Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 196
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ١ٙ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ١ؕ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠ ۧ
وَاَتِمُّوا
: اور پورا کرو
الْحَجَّ
: حج
وَالْعُمْرَةَ
: اور عمرہ
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
فَاِنْ
: پھر اگر
اُحْصِرْتُمْ
: تم روک دئیے جاؤ
فَمَا
: تو جو
اسْتَيْسَرَ
: میسر آئے
مِنَ
: سے
الْهَدْيِ
: قربانی
وَلَا
: اور نہ
تَحْلِقُوْا
: منڈاؤ
رُءُوْسَكُمْ
: اپنے سر
حَتّٰى
: یہانتک کہ
يَبْلُغَ
: پہنچ جائے
الْهَدْيُ
: قربانی
مَحِلَّهٗ
: اپنی جگہ
فَمَنْ
: پس جو
كَانَ
: ہو
مِنْكُمْ
: تم میں سے
مَّرِيْضًا
: بیمار
اَوْ
: یا
بِهٖٓ
: اسکے
اَذًى
: تکلیف
مِّنْ
: سے
رَّاْسِهٖ
: اس کا سر
فَفِدْيَةٌ
: تو بدلہ
مِّنْ
: سے
صِيَامٍ
: روزہ
اَوْ
: یا
صَدَقَةٍ
: صدقہ
اَوْ
: یا
نُسُكٍ
: قربانی
فَاِذَآ
: پھر جب
اَمِنْتُمْ
: تم امن میں ہو
فَمَنْ
: تو جو
تَمَتَّعَ
: فائدہ اٹھائے
بِالْعُمْرَةِ
: ساتھ۔ عمرہ
اِلَى
: تک
الْحَجِّ
: حج
فَمَا
: تو جو
اسْتَيْسَرَ
: میسر آئے
مِنَ الْهَدْيِ
: سے۔ قربانی
فَمَنْ
: پھر جو
لَّمْ يَجِدْ
: نہ پائے
فَصِيَامُ
: تو روزہ رکھے
ثَلٰثَةِ
: تین
اَيَّامٍ
: دن
فِي الْحَجِّ
: حج میں
وَسَبْعَةٍ
: اور سات
اِذَا رَجَعْتُمْ
: جب تم واپس جاؤ
تِلْكَ
: یہ
عَشَرَةٌ
: دس
كَامِلَةٌ
: پورے
ذٰلِكَ
: یہ
لِمَنْ
: لیے۔ جو
لَّمْ يَكُنْ
: نہ ہوں
اَھْلُهٗ
: اس کے گھر والے
حَاضِرِي
: موجود
الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
: مسجد حرام
وَاتَّقُوا
: اور تم ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَ
: اور
اعْلَمُوْٓا
: جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
شَدِيْدُ
: سخت
الْعِقَابِ
: عذاب
اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈالے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔ اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل وعیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ۭ ( اور پورا کرو حج اور عمرہ اللہ کے واسطے) یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حج اور عمرہ اور ان کا پورا کرنا اور حج کو عمرہ سے نسخ نہ کرنا جملہ امور واجب ہیں۔ حج پر تو اجماع ہوچکا ہے کہ حج فرض عین محکم غیر قابل نسخ ہے اور اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : واللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلاً (اور اللہ کا فرض ہے لوگوں پر حج کرنا اس کا گھر کا جس کو مقدور ہو اس تک پہنچنے کا) اور رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اوّل گواہی دینا اس امر کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔ دوسرے قائم کرنا نماز کا۔ تیسرے ادا کرنا زکوٰۃ کا۔ چوتھے حج۔ پانچویں روزے رکھنا رمضان کے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور اس مضمون کی بہت حدیثیں ہیں۔ رہا عمرہ سو امام احمد کے نزدیک عمرہ واجب ہے اور امام شافعی کے دو قول ہیں صحیح تر یہی ہے کہ عمرہ واجب ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) سے وجوب مروی ہے اور امام مالک (رح) نے فرمایا ہے کہ عمرہ سنت ہے اور امام ابوحنیفہ کا بھی مذہب مشہور یہی ہے اور امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے کہ سنت ہے جو لوگ سنت کے قائل ہیں ان کے نزدیک تاویل آیت اس طرح ہوگی کہ عمرہ شروع کرلینے سے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے اور حج کی بھی یہی شان ہے امام احمد کے مذہب ( وجوب عمرہ) کی تائید علقمہ اور ابراہیم نخعی (رح) کی قرأت واتموا الحج والعمرۃ اللہ سے ہوتی ہے حضرت علی ؓ کی بھی یہی قرأت ہے اور بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عمرہ واجب ہے۔ چنانچہ چند احادیث نقل کی جاتی ہیں حضرت ابن عباس ؓ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے حوالہ سے تعلیم جبرئیل کی حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ جبرئیل ( علیہ السلام) نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھ کو خبر دیجئے کہ اسلام کیا ہے فرمایا اس امر کی گواہی دینا کہ کوئی معبود سوائے اللہ کے نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور قائم کرنا نماز کا اور ادا کرنا زکوٰۃ کا اور حج وعمرہ کرنا اور جنابت سے غسل کرنا اور وضو کو پورا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا عمرہ کا ذکر اگرچہ صحاح میں نہیں ہے لیکن اور ثقات نے اس کو روایت کیا ہے اور دار قطنی نے اس کو صحیح کہا ہے نیز عمرہ کا ذکر ابوبکر جو سعی نے اپنی کتاب میں کیا ہے اس لیے یہ مقبول ہے اور حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا عورتوں پر بھی جہاد ہے فرمایا ان پر ایسا جہاد ہے کہ اسمیں قتال نہیں وہ حج اور عمرہ ہے اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ضعیف ہیں کہ ان کو ہم ذکر نہیں کرتے ہیں اور اٰثار صحابہ ؓ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمرہ واجب ہے منجملہ ان کے یہ ہے کہ ضبی بن معبد نے حضرت عمر ؓ سے عرض کیا کہ میں نے حج اور عمرہ دونوں کا بہ نیت فرض احرام باند ھ لیا۔ فرمایا تجھے طریقہ رسول اللہ پر چلنے کی توفیق عنایت کردی گئی۔ حضرت ابن عمرکا قول ہے کوئی صاحب مقدور ایسا نہیں کہ حج اور عمرہ اس پر واجب نہ ہو اس اثر کو ابن خزیمہ اور دار قطنی اور حاکم نے روایت کیا، سند اس کی سند صحیح ہے اور بخاری نے تعلیقاً اس کو ذکر کیا ہے اور اسی باب میں حضرت ابن عباس کا اثر ہے کہ اس کو امام شافعی (رح) نے ذکر کیا ہے اور بخاری اسے تعلیقاً لائے ہیں اور جو لوگ عمرہ کے سنت ہونے کے قائل ہیں ان کا حتجاج اور استدلال ان احادیث سے ہے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ مجھے بتائیے کہ عمرہ واجب ہے یا نہیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ واجب نہیں لیکن اگر کرے گا تو تیرے لیے بہتر ہے اس حدیث کو ترمذی اور امام احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے لیکن اس کے راویوں میں حجاج بن الطاۃ راوی مدلس اور متروک ہے ابن مھدی اور عطان اور یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل اور ابن مبارک اور نسائی نے اس کو ترک کردیا ہے ہاں ذہبی نے اس کے بارے میں لفظ صدوق ( سچا) کہا ہے اور ترمذی نے اسی حدیث کو حسن صحیح کہا ہے اور بیہقی نے اسی حدیث کو ایک اور طریق سے روایت کیا ہے اس طریق میں یحییٰ بن ایوب ہے۔ اس کی نسبت امام احمد نے سیء الحفظ ( برے حفظ والا) فرمایا ہے اور ابو حاتم نے لا یحتج بہ ( قابل استدلال نہیں) کے خطاب سے یاد کیا اور ابن عدی صدوق (سچا) فرماتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت جابر ؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ حج اور عمرہ دونوں فریضہ ہیں۔ ابن عدی نے ابن لھیعہ کے طریق سے اس حدیث کو روایت کیا ہے تو اس حدیث اور حدیث گذشتہ میں تعارض ہوگیا لیکن اس آخر کی حدیث میں ابن لھیعہ ضعیف ہے۔ ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص فرض نماز کے واسطے چلا اس کو مثل حج کے ثواب ملے گا اور جو نفل نماز کے لیے چلا اس کو مثل عمرہ کے ثواب ہوگا اس حدیث کو طبرانی نے یحییٰ بن حارث کے طریق سے روایت کیا ہے عبد اللہ بن قانع۔ ابوہریرہ ؓ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ حج جہاد ہے اور عمرہ نفل ہے اس حدیث کو امام شافعی نے ابو صالح حنفی سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اسی مضمون کی حدیث طلحہ بن عبد اللہ اور ابن عباس ؓ سے بھی بیہقی نے روایت کی ہے۔ دارقطنی نے عبد اللہ بن قانع کی نسبت کان یخطی ( چوک جاتا تھا) کہا ہے۔ ترقانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن شیخ تقی الدین نے کبار حفاظ ( بڑے حافظوں) میں شمار کیا ہے اور ابو صالح حنفی جس کا نام ماہان ہے۔ ابن حزم نے اس کی تضعیف کی ہے لیکن ابن ہمام نے کہا ہے کہ اس کا ضعیف ہوناصحیح نہیں ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے اور ایک جماعت نے اس سے احادیث لی ہیں اور طلحہ کی حدیث کی سند میں عمرو بن قیس روی مجروح ہے حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے رہی ابن عباس کی حدیث سو اس کی سند میں بہت سے مجہول راوی ہیں اور عمرہ واجب نہ ہونے میں آثار صحابہ کے بھی ہیں۔ ابن مسعود ؓ نے فرمایا ہے کہ حج فرض ہے اور عمرہ نفل ہے اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ابن ہمام نے کہا ہے کہ عبد اللہ بن مسعود بہت اچھے مقتدا ہیں اس لیے ان کی اقتدا ضروری ہے پس تحقیق یہ ہے کہ اس بارے میں احادیث اور آثار سب متعارض ہیں ابن ہمام نے فرمایا ہے کہ جب تعارض ہوا تو شک سے وجوب ثابت نہ ہوگا اور صاحب ہدایہ نے کہا ہے کہ تعارض کے ہوتے ہوئے فرضیت ثابت نہیں ہوسکتی اور صاحب ہدایہ کا یہ قول نہایت مناسب ہے کیونکہ فرضیت کا مبنی دلیل قطعی پر ہے اس لیے تعارض کے وقت احتیاطاً وجوب کا قائل ہونا بہتر ہے تاکہ تکرار نسخ لازم نہ آئے۔ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ حج کو عمرہ سے فسخ کرنا جائز نہیں ان کی دلیل یہی آیت : واتموا الحج الخ ہے امام احمد فرماتے ہیں کہ حج کو عمرہ سے فسخ کرنا جائز ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ حجۃ الوداع میں صحابہ کا احرام حج کا تھا جناب رسول ﷺ نے سب کو حکم فرمایا کہ حج کو فسخ کرکے عمرہ بنا لیں اور فرمایا کہ تم اپنے حج کے احرام کو عمرہ بنا لو مگر جس نے ہدی کے قلادہ ڈالا ہے وہ فسخ نہ کرے اور دس سے زیادہ احادیث صحیحہ اس پر شاہد ہیں ان سے شک زائل ہوجاتا ہے اور علم حاصل ہوجاتا ہے من جملہ ان احادیث کے یہ ہے کہ ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھ کو جناب رسول اللہ ﷺ نے یمن میں میری قوم کے پاس بھیجا جب میں وہاں سے واپس ہو کر آیا تو دیکھا کہ حضور ﷺ بطحا میں تشریف رکھتے ہیں فرمایا تم نے کا ہے کی نیت کی ہے ؟ میں نے عرض کیا جو حضور ﷺ نے نیت کی ہے وہی میری ہے پھر فرمایا کہ تمہارے پس ہدی ہے میں نے عرض کیا نہیں پھر میں نے حضور کے حکم سے بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کیا طواف کرکے حلال ہوگیا پھر ترویہ کے روزحج کا احرام باندھا پھر جب حضرت عمر کا زمانہ ہوا تو فرمایا کہ ہم کتاب اللہ پر عمل کریں گے اللہ تعالیٰ نے اتمام کا حکم فرمایا چناچہ فرمایا : واتموا الحج والعمرۃ اللہ اور حضور ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہیں چناچہ آپ نے ہدی کی قربانی ہونے تک احرام نہیں کھولا۔ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ صحابہ ؓ نے صرف حج کا احرام باندھا تھا پھر جناب رسول اللہ نے فرمایا کہ بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کرکے اپنے احرام کھول دو اور بال کتراؤ پھر حلال ہو کر مقیم رہو اور ابن عباس ؓ کی حدیث میں ہے کہ صحابہ کو آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ حج کو عمرہ بنالیں اور حضرت عائشہ ؓ و حضرت حفصہ ؓ سے بھی اسی مضمون کی حدیثیں مروی ہیں اور ان میں اتنازیادہ ہے کہ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ آپ ہمارے ساتھ کیوں نہیں احرام کھولتے فرمایا میں نے اپنی ہدی کے قلادہ ڈالا ہے اس لیے میں نحر کرنے تک حلال نہیں ہوتا اور ابن عمر ؓ سے اسی مضمون کی حدیث مروی ہے اور یہ چھ حدیثیں صحیحین میں ہیں۔ مسلم نے ابو سعید خدری ؓ کی روایت بیان کی ہے کہ ہم نکلے اور حج کی لبیک پکارتے تھے حتیٰ کہ جب میں نے بیت اللہ کا طواف کیا تو رسول اللہ نے فرمایا کہ عمرہ بنالو لیکن جس کے پاس ہدی ہے وہ اپنے حال پر رہے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں حلال ہوجاتا اسی مضمون کی احادیث حصرت براء بن عازب اور بیع بن صبرہ ؓ سے مروی ہیں ہم نے منار الاحکام میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ آیت واتموا الحج والعمرۃ ..... قطعی ہے اور قطعی کی تخصیص اور نسخ احادیث احاد سے جائز نہیں تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ یہ احادیث بسبب کثرت شہرت کے اس حد تک پہنچی ہیں کہ اس واقعہ کا انکار نہیں ہوسکتا آیت : واتموا الحج آیت فان احصرتم سے عام مخصوص بعض ہے علاوہ اس کے یہ بھی ہے کہ واتموا کے عمومی حکم سے جناب رسول اللہ نے اس شخص کو مخصوص فرمایا ہے جس کا حج فوت ہوگیا ہو اور عمرہ کے افعال سے اس کے لیے حج سے نکلنے کی اجازت فرمائی ہے اور اس پر اجماع منعقد ہے پس معلوم ہوا کہ یہ آیت ظنی الدلالۃ ہے اور خبر واحد سے اس کی تخصیص جائز ہے اور جمہور نے امام احمد کے دلائل کا یہ جواب دیا ہے کہ فسخ حج جو ان احادیث سے مفہوم ہوتا ہے یہ صحابہ ؓ کے ساتھ خاص ہے اور خصوصیت کی دلیل یہ ہے کہ بلال بن حارث ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ فسخ حج خاص ہمارے ہی لیے ہے یا سب کے واسطے فرمایا نہیں بلکہ خاص ہمارے واسطے ہے اس حدیث کو ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا حضرت عمر ؓ سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ حج اور عمرہ میں فصل کرو کہ حج کو حج کے مہینوں میں ادا کرو اور عمرہ کو ان مہینوں کے علاوہ اس طرح تمہارا حج اور عمرہ پوری طرح ادا ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ غالباً یہ اس کا بیان ہے جو حضرت عمر ؓ کے نزدیک افضل ہے علامہ ابن جوزی نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کو سوائے عبد العزیز بن محمد داروردی کے کسی نے روایت نہیں کیا اور ابو حاتم نے کہا ہے کہ یہ حدیث قابل استدلال نہیں اور امام احمد فرماتے ہیں کہ کوئی حدیث صحیح اس مضمون کی نہیں ہے فسخ حج خاص صحابہ ؓ کے لیے تھا میں کہتا ہوں کہ عمر ؓ بن خطاب فرماتے ہیں کہ زمانہ رسول اللہ میں دو متعہ تھے ( ایک تو متعہ حج یعنی حج کو فسخ کرنا جو یہاں مراد ہے دوسرے متعہ نکاح جو بالاتفاق حرام ہے) میں ان کو حرام کرتا ہوں یعنی وہ حرمت جو رسول اللہ سے میرے نزدیک ثابت ہے اس کو ظاہر کرتا ہوں پس حضرت عمر ؓ کے اس قول سے وہ احادیث سب قابل العمل نہیں رہیں اگر یہ قول نہ ہوتا تو بیشک بلال ؓ کی حدیث ان احادیث کے دفع کے لیے کافی نہ تھی کیونکہ بظار ضعیف ہے لیکن حضرت عمر کا قول اس حدیث کی صحت پر معنی دلالت کرتا ہے۔ حضرت عثمان ؓ سے کسی نے متعہ حج کے متعلق سوال کیا فرمایا متعہ حج ہمارے لیے تھا تمہارے لیے نہیں۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے بسند صحیح روایت کیا ہے اگر فسخ کا اختصاص صحابہ کے ساتھ حضرت عمر ؓ و عثمان ؓ کے نزدیک ثابت نہ ہوتا تو یہ دونوں جناب رسول اللہ کے حکم کی کبھی مخالفت نہ فرماتے اور حضرت عمر ظنی الدلالۃ آیت سے اپنی سنی ہوئی حدیث کے مقابلہ میں کبھی استدلال نہ کرتے اور حضرت عثمان و عمر ؓ کے قول میں متعہ جو لفظ آیا ہے اس سے عمرہ سے حج کا فسخ کرنا مراد ہے تمتع جو قرآن پاک سے ثابت ہے وہ مراد نہیں اس کی مشروعیت پر تو اجماع منعقد ہے چناچہ جب غبی بن معبد ؓ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تو حضرت عمر ؓ نے ان کو فرمایا کہ تجھے اپنے نبی کی سنت کی توفیق مل گئی اس حدیث کو ابو داؤد (رح) نے روایت کیا ہے۔ ایک شخص نے حج کی نیت کی تھی پھر عمرہ سے اس کو فسخ کردیا تو حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا یہ فسخ ان ہی لوگوں کے واسطے تھا جو جناب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے یہ قول ابوذر کا بھی بلال بن حارث کی حدیث گذشتہ کا موید ہے دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا متعہ تو خاص ہمارے لیے تھا۔ علامہ ابن جوزی نے فرمایا ہے کہ ابوذر ؓ کے اس اثر کو کوفہ کے ایک ایسے شخص نے روایت کیا ہے کہ وہ ابوذر ؓ سے نہیں ملا۔ میں کہتا ہوں کہ اس سے اس اثر میں کوئی قدح نہیں کیونکہ اس تقدیر پر یہ اثر مرسل ہوگا اور مرسل ہمارے نزدیک حجت ہے وا اللہ اعلم۔ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ ( پھر اگر تم روک لیے جاؤ) یعنی اگر تم حج سے یا اس عمرہ سے جس کی تکمیل کا تم کو حکم دیا گیا ہے روکے جاؤ۔ علماء نے اتفاق کیا ہے کہ یہ آیت حدیبیہ کے قصہ میں نازل ہوئی ہے اور یہ امر ثابت ہے کہ جناب رسول اللہ کا حدیبیہ کے سال میں عمرہ کا احرام تھا اس کے بعد آپ ﷺ روک لیے گئے پھر آپ حلال ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام مالک (رح) نے جو فرمایا ہے کہ احصار ( روکنا حج یا عمرہ سے) حج کے ساتھ خاص ہے عمرہ کی احصار سے حلال ہونا جائز نہیں یہ قول صحیح نہیں۔ احصرتم کے معنی یہ ہیں کہ اے مسلمانو ! اگر تم مسلمان یا کافر دشمن کی وجہ سے یا مرض یا خرچ کے فنا ہونے یا عورت کے لیے محرم کے مرجانے کے سبب سے بیت اللہ تک پہنچنے سے روکے جاؤ۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے حصار کی یہی تفسیر کی ہے کیونکہ احصار اور حصر کے معنی لغت میں منع ( روکنا) ہے اب اس روکنے کا خواہ کچھ سبب ہو بلکہ اکثر استعمال تو اس لفظ کا اسی روکنے میں ہے جو مرض کی وجہ سے ہو۔ فراء اور کسائی اور اخفش اور ابو عبیدہ اور ابن سکیت اور دیگر اہل لغت سے منقول ہے کہ احصار کا استعمال تو اس روکنے میں ہے جو مرض کے سبب سے ہو اور حصر کا استعمال اس رکاوٹ میں ہے جو دشمن کے سبب سے ہو۔ ابو جعفر نحاس نے کہا ہے کہ تمام اہل لغت کا اس پر اجماع ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اہل لغت کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اکثر استعمال اس طرح ہے یہ مطلب نہیں کہ احصار کا استعمال مرض کے ساتھ اور حصرکا دشمن کے ساتھ خاص ہے اگر یہ مطلب ہوتا تو یہ اعتراض لازم آتا کہ آیت فان احصرتم دیکھو قصہ حدیبیہ میں نازل ہوئی ہے اور وہاں مرض کی وجہ سے نہیں رکے تھے۔ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ حصر اور احصار ہم معنی ہیں چناچہ عرب بولتے ہیں حصرت الرجل عن حاجتہ ( روکا میں نے اس شخص کو اس کی حاجت سے) اور احصرہ العدودشمن نے چلنے سے روک دیا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ آیت اپنے عموم لفظ سے امام ابوحنیفہ کی دلیل ہے اور امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد جو فرماتے ہیں کہ حصر دشمن سے ہی ہوتا ہے ان پر یہ آیت حجت ہے اور امام شافعی (رح) نے حصرحدیبیہ کو بسند صحیح ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے اس لیے ائمہ ثلاثہ کا قول ہے کہ یہ آیت دشمن کے ہی روکنے میں نازل ہوئی ہے۔ ہم جواب میں کہتے ہیں کہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے نزول کے سبب خاص کا اعتبار نہیں اگر کوئی کہے کہ سیاق آیت سے تو تخصیص مفہوم ہوتی ہے چناچہ آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : فاذا امنتم ( جب امن میں ہو تم) اور امن خوف سے ہی ہوتا ہے تو ہم اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اس تقریر سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ احصار دشمن سے ہی ہوتا ہے بلکہ اس سے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ دشمن سے جو روک ہو وہ بھی احصار ہے جیسے کہ آیت کریمہ : والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلٰثۃ قروء ( وہ عورتیں جن کو طلاق دی گئی ہے روکے رکھیں اپنے آپ کو تین حیض) اور آیت کریمہ : وبعولتھن احق بردھن ( اور ان کے شوہر زیادہ حقدار ہیں ان کے لوٹالینے کے) اس پر دال نہیں ہیں کہ مطلقات سے مراد فقط رجعی طلاق دی ہوئی عورتیں ہیں بلکہ اس پر دال ہے کہ رجعی طلاق والیاں بھی المطلقات میں داخل ہیں مرض کے سبب سے احصار کے ثبوت کی دلیل 1 یہ ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ ضباعۃ بنت زبیر کے پاس تشریف لائے اور پوچھا کہ تو نے حج کا ارادہ کیا ہے ضباعہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں تو بیمار ہوں (یعنی بوجہ مرض اندیشہ ہے کہ شاید حج کو تمام نہ کرسکوں) فرمایا نہیں حج کر اور شرط کرلے یہ کہہ دے کہ اے اللہ جس جگہ مرض کی وجہ سے تو مجھ کو روک دے گا وہی میرے حلال ہونے کی جگہ ہوگی۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور مسلم نے ضباعہ کے قصہ کو ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے اور ابو داؤد اور نسائی کی روایت اس طرح ہے کہ ضباعہ ؓ جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا یارسول اللہ میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں کیا مشروط ارادہ کرسکتی ہوں فرمایا ہاں ! ضباعہ نے عرض کیا کس طرح کہوں فرمایا اس طرح کہو : لبیک اللّٰھم لبیک محلی من الارض من حیث تحبسنی ( یعنی میں حاضر ہوں ‘ اے اللہ میں حاضر ہوں۔ زمین کے جس حصہ میں تو مجھ کو روکے وہ ہی میرے حلال ہونے کی جگہ ہے) اس کہہ لینے سے تجھ کو اختیار ہوجائے گا کہ جہاں مرض کی وجہ سے آگے نہ جاسکے وہاں حلال ہوجائے اس حدیث کو ترمذی نے صحیح کہا ہے لیکن مرسل ہے۔ عقیلی نے فرمایا ہے کہ ابن عباس ؓ سے ضباعہ کا قصہ باسانید صحیحہ جیدہ مروی ہے اور ابن خزیمہ نے خود ضباعہ ہی سے اس کو روایت کیا ہے اور بیہقی نے انس اور جابر ؓ سے اس قصہ کو روایت کیا ہے اور اسی حدیث سے امام احمد اور شافعی (رح) نے مستنبط کیا ہے کہ اگر شرط کرلے تو اگرچہ احصار دشمن سے نہ ہوا ہو تب بھی حلال ہونا جائز ہے حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عمار، حضرت ابن مسعود، حضرت عائشہ، اور حضرت ام سلمہ وغیرہم ؓ سے بھی شرط کرنا ثابت ہے۔ علامہ ابن جوزی نے فرمایا ہے کہ اگر مرض ہی حلال ہونے کو مباح کرنے والا ہے تو پھر شرط کرنا لغو ہے۔ حدیث ضباعہ کا ہم جواب دیتے ہیں کہ یہ حدیث خبر واحد ہے اس لیے آیت کے معارض نہیں ہوسکتی اور بعض نے یہ جواب دیا ہے کہ شرط کرنا منسوخ ہے چناچہ ابن عباس ؓ سے ایک حدیث مروی ہے اس سے منسوخ ہونا ظاہر ہے لیکن اس حدیث میں حسن بن عمارہ راوی متروک ہے میرے نزدیک حدیث ضباعہ کے یہ معنی ہیں کہ یہ حدیث استحباب پر محمول ہے جس شخص کو یہ خوف ہو کہ میں مریض ہوجاؤں گا یا اور کسی عذر کا خیال ہو تو مستحب ہے کہ احرام کے وقت شرط کرلے تاکہ خلاف وعدہ لازم نہ آئے اگرچہ عذر کی وجہ سے یہ خلاف وعدہ جائز ہے اور امام بو حنیفہ (رح) کے مذہب کی تائید عکرمہ کا وہ قول کرتا ہے جو حجاج بن عمرو انصاری سے مروی ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جسکا کوئی عضو شکستہ ہوجائے یا لنگڑا ہوجائے (حالت احرام میں) وہ حلال ہوگیا اور آئندہ سال اس کے ذمہ ایک حج ہے۔ اس حدیث کو ترمذی اور ابو داؤد اور نسائی اور ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے لیکن علامہ بغوی نے اس کی تضعیف کی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس کو ضعیف کہنے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہیں کہ اس کی سند میں یحییٰ بن کثیر پر اکر اختلاف ہوا ہے اور حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ صحیح یہی ہے کہ اس حدیث کو یحییٰ نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے حجاج سے روایت کیا ہے اس کے آخر میں اتنا زیادہ ہے کہ عکرمہ کہتے ہیں میں نے ابوہریرہ ؓ اور ابن عباس ؓ سے اس حدیث کی نسبت پوچھا تو فرمایا حجاج نے سچ کہا ہے اور یحییٰ القطان کی روایت میں عکرمہ نے حجاج سے بلفظ سماع روایت کیا ہے ( یعنی یہ کہا ہے کہ میں نے حجاج سے سنا ہے) اور ابو داوٗد اور ترمذی نے عکرمہ اور حجاج کے درمیان میں عبد اللہ بن رافع کو زیادہ کیا ہے۔ اور ترمذی نے فرمایا ہے کہ اس زیادتی پر معاویہ بن سلام نے معمر کی متابعت کی ہے اور میں نے محمد یعنی بخاری سے سنا ہے کہ وہ فرماتے ہیں تھے کہ معمر اور معاویہ کی حدیث اصح ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ زیادتی صحت حدیث کے منافی نہیں اس لیے کہ اگر عکرمہ نے خود حجاج سے سنا ہے تو فھوا المراد ورنہ عبد اللہ بن رافع جو واسطہ ہیں وہ بھی ثقہ ہیں اگرچہ بخاری نے خود ان کے واسطہ سے روایت نہیں کیا۔ حافظ نے اسی طرح کہا ہے میں کہتا ہوں کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ عکرمہ نے حجاج سے بلا واسطہ اس حدیث کو سنا ہو اور بواسطہ عبد اللہ بن رافع بھی حاصل کیا ہو اللہ اعلم اور ہمارا مذہب حصرت ابن مسعود ؓ سے بھی مروی ہے۔ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ( تو جو کچھ ہو سکے قربانی بھیجو) یہ یا تو مبتدا ہے اور خبر محذوف ہے تقدیر عبارت کی اس طرح ہے : فَعََلَیْکُمْ مَا اسْتَیْسَرَ .... یا مبتدا محذوف کی خبر ہے اور تقدیر اس طرح ہے الواجب ما استیسر .... اور یا فعل محذوف کا مفعول اس کو مانا جائے یعنی اھدوا ما استیسرا ... ہدی یا اونٹ ہے یا گائے یا بکری اور بکری ادنیٰ درجہ ہے یہ آیت امام مالک پر حجت ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ محصر پر ہدی واجب نہیں اور جو لوگ ہدی کے واجب ہونے کے قائل ہیں ان میں اختلاف ہے امام شافعی سے تو ایک روایت یہ ہے کہ اگر ہدی نہ ملے تو بکری کی قیمت کا کھانا مساکین کو کھلا دے اور اگر اس کا بھی مقدور نہ ہو تو ہر ایک مد غلہ کے عوض ایک دن روزہ رکھے شافعی نے اس کو دم جنایتہ پر قیاس فرمایا ہے اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں اور ایک روایت امام شافعی سے بھی یہی ہے کہ بجز ہدی کے اور کچھ جائز نہیں کیونکہ بدلہ کا مقرر کرنا رائے اور قیاس سے جائز نہیں اور دم احصار کو دم جنایت پر بسبب فرق ہونے کے قیاس نہیں کرسکتے۔ وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهٗ ( اور نہ منڈاؤ اپنے سر یہاں تک کہ پہنچ جائے قربانی اپنے ٹھکانے) محلہ کی تفسیر میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ محل ہدی سے مراد حرم ہے کیونکہ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ثم محلھا الی البیت العتیق ( پھر ہدی کے اترنے کی جگہ بیت اللہ ہے) اور اس لیے کہ خون بہانا فی نفسہٖ تو رعبادت نہیں ہے کسی زمانہ خاص یا مکان خاص میں ہو تو اس وقت یہ عبادت ٹھہرایا جائے گا اس لیے اگر حرم میں ذبح نہ ہو تو عبادت نہ ہوگا اور جب ذبح عبادت نہ ہوا تو محصر حلال نہ ہوگا اس لیے واجب یہ ہے کہ محصرہدی کو حرم میں بھیجے اور ذبح کے لیے کوئی دن مقرر کردے کہ فلاں دن ذبح کردینا جب وہ دن آئے محصر حلال ہوجائے گا ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ذبح کے لیے دسویں تاریخ کا ہوناضروری نہیں اور امام ابو یوسف اور محمد (رح) فرماتے ہیں کہ اگر حج سے روکا گیا ہے تو دسویں ہی تاریخ جو یوم نحر کہلاتا ہے ذبح کرے اس بنا پر ان کے نزدیک دن معین کرنے کی ضرورت نہیں اور امام مالک اور شافعی اور احمد (رح) نے فرمایا ہے محلہ سے وہ موضع مراد ہے جہاں وہ روکا گیا ہے خواہ وہ جگہ حرم ہو یا حرم سے باہر کیونکہ قصہ حدیبیہ میں مسور بن مخرمہ سے وایت ہے کہ جب عہد نامہ کے لکھنے سے فراغت ہوئی تو جناب رسول اللہ نے اپنے اصحاب ؓ سے فرمایا کہ اٹھو نحر کرو پھر بال منڈواؤ حضور ﷺ نے تین بار یہ کلمات فرمائے لیکن کوئی اپنی جگہ سے نہ اٹھا۔ (1) [ وجہ اس کی یہ تھی کہ یہ صلح صحابہ ؓ کو ناگوار ہوئی تھی سب یہ کہتے تھے کہ مغلوب ہو کر کیوں صلح کریں۔] حتی کہ خود حضور ﷺ نے اپنے اونٹ کو نحر کیا اور حجام کو بلا کر سر منڈایا جب لوگوں نے یہ دیکھا تو اٹھے اور نحر کیا اور آپس میں ایک دوسرے کا سر مونڈا اور غم کی وجہ سے یہ حالت تھی کہ گویا ایک دوسرے کو قتل کرتا تھا اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے اور یعقوب بن سفیان نے مجمع بن یعقوب کے طریق سے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ جب جناب سرور کائنات ﷺ اور آپ کے اصحاب روکے گئے تو حدیبیہ میں سب نے نحر کیا اور سر منڈایا اور اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا بھیجی کہ اس نے سب کے بالوں کو حرم میں جا کر ڈال دیا اور امام مالک (رح) نے موطا میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ اور آپ کے اصحاب ؓ حدیبیہ میں حلال ہوئے تو ہدی کا نحر کی اور سروں کو منڈایا اور ہر شے سے حلال ہوگئے۔ امام مالک اور شافعی (رح) نے فرمایا ہے کہ حدیبیہ حرم سے باہر ہے۔ حنفیہ نے اس کا دو طرح سے جواب دیا ہے اوّل یہ کہ جناب رسول اللہ نے اپنی ہدی حرم میں ناجیہ بن جندب اسلمی ؓ کے ہاتھ بھیجی تھی اس حدیث کو امام طحاوی اور نسائی نے ناجیہ سے روایت کیا ہے دوسرے یہ کہ حدیبیہ کا بعض حصہ تو حل میں ہے اور بعض حصہ حرم میں چناچہ طحاوی نے مسور سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ کا حدیبیہ میں خیمہ تو حل میں تھا اور مصلّٰے حرم میں جب یہ امر ثابت ہوگیا تو ظاہر یہ ہے کہ حرم میں ہی نحر کیا ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ ناجیہ کی حدیث شاذ اور مشہور کی مخالف ہے اور اگر اس کا ثبوت بھی ہوجائے تو دونوں روایتوں کی تطبیق کے لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنی بعض ہدی حرم میں بھیج دی ہوں اور بعض کا حل میں نحر کیا ہو اور نیز آیت : ھم الذین کفروا وصدوکم عن المسجد الحرام والھدی معکوفاً ان یبلغ محلہ ( یہ لوگ وہ ہی تو ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو روکامسجد حرام سے اور قربانی کے جانور کو روکا کہ وہ رکی کھڑی رہے نہ پہنچنے پائے اپنی جگہ) سے بھی یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہدی اپنی جگہ نہیں پہنچی اور یہ بھی اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہدی کی جگہ حرم ہی ہے اس لیے بہتر جواب یہی ہے کہ بخاری نے ابن عباس ؓ سے تعلیقاً روایت کیا ہے کہ محصر اگر ہدی کو حرم میں بھیجنے کا مقدور نہ رکھتا ہو تو جہاں کہیں روکا جائے نحر کردے اور اگر ہو سکے تو اس پر بھیجنا واجب ہے اس تقدیر پر آیت : وَلَا تحلقوا رؤسکم حتی یبلغ الھدی محلہ کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر تم سے ہو سکے تو ہدی کے اس کی جگہ پہنچنے تک سر مت منڈاؤ اور یہ آیت عام ہوگی لیکن بعض افراد جناب رسول اللہ کے فعل سے اور آیت : والھدی معکوفا ..... سے مخصوص ہوں گے۔ وا اللہ اعلم اگر کوئی یہ کہے کہ ابو داؤد نے محمد بن اسحاق سے محمد بن اسحاق نے عمرو بن میمون سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو حاضر حمیری سے سنا ہے کہ وہ ابو میمون بن مھران سے یوں بیان کرتے تھے کہ جس سال اہل شام نے مکہ میں ابن زبیر ؓ کا محاصرہ کیا تھا اسی سال میں بھی عمرہ کرنے کے لیے گیا اور میری قوم کے چند لوگوں نے میرے ساتھ ہدی کردی تھیں کہ ان کو حرم میں ذبح کردینا جب ہم یہاں آئے تو اہل شام نے ہم کو حرم میں گھسنے سے روکا میں نے ہدی کو اسی جگہ نحر کیا پھر حلال ہو کر وہاں سے واپس ہوگیا جب سال آئندہ عمرہ قضا کرنے آیا تو ابن عباس ؓ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا انہوں نے فرمایا کہ ہدی کے عوض دوسری ہدی بھیج دو کیونکہ جناب رسول اللہ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا تھا کہ جو ہدایا تم نے حدیبیہ میں نحر کی تھیں ان کے عوض دوسری قربانیاں کرو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم سے باہر نحر کرنا جائز نہیں اور اگر کردیا تو اعادہ کرنا چاہئے۔ میں کہتا ہوں کہ محمد بن اسحاق راوی اس کی سند میں مختلف فیہ ہے اور اس حدیث پر تمام امت نے عمل ترک کیا ہے کوئی اس کا قائل نہیں اس مقام پر اور مسائل میں بھی اختلاف ہے چند مسئلے ہم ذکر کرتے ہیں۔ مسئلہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک قران کرنے والے پر دو دم واجب ہیں کیونکہ اس کے دو احرام ہیں ایک حج کا اور ایک عمرہ کا اور جمہور تو یہ کہتے ہیں کہ احرام ایک ہے اس لیے ایک ہی دم کافی ہے۔ فان احصرتم فما استیسر من الھدی کا عموم جمہور کے قول کی تائید کرتا ہے۔ مسئلہ اس میں اختلاف ہے کہ جب کوئی حج یا عمرہ سے روکا گیا تو آیا محض اس رکنے ہی سے وہ حلال ہوگیا یا حلال ہونے کی نیت کے ساتھ ذبح کرلینا بھی ضروری ہے یا نیت اور ذبح اور سر منڈانا تینوں لازم ہیں تیسرا قول امام شافعی اور جمہور کا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ روکے جانے سے حج کے افعال ساقط ہوگئے احرام کے افعال باقی ہیں حلق ( سر منڈانا) شرع میں محلل ( حلال کرنے والا) قرار دیا گیا ہے اس لیے بغیر حلق کے حلال نہ ہوگا اور حلق کا بحیثیت محلل ہونے کے حرم کے ساتھ مقیدہونا ثابت نہیں حلق ( سر منڈانا) یا قصر (کتروانا) کے واجب ہونے اور حلق کے اولیٰ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حدیبیہ کے دن جناب رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؓ اور کترنے والوں پر بھی آپ ﷺ نے پھر فرمایا منڈانے والوں پرا اللہ رحمت فرمائے صحابہ نے پھر عرض کیا کترانے والوں پر بھی تیسری مرتبہ میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ کترانے والوں پر بھی اس حدیث کو طحاوی نے ابن عباس اور ابو سعید ؓ سے روایت کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) و محمد (رح) فرماتے ہیں کہ اگر حرم میں روکا گیا تو حلق واجب ہے اور اگر حل میں روکا گیا تو واجب نہیں کیونکہ حلق کا عبادت ہونا خاص زمانہ یا مکان کے ساتھ مخصوص ہے کافی میں اسی طرح ہے اور ہدایہ میں ہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد کے نزدیک حلق واجب نہیں ذبح ہی سے حلال ہوجاتا ہے اور امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک حلق لازم ہے کیونکہ نبی ﷺ نے حدیبیہ کے سال اس کا حکم فرمایا تھا لیکن اگر حلق نہ کیا تب بھی کچھ حرج نہیں۔ ( یعنی دم وغیرہ اس کے ذمے واجب نہیں) فقط ذبح ہی سے حلال ہوجائے گا اور امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ صرف حصار سے حلت احرام ہوجاتی ہے ذبح واجب نہیں۔ یہ آیت امام مالک کے خلاف حجت ہے دلیل امام مالک کی یہ ہے کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن ہم سے رسول اللہ نے فرمایا کہ ایک ہدی کے اندر سات تک شریک ہوجائیں۔ اس حدیث کو دارقطنی (رح) نے روایت کیا ہے اور شیخین نے جابر ؓ سے اس طرح روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے 6 ھ میں عمرہ کا احرام باندھا۔ آپ کے ہمراہ ایک ہزار چار سو آدمی تھے۔ اب ان دونوں حدیثوں کے ملانے سے یہ امر معلوم ہوا کہ ہدی ہر محصر پر واجب نہیں اور صرف نیت سے احرام کھل جاتا ہے ذبح کی ضرورت نہیں کیونکہ ستر اونٹ پانسو آدمیوں کو بھی کافی نہیں تو اور باقی آدمی بغیر ہدی کے رہ گئے۔ میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے کہ اور لوگوں نے بکریاں ذبح کی ہوں اور علاوہ ازیں یہ ہے کہ یہ امام مالک کا استدلال نص قطعی کے مقابلہ میں خبر واحد سے ہے اس لیے مقبول نہیں۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top