Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 196
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ١ٙ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ١ؕ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠ ۧ
وَاَتِمُّوا
: اور پورا کرو
الْحَجَّ
: حج
وَالْعُمْرَةَ
: اور عمرہ
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
فَاِنْ
: پھر اگر
اُحْصِرْتُمْ
: تم روک دئیے جاؤ
فَمَا
: تو جو
اسْتَيْسَرَ
: میسر آئے
مِنَ
: سے
الْهَدْيِ
: قربانی
وَلَا
: اور نہ
تَحْلِقُوْا
: منڈاؤ
رُءُوْسَكُمْ
: اپنے سر
حَتّٰى
: یہانتک کہ
يَبْلُغَ
: پہنچ جائے
الْهَدْيُ
: قربانی
مَحِلَّهٗ
: اپنی جگہ
فَمَنْ
: پس جو
كَانَ
: ہو
مِنْكُمْ
: تم میں سے
مَّرِيْضًا
: بیمار
اَوْ
: یا
بِهٖٓ
: اسکے
اَذًى
: تکلیف
مِّنْ
: سے
رَّاْسِهٖ
: اس کا سر
فَفِدْيَةٌ
: تو بدلہ
مِّنْ
: سے
صِيَامٍ
: روزہ
اَوْ
: یا
صَدَقَةٍ
: صدقہ
اَوْ
: یا
نُسُكٍ
: قربانی
فَاِذَآ
: پھر جب
اَمِنْتُمْ
: تم امن میں ہو
فَمَنْ
: تو جو
تَمَتَّعَ
: فائدہ اٹھائے
بِالْعُمْرَةِ
: ساتھ۔ عمرہ
اِلَى
: تک
الْحَجِّ
: حج
فَمَا
: تو جو
اسْتَيْسَرَ
: میسر آئے
مِنَ الْهَدْيِ
: سے۔ قربانی
فَمَنْ
: پھر جو
لَّمْ يَجِدْ
: نہ پائے
فَصِيَامُ
: تو روزہ رکھے
ثَلٰثَةِ
: تین
اَيَّامٍ
: دن
فِي الْحَجِّ
: حج میں
وَسَبْعَةٍ
: اور سات
اِذَا رَجَعْتُمْ
: جب تم واپس جاؤ
تِلْكَ
: یہ
عَشَرَةٌ
: دس
كَامِلَةٌ
: پورے
ذٰلِكَ
: یہ
لِمَنْ
: لیے۔ جو
لَّمْ يَكُنْ
: نہ ہوں
اَھْلُهٗ
: اس کے گھر والے
حَاضِرِي
: موجود
الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
: مسجد حرام
وَاتَّقُوا
: اور تم ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَ
: اور
اعْلَمُوْٓا
: جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
شَدِيْدُ
: سخت
الْعِقَابِ
: عذاب
اللہ کی خوشنودی کے لئے جب حج اور عمرہ کی نیت کرو ، تو اسے پورا کرو اور اگر کہیں جاؤ تو جو قربانی میسر آئے ، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے ۔ مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوالے تو اسے چاہئے کہ فدیے کے طور پر روزہ رکھے یا صدقہ دے یا قربانی دے ، اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے ۔ یہ رعایت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گھر مسجد حرام کے قریب نہ ہوں ۔ اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔
ہمارے پاس آیات حج کی تاریخ نزول کا کوئی صحیح علم نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں ایک روایت ہے جس میں آیا ہے کہ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ” اور اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی میسر ہو ۔ “ 6 ھ میں صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی ، لہٰذا اسلام میں حج کب فرض ہوا اس کی صحیح تاریخ بھی ہمیں معلوم نہیں ، اس میں اختلاف رائے ہے کہ حج فرض کس آیت سے ہوا ، اس آیت سے یعنی وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ” اللہ کی خوشنودی کے لئے جب حج اور عمرہ کی نیت کرو تو اسے پورا کرو یا وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البَیتِ مَنِ استَطَاعَ اِلَیہِ سَبِیلًا ” جن لوگوں کے پاس زاد راہ کی استطاعت ہو ان پر اللہ کی جانب سے حج بیت اللہ فرض ہے ۔ بہرحال ان دونوں آیات کے نزول کے بارے میں تاریخ کا تعین کرنے والی کوئی روایت ، منقول نہیں ہے۔ امام ابن قیم جوزی اپنی کتاب زادالمعاد میں لکھتے ہیں کہ حج 9 ھ یا 10 ھ میں فرض ہوا ہے ۔ انہوں نے یہ سن اس قیاس میں متعین کیا ہے کہ رسول ﷺ نے دس ہجری کو حج فرمایا ۔ ظاہر ہے کہ لازماً آپ ﷺ نے یہ فریضہ فرض ہونے کے بعد ادا کیا ہوگا جو 9 ھ یا 10 ھ میں ہوسکتا ہے ، لیکن صرف یہ بات صحیح دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ حج پہلے سے فرض ہو۔ مگر بعض مجبوریوں اور رکاوٹوں کی وجہ سے رسول ﷺ نے اسے 10 ھ تک مؤخر فرمادیاہو ۔ جبکہ 9 ھ میں رسول ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو امیر حج مقرر فرماکر بھیجا ۔ روایات میں یہ بات آچکی ہے کہ رسول ﷺ جب غزوہ تبوک سے واپس ہوئے تو آپ نے حج کا ارادہ فرمایا تھا۔ اس کے بعد جب آپ ﷺ نے یہ خیال کیا کہ مشرکین حسب عادت حج کے موسم میں مکہ مکرمہ آتے ہیں اور ان میں سے بعض لوگ بالکل ننگے ہوکر طواف کرتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے ان لوگوں میں خلط ہونے کو پسند نہ فرمایا۔ اس کے بعد سورت برأت نازل ہوئی ۔ رسول ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ارسال فرمایا تاکہ وہ سورت برأت کا ابتدائی حصہ لوگوں کو سنائیں ، جن مشرکین کے ساتھ جو معاہدے تھے انہیں ختم کردیں اور جب لوگ منیٰ میں قربانی کے وقت جمع ہوں تو اعلان کردیں یادرکھو ! کوئی کافر جنت میں داخل نہ ہوگا ، اس سال کے بعد کو ئی مشرک طواف نہ کرسکے گا ۔ کوئی ننگا شخص طواف نہ کرسکے گا ۔ جن لوگوں نے رسول ﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ کررکھا ہے ، تو وہ اپنی معیاد تک ہی رہے گا ۔ یہی وجہ تھی کہ خود رسول ﷺ نے حج نہ فرمایا اور انتظار کیا کہ بیت اللہ پاک ہوجائے ۔ مشرکین اور برہنہ ہوکر طواف کرنے والوں سے۔ یہاں یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اسلام نے فریضہ حج اور مناسک حج اکثر وبیشتر برقرار رکھے تھے ۔ اور ان تاریخوں سے بہت پہلے ایسی روایات موجود ہیں کہ ہجرت سے پہلے ہی مکہ مکرمہ میں حج فرض ہوچکا تھا لیکن ان روایات کی سند قوی نہیں ہے ۔ سورت حج ، جو ارحج قول کے مطابق سورت ہے ۔ اس میں حج کے اکثر وبیشتر مناسک کا ذکر ہوا ہے۔ یوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان مناسک کا حکم دیا تھا۔ سورت حج کی یہ آیات ملاحظہ فرمائیں : (یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے اس (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (جو اس ہدایت کے ساتھ ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو ، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک رکھو اور لوگوں کو حج کے لئے اذن عام دے دو کہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں ، جو یہاں ان کے لئے رکھے گئے ہیں ۔ اور چند مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں ۔ خود بھی کھائیں اور تنگ دست اور محتاج کو بھی دیں۔ پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کرلیں اور اس قدیم گھر کا طواف ۔ یہ ہے اصل معاملہ (اے سمجھ والو) اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے ۔ تمہیں ایک مقرر وقت تک ان (ہدی کے جانوروں) سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے ، پھر ان کے قربان کرنے کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے ۔ اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے ایک شعائر اللہ میں شامل کیا ہے ۔ تمہارے لئے ان میں بھلائی ہے ، پس انہیں کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام لو اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کئے بیٹھے ہیں اور ان کو جو اپنی حاجت پیش کریں ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو ۔ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خوں ، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔ اس نے ان کو تمہارے لئے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت سے تم اس کی تکبیر کرو اور اے نبی بشارت دے نیکو کاروں کو۔ “ ان آیات میں اکثر مناسک کا ذکر ہوا ہے یا اشارہ ملتا ہے ، مثلاً ہدی ، نحر ، طواف ، احلال ، احرام اور تسمیہ ، یہی مناسک حج کے اساسی شعائر ہیں ۔ خطاب ابراہیم (علیہ السلام) کے تاریخی واقعہ کی شکل میں ، مسلمانوں سے ہورہا ہے ، ان آیات میں واضح طور پر یہ اشارہ کیا جاتا ہے کہ حج کافی ابتدائی دور میں فرض ہوگیا تھا۔ کیونکہ حج حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا شعار تھا ، جن سے مسلمانوں کی نسبت تھی ۔ چونکہ مشرکین مکہ خانہ کعبہ کے مجاور تھے ، کلید بردار تھے ، اور ایک عرصہ تک مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان سخت کشمکش برپا تھی ، ہوسکتا ہے کہ فریضہ حج کی ادائیگی کو مناسب وقت تک مؤخر کردیا گیا ہو ۔ لیکن یہ تاخیر تو الگ بات ہے ۔ تو اس پارے کی ابتدائی آیات میں ہم اس رائے کو ترجیح دے چکے ہیں کہ بعض مسلمان ، بہت پہلے سے فریضہ حج ادا کرتے تھے ۔ یعنی دوہجری میں تحویل قبلہ کے بعد۔ بہرحال حج کی تاریخ کے سلسلے میں بحث کافی ہے ، اب ہم تشریح آیات ، شعائر حج کے بیان اور ان ہدایات کی تشریح کریں گے جو ان کے اثناء میں دی گئی ہیں۔ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ” اللہ کی خوشنودی کے لئے جب حج اور عمرے کی نیت کرو تو اسے پورا کرو ، اور کہیں گھر جاؤ جو قربانی میسر آئے ، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سرنہ مونڈو جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے ۔ مگر جو شخص یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بناپر اپنا سرمنڈوالے تو اسے چاہئے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے ۔ پھر اگر تمہیں امن نصیب ہوجائے (اور تم حج سے پہلے مکہ پہنچ جاؤ) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے ، وہ حب مقدور قربانی دے اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے ۔ یہ رعایت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گھر مسجد حرام کے قریب نہ ہوں ۔ اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ “ ان آیات میں ، سب سے پہلے وہ حسن الفاظ اور حسن تعبیر قابل دید ہے جسے اس قانون سازی کے لئے اختیار کیا گیا ہے ، فقروں کی تقسیم ، بامقصد اور بہترین طرز ادا ، ہر فقرے میں الگ بیان اور الفاظ وفقرات مختصر ، جن میں کوئی لفظ بھی زیادہ نہیں ۔ ہر حکم کے ساتھ شرائط تحدید اور سب احکام کو خوف اللہ اور تقویٰ کے ساتھ مربوط کرتے چلے جانا ۔ پہلے فقرے میں کہا گیا ہے کہ حج اور عمرے کو شروع کرچکنے کے بعد ، مطلقاً تکمیل لازمی ہے ۔ جب حاجی حج کا آغاز کردے ، عمرہ کرنے والا عمرے کا آغاز کردے ، نیت باندھ لے خواہ علیحدہ علیحدہ یا دونوں کے ساتھ اور اس کی توجہ کا مرکز خالص اللہ کی رضاجوئی ہو ، تو انہیں حکم ہے وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ” اللہ کی خوشنودی کے لئے جب حج اور عمرے کی نیت کرو ، تو اسے پورا کرو۔ “ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ لفظ ” پورا کرو “ کے ذریعہ ہی سب سے پہلے حج فرض ہوا ہے ۔ لیکن بعض نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ مراد یہ ہے کہ جب تم شروع کرو تو پھر پورا کرو۔ مکمل کرو۔ یہ مفہوم زیادہ ظاہر ہے ۔ اس لئے کہ یہاں یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ حج بھی فرض ہوگیا اور عمرہ بھی فرض ہوگیا ۔ کیونکہ بعض علماء عمرے کو فرض نہیں سمجھتے ، لہٰذا یہاں مقصد یہی ہوگا کہ حج وعمرہ شروع کرنے کے بعد واجب ہوجاتے ہیں ۔ اتمام لازمی ہے ابتداً عمرہ واجب نہیں ہوتا لیکن جبب اس کی نیت کرکے احرام باندھ لیا جائے تو پھر پورا کرو۔ اب اتمام واجب ہوگا اور عمرہ تمام مناسک میں حج ہی کی طرح ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمرے میں ، میدان عرفات میں وقوف نہیں ہوتا ۔ نیز عمرے کے لئے مقررہ اقات بھی نہیں ۔ پورے سال میں کسی وقت بھی ادا کیا جاسکتا ہے ۔ حج کی طرح معلوم مہینوں کے اندر ہی اس کی ادائیگی لازمی نہیں ہے۔ اتمام حج وعمرہ کے اس عام حکم سے حالت احصار کو مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے ۔ احصار کسی جانی دشمن کی وجہ سے ہو (اس پر سب مذاہب کا اتفاق ہے ) یا بیماری یا بیماری کی طرح کوئی اور رکاوٹ ہو۔ جس کی وجہ سے حج اور عمرے کی تکمیل ممکن ہو ، فقہاء کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ بیماری کی وجہ سے احصار جائز ہے یا نہیں ۔ راحج بات یہ ہے کہ بیماری کی وجہ سے احصار معتبر ہے ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ” اور اگر کہیں گھر جاؤ، تو ہدی جو بھی میسر ہو ، جناب باری میں پیش کرو۔ “ اس حالت میں حاجی یا عمرے کی نیت کرنے والا وسعت و سہولت کے مطابق جو قربانی کرسکے کرے اور احرام توڑ دے ۔ وہیں جہان حالت احصار پیش آئی ۔ اگرچہ وہ مسجد حرام تک نہ پہنچ سکے ۔ میقات سے احرام باندھنے کے سوا ، مناسک حج ادا نہ کرسکے ۔ مناسک عمرہ ادا نہ کرسکے (میقات وہ مقام ہے جہاں حاجی اور عمرہ کرنے والا احرام باندھتا ہے ، پھر اس کے سلے ہوئے کپڑے پہننا حرام ہوجاتا ہے ، بال چھوٹے کرنا ، منڈوانا ، ناخن چھوٹے کرنا منع ہوجاتا ہے۔ نیز اس پر خشکی کا شکار کھیلنا اور اس کا کھانا منع ہوجاتا ہے۔ 6 ھ ہجری میں بھی یہی پیش آیا ، جب رسول ﷺ اور آپ کے ساتھی حدیبیہ پہنچے تو مشرکین نے آپ کو مسجد حرام آنے سے روک دیا ۔ اس مذاکرات ہوئے اور معاہدہ صلح حدیبیہ طے ہوا ۔ اس کے مطابق طے ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اگلے سال عمرہ ادا کریں ۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی اور رسول ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ جہاں تک پہنچے ہیں وہیں رک جائیں ، قربانی کریں اور عمرہ کی نیت ختم کرکے احرام سے باہر آجائیں ۔ مسلمان تعمیل امر سے ہچکچانے لگے ۔ ان پر یہ بات گراں گزر رہی تھی کہ وہ کیونکر ہر ہدی کو اس کے مقام نحر سے پہلے ہی قربانی کردیں ، حالانکہ عادہً وہ منیٰ میں ایسا کرتے ہیں ۔ ان کی ہچکچاہٹ دیکھ کر رسول ﷺ آگے بڑھے اور اپنی قربانی ذبح کرکے احرام سے باہر نکل آئے ۔ اس پر سب نے تعمیل کی ۔ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِسے مراد وہ ہے جو میسر آجائے ۔ ہدی میں جن مویشیوں سے ہوگی وہ یہ ہیں ، اونٹ ، گائے ، بھینس اور بھیڑ بکری ۔ صرف اونٹ ، بھینس اور گائے میں سات افراد تک شریک ہوسکتے ہیں ۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر سات افراد ایک اونٹنی میں شریک ہوئے تھے ۔ یہ ہے تیسیر۔ ہاں بھیڑ بکری صرف ایک آدمی کے لئے ہدی ہوگی ۔ حالت احصار ، جیسا کہ حدیبیہ میں پیش آیا ، یابیماری کی وجہ سے گھر جانے کے حالات کو اصل حکم سے اس لئے مستثنیٰ کیا گیا کہ مسلمانوں پر تنگی نہ ہو ، اس کی حکمت صرف مسلمانوں کے لئے سہولت کی گنجائش رکھنا ہے ۔ مناسک حج کی غرض وغایت یہی ہے کہ انسان اللہ کے نزدیک ہوجائے اور اس کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوجائے ۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض سرانجام دینے کے لئے تیار ہوجائے ۔ جب اس نے نیت کرلی ، احرام باندھ لیا اور دشمن اس کی راہ میں حائل ہوگیا یا بیماری اور یا اسی طرح کا کوئی اور عذر لاحق ہوگیا تو حاجی یا عمرہ کی نیت کرنے والا حج یا عمرے کے ثواب سے کیوں محروم ہو۔ اس حالت کا حکم ایسا ہی ہوگا جیسے حج مکمل ہوگیا ، عمرہ ادا ہوگیا ، چناچہ ایسا شخص وہیں قربانی کرکے احرام سے نکل آئے گا ۔ یہ سہولت ایسی ہے جو اسلام کی روح ، اسلامی عبادات کے مقاصد اور شعائر حج وعمرہ کی اصل غرض وغایت کے عین مطابق ہے ۔ پہلے حکم کی اس استثناء کے بعد ، اب روئے سخن ایک دوسرے حکم ، عام حکم ، حج کے لئے بھی عمرے کے لئے بھی اس کی طرف پھرتا ہے۔ وَلا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ” اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ “ یہ حکم اس حالت کے لئے ہے کہ جہاں حج وعمرہ مکمل ہورہے ہیں اور احصار نہ ہو ، حج ، عمرے یا دونوں کی نیت کی صورت میں آدمی اس وقت تک حالت احرام میں رہتا ہے اور اسے سرمونڈوانے کی اجازت نہیں ہوتی جب تک قرباقنی اپنی جگہ پہنچ کر ذبح نہ ہوجائے ۔ یعنی میدان عرفات میں وقوف کرکے ، مزدلفہ آنے کے بعد بمقام منیٰ ، ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو ۔ اس قربانی کے بعد حاجی احرام سے نکلتا ہے ۔ اس سے پہلے اس کے لئے سرمونڈوانا ، بال چھوٹے کرنا یا دوسرے کام جو محرم کے لئے جائز نہیں ان کا ارتکاب کرنا منع ہے ۔ اب اس عام حکم میں بھی استثنا (Proviso) ہے۔ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍمگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بناپر اپنا سر منڈوالے تو اسے چاہئے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے ! اگر ایسی بیماری لاحق ہوجائے جس میں سرمنڈوانا ضروری ہو یا سر میں جوئیں وغیرہ پڑجائیں اور دیر تک ان میں کنگھی نہ کی گئی اور جوئیں وغیرہ پڑگئیں تو اس وقت تک ہدی کے محل تک پہنچنے سے پہلے بھی سرمنڈوانا جائز ہے ۔ کیونکہ اسلام سہولت کا دین ہے ، لہٰذا تکمیل حج سے پہلے بھی سرمنڈواسکتا ہے ۔ البتہ اس صورت میں ایسے شخص کو فدیہ دینا پڑے گا یا تین دن کے روزے یا چھ مساکین کو کھانا یا ایک بکری ذبح کرکے صدقہ کرنا ، فدیہ کی یہ تحدید رسول ﷺ کی احادیث میں کی گئی ہے ۔ امام بخاری (رح) نے اپنی سند کے ساتھ کعب بن عجرہ سے روایت کی ہے ، فرماتے ہیں : مجھے رسول ﷺ کے پاس لے جایا گیا ، میری حالت یہ تھی کہ میرے بالوں سے میری چہرے پر جوئیں گر رہی تھیں ۔ آپ نے فرمایا میرا یہ خیال نہ تھا کہ تم اس قدر مصیبت میں پڑگئے ہو ۔ کہا تمہارے پاس بکری ہے ؟ میں نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا : تین روزے رکھو یا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ اور کھانے کی مقدار یہ ہو کہ مساکین کو نصف صاع غلہ ملے ، اور اپنے سر کو منڈوالو۔ اب حج کا ایک دوسرا ، عام حکم سنیں فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ” پھر اگر تمہیں امن نصیب ہوجائے تو جو شخص تم سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے ۔ وہ حسب مقدور قربانی دے۔ “ مطلب یہ ہے کہ جب احصار کی صورت درپیش ہو اور تم فریضہ حج ادا کررہے ہو ، پس جو شخص ایام حج آنے سے پہلے عمرہ کرنا چاہتا ہو تو وہ حسب مقدور قربانی دے۔ اس حکم کی تعمیل یہ ہے کہ ایک شخص عمرہ کے لئے نکلے ، میقات پر احرام باندھے ، عمرہ ادا کرلے ، یعنی طواف اور سعی بین صفا مروہ سے فارغ ہوجائے ، پھر وہ حج کی نیت کرلے اور ایام حج کا انتظار کرے ۔ یہ اس صورت میں ہے کہ ایک شخص یہ عمرہ حج کے مہینوں میں کررہا ہو ، حج کے مہینے شوال ، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں ، حج سے عمرہ کرنے کی یہ ایک صورت ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد حج کے ایام کا انتظار کرے ۔ یہ تمتع کی دوسری صورت ہے ۔ ان دونوں صورتوں میں تمتع کرنے والے پر قربانی واجب ہے ۔ یہ قربانی عمرہ کے بعد ہوگی تاکہ وہ احرام سے نکل آئے ۔ یہ شخص ادائے عمرہ اور آغاز حج کے درمیانی عرصہ میں حلال رہے گا ۔ حسب مقدور قربانی اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری کی ہوگی۔ اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ” اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے زمانے میں اور ساتھ گھر پہنچ کر اس طرح پورے دس روزے رکھ لے ۔ “ اس سلسلے میں اولیٰ یہ ہے کہ حج کے تین روزے ذوالحجہ کو عرفات پر وقوف سے پہلے ہی رکھ لے اور باقی سات دن گھر لوٹ کر رکھ لے۔ اس طرح پورے دس روزے رکھ لے ، مزیدتاکید کے لئے کہا گیا ہے ہدی اور روزے کی حکمت صرف یہ ہے کہ حاجی کا تعلق اللہ کے ساتھ مسلسل قائم رہے ، یعنی عمرہ اور حج کے درمیانی عرصے میں جب وہ احرام سے باہر آجاتے تو اس کا یہ شعور ختم نہ ہوجائے کہ وہ ایام حج کی فضا میں ہے ۔ اسے برائیوں سے خاص طور پر بچنا چاہئے اور یہ کہ اللہ مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے ۔ یہ شعور اور جذبہ بالعموم ایام حج میں زندہ ہوتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو مسجد الحرام کے رہنے والے ہیں تو ان کے لئے ایام حج میں عمرہ جائز نہیں ہے ۔ وہ صرف حج کریں گے ۔ وہ عمرے اور حج کے درمیان قربانی کرکے احرام سے نہیں نکل سکتے ۔ اس لئے ان پر فدیہ ، قربانی یا روزہ لازم نہیں ہے ۔ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ” یہ رعایت ان لوگوں کے لئے ہے ، جن کے گھر مسجد حرام کے قریب نہ ہوں۔ “ جو احکام یہاں تک بیان ہوچکے ہیں ان کے آخر میں اب قرآن مجید ایک زوردار تعقیب اور نتیجہ پیش کرتا ہے اور حجاج کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب موڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ” اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ خوب سزا دینے والا ہے ۔ “ تقویٰ ہی امتثال امر کی گارنٹی ہے ۔ اللہ کا خوف اور اللہ کی سزا کا خوف ہی تعمیل احکام کا ضامن ہے ۔ احرام میں تو ایک وقت کے لئے پابندی عائد ہوجاتی ہے ۔
Top