Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 196
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ١ٙ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ١ؕ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠   ۧ
وَاَتِمُّوا : اور پورا کرو الْحَجَّ : حج وَالْعُمْرَةَ : اور عمرہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنْ : پھر اگر اُحْصِرْتُمْ : تم روک دئیے جاؤ فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ : سے الْهَدْيِ : قربانی وَلَا : اور نہ تَحْلِقُوْا : منڈاؤ رُءُوْسَكُمْ : اپنے سر حَتّٰى : یہانتک کہ يَبْلُغَ : پہنچ جائے الْهَدْيُ : قربانی مَحِلَّهٗ : اپنی جگہ فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا بِهٖٓ : اسکے اَذًى : تکلیف مِّنْ : سے رَّاْسِهٖ : اس کا سر فَفِدْيَةٌ : تو بدلہ مِّنْ : سے صِيَامٍ : روزہ اَوْ : یا صَدَقَةٍ : صدقہ اَوْ : یا نُسُكٍ : قربانی فَاِذَآ : پھر جب اَمِنْتُمْ : تم امن میں ہو فَمَنْ : تو جو تَمَتَّعَ : فائدہ اٹھائے بِالْعُمْرَةِ : ساتھ۔ عمرہ اِلَى : تک الْحَجِّ : حج فَمَا : تو جو اسْتَيْسَرَ : میسر آئے مِنَ الْهَدْيِ : سے۔ قربانی فَمَنْ : پھر جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزہ رکھے ثَلٰثَةِ : تین اَيَّامٍ : دن فِي الْحَجِّ : حج میں وَسَبْعَةٍ : اور سات اِذَا رَجَعْتُمْ : جب تم واپس جاؤ تِلْكَ : یہ عَشَرَةٌ : دس كَامِلَةٌ : پورے ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : لیے۔ جو لَّمْ يَكُنْ : نہ ہوں اَھْلُهٗ : اس کے گھر والے حَاضِرِي : موجود الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور اعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اور خدا (کی خوشنودی) کیلیے حج اور عمرے کو پور کرو اور اگر (راستے میں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈا لے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو (کرے) اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو یہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مکہ میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے
(تفسیر) 196۔ : (آیت)” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ حضرت علقمہ (رح) اور ابراہیم نخعی (رح) نے (آیت)” واتموالحج والعمرۃ للہ “ پڑھا حج اور عمرہ کے اتمام سے متعلق انہوں نے اختلاف کیا ، پس بعض نے کہا کہ ان دونوں کو احکام اور حدود اور سنتوں کی رو سے تمام کرے اور یہ قول ابن عباس ؓ اور علقمہ (رح) اور ابراہیم نخعی (رح) اور مجاہد (رح) کا ہے ارکان حج پانچ ہیں ۔ (1) احرام (2) عرفات میں ٹھہرنا (3) طواف زیارت (4) سعی (صفاومروہ میں دوڑنا (5) سر کا منڈانایا بال کتروانا۔ حج کے احرام سے باہر نکلنے یعنی احرام کھولنے اور حلال ہونے کی دو قسمیں ہیں اور احرام کھولنے کے تین اسباب ہیں ۔ (1) دسویں ذوالحجہ (یوم النحر) کو جمرئہ عقبہ کی رمی کرنا۔ (2) طواف الزیارت۔ (3) سرمنڈانا (یاکتروانا) پس جب ان تین چیزوں میں سے دو چیزیں پائی جائیں گی تو تحلل اول یعنی پہلا قسم احرام کھولنے کا حاصل ہوجائے گا اور مذکورہ تین چیزوں میں سے جب تین کی تین پائی جائیں گی تو تحلل ثانی یعنی احرام سے باہر آنے کی دوسری قسم حاصل ہوجائے گی اور تحلل اول یعنی احرام سے باہر آنے کی پہلی قسم کا حکم یہ ہے کہ سوائے بیوی سے صحبت کرنے کے احرام کی بقیہ ممنوع چیزیں جائز ہوجائیں گی ، مثلا سر ڈھانپنا خوشبو لگانا ، ناخن کترنا وغیرہ وغیرہ اور جب تحلل ثانی یعنی احرام سے باہر آنے کی دوسری قسم پائی جائے گی تو آدمی مکمل طور پر احرام سے باہر آجاتا ہے اور احرام کی تمام ممنوعات جائز ہوجاتی ہیں (گویا بیوی سے صحبت بھی جائز اور مباح ہوجاتی ہے) عمرہ کے چار ارکان ہیں (1) احرام باندھنا ۔ (2) بیت اللہ شریف کا طواف کرنا ۔ (3) صفا ومروہ میں دوڑنا ۔ (4) سرمنڈانا (یا کترانا) حضرت سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں کہ (آیت)” اتموالحج والعمرۃ “ حج وعمرہ کا تمام کرنا یوں ہے کہ مستقلا ہر دو کا احرام علیحدہ علیحدہ گھر کے مکانوں سے باندھا جائے ، سیدنا حضرت علی المرتضی ؓ سے (آیت)” واتموالحج والعمرۃ للہ “ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ تو ہر دو یعنی حج اور عمرہ کا احرام گھر کے مکانوں سے باندھے اور اسی قسم کا ارشاد گرامی حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے بھی منقول ہے ، حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں تمام عمرہ اس طرح ہے کہ ایام حج کے علاوہ باقی دونوں میں تو عمرہ ادا کرے اور اگر عمرہ حج کے مہینوں میں کیا گیا تو یہ تمتع ہوجائے گا اور اس شخص پر اگر پاسکے تو ” ھدی “ یعنی جانور ذبح کرنا لازم اور اگر جانور نہ پاسکے تو پھر روزے رکھنا لازم ہیں (تین روزے حج سے پہلے پہلے اور سات روزے فراغ حج کے بعد تلک عشرۃ کاملہ “ یہ مکمل دس ہوگئے) اور حج کے تمام ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس کے تمام احکام پورے پورے ادا کیے جائیں حتی کہ تمتع اور قران کی صورت میں اس سے کوئی ایسا حکم نہ چھوٹے جس سے اس پر دم یعنی جانور ذبح کرنا لازم آتا ہوں اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں حج اور عمرہ کا اتمام اس طرح ہے کہ ان دونوں پر خرچ کیے جانے والا پیسہ حلال کا ہو اور حج وعمرہ میں ہر اس چیز سے بچے جو اللہ تعالیٰ نے منع فرمائی ہے اور حضرت سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں کہ حج اور عمرہ کا اتمام یہ ہے کہ تو گھر سے صرف اور صرف حج یا عمرہ ادا کرنے کی غرض سے نکلے نہ کہ تجارت یا کسی اور غرض کی خاطر ، سیدنا فاروق اعظم ، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ (مکہ مکرمہ کی طرف) بصورت وفد جانے والے زیادہ ہیں اور حاجی تھوڑے ہیں اور جو شخص حج کرنے کی (شرعی طور پر) استطاعت یعنی طاقت رکھتا ہے پوری امت کا اتفاق ہے کہ اس شخص پر حج فرض ہے البتہ وجوب عمرہ میں انہوں نے اختلاف کیا ہے ، اکثر اہل علم عمرہ کے واجب ہونے کی طرف گئے ہیں اور حضرت عمر ؓ کا قول ہے حضرت علی المرتضی ؓ اور بن عمر ؓ کا قول ہے عکرمہ ؓ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم ! بیشک کتاب الہی کی رو سے عمرہ حج کا ساتھی ہے ۔ (آیت)” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ ۔ حضرت عطاء (رح) طاؤس (رح) مجاہد (رح) حسن (رح) قتادہ (رح) اور سعید بن جبیر (رح) نے یہی فرمایا ، سفیان ثوری (رح) اسی طرف گئے ہیں اور امام شافعی (رح) کے دو قولوں میں سے صحیح قول یہی ہے اور ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ عمرہ سنت ہے اور یہ قول حضرت جابر ؓ کا ہے علامہ شعبی (رح) بھی یہی فرماتے ہیں ، امام مالک (رح) اور اہل عراق بھی اسی طرف گئے ہیں ، ان حضرات نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (آیت)” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ کی تاویل کی ہے ، بایں معنی کہ عمرہ کو تمام کرو جب تم اس میں داخل ہوجاؤ یعنی شروع کرلو ، باقی رہا عمرہ کو ابتداء شروع کرنا تو یہ واجب نہیں نفل ہے اور جس نے عمرہ کو واجب قرار نہیں دیا اس نے اس روایت سے دلیل پکڑی ہے جو محمد بن منکدر نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کی ، حضرت جابر ؓ حضور اقدس ﷺ سے کہ حضور ﷺ سے عمرہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ عمرہ واجب ہے ؟ پس آپ نے فرمایا نہیں ہاں اگر تم عمرہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہوگا اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد عالی ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ کا معنی ہے کہ حج اور عمرہ کو شروع کرو۔ پس جب تم حج اور عمرہ میں داخل ہوجاؤ تو دونوں کو تمام کرو تو (آیت) ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ کا حکم شروع کرنے اور تمام کرنے دونوں سے متعلق ہے یعنی ” اقیموھما “ یعنی دونوں کو قائم کرو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” ثم اتموا الصیام الی اللیل “ یعنی روزوں کو شروع کرو اور تمام کرو۔ حضرت عبداللہ (ابن مسعود) ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ حج اور عمرہ کو ملا کر کرو کہ یہ دونوں فقر وفاقہ اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح کہ بھٹی لوہے سونے ، چاندی کی زنگ اور کھوٹ کو دور کرتی ہے اور مقبول حج کا بدلہ سوائے جنت کے اور کچھ نہیں ہے ۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ مخلوق خدا میں سے جو آدمی بھی حج اور عمرہ کرنے کی طاقت رکھے اس پر حج اور عمرہ واجب ہیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” واتموا الحج والعمرۃ للہ “ اور جو (ایک دفعہ کے بعد) زیادہ کرے تو بہتر ہے امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حج عمرہ تین طریقوں پر جائز ہے ۔ (1) افراد (2) تمتع ۔ (3) قران۔ افراد کی صورت یہ ہے کہ (ایام حج میں) صرف حج کرے پھر اس سے فارغ ہونے کے بعد عمرہ کرے اور تمتع کی صورت یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرے اعمال عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد مکہ مکرمہ سے حج کا احرام باندھے اور اسی سال حج کرے اور قران کی صورت یہ ہے کہ حج اور عمرہ کا دونوں کا احرام اکٹھے باندھے یا عمرہ کا احرام باندھے اور عمرہ کا طواف شروع کرنے سے پہلے حج کو بھی اس میں داخل کر دے (یعنی نیت کرلے) پس یہ قارن ہوجائے گا ان تین صورتوں میں سے افضل صورت کے بارے میں انہوں نے اختلاف کیا ہے ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ افراد افضل ہے اس کے بعد تمتع افضل ہے پھر قران افضل ہے یہ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کا قول ہے ۔ یہ اس لیے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ہم حضور اقدس ﷺ کے ہمراہ حجۃ الوداع کے موقع پر نکلے پس بعض ہم میں سے وہ تھے جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا اور بعض نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اور بعض وہ تھے جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا ہوا تھا اور حضور اقدس ﷺ نے صرف حج کا احرام باندھا ہوا تھا بہرحال جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا وہ (احکام عمرہ ادا کرکے) احرام سے فارغ ہوگئے اور جن حضرات نے صرف حج کا احرام باندھا ہوا تھا یا حج عمرہ دونوں کا احرام باندھا ہوا تھا پس وہ حلال نہ ہوئے (یعنی احرام سے باہر نہ آئے) حتی کہ دسویں ذوالحجہ کا دن آگیا ۔ حضرت جابر ؓ حضور ﷺ کے حج کے بارے میں بیان فرماتے ہیں چناچہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں ہم حضور ﷺ کے ساتھ نکلے اور ہم نے سوائے حج کے اور کسی چیز کی نیت نہ کی اور نہ ہی ہم حج کے سوا عمرہ وغیرہ کو جانتے تھے اور ابن عمر ؓ سے روایت کی گئی ہے کہ بیشک حضور ﷺ نے حج افراد فرمایا (صرف حج کا احرام باندھا اور ساتھ عمرہ کی نیت نہ کی) اور ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ قرن افضل ہے اور یہ امام ثوری (رح) اور اصحاب الرای کا قول ہے ، انہوں نے اس روایت سے دلیل پکڑی ہے جو حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ” لبیک بحجۃ وعمرۃ “ کہ میں حج وعمرہ دونوں سے متعلق لبیک کہتے ہوئے احرام باندھتا ہوں۔ اور ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ تمتع افضل ہے اور احمد بن حنبل (رح) کا قول ہے اور اسحاق بن راہویہ (رح) کا انہوں نے اس روایت سے دلیل دی ہے ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عمرہ کے ساتھ حج ملا کر تمتع فرمایا اور اپنے ساتھ ذوالحلیفہ سے ھدی (جانور) بھی ہانکا اور حضور اقدس ﷺ شروع ہوئے اور عمرہ کا احرام باندھا ، اس کے بعد پھر حج کا احرام باندھا اور حضور ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی عمرہ کے ساتھ حج ملا کر تمتع کیا ، پس بعض لوگ وہ تھے جنہوں نے اپنے ساتھ ھدی (جانور) ہانکا تھا اور بعض وہ تھے کہ اپنے ساتھ جانور نہ لائے تھے ، جب حضور اقدس ﷺ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو لوگوں نے فرمایا کہ جو تم میں سے اپنے ساتھ جانور لایا ہے اس کے لیے حج کی ادائیگی تک کوئی بھی وہ چیز حلال نہیں جو بوجہ احرام حرام ہے اور جو اپنے ساتھ جانور نہیں لایا وہ طواف بیت اللہ کرکے امور صفاو مروہ میں سعی کرکے قصر یعنی سر کے بال کتروا کر احرام کھول دے اور اس کے بعد پھر حج کا احرام باندھے اور جو ھدی (جانور) نہ پاسکے اسے چاہیے کہ ایام حج میں تین روزے رکھے اور سات روزے اس وقت رکھے جب اپنے گھر لوٹے ۔ پس حضور اقدس ﷺ جب کہ مکہ مکرمہ تشریف لائے پھر طواف کرے اور حجر اسود کا استلام کرے اور تین چکر (طواف) میں ہلکا ہلکا دوڑے اور بقیہ چار چکروں میں حسب معمول چلے اور بیت اللہ شریف کا طواف مکمل کرنے پر مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے قریب دو رکعت نماز ادا کرے پھر سلام پھیر کر صفا کو آئے اور صفا ومروہ میں سات چکر لگائے پھر بوجہ احرام جو چیزیں حرام تھیں ان کے ساتھ حلال والا معاملہ کرے (یعنی حالت احرام میں باقی رہے) حتی کہ حج پورا کرے اور دسویں ذوالحجہ کو جانور نحر کرے ، پھر واپس آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کرے ، پھر ہر چیز سے (جو بوجہ احرام ممنوع ہوں) حلال ہوجائے (یعنی احرام کھول دے) پھر اسی طرح کرے جس طرح حضور ﷺ نے فرمایا ۔ حضرت عروہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت فرماتے ہیں انہوں نے حضور اقدس ﷺ کے تمتع کے بارے میں خبر دی پس لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ تمتع کیا ، اس کے آگے حدیث ویسے حدیث نقل کی جیسے سالم نے ابن عمر ؓ سے بیان کیا ، حضرات مفسرین کرام نے حضور ﷺ کے احرام کے متعلق اختلاف کیا ، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اور حضرت امام شافعی (رح) نے کتاب اختلاف الاحادیث میں مختصر کلام کی ۔ بیشک اصحاب رسول اقدس ﷺ میں سے بعض مفرد تھے بعض قارن تھے اور بعض متمتع اور ہر ایک آپ سے احکام حج لیتا اور آپ ﷺ کی تعلیم سے ہدایات لیتا ، چناچہ سب کی نسبت آپ ﷺ کی طرف کی گئی بریں معنی آپ نے اس چیز کا حکم دیا اور اجازت دی ، پس لغت عرب میں یہ بات جائز ہے کہ حکم کرنے والے کی طرف اس چیز کی نسبت کی جائے ، جیسا کہ جس کی خاطر کام کیا جائے اس کی طرف فعل کی نسبت کی جاتی ہے ، مثلا کہا جاتا ہے فلاں نے یہ گھر بنایا اور اس سے مراد اس کے بنانے کا حکم کرنا مراد ہوتا ہے جس طرح روایت کیا جاتا ہے کہ حضور ﷺ نے ماعز صحابی کو رجم فرمایا حالانکہ آپ نے رجم کا حکم فرمایا تھا اور امام شافعی (رح) نے حضرت جابر ؓ حضرت عائشہ ؓ اور ابن عمر ؓ کی روایت کی وجہ سے افراد کو پسند فرمایا اور ان کی روایت کو بوقیوں کی روایت پر پختہ وجوہ مقدم فرمایا ۔ 1۔ پہلی کہ حضرت جابر ؓ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ صحبت رکھنے کے لحاظ سے مقدم ہیں پھر یہ کہ حضرت جابر ؓ نے واقعہ حجۃ الوداع کو اول اور آخر میں باحسن طریق بیان فرمایا ہے ۔ 2۔ دوسری وجہ ان کی روایت مقدم کرنے کی یہ ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کو حافظہ (قویہ) کی فضیلت حاصل ہے ۔ 3۔ تیسری وجہ تقدیم روایت کی سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کا وہ قرب ہے جو ان کو حضور اقدس ﷺ کے ساتھ حاصل تھا ۔ یہ احادیث آنے والی حدیث ابن عمر اور حدیث عائشہ ؓ سے متعارض ہے ۔ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عمرہ کو حج کے ساتھ کرکے تمتع فرمایا ۔ ابن شہاب نے حضرت عروہ ؓ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ بےحضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ان کو حضور اقدس ﷺ کے تمتع کے بارے میں خبر دی کہ آپ ﷺ نے عمرہ کو حج کے ایام میں کرکے تمتع فرمایا ، پس لوگوں نے آپ ﷺ کے ساتھ تمتع کیا آگے اسی طرح روایت ذکر کی جس طرح سالم نے عبداللہ بن عمر سے نقل کی ہے ، ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا یہ عمرہ ہے جس کے ساتھ ہم نے تمتع کیا ہے ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے تمتع کے بارے میں فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ نے تمتع کیا ، پس ہم نے بھی آپ کے ساتھ مل کر تمتع کیا ، ہمارے شیخ امام نے فرمایا کہ جو کچھ حضرت جابر ؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم صرف حج کی نیت سے نکلے یہ روایت تمتع کے منافی نہیں ہے کیونکہ ان کا نکلنا تو حج کے ارادہ سے تھا پھر بعض حضرات نے عمرہ کو مقدم کیا اور بعض نے حج کا احرام باندھا ، یہاں تک کہ ان کو حضور اقدس ﷺ نے اس کو تمتع بنانے کا حکم دیا ۔ (آیت) ” فان احصرتم “ اس احصار کے بارے میں جو محرم کے لیے احرام کھولنے کو جائز کرتا ہے ، علماء نے اختلاف کیا ہے بعض حضرات نے فرمایا ہر وہ رکاوٹ جو محرم کو بیت اللہ شریف تک جانے میں مانع ہو اور احرام کے تقاضے پورے کرنے میں حائل ہو وہ رکاوٹ بوجہ دشمن کے ہو یا بوجہ مرض کے یا زخم ہو یا خرچہ ختم ہوگیا ہو یا سواری گم ہوگئی ، یہ سب رکاوٹیں اس کے لیے احرام کھول دینے کو جائز کرتی ہیں ، حضرت ابن مسعود ؓ نے یہی فرمایا اور حضرت ابراہیم نخعی (رح) حضرت حسن (رح) ، حضرت مجاہد (رح) حضرت عطاء (رح) حضرت قتادہ (رح) ، حضرت عروہ بن زبیر (رح) کا بھی یہی قول ہے ، حضرت سفیان ثوری (رح) اور اہل عراق اسی طرف گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا ہے کہ کلام عرب میں احصار تکلیف اور مرض کی وجہ سے بند ہونے کا نام ہے ، کسائی (رح) اور ابوعبیدہ ؓ فرماتے ہیں جو (بندش) مرض یا زاد راہ ختم ہونے کی وجہ سے ہو بعض نے کہا کہ وہ بند کیا گیا ہے پس وہ محصور ہے یہاں دشمن کی حبس کے باعث احصار قرار دینا مرض کے احصار پر قیاس کرنا ہے جب کہ حبس دشمن ، مرض والی بندش کے معنی میں ہو۔ ان حضرات نے اس روایت سے دلیل دی ہے جو حضرت عکرمہ (رح) نے حجاج بن عمر و انصاری سے روایت کی ، حجاج بن عمر و انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس کی کوئی ہڈی ٹوٹ گئی یا لنگڑا ہوگیا اس کے لیے اگلے سال حج کرنا حلال ہوگیا (یعنی اس تکلیف والے سال حج نہ کرے، احرام کھول دے بوجہ احصار کے اور آئندہ سال حج کرے) حضرت عکرمہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور ابوہریرہ ؓ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ (حجاج) نے سچ کہا اور ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ اس احرام باندھنے والے کے لیے حلال ہونا یعنی احرام کھولنا سوائے دشمن کی بندش کے جائز نہیں ہے اور یہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے اور انہوں نے فرمایا سوائے دشمن کی بندش کے اور کوئی احصار نہیں ہے یہ مفہوم ومعنی ابن عمر اور عبداللہ بن زبیر ؓ سے بھی منقول ہے اور سعید بن مسیب (رح) اور سعید بن جبیر (رح) کا بھی یہی قول ہے اور اسی طرف امام شافعی (رح) امام احمد بن حنبل (رح) اور حضرت اسحاق (رح) گئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے حصر اور احصار کا ایک معنی ہے اور حضرت ثعلب ؓ فرماتے ہیں اہل عرب کہتے ہیں ” حصرت الرجل عن حاجتہ فھو محصور “ کہ میں نے آدمی کو اس کی حاجت سے روکا اور وہ محصور ہے اور اہل عرب کہنا کہ ” احصرہ العدو اذا منعہ عن السیر ھو محصر “ کہ دشمن نے اس کو حصر کیا اور اس کو چلنے سے روکا ، چناچہ وہ محصر ہے (گویا اہل عرب کے ہاں احصار اور حصر یا محصور اور محصر میں فرق ہے ، چناچہ حصر عام ہے کسی قسم کی رکاوٹ حاجت کو پورا کرنے میں واقع ہوجائے وہ حصر ہے اور وہ شخص محصور ہے اور احصار خاص دشمن کی رکاوٹ کا نام ہے جب کہ وہ سفر میں مانع ہوجائے اور وہ شخص محصر ہے ۔ اس خاص امیتاز کے سلسلہ میں (جو کہ حصر ومحصور اور احصار ومحصر کے درمیان ہے) انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ یہ آیت کریمہ قصہ حدیبیہ سے متعلق ہے اور اس سفر عمرہ میں جو حبس (رکاوٹ) واقع ہوئی وہ دشمن (کفار مکہ) کی طرف سے تھی اور اس مؤقف پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے جو کہ آیت کریمہ کے سیاق میں واقع ہے ۔ ” فاذا امنتم “ پس جب تم امن والے ہوجاؤ اور امن خوف سے ہوتا ہے ، ان حضرات نے حجاج بن عمرو کی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے بوجہ اس مفہوم مدلول کے جو حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ حصر تو صرف دشمن ہی کی حصر ہے اور بعض نے حجاج کی حدیث کی یوں تاویل کی ہے کہ ہڈی ٹوٹ جانے یا لنگڑا ہوجانے سے حلال ہونا اس وقت صحیح ہے جب احرام باندھتے وقت اس امر کی شرط لگائے جیسا کہ ضباعہ بنت زبیر ؓ سے مروی ہے کہ اسے حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ حج کر اور اس امر کی شرط لگالے، اے اللہ احرام سے میرا حلال ہونا اس وقت ہوگا جہاں تو مجھے روک لے پھر محصر (بند شدہ محرم) جانور ذبح کرکے یا سرمنڈا کر احرام کھول دے اور ھدی (جانور) سے مراد بکری ہے اور اللہ کے اس فرمان (آیت) ” فمااستیسر من الھدی “ سے مراد بھی یہی ہے ۔ اور اکثر اہل علم کے نزدیک اس جانور کے ذبح ہونے کا مقام وہی جگہ ہے جہاں محصر (بند) ہوجائے کیونکہ حضور ﷺ نے حدیبیہ والے سال جانور اسی جگہ ذبح فرمایا تھا اور ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ محصر (بند شدہ محرم) اسی جگہ ٹھہرا رہے اور ایک جانور حرم بھیجے اور اس آدمی سے وعدہ لے لے جو اس جانور کو وہاں ذبح کرے پھر حسب وعدہ وہاں محرم احرام کھول دے ، یہ اہل عراق کا قول ہے اور اگر محرم جو محصر ہے اگر جانور نہ پاسکے تو اس سلسلہ میں مختلف اقوال ہیں ، ایک قول کے مطابق اس ھدی (جانور) کا اور کوئی چیز بدل نہیں ہے۔ پس محرم احرام کھول دے اور جانور اس کے ذمہ رہا ، جب پائے (ذبح کرے) دوسرا قول یہ ہے کہ اس کا بدل ہے پھر بدل کی صورت میں مختلف اقوال ہیں ، پس ایک قول میں یہ ہے کہ اس پر اسی طرح روزے لازم ہیں جس طرح کہ متمتع پر لازم ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ بکری کی دراھم کے ساتھ قیمت لگائی جائے اور دراھم کو طعام مسکین کی شکل دی جائے اور اس طعام کو صدقہ کردیا جائے اور اگر طعام سے عاجز آجائے تو ” فی مد “ (سیر) طعام ایک دن روزہ رکھے جیسا کہ (بحالت احرام) خوشبو لگانے یا لباس پہننے کی شکل میں ہوتا ہے، چناچہ جب محرم کو گرمی سردی کی وجہ سے سر چھپانے کی ضرورت پڑے یا سلی ہوئی قمیص کی حاجت ہوجائے یا مریض ہوگیا اور خوشبو والی دوا لینے کی ضرورت پڑی تو وہ یہ کام کرے اور اس کے ذمہ فدیہ ہے اور اس کا فدیہ بالترتیب میانہ روی کے ساتھ یہ کہ اس پر بکری ذبح کرنا ہے ۔ اگر بکری نہ پا سکے تو بکری کی دراہم کے ساتھ قیمت لگائی جائے گی اور دراہم (درہموں) کے ساتھ طعام خریدے گا اور طعام (فی مسکین) صدقہ کرے گا اور اس سے بھی عاجز آجائے تو فی سیر طعام کے بدلہ روزہ رکھے گا ، پھر ” محصر “ (بندشدہ محرم) کا احرام اگر تو فرضی ہے جو اس پر ثابت شدہ ہے تو یہ فرض اس کے ذمہ رہا اور اگر نفلی حج ہے تو اس قضا ہے یا نہیں ؟ اس میں انہوں نے اختلاف کیا ہے ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ اس پر قضا نہیں ہے اور یہ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کا قول ہے اور ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ اس پر قضاء (حج) لازم ہے ، یہ مجاہد اور علامہ شعبی (رح) اور نخعی اور اصحاب الرای (رحمہم اللہ) کا قول ہے۔ (آیت) ” فمااستیسر من الھدی “ اس پر جو جانور میسر ہو لازم ہے اور لفظ ” ما “ کا محل (اعراب) رفع (پیش) ہے اور بعض نے کہا کہ مامحل نصب میں یعنی زبر میں ہے یعنی مامفعول ہے تقدیر عبارت ہوگی ، ” فاھد ما استیسر “ یعنی جو جانور آسانی سے مل سکے وہ بھیجا جائے اور جو جانور باآسانی ہو سکے وہ بکری ہے یہ بات حضرت علی ؓ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمائی کیونکہ بکری آسانی کے مفہوم کے زیادہ قریب ہے۔ حضرت حسن (رح) حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں ہدیہ کا اعلی درجہ اونٹ ہے درمیانہ درجہ گائے ہے اور ادنی درجہ بکری ہے ۔ ” ولا تحلقوا رؤسکم حتی یبلغ الھدی محلہ “ اس محل میں انہوں نے اختلاف کیا ہے جس جگہ جانور پہنچنے پر محرم احرام کھول سکتا ہے ، پس بعض نے کہا کہ وہ مقام یہ ہے کہ جس جگہ محرم محصر ہوا ہے اسی جگہ جانور ذبح کردیا جائے چاہے وہ مقام (حل یعنی حرم سے باہر کا علاقہ ہو یا وہ مقام مقام حرم ہو اور ” محلہ “ کا معنی ہے جہاں اس جانور کا ذبح ہونا حلال ہو۔ عبداللہ بن زیبر ؓ نے مسور بن مخرمہ ؓ سے واقعہ حدیبیہ سے متعلق روایت کی مسور ؓ فرماتے ہیں ہیں جب معاہدہ سے متعلق کتابت ہوچکی تو حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو فرمایا کھڑے ہوجاؤ ار نحر کرو یعنی جانور اونٹ وغیرہ ذبح کرو اور سر منڈاؤ ، پس اللہ کی قسم ان میں سے ایک آدمی بھی نہ اٹھا حتی کہ حضور ﷺ نے بارہا فرمایا ، جب ان میں سے کوئی بھی نہ اٹھا تو حضور ﷺ حضرت ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جانب سیآپ کو جو کوفت پہنچی اس کا ذکر کیا حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کیا یا نبی اللہ ! اگر آپ (علیہ السلام) یہ چیز محبوب رکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نحر اور حلق کریں تو اس سلسلہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے کوئی بات نہ کریں حتی کہ آپ (علیہ السلام) اپنا بدنہ (اونٹ) ذبح کریں اور اپنے نائی کو بلائیں کہ وہ آپ ﷺ کا سرمنڈدے ، چناچہ حضور ﷺ باہر تشریف لائے اور کسی سے کوئی بات نہ کی حتی کہ آپ ﷺ نے ایسا کیا اور اپنا اونٹ نحر کیا اور اپنے نائی کو بلایا ، پس اس نے آپ ﷺ کا سرمونڈا پس جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے حضور ﷺ کا یہ عمل دیکھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کھڑے ہوگئے اور انہوں نے (جانور) نحر کیے اور بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے بعض کے سر اسی طرح (جلدی اور عجلت میں (مونڈے حتی کہ بعض بعض کو قتل کرنے کے قریب ہوگئے یعنی غم اور بھیڑ کرنے کے باعث ، اور بعض کہتے ہیں کہ محصر کے جانور کے ذبح کرنے کی جگہ حرم مقدس کی سرزمین ہے پاس اگر حاجی ہے تو جانور ذبح کرنے کا وقت دسویں ذوالحجہ ہے اور اگر وہ محصر عمرہ کرنے والا ہے تو اس جانور کے ذبح کرنے کا وقت وہی ہے جس وقت وہ جانور حرم مقدس میں پہنچ جائے ۔ (آیت) ” فمن کان منکم مریضا او بہ اذی من راسہ “ اس کا معنی ہے کہ تم حالت احرام میں سر نہ منڈاؤ مگر یہ کہ تم مرض یا سر میں تکلیف جو جوؤں کی وجہ سے ہو یا سر درد کی وجہ سے ہو سر منڈانے پر مجبور ہوجاؤ ” ففدیۃ “ اس میں اضمار ہے پس اس نے سر منڈایا تو اس پر فدیہ ہے یہ آیت کریمہ کعب بن عجرہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ۔ کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے کہ بیشک حضور ﷺ نے ان کو یعنی کعب بن عجرۃ ؓ کو دیکھا کہ جوئیں ان کے منہ پر گر رہی ہیں ، پس حضور ﷺ نے فرمایا کیا تیرے کیڑے وغیرہ تجھے تکلیف دے رہے ہیں ، حضرت کعب ؓ نے عرض کی ہاں ! پس ان کو حضور ﷺ نے حکم دیا کہ سر منڈا دے اور وہ حدیبیہ میں تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو یہ بیان نہیں فرمایا کہ وہ اس مقام پر احرام کھولیں گے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اس امید پر تھے کہ وہ مکہ میں داخل ہوں گے ، پس اللہ تعالیٰ نے فدیہ کا حکم نازل فرمایا ، پس کعب ؓ کو حضور ﷺ نے حکم دیا ۔ کہ وہ چھ مساکین کو کھانا دیں یا بکری ذبح کریں یا تین دن روزہ رکھیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” ففدیۃ من صیام “ تین دن ” اوصدقۃ “ یعنی تین صاع طعام چھ مساکین پر تقسیم کر دے ہر مسکین کو آدھا صاع ”’ اونسک “ نسک کا مفرد نسی کہ یعنی ذبیحہ جس کا اعلی درجہ بدنہ یعنی اونٹ اور درمیانہ درجہ گائے ہے اور ادنی درجہ بکری ہے ان میں جو چاہے ذبح کرے ، پس یہ فدیہ اختیاری ہے اور اندازہ پر ہے۔ محرم کو اختیار ہے کہ جانور ذبح کرے یا روزہ رکھے یا صدقہ کرے اور ہر جانور یا طعام جو اس محرم کو لازم ہے جو مکہ مکرمہ میں ہو اور اسے مساکین حرم پر صدقہ کرے سوائے اس جانور کے جو ’‘’ محصر “ (راستہ میں بوجہ رکاوٹ رک جائے اور حج یا عمر نہ کرسکے) پر لازم ہو، پس وہ جانور وہیں ذبح کرے جہاں سے بند کردیا گیا ہو اور بہترحال روزہ اس کے لیے جائز ہے جہاں چاہے رکھے ، ” فاذا امنتم “ جب تم اپنے خوف کی حالت سے امن کی حالت کی طرف آجاؤ اور اپنی بیماری سے تندرست ہوجاؤ ۔ (آیت) ” فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فمااستیسر من الھدی “ اس متعہ میں انہوں نے اختلاف کیا ، حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اس طرف گئے ہیں بیشک اس کا معنی یہ ہے کہ جو شخص روک دیا جائے حتی کہ اس کا حج فوت ہوجائے اور وہ احرام نہ کھول لیں پس وہ مکہ مکرمہ میں آئے اور عمرہ کے اعمال کرکے احرام سے باہر آجائے اور اپنے اس احلال یعنی عمرہ کرکے احرام کو کھولنے کے باعث وہ آیندہ سال تک نفع اٹھائے پھر حج کرے تو اس احلال یعنی احرام سے باہر آکر آیندہ سال دوسرا احرام باندھنے تک وہ متمتع ہوا یعنی نفع اٹھانے والا ہوا۔ اور بعض نے کہا اس کا معنی ہے پس جب تم حالت امن میں آجاؤ اور اپنے احرام سے احصار کے بعد فارغ ہوجاؤ اور اپنا عمرہ تم ادا نہ کرو اور آیندہ سال تک عمرہ کو مؤخر کر دو ، پھر حج کے مہینوں میں تم عمرہ کرو ، پھر عمرہ کرکے احرام کھول دو پس تم تمتع کرو یعنی حج کے احرام تک احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو کر حلال والی آزادیوں سے نفع اٹھاؤ پھر اس کے بعد تم حج کا احرام باندھو ۔ پس تم پر لازم ہے کہ جو جانور میسر ہو سکے (ذبح کرو) یہ قول علقمہ (رح) اور ابراہیم نخعی (رح) اور سعید بن جبیر ؓ کا ہے ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور عطاء (رح) اور ایک جماعت نے کہا ہے کہ اس جگہ وہ آدمی مراد ہے جو دنیا کے کسی کونے سے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے آئے ، پس وہ عمرہ کرے اور احرام کھول کر مکہ مکرمہ میں ٹھہر جائے حتی کہ انہیں حج کے مہینوں میں حج ادا کرے پس اسی سال وہ حج کرے تو وہ احرام عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد حج کے احرام باندھنے تک درمیانی مدت میں حلال ہونے کے منافع سے مستفید ہونے والا ہو کر وہ متمتع ہوا تو تمتع کا معنی عمرہ کے احرام سے فارغ ہو کر حج کے احرام باندھنے تک درمیانی مدت میں احرام سے آزادی والے منافع سے نفع اٹھانا ہوا اور تمتع والی صورت میں جانور ذبح کرنے کے واجب ہونے کے لیے چار شرطیں ہیں : پہلی شرط یہ ہے کہ عمرہ کا احرام حج کے مہینوں میں باندھے ، دوسری شرط یہ ہے کہ عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد اسی سال حج کا احرام باندھے، تیسری شرط یہ ہے کہ حج کا احرام مکہ مکرمہ سے باندھے اور حج کے احرام کے لیے میقات کی طرف واپس نہ لوٹے ۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ مسجد حرام میں حاضر ہو، پس جس میں یہ چار شرطیں پائی جائیں ، اس محرم پر لازم ہے جو جانور میسر ہو ذبح کرے اور وہ (آسان جانور) بکری ہے اور اسے دسویں ذوالحجہ کو ذبح کرے اور اگر حج کا احرام باندھنے کے بعد دسویں ذوالحجہ سے پہلے جانور ذبح کرے تو بعض اہل علم کے نزدیک جائز ہے ، جیسا کہ وہ جانور دسویں ذوالحجہ سے پہلے ذبح کرنا جائز ہے ۔ جو کسی جنایۃ (احرام والی پابندی کے خلاف ورزی کرنے یا کسی اور حکم حج کے خلاف کرنے) کے باعث لازم ہو اور بعض حضرات اس طرف گئے ہیں کہ دم تمتع (بوجہ تمتع جو جانور لازم ہو) دسویں ذوالحجہ سے پہلے ذبح کرنا ایسا ہی جائز نہیں جس طرح کہ قربانی کا جانور دسویں ذوالحجہ سے پہلے جائز نہیں ہے ۔ (آیت) ” فمن لم یجد “ ھدی کا (جانور نہ پائے) (آیت) ” فصیام ثلاثۃ ایام فی الحج “۔ یعنی تین دن روزہ رکھو کم از کم یہ کہ آٹھویں ذوالحجہ سے ایک دن پہلے دوسرا روزہ آٹھویں ذوالحجہ تیسرا روزہ روزہ نویں ذوالحجہ کو رکھے اور اگر ان تاریخوں سے پہلے اور احرام حج باندھنے کے بعد بھی تین دن روزہ رکھے تو یہ بھی جائز ہے اور اکثر اہل علم کے نزدیک دسویں ذوالحجہ یا ایام تشریق (گیارہویں بارہویں تیرہویں ذوالحجہ) میں یہ روزے جائز نہیں ہیں اور بعض حضرات اس طرف گئے ہیں کہ ایام تشریق میں بھی یہ روزے جائز نہیں ہیں اور بعض حضرات اس طرف گئے ہیں کہ ایام تشریق میں بھی یہ روزے رکھنے جائز ہیں ، یہ مؤقف ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ اور عبداللہ بن عمر ؓ اور عبداللہ بن زبیر ؓ سے منقول ہے ، یہ امام مالک اوزاعی (رح) ، امام احمد (رح) اور اسحاق (رح) کا قول بھی ہے ۔ (آیت) ” وسبعۃ اذا رجعتم “ سات دن روزے اس وقت رکھو جب تم اپنے گھر اور اپنے شرہ واپس لوٹ آؤ اور اگر سات روزے گھر لوٹنے سے پہلے رکھے تو جائز نہ ہوں گے اور یہ اکثر اہل علم کا قول ہے ، عبداللہ بن عمر ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓ کا بھی یہی قول ہے اور بعض نے کہا کہ اعمال حج سے فارغ ہونے کے بعد رکھنے بھی جائز ہیں اور آیت کریمہ میں (آیت) ” اذا رجعتم “ کے ساتھ جس رجوع کا ذکر ہے اس سے مراد بھی یہی ہے (آیت) ” تلک عشرۃ کاملۃ “ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر تاکیدا کیا ہے اور یہ اس لیے کہ اہل عرب حساب میں صحیح رہنمائی مزید تشریح اور اضافی بیان کی طرف محتاج ہوتے ہیں اور بعض نے کہا کہ اس میں تقدیم و تاخیر ہے ، یعنی دس دن روزے لازم ہیں تین دن ایام حج میں اور سات دن جب تم لوٹو ، پس یہ مکمل دس ہوگئے اور کہا گیا ہے کہ ” عشرۃ کاملۃ “ کا معنی ہے کہ اجروثواب میں کامل ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ دس دن روزے اس مراد میں کامل ہیں جو کہ ھدی (جانور) کے بدلہ روزوں کو رکھا گیا، (دس دن کے روزے جانور ذبح کرنے کا بدل کامل ہیں ناقص نہیں ہیں) اور بعض نے کہا ہے کہ اس کی شروط وحدود کامل ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ جملہ لفظ خبر ہے اور معنی کے لحاظ سے امر ہے گویا مراد یہ ہے کہ ” فاکملوھا ولا تنقصوھا “ ان کو کامل طریق پر رکھو ، ناقص نہ کرو ” ذالک “ یعنی یہ حکم (آیت) ” لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام “ حاضری المسجد الحرام کے مفہوم میں اختلاف کیا گیا ہے ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اہل مکہ ہیں اور یہ امام مالک (رح) کا قول ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد اہل حرم ہیں یہی طاؤس نے کہا اور ابن جریج نے کہا اس سے مراد اہل عرفہ ۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ حاضری المسجد الحرام سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا وطن ومسکن مکہ مکرمہ سے مسافت قصر (یعنی اتنے سفر سے کم فاصلہ پر ہو جس سفر کے باعث شرعا نماز میں قصر لازم آتی ہے) سے کم فاصلہ پر ہو ، حضرت عکرمہ (رح) فرماتے ہیں کہ حاضری المسجد الحرام سے مراد وہ ہے جو میقات یامیقات کے اندر اندر ساکن ہو ، یہ اصحاب الرای کا قول ہے اور دم قران دم تمتع کی طرح ہے (قران وہ حج ہے جس میں حج کے مہینوں میں حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا جائے اس میں بھی اس طرح جانور ذبح کرنا واجب ہے جس طرح کہ تمتع ہیں، اس جانور ذبح کرنے کو دم قران کہا جاتا ہے) اور مکی جب قران یا تمتع کرے تو اس پر ھدی (جانور) واجب نہیں ہے ، حضرت عکرمہ (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے حج تمتع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ مہاجرین و انصار اور ازواج مطہرات نے حجۃ الوداع میں احرام باندھا اور ہم نے بھی احرام باندھا جب ہم مکہ مکرمہ آئے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اپنے حج والے احرام کو عمرہ بنادو یعنی اس میں عمرہ کی نیت کرلو مگر وہ شخص جس نے ھدی (جانور) کو قلادہ باندھا ہو یعنی جانور ہمراہ لایا ہو ۔ ہم نے بیت اللہ شریف کا طواف کای اور صفا ومروہ میں سعی کی اور عورتوں کے پاس آئے، (ان سے جماع کیا) حسب معمول کپڑے پہنے پھر آٹھویں ذوالحجہ (ترویہ) کی شام ہم حکم دیئے گئے کہ حج کا احرام باندھیں پس جب ہم فارغ ہوئے تو ہمارا حج تمام ہوگیا ۔ وعلینا الھدی “ اور ہم پر جانور ذبح کرنا واجب ہوا تو حضرات نے ایک سال میں (حج کے مہینوں میں) دو عبادتیں جمع کیں یعنی حج اور عمرہ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب۔ اور ایسا کرنا مکہ والوں کے سوا باقی عام لوگوں کے لیے کرنا جائز قرار دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت)” ذالک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام “ کہ یہ اس کے لیے جس کے اہل و عیال مسجد حرام میں حاضر نہ ہوں اور جس کا حج فوت ہوجائے اور حج کا فوت ہونا وقوف عرفہ کے فوت ہونے سے ہے ، یہاں تک کہ دسویں ذوالحجہ کی طلوع فجر ہوجائے پس یہ شخص عمرہ کے اعمال کرکے اپنے احرام کو کھول دے گا اور آئندہ سال اس پر قضاء (حج) لازم ہوگی اور فدیہ بھی لازم اور یہ فدیہ تمتع اور قران والے فدیہ کی ترتیب اور اندازے کے مطابق ہوگا۔ سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ بیشک ہناد بن اسود یوم النحر دسویں ذوالحجہ کو آئے اور سیدنا فاروق اعظم حضرت عمر ؓ اپنا ھدی (جانور) نحر فرما رہے تھے ، اس نے عرض کیا یا امیر المؤمنین ؓ ہم نے (چاند کی) گنتی میں غلطی کی ، ہم گمان کرتے تھے کہ آج یوم العرفہ نویں ذوالحجہ کا دن ہے تو حضرت عمر ؓ نے ان کو حکم صادر فرمایا کہ تو بھی مکہ مکرمہ جا اور تمہارے ساتھ ہو تو پھر تم سر منڈواؤ یا کترواؤ ، پھر تم لوٹ جاؤ ، پھر جب آیندہ سال آئے پس تم حج کرو اور ساتھ ھدی (جانور) بھی لاؤ اور جو شخص جانور نہ پاسکے تو ایام حج میں تین دن روزہ رکھنا لازم ہیں اور سات روزے اس وقت جب تم واپس گھر لوٹو، (آیت)” واتقوا اللہ “ احکام کی ادائیگی میں (اللہ سے ڈرو) (آیت)” واعلموا ان اللہ شدید العقاب “ ارتکاب مناہی پر یعنی اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی چیزوں کو اگر عمل میں لایا جائے تو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے ۔
Top