدم پر نیکی لکھی جاتی ہے (83) بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا حج کرنے والے کا اونٹ جو قدم اوپر اٹھاتا ہے اور جو نیچے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں یا ایک گناہ اس سے مٹا دیتے ہیں یا ایک درجہ اس کا بلند فرما دیتے ہیں۔ (84) بیہقی نے حبیب بن زبیر اصبہانی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے پوچھا کیا تجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حجاج نئے سرے سے عمل شروع کرتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن مجھ کو یہ خبر عثمان بن عفان ؓ اور ابوذر غفاری ؓ کی طرف سے پہنچی ہے کہ ان دونوں حضرات نے فرمایا (حجاج) نبی سرے سے عمل کرتے ہیں۔ (85) بیہقی نے زہری کے طریق سے سعید بن مسیب سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی حضرت عمر ؓ کے پاس سے گزرا اور اس نے حج کے احکام ادا کرلئے تھے اسی سے فرمایا کیا تو ان کاموں سے بچا تھا جس سے منع کیا گیا ؟ اس نے کہا میں نے کوتاہی نہیں کی حضرت عمر نے فرمایا پھر سب اپنے عمل نئے سرے سے شروع کر۔ (86) بیہقی نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک حج کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائیں گے میت کو اور جس نے اس کی طرف سے حج کیا اور اس کی وصیت کو پورا کرنے والا۔ (87) عبد الرزاق نے المصنف میں ابن ابی شیبہ نے اپنی مسند میں، ابو یعلی اور بیہقی نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں بندے کے جسم کو میں نے صحبت بخشی میں نے اس کے رزق میں وسعت دی۔ پھر اس پر پانچ سال گزر جائیں اور وہ میری طرف نہ آئے تو وہ محروم رہے۔ (88) ابو یعلی نے خباب بن ارت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے بندہ کو اس کے جسم میں صحت دی کہ وہ ان سالوں میں میرے پاس نہ آئے تو وہ محروم ہے۔ (89) شافعی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہر ماہ میں عمرہ ہے۔ (90) عبد الرزاق نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب تم جہاد سے واپسی آکر زین اتارو تو حج اور عمرہ کے لئے رخت سفر باندھ لو کیونکہ وہ دو جہادوں میں سے ایک جہاد ہے۔ (91) ابن ابی شیبہ نے جابر بن زید ؓ سے روایت کیا کہ روزہ اور نماز مشقت میں ڈالنے بدن کو اور مال کی مشقت نہیں دیتے اور صدقہ مال کی مشقت میں ڈالتا ہے اور نہیں مشقت میں ڈالتا بدن کو اور میں حج سے زیادہ کوئی عمل نہیں جانتا۔ جو مال اور بدن دونوں کی مشقت کو جمع کرنے والا ہو۔ (92) ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان احضرتم “ سے مراد ہے جس شخص نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا پھر بیت اللہ سے روک لیا گیا اس مرض کی وجہ سے جس نے اس کو مشقت میں ڈال دیا یا دشمن نے اس کو روک دیا تو اس پر ذبح کرنا لازم ہے جو کچھ آسان ہو بکری سے یا اس سے بڑا جانور ہو اگر اس کا اسلام کا (فرضی) حج تھا تو اس پر قضا لازم ہے اگر حج فرض کے بعد (نفلی حج) ہو تو اس پر قضا نہیں (اور) لفظ آیت ” ولا تحلقوا رء وسکم حتی یبلغ الھدی محلہ “ سے مراد ہے اگر اس نے حج کا احرام باندھا ہو اتھا تو اس کو ذبح کرنے کا وقت دسویں ذی الحجہ ہے۔ اگر اس نے عمرہ کا حرام باندھا ہوا تھا اس کی ھدی کی قربانی کی جگہ (یعنی اس کا وقت) مقام بیت اللہ ہے جب وہ پہنچ جائے۔ (93) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” فان احصرتم “ (الآیہ) کے بارے میں روایت کیا کہ اصحاب محمد ﷺ میں سے جو بیت اللہ سے روک دیا جاتا تھا تو وہ اپنے احرام میں حالت میں باقی رہتا تھا یہاں تک کہ وہ ہدی کا جانور اپنے قربان ہونے کی جگہ کو پہنچ جاتا تھا وہ سر کا حلق کرا لیتا۔ محصر کے لئے حلال ہونے کا طریقہ (94) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ابراہیم سے انہوں نے علقہ سے انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے لفظ آیت ” فان احصرتم “ (الآیہ) کے بارے میں روایت کیا کہ جب کوئی آدمی حج کا احرام باندھ لے اور وہ روک دیا جائے تو ہدی (کا جانور) بھیج دے جو آسانی سے مل جائے اگر وہ جلدی میں ہے اور ہدی کو قربانی کی جگہ پہنچنے سے پہلے اس نے اپنا سر مونڈ لیا یا خوشبو لگا لی یا دوا کے ساتھ علاج کیا تو اس پر فدیہ ہے روزہ سے یا صدقہ سے یا قربانی سے اور روزے تین دن ہیں صدقہ تین صاع ہے چھ مسکینوں کے لئے ہر مسکین کے لئے آدھا صاع ہے اور قربانی کا جانور بکری ہے (اور) لفظ آیت ” فاذا امنتم “ پھر جب تم امن میں ہوجاؤ کہ جب مرض سے شفا یاب ہوجائے تو بیت اللہ کی طرف چل پڑے اس پر حج اور عمرہ لازم ہے اگر وہ تمتع کا احرام باندھ کر واپس لوٹ آیا حج کے مہینوں میں تو اس پر قربانی لازم ہے جو میسر ہو سکے اگر قربانی کا جانور نہ پائے تو تین روزے رکھ لے حج میں اور سات روزے رکھ لے جب وہ واپس لوٹ آئے۔ ابراہیم نے فرمایا میں نے حدیث سعید بن جبیر ؓ کو بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ ابن عباس ؓ نے مکمل یہ حدیث بیان کی تھی۔ (95) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ حصر سے مراد ہے وہ شخص ہے جو پورا روک دیا گیا ہو۔ (96) امام مالک سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فما استیسر من الھدی “ سے بکری مراد ہے۔ (97) امام وکیع، سفیان بن عینیہ، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فما استیسر من الھدی “ سے بکری مراد ہے۔ (98) وکیع، سفیان، عبد بن حمید، عبد الرزاق، الفریابی، سعید بن منصور، عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فما استیسر من الھدی “ سے مراد ہے جو انسان پالے اور وہ آسانی ہوتی ہے اور انسان کو ایک اونٹ اور دو اونٹ بھی میسر ہوسکتے ہیں۔ (99) وکیع، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ آٹھ قسموں میں سے اونٹ گائے بھیڑ اور بکری میں سے جو میسر ہو وہ دے اور جو بڑا جانور ہوگا وہ افضل ہے۔ (100) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فما استیسر من الھدی “ سے مراد ہے کہ اس پر قربانی کا جانور لازم ہے اگر وہ خوشحال ہے تو اونٹ اور گائے کی قربانی دے۔ ورنہ بکری کی قربانی دے۔ (101) وکیع، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے قاسم کے طریق سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جو کچھ آسانی سے میسر ہو وہ بکری ہے۔ (102) سفیان بن عینیہ، شافعی نے الام میں، عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حجرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حصر یعنی روکنا صرف دشمن کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن جس کو مرض یا درد ہوجائے یا راستہ بھول جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فاذا امنتم “ تو امن نہیں ہوگا مگر خوف سے۔ (103) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ احصار صرف دشمن سے ہے۔ (104) ابن ابی شیبہ نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ رکاوٹ صرف جنگ سے ہے۔ (105) ابن ابی شبہ نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ نہیں ہے احصار مگر مرضی سے یا دشمن سے یا کسی ایسے امر سے جو روک دے۔ (106) ابن ابی شیبہ نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ ہر چیز جو حرم سے روک دے وہ احصار ہے۔ (107) بخاری و نسائی نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ عبید اللہ بن عبد اللہ اور سلام بن عبد اللہ ؓ نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے عرض کیا کہ اس سال آپ حج نہ کریں تو بہتر ہے ہم کو اندیشہ ہے کہ آپ کو بیت اللہ تک جانے نہیں دیا جائے گا اور یہ زمانہ تھا جب عبد اللہ بن زبیر ؓ پر لشکر کشی کی گئی تھی حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر نکلے تھے تو کفار قریش نے بیت اللہ تک جانے سے روک دیا تھا تو نبی اکرم ﷺ نے قربانی کو ذبح فرما دیا تھا اور اپنے سر مبارک کو مونڈ دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کا احصار (108) بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ روک دئیے گئے تو انہوں نے اپنا سر مبارک کو مونڈ دیا اور اپنی عورتوں سے جماع فرمایا اور قربانی کو ذبح فرمایا یہاں تک کہ آئندہ سال پھر عمرہ کیا۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” ولا تحلقوا رء وسکم حتی یبلغ الھدی محلہ “: (109) بخاری نے مسروق سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حلق کرانے سے پہلے قربانی کا جانور ذبح فرمایا اور اپنے اصحاب کو بھی اس کا حکم فرمایا۔ (110) بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بدل اس پر ہے جس نے توڑ دیا اپنے حج کو جماع کی وجہ سے لیکن جس کو عذر نے یا اس کے علاوہ کسی دوسری رکاوٹ نے روک دیا ہو تو اس کے لئے حلال ہونا اور لوٹنا جائز نہیں اگر اس کے ساتھ ھدی کا جانور ہے اور وہ روک دیا گیا تو اس کو ذبح کر دے اگر وہ ھدی کو آگے بھیجنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اور اگر بھیجنے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ حلال نہ ہو یہاں تک کہ ھدی اپنے قربان ہونے کی جگہ (یعنی حد حرم) تک پہنچ جائے۔ (111) حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حدیبیہ والوں کو (آئندہ سال) ھدی کا بدل ساتھ لے جانے کا حکم دیا گیا تھا اس سال میں جس میں حلال ہوگئے تھے اگلے سال اونٹ کم ہوگئے تھے تو ان کو رخصت دی گئی تھی کہ جو اونٹ نہ پائے تو وہ گائے خریدلے۔ (112) حاکم نے ابو حاصر حمیدی (رح) سے روایت کیا کہ میں عمرہ کا احرام باندھ کر نکلا جس سال ابن الزبیر کا محاصرہ کیا گیا تھا اور میرے ساتھ ھدی بھی تھی۔ ہم کو حرم شریف میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ تو میں نے ھدی کو ذبح کردیا اپنی جگہ پر اور میں حلال ہوگیا۔ جب آئندہ سال آیا تو میں اپنے عمرہ کی قضا کے لئے نکلا پہلے میں ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا ھدی کو بدل لے جاؤ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو حدیبیہ کے سال ذبح کی گئی ہدایا کا بدل لے جانے کا حکم فرمایا عمرۃ القضا میں۔ (113) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ جس نے ذبح سے پہلے حلق کرلیا تو اس کو وہ خون بہائے (یعنی دم سے) پھر (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” ولا تحلقوا رء وسکم حتی یبلغ الھدی محلہ “۔ (114) ابن جریر نے اعرج (رح) سے روایت کیا کہ وہ لفظ آیت ” حتی یبلغ الھدی محلہ، وھدیا بالح الکعبۃ “ (سورۃ المائدہ آیت 95) دال کے کسرہ کے ساتھ مشدہ پڑھتے تھے۔ (115) امام احمد، عبد بن حمید، بخاری، مسلم، ترمذی، ابن جریر، طبرانی اور بیہقی نے سنن میں کعب بن عجرہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں تھے ہم نے احرام باندھا ہوا تھا ہم کو مشرکوں نے روک دیا۔ میرے (سر پر) لمبت بال تھے اور جوئیں میرے چہرے پر گرتی تھیں نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے اور (مجھے دیکھ کر) فرمایا کیا یہ جوئیں تجھے تکلیف دیتی ہیں ؟ میں نے کہا ہاں مجھے آپ نے حلق کرنے کا حکم فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” فمن کان منکم مریضا او بہ اذی من راسہ فھدیۃ من صیام او صدقۃ اونسک “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین دن کے روزے رکھ لو صدقہ کرو ایک فرق (غلہ) چھ مسکینوں کے درمیان یا قربانی کرلو ان چیزوں میں سے جو آسان ہو۔ (116) ابو داؤد نے الناسخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (اللہ تعالیٰ نے) لفظ آیت ” ولا تخلقوا رء وسکم حتی یبلغ الھدی محلہ “ (اس آیت میں سے) پھر استثنیٰ کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” فمن کان منکم مریضا اوبہ اذی من راسہ فھدیۃ من صیام او صدقۃ اونسک “۔ جنابت احرام کا فدیہ (117) امام وکیع، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن حبان اور بیہقی نے عبد اللہ بن مغفل ؓ سے روایت کیا کہ میں کعب بن عجرہ ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا میں نے ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا لفظ آیت ” ففدیۃ من صیام او صدقۃ اونسک “ تو انہوں نے فرمایا میرے بارے میں (یہ آیت) نازل ہوئی میرے سر میں تکلیف تھی میں نبی اکرم ﷺ کے پاس اس حال میں گیا کہ جوئیں میرے چہرے پر بکھری ہوئی تھیں آپ نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں اس تکلیف کو جو تجھے پہنچی ہے کیا تیرے پاس بکری ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں پھر فرمایا تین دن کے روزے رکھ لو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو (اس طرح پر) کہ ہر مسکین کو آدھا صاع کھانا ملے اور اپنے سر کا حلق کرلو۔ یہ آیت خاص کر میرے بارے میں نازل ہوئی اور یہ (حکم) عام ہے تمہارے لئے۔ (118) ترمذی اور ابن جریر نے کعب بن عجرہ ؓ سے روایت کیا کہ (یہ آیت) میرے متعلق نازل ہوئی اس سے میری ذات ہی مراد ہے لفظ آیت ” فمن کان منکم مریضا او بہ اذی من راسہ “ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اور وہ حدیبیہ میں تھے ایک درخت کے نیچے کیا جوئیں تجھ کو تکلیف دے رہی ہیں ؟ میں نے عرض کیا ہاں تو (یہ آیت) نازل ہوئی۔ (119) ابن مردویہ اور الواحدی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب ہم حدیبیہ میں اترے تو کعب بن عجرہ ؓ اس حال میں آئے کہ ان کے چہرے پر جوئیں بکھری ہوئی تھیں۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ان جوؤں نے مجھے کھالیا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے اسی موقف میں یہ آیت نازل فرمائی۔ لفظ آیت ” فمن کان منکم مریضا “ (الآیہ) ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نسک سے مراد بکری ہے (یا) روزے تین دن کے (یا) ایک فرق طعام چھ مسکینوں کے درمیان۔ (120) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن کان منکم مریضا “ وہ شخص جس کا عرش سخت ہوجائے۔ (121) ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن کان منکم مریضا “ سے مریض سے وہ شخص مراد ہے کہ جس کے سر میں تکلیف ہو یا زخم ہو (اور) لفظ آیت ” اوبہ اذی من راسہ “ میں اذی سے مراد جوئیں ہیں۔ (122) امام وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطاء (رح) سے کہا سر میں اذی سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے فرمایا جوئیں اور اس کے علاوہ درد سر اور جو اس کے سر میں تکلیف ہو۔ (123) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” نسک “ سے مراد ہے کہ وہ بکری ذبح کرے۔ (124) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کعب بن عجرہ ؓ سے پوچھا کیا تیرے سر کی جوئیں تجھے تکلیف دیتی ہیں ؟ عرض کیا ہاں ! آپ نے فرمایا سر کو مونڑ لے اور فدیہ دے دے یا تین دن کے روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا بکری کو ذبح کر دے۔ (125) ابن جریر نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا انہوں نے فرمایا تین دن کے روزے ہیں یا چھ مسکینوں کو تین صاع (غلہ) صدقہ کرنا ہے اور نسک سے مراد بکری ہے۔ ابن ابی شیبہ نے ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ (126) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قرآن میں جہاں أوأو ہے وہاں اختیار ہے (یعنی اس کو اختیار دیا گیا ہے۔ اور جب لفظ آیت ” فمن لم یجد “ ہو تو پہلا حکم ہے پھر اس کے بعد پہلا۔ (127) ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ قرآن میں جہاں أو أو ہے تو اس میں اختیار ہے (جس حکم کو چاہے اختیار کرے) ۔ (128) شافعی نے الام میں ابن جریر سے عمرو بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ جہاں قرآن میں أو أو ہے اس میں اس کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔ ابن جریج (رح) نے فرمایا مگر اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ “ (المائدہ آیت 33) میں اختیار نہیں ہے۔ (129) امام شافعی اور عبد بن حمید نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ جہاں قرآن میں أو أو ہے اس کے پڑھنے والے کو اختیار ہے جو چاہے (اختیار کرے) ۔ (130) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج “ سے مراد ہے کہ جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کا احرام باندھ لے۔ (131) عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ تمتع سے مراد ہے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا۔ (132) ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن المنذر نے ابن الزبیر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے خطبہ میں ارشاد فرمایا اے لوگو ! اللہ کی قسم ! عمرہ کے ساتھ حج کرنا تمتع نہیں ہے جیسا تم کرتے ہو تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کا احرام باندھے پھر دشمن یا بیماری یا (عضو کا) ٹوٹ جانا اس کو (حج سے) روک دے یا کوئی (اہم) کام اس کو روک دے یہاں تک کہ حج کے دن چلے جائیں پھر وہ آئے اور حج کو عمرہ بنالے۔ پھر آئندہ سال آئے اور حج کرے۔ اور قربانی بھی کرے یہ تمتع ہے عمرہ کے ساتھ حج کی طرف (یعنی عمرہ کے ساتھ حج کرنا) ۔ (133) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ ابن المنذر ؓ فرمایا کرتے تھے تمتع اس کے لئے ہے جو (حج سے) روک دیا گیا ہو اور اس کے لئے نہیں جس کا راستہ چھوڑ دیا گیا ہو اور ابن عباس ؓ نے فرمایا متعہ (تمتع) اس کے لئے ہے جس کو روک دیا گیا اور جس کا راستہ چھوڑ دیا گیا (اس کے لئے نہیں ہے) (134) ابن جریر نے حضرت علی ؓ سے لفظ آیت ” فاذا امنتم فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج “ کے بارے میں روایت کیا کہ اگر عمرہ موخر کردیا جائے یہاں تک کہ اس کو حج کے ساتھ ملا دیا جائے تو اس پر قربانی لازم ہے۔ (135) ابن ابی شیبہ، ابن المنذر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ تمتع اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ اس میں عورتوں اور کپڑوں سے متمتع ہوتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے اہل اور کپڑوں سے متمتع ہوتے ہیں۔ (136) عبد بن حمید مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جاہلیت والے جب حج کرتے تھے تو کہتے تھے ” اذا عفا الو بروتولی الدبر ودخل صفر حلت العمرۃ لمن اعتمر “ یعنی جب بال لمبے ہوجائیں گے اونٹوں کے زخم ٹھیک ہوجائیں گے اور صفر کا مہینہ داخل ہوجائے گا تو عمرہ کرنے والوں کے لئے عمرہ حلال ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ نے اہل جاہلیت کے عمل کو تبدیل کرنے کا حکم دیا اور لوگوں کو حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی رخصت عطا فرمائی۔ دم شکر کے بدلہ میں روزے رکھنا (137) ابن المنذرنے ابوجمرہ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ میں نے حج کے ساتھ عمرہ بھی کیا اور میرے پاس (صرف) چالیس درہم ہے۔ اس میں یہ (کام) بھی ہے اور اس میں یہ (کام) بھی ہے اور اس میں خرچہ بھی ہے۔ آپ نے فرمایا (قربانی کے بدلہ میں) روزہ رکھ لو۔ (138) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے (اس آیت) ” فصیام ثلثۃ ایام فی الحج “ کے بارے میں روایت کیا کہ (ایک روزہ) یوم ترویہ (یعنی آٹھویں ذی الحج) سے پہلے رکھ لے (دوسرا روزہ) ترویہ کے دن اور تیسرا روزہ عرفہ کے دن رکھ لے اگر ان دنوں کے روزے فوت ہوجائیں تو ایام تشریق میں روزہ رکھ لو۔ (139) وکیع، عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر نے حضرت عمر ؓ سے (اس آیت) ” فصیام ثلثۃ ایام فی الحج “ کے بارے میں فرمایا (ایک روزہ) یوم ترویہ (یعنی آٹھویں ذی الحج) سے پہلے (رکھ لو) دوسرا ترویہ کے دن اور تیسرا عرفہ کے دن (رکھ لو) اگر (ان دنوں کے) روزے نہ رکھ سکے تو ایام منی میں روزہ رکھ لو کیونکہ یہ (ان) حج میں سے ہے۔ (140) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تمتع کے لئے احرام باندھنے سے لے کر نویں ذوالحج تک تین روزے رکھنے ہیں۔ دس روزے رکھنا (141) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ جب حج تمتع عمرہ کے ساتھ کرنے والا قربانی کا جانور نہ پائے تو حج میں تین دن کے روزے رکھے عرفہ کے دن سے پہلے اگر عرفہ کے دن اس کا تیسرا روزہ ہو تو اس نے اپنا روزہ پورا کرلیا اور سات روزے (رکھ لے) جب اپنے گھر کی طرف لوٹ آئے۔ (142) مالک اور شافعی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ روزے اس شخص کے لئے ہے جو حج تمتع کرے عمرہ کے ساتھ اور قربانی کا جانور نہ پائے تو حج کا احرام باندھنے سے عرفہ کے دن تک روزے رکھ لے۔ اگر (ان دنوں میں) روزہ نہ رکھ سکے تو ایام منی میں روزے رکھ لے۔ مالک (رح) اور شافعی (رح) نے ابن عمر ؓ سے اسی طرح روایت کیا۔ (143) ابن ابی شیبہ، بخاری، ابن جریر، دار قطنی، بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت عائشہ ؓ دونوں سے روایت کیا کہ ایام تشریق میں روزے رکھنے کی رخصت نہیں ہے مگر اس متمتع کے لئے جو قربانی کا جانور نہ پائے۔ (144) ابن جریر، بیہقی، دار قطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے متمتع کے لئے روزے رکھنے کی اجازت فرمائی جب وہ قربانی کا جانور نہ پائے اور (اگر) وہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں روزے نہ رکھ سکے۔ تو اس کی جگہ ایام تشریق میں روزے رکھنے کی اجازت فرمائی۔ (145) دار قطنی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس شخص کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو تو وہ قربانی کے دن سے پہلے تین دن کے روزے رکھ لے اور جو شخص ان تین دنوں میں روزے نہ رکھ سکے تو اس کو چاہئے کہ ایام تشریق یعنی ایام منی میں روزے رکھ لے۔ (146) مالک اور ابن جریر نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن حذافہ ابن قیس ؓ کو بھیجا تو انہوں نے ایام تشریق میں یہ منادی کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دن کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں مگر یہ کہ جس شخص پر روزہ ہو قربانی کے بدلے میں (تو وہ روزہ رکھ لے) ۔ (147) دار قطنی نے زہری سعید بن المسیب سے انہوں نے عبد اللہ بن حذافہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں ایک جماعت کو حکم فرمایا کہ وہ (ایام) منی میں طواف کریں (اور) لوگوں نے آواز دی کہ یہ دن کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کے لئے ہیں ان میں کوئی روزہ نہ رکھے مگر جس نے ھدی کے بدلے میں روزہ رکھا ہو تو اس کے لئے جائز ہے (کہ وہ روزہ رکھے) ۔ (148) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نہیں کافی ہوں گے متمتع کو تین دن کے روزے مگر یہ کہ وہ احرام باندھ لے (یعنی احرام باندھنے کے بعد روزہ رکھے) ۔ (149) ابن ابی شیبہ نے عکرمہ سے روایت کیا کہ متمتع روزے نہ رکھے مگر دس دنوں میں (یعنی ذوالحج کے پہلے دس دنوں میں) ۔ (150) ابن ابی شیبہ نے ابن ابی نجیح (رح) سے روایت کیا کہ مجاہد (رح) نے فرمایا متمتع اگر چاہئے تو ایک دن شوال میں ایک دن ذی القعدہ میں روزہ رکھ لے طاؤس اور عطا نے فرمایا تین روزے نہ رکھے مگر (ذی الحجہ) کے پہلے دس دنوں میں۔ اور مجاہد (رح) نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں اگر ان روزۃ کو حج کے مہینوں میں رکھ لے۔ حج تمتع کی تفصیل (151) بخاری اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے حج تمتع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ حجۃ الوداع میں مہاجرین انصار اور نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات نے احرام باندھا اور ہم نے تلبیہ کہا جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حج کے احرام کو عمرہ کا احرام بنا لو مگر یہ کہ جنہوں نے ہدی کو قلادہ پہنایا ہے اس کے لئے یہ حکم نہیں۔ ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کی ہم اپنی عورتوں کے پاس آئے اور ہم نے کپڑے پہنے اور فرمایا جس نے ہدی کو قلادہ پہنایا ہو وہ حلال نہیں ہوگا یہاں تک کہ ہدی کا جانور اپنے مقام پر پہنچ جائے پھر ہم کو آٹھویں ذوالحج کی رات کو حکم فرمایا کہ ہم حج کا احرام باندھ لیں۔ جب ہم (حج کے) احکام سے فارغ ہوگئے۔ ہم آئے اور ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کی ہم اپنی عورتوں کے پاس آئے اور ہم نے اپنے لباس پہن لئے پس ہمارا حج مکمل ہوگیا اور ہم پر ہدی لازم ہوئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فما استیسر من الھدی، فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام فی الحج وسبعۃ اذا رجعتم “ یعنی اپنے شہروں کی طرف لوٹ جاؤ تو (سات روزے رکھو) اور بکری کافی ہوجائے گی۔ پس ایک سال میں لوگوں نے دونسک (یعنی حج اور عمرہ) کو جمع کیا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اتارا اور اپنے نبی ﷺ کی سنت میں یہ حکم فرمایا اور تمام لوگوں کے لئے حج عمرہ اکھٹے کرنے کی اجازت فرمائی سوائے اہل مکہ کے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ذلک لمن لم یکن اہلہ حاضری المسجد الحرام “ اور حج کے مہینے جن کا ہم نے ذکر کیا یہ شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحج ہیں۔ جو شخص ان مہینوں میں تمتع کرے تو اس پر لازم ہے خون بہانا یا روزہ رکھنا۔ اور فث کا معنی ہے جماع کرنا اور فسوق سے مراد گناہ ہیں۔ اور جدال کا معنی ہے لڑائی کرنا۔ (152) امام مالک، عبد بن حمید اور بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرے یعنی شوال، ذیقعدہ اور ذوالحج میں تو اس پر ہدی کا جانور لازم ہے یا روزے رکھنے ہیں اگر ہدی کا جانور نہ پائے۔ (153) ابن ابی شیبہ نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ جس شخص نے شوال میں یا ذی القعدہ میں عمرہ ادا کیا پھر ٹھہرا رہا یہاں تک کہ حج کرلیا تو وہ متمتع ہے اور اس پر قربانی کا جانور لازم ہے جو میسر ہوجائے جو شخص ہدی کا جانور نہ پائے تو اس پر تین دن کے روزے ہیں (حج کے دوران) اور سات روزے ہیں جب اپنے گھر کی طرف لوٹ آئے۔ اور جس نے حج کے مہینوں میں عمرہ کیا۔ پھر لوٹ آیا وہ تمتع والا نہیں ہے یہ حکم اس کے لئے ہے جو شخص وہیں ٹھہر جائے اور گھر لوٹ کر نہ آئے۔ (154) ابن ابی شیبہ نے سعید بن مسیب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب جب حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرتے تھے تو اس سال حج نہ کرتے تھے اور یہ ہدی دیتے تھے۔ (155) ابن ابی شیبہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا جب کوئی آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کرے پھر وہیں ٹھہر جائے تو وہ متمتع ہے اگر وہ (عمرہ کرنے کے بعد) لوٹ آئے تو وہ متمتع نہیں ہے۔ (156) ابن ابی شیبہ نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرے پھر وہیں ٹھہر جائے تو وہ متمتع ہے اگر وہ لوٹ آئے تو وہ متمتع نہیں ہے۔ (157) ابن ابی شیبہ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرے پھر اپنے شہر کی طرف لوٹ آئے پھر اسی سال حج کرے تو وہ متمتع نہیں ہے متمتع وہ ہے جو وہیں ٹھہر جائے اور (اپنے شہر) نہ لوٹے۔ (158) حاکم (رح) نے حضرت ابی ؓ سے روایت کیا کہ وہ (اس آیت کو) یوں پڑھا کرتے تھے لفظ آیت ” فصیام ثلاثۃ ایام متشابعات “۔ (159) بخاری نے اپنی تاریخ میں، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وسبعۃ اذا رجعتم “ سے مراد ہے یعنی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ آئے۔ (160) عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وسبعۃ اذا رجعتم “ سے مراد ہے کہ جب تم اپنے شہروں کی طرف لوٹ آؤ۔ (161) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وسبعۃ اذا رجعتم “ سے مراد ہے کہ اپنے شہروں کی طرف لوٹ آؤ جہاں بھی ہو۔ (162) وکیع، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وسبعۃ اذا رجعتم “ سے رخصت مراد ہے اگر چاہے تو راستے میں روزہ رکھ لے اور اگر چاہئے تو اپنے گھر کی طرف لوٹنے کے بعد روزے رکھ لے لیکن ان میں تفریق نہ کرے (یعنی مسلسل روزے رکھے) ۔ (163) عبد بن حمید نے عطا (رح) اور حسن (رح) دونوں نے اس آیت لفظ آیت ” وسبعۃ اذا رجعتم “ کے بارے میں روایت کیا کہ حضرت عطاء (رح) نے فرمایا اگر چاہے تو راستہ میں رکھ لے اور حضرت حسن (رح) نے فرمایا کہ جب اپنے شہر کی طرف لوٹ آئے (تو پھر روزے رکھے راستہ میں نہ رکھے) (164) عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اگر مکہ مکرمہ میں ٹھہرا ہوا ہے تو وہاں بھی روزے رکھ لے اگر چاہے۔ (165) عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وسبعۃ اذا رجعتم “ سے مراد ہے کہ جب تم اپنے حج کو پورا کر چکو اور جب اپنے گھر کی طرف لوٹ آؤ تو یہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے (کہ تم اب سات روزے رکھو) ۔ (166) امام وکیع اور ابن شیبہ نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وسبعۃ اذا رجعتم “ سے مراد ہے کہ اگر تو چاہے تو یہ روزے متفرق رکھے۔ (167) ابن جریر نے حسن (رح) سے لفظ آیت ” تلک عشرۃ کاملۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ (یہ دس روزے) ہدی کا کاملہ بدل ہیں۔ (168) بخاوی و مسلم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر حج تمتع ادا فرمایا تھا اور ہدی بھی دی تھی اور قربانی کا جانور ذوالحلیفہ سے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے (پہلے) عمرہ کا احرام باندھا پھر حج کا احرام باندھا لوگوں نے بھی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا بعض لوگ قربانی کے جانور اپنے ساتھ لے کر آئے تھے اور بعض ساتھ لے کر نہیں آئے تھے۔ جب نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ پہنچے تو لوگوں سے فرمایا تم میں سے ہدی لے کر آیا ہے وہ حلال نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے حج کو پورا کرلے۔ اور جو ہدی کا جانور نہیں لائے وہ بیت اللہ کا طواف کریں صفا مروہ کی سعی کریں اور قصر کرا لیں حلال ہوجائیں پھر حج کا احرام باندھ لیں اور جو شخص ہدی کا جانور نہ پائے اس کو چاہئے کہ حج (کے دنوں) میں تین دن کے روزے رکھ لے اور سات روزے رکھے جب اپنے گھر کی طرف لوٹ آئے۔ (169) ابن ابی شیبہ، بخاری و مسلم نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا کہ تمتع حج کی آیت اللہ کی کتاب میں نازل ہوئی اور ہم نے اس (حج) کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ادا کیا۔ پھر کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس نے حج تمتع کی آیت کو منسوخ کردیا ہو اور اس سے آپ نے منع بھی نہیں فرمایا یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ہر آدمی نے اپنی رائے سے جو چاہا کیا۔ (170) امام مسلم نے ابو نضرہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ حج تمتع کا حکم فرماتے تھے اور ابن الزبیر ؓ اس سے منع فرماتے تھے یہ بات حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے ذکر کی گئی تو انہوں نے فرمایا یہ حدیث تو میرے ہاتھ سے لوگوں میں پھیلی ہے۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ کے ساتھ حج تمتع کیا جب حضرت عمر ؓ کھڑے ہوئے تو انہوں نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لئے جو کچھ چاہتا ہے ان کے لئے حلال فرماتا ہے اور بلاشبہ قرآن اپنی منزلوں میں نازل ہوا۔ سو تم پورا حج اور عمرہ کو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم فرمایا ہے اور تم جدا کرلو اپنے حج کو اپنے عمرہ سے کیونکہ اس طرح تمہارا حج بھی مکمل ہوگا اور تمہارا عمرہ بھی مکمل ہوگا۔ حج تمتع کی فضیلت (171) بخاری، مسلم اور نسائی نے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ بطحاء میں تشریف فرما تھے آپ نے پوچھا تو نے کون سا احرام باندھا ہے میں نے عرض کیا میں نے نبی اکرم ﷺ کے جیسا احرام باندھا ہے۔ (پھر) آپ نے فرمایا کیا تو قربانی کے جانور ساتھ لایا ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں آپ نے فرمایا بیت اللہ کا طواف صفا مروہ کی سعی کر پھر حلال ہوجا میں نے بیت اللہ کا طواف کیا صفا مروہ کی سعی کی پھر میں اپنی قوم میں سے ایک عورت کے پاس آیا اس نے مجھے کنگھی کی اور میرے سر کو دھویا تو میں لوگوں کو حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت میں اس کے ساتھ فتوی دیا کرتا تھا ایک دفعہ میں موسم (حج) میں ٹھہرا ہوا تھا اچانک میرے پاس ایک آدمی آکر کہنے لگا تو نہیں جانتا کہ امیر المؤمنین نے حج کے احکام کے بارے میں کیا بات فرمائی ہے میں نے کہا اے لوگو ! جن کو ہم نے فتوی دیا ہے تو اسے اس کی تائید کرنی چاہئے یہ امیر المؤمنین تمہارے پاس آنے والے ہیں تم ان کی اقتداء کرو جب حضرت عمر ؓ تشریف لائے تو میں نے عرض کیا اے امیر المؤمنین ! وہ کون سی بات ہے آپ نے حج کے احکام کے بارے میں فرمائی ہے ؟ عمر ؓ نے فرمایا ہم اللہ کی کتاب پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لفظ آیت ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ اور اگر کوئی ہم اپنے نبی کے طریقے کو لیں تو کوئی شخص حلال نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ ہدی کا جانور ذبح کرے۔ (172) اسحاق بن راہویہ نے اپنی سند میں اور احمد نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے ارادہ فرمایا کہ وہ حج تمتع سے روک دیں۔ ابی ابن کعب ؓ ان کے پاس گئے اور (ان سے) فرمایا یہ بات آپ کے لئے جائز نہیں ہے کتاب اللہ میں یہ حکم نازل ہوچکا ہے اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے حج کے ساتھ عمرہ کیا ہے تو حضرت عمر ؓ (حج تمتع کے روکنے سے) دست بردار ہوگئے۔ (173) مسلم نے عبد اللہ بن شفیق (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عثمان ؓ حج تمتع سے منع فرماتے تھے اور حضرت علی ؓ اس کا حکم فرماتے تھے حضرت عثمان نے حضرت علی سے اس سلسلہ میں بات کی تو حضرت علی ؓ نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا تھا تو انہوں نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا تھا تو انہوں نے فرمایا ہاں لیکن ہم (اس وقت) ڈرنے والوں میں سے تھے۔ (174) اسحاق بن راہو یہ نے حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت کیا کہ ان سے حج تمتع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ہمارے لئے جائز تھا مگر تمہارے لئے جائز نہیں ہے۔ (175) ابن ابی شیبہ، مسلم نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ حج تمتع اصحاب رسول ﷺ کے لئے خاص تھا۔ (176) مسلم نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ دونوں معتعے ہمارے ساتھ خاص تھے مگر خاص کر ہمارے لئے درست تھے یعنی متعۃ النساء اور متعۃ الحج۔ حج قرآن کا احرام باندھنا (177) بخاری، مسلم، نسائی نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ حضرت علی و حضرت عثمان ؓ نے حج تمتع کے بارے میں اختلاف کیا اور یہ دونوں حضرات عسفان میں تھے حضرت علی نے فرمایا تم ایسے عمل سے منع کرنا چاہتے ہو جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا حضرت عثمان کو اپنے مسئلہ پر قائم دیکھا تو حضرت علی ؓ نے حج اور عمرہ کا اکھٹا تلبیہ کہا۔ (178) بخاری، مسلم نے ابو حمرہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے حج تمتع کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے اس کا حکم فرمایا اور میں نے ہدی کے بارے میں پوثھا تو انہوں نے فرمایا اس میں اونٹ یا گائے یا بکری یا بدنہ (یعنی بڑے جانور میں) شراکت ہے۔ پھر فرمایا کہ لوگ اس (حج تمتع) کو پسند کرتے تھے (پھر) میں سو گیا میں نے نیند میں دیکھا گویا کہ ایک انسان پکار رہا ہے حج مبرورو متعہ متقبلۃ (یعنی حج مبرور اور مقبول حج تمتع ہے) میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور ان کو یہ (خواب) بیان کیا انہوں نے فرمایا اللہ اکبر یہ ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے۔ (179) امام حاکم (انہوں نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) مجاہد وعطاء کے طریق سے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ جب لوگوں میں یہ بات پھیلی گئی تو ہم حج کرنے کے لئے نکلے یہاں تک کہ جب ہمارے اور ہمارے حلال ہونے کے درمیان تھوڑی راتیں رہ گئیں تو ہم کو حلال ہونے کا حکم دیا گیا ہم نے کہا کہ ہم میں سے کوئی آدمی عرفہ کی طرف اس حال میں جائے گا کہ اس کی شرم گاہ سے منی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے کھڑے ہو کر خطاب فرمایا کہ اے لوگو کیا تم مجھے اللہ کے بارے میں بتا رہے ہوں اللہ کی قسم میں تم سے زیادہ جاننے والا ہوں اللہ کی ذات کے بارے میں اور تم سے زیادہ ڈرنے والا ہوں اس سے اگر اس کا حکم مجھے پہلے معلوم ہوتا تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور حلال ہوجاتا جیسے کہ لوگ حلال ہوچکے ہیں جس کے پاس ہدی نہ ہو اس کو چاہئے کہ تین دن کے دروازے رکھے حج میں اور سات (روزے رکھے) جب اپنے گھر لوٹ جائے اور جو شخص ہدی پالے اس کو چاہئے کہ اس کو ذبح کر دے۔ اور ہم سات آدمیوں کی طرف سے الگ اونٹ نحر کیا کرتے تھے۔ عطاء نے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اس دن اپنے اصحاب میں بکریاں تقسیم فرمائیں تھیں۔ سعد بن ابی وقاص ؓ کے حصے میں بکرا آیا تھا جس کو آپ نے خود ذبح فرمایا تھا۔ (180) امام مالک نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ حج سے پہلے عمرہ کرنا اور قربانی کرنا مجھے زیادہ محبوب ہے اس بات سے کہ میں حج کے بعد ذوالحجہ میں عمرہ کروں۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” ذلک لمن لم یکن اہلہ حاضری المسجد الحرام “: (181) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید نے عطاء (رح) سے روایت کیا اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ذلک لمن لم یکن اہلہ حاضری المسجد الحرام “ سے ان قریبی چھ مقامات کے لوگ مراد ہیں عرفہ الرجیع، نخلستان، مرالظہران، اور ضجنان اور مجاہد (رح) نے فرمایا اس سے اہل حرم مراد ہیں۔ (182) ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” حاضری المسجد الحرام “ سے اہل حرم مراد ہیں۔ (183) عبد بن حمید، ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حرم سارا مسجد حرام ہے۔ ابن المنذر نے ابن عمر ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (184) الازرقی نے عطا بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ ان سے مسجد حرام کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ تمام حرم ہے۔ (185) عطا بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ ان سے مسجد حرام کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا بالاتفاق وہ حرم ہے (186) الازرقی نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ مسجد حرام کی بنیاد جو ابراہیم (علیہ السلام) نے رکھی تھی وہ حزور سے مسعی تک اور سیل جیاد سے مخرج تک تھی۔ (187) الازرقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے اللہ کی کتاب میں پایا کہ مسجد حرام کی حد حزور سے مسعی تک ہے (188) عبد الرزاق، عبد بن حمید نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ مسجد حرام کے رہنے والوں میں سے کسی ایک کے لئے بھی احصار میں رخصت نہیں ہے۔ اس لئے کہ آدمی جب بیمار ہوجائے گا تو اسے اٹھا کرلے جایا جائے گا اور عرفہ میں وقوف طواف اٹھا کر کرایا جائے گا (189) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ذلک لمن لم یکن اہلہ حاضری المسجد الحرام “ سے میری مراد اہل مکہ ہیں ان کے لئے حج تمتع نہیں ہے اور ان پر کوئی احصار بھی نہیں ہے ان کے مشعر الحرام کے قریب ہونے کی وجہ سے۔ (190) الازرقی نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطا (رح) سے پوچھا حج تمتع کس کے لئے ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ذلک لمن لم یکن اہلہ حاضری المسجد الحرام “ لیکن وہ بستیاں جو مسجد حرام کے آس پاس ہیں جن کے رہنے والے حج تمتع نہیں کرسکتے اور مکہ کے یہ قریبی علاقے میں نخلستان مرالظہران اور عرفہ اور ضجنان اور الرجیع لیکن وہ بستیاں جو مسجد حرام کے قریب میں نہیں ہیں جن کے رہنے والے حج تمتع کرسکتے ہیں اگر وہ چاہیں تو ان کے لئے سفر کی مسافت نہیں بنتی ہے اور اتنا سفر جس میں نماز قصر ہوجاتی ہے۔ (جیسے) عسفان، جدہ، رھاط اور ان کے مشابہ دوسرے شہر۔ (191) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حج تمتع لوگوں کے لئے جائز ہے مگر اہل مکہ کے لئے جائز نہیں ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ذلک لمن لم یکن اہلہ حاضری المسجد الحرام “۔ (192) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرمایا کرتے تھے اے مکہ کے رہنے والو تمہارے لئے حج تمتع نہیں ہے۔ یہ آفاق والوں کے لئے حلال کیا گیا ہے اور تم پر حرام کیا گیا ہے بلاشبہ تم میں سے کوئی ایک وادی کا سفر کرتا ہے (یعنی حد حرم سے باہر جاتا ہے) پھر عمرہ کا احرام باندھ لیتا ہے (اسی کو فرمایا) لفظ آیت ” ذلک لمن لم یکن اہلہ حاضری المسجد الحرام “۔ (193) ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان سے کنواری عورت کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ اپنے حج میں عمرہ کرسکتی ہے ؟ فرمایا ہاں ! اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے رخصت دی ہے۔ اگر وہ مسجد حرام کے رہنے والوں میں سے نہ ہو۔ (194) ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ حج تمتع میں مکہ والوں پر قربانی کا جانور نہیں ہے۔ پھر (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” ذلک لمن لم یکن اہلہ حاضری المسجد الحرام “ (195) ابن ابی شیبہ نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا مکہ والوں پر حج تمتع نہیں ہے۔ پھر (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” ذلک لمن لم یکن اہلہ حاضری المسجد الحرام “ (196) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ مکہ والوں پر حج تمتع نہیں ہے۔ (197) ابن ابی شیبہ نے میمون بن مہران (رح) سے روایت کیا کہ (حج تمتع نہیں ہے مکہ والوں کے لئے اور جس نے مکہ کو وطن بنا لیا ہو (اس کے لئے بھی) حج تمتع نہیں ہے۔ (198) ابن ابی شیبہ نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ سب لوگوں کے لئے حج تمتع کی اجازت ہے مگر مکہ والوں کے لئے نہیں ہے (199) ابن ابی شیبہ نے زہری (رح) روایت کیا کہ مکہ والوں پر نہ حج تمتع ہے اور نہ احصار ہے وہ احرام باندھ رکھیں یہاں تک کہ اپنا حج پورا کرلیں۔ وما قولہ تعالیٰ : واتقوا اللہ واعلموا ان اللہ شدید العقاب : (200) ابن ابی حاتم نے مطرف (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ” ان اللہ شدید العقاب “ (پھر فرمایا) اگر لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اللہ کی سزا اور اللہ تعالیٰ کی عبرتناک سزا کو جانتے تو کبھی ان کے آنسو نہ تھمتے اور ان کی آنکھیں کسی چیز سے ٹھنڈی نہ ہوتی۔
Top