Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 196
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ١ٙ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ١ؕ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠   ۧ
وَاَتِمُّوا : اور پورا کرو الْحَجَّ : حج وَالْعُمْرَةَ : اور عمرہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنْ : پھر اگر اُحْصِرْتُمْ : تم روک دئیے جاؤ فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ : سے الْهَدْيِ : قربانی وَلَا : اور نہ تَحْلِقُوْا : منڈاؤ رُءُوْسَكُمْ : اپنے سر حَتّٰى : یہانتک کہ يَبْلُغَ : پہنچ جائے الْهَدْيُ : قربانی مَحِلَّهٗ : اپنی جگہ فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا بِهٖٓ : اسکے اَذًى : تکلیف مِّنْ : سے رَّاْسِهٖ : اس کا سر فَفِدْيَةٌ : تو بدلہ مِّنْ : سے صِيَامٍ : روزہ اَوْ : یا صَدَقَةٍ : صدقہ اَوْ : یا نُسُكٍ : قربانی فَاِذَآ : پھر جب اَمِنْتُمْ : تم امن میں ہو فَمَنْ : تو جو تَمَتَّعَ : فائدہ اٹھائے بِالْعُمْرَةِ : ساتھ۔ عمرہ اِلَى : تک الْحَجِّ : حج فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ الْهَدْيِ : سے۔ قربانی فَمَنْ : پھر جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزہ رکھے ثَلٰثَةِ : تین اَيَّامٍ : دن فِي الْحَجِّ : حج میں وَسَبْعَةٍ : اور سات اِذَا رَجَعْتُمْ : جب تم واپس جاؤ تِلْكَ : یہ عَشَرَةٌ : دس كَامِلَةٌ : پورے ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : لیے۔ جو لَّمْ يَكُنْ : نہ ہوں اَھْلُهٗ : اس کے گھر والے حَاضِرِي : موجود الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور اعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اور پور اکروحج اور عمرہ اللہ کے لیے پس اگر تم گھیر لیے جائو تو تم پر ہے جو کچھ کہ میسر ہو قربانی سے اور اپنے سروں کی حجامت نہ کرو جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے پھر جو کوئی تم میں سے بیمارہویا اسے تکلیف ہو اسکے سر میں تو وہ بدلہ دے روزے یا خیرات یاقربانی پھر جب تم مامون ہوجائوتو جو شخص فائدہ اٹھائے عمرہ کو حج سے ملاکر تو اس پر ہے جو اسے قربانی میسر ہو تو پھر جو شخص قربانی نہ پائے تو تین روزے رکھے حج کے دنوں میں اور سات روزے جبکہ تم لوٹویہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جس کے گھروالے مسجد حرام کے قرب و جوار میں نہ رہتے ہوں اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جان لو کہ بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے )
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ط فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرََ مِنَ الْھَدْیِ ج وَلَا تَحْلِقُوْارُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّـہٗ ط فَمَنْ کَانَ مِنْـکُمْ مَرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْصَدَقَۃٍ اَوْنُسُکٍج فَاِذَآ اَمِنْتُمْ قفۃ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ ج فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰـثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ط تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ط ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِالْحَرَامِ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ع (اور پور اکروحج اور عمرہ اللہ کے لیے پس اگر تم گھیر لیے جاؤ تو تم پر ہے جو کچھ کہ میسر ہو قربانی سے اور اپنے سروں کی حجامت نہ کرو جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے پھر جو کوئی تم میں سے بیمارہویا اسے تکلیف ہو اسکے سر میں تو وہ بدلہ دے روزے یا خیرات یاقربانی سے پھر جب تم مامون ہوجاؤ تو جو شخص فائدہ اٹھائے عمرہ کو حج سے ملاکر تو اس پر ہے جو اسے قربانی میسر ہو تو پھر جو شخص قربانی نہ پائے تو تین روزے رکھے حج کے دنوں میں اور سات روزے جبکہ تم لوٹویہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جس کے گھروالے مسجد حرام کے قرب و جوار میں نہ رہتے ہوں اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جان لو کہ بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے) (196) سابقہ آیات کا خلاصہ اور ربط گزشتہ رکوع میں حج کا ذکر آیا ہے تو اس زمانے کے حالات کے تناظر میں جن جن ہدایات کی ضرورت تھی مسلمانوں کو وہ ہدایات دے دی گئیں۔ اسی نسبت سے جہاد کا ذکر بھی آیا ہے اشھر حرم بھی زیر بحث آئے اور یہ بات بھی کہ اگر جنگ حدود حرم یا مسجدِ حرام میں چھڑ گئی تو اس صورت میں مسلمانوں کو کیا کرنا ہوگا اور اسی ضمن میں اس حقیقت کو بھی منکشف کیا گیا کہ امت مسلمہ کا اصل فریضہ اس فتنہ کو ختم کرنا ہے جو اللہ کی دھرتی پر اللہ کے دین کے غلبہ کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اس حیثیت سے مسلمانوں کو ان کا فریضہ یاد دلایا گیا اور چونکہ کسی بھی نظام زندگی کے غلبے اور اس راستے میں پیش آنے والی کشمکش اور اس کے لیے ضروری مصارف کا حصول ایسی باتیں ہیں جو ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ اس لیے آخر میں انفاق کا حکم دیا گیا اور جہاد اور انفاق سے ہاتھ اٹھانے یا اس کی طرف سے لاپرواہی برتنے کو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے تعبیر کیا گیا اور مستقل پالیسی کے طور پر یہ حکم دیا گیا کہ تم اللہ کی بندگی اور اس کے فرائض کی ادائیگی میں بہتر سے بہتر جذبہ اور بہتر سے بہتر عمل بروئے کار لانے کی کوشش کرو۔ یہی وہی چیز ہے جو اللہ کی بارگاہ میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ تمہارے پیش نظر ہمیشہ یہ حقیقت رہنی چاہیے۔ ان تمام ضروری حقائق کو منکشف کرنے اور ضروری ہدایات دینے کے بعد حج کے احکام شروع کیے جارہے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے پہلے جملے سے بعض اہل علم کو نجانے یہ کیسے گمان ہوا ہے کہ اس میں حج اور عمرے کی فرضیت بیان کی جارہی ہے حالانکہ اس جملے میں اس بات کا کوئی امکان نہیں۔ جہاں تک فرضیتِ حج کا تعلق ہے اس کا ذکرسورۃ آل عمران میں 3 ہجری میں ہوچکا ہے وہاں پروردگار کا ارشاد ہے : وَلِلَّہِ عَلیَ النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ (اور لوگوں کے ذمہ ہے حج کرنا بیت اللہ کا اللہ کے لیے (یعنی) اس شخص کے ذمہ جو وہاں تک پہنچنے کی طاقت رکھتاہو اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ سارے جہان سے بےنیاز ہے) (اٰل عمران : 97) حج کی فرضیت اس آیت سے مسلمانوں پر حج فرض کیا گیا ہے۔ اس میں فرضیت کے اعلان کے ساتھ ساتھ شرائط کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے کہ حج اس پر فرض ہوگا جو مکہ معظمہ تک جانے کی استطاعت رکھتاہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مصارفِ سفر اپنے پاس رکھتاہو اس کی صحت سفر کی متحمل ہوسکتی ہو، اپنے پسماندگان کی گزر بسرکے لیے واپسی تک کے انتظامات کرچکاہو، راستے سفر کے لیے محفوظ ہوں۔ ان شرائط کے ساتھ ہر مسلمان پر حج فرض ہوجاتا ہے۔ آیت کے دوسرے حصے میں حج کی فرضیت کا انکار کرنے والوں یا اس عمل سے تمام وسائل کی موجودگی میں لاپرواہی کی حد تک رویہ اختیار کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے اور آنحضرت ﷺ کا ارشادِ گرامی اس آیت کی تائید اور وضاحت کے لیے کافی ہے۔ آپ نے فرمایا :” جو شخص سفر کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی حج نہیں کرتا وہ یہودی ہوکرمرے یا نصرانی مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں “۔ مطلب یہ ہے کہ مجھ سے یا میری امت سے اس کا کوئی رشتہ نہیں کیونکہ جس شخص کو وسائل کی موجودگی کے باوجود مرکز اسلام میں آنے اللہ کے گھر کی زیارت کرنے، امت مسلمہ کی طاقت کے سرچشمے کو بچشم سردیکھنے اور وہاں دس سال تک جو کشمکش برپارہی اس کی حقیقی روح کو سمجھنے اور پھر مدینہ منورہ جاکر ایک ایک غزوہ میں ایثار و قربانی کی مضمر حقیقتوں کو جاننے اور آنحضرت ﷺ کے روضہ اطہر کی زیارت کرنے اور ان تمام احساسات اور ترغیبات کو دل و دماغ میں زندہ کرنے جو حضور نے دم واپسیں ارشاد فرمائے تھے کی توفیق نہیں ہوتی تو اس کا آخر اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی سے کیا تعلق ؟ احکامِ حج و عمرہ اس آیت کریمہ میں جیسا کہ میں نے عرض کیا فرضیت حج کا کوئی ذکر ہے نہ عمرہ کی فرضیت کا بلکہ اس میں دو باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک تو یہ کہ جب تم حج یا عمرہ کی نیت کرلو اور نیت کا عملی اظہاریہ ہے کہ تم احرام باندھ لو تو پھر تم اسے درجہ اتمام کو پہنچائے بغیر کھول نہیں سکتے کیونکہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ کوئی بھی نفلی عبادت جب اس کا آغاز کردیا جائے تو وہ فرض ہوجاتی ہے۔ اب اس کا پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور اگر پور انہ کیا جاسکے تو اس کا قضا کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ حج اگر فرض کی نیت سے ادا کیا جارہا ہے تو وہ ویسے ہی فرض ہے لیکن اگر وہ فرض حج کی ادائیگی کے بعد نفلی حج کررہا ہے یا حج بدل کر رہا ہے تب بھی احرام باندھنے کے بعد اس کا پورا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ تم حج یا عمرہ کرو تو محض اللہ کے لیے۔ ان دونوں باتوں کا دراصل ایک پس منظر ہے۔ وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یا تو حدیبیہ کا سفر پیش آگیا تھا اور اس کے بعد یہ آیات نازل ہوئی ہیں یا پیشگی تیاری کے لیے یہ ہدایات دی جارہی ہیں کیونکہ پروردگار تو خوب جانتے تھے کہ حضور عمرہ کے ارادے سے مکہ معظمہ جائیں گے اور وہاں مشرکین مکہ انھیں عمرہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے تو ایسی صورت میں جبکہ وہ حالت احرام میں ہوں گے تو انھیں کیا کرنا ہوگا ؟ اور دوسری بات کا پس منظر یہ ہے کہ حج تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے ہورہا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عرب ملت ابراہیمی سے بےبہرہ ہوتے چلے گئے۔ وہ اس بات کے تو قائل تھے کہ حج ایک فریضہ ہے جو بہرصورت ادا ہونا چاہیے لیکن حج کے مناسک اور اس کے احکام سے بیخبر ی یاسرکشی کے باعث انھوں نے اپنے تئیں ان کے اندر بہت کچھ کمی بیشی کردی تھی۔ کچھ چیزیں بڑھادی تھیں کچھ کم کردی تھیں حج اور عمرہ کی حقیقی روح سے وہ بالکل بےگانہ ہوچکے تھے حتی کہ وہ اللہ کے گھر کا طواف کرتے ہوئے بت پرستی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ جب بیت اللہ کا طواف کرتے تو ساتھ ان تمام بتوں کا بھی طواف کرتے جو وہاں رکھے گئے تھے اور ان بتوں میں چونکہ ہر قبیلے کا الگ الگ بت تھا اس لیے وہ اپنے اپنے بت کے سامنے بطور خاص ڈنڈوت بجالاتے ماتھا ٹیکتے، چڑھاوے چڑھاتے، مرادیں مانگتے اور منتیں مانتے اور یہ سب کچھ اللہ کے گھر کے سائے میں ہوتا تھا۔ انھیں اس بات کا احساس ہی نہیں تھا کہ ہم اللہ کے ساتھ غیرا للہ کو شریک کررہے ہیں۔ جب سعی کرتے تھے تو صفا اور مروہ پر انھوں نے اساف اور نائلہ کے نام سے دو دیویاں نصب کررکھی تھیں اس لیے جب وہ صفا اور مروہ کا طواف کرتے تو ساتھ ان کا بھی طواف کرتے۔ شرک کے اس کاروبار کے ساتھ ساتھ انھوں نے حج کو تجارتی میلے میں تبدیل کردیا تھا۔ حج کے ایام میں مناسکِ حج بھی ادا ہوتے لیکن حقیقت میں تجارتی کاروبار ہوتا اور تمام دلچسپیاں قریش اور دوسرے قبائل کی تجارت کے ساتھ وابستہ ہوکررہ گئی تھیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا کہ جب تک مکہ فتح نہیں ہوتا اس وقت تک یہ آلودگیاں وہاں موجود رہیں گی اور تمہیں اگر اللہ نے حج یا عمرے کے لیے جانے کا موقعہ دیا تو تمہیں صرف اللہ کے لیے حج یا عمرہ کرنا ہے۔ احرام کے بعد کوئی مجبوری پیش آجائے تو اس کا حکم آیتِ کریمہ کے پہلے جملے سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ احرام باندھنے کے بعد چاہے وہ حج کا ہو یا عمرہ کا، حج یا عمرہ کو مکمل کیے بغیراحرام کھولا نہیں جاسکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر احرام باندھنے کے بعد کوئی مجبوری پیش آجائے جس سے حج اور عمرہ ادا کرنا ممکن نہ رہے تو پھر کیا کیا جائے ؟ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْسے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ مجبوری کی ایک صورت تو وہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے اس لفظ سے کیا ہے جس کا معنی ہے ” اگر تم گھیر لیے جاؤ “ یعنی دشمن تمہارا راستہ روک لے اور آگے بڑھنا بغیر قتال کیے تمہارے لیے ناممکن ہوجائے تو پھر تمہارے لیے حکم یہ ہے کہ جو قربانی تمہیں میسر ہو چاہے وہ بکری ہو، گائے ہو، اونٹ ہو اللہ کے حضور پیش کردو۔ آنحضرت ﷺ جب چھ ہجری میں عمرہ کے ارادے سے عازم مکہ ہوئے تھے تو آپ کو بھی حدیبیہ کے موقع پر آگے بڑھنے سے روک دیا گیا تھا۔ تو آپ کو مجبوراً وہیں احرام کھولناپڑا تھا۔ اس طرح سے اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی ایک صورت سنت کی شکل میں وجود میں آگئی اور امت کو اسے سمجھنے میں آسانی ہوگئی۔ مجبوری کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی بیماری یا کسی حادثے کے باعث حج یا عمرے کا سفر ممکن نہ رہے۔ حوادث مختلف صورتوں کے ہوسکتے ہیں چاہے وہ زمینی ہوں یا آسمانی، جسمانی ہوں یا حکومت کی جانب سے انتظامی۔ کوئی بھی ایسی رکاوٹ جو سفر کو ممکن نہ رہنے دے وہ ایک مجبوری ہے جس سے موجود قربانی دے کر احرام کھولا جاسکتا ہے۔ احرام سے نکلنے کی شرعی صورت، حلق یا قصر کی وضاحت لیکن اس آیت کا اگلا جملہ ایک اور ہدایت کی طرف راہنمائی کررہا ہے وہ یہ کہ احرام سے نکلنے کی شرعی صورت یہ ہے کہ آپ سرکے بال منڈوادیں یا کٹوادیں کیونکہ احرام کھولنے کے لیے دونوں کی اجازت دی گئی ہے۔ عورتوں کے لیے اپنے بالوں کی گردن کے قریب سے ایک لٹ لے کر اس کا آخری حصہ انگلی پر لپیٹ کر کاٹ دینا کافی ہے۔ لیکن مردوں کے لیے ضروری ہے وہ بالکل بال صاف کرائیں یا پورے سر سے بال چھوٹے کرائیں۔ بال صاف کرانے کو ” حلق “ کہتے ہیں اور چھوٹے کروانے یعنی کٹوانے کو ” قصر “ کہتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے بال صاف کروانے کے لیے کٹوانے والے کی نسبت تین گناہ فضیلت کا ذکر فرمایا ہے اور تین مرتبہ زیادہ دعا فرمائی ہے۔ اس لیے عمرہ کرنے والوں یا حج کرنے والوں کو اس معاملے میں اپنی زلفوں سے زیادہ اللہ کی رضا کی فکر ہونی چاہیے۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ احرام کھولنے کی شرعی صورت سر کے بال کٹوانایامنڈوانا ہے اور یہ سر کے بال اس وقت تک نہیں کٹوائے جاسکتے جب تک محرم کی قربانی اپنے موقع پر پہنچ کر ذبح نہ ہوجائے۔ اس حکم کی تعمیل کی صورت میں ائمہ فقہ میں اختلاف ہوا ہے۔ امام ابوحنیفہ ( رح) کی رائے یہ ہے کہ قربانی کے اپنی جگہ پر پہنچنے سے مرادحدودِ حرم میں پہنچنا ہے۔ حج یا عمرے کا احرام باندھنے والا چاہے کسی جگہ روک دیاجائے، دشمن کی جانب سے یا کسی اور مجبوری کے باعث، وہ اس وقت تک احرام کھولنے کے لیے سرکے بال نہیں کٹواسکتا جب تک اس کی قربانی حدود حرم میں پہنچ کر ذبح نہ ہوجائے۔ لیکن امام شافعی فرماتے ہیں کہ حدود حرم میں پہنچنا ضروری نہیں بلکہ جہاں بھی حج یا عمرہ کرنے والے کو روک دیا گیا ہے وہی جگہ اس کی قربانی کی ہے۔ چناچہ جو قربانی اسے میسر آئے وہیں اسے وہ قربانی ذبح کردینی چاہیے۔ وَلَاتَحْلِقُوْارُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّـہٗ : اس جملے پر اگر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ حکم یہ دیا گیا ہے کہ تم احرام کھولنے کے لیے اپنے سروں کی حجامت نہ کرائو جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ اگر یہ کہنا مقصود ہوتا کہ جہاں تمہیں روک دیا جائے وہیں قربانی دے دو تو پھر قربانی کی جگہ تک پہنچنے کی بات بےمعنی معلوم ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ رک جانے کی جگہ قربانی کی جگہ نہیں بلکہ وہ جگہ ہے جہاں ہمیشہ قربانیاں دی جاتی ہیں اور وہ حدود حرم ہے۔ آج حاجی منٰی میں قربانیاں کرتے ہیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ اصل قربانی کی جگہ تو کوہ صفا کے قرب و جوار میں تھی۔ حجاج کی کثرت کے باعث رسول اللہ ﷺ نے اس کو منیٰ تک بڑھا دیا اور آپ جانتے ہیں کہ منیٰ بھی حدود حرم کے اندر ہے۔ البتہ ! یہ بات ضرور ہے کہ اگر رک جانے کی جگہ سے حدود حرم تک قربانی یا اس کی قیمت بھیجنے کی کوئی صورت نہ رہے تو پھر یقینا تسلیم کرنا پڑے گا کہ اب قربانی کی جگہ وہی ہے جہاں آگے بڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر محرم کے لیے اس بات کا امکان ہو کہ وہ کسی قاصد کے ذریعے حدود حرم میں قربانی ذبح کرنے کا انتظام کرسکتا ہے اور پھر وہاں سے اسے اطلاع بھی پہنچ سکتی ہے تو پھر تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر جہاں روکا گیا ہے وہیں قربانی اللہ کے حضور پیش کردینی چاہیے۔ مزید ایک بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ نے اگرچہ اسی جگہ قربانیاں پیش کی تھیں جہاں سے آپ کو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا تھا اور اس جگہ کا نام ” حدیبیہ “ ہے اور آجکل اسے ” شمسیہ “ کہتے ہیں۔ یہ جگہ بالکل حرم کے کنارے پر ہے۔ آپ کا پڑائو یقینا حرم سے باہر تھا لیکن آپ کی قربانیاں حرم کے اندر ذبح کی گئی تھیں۔ چناچہ آپ نے جانور ذبح کرنے کے بعد احرام کھول دیاسب صحابہ نے بھی ایسا ہی کیا اور مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے اور آئندہ سال آپ نے اس عمرہ کی قضا کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر مجبوراً راستے میں احرام کھولنا پڑے تو پھر جس نیت سے احرام باندھا گیا اسے پورا کرنا چونکہ ضروری ہے اس لیے آئندہ سال اس کی قضا کرنا ضروری ہوگا۔ اس آیت کریمہ میں آپ نے دیکھا کہ سرمنڈوانے کو احرام کھولنے کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت احرام میں سر منڈوانا یابال کٹوانا ممنوع ہے۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سر میں یا بدن کے کسی دوسرے حصہ میں کوئی ایسی تکلیف لاحق ہوجائے جس سے سر کے بال منڈوانا یا جسم کے کسی حصے کے بال منڈواناضروری ہوجائے تو اس صورت میں کیا کیا جائے ؟ چناچہ اس آیت کریمہ کے اگلے جملے میں اسی کا جواب دیا گیا ہے۔ حالتِ احرام میں کوئی بال منڈوانے پر مجبور ہوجائے تو کیا کرے ؟ فَمَنْ کَانَ مِنْـکُمْ مَرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْصَدَقَۃٍ اَوْنُسُکٍ : جو شخص تم میں سے بیمار ہوجائے یا اس کے سر میں تکلیف ہوجائے تو ایسی صورت میں بقدر ضرورت بال منڈونے جائز ہیں مگر اس کا فدیہ ادا کرنا پڑے گا۔ وہ فدیہ یہ ہے کہ روزے رکھے یاصدقہ دے یا قربانی کرے۔ ایسا بیمار شخص بال منڈوانے کے بعد سفرجاری رکھنے پر قدرت رکھتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ حدود حرم میں پہنچ کر قربانی دے۔ البتہ ! روزہ رکھنے اور صدقہ دینے کی کوئی جگہ متعین نہیں ہر جگہ ادا کرسکتا ہے۔ قرآن کریم نے روزوں کی کوئی تعداد اور صدقہ کی کوئی مقدار ذکر نہیں فرمائی۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی۔ حضرت کعب بن عجرہ ( رض) کے سر میں بےتحاشہ جوئیں پڑگئیں۔ ان کی انتہائی اذیت کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھے تو آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم تین روزے رکھو یاچھ مسکینوں کو کھاناکھلائو۔ اشھرِحج میں حج وعمرہ کو جمع کرنے کے احکام فَاِذَآ اَمِنْتُمْ : اس کا معنی تو یہ ہے کہ ” جب خطرے سے بےخوف ہوجاؤ اور دشمن سے مامون ہوجاؤ “ تو اب تمہارے لیے موقعہ ہے کہ تم عمرہ یا حج کا سفر جاری رکھوچنانچہ ان دونوں کے لیے ضروری احکام دیئے جارہے ہیں۔ لیکن ان احکام کو سمجھنے سے پہلے ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے عربوں کا معمول یہ تھا کہ انھوں نے حج اور عمرہ کے لیے الگ الگ مہینے مقرر کر رکھے تھے۔ عمرہ کے لیے رجب کا مہینہ مقرر کیا گیا تھا اور حج کے مہینوں میں عرب عمرہ کرنے کو ناجائز سمجھتے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ ایک وقت میں یا عمرہ ہوسکتا ہے یاحج، دونوں عبادات اکٹھی نہیں کی جاسکتیں۔ حج کے مہینے شوال، ذیقعد اور ذی الحج کے دس دن ہیں۔ ان دنوں میں وہ عمرہ کرنا گناہ سمجھتے تھے۔ قرآن کریم نے ان کے اس جاہلانہ تصور کو ختم کردیا۔ البتہ ! لوگوں کی مصلحتوں کی رعایت کرتے ہوئے اس حکم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا کیونکہ حج اور عمرہ کرنے والے بھی دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک قسم تو ان حاجیوں کی ہے جو حدود میقات سے باہر سے آتے ہیں اور دنیائے اسلام کے مختلف گوشوں سے اللہ کے گھر کی زیارت کے ارادے سے طویل سفر کرکے حدود حرم میں داخل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو باربارسفر کرنا آسان نہیں بالخصوص دوردراز کے ملکوں کے رہنے والے تو بسا اوقات ایک دفعہ آنے کے لیے بھی مصارف کے متحمل نہیں ہوسکتے چہ جائیکہ وہ باربار آئیں۔ اس لیے ان کی دینی مصلحت کو دیکھتے ہوئے اور اللہ کے گھر کے ساتھ ان کے والہانہ تعلق کا لحاظ کرتے ہوئے ضروری تھا کہ انھیں اس بات کی رعایت دی جاتی کہ وہ چاہیں تو عمرہ اور حج کو اکٹھا کرکے دونوں نیکیوں کے اجر وثواب سے متمتع ہوسکتے ہیں تاکہ انھیں یہ حسرت نہ رہے کہ زندگی میں ایک دفعہ اللہ نے اپنے گھر آنے کا موقعہ دیا ہے تو وہاں ہم حج کے ساتھ عمرہ کی سعادت حاصل نہ کرسکے۔ میقات کا مفہوم دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو حدود میقات کے اندر رہتے ہیں۔ میقات وہ معین مقامات ہیں جواطرافِ عالم سے مکہ میں آنے والوں کے ہر راستہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین ہیں۔ ان کے بارے میں حکم یہ ہے کہ جو شخص بھی مکہ کا ارادہ کرکے یہاں سے گزرے اس کے لیے یہاں سے حج یا عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا ضروری ہے کیونکہ اللہ کے گھر کے احترام کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ کوئی شخص اپنی مصنوعی شخصیت اور اپنے ظاہری کروفر کے ساتھ وہاں حاضر ہونے کی جرأت نہ کرے بلکہ جیسے ہی میقات سے آگے بڑھے تو اسے احساس ہو کہ یہاں سے اللہ کے گھر کا خاص ادب شروع ہوجاتا ہے اور اس سرزمین کے خاص آداب ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان آداب کو بجا لاتے ہوئے اس گھر میں پہلی حاضری دی جائے تاکہ تمہارے اندر اللہ کی کبریائی اور اپنی بندگی کا احساس تواناہو۔ میقات کے اندر رہنے والے چونکہ بیت اللہ سے بہت دور نہیں ہیں بعض تو بہت قریب ہیں اور بعض اتنے فاصلے پر ہیں جس فاصلے کو طے کرکے آنا کوئی مشقت کا کام نہیں اس لیے ان کے بارے میں حکم دیا کہ ان کے لیے حج اور عمرہ ایک ہی احرام اور ایک ہی نیت کے ساتھ اور ایک ہی سفر میں کرنا جائز نہیں۔ یہ لوگ حج کے مہینوں میں صرف حج کریں البتہ اشھرحج کے علاوہ جب جی چاہے عمرہ کرسکتے ہیں۔ حج اور عمرہ کو جمع کرنے کا شکرانہ البتہ ! جو لوگ حج کے مہینوں میں حج اور عمرہ کو جمع کریں ان پر واجب ہے کہ دونوں عبادتوں کو جمع کرنے کا شکرانہ ادا کریں۔ وہ شکرانہ یہ ہے کہ جس طرح کی قربانی دینے کی قدرت ہو اس طرح کے جانور کی قربانی دی جائے، بکری، گائے، اونٹ، جو بھی آسان ہو اپنی مالی حیثیت کے مطابق قربانی دی جانی چاہیے۔ البتہ ! جو شخص مالی حیثیت کمزور ہونے کی وجہ سے قربانی ادا کرنے کے قابل نہیں ہے اسے اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ دس روزے رکھے اور یہ روزے رکھنا اس کے لیے واجب ہیں۔ طریقہ ان کا یہ ہوگا کہ تین روزے ایام حج کے اندر ہی رکھے یعنی نویں ذی الحج تک پورے کردے۔ باقی سات روزے حج سے فارغ ہوکرجہاں چاہے اور جب چاہے رکھے۔ حج سے فارغ ہونے کے بعد اگر مکہ مکرمہ میں مزید قیام ہو تو وہاں رکھ لیے جائیں اور اگر مدینہ منورہ چند دن ٹھہرنے کا اتفاق ہو تو وہاں بھی رکھنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر ان دونوں مقدس شہروں میں اتنا موقع نہ ملے تو اپنے وطن واپس آکر سات روزے رکھنے کا اختیار ہے۔ یہ بات یاد رہے ! اگر کوئی شخص تین روزے ایام حج میں نہ رکھ سکا تو پھر امام ابوحنیفہ اور اکابر صحابہ کے نزدیک اس کے لیے قربانی کرنا ہی لازم ہوگا۔ جب قدرت ہو کسی کے ذریعے حرم میں قربانی کرادے۔ تمتع و قِران یہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ حج کے مہینوں میں اللہ تعالیٰ نے حج اور عمرہ جمع کرنے کی اجازت دی ہے۔ ان دونوں کو جمع کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک کو ” قران “ کہتے ہیں اور دوسری کو ” تمتع “۔ قران یہ ہے کہ میقات سے جب احرام باندھا جائے تو حج اور عمرہ دونوں کی نیت کی جائے۔ اس میں حج اور عمرہ ایک ہی احرام میں اکٹھے ادا کیے جائیں گے اور دو چیزوں کو اکٹھا کرنے کو چونکہ عربی میں قران کہتے ہیں اس لیے حج کی اس صورت کو حج قران کہتے ہیں۔ اس میں پابندی یہ کرنا پڑتی ہے کہ عمرہ کرنے کے بعد احرام نہیں کھولا جاسکتا اگر ابھی ایام حج کے آغاز میں چنددن باقی ہیں تو وہ بھی احرام ہی میں گزارنے پڑیں گے پھر اسی احرام میں حج ہوگا۔ حج کے اختتام پر عمرہ اور حج دونوں کا احرام کھولا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ میقات سے احرام باندھتے ہوئے صرف عمرہ کی نیت کی جائے اس صورت میں آسانی یہ ہوگی کہ مکہ معظمہ پہنچ کر عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کھول دیا جائے گا۔ پھر آٹھ ذی الحج کو حج کے ارادہ سے حرم کے اندر سے احرام باندھا جائے گا اور پھر اختتامِ حج پر حج کا احرام کھولا جائے گا۔ اس کو اصطلاح میں تمتع کہا جاتا ہے۔ تمتع کا معنی ہے ” فائدہ اٹھانا اور نفع اٹھانا “۔ قران اور تمتع چونکہ دونوں میں ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کی عبادتیں کی جاتی ہیں اس لیے دونوں پر لغوی طور پر تمتع کا لفظ صادق آتا ہے۔ لیکن اصطلاح میں حج کی دوسری قسم کو تمتع کہا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں فَمَنْ تَمَتَّعَ سے دونوں صورتیں مراد ہیں۔ آیتِ کریمہ کے آخر میں تنبیہ کے انداز میں دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک تو یہ کہ تمہارے لیے لازم ہے کہ حج اور عمرہ کی ادائیگی میں قدم قدم پر تقویٰ کو ملحوظ رکھو۔ تقویٰ کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ ان دونوں عبادتوں کا جو حق ہے اس سے نظر ہٹنے نہ پائے۔ پھر ان دونوں عبادتوں کا ایک مقصد ہے کہ تمہارے دل و دماغ میں پوری طرح اللہ کی یاد اور اس کی بندگی کا احساس اس طرح گہرا ہوجائے کہ نیکی کی طرف دل لپکتاجائے اور گناہ سے شدید نفرت ہوجائے، اس مقصد کو بھی نقصان نہ پہنچے اسی طرح حج اور عمرہ کے مسائل اور احکام کو پوری طرح سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ جو آدمی ان عظیم عبادات کے مسائل کو جاننے اور ان کی پابندی کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر نہ عبادت کا شوق ہے اور نہ اللہ کی ذات کی پرواہ۔ شاید اسی تقویٰ کی کمی کا نتیجہ ہے کہ ہم لوگ حج کی ادائیگی کا ارادہ کرتے کرتے عمر گزاردیتے ہیں۔ اللہ وسائل عطا فرماتا ہے لیکن ہم دوسری ذمہ داریوں کو حج پر ترجیح دیتے ہیں اور جب تک تمام ذمہ داریوں سے فراغت نہیں ہوجاتی اور دنیا کے ہر معرکے کو سر کرنے کی جب تک ہوس ختم نہیں ہوتی اور جسم جواب نہیں دے جاتا اس وقت تک ہم عازم حج ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے دنوں میں یہ دیکھ کر انتہائی پریشانی ہوتی ہے کہ پوری امت میں سے آئے ہوئے حاجیوں میں سے سب سے کمزور اور سب سے عمر رسیدہ برصغیر کے حجاج ہوتے ہیں۔ جن کے لیے نما زپڑھنا بھی آسانی سے ممکن نہیں ہوتا، وہ مناسکِ حج کی ادائیگی کو کس طرح آسانی سے ادا کرسکتے ہیں۔ جہاں تک مسائل کا تعلق ہے اس کی طرف سے لاپرواہی تو تشویشناک حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ کتنے حجاج کرام کو دیکھا ہے کہ تفصیلی مسائل تو ایک طرف رہے انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ احرام کس طرح باندھنا ہے اور کیا نیت کرنی ہے۔ آپ انھیں پوچھ کر دیکھ لیجئے کہ آپ نے ماشاء اللہ احرام باندھا ہے تو آپ کس نیت سے جارہے ہیں ؟ تو وہ بڑی وارفتگی کے انداز میں فرمائیں گے کہ سوہنے نے بلایا ہے ہم تو سوہنے کی زیارت کے لیے جارہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے ! مدینہ کی حاضری ایک بہت بڑی سعادت ہے لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ اس کا مناسکِ حج سے کوئی تعلق نہیں۔ حج سے فارغ ہونے کے بعد حاجی حضور کے درِ دولت پر حاضری دیتے ہیں۔ نیت کرتے ہوئے تو آپ کو یاتوعمرہ کی نیت کرنی ہے اور یا حج کی اور جب آپ نے ان دونوں میں سے کسی کی نیت نہیں کی تو آپ کا حج کیسے ادا ہوگا ؟ اور پھر جو احرام کی پابندیاں ہیں مکہ معظمہ اور بیت اللہ کے آداب ہیں، طواف اور باقی مناسکِ حج کے تفصیلی مسائل ہیں، اس کا تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا حشر ہوگا ؟ اس لیے شاید پروردگار نے آخری جملے میں شدید تنبیہ فرمائی ہے۔ ارشاد فرمایا : وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ : اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والے ہیں “۔ یعنی جو ان عبادات کی ادائیگی میں اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرے گایا احکام کے جاننے میں لاپراوہی برتے گا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ معاملہ اللہ کے گھر کا، حرم کا اور شعائرِ اسلام کا ہے۔ اس میں کوتاہی عام درجے کی کوتاہی نہیں، جان بوجھ کر کسی بھی کوتاہی کرنے والے کو اللہ سخت عذاب دیں گے۔ چونکہ یہاں اس کا طریقہ سیکھنے اور اس کے مسائل جاننے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس لیے اگلی آیت کریمہ میں بنیادی مسائل بیان کیے جارہے ہیں۔
Top