Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 196
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ١ٙ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ١ؕ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠   ۧ
وَاَتِمُّوا : اور پورا کرو الْحَجَّ : حج وَالْعُمْرَةَ : اور عمرہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنْ : پھر اگر اُحْصِرْتُمْ : تم روک دئیے جاؤ فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ : سے الْهَدْيِ : قربانی وَلَا : اور نہ تَحْلِقُوْا : منڈاؤ رُءُوْسَكُمْ : اپنے سر حَتّٰى : یہانتک کہ يَبْلُغَ : پہنچ جائے الْهَدْيُ : قربانی مَحِلَّهٗ : اپنی جگہ فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا بِهٖٓ : اسکے اَذًى : تکلیف مِّنْ : سے رَّاْسِهٖ : اس کا سر فَفِدْيَةٌ : تو بدلہ مِّنْ : سے صِيَامٍ : روزہ اَوْ : یا صَدَقَةٍ : صدقہ اَوْ : یا نُسُكٍ : قربانی فَاِذَآ : پھر جب اَمِنْتُمْ : تم امن میں ہو فَمَنْ : تو جو تَمَتَّعَ : فائدہ اٹھائے بِالْعُمْرَةِ : ساتھ۔ عمرہ اِلَى : تک الْحَجِّ : حج فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ الْهَدْيِ : سے۔ قربانی فَمَنْ : پھر جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزہ رکھے ثَلٰثَةِ : تین اَيَّامٍ : دن فِي الْحَجِّ : حج میں وَسَبْعَةٍ : اور سات اِذَا رَجَعْتُمْ : جب تم واپس جاؤ تِلْكَ : یہ عَشَرَةٌ : دس كَامِلَةٌ : پورے ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : لیے۔ جو لَّمْ يَكُنْ : نہ ہوں اَھْلُهٗ : اس کے گھر والے حَاضِرِي : موجود الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور اعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا کرو۔ پس اگر تم روکے جائو (راستہ میں) تو جو کچھ قربانی میسر آئے (ذبح کر دو ) اور اپنے سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے پس جو کوئی تم میں سے بیمار ہوجاوے یا اس کے سر میں کوئی بیماری ہو (اور وہ سر منڈا دے) تو اس کے بدلہ میں روزے یا صدقہ یا قربانی لازم ہے۔ پھر جب تم امن کی حالت میں ہوجاؤتو جو کوئی عمرہ کو حج سے ملا کر فائدہ اٹھائے تو اس کو جو کچھ میسر ہو قربانی کرنی چاہیے اور (قربانی) نہ پائے تو اس کو تین روزے ایام حج میں رکھنے چاہییں اور سات جبکہ وطن میں واپس آؤیہ پورے دس ہوگئے۔ یہ اس کے لیے ہے کہ جس کا گھر بار مکہ میں نہ ہو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا بھی ہے۔
ترکیب : اتموا امر انتم اس کا فاعل الحج والعمرہ مفعول للّٰہ کالام متعلق ہے التوا سے فان احصرتم شرط فما موضع رفع میں ہے بسبب ابتداء کے اور خبر محذوف ہے فعلیکم یہ تمام جملہ جواب شرط ہے محلۃ ظرف مکان اور زمان دونوں ہوسکتا ہے فمن کان الخ شرط ففدیۃ الخ جواب فاذا موضع نصب میں ہے فمن تمتع شرط موضع ابتداء میں فَمَااستیسر جواب پس فمن اور اس کا جواب جملہ شرطیہ جواب ہے۔ اذا کا فمن شرط فصیام الخ جملہ جواب۔ تفسیر : اگلی آیت میں جہاد و قتال کا حکم نازل ہوا تھا تو اس کی شان نزول میں آپ جان چکے ہیں کہ یہ حکم جب نازل ہوا تھا کہ جب آنحضرت (علیہ السلام) حج وعمرہ کے لیے مکہ میں آنا چاہتے تھے۔ کفار نے بمقام حدیبیہ آپ کو روک دیا تھا۔ پھر اگلے سال آپ نے عمرہ ادا کیا۔ پس چونکہ حج وعمرہ کا بیان تھا تو اس کے مانع کو دفع کرنے کے بعد احکامِ حج وعمرہ کا بیان شروع فرمایا۔ کس لیے کہ یہ بھی ایک بڑی عمدہ عبادت ہے۔ چناچہ اس کے اسرار اور فوائد ہم آگے چل کر بیان کرتے ہیں۔ انشاء اللہ حج وعمرہ کے بارے میں یہ سب سے اول آیت ہے اور پھر دیگر مقامات میں بھی اس کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ چناچہ اس سورة میں اسی مقام پر اور پھر آل عمران میں ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا وھدی للعلمین فیہ آیت بینت مقام ابراھیم ومن دخلہ کان امنا وللہ علی الناس حج الخ اس آیت میں حج کی فرضیت ہے ٗ پھر سورة مائدہ کے اول میں فرماتا ہے احلت لکم بھیمۃ الانعام الآیہ کہ تمہارے لیے وہ مویشی حلال کئے گئے کہ جو حرام ہونے سے مستثنیٰ ہیں مگر حالت احرام میں شکار نہ کرو اور خدا کی نشانیوں اور ہدی اور قلادہ پڑی ہوئی قربانیوں کو اور حج کرنے والوں کہ بےحرمت نہ کرو۔ پھر سورة مائدہ کے بارہویں رکوع میں یہ فرماتا ہے یا ایھا الذین امنوا لا تقتلوا الصید وانتم حرم ومن قتلہ منکم متعمداً فجزاء مثل ماقتل من النعم یحکم بہ ذواعدل منکم ھدیاً بالغ الکعبۃ او کفارۃ طعام مساکین او عدل ذلک صیاماً لیذوق وبال امرہ عفا اللہ عما سلف ومن عاد فینتقم اللہ منہ واللہ عزیز ذوا نتقام٭ احل لکم صید البحر وطعامہ متاعاً لکم وللسیارہ وحرم علیکم صید البرما دمتم حرما واتقوا اللہ الذی الیہ تحشرون٭ جعل اللّٰہُ الکعبۃ البیت الحرام قیما للناس والشہر الحرام والہدی والقلائد الآیۃ اس آیت میں احرام کی حالت میں شکار کی ممانعت ہے اور جو کوئی شکار کرے تو اس کے بالعوض اور جانور ویسا ہی کعبہ کو قربانی کے لیے بھیجے یا مسکین کو کھانا کھلائے ورنہ روزہ رکھے اور دریائی جانوروں کے شکار کی اجازت دیتا ہے اور یہ بتلاتا ہے کہ کعبہ بیت الحرام ہمیں نے بنایا ہے اور ہدی اور قلادہ پڑی ہوئی قربانیاں جو کچھ جا کر ذبح ہوتی ہیں اور حرمت کا مہینہ ہمارے حکم سے مقرر ہوا ہے۔ پھر سورة حج کے تیسرے رکوع میں حج اور قربانی خانہ کعبہ کی نسبت یہ ارشاد ہوا ہے واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق٭ لیشہد وامنافع لھم ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علٰی ما رزقہم من بہیمۃ الانعام فکلوامنہا واطمعوا البائس الفقیر٭ ثم لیفضوا تفثہم ولیوفوا نذورھم ولیطوفوا بالبیت العتیق٭ ذلک ومن یعظم حرمات اللہ فہو خیرلہ عند ربہ واحلت لکم الانعام الا مایتلی علیکم الآیۃ لکم فیہا منافع الی اجل مسمّٰی ثم محلہا الی البیت العتیق٭ الآیۃ۔ والبدن جعلنہا لکم من شعائر اللّٰہ لکم فیہا خیر فاذکر وا اسم اللّٰہ علیہا صواف٭ فاذا وجبت جنوبہا فکلوا منہا واطعموا القانع والمعتر کذلک سخرنہالکم لعلکم تشکرون٭ لن ینال اللّٰہ لحو مہاولا دمائوھا لکن ینالہ التقویٰ منکم ط کذلک سخرھا لکم لتکبروا اللّٰہ علی ما ھداکم وبشر المحسنین٭ ان آیات میں خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ میں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ لوگوں میں حج کا اعلان دے دو ٗ پھر تمہارے پاس ہر جانب سے لوگ حاضر ہوں گے (چنانچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے عرفات کی ایک پہاڑی پر چڑھ کر آواز دی) تاکہ وہ اپنے منافع دنیا و آخرت دیکھیں اور ایام تشریق تک خدا کے لیے تکبیر کہیں کہ اس نے ان کے لیے چارپائے بنائے۔ ان چار پایوں کا گوشت خود بھی کھائو اور بھوکے فقیر کو بھی دو ۔ پھر اس قربانی کے بعد (جو دسویں تاریخ منٰی میں ہوتی ہے) اپنا احرام کھول کر میل کچیل دور کرو اور اپنی نذریں پوری کرو (قربانی مانی ہو تو جانور قربانی کرو) اور کعبہ کا طواف کرو ( اس کو طواف زیارت کہتے ہیں) الخ ہم نے تمہارے لیے مواشی میں منافع رکھے ہیں۔ ان سے ہر طرح کا کام لو ٗ پھر اخیر یہ کہ اس کو کعبے کی قربانی کے لیے بھیجتے ہیں الخ اور اونٹوں میں ہم نے تمہارے لیے بہتیرے اور فوائد رکھے ہیں۔ وہ ہماری قدرت کا نمونہ ہیں۔ اس کے پائوں باندھ کر تکبیر کہو پھر جب وہ زمین پر گر پڑے تو اس کو خود بھی کھائو اور محتاج ٗ بےسوال کو اور سوالی کو بھی دو ۔ الخ اور خدا کے پاس نہ اس کا خون جاتا ہے نہ گوشت بلکہ صرف تمہارا تقویٰ ۔ اب ہم آپ کو سورة بقرہ کی اس آیت کا جس کی ہم تفسیر لکھ رہے ہیں ٗ پیشتر صاف صاف مطلب سمجھاتے ہیں۔ پھر اور ابحاث شروع کرتے ہیں۔ فرماتا ہے اے مسلمانو ! خدا کے لیے حج وعمرہ پورا کرو یعنی شروع کرکے ناتمام نہ چھوڑو اور ان کے شروط وارکان میں بھی کچھ کمی نہ کرو اور نیت بھی اس کے لیے کرو اور جو احرام باندھنے کے بعد راستہ میں روکے جائو خواہ بسبب مرض کے یا بسبب دشمن کے جیسا کہ اس زمانہ میں نبی ﷺ کو بمقام حدیبیہ قریش نے روک دیا تھا یا کوئی اور سبب پیش آوے جیسا کہ دریائی سفر میں جہاز والوں کو پیش آتا ہے۔ ان صورتوں میں ایک قربانی خواہ بکری خواہ اونٹ جو میسر آوے کعبہ کو بھیج دو جب جانو کہ وہاں ذبح ہوگئی ہوگی تو احرام کھول دو اور سر منڈوا لو۔ اس حج وعمرہ کو آیندہ برسوں میں ادا کر دو ۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ قربانی کو ذبح وہیں کرے جہاں وہ روکا گیا ہے اور احرام کھول دے کیونکہ محل کے معنی ان کے نزدیک یہی ہیں اور جو بعد احرام کے کوئی مرض لاحق ہو یا سر میں جوئیں اس طرح سے پڑجائیں کہ بہت تکلیف ہو یا اور کوئی وجہ ایسی پیش آوے کہ جس میں سر منڈانے کی ضرورت پڑے تو سر منڈواے لیکن اس کے بدلہ میں قربانی کرے 1 ؎۔ ورنہ مساکین کو کھانا کھلائے اور جو مقدور نہ ہو تو روزہ رکھ دے اور جو کوئی حج کو عمرہ کے ساتھ ملائے تو اس کو جو قربانی میسر آوے ذبح کرنی چاہیے اور جس کو مقدور نہ ہو تو وہ اس کے بدلہ میں دس روزے رکھ دے تین تو ایام حج میں دسویں تاریخ تک اور سات حج سے فارغ ہو کر۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ سات روزے اپنے گھر جا کر رکھے۔ اذا رجعتم کے ان کے نزدیک یہی معنی ہیں۔ یہ یعنی حج کا عمرہ سے ملانا اس کو درست ہے کہ جو مکہ یا میقات کے اندر کا رہنے والا نہ ہو بلکہ باہر کا رہنے والا ہو۔ کس لیے کہ اہل مکہ یا جو اس کے آس پاس رہتے ہیں پھر جب چاہیں عمدہ جداگانہ کرسکتے ہیں۔ ایام حج میں اس کو ساتھ ملانے کی کیا ضرورت ؟ امام شافعی (رح) کہتے ہیں ذلک یعنی یہ قربانی یا اس کے بدلہ میں روزہ رکھنے کا حکم اس کے لیے ہے کہ جو اہل مکہ نہ ہو یا اس کے آس پاس کا نہ ہو کیونکہ یہاں کے لوگوں پر تمتع میں نہ قربانی لازم ہے نہ روزہ۔ پس ذلک کا اشارہ اس کی طرف ہوا۔ یہ آیت کا خلاصہ مطلب ہوا اس میں یہ چار حکم تھے۔ متعلقات واتموالحج والعمرۃ حج لغت میں قصد کرنے کو کہتے ہیں اور حج بالکسر برس کو ثمانیہ حج اور شرع میں افعال مخصوصہ کو کہتے ہیں جس میں ارکان اور واجبات اور مستحبات ہیں جن کی تشریح ہم سب آیات حج کے بعد کریں گے۔ عمرہ : صرف طواف کعبہ اور سعی بین الصفا والمروہ کا نام ہے یعنی حل سے احرام باندھ کر طواف اور سعی کرنا پھر سر منڈا کر احرام کھولنا اور عمرہ میں یہ قید نہیں کہ حج کے ایام میں ہو بلکہ تمام سال عمرہ جائز ہے۔ البتہ عرفہ کے دن اور دسویں تاریخ اور ایام تشریق میں مکروہ ہے۔ اتموا کے معنی یہ ہیں کہ جس نے حج وعمرہ شرع کیا ہو تو اس کو پورا کرنا چاہیے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ابتدائً حج وعمرہ کرنا مراد ہے۔ دلائلِ فریقین ان کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ثمرہ اختلاف یہ ہوا کہ امام شافعی (رح) کے نزدیک حج وعمرہ دونوں واجب ہیں۔ حضرت امام اعظم (رح) کے نزدیک حج واجب ہے وللّٰہ علی الناس حج البیت الآیۃ سے اور عمرہ سنت ہے۔ فان احصر تم فما ستیسر من الہدی۔ احصر کے معنی رکنے اور بند ہوجانے کے ہیں۔ عام ہے کہ مرض کی وجہ سے راستہ میں حاجی احرام باندھنے کے بعد رک جائے۔ جیسا کہ ابی عبیدہ اور ابن السکیت اور زجاج وغیرہم اہل لغت کہتے ہیں اور خواہ کسی دشمن نے روک دیا ہو۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ دشمن نے اس کو روکا ہو کیونکہ احصار سے مراد یہاں یہی ہے الہدی جمع ہدیۃ کما تقول تمرو تمرۃ لیکن اہل حجاز اس کو بغیر تشدید اور بنو تمیم بالتشدید پڑھتے ہیں۔ ہدی میں اعلیٰ اونٹ اور ادنیٰ درجہ میں بکری ہے۔ حتی یبلغ الہدی محلہ محل ظرف زمان و مکان دونوں کے لیے آتا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں یہاں مراد مکان ہے یعنی حرم اور امام شافعی (رح) کہتے ہیں زمان خواہ حرم میں ذبح کی جاوے خواہ حل میں۔ پس آیت کا مطلب امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ ہوا کہ جو کوئی احرام باندھنے کے بعد دشمن یا مرض سے راستہ میں رک جائے اور حج کو نہ آسکے تو اس کو لازم ہے کہ ایک قربانی (ہدی) مکہ کو روانہ کر دے جب جانے کہ وہاں پہنچ گئی اور ذبح ہوگئی تو سرمنڈا کر احرام کھول دے ٗ اس 1 ؎ اگرچہ آیت میں روزہ اور طعام مساکین کی کچھ تشریح نہیں مگر حدیث کعب بن عجرہ ؓ میں کہ جس کو اہل صحاح ستہ نے روایت کیا ہے تصریح آگئی ہے۔ وہ یہ کہ نبی ﷺ کعب کے پاس سے گزرے اور وہ احرام باندھے ہوئے ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور سر میں سے جوئیں گر رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا کیا تجھ کو یہ تکلیف دے رہی ہیں ؟ عرض کیا ہاں۔ فرمایا اچھا تو سرمنڈوا دے اور تین روزے رکھ لے ورنہ تین صاع کا ایک فرق یعنی ٹوکرا چھوہاروں کا چھ مسکینوں کو دے ورنہ ایک بکری ذبح کر دے۔ ان تنیوں میں اختیار ہے جو چاہے کر۔ 12 منہ کی قضا پھر ادا کر دے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ جس کو دشمن کی وجہ سے یہ حالت پیش آئے تو جہاں رک گیا ہے وہیں قربانی ذبح کرکے احرام کھول دے اور آیندہ قضا پوری کرے۔ ہدی کو حرم میں بھیجنا کچھ ضرور نہیں اور جو وقت پر ہدی میسر نہ آوے تو قیمت ہدی مساکین کو دینا کافی ہے۔ جیسا کہ امام احمد (رح) وغیرہ فرماتے ہیں۔ فمن کان منکم مریضا جمہور مفسرین کے نزدیک یہ جدا جملہ ہے جس کا حکم محصر وغیرہ سب کو شامل ہے۔ اسی طرح بعد احرام کے جو کسی کو مرض کی وجہ سے خوشبو لگانے یا احرام کے برخلاف کپڑوں کے پہننے کی ضرورت پڑے ٗ اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اس فدیہ میں قربانی کرے یا کھانا کھلاوے یا تین روزے رکھے۔ سر میں جوئیں یا مرض کی صورت میں سر منڈانے فدیہ دینے کی اجازت پر یہ بھی قیاس کئے گئے ہیں۔ فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج۔ واضح ہو کہ حج کی تین قسم ہیں۔ اول افراد یعنی ایام حج میں مواقیت یا حل سے صرف حج کی نیت کرکے احرام باندھے اور مکہ میں پہنچ کر پہلے طواف قدوم کرے یعنی سات بار کعبہ کے گرد پھرے اور فارغ ہو کر مقام ابراہیم کے متصل دو رکعت نماز پڑھ کر صفا ومروہ کے درمیان سعی کرے اور پھر احرام نہ کھولے۔ یہاں تک کہ آٹھویں تاریخ ذی الحجہ کو مقام منٰی میں شب باش ہو وے اور پھر نویں کی صبح کو بمقام عرفات جاوے اور شام تک وہاں رہے اور بعد غروب کے وہاں سے چل کر مزدلفہ میں آرہے اور بڑے تڑکے اٹھ کر دسویں کو پھر منٰی میں آوے اور تینوں جمروں میں سے پہلے اس جمرہ کو کہ جو مکہ کی طرف ہے ٗ سات کنکریاں مار کر قربانی کرے اور سر منڈا کر احرام کھول دے اور عورتیں کسی قدر سر کی لٹ کتریں۔ اس کے بعد سوا جماع کے سب باتیں حلال ہوگئیں۔ پھر اس روز یا اگلے روز یا تیسرے روز کعبہ کا جا کر طواف کرے اور اس کو طواف زیارت کہتے ہیں۔ اب اس کو جماع بھی حلال ہوگیا۔ اگر اسی روز طواف زیارت کو گیا تھا تو لوٹ کر پھر منٰی آجاوے اوراقل مرتبہ دو روز تک بعد زوال آفتاب تینوں جمروں کو سات سات کنکریاں مارے اور اب شروع اس سے کرے کہ جو عرفات کی جانب ہے ٗ بس حج تمام ہوگیا۔ دوم قرآن یہ کہ حج وعمرہ دونوں کی نیت کرے اور مکہ میں آکر پیشتر عمرہ کرلے مگر احرام نہ کھولے اور پھر آٹھویں تاریخ حج کے افعال شروع کرے۔ باقی سب باتیں وہیں ہیں مگر اس پر نویں تاریخ قربانی واجب ہے اور اس قربانی کو دم قرآن کہتے ہیں اور جو مقدور نہ ہو تو دس روزے رکھے۔ تین نویں تک اور سات حج سے فارغ ہو کر۔ سوم تمتع کہ حج وعمرہ دونوں کی جداگانہ نیت کرے اور پہلے عمرہ تمام کرکے احرام کھول دے۔ پھر آٹھویں تاریخ کو کہ جس کو یوم الترویہ کہتے ہیں ٗ مسجد الحرام یا حرم کی عام جگہ سے احرام باندھ کر حج کے تمام افعال ادا کرے اور اس کو بھی نویں تاریخ قربانی کرنی واجب ہے اور جو مقدور نہ ہو تو دس روزے رکھے۔ فاذا امنتم فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج اس آیت میں خدا تعالیٰ حج اور عمرہ دونوں سے ثواب حاصل کرنے والوں کو قربانی اور روزے کا حکم دیتا ہے یہ قران اور تمتع دونوں کو شامل ہے۔ اونٹ سے لے کر گائے بیل دنبہ بکری جو میسر آئے اللہ کے نام سے ذبح کر دے بمقام منیٰ ۔ حاضری المسجد الحرام سے مراد امام مالک (رح) کے نزدیک خاص اہل مکہ ہیں اور امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ جو مسافت قصر نماز کے اندر ہیں وہ بھی مسجد الحرام کے حاضرین میں شمار ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں بلکہ وہ لوگ کہ جو مواقیت کے اندر رہتے ہیں واللہ اعلم۔ تلک عشرۃ کاملۃ اس لیے فرمایا کہ وسبعۃ اذا رجعتم سے یہ نہ سمجھ لے کہ وجمع کے لیے نہیں بلکہ تخییر کے لیے جیسا کہ مثنی وثلث ورباع میں ہے کہ خواہ کوئی تین روز ایام حج میں روزہ رکھ لے یا سات بعد حج کے رکھ لے۔ پس جب تلک عشرۃ کاملۃ کہا کہ یہ پورے دس ہوئے تو یہ احتمال جاتا رہا۔ کس لیے کہ جب تک سات کو تین کے ساتھ ملایا نہ جاوے۔ گنتی میں دس پورے نہیں ہوتے اس کے علاوہ اور بھی اس میں حکمتیں ہیں۔ اب ہم دوسری آیت حج کی تفسیر کرتے ہیں تاکہ پھر سب کے بعد مجموعہ حج کی صورت بیان کرکے اسرار بیان کریں۔
Top