Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 286
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ؕ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ١ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ١ۚ وَ اعْفُ عَنَّا١ٙ وَ اغْفِرْ لَنَا١ٙ وَ ارْحَمْنَا١ٙ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠   ۧ
لَا يُكَلِّفُ : نہیں تکلیف دیتا اللّٰهُ : اللہ نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی گنجائش لَهَا : اس کے لیے مَا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَعَلَيْهَا : اور اس پر مَا اكْتَسَبَتْ : جو اس نے کمایا رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُؤَاخِذْنَآ : تو نہ پکڑ ہمیں اِنْ : اگر نَّسِيْنَآ : ہم بھول جائیں اَوْ : یا اَخْطَاْنَا : ہم چوکیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تَحْمِلْ : ڈال عَلَيْنَآ : ہم پر اِصْرًا : بوجھ كَمَا : جیسے حَمَلْتَهٗ : تونے ڈالا عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تُحَمِّلْنَا : ہم سے اٹھوا مَا : جو لَا طَاقَةَ : نہ طاقت لَنَا : ہم کو بِهٖ : اس کی وَاعْفُ : اور در گزر کر تو عَنَّا : ہم سے وَاغْفِرْ لَنَا : اور بخشدے ہمیں وَارْحَمْنَا : اور ہم پر رحم اَنْتَ : تو مَوْلٰىنَا : ہمارا آقا فَانْصُرْنَا : پس مدد کر ہماری عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اللہ تعالیٰ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی بساط کے موافق اس کی کمائی کا نفع بھی اس کے لئے ہے اور اس کے کئے کا وبال بھی اس پر ہے اے ہمارے پروردگار اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں تو ہم سے اس پر مواخذہ نہ کر اے ہمارے پروردگار ہم پر کسی ایسے سخت حکم کا بار نہ ڈال جیسے ہم سے پہلوں پر تو نے ڈالا تھا اے ہمارے پروردگار ہم سے وہ بار گراں نہ اٹھوا جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہہو اور ہم سے در گزر فرما اور ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہمارا آقا ہے لہٰذا ان لوگوں کے مقابلہ میں جو کافر ہیں ہماری مدد فرماف 1
1۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا اور کسی کو مکلف نہیں بناتا مگر اس کی بساط اس کی دعت اور اس کی طاقت و اختیار کے موافق یعنی جنتی گنجائش ہوتی ہے اتنا ہی ہر شخص کو مکلف بنایا جاتا ہے ہر شخص کو نفع اور ثواب بھی اس کا ملتا ہے جو اس نے کمایا اور ہر شخص پر وبال اور عذاب بھی اسی کا ہوتا ہے جو اس نے کوشش کر کے کمایا۔ جن مسلمانوں کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ یوں دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! اگر ہم بھول جائیں یاچوک جائیں تو بھول اور چوک پر ہماری گرفت نہ کیجئے اور ہم سے مواخذہ نہ کریئے۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر کسی ایسے شاق اور سخت حکم کا بار نہ ڈالئے جیسا آپ نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا یعنی جس طرح ہم سے پہلوں پر ان کی نا فرمانیوں کے باعث سخت احکام بھیجے گئے ہم کو ان احکام شاقہ سے محفوظ رکھئے۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم سے ویسا بارگراں نہ اٹھوایئے اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالئے جس کی برداشت ہم سے نہ ہو سکے اور جس کے اٹھانے کی ہم کو طاقت نہ ہو یعنی دنیا اور آخرت میں ایسے مصائب اور ایسی بلائوں سے ہم کو محفوظ رکھیئے جن کو سہار ہم سے نہ ہو سکے ہم سے در گزر کیجئے اور ہم کو بخش دیجئے یعنی ہماری پردہ پوشی کیجئے اور ہم کو رسوا نہ کیجئے اور ہم پر رحم فرمایئے آپ ہمارے آقا اور مولیٰ اور کار ساز ہیں اور جب ہم آپ کے غلام ہیں اور آپ ہمارے مولا ہیں تو کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرمایئے اور ہمارے دشمنوں پر ہم کو غلبہ عنایت کیجئے اور کافر لوگوں پر ہم کو غالب فرمایئے۔ ( تیسیر) لا یکلف اللہ نفسا کا مطلب یہ ہے کہ امور شرعیہ میں کس شخص کو ایسا حکم نہیں دیا جاتا جو ناقابل برداشت اور انسان کی قدرت سے باہر ہو ۔ قدرت سے مراد یہاں وہ قدرت ہے جس پر احکام شرعیہ کی بنا رکھی گئی ہے۔ جیسا ہم نے ختم اللہ علی قلوبھم اور ان الذین کفروا سواء کی آیت میں اشارہ کیا تھا اور یہی وہ قدرت ہے جو فعل سے قبل ہر شخص میں موجود ہوتی ہے اور یہی وہ قدرت ہے جس کی بناء پر ہر کافر کو ایمان کی دعوت دی جاتی ہے خواہ وہ فرعون ہو یا ابو جہل اور یا وہ ان کافروں میں سے ہو جن کے متعلق حضرت حق نے لا یومنون فرمایا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قدرت اور طاقت سے کم تکلیف دی جاتی ہے مثلاً ظہر اور عصر میں چھ رکعتیں پڑھنے کی بھی طاقت تھی مگر چار مقرر فرمائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ احکام شرعیہ ہر انسان کی وسعت کے موافق ہوتے ہیں یا وسعت و طاقت کی حد سے بھی کم ہوتے ہیں تا کہ ان کا پورا کرنا اور بجا لانا آسان ہو اور شرعیہ کی تصریح فقیر نے اس لئے کی کہ یہاں ان کی ہی بحث ہے اور انہی سے متعلق یہ بتانا ہے کہ اگر امور شرعی طاقت سے باہر ہوتے تو انسان ان کے بجا لانے سے قاصر رہتا اور اس کو آخرت میں نقصان ہوتا اور محض ضرر و نقصان حضرت حق کے فضل و کرم کے منافی ہے ، باقی اور شرعیہ کے علاوہ دوسرے آلام و مصائب اور دکھ درد وغیرہ جو کفارہ سیات یا رفع درجات کا سبب ہوتے ہیں وہ نہ یہاں زیر بحث ہیں اور نہ وہ حضرت حق کے فضل و کرم کے منافی ہیں۔ لھا ما کسبت و علیھا ما اکتسبت کا مطلب یہ ہے کہ نفع و نقصان اور ثواب و عذاب کا تعلق ان ہی امور کے ساتھ ہے جو انسان اپنے قصد اور ارادے سے کرے اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے قلب کے ہوں یا اعضا کے وہی اعمال لائق ثواب اور قابل عذاب ہوں گے جو اختیاری ہوں گے اور انسان نے اپنے قصد اور ارادے سے جان بوجھ کر کئے ہوں گے۔ کسب اور اکتساب میں تھوڑا سا فر ق ہے اکتساب میں ذرا مشقت اور جدوجہد زیادہ ہے چونکہ انسان برائی کو شوق سے کرتا ہے اور خواہشات نفسانی کو پورا کرنے کی غرض سے ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کرلیتا ہے اس لئے اکتساب کے ساتھ وبال اور عذاب کو بیان کیا اور کسب کے ساتھ نفع کا ذکر فرمایا ۔ جیسا کہ لھا ما کسبت اور علیھا ما اکتسبت سے ظاہر ہے اگرچہ قرآن میں خیر کے لئے اکتساب اور شر کے لئے کسب کا بھی استعمال ہوا ہے مگر یہاں کسب سے مراد امور خیر اور اکتساب سے مراد امور شر میں جو بات ما فی انفسکم سے پیش آئی تھی اور جو شبہ افعال اختیاری اور غیر اختیاری پر دار و گیر اور محاسبہ کا پیش آتا تھا وہ قرآن کے ان دونوں جملوں سے دور ہوگیا بلکہ اس کے ساتھ بطور قاعدہ کلیہ خطا اور نسیان کا بھی استثنیٰ ہوگیا ، کیونکہ ایک شخص باوجود کوشش کے کسی چیز کو بھول گیا اور قوت حافظہ نے اس چیز کو فراموش کردیا تو یہ بھی انسانی اختیار سے باہر ہے اور اسی طرح کرنا کچھ چاہتا تھا اور بلا قصد ہوگیا کچھ مثلاً نشانہ لگایا تھا ہر ن پر یا شیر پر گولی لگ گئی کسی آدمی کو یا رمضان میں کلی کرنا چاہتا تھا اور حلق میں پانی چلا گیا تو یہ امور بھی غیر اختیاری ہیں اور لا یکلف اللہ نفسا الاوسعھا سے یہ چیزیں بھی معاف اور مستثناہو گئیں لیکن آگے ایک خاص پیرایہ کے ساتھ مزید غیر اختیاری امور کے استثنا کی وضاحت فرمائی اور ایک دعا تعلیم کی تا کہ اس امت کو جن چیزوں سے مستثنیٰ قرار دینا ہے وہ ایک عاجزانہ درخواست کے ذریعہ سے کیا جائے اور درخواست کو قبول فرما کر مسلمانوں کو مطمئن کردیا جائے اور یہ بھی قرآن کا ایک اسلوب اور طریقہ ہے کہ جو چیزیں لا یکلف اللہ میں بطور قاعدہ کلیہ داخل تھیں ان کو جزئی طور پر بھی ظاہر کردیا ، بلکہ ان کے ساتھ بعض مزید رعایتوں کا بھی اعلان فرما دیا تا کہ حضرت حق جل مجدہٗ کی معافی اور رعایت کا اعلان امور غیر اختیاریہ کی تمام انواع کو شامل ہوجائے اور تکلیف مالا یطاق کی طرف سے اس امت کو مطمئن کرایا جائے ، یہی وہ وضاحت اور تشریح ہے جس کو حضرت ابوہریرہ ؓ اور دوسرے سلف نے نسخ قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ یہ حقیقی نسخ نہیں ہے مگر یہ کہ اس طرح توجیہہ کی جائے اور یوں کہاں جائے کہ ما فی انفسکم اگرچہ اخبار ہے لیکن یہ جملہ دلالت کرتا ہے نفس کے خصائل رذیلہ کی تحریم پر جیسا کہ کتب علیکم الصیام کا جملہ روزے کی فرضیت اور ایجاب پر دلالت کرتا ہے۔ اور ما فی انفسکم اگرچہ خصائل رذیلہ کی تحریم پر دلالت کرتا تھا لیکن عمومیت کی وجہ سے یہ جملہ وساوس نفس اور دل کی باتوں کو بھی شامل تھا اور یہ جملہ چونکہ تحریم کے حکم میں ہے اس لئے قلب کی سب باتیں حرا م ہوئیں ، خواہ وہ خصائل رذیلہ ہوں یا خواہ وہ وساوس و خطرات ہوں اور تحریم تکلیف ہے اور لا یکلف اللہ میں اس تکلیف کی نفی ہے لہٰذا لا یکلف اللہ ناسخ ہوا۔ ما فی انفسکم کی بعض ان چیزوں کے لئے جو انسانی وسعت سے خارج ہیں اور وہ وساوس و خطرات نفس ہیں۔ ( واللہ اعلم) فقیر عرض کرتا ہے کہ اس تکلف سے یہ بہتر ہے کہ یوں کہا جائے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اور بعض سلف نے مجازا ً نسخ فرمایا ہے ورنہ حقیقتاً نسخ نہیں ہے مزید تحقیق منظور ہو تو تفسیر مظہری ملاحظہ کی جائے۔ اصر کے معنی ہیں مفید ہوجانا ۔ بندہ بن جانا ، کسی چیز کو روک لینا ایسا بوجھ جو نہ اٹھ سکے اور جس کو لے کر انسان چل نہ سکے ۔ ایسا تنگ لباس جس کو پہن کر ہل جل نہ سکے ، پختہ عہد وغیرہ ۔ یہاں مراد تکالیف شاقہ ہیں ۔ بہر حال حاصل کلام یہ ہے۔ 1۔ کہ رکوع پہلی آیت کا ظاہری مفہوم یہ تھا کہ اعمال اختیاری اور غیر اختیاری خواہ وہ قلب کے ہوں یا اعضا کے سب پر محاسبہ ہوگا اور مواخذہ کیا جائے گا حتیٰ کہ دل میں جو کبھی وساوس و خطرات آجاتے ہیں اور بھول چوک سے جو کوئی غلطی بلا قصد ہوجاتی ہے وہ بھی قابل تعزیر اور لائق گرفت ہوگی۔ 2۔ اس ظاہری مفہوم کے اعتبار سے صحابہ کرام مضطرب اور پریشان ہوئے۔ 3۔ نبی کریم ﷺ نے سمع وطاعت کا حکم دیا۔ 4۔ صحابہ نے ارشاد نبوی کی تعمیل کی اور سمعنا واطعنا غفرانک ربنا کہا۔ 5۔ حضرت حق نے تکلیف با لمحال کے عدم و قوع کا اعلان فرما ک مضطرب اور بےچین طبیعتوں کو اطمینان دلایا۔ 6 ۔ اگرچہ اس آیت کے عموم میں خطا اور نسیاں بھی قاعدہ ٔ کلیہ کے طور پر داخل تھے لیکن ایک دعا تعلیم فرما کر خطا اور نسیان کی بھی صراحت فرما دی بلکہ اس سے زیادہ اور بھی بعض باتوں کو واضح فرما دیا۔ 7۔ دعا کا طریقہ شاید اس لئے اختیار کیا کہ آیت میں نسخ کا احتمال موجود تھا کیونکہ آیت کا مفہوم اور مبنی یہ ہے کہ بندہ مکلف نہیں ہے اور مکلف ہونا نہ ہونا ایک شرعی حکم ہے اور شرعی حکم میں نسخ کا احتمال ہوتا ہے ۔ اس لئے صحابہ نے دعا کی کہ الٰہی اس حکم کو منسوخ نہ فرمایئے بلکہ جس طرح عدم تکلیف مالا وسعت کا اعلان فرمایا ہے۔ اس حکم کو ہمیشہ کے لئے مقرر کر دیجئے ، یہ فائدہ تو دعا کا صحابہ کے زمانہ میں ہوا ۔ باقی حضور ﷺ کی وفات اور نزول قرآن کے ختم ہوجانے اور نسخ کا اندیشہ جاتے رہنے کے بعد دعا کا یہ فائدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا احسان مسلمانوں کو یاد رہے اور جس دعا کی برکت ہے جو حکم ہمیشہ کے لئے مقرر رہا اس کو تلاوت کے وقت یاد رکھیں (واللہ اعلم) 8۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ، ابن ماجہ ، ابن المنذر، ابن حبان ، طبرانی ، دارقطنی ، حاکم اور بیہقی نے نقل کیا ہے۔ ان اللہ تجاوز عن امتی الخطاء والنسیان وما استکرھوا علیہ ۔ بعض روایتوں میں رفع ان امتی بھی آیا ہے ۔ اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ خطا اور نسیان اور جو کام اکراہ کے ساتھ کرایا جائے اس پر مبری امت سے مواخذہ نہیں ہوگا اور قیامت میں گرفت نہیں ہوگی اور یہی منشا قرآن کی آیت کا بھی ہے یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں بھی ان چیزوں پر کوئی حکم مرتب نہیں ہوگا ۔ جیسا کہ قتل خطاء ً پر وجوب کفارہ اور جرمان ۔ میراث نماز میں نسیانا بات کرلینے سے نماز کا فاسد ہوجانا ۔ روزے میں خطاء کھانے پینے سے روزے کی قضا کا لزوم اکراہ سے طلاق کا واقع ہوجانا وغیرہ ان مسائل میں ائمہ کا جو اخلاق ہے وہ کتب فقہ سے معلوم ہوسکتا ہے۔ بہر حال ! دنیا میں نسیان و خطا وغیرہ پر احکام مرتب ہوتے ہیں آخرت کا مواخذہ معاف ہے۔ 9۔ بعض حضرات نسیان اور خطا کا فرق نہیں جانتے۔ نسیان میں تو چیز یاد ہی نہیں ہوتی ۔ جیسے کوئی نماز کو بھول جائے اور نماز کا وقت نکل جائے یا روزے کو بالکل بھول جائے اور کچھ کھالے ۔ لیکن خطا میں چیز تو یاد ہوتی ہے مگر ہاتھ کی لغزش سے بےاختیار فعل سر زد ہوجاتا ہے اردو میں چوکنا بولتے ہیں ، کہا کرتے ہیں میں ذرا چوک گیا ۔ 01۔ لھا ما کسبت کی جو شرح ہم نے کی ہے اس پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ جب صرف کا سب اور مکتسب اپنے اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں تو اگر کوئی شخص کسی نیک کام کا باقی ہو یا کوئی کسی برے کام کا موجد ہو تو اس پر دوسرے لوگوں کے نیک اور بد کا کوئی اثر نہ ہونا چاہئے مثلاً کسی نے مسجد بنائی تو جو لوگ اس مسجد میں نماز پڑھیں ان نمازیوں کی نماز پڑھنے کا کوئی ثواب مسجد بنانے والے کو نہ ملے اور اسی طرح جب کوئی ناچ گھر تعمیر کرے تو جو لوگ اس ناچ گھر میں ناچ کرائیں ان کا کوئی گناہ اس بانی کو نہ ہو ۔ اگرچہ نصوص سے یہ ثابت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کو خود بھی اس کا ثواب ملتا ہے اور جو لوگ اس اچھے طریقہ پر عمل کریں گے تو اس کا ثواب بھی اس شخص کو ملے گا اور جو شخص کوئی ۔۔۔۔ بری رسم جاری کرے گا تو اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ میں سے اس رسم کے جاری کرنے والے کو بھی حصہ ملے گا ۔ تو کسی کو اگر ایسا شبہ ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لھا ما کسبت کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہ شخص بہر حال اس اچھے یا برے کام کا سبب تو یقینا ہے اور یہ خود اپنے ارادے سے اس اچھے یا برے کام کا سب بنا ہے لہٰذا اس سبب سے جو نتائج ہوں گے ان کا یہ بھی ذمہ دار ہوگا کیونکہ اس کا کسب یا اکتساب کو اور اس کے ارادے کو اس میں دخل ہے اور یہی ہماری تشریح کا مقصد ہے کہ خود اس کا م کو کیا ہو یا دوسروں کے لئے کوئی راستہ قائم کیا ہو۔ اگر اچھی راہ ڈالی ہے تو اچھوں کے کام کا اس کو بھی فائدہ پہنچے گا اور اگر بری رسم ڈالی ہے تو بروں کے کام کا ضرر بھی اس کو حاصل ہوگا ، اگرچہ اچھوں کے ثواب میں اور بروں کے عقاب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ 11۔ لھا ما کسبت پر بعض لوگوں کو یہ بھی شبہ ہوتا ہے کہ ایصال ثواب بھی اس تقدیر پر بیکار ہوجاتا ہے کیونکہ جب اپنے اپنے کسب اور اکتساب کا نفع اور نقصان ملتا ہے تو اگر کوئی دوسرا شخص اپنے کسی کا م کا ثواب دوسرے کو پہنچایئے یا اپنا ثواب کسی کو ہبہ کرے تو موہوب لٰہ کو اس واہب کے کسی ثواب سے ۔۔۔۔ کوئی فائدہ نہ پہنچنا چاہئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ثواب اصل میں تو کا سب ہی کو ہوتا ہے اور ابتداء ً اچھے کام کا ثواب کرنیوالے ہی کو ہوتا ہے لیکن واہب کے واسطے سے موہوب لٰہ کو ملتا ہے اور یہ لھا ما کسبت کے منافی نہیں ہے ثواب ابتداء ً تو اسی کو ہوا جو کا سب ہے مگر کا سب کے ہبہ کردینے سے موہوب لٰہ کو پہنچا ۔ معتزلہ نے جو ایصال ثواب کے منکر ہیں ۔ وان لیس للانسان الا ما سعی سے یہی استدلال کیا ہے اس کا جواب بھی یہ ہے کہ اجر توسعی کرنے والے ہی کو ابتداء ً مگر صاحب اجر نے اپنا دوسرے کی طرف منتقل کردیا ، لہٰذا جس طرح لھا ما کسبت سے استدلال کرنا غلط ہے ۔ اسی طرح وان لیس للانسان سے بھی معتزلہ کا استدلال صحیح نہیں ہے۔ موہوب لٰہ کو بغیر کسب کے ثواب کا حصول اور چیز ہے اور کا سب کو ثواب سے محروم کردینا اور چیز ہے۔ فاقھم۔ 21۔ پہلی دعا میں خطا اور نسیان پر مواخذہ نہ کرنا ہے جو بوبہ غیر اختیاری ہونے کے ضمناً لا یکلف اللہ نفسا ً میں داخل ہے دوسری درخواست میں یہ عرض کیا گیا ہے کہ جو تکالفی شاقہ پہلی امتوں پر واقع ہوتی تھیں ان سے ہم کو محفوظ رکھئے۔ مثلاً توبہ کے لئے قتل کی شرط یا نا پاک کپڑے کو قطع کرنا یا کوٰۃ کے لئے چوتھائی مال کا ادا کرنا یا رات کے گناہ کا صبح کو دروازے پر لکھ دیا جانا ۔ وغیرہ۔ تیسری درخواست میں یہ عرض کیا گیا ہے کہ ہم کو دنیا اور آخرت میں ایسی تکالیف اور بلائوں سے محفوظ رکھئے جن کی ہم کو سہار نہ ہو ۔ ان ہی تین دعائوں کی رعایت سے آگے واعف عنا واغفرلنا واحمنا فرمایا واعف عنا کا تعلق خطا و نسیان کی کوتاہی سے ہے اور واغفرلنا کا تعلق ان تکالیف شاقہ سے ہے جن کا تعلق امم سابقہ سے تھا اور وارحمنا کا تعلق دنیا اور آخرت کی بلائوں اور مصائب سے ہے۔ 31۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ واعف عنا کا مطلب یہ ہو کہ ہمارے گناہوں پر مواخذہ نہ کیجئے اور ہماری تقصیرات کو در گزر فرمایئے اور واغفرلنا کا مطلب یہ ہو کہ ہمارے گناہ مٹا دیجئے اور ہماری عیوب کی پردہ پوشی فرمایئے ۔ اور وارحمنا کا مطلب یہ ہو کہ چونکہ طاعت کا بجا لانا اور سیئات سے بچنا آپ کی رحمت اور آپ کے فضل پر موقوف ہے اس لئے ہم پر رحم فرمایئے۔ 41۔ یہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ تکلیف مالا یطاق عقلا ً ممتنع نہیں ہے بلکہ حضرت حق تعالیٰ مختار اور قادر مالک ہے جو چاہے حکم دے ، البتہ شرع نے اس کے عدم و قوع کی اطلاع دی ہے اس لئے شرعا ً ممتنع ہے اور یہ حضرت حق تعالیٰ کا فضل ہے۔ 51۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے ان آیتوں کی تلاوت فرمائی تو تینوں دعائوں میں سے ہر دعا پر ارشاد ہوا ۔ میں نے قبول کی اور اسی طرح فانصرنا علی القوم الکفرین پر فرمایا ۔ میں نے فرمایا کہ کسی روایت میں نعم اور کسی میں فعلت آیا ہے اور کسی میں عفرت و غفرت ورحمت و نصرت آیا ہے۔ 61۔ دعا اور اس کی قبولیت کے متعلق ہم سیقول کے پارے میں مفصل بحث کرچکے ہیں اگر کسی مصلحت کی بنا پر دعا کی قبولیت ظاہر نہ ہو تو یہ بھی قبول ہی ہونا ہے ۔ حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ ان آیات کی تلاوت فرماتے تھے تو فانصرنا علی القوم الکفرین کے بعد آمین فرماتے تھے۔ 71۔ کفار پر غلبہ حاصل کرنے کی دعا پر ان دعائوں کا سلسلہ ختم فرمایا یہ اس لئے کہ جب سب کام حسب منشا ہوگیا یعنی گناہوں کی معافی اور تکالیف شاقہ اور مصائب و آلام کا تحفظ کردیا گیا ۔ تو اب سوال پیدا ہوا ، عمل کا کیونکر اطمینان حاصل کرنے کے بعد اس امر کی ضرورت ہے کہ احکام شرع پر عمل کیا جائے اور حضرت حق کے حکم کی تعمیل کی جائے اور احکام کی بجا آوری کے لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ کوئی طاقت مقابلہ میں مزاحمت کرنے والی نہ ہو خواہ وہ نفس امارہ ہو خواہ وہ شیطان ہو جو سب سے بڑا کافر ہے یا وہ اسکے متبع انسان ہوں جو اسی کی فوج ہیں اور یہ سب قوم کافرین میں شامل ہیں۔ اس لئے دین کے کاموں میں رکاوٹ پیدا کرنے والی طاقتوں کے مغلوب ہونے کی دعا کی گئی دعا سے پہلے حضرت حق کے آقا اور مولیٰ ہونے کا اعتراف کیا گیا اور بندوں نے عرض کیا ۔ آپ ہمارے مولا ہیں ہم آپ کے غلام ہیں اور آقا اور مولا اپنے غلاموں کو ان کے دشمنوں سے بچاتا ہے اور ان کی مدد فرما کر اپنے غلاموں کو ان کے دشمنوں پر غالب فرماتا ہے اور دشمنوں کو مغلوب کرتا ہے ۔ لہٰذا آپ ہماری مدد فرمایئے تا کہ ہم ان دشمنوں پر جو آپ کے بھی دشمن ہیں اور آپ کی محبت و لفت کی وجہ سے ہمارے بھی دشمن ہیں کیونکہ ان کے دشمن ہونے کی وجہ ہی صرف آپ کی ذات ہے اگر ہم آپ کو چھوڑ دیں تو سب کافر ہمارے دوست ہوجائیں ، لہٰذا ایسے بدبخت دشمنوں پر اپنے غلاموں کو فتح مند فرما اور اپنے غلاموں کی مدد فرما ۔ سبحان اللہ ! کیا ترتیب ہے اور کیسا اچھا اسلوب ہے۔ 81۔ حضرت ابن عباس ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت جل مجدہٗ نے غفر انک کے بعد ارشاد فرمایا ۔ میں نے بخش دیا اور اخطانا کے بعد فرمایا لا اوا خذکم یعنی میں گرفت نہیں کروں گا ۔ ولا تحمل کے بعد لا احمل علیکم یعنی تم پر امم سابقہ کی طرح بھاری وزنت نہیں ڈالوں گا اور لا تحملنا کے بعد فرمایا لا احملکم یعنی دنیوی و آخروی مصائب و آلام کے بار جو تمہاری استطاعت سے باہر ہوں تم سے ۔۔۔۔۔ نہیں اٹھوائوں گا ۔ 91۔ یہ بات یاد کھنی چاہئے کہ گناہ کی مثال ایسی ہے کہ جیسے زہر جس طرح زہر کا قاعدہ ہے کہ خواہ دانستہ کھائو یا بھول کر کھائو یا چوک کر کھائو اپنا اثر کرتا ہے ۔ اسی طرح گناہ کا قاعدہ ہے کہ جس طرح بھی واقع ہو اس کا اثر ضرور ہوتا ہے ۔ خواہ خطا اور نسیان کی وجہ سے قیامت میں مواخذہ نہ ہو ۔ لیکن یہ مطلب نہیں کہ قلب پر بھی اس گناہ کا اثر مرتب نہیں ہوتا ۔ مثلاً قلب پر زنگ کا آجانا ۔ سینہ میں تنگی کا پیدا ہوجانا ۔ عبادت کا ذوق کم ہوجاتا ۔ دین سے بےپروائی کا پیدا ہوجانا ، شریعت کی وقعت کا کم ہوجانا ، چونکہ ان خطرات کا اندیشہ ہے اور گناہ کے یہ اثرات ہیں ۔ اس لئے گناہ کے معاملہ میں انسان کو بہت ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے خواہ دو گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ اور خواہ وہ گناہ عمدا ً ہو یا خطاء ً ہو یا بھول کر ہو ۔ سورۂ بقرہ کی یہ آخری آیات اس قدر جامع ہیں کہ ابھی بہت کچھ کہنے کی ضرورت ہے جو کچھ ہم نے عرض کیا ہے یہ ایک بحرنا پیدا کنار میں سے ایک قطرہ بلکہ قطرہ کی نمی بھی نہیں ہے۔ مگر تطویل کے خوف سے ترک کیا جاتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس بےغایت و بےنہایت ہے۔ اسی طرح اس کے کلام کی خوبیاں اور لطافتیں بھی بےغایت و بےنہایت ہیں ۔ ( واللہ اعلم بمرادہ) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ دعا اللہ تعالیٰ نے پسند فرمائی تو قبول کی حکم بھی ہم پر بھاری نہیں رکھے اور دل کا خیال بھی نہیں پکڑا اور بھول چوک بھی معاف کی۔ ( موضح القرآن) دل کے خیال سے وہی خیال مراد ہے جو آئے اور نکل جائے اور اگر آ کر جم جائے اور گناہ پر آمادہ کردے جس کو عزم کہتے ہیں تو اس پر مواخدہ ہوگا، جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مرفوعاً منقول ہے کہ جب نبی کریم ﷺ معراج کی رات آسمانوں پر تشریف لے گئے تو آپ ؐ فرماتے ہیں مجھے تین چیزیں اللہ تعالیٰ نے عنایت فرمائیں ۔ 1۔ پانچ وقت کی نماز ۔ 2 سورة بقرہ کی آخری آیتیں 3۔ میری امت میں سے جو شخص شرک نہ کرے اس کی مغفرت ، مطلب یہ ہے کہ یہ مغفرت توبہ سے ہو یا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہو یا گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ہو۔ بہر حال جو شرک سے محفوظ ہو اس کی نجات ایک دن یقینی ہے۔ ابو مسعود ؓ انصاری سے مرفوعا ً مروی ہے۔ سورة بقرۂ کی آخری دو آیتیں جو شخص رات کو پڑھ لے گا تو یہ دونوں آیتیں اس کے لئے کافی ہوں گی۔ نعمان بن بشیر سے مروی ہے ۔ فرمایا نبی کریم ﷺ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل اللہ تعالیٰ نے قضا قدر کے جو حالات مرتب فرمائے تھے اس میں سے سورة بقرہ ٔ کی آخری دو آیتیں نازل فرمائی ہیں ۔ یہ دونوں آیتیں جس گھر میں تین راتوں میں پڑھی جاتی ہیں اس گھر کے قریب شیطان نہیں پھٹکنے پاتا۔ حضرت ابو مسعود انصاری ؓ کی روایت میں ہے سورة بقرہ کی یہ دونوں آیتیں اللہ تعالیٰ نے جنت کے خزانوں میں سے نازل فرمائی ہیں۔ جو شخص ان دونوں آیتوں کو عشاء کی نماز کے بعد پڑھ لیتا ہے تو یہ دونوں آیتیں قیام لیل سے اس کے لئے کافی ہوجاتی ہیں ، یعنی رات کو اٹھنا نہ ہو تب بھی تہجد کی نماز کا ثواب ملتا ہے۔ ابو سعید خدری کی روایت میں ہے کہ سورة بقرہ قرآن کی ترازو ہے اس کا سیکھنا موجب برکت ہے اور اس کو چھوڑ دینا موجب حسرت ہے اور اس سورت پر بطلہ یعنی جادوگروں کا کوئی قابو نہیں چل سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے پڑھنے والے جادو کے اثر سے محفوظ رہتے ہیں ۔ بیہقی نے ایک ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ سورة بقرہ کی تلاوت کرنے والوں کو قیامت میں تاج پہنایا جائے گا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں ہے۔ دو آیتیں قرآن کی ایسی ہیں کہ وہ دونوں شفاعت کرنے والی ہیں اور وہ دونوں اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں اور اللہ تعالیٰ ان آیتوں سے محبت کرتا ہے وہ دونوں آیتیں سورة بقرہ کی آخری آیتیں ہیں۔ ابو عبید ؓ نے روایت کیا ہے جس گھر میں سورة بقرہ ٔکی تلاوت کی جاتی ہے تو اس گھر سے اس سورت کو سنتے ہی شیطان نکل جاتا ہے۔ مسند احمد میں مرفوعا ً روایت ہے کہ سورة بقرہ اور آل عمران کو سیکھو یہ دونوں صورتیں قیامت میں سائبان کی طرح سایہ فگن ہوں گی سہل بن سعد کی روایت میں ہے۔ ہر شے کا ایک ہاں اور ہر شے کا ایک بلند مقام ہوتا ہے اور قرآن کا کو ہاں اور قرآن کی بلند جگہ سورة بقرہ ہے جس شخص نے دن کے وقت اس صورت کو کسی گھر میں پڑھا ۔ تو تین دن تک اور کسی نے رات میں پڑھا تو تین رات تک شیطان اس گھر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مرفوعا ً ابو عبید نے نقل کیا ہے جس شخص نے سورة بقرہ اور آل عمران کی کسی رات میں تلاوت کی تو وہ اس رات قانتین میں لکھا جاتا ہے یعنی پرہیز گار اور با ادب لوگوں میں اس کا نام درج کرلیا جاتا ہے ۔ دارمی نے مغیرہ بن شفیع سے روایت کیا ہے کہ جو شخص سوتے وقت سورة بقرہ کی دس آیتیں تلاوت کر کے سوتا ہے تو ایسا شخص قرآن نہیں بھولے گا ۔ چار آیتیں تو ابتدائی بقرہ کی یعنی الم سے مفلحون تک اور تین آیتیں آیت الکرسی سے خالدون تک اور تین آیتیں آخر کی یعنی للہ ما فی السموات سے قوم الکافرین تک ۔ فقیر نے یہ احادیث خازن ، در منثور اور تفسیر مظہری سے نقل کی ہیں ۔ ابن کثیر نے اور بھی بعض روایات نقل کی ہیں مگر ہم نے تطویل کے خوف سے ان کو چھوڑ دیا ہے ۔ صرف ایک روایت ابن کثیر کی نقل کردیتے ہیں ۔ جو ابن کثیر نے ابن مردویہ سے نقل کی ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ خواتیم سورة بقرہ کو پڑھتے تو ہنس دیتے اور خوش ہو کر فرماتے کہ یہ آیتیں عرش الٰہی کے نیچے جو خزانہ ہے اس میں سے دی گئی ہیں اور جب آیت من یعمل سوا یجزبہ اور آیت وان لیس للانسان الاما سعیٰ وان سعید سوف یری ثم یجزم الجزاء الاوفی پڑھتے تو آپ کے منہ سے انا للہ وانا الیہ راجعون نکل جاتا آپ سست ہوجاتے ۔ مطلب یہ ہے کہ سورة بقرۂ کی آیتوں میں چونکہ رعایت اور آسانی کی بشارت ہے تو ان کو پڑھ کر خوش ہوتے اور چونکہ ان آیتوں میں مواخذے کا ذکر ہے اور ہر برائی پر بدلہ ملنے کا ذکر ہے اور پورا پورا بدلہ کا تذکرہ ہے تو ان کو پڑھ کر رحمتہ اللعالمین کی طبیعت سست ہوجاتی اور آپ چپ چپ ہوجاتے اور کبھی منہ سے امت کی محبت میں انا اللہ بھی نکل جاتا ہے۔ اللھم صلی علی سیدنا محمد وعلی آل سیدنا محمد وبارک وسلم ۔ ( تسہیل) الحمد للہ کہ آج 7 ذی الحجہ 5631؁ھ شنبہ کے روز دن کے گیارہ بجے سورة بقرہ کی تفسیر اپنے علم کو کوتاہی اور بےبضاعتی کے اعتراف کے ساتھ ختم کر رہا ہوں ۔ واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ قرآنی مطالب اور مفاہیم کی وسعت کے لحاظ سے کالعدم ہے اور ایک سمندر میں سے ذرا سی نمی کے برابر بھی نہیں ہے۔ جو کچھ اپنے بزرگوں سے سنا اور جو کچھ ان کی تفسیروں سے سمجھ میں آیا اس کا خلاصہ کردیا ہے مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ یہ تفسیر مسلمانوں کے لئے نافع ہوگی ۔ میں اللہ تعالیٰ کی جناب میں دست بدعا ہوں کہ وہ ترجمہ تیسیر تسہیل کو قبول فرمائے اور فقیر کا خاتمہ اسلام پر ہو اور وہ اپنی رحمت سے اس فقیر کو رمرہ ٔ صالحین میں داخل کر دے۔ اب آگے سورة عمران کی تفسیر شروع ہوتی ہے۔
Top