Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 286
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ؕ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ١ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ١ۚ وَ اعْفُ عَنَّا١ٙ وَ اغْفِرْ لَنَا١ٙ وَ ارْحَمْنَا١ٙ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠   ۧ
لَا يُكَلِّفُ : نہیں تکلیف دیتا اللّٰهُ : اللہ نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی گنجائش لَهَا : اس کے لیے مَا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَعَلَيْهَا : اور اس پر مَا اكْتَسَبَتْ : جو اس نے کمایا رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُؤَاخِذْنَآ : تو نہ پکڑ ہمیں اِنْ : اگر نَّسِيْنَآ : ہم بھول جائیں اَوْ : یا اَخْطَاْنَا : ہم چوکیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تَحْمِلْ : ڈال عَلَيْنَآ : ہم پر اِصْرًا : بوجھ كَمَا : جیسے حَمَلْتَهٗ : تونے ڈالا عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تُحَمِّلْنَا : ہم سے اٹھوا مَا : جو لَا طَاقَةَ : نہ طاقت لَنَا : ہم کو بِهٖ : اس کی وَاعْفُ : اور در گزر کر تو عَنَّا : ہم سے وَاغْفِرْ لَنَا : اور بخشدے ہمیں وَارْحَمْنَا : اور ہم پر رحم اَنْتَ : تو مَوْلٰىنَا : ہمارا آقا فَانْصُرْنَا : پس مدد کر ہماری عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
(بلاشبہ) اللہ کسی پر اس کی ہمت و طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، اس کی کمائی کا نفع بھی اسی کے لئے ہے اور اس کے کئے کا وبال بھی اسی پر ہے۔ اے ہمارے پروردگار اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہوجائے تو اس پر آپ ہم سے مواخذہ نہ کیجئے گا۔ اے ہمارے پروردگار اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہوجائے تو اس پر آپ ہم سے مواخذہ نہ کیجئے گا۔ اے ہمارے پروردگار ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالئے گا جو ہم نے پہلے والے لوگوں پر آپ نے ڈالے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوائیے گا جو ہماری طاقت و قوت سے باہر ہوں۔ ہم سے درگذر فرمائیے۔ ہم سب کو بخش دیجئے۔ اے ہمارے مالک ہم پر رحم فرمائیے اور کافروں کی قوم پر ہماری نصرت و مدد فرمائے گا ۔ آمین۔
سورة بقرہ اور چالیس اصول زندگی سورة بقرہ میں قوم بنی اسرائیل، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور امت محمدیہ ﷺ کا ذکر کرنے کے بعد وہ چالیس اصول زندگی ارشاد فرمائے ہیں جو عبادت و بندگی، تہذیب و تمدن ، عدل و انصاف ، معاشرت اور معیشت ۔ دنیا اور آخرت کے اہم معاملات کی بہترین بنیاد ہیں۔ گویا اس میں اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ اگر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی امت نے ان اصولوں کو سامنے رکھا اور ان پر پوری طرح عمل کیا تو بنی اسرائیل کی طرح وہ دنیا اور آخرت میں ہر طرح کے نقصانات اٹھانے سے بچ جائیں گے۔ کیونکہ بنی اسرائیل کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ بےاصول زندگی تھی وہ باتیں زیادہ کرتے اور عمل کم کرتے تھے۔ وہ چالیس اصول کون سے ہیں ؟ ان کی تفصیل عرض ہے۔ (1): صبر اور صلوٰۃ وسیلہء نجات : صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے جو بھی مانگا جائے گا وہ ضرور ملے گا اس میں اللہ کی طرف سے دیر ہو سکتی ہے مگر اس کے گھر میں اندھیر نہیں ہے۔ صبر کے معنی ہیں ڈٹ جانا اور برداشت کرنا۔ ایک مومن اللہ کی رضا اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے جب ڈٹ جاتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو وہ اس عظیم مقصد کے لئے اپنی جان تک دے دیتا ہے تو وہ کبھی نہیں مرتا بلکہ اس کو مروہ کہنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ وہ اپنے اس صبر کے ذریعہ اللہ کی رحمت کے سائے میں اس طرح حیات جاوید انی (ہمیشہ کی عزت والی زندگی) حاصل کرلیتا ہے جہاں زندگی بھی اس پر نازل کرتی ہے۔ نماز اللہ کی افضل ترین عبادت ہے اسی لئے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو کس طرح کی شدید پریشانی ہوتی تو آپ فوراً نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے۔ درحقیقت صبر اور صلوٰۃ مسلمانوں کے وہ ہتھیار ہیں جن سے وہ دنیا اور آخرت کے ہر میدان میں فتح اور کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور اللہ بھی ایسے ہی بندوں کے ساتھ ہوتا ہے جو صبر و صلوٰۃ کے ذریعہ اس سے ہر طرح کی مدد مانگتے ہیں۔ (2): اللہ کے شعائر : شعائر (شعیرہ کی جمع ہے) نشانیاں۔ اصل میں نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے کفار مکہ نے صفا اور مروہ پر “ اساف اور نائلہ ” نام کے دو بت رکھے ہوئے تھے جنہیں وہ سعی کے دوران چومتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جب بیت اللہ کو تمام بتوں سے پاک کردیا گیا تو کچھ مسلمان صفا اور مروہ کی سعی نہیں کرتے تھے کہ کہیں ہم گناہ گار نہ ہوجائیں کیونکہ صفا اور مروہ پر کفار بتوں کی تعظیم کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صفا اور مروہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تم اس کی اس طرح تعظیم اور عزت کرو اور سعی کرو جس طرح تم بیت اللہ، مقام ابراہیم، قرآن کریم اور زمزم کو اللہ کی نشانیاں سمجھ کر ان کی تعظیم کرتے ہو۔ (3): علوم ہدایت کو نہ چھپانا : یہود و نصاریٰ ان تمام باتوں کو چھپا لیتے تھے جن میں دین اسلام کی سچائی اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تشریف آوری کی خوش خبریاں دی گئی تھیں اور انہوں نے تمام ان علوم کو چھپا لیا تھا جن سے قوم کی اصلاح ہو سکتی تھی۔ دین ان کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گیا تھا ۔ ایسے لوگوں کے لئے فرمایا کہ وہ انتہائی لعنت کے قابل ہیں جو اپنی ذاتی اغراض اور دنیا کے گھٹیا سے نفع کے لئے سچائی کی باتوں کو چھپاتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر ایسے لوگ توبہ کئے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو نہ صرف دنیا میں اللہ کی اور اس کے فرشتوں کی لعنت برسے گی بلکہ وہ لعنت کرنے والے تمام لوگوں کی لعنت کے مستحق بن جائیں گے اور آخرت میں اس کا قابل نہ رہیں گے کہ اللہ ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھے۔ (4): اللہ نے اپنی پہچان کی بیشمار نشانیاں بنائی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر ایک آدمی اپنے پیدا کرنے والے خالق حقیقی تک آسانی سے پہنچ سکتا ہے مگر بعض بد قسمت لوگ وہ ہیں کہ جنہوں نے اپنے خالق کی پیدا کی ہوئی چیزوں ہی کو اپنا معبود اور مشکل کشا بنا لیا ہے اور وہ لوگ ان چیزوں کی محبت میں دیوانے ہوئے جا رہے ہیں۔ حالانکہ اس شوق محبت اور دیوانگی کا حق صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہونا چاہئے تھا فرمایا وہ وقت کس قدر حسرت اور افسوس کا ہوگا جب ان کے جھوٹے معبود ان سے اپنا منہ پھیر کر ان کا ساتھ نہ دیں گے۔ شدید ترین عذاب سامنے ہوگا اور تمام سہارے ٹوٹ چکے ہوں گے۔ وہ نہایت مایوسی اور حسرت سے کہیں گے الٰہی ! اگر ہمیں ایک مرتبہ پھر دنیا میں جانے کی اجازت دے دی جائے تو ہم ان جھوٹے معبودوں سے اسی طرح نفرت اور بیزاری کا اظہار کریں گے جس طرح آج یہ ہمیں نظر انداز کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس وقت فرمائیں گے کہ اب تمہیں دوبارہ دنیا میں جانے کی اجازت نہیں ہے اور آج تم جس حسرت اور افسوس کا اظہار کر رہے ہو وہ تمہیں جہنم کی آگ سے نہ بچا سکے گا۔ (5): حرام، حلال اور پاکیزہ چیزیں : مومن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے اور شیطان کے مکرو فریب سے ہوشیار رہے۔ کیونکہ شیطان کی سب سے بڑی تمنا یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح ایک مومن کو برائی اور بےحیائی کی طرف لانے کے لئے مرد ار جانور بہتے ہوئے خون خنزیر کے گوشت اور غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز کے جال میں پھنسا دے۔ فرمایا کہ جو لوگ شیطان کے اس مکرو فریب کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور رزق حرام کو برا نہیں سمجھتے ایسے لوگ اپنے پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرتے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔ (6) نیکیوں کا راستہ : سچے مومنوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کے دئیے ہوئے مال میں اللہ کی محبت کو بنیاد بنا کر رشتہ داروں ، یتیم بچوں، ضرورت مندوں، مسافروں، ضرورت کے تحت مانگنے والوں اور قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کی مدد پر اپنا مال خرچ کریں۔ نماز اور زکوٰۃ کے نظام کو قائم کریں اور پریشانیوں اور مشکلات میں صبرو تحمل اور برداشت کے دامن کو تھامے رہیں۔ یہ نیکیاں کرنے والے ہی اپنے ایمانی دعوے میں سچے ہیں اور کامیاب ہونے والے ہیں۔ (7) نظام قصاص کو قائم کرنا : عقل و دانش رکھنے والوں سے فرمایا گیا کہ ! قصاص کا نظام قائم کریں جس میں چھوٹے بڑے غلام، آزاد مرد اور عورت کا امتیاز نہیں ہوتا بلکہ جو بھی قاتل ہے اس کو قتل کی پوری پوری سزا دی جائے۔ (8) والدین اور رشتہ داریوں کا احترام : فرمایا کہ موت کے وقت اگر انسان اپنے ان رشتہ داروں کے لئے کچھ وصیت کر جائے (جن کا میراث میں حصہ نہیں ہے) تو یہ اس کے لئے صدقہ جا ریہ ہوگا۔ وصیت سننے والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہ کریں اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ سخت گناہ گار ہوگا۔ البتہ اگر مرنے والا کسی گناہ کی وصیت کر گیا ہے اور اس میں مناسب تبدیلی کرلی جائے (جس سے کسی کا حق نہ مارا جائے) تو یہ تبدیلی گناہ نہیں ہے۔ اگرچہ والدین کے لئے وصیت کرنے کا حکم وصیت کے احکامات نازل ہونے سے پہلے تھا بعد میں منسوخ ہوگیا۔ بہرحال غریب ضرورت مندوں کے لئے کچھ وصیت کر جانا اور وصیت میں تبدیلی نہ کرنے کا حکم اب بھی باقی ہے۔ (9) رمضان اور نزول قرآن : قرآن کریم وہ کتاب ہدایت ہے جو قیامت تک تمام انسانیت کے لئے رہبر و رہنما ہے رمضان کی مبارک ساعتوں میں نازل کی گئی ہے۔ اسی لئے یہ مہینہ بھی بہت قابل احترام ہے۔ اس میں رمضان کے تمام احکامات کا خیال رکھنا اور زیادہ نیکی میں آگے بڑھنا ہر مومن کی ذمہ داری ہے۔ (10) رشوت لینا اور دینا حرام ہے : مومنوں کو حکم دیا گیا کہ ! وہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھائیں۔ نہ اس مال کو اپنے حاکموں کی طرف رشوت کے طور پر لے کر جائیں کیوں کہ ناجائز مال اور رشوت دونوں حرام اور ناجائز ہیں۔ (11) من گھڑت رسمیں : حج کے دنوں میں مکہ کے لوگ حج کا احرام باندھنے کے بعد اپنے گھروں کے دروازوں پر تالے ڈال کر گھر کے پیچھے سے گھروں میں داخل ہوتے تھے فرمایا کہ یہ رسم کوئی نیکی نہیں ہے اپنے گھروں کے دروازے سے ہی آنا چاہئے۔ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ حج جیسی عبادت بھی ادا کی جائے اور اللہ کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جہاد و قتال کیا جائے۔ کسی پر زیادتی نہ کی جائے البتہ زیادتی کا جواب اسی طرح دینا جائز ہے جتنی زیادتی کی گئی ہو۔ فرمایا کہ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ نیکی اور بھلائی کا پہلو ہر کا م پر غالب ہونا چاہئے۔ (12) حرمت والے مہینے : رجب، ذی قعدہ، ذی الحج اور محرم یہ چار مہینے اشہر الحرم۔ (حرام اور حرمت والے مہینے) کہلاتے ہیں۔ اس میں جنگ کرنے کو مکہ کے کفار بھی برا سمجھتے تھے فرمایا کہ اگر وہ ان مہینوں کا احترام کرتے ہوئے تم سے جنگ نہیں کرتے ہوئے تو تم بھی نہ کرو لیکن اگر وہ جنگ کرتے ہیں تو تمہیں جنگ کرنے کی اجازت ہے مگر کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ (13) حج اور تکمیل ایمان : عمرہ (سوائے حج کے چند دنوں کے) ہمیشہ کیا جاسکتا ہے حج کے لئے شوال، ذی قعدہ اور ذی الحج کے دن متعین ہیں۔ ان میں اللہ کی عبادت و بندگی اور اس کا ذکر کثرت سے کیا جائے کیونکہ حج مومنوں کے گناہوں کی معافی کا بہترین ذریعہ ہے حج کے دنوں میں لڑائی، جھگڑا اور گناہوں کے کاموں سے بچتے ہوئے تمام احکامات کی پابندی کرنا اور ہر طرح کی بری رسموں سے بچنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ (14) زیادہ قسمیں کھانا اور خوشامد کرنا : زیادہ قسمیں کھانا اور خوشامد کرنا اللہ کو سخت ناپسند ہیں اس طرح کی باتیں کچھ لوگ اس لیے کرتے ہیں تا کہ ان کے ہاتھوں سے جو فساد پھیل رہا ہے ان پر پردہ پڑا رہے۔ ایسے لوگوں کی علامت یہ ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم ایسی حرکتیں نہ کرو جن سے دوسروں کا نقصان ہوتا ہے تو وہ اس بات کو اپنا انا اور ضد کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ لوگ قابل قدر ہیں جو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔ فرمایا گیا کہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی رضا و خوشنودی چھوڑ کر دنیا کو اپنا مقصود بنا رکھا ہے۔ وہ پوری طرح اسلام میں داخل ہوجائیں اور شیطان کی پیروی چھوڑ دیں تو اللہ کی رحمتوں کے مستحق بن جائیں گے۔ (15) حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا : فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں کو طرح طرح سے آزما یا گیا جب وہ حالات میں ہلا مارے گئے۔ اللہ کے رسول اور ایمان والے بھی چلا اٹھے کہ اے اللہ آپ کی مدد کب آئے گی ؟ فرمایا کہ جب انسانی وسائل اور اس کی کوششیں مایوسی کی حد تک پہنچ جاتی ہیں تو اللہ کی مدد آتی ہے اسی طرح جو لوگ دین کی راہوں میں مشکلات سے نہیں گھبراتے وہی کامیاب ہوتے ہیں اور وہی جنت کے مستحق بھی بن جاتے ہیں۔ (16) اہل ایمان پر جہاد فرض ہے : اگرچہ اپنی جان دینا اور کسی کی جان لینا انسان کے لئے بہت ہی شاق اور گراں ہے لیکن جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں قتال و جہاد کرتے ہیں ان کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ممکن ہے ایک چیز تمہیں گراں گزرتی ہو لیکن وہی چیز تمہارے حق میں بہتر ہو اور اسی طرح ایک چیز تمہیں پسند ہو لیکن وہی چیز تمہارے حق میں بری ہو۔ اس بات کو اللہ بہتر جانتا ہے انسان اپنے حقیقی نفع نقصان کو نہیں جانتا۔ (17) دین اسلام سب سے بڑی نعمت : جو شخص دین اسلام جیسی نعمت کو پانے کے بعد چھوڑ دے گا یعنی مرتد ہوجائے گا ۔ اگر اس نے مرنے سے پہلے اس گناہ سے توبہ نہ کی تو دنیا و آخرت میں اس کے تمام اعمال اور نیکیاں برباد ہوجائیں گی کیونکہ دین اسلام ہی اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ (18) شراب اور جوا حرام ہے : یہ دونوں چیزیں انسان کی دنیا اور آخرت کو برباد کر کے رکھ دینے والی چیزیں ہیں۔ اگرچہ ان میں وقتی فائدے ضرور نظر آتے ہیں لیکن شراب اور جوئے کی نحوست سے دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کے تمام اعمال راکھ کا ڈھیر بن جائیں گے۔ (19) یتیم بچوں سے حسن سلوک : وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا جس میں ایسے بچوں کو جن کے سروں پر باپ کا سایہ نہ ہو آزاد اور بےسہارا چھوڑ دیا جائے اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے اخلاق کی نگرانی نہ کی جائے کیونکہ ایسے سر پھرے بچے کل معاشرہ کا کینسر بن جائیں گے اور اگر ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے گا تو وہ اسی معاشرہ کا قیمتی سرمایہ بھی بن سکتے ہیں۔ (20) مشرک عورتوں سے نکاح حرام ہے : مشرک عورتوں سے نکاح حرام ہے : مشرک عورتیں اگرچہ حسن و جمال کا پیکر ہی کیوں نہ ہوں ان سے نکاح کرنا حرام ہے۔ اسی طرح مشرک مردوں سے اس وقت تک نکاح نہیں ہو سکتا جب تک وہ ایمان قبول نہ کرلیں خواہ ایسے مرد کتنی ہی خوبیوں کے مالک کیوں نہ ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر یہ شرک پر قائم رہیں گے تو وہ اپنے ساتھ کو جہنم میں لے جائیں گے جب کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ اہل ایمان جنت اور اللہ کی مغفرت کے مستحق بن جائیں۔ (21) عورتوں کے مخصوص ایام : جب عورتوں کے مخصوص ایام شروع ہوتے ہیں تو وہ شرعی طور پر ناپاک شمار ہوتی ہیں لیکن یہ تصور غلط ہے کہ ان کا جسم اور کپڑے بھی ناپاک ہوگئے ہیں اس سلسلہ میں شرعی حکم یہ ہے کہ ان سے صحبت کرنا تو جائز نہیں ہے البتہ ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا، ان کے ساتھ لیٹنا، بیٹھنا قطعاً جائز ہے۔ ان ایام میں عورتیں شرعی طور پ ناپاک تو کہلاتی ہیں لیکن کوئی اچھوت نہیں بن جاتیں۔ جب وہ عورتیں غسل کرلیں تو ان سے صحبت نہ کرنے کی پابندی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ فرمایا کہ عورتیں مردوں کے لئے کھیتی کی طرح ہیں جس طرح کسان اپنی زمین میں بیج اسی وقت ڈالتا ہے جب اس کو فصل اگانی ہوتی ہے لیکن بنجرزمین پر وہ اپنی صلاحیتیں برباد نہیں کرتا۔ (22) قسم ور اس کا کفارہ : قرآن کریم اور احادیث میں آتا ہے کہ پختہ قسمیں کھانے کے بعد ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ان کو توڑنا نہیں چاہئے لیکن اگر کسی شدید عذر کی وجہ سے پختہ قسمیں کھانے کے بعدان کا توڑنا ضروری ہے تو اس کا کفارہ ادا کر کے زندگی بھر استغفار کیا جائے۔ قسمیں دو طرح کی ہوتی ہیں (1) لغو قسمیں جیسے تیرے سر کی قسم بچوں کی قسم وغیرہ یہ بیکار اور لغو قسمیں ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے لیکن (2) وہ قسمیں جو دل کے پورے ارادے اور یقین سے کھائی جاتی ہیں ان کے توڑ دینے کا کفارہ یہ ہے کہ (1) دس آدمیوں کو پیٹ بھر کھانا کھلائے ۔ (2) یا دس آدمیوں کو کپڑے پہنائے (3) یا مسلسل تین روزے رکھے۔ (4) یا ایک غلام آزاد کرے۔ (23) بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم : اگر کسی نے اپنی بیوی کے پاس جانے کی قسم کھالی ہو تو اس کی مدت چار مہینے ہے۔ اس چار مہینے کے مدت میں میں رجوع کرلیا تو قسم کا کفارہ دینا پڑے گا اور اگر چار مہینے میں رجوع نہ کیا جائے تو عورت پر طلاق بائن پڑجائے گی۔ یعنی جدائی کی طلاق۔ (24) اللہ کو طلاق سخت ناپسند ہے : دین اسلام طلاق دینے کو بہت ہی برا سمجھتا ہے لیکن اگر کسی وجہ سے طلاق ہوگئی تو عورت پر لازمی ہے کہ وہ تین خون آنے تک کسی اور سے نکا ح نہ کرے اور اس کی عدت کو پورا کرے اگر وہ حاملہ ہے تو اپنے حمل کو ضرورظاہر کردے (حاملہ عوت کی عدت بچہ پیدا ہونے تک ہے) ۔ (25) طلاق رجعی اور طلاق مغلظہ : طلاق رجعی دو دفعہ تک ہے اگر تیسری طلاق بھی دے دی جائے گی تو یہ عورت شوہر کے لئے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک وہ پہلے شوہر کی عدت گذار کو کسی دوسرے شخص سے نکاح اور صحبت نہ کرے پھر اگر کسی وجہ سے دوسرے شہر سے بھی طلاق ہوجائے تو دوسرے شوہر کی عدت گزار کر پھر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ عورتوں کو رکھنا ہے تو طریقہ سے رکھو۔ چھوڑنا ہے تو احسن طریقہ پر رخصت کردو البتہ عورتوں پر ظلم و زیادتی نہ کرو اور اللہ کی آیات کو کھیل نہ بناؤ (26) بچوں کو دودھ پلوانا : دودھ پیتے بچوں کے لئے حکم ہے کہ مائیں دو سال (بچہ کمزور ہو تو ڈھائی سال ) تک دودھ پلائیں لیکن اگر مرد اپنی اولاد کو کسی اور سے دودھ پلوانا چاہتا ہے تو اس کے لئے یہ بات جائز ہے مگر اس کی شرط یہ ہے کہ جس سے دودھ پلوایا جائے اس کو اس کا پورا پورا معاوضہ ادا کیا جائے ۔ عدت کے دوران مطلقہ عورتوں کا کھانا اور لباس اس کا شوہر اپنی حیثیت کے مطابق دینے کا پابند ہے۔ (27) شوہر کی وفات اور عدت : فرمایا کہ جب تم نے طلاق دے دی اور اس عورت نے اپنی عدت بھی گزار لی ہے تو اب اس پر کسی طرح کی پابندی لگانا جائز نہیں ہے جس کا شوہر مرجائے اس عورت کی عدت چار مہینے اور دس دن تک ہے۔ عدت گزارنے کے بعد وہ عورتیں اپنے لیے زندگی بسر کرنے میں معروف طریقہ پر آزاد ہیں۔ ان پر کسی قسم کی پابندی لگانا جائز نہیں ہے۔ فرمایا دوران عدت احسن طریقہ سے ڈھکے چھپے الفاظ میں پیغام نکاح تو دیا جاسکتا ہے لیکن نکاح کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ (28) نکاح اور مہر : اگر کسی نے نکاح کیا اور مہر بھی مقرر کیا لیکن صحبت سے پہلے ہی طلاق دے دی گئی تو آدھا مہر ادا کرنا ہوگا۔ اگر شوہر چاہے تو پورا مہر دے دے۔ عورت چاہے تو پورا مہر معاف کر دے یہ معاملہ آپس کی مرضی کا ہے۔ (29) جہاد اسلامی کی ترغیب : حضرت طالوت اور ظالم بادشاہ جالوت، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کے واقعات بیان کر کے اللہ نے یہ بتایا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ ہی سب سے بڑی عظمت ہے۔ اس سے بھاگنے والے بدقسمت لوگ ہیں کیونکہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے انسان موت سے کتنا ہی بھاگنے کی کوشش کرے موت اس کو مضبوط قلعوں میں نہیں چھوڑے گی۔ ان آیات میں اہل ایمان کو جہاد پر آمادہ کیا گیا ہے۔ (30) اللہ کی راہوں میں بےغرض خرچ کرنا : اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا اور دوسروں کی مدد کرنا بھی عبادت ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جس کی مدد کی جائے اس کو کسی طرح کے طعنے نہ دئیے جائیں نہ ذہنی اذیت پہنچائی جائے ورنہ یہ سارا نیک عمل ضائع ہوکر رہ جائے گا اور کوئی ثواب نہ ملے گا۔ (31) اللہ کے راستے میں چلنے والوں کی مدد : کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی دین کی سربلندی اور خدمت خلق میں لگا رکھی ہے ان کی خاموشی سے مدد کی جانی چاہئے کیونکہ اگر وہ دنیا کمانے کی فکر کریں گے تو وہ دین کی سربلندی کے لئے جس جدو جہد میں لگے ہوئے ہیں اس کا حق کیسے ادا کرسکیں گے۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کی علامت یہ ہے کہ تم ان کو ان کے پریشان حال چہروں اور پیشانیوں سے پہچان جاؤ گے ایک علامت یہ ہے کہ وہ گر پڑکر کبھی کسی س سوال نہیں کرتے بلکہ ناواقف آدمی تو ان کے سوال نہ کرنے سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ شاید ان کو تو کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ (32) سودی لین دین معاشرہ کا کینسر ہے : اللہ تعالیٰ نے سود کے لین دین سے اس قدر سختی کے ساتھ منع کیا ہے کہ اس کو نہ چھوڑنے والوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ اگر غور کیا جائے تو آج ساری دنیا جو مہنگائی کی سولی پر چڑھی ہوئی ہے جس سے زندگیوں کا سکون برباد ہو کر رہ گیا ہے وہ سود ہی کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس لعنت سے ہر مومن کو اور ہر اسلامی ملک کو محفوظ رکھے، آمین۔ (33) بغیر سود کے لوگوں کی مدد کرنا : سودی لین دین کے برخلاف اہل ایمان کو اس بات کی طرف رغبت دلائی گئی ہے کہ اگر کوئی ضرورت مند ہو تو اس کو بغیر کسی سود کے قرض دیا جائے اور اس قرض کی ادائیگی میں اس کا کی سہولت کا خیال بھی رکھا جائے۔ اگر وہ شخص کسی مجبوری کی وجہ سے قرض ادا نہ کرسکتا ہو تو اس کو مناسب سہولت دی جائے یا اس کو معاف کردیا جائے۔ (34) قرض لینے اور دینے کے اصول : (1) قرض دیتے وقت مدت مقرر کی جائے کہ قرض لینے والا قرض کب واپس کرے گا۔ (2) پوری طرح انصاف سے اس کو لکھا جائے ۔ لکھنے والا کوئی عذر پیش نہ کرے جیسا بھی لکھ سکتا ہو لکھ دے (3) دو مرد گواہ بنا لئے جائیں اگر دو مرد گواہ نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لیا جائے۔ (35) قرض کے لین دین میں لکھنا : قرض کا معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا ہر حال میں اس کو لکھا جائے کیونکہ اس میں انسان بہت سی الجھنوں سے بچ جاتا ہے اور یہ بات انصاف سے بھی قریب تر ہے اور کسی طرح کا شک و شبہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ (36) آپس کا لین دین : بازاروں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ دوکاندار آپس میں لین دین کرتے ہیں ایسے لین دین کو اگر مذکورہ شرائط کے مطابق لکھا نہ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کسی کو گواہ بنا لینا بھی کافی ہے۔ (37) لکھنے اور گواہی دینے والوں کو نہ ستانا : کیونکہ اگر گواہی دینے والوں اور لکھنے والوں کو ستایا گیا تو پھر کوئی شخص گواہی دینے والا۔ اور لکھنے والا نہیں ہوگا اور ممکن ہے ایک سامنے پڑی ہوئی لاش اور سسکتے ہوئے انسان کو اٹھانے والا اور گواہی دینے والا بھی نہ مل سکے گا۔ (38) رہن رکھ کر قرض لینا : اگر کوئی سفر میں ہو اور لکھنے والا بھی نہ ہو تو کوئی ایسی چیز بطور رہن رکھی جاسکتی ہے جو فوری طور پر اس کے قبضے میں آجائے پھر کسی لکھت پڑھت کی ضرورت نہیں ہے۔ (39) امانت میں خیانت کرنا : جس شخص کو بھی کوئی امانت دی جائے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے حق دار تک پہنچائے اس میں بددیانتی نہ کرے اگر کسی کے پاس کوئی گواہی ہو تو وہ اس کو نہ چھپائے ورنہ یہ بات اس کے ضمیر کا بوجھ بن جائے گی۔ (40) تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) سب سے پہلے اللہ کے دین کی سچائی پر ایمان لاتے ہیں۔ پھر جو بھی سعادت مند ہوتا ہے وہ ایمان لا کر اس راہ پر چلتا ہے اور اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر بلاتفریق ایمان لاتا ہے اور اس کی زبان پر ایک ہی بات ہوتی ہے کہ اے اللہ ہم نے سنا اور ہم آپ کی اطاعت کو قبول کرتے ہیں۔ ٭ اے اللہ اگر ہم سے کوئی بھول چوک ہوگئی ہو یا ہم بھول گئے ہوں تو ہمیں معاف کر دیجئے گا۔ ٭ اے اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالئے گا جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے گئے تھے۔ ٭ اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالئے گا جس کی ہمارے اندر طاقت نہ ہو۔ ٭ ہمیں معاف کر دیجئے گا۔ ٭ ہمارے گناہ بخش دیجئے گا۔ ٭ ہم پر رحم و کرم فرمائیے گا۔ ٭ آپ ہمارے مالک ہیں۔ ہمیں کافروں اور کفر کی ہر طاقت پر غلبہ نصیب فرما دیجئے گا۔ آمین یا رب العالمین
Top