Al-Qurtubi - Al-Baqara : 196
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ١ٙ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ١ؕ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠   ۧ
وَاَتِمُّوا : اور پورا کرو الْحَجَّ : حج وَالْعُمْرَةَ : اور عمرہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنْ : پھر اگر اُحْصِرْتُمْ : تم روک دئیے جاؤ فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ : سے الْهَدْيِ : قربانی وَلَا : اور نہ تَحْلِقُوْا : منڈاؤ رُءُوْسَكُمْ : اپنے سر حَتّٰى : یہانتک کہ يَبْلُغَ : پہنچ جائے الْهَدْيُ : قربانی مَحِلَّهٗ : اپنی جگہ فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا بِهٖٓ : اسکے اَذًى : تکلیف مِّنْ : سے رَّاْسِهٖ : اس کا سر فَفِدْيَةٌ : تو بدلہ مِّنْ : سے صِيَامٍ : روزہ اَوْ : یا صَدَقَةٍ : صدقہ اَوْ : یا نُسُكٍ : قربانی فَاِذَآ : پھر جب اَمِنْتُمْ : تم امن میں ہو فَمَنْ : تو جو تَمَتَّعَ : فائدہ اٹھائے بِالْعُمْرَةِ : ساتھ۔ عمرہ اِلَى : تک الْحَجِّ : حج فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ الْهَدْيِ : سے۔ قربانی فَمَنْ : پھر جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزہ رکھے ثَلٰثَةِ : تین اَيَّامٍ : دن فِي الْحَجِّ : حج میں وَسَبْعَةٍ : اور سات اِذَا رَجَعْتُمْ : جب تم واپس جاؤ تِلْكَ : یہ عَشَرَةٌ : دس كَامِلَةٌ : پورے ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : لیے۔ جو لَّمْ يَكُنْ : نہ ہوں اَھْلُهٗ : اس کے گھر والے حَاضِرِي : موجود الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور اعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اور خدا (کی خوشنودی) کیلیے حج اور عمرے کو پور کرو اور اگر (راستے میں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈا لے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو (کرے) اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو یہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مکہ میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے
آیت نمبر 196 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتموا الحج والعمرۃ للہ۔ اس میں سات مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: علماء کا حج وعمرہ اللہ کے لئے مکمل کرنے کے مرادی معنی میں اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : حج و عمرہکا اللہ کی رضا کے لئے ادا کرنا ہے، جیسے ارشاد ہے : فأتمھن (انہیں ادا کیا) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم اتموا الصیام الی الیل (البقرہ :187) پھر تم رات تک روزہ رکھو، یہ مفہوم ان علماء کے نزدیک ہے جنہوں نے عمرہ کو واجب کیا ہے کہ آگے آئے گا۔ اور جنہوں نے عمرہ کو واجب نہیں کیا انہوں نے فرمایا : حج اور عمرہ شروع کرنے کے بعد انہیں مکمل کرنا مراد ہے جس نے عبادر (حج یا عمرہ) کا احرام باندھا اس پر اس کو مکمل کرنا واجب ہے وہ اسے فسخ نہ کرے۔ شعبی اور ابن زید نے یہی مفہوم بنان کیا ہے اور حضرت علی ؓ سے مروی ہے، حج وعمرہ کا اتمام یہ ہے کہ تم اپنے اہل کے گھر سے دونوں کا احرام باندھو۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت سعید بن ابی وقاص سے یہی مروی ہے۔ حضرت عمران بن حصین نے یہی کہا ہے۔ سفیان ثوری نے کہا : حج وعمرہ کا اتمام یہ ہے کہ ان کا قصد کرکے نکلے، تجارت یا کوئی غرض نہ ہو، اس قول کو للہ کا قول تقویت دیتا ہے۔ حضرت عمر نے کہا : ان کا اتمام یہ ہے کہ ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ کیا جائے۔ تمتع اور قرآن نہ کیا جائے۔ یہ ابن حبیب کا قول ہے۔ مقاتل نے کہا : اس کا اتمام یہ ہے کہ اس میں تم وہ عمل نہ کرو جو تمہارے لئے مناسب نہیں ہیں۔ یہ اس لئے فرمایا کیونکہ وہ احرام میں شرک کرتے تھے وہ تلبیہ اس طرح کہتے تھے : لبیک اللھم لبیک لاشریک لک الاشریکاً ھو لک تملکه وما ملک (اے اللہ ! میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شرک بھی لئے تیرے لئے ہے تو اس کا بھی مالک ہے اور جس کا وہ مالک ہے اس کا بھی مالک ہے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : حج وعمرہ کو مکمل کرو اور ان کے ساتھ کسی اور شے کو نہ ملاؤ۔ میں کہتا ہوں : حضرت علی ؓ سے جو مروی ہے اور جو حضرت عمران بن حصین نے احرام میں ان مواقیت سے پہلے کیا جن کو رسول اللہ نے مقرر فرمایا ہے اس کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعود اور متقدمین کی ایک جماعت نے کہا ہے اور ثابت ہے کہ حضرت عمر نے ایلیاء سے احرام باندھا تھا۔ حضرات اسود، علقمہ، عبدالرحمن اور ابواسحق نے اپنے گھروں سے احرام باندھا تھا۔ امام شافعی نے اس میں رخصت دی ہے ابوداؤد، دار قطنی نے حضرت ام سلمہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بیت المقدس سے حج یا عمرہ کا احرام باندھا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوگیا جس طرح وہ اس دن تھا جس دن والدہ نے اسے جنم دیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے، فرمایا : اللہ تعالیٰ وکیع پر رحم فرمائے انہوں نے بیت المقدس سے مکہ تک احرام باندھا تھا۔ اس میں میقات سے پہلے کی اجازت ہے۔ امام مالک نے میقات سے احرام باندھنے کو مکروہ کہا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب سے بھی یہی مروی ہے۔ انہوں نے حضرت عمران بن حصین پر انکار کیا تھا حضرت عثمان نے حضرت ابن عمر پر انکار کیا تھا جبکہ انہوں نے میقات سے پہلے احرام باندھا امام احمد اور اسحاق نے کہا : عمل کی وجہ مواقیت ہیں۔ اس قول کی حجت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مواقیت کو متعین فرمایا اور ان کی تعیین فرمائی، پس یہ حج کے اجمال کے لئے بیان ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے حج کا احرام اپنے گھر سے نہیں باندھا تھا بلکہ اس میقات سے باندھا تھا جو اپنی امیت کے لئے مقرر فرمایا تھا اور جو عمل رسول اللہ ﷺ نے کیا وہی افضل ہے۔ ان شاء اللہ۔ اسی طرح جمہور صحابہ اور ان کے بعد تابعین نے کہا : پہلے مقالہ دولوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے قول کی وجہ سے پہلے باندھنا افضل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو دو چیزوں میں اختیار دیا گیا تو آپ نے آسان کو اختیار فرمایا، اور حجرت ام سلمہ کی حدیث سے حجت پکڑی ہے نیز صحابہ کرام سے جو میقات سے پہلے احرام باندھنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے حجت پکڑی ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے میقات سے حج کے احرام باندھنے کے وقت موجود تھے انہوں نے اس کی مراد مقصود کو پہچانا تھا اور انہیں علم تھا کہ میقات سے احرام باندھنا امت پر آسانی کرنے کے لئے تھا۔ مسئلہ نمبر 2: ائمہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کے لئے ذالحلیفہ کو، اہل شام کے لئے حجفہ کو، اہل نجد کے لئے قرن کو، اہل یمن کے لئے یلملم کو میقات مقرر کیا اور یہ میقات ان لوگوں کے لئے ہیں اور جو دوسرے شہروں سے ان مواقیت پر آئے جو حج اور عمری کا ارادہ کرتا ہو۔ اور اس کے علاوہ علاقوں کے لوگ جہاں سے چاہیں احرام باندھ لیں حتیٰ کہ اہل مکہ، مکہ سے احرام باندھیں۔ اہل علم کا اس حدیث کے ظاہر قول پر اور اس کے استعمال پر اجماع ہے اس میں سے کسی چیز پر اختلاف نہیں ہے اور اہل عراق کے میقات میں اختلاف ہے اور اس کے بارے میں اختلاف ہے جس نے اس کا میقات مقرر فرمایا۔ ابوداؤد، ترمذی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اہل مشرق کے لئے العقیق کو میقات مقرر کیا۔ ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن ہے۔ روایت ہے کہ حضرت عمر عراق کے لئے ذات عرق کو میقات مقرر کیا۔ ابوداؤد کی کتاب میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل عراق کے لئے ذات عرق کو میقات مقرر کیا۔ صحیح ہے۔ اور جنہوں نے روایت کیا کہ حضرت عمر نے عراق کے لئے میقات مقرر کیا۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عمر کے دور میں عراق فتح ہوا۔۔۔ یہ ان کی غفلت ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا میقات مقرر کیا جس طرح اہل شام کے لئے حجفہ کو مقرر کیا اور شام اس وقت دار کفر تھا جس طرح عراق اور دوسرے شہردار کفر تھے۔ عراق اور شام حضرت عمر کے عہد میں قتح ہوئے تھے۔ اس میں سیرت نگاروں کا کوئی اختلاف نہیں۔ ابوعمر نے کہا : ہر عراقی یا مشرقی ذات عرق سے احرام باندھے گا تمام کے نزدیک وہ اپنے میقات سے احرام باندھنے والا ہوگا اور العقیق علماء کے نزدیک ذات عرق سے احوط اور اولیٰ ہے اور ذات عرق بالا جماع عراقیوں کا میقات ہے مسئلہ نمبر 3 : اہل علم کا اجماع ہے کہ جس نے میقات پر آنے سے پہلے احرام باندھا وہ محرم ہے اور جو علماء میقات سے احرام باندھنے کو افضل قرار دیتے ہیں وہ میقات سے پہلے احرام باندھنے سے منع کرتے ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اپنے نفس پر اس چیز میں تنگی جہ کریں جو اللہ نے اس پر وسیع فرمائی ہے اور احرام میں کوئی بدعت نہ کرے۔ لیکن تمام کے نزدیک جو میقات سے پہلے احرام باندھے گا اس پر احرام لازم ہوگا کیونکہ اس نے زیادتی کی نہ کہ کمی۔ مسئلہ نمبر 4: اس آیت میں عمرہ کے وجوب پر دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اتمام کا حکم دیا ہے جس طرح حج کے تمام کا حکم دیا ہے۔ صبی بن معبد نے کہا : میں حضرت عمر کے پاس آیا۔ میں نے کہا : میں نے کہا : میں نصرانی تھا پھر میں نے اسلام قبول کیا، میں نے حج کو اپنے اوپر فرمایا : تجھے اپنے نبی کی سنت ہدایت دی گئی ہے۔ ابن منذر نے کہا : حضرت عمر نے اس کے قول (میں نے اپنے اوپر حج اور عمرہ کو فرض پایا ہے) پر انکار نہ کیا۔ حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابن عباس نے ان کے وجوب کا قول کیا ہے۔ دار قطنی نے ابن جریج سے روایت کیا ہے۔ فرمایا : مجھے نافع نے بتایا کہ حضرت عبداللہ بن ؓ فرماتے تھے اللہ کی مخلوق میں سے کوئی نہیں ہے مگر اس پر حج اور عمرہ واجب ہیں جو ان کی طرف جانے کے راستہ کی طاقت رکھتا ہے اور تابعین میں سے جو عمرہ کے وجوب کے قائل ہیں وہ یہ ہیں۔ حضرات عطا، طاؤس، مجاہد، حسن، ابن سیرین، شعبی، سعید بن جبیر، ابو بردہ، مسروق، عبداللہ بن شداد، شافعی، احمد، اسحاق، ابو عبید، ابن الجہم (مالکیوں میں سے) ثوری نے کہا : ہم نے سنا ہے کہ وہ عمرہ واجب ہے۔ زین بن ثابت سے حج سے پہلے عمرہ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : دو نمازیں ہوں تجھے کوئی نقصان نہیں جس سے تو آغاز کرلے۔ یہ وار قطنی نے ذکر کیا ہے۔ محمد بن سیرین عن زید بن ثابت کے سلسلہ سے مرفوع حدیث مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حج اور عمرہ دونوں فرض ہیں تجھے کوئی نقصان نہیں جس سے چاہے آغاز کرلے۔ امام مالک فرماتے تھے، عمرہ سنت ہے اور ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اس کو چھوڑنے کی رخصت دی ہو۔ یہ نخعی اور اصحاب رائے کا قول ہے جو ابن منذر نے حکایت کیا ہے بعض قزوینی اور بغدادی علماء نے امام ابوحنیفہ سے روایت کیا ہے کہ وہ اسے حج کی طرح واجب کہتے تھے اور یہ سنت ثابتہ ہے۔ یہ حضرت ابن مسعود اور حضرت جابر بن عبداللہ کا قول ہے۔ دارقطنی نے روایت کیا ہے، فرمایا : ہمیں محمد بن قاسم بن ذکریا نے بیان کیا فرمایا ہمیں محمد بن العلاء ابو کریب نے بیان کیا فرمایا ہمیں ہمیں عبدالرحیم بن سلیمان نے بیان کیا انہوں نے حجاج سے انہوں نے محمد بن منکدر سے انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے بیان کیا، فرمایا : ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے نماز، زکوٰۃ اور حج کے بارے میں پوچھا کیا یہ واجب ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔ پھر اس نے عمرہ کے متعلق پوچھا کیا یہ واجب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں اور تیرا عمرہ کرنا تیرے لئے بہتر ہے۔ اس حدیث کو یحییٰ بن ایوب نے حجاج اور ابن جریج سے انہوں نے ابن المنکدر سے انہوں نے حضرت جابر سے موقوف روایت کی ہے یعنی یہ حضرت جابر کا قول ہے۔ یہ ان علماء کی حجت ہے جو عمرہ کو واجب نہیں کہتے بلکہ سنت کہتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : اس آیت میں وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اتمام کے وجوب میں عمرہ کو حج کے ساتھ ملایا ہے نہ کہ آغاز کے وجوب کے اعتبار سے ملایا ہے۔ نماز اور زکوٰۃ کی ابتدا کا ذکر کیا تا فرمایا : واقیموا الصلوٰۃ واٰتوا الزکوٰۃ (البقرہ :43) اور حج کے ایجاب کا ذکر ابتدا فرمایا وللہ علی الناس حج البیت (آل عمران :97) جب عمرہ کا ذکر فرمایا تو اس کے اتمام کا مکمل کرنا واجب ہے۔ آیت کریمہ اتمام کے الزام کے لئے ہے کہ کہ ابتدا کے الزام کے لئے آئی ہے۔ واللہ اعلم۔۔۔ مخالف نے نظر ک کی جہت سے اس کے وجوب پر یہ دلیل دی ہے کہ حج کا رکن عرفات میں ٹھہرنا ہے اور عمرہ میں وقوف نہیں ہے اگر یہ حج کی سنت کی طرح ہوتا تو افعال میں اس کے مساوی کرنا واجب ہوتا، جس طرح نماز کی سنت افعال میں اس کی فرضیت کے مساوی ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر 5: شبعی اور ابوحیوہ نے العمرۃ کو تاء کے رفع کے ساتھ پڑھا ہے، یہ بھی اس کے عدم وجوب کی دلیل ہے اور جماعت نے العمرۃ کو تا کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے یہ وجوب کی دلیل ہے۔ حضرت ابن مسعود کے مصحف میں واتموا الحج و العمرۃ الی البیت للہ ہے اور ان سے اقیموا الحج والعمرۃ الی البیت بھی مروی ہے للہ کا ذکر خصوصی طور پر فرمایا کیونکہ عرب حج کا قصد اجتماعیت، تعاون، مقابلہ، تنافر، قضاء حاجت اور بازاروں میں جانے کے لئے کرتے تھے۔ ان سب میں اللہ کے لئے اطاعت نہیں ہے اور اس ارادہ کا کوئی حصہ نہیں ہے اور عقیدہ سے کوئی قربت نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فرض کی ادائیگی کے لئے قصد کرنے کا حکم دیا پھر تجارت کی بھی اجازت فرمادی جیسا کہ آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر 6: اس شخص کے بارے میں علماء کا اختلاف نہیں جو مناسک حج میں حاضر ہو جبکہ اس نے حج اور عمرہ کی نیت نہ کی ہو۔۔۔ قلم اس کے حق میں اور اس کے خلاف جاری ہے۔۔۔ اس کا بغیر نیت اور قصد کے ان مقامات پر آنا اسے کچھ مفید نہیں ہے۔۔۔ نیت کرنا فرض ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا واتموا اور عبادت کے تمام سے نیت کا حضور بھی ہے یہ احرام کے وقت احرام کی طرح فرض ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ جب سواری پر سوار ہوئے تو کہا : بحجة وعمرۃ معاً ۔ جیسا کہ آگے آئے گا۔ ربیع نے بویطی کی کتاب میں امام شافعی سے روایت کیا ہے، فرمایا : اگر کسی نے تلبیہ کہا اور حج اور عمرہ کی نیت نہیں کی تو وہ حج اور عمرہ کرنے والا نہ ہوگا اور اگر نیت کی اور تلبیہ نہ کہا حتیٰ کہ تمام مناسک پورے کردیئے تو اس کا حج مکمل ہوگیا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ کی حدیث سے حجت پکڑی ہے : انما الاعمال بالنیات۔ فرمایا : جس نے اس طرح کہا جس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا تھا جب انہوں نے نبی کریم ﷺ کے احرام پر احرام باندھا تھا تو یہ نیت درست ہے کیونکہ یہ غیر کی نیت واقع ہوا ہے جو پہلے ہوچکی ہے بخلاف نماز کے۔ مسئلہ نمبر 7: علماء کا مراہق اور غلام کے بارے میں اختلاف ہے یہ جو حج کا احرام باندھتے ہیں پھر مراہق بالغ ہوجاتا ہے۔ غلام آزاد ہوجاتا ہے اور یہ وقوف عرفہ سے پہلے ہوتا ہے۔ امام مالک نے فرمایا : ان دونوں کو احرام کھولنے کی اجازت نہیں اور نہ کسی اور کو یہ اجازت ہے۔ امام مالک نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے دلیل پکڑی ہے واتموا الحج والعمرۃ للہ اور جس نے احرام کو کھولا اس کا حج اور عمرہ مکمل نہ ہوا۔ امام ابوحنیفہ نے کہا جب بچہ وقوف عرفات سے پہلے بالغ ہوجائے تو وہ احرام کو نئے سرے سے باندھے۔ اگر اس نے حج کو جاری رکھا تو یہ فرض حج کی طرف سے جائز نہ ہوگا اور انہوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ جب اس کا حج جائز نہ تھا اور نہ اس کو فرض لازم تھا۔ جب اس نے حج کا احرام باندھا تھا پھر اس کو حج لازم ہوگیا جب وہ بالغ ہوا تو اس کے لئے اس فرض کو چھوڑنا محال ہوگیا جو اس پر متعین ہوچکا ہے، نوافل کا ادا کرنا اور فرض کو چھوڑنا محال ہے، جس طرح کوئی شخص نوافل میں داخل ہوا پھر فرضوں کی جماعت کھڑی ہوگئی اور اسے فرض کے فوت ہونے کا خوف ہو تو وہ نوافل کو توڑدے اور فرض میں داخل ہو۔ امام شافعی نے فرمایا : جب احرام باندھے پھر وقوف عرفات سے پہلے بالغ ہوجائے تو وہ اسی احرام کے ساتھ عرفات میں ٹھہرا تو اس کا یہ حج فرض ادا ہوجائے گا اور اسی طرح غلام کا حکم ہے۔ فرمایا : اگر مزدلفہ میں آزاد ہوا اور بچہ مزدلفہ میں بالغ ہوا تو وہ دونوں آزادی اور بلوغ کے بعد عرفہ کی طرف لوٹ آئیں پھر وہ طلوع فجر سے پہلے عرفہ کے وقوف کو پالیں تو ان کا فرض ادا ہوجائے گا اور ان پر بکری لازم نہ ہوگی اور اگر وہ احتیاطاً بکری وغیرہ دے دیں تو میرے نزدیک پسندیدہ ہے۔ یہ میرے نزدیک واضح نہیں ہے، اور احرام کی تجدید کو ساقط کرنے میں حضرت علی ؓ کی حدیث سے حجت پکڑی ہے کیونکہ جب انہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جب سے یمن سے حج کا احرام باندھ کر آئے تھے تم نے کیسا احرام باندھا ہے ؟ حضرت علی نے کہا : میں نے کہا : لبیک باھلال کا ھلال نبیک۔ اے اللہ ! میں نے تیرے نبی کریم ﷺ کے احرام جیسا احرام باندھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے حج کا احرام باندھا ہے اور میں ہدی (بکری یا اونٹ) ساتھ لایا ہوں۔ امام شافعی نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ان کی بات کا انکار نہ کیا اور انہیں حج مفرد یا حج قران کی نئی نیت کرنے کا حکم فرمایا۔ امام مالک نے اس نصرانی کے بارے میں فرمایا جو عرفہ کی شام کو اسلام قبول کرتا ہے پھر وہ حج کا احرام باندھتا ہے تو اس کا فرض حج ادا ہوجائے گا۔ اسی طرح غلام آزاد ہوجائے، بچہ بالغ ہوجائے جبکہ وہ احرام باندھے ہوئے نہ ہوں اور ان میں سے کسی پر بکری لازم نہ ہوگی۔۔۔ بکری اس پر لازم ہوتی ہے جو حج کا ارادہ کرے اور میقات سے احرام نہ باندھے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : غلام پر بکری لازم ہے وہ اس آزاد کی مانند ہے جو میقات سے تجاوز کر گیا۔ بخلاف بچے اور نصرانی کے ان پر دخول مکہ کے لئے احرام لازم نہ تھا کیونکہ ان پر فرض ساقط تھا جب کافر مسلمان ہوا، بچہ بالغ ہو تو ان کا حکم مکی کے حکم کی طرح ہے۔ میقات کو ترک کرنے کی وجہ سے ان پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فان احصرتم فما استیسر من الھدی۔ اس میں بارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: ابن عربی نے کہا یہ آیت انتہائی مشکل ہے اور علماء کو عاجز کردینے والی آیت ہے۔ میں کہتا ہوں : اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ہم اس کو تفصیل سے بیان کریں گے۔ ہم کہتے ہیں : احصار کا معنی اس وجہ سے روکنا ہے جس کا تو قصد کئے ہوئے ہے خواہ وہ کسی عذر سے ہو، خواہ دشمن روک لے یا ظالم بادشاہ روک لے، یا مرض روک لے یا کوئی اور وجہ ہو۔ علماء کا مانع کی تعیین میں اختلاف ہے۔ علماء کے دو قول ہیں : (1) حضرت علقمہ، حضرت عروہ بن زبیر وغیرہ نے کہا : مانع مرض ہے، دشمن نہیں ہے۔ بعض نے فرمایا : صرف دشمن ہے۔ یہ حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر، حضرت انس اور امام شافعی کا قول ہے، ابن عربی نے کہا : یہ ہمارے علماء کا مختار مذہب ہے۔ اکثر اہل لغت کی رائے یہ ہے کہ احصرکا معنی ہے : اس کو مرض لاحق ہوئی اور حصر کا مطلب ہے : اس پر دشمن نازل ہوا۔ میں کہتا ہوں : ابن عربی نے جو حکایت کیا ہے کہ یہ ہمارے علماء کا مختار مذہب ہے، یہ صرف اشہب کا قول ہے باقی تمام اصحاب مالک نے اس میں مخالفت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں : احصار سے مراد مرض کا روک لینا ہے اور رہا دشمن اس کے بارے میں کہا جاتا ہے : حصر حصر اً فھو محصور۔ یہ الباجی کا المنتقی میں قول ابواسحاق۔ زجاج نے حکایت کیا ہے کہ تمام اہل لغت کے نزدیک ہے۔ جیسا کہ آگے آئے گا۔ ابوعبیدہ اور کسائی نے کہا : احصر (مرض کے ساتھ روکا گیا) حصر (دشمن کے ذریعے روکا گیا ابن فارس کی مجمل میں اس کے برعکس ہے۔ فحصر (مرض کے ساتھ روکا گیا) احصر (دشمن کے ذریعے روکا گیا) ایک طائفہ نے کہا : دونوں کے لئے احصر استعمال ہوتا ہے یہ ابوعمرو نے حکایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ امام مالک کے قول کے مشابہ ہے کہ انہوں نے مؤطا میں دونوں کے لئے احصر کا عنوان باندھا ہے۔ فراء نے کہا : مرض اور دشمن میں دونوں صیغے برابر ہیں۔ قشیری ابونصر نے کہا : شوافع نے دعویٰ کیا ہے کہ احصار دشمن کے لئے استعمال ہوتا ہے : مرض اور دشمن میں دونوں صیغے برابر ہیں۔ قشیری ابو نصر نے کہا : شوافع نے دعویٰ کیا ہے کہ احصار دشمن کے لئے استعمال ہوتا ہے اور مرض کے لئے حصر استعمال ہوتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ دونوں صیغے دونوں (مرض اور دشمن) کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ میں کہتا ہوں : شوافع نے جو دعویٰ کیا ہے امام خلیل بن احمد وغیرہ نے اس کے خلاف نص قائم کی ہے۔ خلیل نے کہا : حصرت الرجل حصراً (میں نے اسے روک لیا) واحصر الحاج عن بلوغ المناسک من مرض اونحوہ (حاجی مرض یا اس جیسی چیز سے مناسک تک پہنچے سے روک دیا گیا) ۔ اسی طرح انہوں نے فرمایا : پہلے تو ثلاثی بنایا حصرت سے مشتق کیا اور دوسرے کو مرض میں رباعی بنایا۔ اسی پر حضرت ابن عباس کا قول ہے : لاحصر الاحصر العدو۔ حصر نہیں ہے مگر دشمن کا حصر۔ ابن السکیت نے کہا : احصرہ المرض جب مرض سفر سے یاحاجت سے روک دے جس کا اس نے ارادہ کیا تھا۔ حصرہ العدویحصرونہ، جب دشمن اسے روک لے اور وہ دشمن کا گھیراؤ کرلیں۔ حاصروہ محاصرۃً وحماراً ۔ انہوں نے اس کا گھیراؤ کرلیا۔ اخفش نے کہا : حصرت الرجل فھو محصور۔ یعنی میں نے اسے روک لیا۔ فرمایا : احصرنی بولی وأحصر کی مرضی اس نے مجھے اپنے نفس کو روکنے والا بنادیا۔ ابو عمرو شیبانی نے کہا : حصرنی الشیء والحصرنی۔ یعنی اس نے مجھے روک لیا۔ میں کہتا ہوں ؛ اکثر اہل لغت کا خیال ہے کہ حصر دشمن کے روکنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور احصر مرض کے روکنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے : للفقرآء الذین احصیروا فی سبیل اللہ (البقرہ :273) (فقراء کے لئے جو رد کئے گئے ہیں اللہ کے راستہ میں ) ۔ ابن عبادہ نے کہا : و ما ھجو لیلی ان تکون تباعدت علیک ولا ان احصرتک شغول لیلیٰ کی جدائی نہیں کہ وہ تجھ سے دور ہوگئی نہ تجھے مشغولیت نے روکا۔ زجاج نے کہا : تمام اہل لغت کے نزدیک احصار مرض سے ہوتا ہے۔ رہا دشمن سے احصار تو اس کے لئے حصر استعمال ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے : حصر حصراً ۔ پہلے میں احصر احصاراً کہا جاتا ہے۔ یہ ہمارے قول کی دلیل ہے اس کا معنی روکنا ہے۔ اس سے الحصیرہ ہے وہ شخص جو دل کے راز بتانے سے اپنے نفس کو روکتا ہے۔ الحصیر بادشاہ کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ حجاب کے پیچھے محبوس (قیدی) کی طرح ہوتا ہے۔ الحصیر چٹائی کو بھی کہتے ہیں جس پر بیٹھا جاتا ہے کیونکہ اس کے پتے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوتے ہیں جیسے کوئی چیز دوسری چیز کے ساتھ رکی ہوئی ہے۔ مسئلہ نمبر 2: جب الحصر کا اصل معنی روکنا ہے تو احناف نے کہا : محصر وہ ہے جو احرام کے بعد مرض یا دشمن یا کسی وجہ سے مکہ سے روکا گیا ہو اور انہوں نے مطلق احصار کے مقتضا سے حجت پکڑی ہے اور انہوں نے فرمایا : آخر آیت میں امن کا ذکر اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ مرض کی وجہ سے نہ ہو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : الزکام امان من الجذام کام جزام کی مرض سے امان ہے اور فرمایا : جس نے چھینک مارنے والے سے پہلے الحمد کہا وہ دوانتوں کی تکلیف، کان کی تکلیف اور پیٹ کی تکلیف سے محفوظ ہوگیا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے۔ احناف نے کہا : ہم نے دشمن کے روکنے کو مرض پر قیاس کرتے ہوئے حصار بنایا جب وہ اس حکم میں ہے نہ کہ ظاہر کی دلالت کے اعتبار سے حصار بنایا ہے۔ حضرت ابن عمر، حضرت زبیر، حضرت ابن عباس، امام شافعی اور اہل مدینہ نے کہا : آیت سے مراد دشمن کا روکنا ہے کیونکہ آیت عمرہ حدیبیہ میں 6 ہجری میں نازل ہوئی جب مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے روکا تھا۔ حضرت ابن عمر نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو کفار فریش بیت اللہ اور آپ کے درمیان حائل ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی ہدی کو نحر کیا اور اپنے سر کا حلق کرایا۔ اس پر فاذآامنتم کا ارشاد دلالت کرتا ہے۔ یہ نہیں فرمایا : جب تم مرض سے ٹھیک ہوجاؤ۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 3: جمہور علماء کا خیال ہے کہ محصر جسے دشمن نے روک لیا ہو وہ جہاں روکا ہو وہاں اپنا احرام کھول دے، اپنی ہدی کو نحر دے اگر اس کے پاس ہدی ہو اور اپنے سر کا حلق کرائے۔ قتادہ اور ابراہیم نے کہا : وہ اپنی ہدی بھیجے اگر ممکن ہو جب اس کی ہدی اپنے مقام پر پہنچ جائے تو وہ حلالی ہوجائے (یعنی احرام کھول دے) امام ابوحنیفہ نے کہا : احصار کا جانور، دسویں ذی الحجہ کو ذبح کرنے پر موقوف نہیں بلکہ دسویں کے دن سے پہلے بھی اس کو ذبح کرنا جائز ہے جب ہدی اپنے محل کو پہنچ جائے۔ صاحبین نے امام صاحب کی مخالفت کی ہے۔ صاحبین نے کہا : یہ دسویں کے دن ذبح کیا جائے گا، اگر دسویں کے دن سے پہلے ذبح کی تو جائز نہ ہوگی۔ اس مسئلہ کا زیادہ بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر 4: اکثر علماء کا نظریہ یہ ہے کہ دشمن کی وجہ سے روکا گیا ہو خواہ وہ دشمن کافر ہو یا مسلمان ہو یا جابر سلطان نے اسے قید خانہ میں بند کردیا ہو اس پر ہدی واجب ہے۔ یہی امام شافعی کا قول ہے۔ اشہب کا بھی یہی قول ہے۔ ابن قاسم نے کہا : جو حج یا عمرہ میں بیت اللہ سے روکا گیا ہو اس پر ہدی نہیں ہے مگر یہ کہ ساتھ لایا ہو۔ یہ امام مالک کا قول ہے اور ان کی حجت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حدیبیہ کے روز ہدی کو نحر کیا تھا، اسے اشعار کیا تھا اور اسے ہار پہنایا تھا جب عمرہ کا احرام باندھنا تھا۔ جب وہ ہدی اپنے مقام پر نہ پہنچی کفار کے روکنے کی وجہ سے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے نحر کرنے کا حکم دیا کیونکہ وہ ہدی تھی اور اس کو قلاوہ پہنانا اور اشعار کرنا واجب تھا اور آپ ﷺ اللہ کے لئے نکلے تھے۔ پس اس میں رجوع جائز نہ تھا اور رسول اللہ ﷺ نے رکاوٹ کی وجہ سے اسے نحر نہیں کیا تھا۔ اسی وجہ سے جو بیت اللہ سے روکا گیا ہو اس پر ہدی واجب نہیں ہے۔ اور جمہور علماء نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے روزنہ احرام کھولا تھا اور نہ حلق کرایا تھا حتیٰ کہ ہدی کو نحر کردیا۔ یہ دلیل ہے کہ محصر کے احرام کھولنے کی شرط ہدی پائے اور اس پر قادر ہو وہ احرام نہ کھولے مگر ہدی دینے کے بعد۔ یہی ارشاد فان احصرتم فما استیسر من الھدی کا مقتضا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : جب وہ ہدی پر قارد ہو تو حلالی ہوجائے اور ہدی دے۔ امام شافعی کے دو قول ہیں اسی طرح جو ہدی خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا اس کا حکم ہے۔ مسئلہ نمبر 5: عطا وغیرہ نے کہا : مرض کی وجہ سے محصر، دشمن کی وجہ سے محصر کی طرح ہے۔ امام مالک اور شافعی اور ان کے اصحاب نے کہا : جس کو مرض نے روک لیا ہو اس کو بیت اللہ کا طواف ہی حلالی کرے گا اگرچہ وہ کئی سال ہی ٹھہرا رہے حتیٰ کہ اسے تکلیف سے افاقہ ہوجائے۔ اسی طرح جس کو گنتی میں غلطی ہوئی یا اس پر ذی الحج کا چاند مخفی ہوا، اس کا حکم ہے۔ امام مالک نے فرمایا : اس میں اہل مکہ اہل آفاق کی طرح ہیں۔ فرمایا : اگر مریض دواء کا محتاج ہو تو وہ اس کے ساتھ علاج کرے اور فدیہ دے اور اپنے احرام پر باقی رہے اور اسے کسی چیز سے حلالی ہونا جائز نہیں حتیٰ کہ مرض سے ٹھیک ہوجائے۔ جب مرض سے ٹھیک ہوجائے تو وہ بیت اللہ کی طرف جائے اس کے سات چکر لگائے، صفا ومروہ کے درمیان سعی کرے اور اپنے حج اور عمرہ سے حلالی ہوجائے۔ یہ تمام امام شافعی کا قول ہے اور ان کا قول ہے اور ان کا نظریہ روایت کے مطابق ہے جو حضرت عمر، حضرت ابن عباس، حضرت عائشہ، حضرت ابن الزبیر ؓ کا ہے۔ انہوں نے کہا : مرض کی وجہ سے محصر یا گنتی میں غلطی کی وجہ سے محصر کے بارے میں فرمایا : اس کو طواف ہی حلال کرے گا۔ اسی طرح کوئی عضو ٹوٹ جائے یا جلاب لگ جائیں۔ اس کا بھی یہی حکم ہے امام مالک کے نزدیک جس کی یہ حالت ہوا سے اختیار ہوگا جس اسے اختیار ہوگا جب اسے وقوف عرفہ کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو مرض کی وجہ سے تو اگر وہ چاہے تو چلا جائے جب اس کے لئے بیت اللہ تک پہنچنا ممکن ہو تو وہ طواف کرے اور عمرہ سے حلالی ہوجائے۔ اور اگر چاہئے تو آئندہ سال تک احرام پر باقی رہے اگر وہ حرام پر باقی رہے گا تو کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جو حاجی کو منع ہوتا ہے۔ پس اس پر ہدی نہ ہوگی اور اس میں حجت صحابہ کا اجماع ہے کہ جو تعداد میں غلطی کرجائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ وہ طواف سے ہی حلالی ہوگا اور مکی کے بارے میں فرمایا : جب وہ محصور باقی رہے حتیٰ کہ لوگ اپنے حج سے فارغ ہوجائیں تو وہ حل کی طرف نکل جائے، تلبیہ کہے اور وہی کرے جو عمرہ کرنے والا کرتا ہے اور حلالی ہوجائے جب آئندہ سال آئے تو حج کرے اور ہدی دے۔ ابن شہاب زہری نے کہا : مکہ والوں میں سے مکہ میں محصر ہو تو اسے وقوف عرفہ لازم ہے اگرچہ اسے چار پائی پر اٹھا کرلے جایا جائے۔ اس قول کو ابوبکر محمد بن عبد اللہ بن بکیر مالکی نے اختیار کیا ہے۔ فرمایا : محصر مکی کے بارے میں امام مالک کا قول یہ ہے کہ اس پر بھی آفاقیوں کی طرح حج اور ہدی کا اعادہ ہے۔ یہ ظاہر کتاب کے خلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذٰلک لمن لم یکن اھله حاضری المسجد الحرام۔ اور فرمایا : میرے نزدیک اس مسئلہ میں زہری کا قول پسندیدہ ہے۔ یہ اباحت ان لوگوں کے لئے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہیں ہیں وہ ٹھہر جائیں کیونکہ ان کی مسافت دور ہے وہ علاج کرائیں اگرچہ فوت بھی ہوجائے اور ایسا شخص جس کے درمیان اور مسجد حرام کے درمیان اتنی مسافت ہو جس میں نماز قصر نہیں کی جاتی تو وہ مناسک حج پر جائے اگرچہ اسے چار پائی پر ہی لے جایا جائے کیونکہ وہ بیت اللہ کے قریب ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا : ہر وہ شخص جو دشمن، مرض، خرچ ختم ہونے، سواری گم ہونے یا کسی موذی چیز کے ڈسنے کی وجہ سے بیت اللہ تک پہنچنے سے روکا گیا ہو تو وہ احرام کے ساتھ اپنے مکان پر ٹھہرا رہے اور اپنی ہدی بھیج دے یا ہدی کی قیمت بھیج دے، جب وہ نحر کردے تو اپنے احرام کو کھول دے۔ اسی طرح حضرات عروہ، قتادہ، حسن، عطا، نخعی، مجاہد اور اہل عراق کا قول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فان احصرتم فما استیسر من الھدی۔ (الآیۃ) مسئلہ نمبر 6: امام مالک اور ان کے اصحاب نے کہا : محرم کو حج میں شرط لگانا کچھ نفع نہیں دیتا جب اسے مرض یا دشمن سے محصر ہونے کا اندیشہ ہو۔ یہ امام ثوری، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے۔ شرط لگانا یہ ہے کہ تلبیہ کہتے وقت لبیک اللھم لبیک۔ جہاں تو مجھے روک لے گا میں اپنا احرام وہاں کھول دوں گا۔ امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہو یہ اور ابو ثور نے کہا شرط لگانے میں کوئی حرج نہیں اور اس کے لئے وہ شرط ہوگی جو وہ لگائے گا۔ دوسرے بہت سے صحابہ اور تابعین نے بھی یہی کہا ہے ان کی حجت ضباعه بنت زبیر عن عبدالمطلب کی حدیث ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا : یارسول اللہ ! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں کیا میں شرط لگا دوں ؟ فرمایا : فرمایا : ہاں۔ اس نے کہا : میں کیسے کہوں ؟ فرمایا : تو یوں کہہ : لبیک اللھم لبیک ومحلی من الاض حیث حبستنی (جہاں تو مجھے روک لے گا میں احرام کھول دوں گی) اس حدیث کو ابوداؤد اور دار قطنی وغیرہما نے نقل کیا ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : اگر ضباعہ کی حدیث ثابت ہوتی تو میں اس سے زیادتی نہ کرتا اس کا احرام کھولنا جائز ہے جہاں اسے اللہ تعالیٰ روک لے۔ میں کہتا ہوں : بہت سے محدثین نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ان میں سے ابو حاتم بستی اور ابن منذر ہے۔ ابن منذر نے کہا : یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ضباعہ بنت زبیر سے کہا : تو حج کر اور شرط لگالے۔ یہی امام شافعی کا قول ہے جب وہ عراق میں تھے پھر مصر میں اسے توقف کیا۔ ابن منذر نے کہا : پہلا قول بہتر ہے۔ عبدالرزاق نے اس کو ذکر کیا ہے۔ فرمایا : ہمیں ابن جریج نے بتایا فرمایا مجھے ابوزبیر نے بتایا کہ طاؤس اور عکرمہ نے انہیں حضرت ابن عباس سے روایت کرکے بتایا کہ حضرت ضباعہ بنت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا : میں ایک مریض عورت ہوں، میں حج کرنا چاہتی ہوں آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں اگر میں احرام باندھ لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو احرام باندھ لے اور شرط لگالے کہ میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہوگی جہاں تو مجھے روک لے گا۔ راوی فرماتے ہیں : اس عورت نے حج کرلیا تھا۔ یہ سند صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر 7: علماء کا اختلاف ہے کہ محصر پر قضا واجب ہے یا نہیں۔ امام مالک اور امام شافعی نے فرمایا : دشمن نے جسے روک لیا ہو اس پر نہ حج کی قضا ہے نہ عمرہ کی، مگر جس نے اپنا فرض حج نہ کیا ہو تو اس پر وجوب کے مطابق حج ہے۔ اسی طرح ان علماء کے نزدیک عمرہ کرنا واجب ہے جنہوں نے عمرہ کو واجب کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا مرض یا دشمن نے روک لیا ہو تو اس پر حج اور عمرہ ہے۔ یہ طبری کا قول ہے۔ اصحاب الرائے نے کہا : اگر وہ حج کا احرام باندھنے والا تھا تو وہ احصار کی صورت میں حج اور عمرہ قضا کرے گا کیونکہ اس کا حج اور احرام عمرہ بن گیا تھا۔ اگر وہ حج قرآن کرنے والا تھا تو وہ ایک حج اور دو عمرے قضا کرے گا اگر وہ عمرہ کا احرام باندھنے والا تھا وہ ایک عمرہ قضا کرے گا ان کے نزدیک ہر مرض یا دشمن کے ذریعے درکا گیا برابر ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ میمون بن مہران کی حدیث سے انہوں نے حجت پکڑی ہے۔ فرمایا : میں اس سال عمرہ کے ارادہ سے نکلا جس میں اہل شام نے حضرت ابن زبیر کا مکہ محاصرہ کیا ہوا تھا۔ میری قوم کے کئی لوگوں نے میرے ساتھ اپنی ہدی کے جانور بھیجے، میں اہل شام تک پہنچا تو انہوں نے مجھے حرم میں داخل ہونے سے روک لیا۔ میں نے اسی جگہ ہدی کو نحر کیا پھر میں نے احرام کھول دیا اور واپس آگیا۔ جب آئندہ سال آیا تو میں اپنے عمرہ کی قضا کے لئے نکلا۔ میں حضرت ابن عباس کے پاس آیا۔ میں نے ان سے مسئلہ پوچھا تو انہوں فرمایا یا ہدی کا بدل دے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو اس ہدی کا بدل دینے کو کہا جو انہوں نے عمرہ قضا میں حدیبیہ کے سال نحر کی تھیں اور ان علماء نے نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کیا جس کا کوئی عضو ٹوٹ گیا یا ٹانگ ٹوٹ گئی تو وہ احرام کھول دے اور اس پر دوسرا حج یا دوسرا عمرہ ہے۔ اس حدیث کو عکرمہ نے حجاج بن عمرو انصاری سے روایت کیا ہے۔ فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کی ٹانگ ٹوٹ جائے یا کوئی اور عضو ٹوٹ جائے تو وہ احرام کھول دے اور اس پر دوسرا حج ہے۔ ان علماء نے فرمایا : آئندہ سال رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کا حدیبیہ کے سال عمرہ کرنا اس عمرہ کی قضا کے لئے تھا۔ اسی وجہ سے اس عمرہ کو عمرۃ القضاء کہا جاتا ہے۔ امام مالک (رح) نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی صحابی کو اور کسی ساتھی کو کسی چیز کے قضا کرنے کا حکم دیا اور نہ وہ کوئی چیز لئے لوٹے اور کسی وجہ سے ان سے کوئی چیز محفوظ نہیں کی گئی اور نہ آئندہ سال یہ کہا کہ میرا ہی عمرہ اس عمرہ کی قضا ہے جس میں مجھے روکا گیا تھا۔ یہ کوئی آپ ﷺ سے منقول نہیں ہے۔ علماء نے فرمایا : عمرۃ القضناء اور عمرۃ القضیۃ برابر ہیں۔ یہ اس عمرہ کا نام ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قریش سے فیصلہ کیا تھا اور اس سال بیت اللہ سے واپس چلے جانے اور آئندہ سال آنے پر ان سے صلح کی تھی اسی وجہ سے اس کو عمرۃ القضیۃ کہا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 8: فقہاء میں سے کسی نے اس شخص کے بارے میں نہیں کہا کہ جس کا کوئی عضو ٹوٹ جائے یالنگڑا ہوجائے تو ٹوٹنے کے ساتھ ہی اس جگہ اپنا احرام کھول دے سوائے ابوثور کے۔ انہوں نے حجاج بن عمرو کی حدیث کے ظاہر کا اعتبار کیا ہے اور اس کی متابعت داؤد بن علی اور اس کے اصحاب نے کی ہے۔ علماء کا اجماع ہے کہ وہ عضو ٹوٹنے کے ساتھ احرام کھولے گا لیکن کیسے کھولے گا۔ امام مالک وغیرہ نے کہا : بیت اللہ کے طواف کے ساتھ کھولے گا اس کے علاوہ نہیں کھولے گا اور کوفہ کے علماء نے اس کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا : وہ نیت اور اس فعل کے ساتھ کھولے گا جو اسے حلالی کردیتا ہے جیسا کہ پہلے گزرا ہے۔ مسئلہ نمبر 9: علماء کے درمیان اس میں اختلاف نہیں کہ احصار (روکنا) حج اور عمرہ میں عام ہے۔ ابن سیرین نے کہا : عمرہ میں احصار نہیں ہے کیونکہ اس کا وقت متعین نہیں ہے۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگرچہ یہ متعین وقت میں نہیں ہے لیکن عذر کے ختم ہونے تک صبر کرنا ضرر (نقصان) ہے۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ حضرت ابن زبیر سے حکایت ہے کہ جس کو دشمن یا مرض نے روک لیا ہو تو اس کا طواف کے بغیر احرام کھولنا جائز نہیں اور یہ حدیبیہ کے سال والی خبر جو نص ہے اس کے مخالف ہے۔ مسئلہ نمبر 10: رکاوٹ یا تو کافر کی طرف سے ہوگی یا مسلمان کی طرف سے ہوگی۔ اگر کافر کی طرف سے ہو تو قتال جائز نہیں اگرچہ اس پر غالب آنے کا وثوق بھی ہوا اور وہ وہاں حلالی ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تقٰتلو ھم عند المسجد الحرام (البقرہ :191) جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے اور اگر وان کا سوال کرے تو دینا واجب جائز نہیں کیونکہ یہ اسلام میں کمزوری ہے اگر مسلمان نے روکا ہو تو اس سے بھی کسی حال میں قتال جائز نہیں اور احرام کھول دینا واجب ہے اگر وہ کوئی چیز طلب کرے اور راستے چھوڑ دے تو اس کو وہ چیز دینا جائز ہے اور قتال جائز نہیں کیونکہ اس میں روح کا اتلاف ہے اور عیادت کی ادائیگی میں یہ لازم نہیں کیونکہ دین آسان ہے اور رہا اس کو تاوان دینا تو اس میں دو نقصانوں میں سے آسان کا قبول کرنا ہے کیونکہ حج میں مال کو خرچ کیا جاتا ہے پس یہ اس کے خرچ میں سے شمار ہوگا۔ مسئلہ نمبر 11: روکنے والے دشمن کی دو صورتیں ہیں یا تو اس کے احصار کے بقا اور ہمیشہ ہونے کا یقین ہوگا کیونکہ اس کو قوت اور کثرت حاصل ہے یا ایسا نہیں ہوگا۔ اگر پہلی صورت ہو تو محصر اسی وقت کی جگہ احرام کھول دے اور اگر دوسری صورت ہو اور اس احصار کے زوال کی امید ہو تو وہ محصور نہ ہوگا حتیٰ کہ اس کے اور حج کے درمیان اتنا وقت پایا جائے کہ اسے معلوم ہوجائے کہ اب دشمن چلا بھی گیا تو وہ حج کو نہیں پاسکے گا۔ اس وقت ابن قاسم اور ابن ماجشون کے نزدیک وہ احرام کھول دے۔ اشہب نے کہا : دشمن کی وجہ سے حج سے روکا جانے والا شخص احرام نہ کھولے حتیٰ کہ دسویں کا دن آجائے اور تلبیہ کو ختم نہ کرے حتیٰ کہ لوگ عرفہ کی طرف چلے جائیں۔ ابن قاسم کے قول کی وجہ یہ ہے کہ یہ دشمن کے غلبہ کی وجہ سے اس کے حج کی تکمیل سے مایوسی کا وقت ہے۔ پس اس وقت اس کا احرام کھولنا جائز ہے۔ اس کی اصل عرفہ کا دن ہے اور اشہب کے قول کی وجہ یہ ہے کہ اس پر ممکن حد تک احرام کے حکم میں رہنا ہے اور اس کا دسویں کے دن تک التزام کرنا ہے اور حاجی کے لئے یہی وہ وقت ہے جس میں احرام کھولنا جائز ہے۔ پس اس پر دسویں کے دن احرام کھولنا جائز ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فما استیسرمن الھدی، ما محل رفع میں ہے تقدیر عبارت اس طرح ہوگی : فالواجب او فعلیکم ما استیسر۔ اور محل نصب میں ہونے کا بھی احتمال ہے یعنی فانحروا او فاھدوا، ما استیسر سے مراد جمہور اہل علم کے نزدیک بکری ہے۔ حضرت ابن عمر، حضرت عائشہ، حضرت ابن زبیر نے فرمایا : وہ اونٹ اور گائے ہے اس کے علاوہ نہیں۔ حسن نے کہا : اعلیٰ ہدی اونٹ ہے، درمیانی گائے ہے اور کم از کم بکری ہے۔ اس میں امام مالک کے نظریہ کی دلیل ہے : جس کو دشمن نے روکا ہو اس پر قضا واجب نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فما استیسر من الھدی۔ اس میں قضا کا ذکر نہیں۔ مسئلہ نمبر 12: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من الھدی، الھدی اور الھدی دونوں لغتیں ہیں جو بیت اللہ کی طرف بھیجا جاتا ہے خواہ اونٹ ہو یا جانور، عرب کہتے ہیں : کم ھدی بنی فلاں، بنو فلاں کے کتنے اونٹ ہیں۔ ابوبکر نے کہا : اس کو ہدی اس لئے کہا گیا ہے کہ کیونکہ ان میں بعض بیت اللہ کی طرف بھیجی جاتی ہیں۔ پس جو حکم بعض کو لاحق ہوتا ہے اس کے ساتھ تمام کا نام رکھ دیا جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فان اتین بفاحشةٍ فعلیھن نصف ما علی المحصیٰت من العذاب (النساء :25) اس سے مراد یہ ہے کہ لونڈی زنا کریں تو ان میں سے لونڈی پر جب وہ زنا کرے تو آزاد کنواری عورت کی سزا کا نصف ہے جب آزاد کنواری عورت زنا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے المحصنات کا لفظ ذکر فرمایا۔ مراد کنوری عورتیں ہیں کیونکہ احصان ان میں سے اکثر میں ہوتا ہے۔ پس انہیں ایسے امر کے ساتھ ذکر کیا گیا جوان میں سے بعض میں پایا جاتا ہے آزاد عورتوں میں سے محصنتہ اسے کہا جاتا ہے جو خاوندوالی ہو اس پر رحم واجب ہوتا ہے جب وہ بدکاری کرے اور رجم نصف نہیں ہوتا کہ وہ لونڈی پر نصف ہو۔ پس اس سے ظاہر ہوا کہ المحصنٰات سے مراد یہاں کنواری عورتیں ہیں نہ کہ خاوند والیاں۔ فراء نے کہا : اہل حجاز اور اسد ہدی کو تخفیف کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ فرمایا : تمیم اور سفلی قیس شد کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ شاعر نے کہا : حلف برب مکة والمصلی و اعناق الھدی مقلدات میں نے مکہ، مصلی اور ہار پہنائی ہدیوں کے گردنوں کے مالک کی قسم اٹھائی۔ فرمایا : الھدی کا واحد ھدیه اور الھدی کی جمع میں اھداء بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تحلقوارء وسکم حتیٰ یبلغ الھدی محله۔ اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تحلقوارء وسکم حتیٰ یبلغ الھدی محله یہ خطاب تمام امت کو ہے خواہ محصر ہو یا محصر نہ ہو۔ علماء میں بعض یہ محصرین کے لئے خاص کرتے ہیں یعنی احرام نہ کھولیں حتیٰ کہ ہدی کو نحر کردیا جائے۔ محل وہ جگہ ہے جس میں ذبح حلال ہوتی ہے۔ امام ملاک اور امام شافعی کے نزدیک دشمن کی وجہ سے روکے گئے شخص کے لئے محل احصاع کی جگہ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا اس میں ہے کہ حدیبیہ کے زمانہ میں آپ جہاں محصور ہوئے وہاں ہی احرام کھول دیا اور ہدی کو نحر کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والھدی معکوفًا ان یبلغ محله (الفتح : 25) بعض علماء نے معکوفاً کا معنی محبوساً فرمایا جب بیت اللہ تک پہنچنے سے روکی گئی ہو۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک احصار میں ہدی کا محل حرم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم محلھا الی البیت العتیق۔ (الحج) اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس کا مخاطب وہ امن والا شخص ہے جو بیت اللہ تک پہنچ پاتا ہے۔ رہا (روکا گیا) وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے خارج ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ نے حدیبیہ میں اپنی ہدی نحر کی تھیں اور حدیبیہ سے نہیں ہے اور دوسری دلیل احناف کی حضرت ناجیہ بن جندب کی حدیث ہے، اس نے نبی کریم ﷺ سے کہا : حضور ! آپ میرے ساتھ ہدی بھیجیں میں اسے حرم میں نحر کروں گا۔ آپ ﷺ نے اسے فرمایا : تو اسے کیسے لے جائے ط گا ؟ اس نے کہا : میں اسے وادیوں سے لے جاؤں گا مشرک اس پر قادر نہیں ہوں گے میں اسے لے جاؤں گا حتیٰ کہ میں اسے حرم میں نحر کروں گا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے جہاں احرام کھولے وہاں ہی نحر کردے، نبی کریم ﷺ کے حدیبیہ کے مقام پر فعل کی اقتدا کرتے ہوئے۔ یہ صحیح ہے اس کو ائمۃ نے روایت کیا ہے، نیز ہدی، مہدی (بھیجنے والے) کے تابع ہے۔ جب بھیجنے والا اپنے احصار کی جگہ احرام کھول دے گا تو ہدی بھی اس کے ساتھ نحر کردی جائے گئ۔ مسئلہ نمبر 2: محصر (روکا گیا) کے بارے میں ہم نے جو ثابت کیا ہے اس میں اختلاف کیا ہے اس میں اختلاف ہے کہ کیا اس کو حلق کرانا جائز ہے یا مقام حل جیسا کوئی عمل کرنا جائز ہے اس سے پہلے کہ اس نے میسر (ہدی) ذبح نہ کی ہو کی ہو۔ امام مالک نے فرمایا : سنت ثابتہ جس میں ہمارے نزدیک کوئی اختلاف نہیں وہ یہ ہے کہ کسی کے لئے اپنے بال کا ٹنا جائز نہیں حتیٰ کہ اپنی ہدی کو نحر کردے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولا تحلقواروسکم حتیٰ یبلغ الھدی محله امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا : جب محصر، ہدی نحر کرنے سے پہلے احرام کھول دے گا مگر اس پر بکری ہوگی اور وہ احرام میں ہوگا جیسا پہلے تھا حتیٰ کہ ہدی کو نحر کردے۔ اور اگر اس نے شکار کیا ہدی نحر کرنے سے پہلے تو اس پر جزا ہوگی۔ اس میں امیر اور غریب برابر ہیں۔ وہ کبھی احرام نہیں کھولے گا حتیٰ کہ وہ ہدی کو ذبح کردے یا اس کی طرف سے ذبح کردیا جائے۔ علماء احناف نے فرمایا : کم از کم ہدی بکری ہے جو نہ اندھی ہو، نہ اس کے کان کاٹے ہوئے ہوں اور ان کے نزدیک کا یہ مقام نہیں ہے۔ ابو عمر نے کہا : کو فیوں کے قول میں ضعف اور تناقض ہے کیونکہ وہ دشمن سے روکے گئے شخص کے لئے اور مرض سے روکے گئے شخص کے لئے احرام کھولنا جائز قرار نہیں دیتے حتیٰ کہ حرم میں اس کی ہدی نحر کردی جائے۔ اور جب وہ مرض کی وجہ سے محصر کے لئے جائز قرار دیتے ہیں کہ وہ ہدی کا بھیجنے والا اور جس کے ساتھ ہدی بھیجی گئی ہے اس سے متعین دن کا وعدہ لے جس میں وہ اس کی نحر کرے گا۔ پس اس دن کے بعد وہ احرام کھول دے اور حلق کرادے۔ پس انہوں نے اس کے لئے احرام کھولنے پر اس کو محمول کیا جبکہ علماء کا اتفاق ہے کہ جس پر فرائض لازم ہوں اس کے لئے ان سے گمان کے ساتھ نکلنا جائز نہیں اور اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کے قول کا گمان ہے کہ اگر وہ ہدی ہلاک ہوجائے یا گم ہوجائے یا چوری ہوجائے ادھر اس کا بھیجنے والا احرام کھول چکا ہے۔ اپنی ازواج سے حقوق زوجیت ادا کرچکا ہے یا شکار کرچکا ہے تو وہ احرام نہ کھولنے والے شخص پر لازم ہوتا ہے۔ اس میں تناقض اور مذاہب کا ضعف ہے اس میں کوئی خفا نہیں۔ احناف نے اپنے مذہب کی بنیاد حضرت ابن مسعود کے قول پر رکھی اور انہوں نے اس کے خلاف میں نظر نہیں کی۔ امام شافعی نے فرمایا : جب محصر ہدی سے عاجز ہو تو اس میں دو قول ہیں۔ وہ کبھی احرام نہیں کھولے گا مگر ہدی دینے کے ساتھ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اسے حکم دیا گیا ہے کہ جس پر وہ قادر ہے ادا کرے۔ اگر وہ کسی چیز پر قادر نہیں تو ہدی دینے کے ساتھ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اسے حکم دیا گیا ہے کہ جس پر وہ قادر ہے وہ ادا کرے۔ اگر وہ کسی چیز پر قادر نہیں تو جب وہ قادر ہو ادا کرے۔ امام شافعی نے فرمایا : جس نے یہ کہا ہے اس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنی جگہ احرام کھول دے اور جب قادر ہو ہدی ذبح کرے۔ اگر وہ مکہ میں ذبح پر قادر ہو تو اس کے لئے مکہ میں ہی ذبح کرنا ضروری ہے اگر مکہ میں ذبح کرنے پر قادر نہ ہو تو جہاں قادر ہو ذبح کردے اور فرمایا : کہا جاتا ہے اس میں جائز نہیں مگر ہدی اور کہا جاتا ہے : جب ہدی نہ پائے تو اس پر کھانا کھلانا یا روزے ہوں گے۔ اگر وہ ان تینوں میں سے کوئی بھی نہ پائے تو ان میں سے ایک ادا کرے جب قادر ہو۔ غلام کے بارے میں فرمایا : اس کے لئے صرف روزہ جائز ہے پہلے اس کے لئے بکری کی قیمت دراہم میں لگائی جائے گی پھر دراہم کا کھانا بنایا جائے گا پھر کھانے کے ہر مد کے بدلے میں ایک دن روزہ دکھے گا۔ مسئلہ نمبر 3: اس میں اختلاف ہے جب محصر اپنی ہدی کو نحر کرے کیا اس کے لئے حلق کرانا ضروری ہے یا نہیں ؟ ایک گروہ نے کہا : اس پر سر کا حلق کرانا واجب نہیں کیونکہ اس سے عبادت ختم ہوچکی ہے اور انہوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ جب احصار کی وجہ سے باقی تمام مناسک ساقط ہوچکے ہیں مثلاً طواف، سعی وغیرہ۔۔۔ حالانکہ اس کے ساتھ حاجی احرام سے حلالی ہوتا ہے۔۔۔ تو اس سے وہ تمام ساقط ہوگئے جن کے ساتھ حاجی احرام سے حلالی ہوتا ہے کیونکہ وہ محصر ہوگیا ہے۔ اور جنہوں نے اس سے حجت پکڑی ہے ان میں امام ابوحنیفہ اور امام محمد بن حسن ہیں انہوں نے فرمایا : محصر پر نہ بال کٹوانا ہے نہ خلق کرانا ہے۔ امام ابو یوسف نے کہا : محصر یوسف سے ان کی ” نوادر “ میں روایت کیا ہے کہ اس پر حلق کرانا لازم ہے اور بال کٹوانے کے بغیر تو کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ امام شافعی کے اس مسئلہ میں دو مختلف اقوال ہیں : (1) محصر کے لئے حلق کرنا عبادت سے ہے۔ یہ امام مالک کا قول ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ عبادت میں سے نہیں ہے جیسے کہ امام ابوحنیفہ نے کہا ہے۔ امام مالک کی حجت یہ ہے کہ طواف، صفا ومروہ کے درمیان سعی وغیرہ سے محصر کو روکا گیا ہے۔ پس جن چیزوں سے اسے روکا گیا ہے وہ تو ساقط ہوجائیں گی حلق کرانا، اس کے کرنے میں تو کوئی حائل نہی کہ وہ اس کے کرنے پر قادر ہے اور جس کے کرنے پر وہ قادر ہے وہ اس سے ساقط نہیں اور اس پر دلیل کہ محصر پر حلق کرانا باقی ہوتا ہے جس طرح بیت اللہ تک پہنچنے والے پر باقی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تحلقوارء وسکم حتیٰ یبلغ الھدی محله۔ اور وہ حدیث ہے جو ائمہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حلقین (حلق کرنے والوں) کے لئے تین مرتبہ اور قصر کرانے والوں کے لئے ایک مرتبہ دعا فرمائی تھی۔ یہ قطعی حجت ہے اور اس مسئلہ میں نظر صحیح ہے۔ یہی امام مالک اور ان کے اصحاب کا مسلک ہے ان کے نزدیک وہ حاجی جس نے حج کو مکمل کیا اور جس کا حج فوت ہوا، دشمن کے ذریعے روکا گیا اور مرض کے ذریعے روکا گیا اور مرض کے ذریعے روکا گیا تمام پر حلق کرانا عبادت ہے۔ مسئلہ نمبر 4: ائمہ نے روایت کیا ہے کہ امام مالک کے یہ الفاظ ہیں۔ نافع نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی : اے اللہ ! حلق کرانے والوں پر رحم فرما۔۔ صحابہ نے عرض کی : یارسول اللہ ! قصر کرانے والوں کے لئے بھی دعا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے عرض کی : یا اللہ ! مقصرین پر رحم فرما۔ ہمارے علماء نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کا حلق کرانے والوں کے لئے تین مرتبہ دعا کرنا اور قصر کرانے والوں کے لئے ایک مرتبہ دعا کرنا دلیل ہے کہ حج اور عمرہ میں حلق کرانا، قصر کرانے سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ولا تحلقوا رء وسکم کا مقتضا بھی یہی ہے ولا تقصروا نہیں فرمایا اور اہل علم کا اجماع ہے کہ قصر کرانا مردوں کے لئے جائز ہے مگر ایک چیز حسن بصری سے ذکر کی گئی ہے کہ وہ پہلا حج جو انسان کرتا ہے اس میں واجب قرار دیتے تھے۔ مسئلہ نمبر 5: عورتیں حلق میں داخل نہیں ہیں ان کے لئے سنت قصر کرانا ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے، فرمایا : عورتوں پر حلق نہیں ہے ان پت صرف قصر کرانا ہے۔ اس روایت کو ابوداؤد نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ اہل علم کا اس قول پر اجماع ہے۔ ایک جماعت کی رائے ہے کہ عورت کا اپنے سر کا خلق کرانا مثلہ ہے اور عورت بالوں کو کتنا کٹوائے اس مقدار میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر، امام شافعی، امام احمد، اسحاق کہتے ہیں : وہ ہر مینڈھی سے پورے کی مثل کاٹے۔ عطا نے کہا : بند انگلیوں کی مقدار کاٹے۔ قتادہ نے کہا : تہائی یا چوتھائی کی مقدار کاٹے۔ حفصہ بن سیرین نے بوڈھی عورت اور جوان عورت کے درمیان فرق کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں : بوڑھی عورت چوتھائی بال کاٹ دے اور جوان عورت کے لئے انگلی کے پورے کے ساتھ اشارہ کیا وہ تھوڑے تھوڑے کاٹ لے۔۔ مالک نے فرمایا : پورے سر کے بالوں کو تھوڑا تھوڑا کاٹے جتنا وہ کاٹ لے گی وہ کافی ہوگا۔ امام مالک کے نزدیک یہ جائز نہیں کہ بعض بالوں کو کاٹے اور بعض کو چھوڑ دے۔ ابن منذر نے کہا : جس پر کاٹنے کے اسم کا اطلاق ہو وہ جائز ہوگا۔ احوط یہ ہے کہ انگلی کے پورے کی مقدار تمام بال کاٹے۔ مسئلہ نمبر 6: کسی کے لئے سر کا حلق کرانا جائز نہیں حتیٰ کہ اپنی ہدی کو نحر کرلے۔ یہ اس لئے ہے کہ ذبح کی سنت حلق سے پہلے ہے۔ اس میں اصل یہ ارشاد ہے : ولا تحلقوارء وسکم حتی یبلغ الھدی محله۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے کہا تھا پہلے آپ نے نحر کیا تھا پھر حلق کرایا تھا جس نے اس کی مخالفت کی حلق پہلے کرایا نحر بعد میں کیا اس نے یہ حطا اور جہالت کی وجہ سے کیا ہوگا یا جان بوجھ کر کیا ہوگا۔ اگر پہلی صورت ہوگی تو اس پر کچھ واجب نہ ہوگا۔ یہ ابن حبیب نے ابن قاسم سے روایت کیا ہے اور یہ امام مالک کا مشہور مذہب ہے۔ ابن ماجشون نے کہا : اس پر ہدی ہے، یہی امام ابوحنفیہ کا قول ہے۔۔ اگر دوسری صورت میں ہو تو قاضی ابوالحسن نے روایت کیا ہے کہ نحر پر خلق کو مقدم کرنا جائز نہیں۔ یہی امام شافعی کا قول ہے۔ ظاہر مذہب منع ہے اور صحیح جواز ہے کیونکہ حضرت ابن عباس کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ سے ذبح، حلق، ری، تقدیم و تاخیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے حلق کرانے سے پہلے ذبح کیا یا ذبح کرنے سے پہلے حلق کرایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں۔ مسئلہ نمبر 7: اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حج میں سر کا حلق کرانا عبادت اور مطلوب ہے اور حج کے علاوہ جائز ہے لیکن بعض علماء نے فرمایا : سر کا حلق کرانا ہے، اگر یہ مثلہ ہوتا تو حج اور غیر حج میں جائز نہ ہوتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مثلہ سے منع فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جعفر کی شہادت کی خبر آنے کے تین دن بعد ان کے بچوں کا حلق کرایا۔ اگر حلق جائز نہ ہوتا تو آپ ﷺ ان کا حلق نہ کرواتے۔ حضرت علی ؓ اپنے سر کا حلق کراتے تھے۔ ابن عبدالبر نے کہا : علماء کا بالوں کے رکھنے اور حلق کی اباحت پر اجماع ہے یہی حجت کافی ہے۔ وباللہ التوفیق۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن کان منکم مریضًا اعبهٓ اذیً من راسهٖ ففدیة من صیام اوصدقةٍ اونسک اس میں نومسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن کان منکم مریضا اس آیت سے بعض شوافع نے استدلال کیا ہے کہ پہلی آیت میں محصر سے مراد دشمن سے روکا گیا ہے۔۔ یہ لازم نہیں ہوتا کیونکہ فمن کان منکم مریضا اعبه اذی من راسهٖ کا معنی ہے، جو مریض ہو یا اس کے سر میں اذیت ہو پھر حلق کرادے ففدیة تو اس پر فدیہ ہے۔ جب یہ بلا اختلاف مرض کے بارے میں وارد ہے تو ظاہر یہ کہ آیت کا آغاز بھی اسی کے متعلق وارد ہے جس کے بارے میں اس کا وسط اور اس کا آخر وارد ہے۔ کیونکہ کلام کا بعض، بعض کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے اور بعض، بعض کے ساتھ متصل ہوتا ہے اور آخر آیت میں اضمار کو آیت کے ابتدائی کی طرف لوٹانا ہوتا ہے۔ پس ظاہر پر محمول کرنا واجب ہوتا ہے حتیٰ کہ ظاہر سے پھیرنے کی دلیل موجود ہو۔ اور ہمارے کلام پر دلیل اس آیت کے نزول کا سبب بھی ہے۔ ائمہ نے روایت کی ہے اور یہ دار قطنی کے الفاظ میں حضرت کعب بن عجرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا جبکہ جوئیں اس کے چہرے پر گررہی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ جوئیں تجھے تکلیف دیتی ہیں ؟ کعب نے کہا : ہاں۔ آپ ﷺ نے کعب کو حلق کرانے کا حکم دیا جبکہ آپ حدیبیہ میں تھے۔ اور صحابہ کے لئے واضح نہیں ہوا تھا کہ وہ یہاں احرام کھول دیں گے وہ ابھی مکہ میں داخل ہونے کی امید پر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فدیہ کو نازل فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ چھ مساکین کو ایک فرق کھانا کھلائیں یا ایک بکری ہدی دیں یا تین دن روزے رکھیں۔ اس حدیث کو بخاری نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ یہ قول کہ (صحابہ کے لئے واضح نہ تھا کہ وہ یہاں احرام کھول دیں گے دلیل ہے کہ صحابہ کو دشمن کے روکنے کا یقین نہ تھا۔ پس فدیہ کا موجب اذیت اور مرض کی وجہ سے خلق کرانا ہے۔ ) واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 2: امام اوزاعی نے اس محرم کے بارے فرمایا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو، وہ حلق کرانے سے پہلے فدیہ کے ساتھ کفار دے دے تو یہ اس کے لئے جائز ہے۔ میں کہتا ہوں : پھر اس صورت میں فمن کان منکم مریضا اوبهٖٓ اذی من راسهٖ ففدیة من صیام اوصدقة او نسکٍ کا معنی ہوگا جب وہ حلق کرانے کا ارادہ کرے، جو قادر اور حلق کرایا تو اس پر فدیہ نہ وے حتیٰ حلق کرا دے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 3: ابن عبدالبرنے کہا : اس حدیث میں ندک سے مراد بکری ہے۔ یہ ایک ایسا امر ہے جس میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن روزے اور کھانا کھلانے میں اختلاف ہے۔ جمہور فقہاء کا خیال ہے کہ روزے تین ہیں اور حضرت کعب بن عجرہ کی حدیث سے یہ صحیح محفوظ ہے۔ حضرات حسن، عکرمہ اور نافع سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : اذیٰ کے فدیہ میں دس روزے ہیں اور دس مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔ یہ فقہاء امصار اور ائمہ حدیث میں سے کسی کا قول نہیں ہے اور ابوزبیر کی روایت میں مجاھد عن عبدالرحمن عن کعب بن عجرہ کے سلسلہ سے مروی ہے، کعب نے بیان فرمایا کہ اس نے ذی القعدہ میں احرام باندھا ان کے سر میں جوئیں تھیں۔ نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لے آئے وہ اپنی بانڈی کے نیچے آگ جلا رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : گویا تجھے تیرے سر کی جوئیں تکلف دے رہی ہیں۔ حضرت کعب نے کہا : جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : حلق کرالو اور ہدی دے دو ۔ حضرت کعب نے عرض کی : میں ہدی نہیں پاتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : چھ دن روزہ رکھو۔ حضرت ابوعمر نے کہا : اس کا ظاہر ترتیب پر ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو پھر اس کا معنی ہوتا کہ پہلا پھر دوسرا اختیار کرو عام آثار جو حضرت کعب بن عجرہ سے مروی ہے وہ لفظ تخییر (اختیار) کے ساتھ وارد ہیں اور یہ نص قرآنی ہے اسی پر علماء اور علماء کا فتویٰ اور عمل ہے۔ وباللہ التوفیق مسئلہ نمبر 4: علماء کا اذیت کے فدیہ میں جو کھانے کا ذکر ہے اس میں بھی اختلاف ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا : اس میں کھانا دو مد ہیں جو نبی کریم ﷺ کے مد کے حساب سے ہوں۔ یہ ابو ثور اور داؤد کا قول ہے۔ ثوری سے مروی ہے، فرمایا : یہ گندم سے نصف صاع (2 کلو) اور کھجور، جو کشمش سے ایک صاع ہے۔ امام ابوحنیفہ سے بھی اسی کی مثل مروی ہے اس نے صاع گندم کو کھجور کے ایک صاع کے برابر بنایا ہے۔ ابن منذر نے کہا : یہ غلط ہے کیونکہ حضرت کعب کی بعض اخبار میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا : تو کھجور کے تین صاع چھ مساکین پر صدقہ کر۔ امام احمد بن حنبل نے کبھی تو اسی طرح امام مالک اور امام شافعی نے کہا ہے اور کبھی کہا : اگر وہ گندم کھلانا چاہے تو ہر مسکین کو ایک مد دے اگر کھجور چاہئے تو نصف صاع دے۔ مسئلہ نمبر 5: مساکین کو اذیت کے کفارہ میں صبح وشام کا کھانا کھلانا جائز نہیں حتیٰ کہ ہر مسکین کو نبی کریم ﷺ کے مد کے مطابق دو مددے۔ یہ امام مالک، ثوری، امام شافعی اور امام محمد بن حسن کا قول ہے۔ امام ابو یوسف نے کہا : صبح وشام کا کھانا کھلانا جائز ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اہل علم کا اجماع ہے کہ محرم کے لئے بالوں کا حلق کرنا، انہیں کاٹنا، توڑنا اور انہیں تلف کرنا جائز نہیں خواہ وہ نور یا کسی اور چیز کے ساتھ ہو مگر بیماری کی حالت میں جیسا کہ قرآن میں نص موجود ہے اور جس نے احرام کی حالت میں بغیر کسی بیماری کے حلق کرایا تو اس پر فدیہ وواجب ہے۔ اور اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جس نے بغیر عذر کے حلق کرایا، سلاہوا لباس پہنایا خوشبولگائی۔ امام مالک نے فرمایا : اس نے برا کیا ہے اور اس پر فدیہ ہے اسے اس میں اسے اس میں اخیتار ہے اور امام مالک کے نزدیک اس میں عمد، خطا، ضرورت اور عدم ضرورت برابر ہیں۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور اس کے اصحاب اور ابوثور نے کہا : اسے اختیار نہیں مگر ضرورت میں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فمن کان منکم مریضا اوبهٖٓ اذی من راسهٖ اور جس نے جان بوجھ کر خلق کرایا یا بغیر عذر کے جان کر لباس پہنا تو اسے اختیار نہیں ہے اس پر صرف بکری واجب ہے۔ مسئلہ نمبر 7: جس نے بھول کر ایسا کیا اس کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک نے فرمایا : جان بوجھ کر اور بھول کر یہ عمل کرنے والا فدیہ کے : جوب میں برابر ہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ، ثوری اولیث کا قول ہے۔ امام شافعی کے اس مسئلہ میں دو قول ہیں : (1) اس پر فدیہ نہیں ہے، یہ داؤد اور اسحاق کا قول ہے۔ دوسرا اس پر فدیہ ہے۔ اکثر علماء محرم پر لباس پہننے، سر ڈھانپنے یا بعض سر ڈھانپنے، خفین (موزے) پہننے، ناخن کاٹنے، خوشبو لگانے، اذیت کو دور کرنے کی صورت میں فدیہ کو واجب کرتے ہیں۔ اسی طرح جب اپنے جسم کے بالوں کا حلق کیا یا تیل لگایا یا تیل لگایا یا پچھنے لگوانے کی جگہ کا حلق کیا تو یہی حکم ہے۔ عورت اس مسئلہ میں مرد کی طرح ہے۔ اسپر سرمہ لگانے میں فدیہ ہے اگرچہ اس میں خوشبو نہ بھی ہو اور مرد کے لئے سرمہ لگانا جائز ہے جبکہ اس میں خوشبو نہ ہو اور عورت پر فدیہ ہے جو وہ اپنے چہرے کو ڈھانپے یاد ستانے پہنے۔ اسمیں یہ عمل جان بوجھ کر کرنا بھول کر کرنا اور جہالت کیوجہ سے کرنا برابر ہے۔ بعض علماء ہر چیز میں دم (بکری) واجب کرتے ہیں۔ داؤد نے کہا : جسم کے بال مونڈنے میں مرد، عورت پر کچھ نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 8: علماء کا مذکورہ فدیہ دینے کی جگہ میں بھی اختلاف ہے۔ عطا نے کہا : جو دم (بکری) ہوگا وہ مکہ میں دیا جائے گا اور جو کھانا یا روزہ ہوگا وہ جہاں چاہے دے سکتا ہے۔ اسی طرح اصحاب رائے نے کہا ہے : حسن سے مروی ہے کہ بکری، مکہ میں دی جائے گی۔ طاؤس اور امام شافعی نے کہا : کھانا اور بکری دونوں میں ہی دیئے جائیں گے روزہ جہاں چاہے رکھ سکتا ہے کیونکہ روزہ میں اہل حرم کی منفعت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ھدیا بٰلغ الکعبة (المائدہ : 95) یہ بیت اللہ کے پڑوس میں رہنے والے مساکین پر شفقت کے لئے کھانا کھلانے میں بھی منفعت ہے جبکہ روزہ میں کوئی اہل حرم کی منفعت نہیں ہے۔ واللہ اعلم امام مالک نے فرمایا : یہ عمل جہاں چاہے کرے اور یہ صحیح قول ہے اور یہ مجاہد کا قول ہے۔ امام مالک کے نزدیک یہاں ذبح سے نسک مراد ہے اور نص قرآن وسنت کی وجہ سے یہ ہدی نہیں ہے اور نسک جہاں چاہے ادا ہوسکتی ہے اور ہدی صرف مکہ میں ہوتی ہے۔ امام مالک کی حجت وہ روایت ہے جو انہوں نے اپنے مؤطا میں حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت کی ہے اس میں ہے حضرت علی بن طالب نے حضرت حسین ؓ کے سر کا حلق کرنے کا حکم دیا (آپ بیمار تھے) پھر ان کی طرف سے سقیا کے مقام پر نسک دیا ان کی طرف سے اونٹ نحر کیا۔ مالک نے فرمایا : یحییٰ بن سعید نے فرمایا : حضرت حسین ؓ حضرت حسین ؓ حضرت عثمان ؓ کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے۔ اس حدیث میں واضح دلیل ہے کہ اذیت کا فدیہ مکہ علاوہ کسی جگہ دینا بھی جائز ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ففدیة من صیام او صدقة اونسک مطلق ہے اس میں کسی جگہ کی قید نہیں ہے پس ظاہر کا تقاضا یہ ہے جہاں بھی فدیہ ادا کرے گا جائز ہوگا۔ امام مالک نے فرمایا اور ہم پر اس کو ہدی پر قیاس کرکے ہدی کے حکم کی طرف لوٹانا لازم نہیں ہے اور ہم ہدی کا اعتبار نہیں کرتے جو اس کے بارے میں حضرت علی ؓ سے مروی ہے نیز نبی کریم ﷺ نے جب کعب کو فدیہ کا حکم فرمایا تھا تو وہ حرم میں نہیں تھے۔ پس یہ سب کچھ حرم سے باہر بھی جائز ہے۔ امام شافعی سے اس کی مثل ایک بعید وجہ کے اعتبار سے مروی ہے۔ مسئلہ نمبر 9: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اونسک، نسک کا اصل معنی عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ارنا مناسکنا (البقرہ :128) یعنی ہمیں اپنی عبادت کی جگہیں دکھا۔ بعض نے فرمایا : لغت میں نسک کا معنی غسل کرنا ہے۔ اسی سے ہے : نسک توبة، یعنی اس نے کپڑے کو دھویا گویا عبادت کرنے والا اپنے نفس کو عبادت کے ذریعے گناہوں سے دھوتا ہے۔ بعض نے فرمایا : النسک کا معنی چاندی کی پگھلی ہوئی ڈلی ہے، اس کی ہر ڈلی کو نسی کہ کہا جاتا ہے۔ گویا عابد اپنے نفس کو گناہوں کی میل اور کھوٹ سے پاک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : امنتم فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیرمن الھدی۔ اس میں تیرہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاذآ امنتم بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے تم مرض سے ٹھیک ہوجاؤ۔ بعض نے فرمایا : روکنے والے دشمن کے خوف سے امن میں ہوجاؤ۔ یہ حضرت ابن عباس اور قتادہ کا قول ہے۔ یہ مفہوم الفاظ کے زیادہ قریب ہے مگر مرض کا خوف خیال کیا جائے تو پھر مرض مراد ہوگا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج علماء کا اختلاف ہے کہ اس کا مخاطب کون ہے۔ حضرت عبداللہ ابن زبیر، حضرت علقمہ اور حضرت ابراہیم نے فرمایا : اس آیت میں وہ لوگ مراد ہیں جنہیں راستہ میں حج اور عمرہ سے روک دیا گیا ہو وہ لوگ مراد نہیں ہیں جن کے لئے راستہ کھلاہوا ہو۔ ابن زبیر کے نزدیک متمع کی صورت یہ ہے کہ آدمی کو روک دیا گیا ہو حتیٰ تک درمیان میں متمتع ہوا اور دوسرے علماء کے نزدیک محصر متمتع وہ ہے جو روک دیا گیا ہو پھر بغیر عمرہ کئے احرام کھول دے اور اسے موخر کردے حتیٰ کہ وہ آئندہ سال آئے حج کے مہینوں میں عمرہ کرے اور اسی سال پھر حج کرے۔ حضرت ابن عباس اور علماء کی جماعت کا قول ہے کہ آیت میں روکے گئے اور جن کے لئے راستہ کھلا ہے سب مراد ہیں۔ بقیہ تفسیر اس آیت کی اگلی آیت میں
Top