Al-Qurtubi - Al-Baqara : 286
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ؕ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ١ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ١ۚ وَ اعْفُ عَنَّا١ٙ وَ اغْفِرْ لَنَا١ٙ وَ ارْحَمْنَا١ٙ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠   ۧ
لَا يُكَلِّفُ : نہیں تکلیف دیتا اللّٰهُ : اللہ نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی گنجائش لَهَا : اس کے لیے مَا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَعَلَيْهَا : اور اس پر مَا اكْتَسَبَتْ : جو اس نے کمایا رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُؤَاخِذْنَآ : تو نہ پکڑ ہمیں اِنْ : اگر نَّسِيْنَآ : ہم بھول جائیں اَوْ : یا اَخْطَاْنَا : ہم چوکیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تَحْمِلْ : ڈال عَلَيْنَآ : ہم پر اِصْرًا : بوجھ كَمَا : جیسے حَمَلْتَهٗ : تونے ڈالا عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تُحَمِّلْنَا : ہم سے اٹھوا مَا : جو لَا طَاقَةَ : نہ طاقت لَنَا : ہم کو بِهٖ : اس کی وَاعْفُ : اور در گزر کر تو عَنَّا : ہم سے وَاغْفِرْ لَنَا : اور بخشدے ہمیں وَارْحَمْنَا : اور ہم پر رحم اَنْتَ : تو مَوْلٰىنَا : ہمارا آقا فَانْصُرْنَا : پس مدد کر ہماری عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے نقصان پہنچے گا اسے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجیو اے پروردگا ہم ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے پروردگار جتنا بوجھ اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو اور (اے پروردگار) ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما
مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا “۔ تکلیف سے مراد وہ امر ہے جس کے ساتھ کسی کو آزمایا جائے اور تکلفت الامر کا معنی ہے میں نے اسے کام کرنے کی تکلیف دی، اسے جوہری نے بیان کیا ہے اور الوسع کا معنی ہے طاقت اور کوشش، اور یہ یقینی خبر ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر نص بیان فرمائی ہے کہ وہ آیت نازل ہونے کے وقت سے بندوں کو دل یا دیگر اعضاء بدن کے اعمال میں سے کسی عبادت کا پابند اور مکلف نہیں بنائے گا مگر اسی کا جو مکلف کی وسعت اور طاقت میں ہوگی اور اس کے ادراک اور اس کی فطرت کے تقاضا کے مطابق ہوگی تو اس سے مسلمانوں سے وہ غم اور پریشانی دور ہوگئی جو دلوں میں آنے والے تصورات کا حساب لینے کے حکم سے انہیں لاحق ہوئی تھی۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 392 دارالکتب العلمیہ) اور اس آیت کے معنی میں وہ روایت ہے جسے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان فرمایا ہے، انہوں نے کہا : میں نے جعفر بن ابی طالب ؓ کے سوا کسی سے محبت نہیں کی جسے اس کی ماں نے جنم دیا ہے، کیونکہ میں ایک دن ان کے پیچھے پیچھے گیا اور مجھے بھوک لگی ہوئی تھی اور وہ اپنے گھر پہنچے تو انہوں نے گھی کی مشک کے سوا کچھ نہ پایا، اس میں گھی کے کچھ اثرات تھے چناچہ انہوں نے اسے ہمارے سامنے پھاڑ دیا اور ہم نے اسے چاٹنا شروع کردیا جو اس میں گھی اور کھجوروں کا اثر تھا، اور وہ کہنے لگے : ما کلف اللہ نفسا فوق طاقتھا ولا تجود ید الا ما تجد : اللہ تعالیٰ نے کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا اور ہاتھ وہی شے سخاوت کرتا ہے جو وہ پاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) دنیوی احکام میں تکلیف مالایطاق کے جائز ہونے کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے جبیہ اس پر ان کا اتفاق ہے کہ شریعت میں تکلیف مالا یطاق واقع نہیں ہے اور اس آیت نے اس کے معدوم ہونے کے بارے آگاہ کیا ہے، ابو الحسن اشعری اور متکلمین کی ایک جماعت نے کہا ہے : تکلیف مالایطاق عقلا جائز ہے، اور یہ عقائد شرعیہ میں سے کسی شے کو ساقط نہیں کرتی، اور یہ مکلف کو عذاب دینے پر علامت ہے اور اس کے بارے یہی (حکم) قطعی ہے گویا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ کسی مصور کو چو پر گرہ لگانے کا پابند کیا جائے (1) (بخاری حدیث، باب میں کذب فی حلہ حدیث نمبر 6520، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اس کے جواز کے قائلین نے اختلاف کیا ہے کہ کیا یہ حضور نبی رحمت ﷺ کی رسالت میں واقع ہے یا نہیں ہے ؟ پس ایک جماعت نے کہا ہے : یہ ابو لہب کے بارے میں نازل ہونے والی سورت میں واقع ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے تمام شریعت کے ساتھ ایمان لانے کا مکلف بنایا اور من جملہ یہ بھی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائے گا، کیونکہ اس پر دونوں ہاتھوں کے ٹوٹنے اور آتش جہنم میں پھینکے جانے کا حکم لگایا گیا ہے اور یہ اس پر مطلع کرتا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائے گا، تحقیق اسے ایمان لانے کا مکلف بنایا باوجود اس کے کہ وہ ایمان نہیں لائے گا۔ اور ایک جماعت نے کہا ہے یہ کبھی واقع نہیں ہوئی، اور اس پر اجماع بیان کیا ہے، اور قول باری تعالیٰ سیصلی نارا کا معنی یہ ہے : اگر وہ اس میں پہنچا (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 393 دارالکتب العلمیہ) اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے۔ اور یکلف یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے ان میں سے ایک محذوف ہے اور وہ عبادۃ یا شیئا ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 393 دارالکتب العلمیہ) پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہم پر اپنا لطف وانعام فرمایا۔ اگر وہ چاہتا تو ہمیں ایسے امور کا مکلف بنا دیتا جو مشقت آمیز اور اذیت رساں ہوتے ہیں جیسا کہ دس کے مقابلہ میں ایک کا ثابت قدم رہنا، انسان کا ہجرت کرنا اور اپنے وطن سے نکلنا اور اپنے گھر والوں، اپنے وطن اور اپنے کاروبار سے کلیۃ علیحدگی اختیار کرنا، لیکن اس نے ہمیں ایسے کاموں کا جو سخت مشقت آمیز ہوں اور ایسے امور جو اذیت اور تکلیف پہنچانے والے ہوں ان کا مکلف اور پابند نہیں بنایا، جیسا کہ اس نے ہم سے پہلے لوگوں کو مکلف بنایا مثلا اپنے نفسوں کو قتل کرنا اور اپنے کپڑوں اور جسم پر پیشاب لگ جانے والی جگہ کاٹنا وغیرہ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سہولت عطا فرمائی اور نرمی فرمائی اور ہم سے اس بوجھ اور طوق کو دور فرما دیا جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے ہوئے تھے، فللہ الحمد والمنۃ والفضل والنعمۃ۔ مسئلہ نمبر : (6) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت “ اس سے وہ نیکیوں اور برائیوں کا ارادہ فرما رہا ہے۔ (یعنی اس کے لئے اجر ہوگا جو (نیک عمل) اس نے کیا اور اس پر وبال ہوگا جو (براعمل) اس نے کمایا) سدی نے یہی کہا ہے، اور مفسرین کی جماعت میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں، ابن عطیہ نے یہ کہا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مثل ہے۔ (آیت) ” ولا تزر وازرۃ وزر اخری “۔ (الانعام : 164) ترجمہ : اور نہ اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ۔ اور (آیت) ولا تکسب کل نفس الا علیھا (انعام : 164) ترجمہ : اور نہیں کماتا کوئی شخص (کوئی چیز) مگر وہ اسی کے ذمہ ہوتی ہے۔ اور دل میں پیدا ہونے والے تصورات اور اس طرح کے دیگر وساوس انسان کی کمائی اور کسب میں سے نہیں ہیں۔ اور نیکیوں کے ذکر میں لھا ذکر ہوا ہے اس لئے کہ یہ ان میں سے ہیں جنہیں کرنے آدمی خوش ہوتا ہے اور ان کے ساتھ مسرت محسوس کرتا ہے۔ لہذا انہیں اس کی ملکیت کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے اور سیئات کے ذکر میں علیھا ذکر ہوا ہے اس لئے کہ وہ بھاری بوجھ ہیں اور انہیں اٹھانا انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہے، اور وہ اسی طرح ہے جیسے تو کہتا ہے : لی مال وعلی دین (میرے لئے مال ہے اور مجھ پر قرض ہے یعنی مال میری ملکیت ہے اور قرض مجھ پر بوجھ ہے) فعل کسب کو مکرر (دو بار) لایا گیا ہے اور باب مختلف ذکر کیا ہے تاکہ نوع کلام حسین ہوجائے جیسا کہ فرمایا :۔ (آیت) ” فمھل الکفرین امھلھم رویدا “۔ (الطارق) ترجمہ : پس آپ کفار کو (تھوڑی سی) مہلت اور دے دیں کچھ وقت انہیں کچھ نہ کہیں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اس میں میرے لئے جو ظاہر ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ نیکیاں وہ ہیں جو بغیر تکلف کے کمائی جاتی ہیں کیونکہ انہیں کمانے والا اللہ تعالیٰ کے حکم کے راستہ پر اور طریقہ شریعت پر ہوتا ہے اور برے اعمال تکلف اور مبالغہ کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں، کیونکہ انہیں کمانے والا اللہ تعالیٰ کی نہی کے حجاب کو پھاڑ کر ان کے بارے میں تکلف کرتا ہے اور ان کی طرف خطا اور غلطی کے ساتھ قدم اٹھاتا ہے، لہذا آیت میں اس فعل کا دو بابوں سے آنا اس معنی کی حفاظت کے لئے انتہائی حسین ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) اس آیت میں اس پر دلیل ہے کہ بندوں کے افعال پر ائمہ نے جو کسب اور اکتساب کا اطلاق کیا ہے وہ صحیح ہے، اور اسی لئے انہوں نے ان پر خلق اور خالق کا اطلاق نہیں کیا ہے، بخلاف ان کے جنہوں نے بدعتی گروہوں میں سے اس کا اطلاق کرنے کی جرات کی ہے، اور ہمارے ائمہ میں سے جنہوں نے بندے پر اس کا اطلاق کیا ہے اور یہ کہ وہ فاعل (کام کرنے والا) ہے تو وہ خالصۃ مجاز ہے، اور مہدوی وغیرہ نے کہا ہے : آیت کے معنی میں یہ کہا گیا ہے کہ کسی کو دوسرے کے گناہ کے عوض نہیں پکڑا جائے گا، ابن عطیہ نے کہا ہے : فی نفسہ یہ صحیح ہے لیکن یہ اس آیت کے سوا سے ثابت ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 393 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (8) الیاطبری نے کہا ہے : قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسب “۔ اس سے اس پر استدلال کیا جاتا ہے کہ جس نے کسی دوسرے کو قتل کردیا بھاری ہتھیار کے ساتھ یا گلا گھونٹ کر یا پانی میں غرق کر کے تو اس پر قصاص یا دیت کی صورت میں اس کی ضمان ہوگی، بخلاف اس کے جس نے اس کی دیت عاقلہ پر قرار دی ہے اور یہ ظاہر کے خلاف ہے، اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ باپ سے قصاص کا ساقط ہونا اس کے شریک سے اس کے ساقط ہونے کا تقاضا نہیں کرتا اور یہ قول عاقلہ پر حد واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے جب وہ مجنون کو اپنی ذات پر قدرت دے۔ اور قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : ” ہمارے علماء نے اس آیت کے ضمن میں کہا ہے کہ قصاص باپ کے شریک پر واجب ہے بخلاف امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے اور خطا کرنے والے کے شریک پر واجب ہے بخلاف امام شافعی (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) کے، کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے قتل کا کسب کیا ہے، اور انہوں نے کہا ہے : جس پر قصاص واجب نہیں ہوتا اس کا ایسے آدمی کے ساتھ شریک ہونا جس پر قصاص واجب ہوتا ہے اس حکم کے سقوط میں شبہ نہیں بن سکتا جسے شبہ کے سبب ساقط کردیا جاتا ہے۔ (1) (احکام القرآن، جلد 1، صفحہ 264) مسئلہ نمبر : (9) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ربنا لا تؤاخذنا ان نسینا اواخطانا “۔ اس کا مفہوم اس کا مفہوم یہ ہے اس گناہ سے درگزر فرما لے جو ہم سے ان طریقوں پر یا ان میں سے ایک طریقہ پر صادر ہوتا ہے جیسا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے رفع عن امتی الخطاوالنسیان واما استکرھوا علیہ (2) (کنز العمال، جلد 4، صفحہ 233، حدیث نمبر 10307، ایضا ابن ماجہ باب طلاق المکرہ والناس حدیث نمبر 234، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (میری امت سے خطا، نسیان اور اس (گناہ) کو جس پر انہیں مجبور کیا جائے اٹھا لیا گیا ہے، یعنی ایسے گناہ پر مواخذہ نہ ہوگا) اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ گناہ اٹھا لیا گیا ہے، البتہ ان احکام میں اختلاف ہے جو اس سے متعلق ہوتے ہیں کیا وہ اٹھا لئے ہیں اور اس سے کوئی شے لازم نہ آئے گی یا اس کے سارے احکام لازم آئیں گے ؟ اس میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ واقعات مختلف ہونے سے یہ بھی مختلف ہوتے ہیں، پس ایک قسم وہ ہے کہ وہ بالاتفاق ساقط نہیں ہوتی مثلا تاوان، دیات اور فرض نمازیں، اور ایک قسم وہ ہے جو بالاتفاق ساقط ہوجاتی ہے، مثلا قصاص اور کلمہ کفر زبان پر لانا، اور تیسری قسم وہ ہے جس میں اختلاف ہے مثلا وہ آدمی جس نے رمضان المبارک میں بھول کر کھالیا یا بھول کر حانث ہوگیا (یعنی قسم توڑ دی) اور وہ کام جو ان کی مثل ہوں اور خطا اور بھول کر واقع ہو سکتے ہوں اور وہ فروع میں معروف ہوں۔ مسئلہ نمبر : (10) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ربنا ولا تحمل علینا اصرا “۔ اصرا کا معنی ثقل اور بوجھ ہے، امام مالک (رح) اور ربیع نے کہا ہے : اصر سے مراد انتہائی سخت اور مشکل امر ہے۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 394 دارالکتب العلمیہ) اور حضرت سعید بن جبیر ؓ نے کہا ہے، اصر سے مراد عمل کی شدت اور سختی ہے اور وہ جو بنی اسرائیل پر انتہائی شدید اور سخت تھے مثلا پیشاب وغیرہ کے مسائل، اور ضحاک نے کہا ہے : وہ انتہائی تکلیف دہ اور شدید امور برداشت کرتے تھے اور یہ امام مالک (رح) اور ربیع (رح) کے قول کی طرح ہی ہے، اور اسی سے نابغہ کا قول ہے : ما مانع الضیم ان یغشی سراتھم والحامل الاصر عنھم بعد ما عرفوا۔ حضرت عطا نے کہا ہے : الاصر سے مراد شکل مسخ کر کے بندر یا خنزیر بنا دینا ہے اور ابن زید نے بھی یہی کہا ہے اور ان سے یہ بھی منقول ہے کہ اس سے مراد وہ گناہ ہے جس میں نہ توبہ ہو اور نہ ہی کفارہ ہو۔ (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 394 دارالکتب العلمیہ) اور لغت میں اصر کا معنی عہد ہے اور اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ” واخذتم علی ذلکم اصری اور الاصر “ کا معنی تنگی، گناہ اور بوجھ ہے اور الاصار سے مراد وہ رہی ہے جس کے ساتھ بوجھ وغیرہ باندھے جاتے ہیں کہا جاتا ہے : اصریا صراصرا “۔ بمعنی حبسہ یعنی اس نے اسے روک لیا۔ اور الاصر ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ اسی سے ہے، جوہری نے کہا ہے : اسم ظرف ماصر اور ماصر ہے اور جمع مئاصر ہے اور عام طور پر تو کہتا ہے معاصر۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے اور ممکن ہے کہ اس کے ظاہر سے ہر اس عبادت میں استدلال کیا جائے جس کے بوجھ اور ثقیل ہونے کا خصم دعوی کرے، پس یہ اس قول باری تعالیٰ کی طرح ہے : (آیت) ” وما جعل علیکم فی الدین من حرج “۔ (الحج : 78) اور اسی طرح حضور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : الدین یسر فیسر ولا تعسروا (1) (کشف الخطاء للعجلونی، جلد 1، صفحہ 498، بحوالہ موسوعہ اطراف الحدیث) (دین آسان ہے تم آسانی پیدا کرو اور تنگی اور مشکل نہ بناؤ) اللھم شق علی من شق علی امۃ محمد ﷺ (اے اللہ اس پر مشقت ڈال دے جس نے امت محمد ﷺ پر مشقت ڈالی ہے) میں (مفسر) کہتا ہوں : اور اسی طرح ال کیا الطبری نے کہا ہے : اس سے حرج اور تنگی کی نفی میں استدلال کیا جاتا ہے اور جس کا ظاہر بخشش اور نرمی کے میلان کے منافی ہو۔ مسئلہ نمبر : (11) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا تحملنا ما لا طاقۃ لنا بہ “۔ حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تو ہم پر شدت اور سختی نہ کر جس طرح تو نے ان پر سختی کی جو ہم سے پہلے تھے، حضرت ضحاک نے کہا ہے : ہم پر ایسے اعمال کا بوجھ نہ ڈال جنہیں کرنے کی ہم طاقت نہیں رکھتے اور اسی طرح ابن زید نے کہا ہے، ابن جریج نے کہا ہے : تو ہماری شکلیں بندروں اور خنزیروں میں مسخ نہ کر دے، اور سلام بن سابور نے کہا : وہ جن کی ہم طاقت نہیں رکھتے۔ وہ شہوت پرستی ہے، اسے نقاش نے حضرت مجاہد اور حضرت عطا سے بیان کیا ہے اور روایت ہے کہ حضرت ابو الدرداء ؓ اپنی دعا میں کہا کرتے تھے : واعوذبک من غلمۃ لیس لھا عدۃ (میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس شہوت پرستی سے جس کی عدت نہ ہو) سدی نے کہا ہے : اس سے مراد وہ سختی اور پیاس ہے جو بنی اسرائیل پر مسلط تھی (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 394 دارالکتب العلمیہ) قولہ تعالیٰ : ” واعف عنا “۔ اور ہمارے گناہوں سے درگزر فرما، عفوت عن ذنبہ (یہ تب کہا جاتا ہے) جب تو اسے چھوڑ دے اور اسے سزا نہ دے۔ (آیت) ” واغفرلنا “ ہمارے گناہوں کو ڈھانپ دے (ان پر پردہ ڈال دے) اور الغفر کا معنی پردہ ہے۔ (آیت) ” وارحمنا “۔ اور رحمت فرما جس کا آغاز تیری جانب سے ہم پر ہو۔ (آیت) ” انت مولنا “۔ یعنی تو ہمارا ولی اور ہمارا مددگار ہے، اور یہ آیات مخلوق کی تعلیم کے لئے بیان کی گئی ہیں کہ وہ کیسے دعا مانگیں گے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ وہ جب اس سورت کی قرات سے فارغ ہوتے تو کہتے، آمین۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اس کے بارے یہ گمان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہو، پس اگر ایسا ہے تو یہ کمال ہے اور اگر یہ سورة الحمد پر قیاس کے سبب ہے اس حیثیت سے کہ وہاں دعا ہے اور یہاں بھی دعا ہے تو یہ اچھا ہے۔ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا ہے میں گمان نہیں رکھتا کہ کسی نے اسلام کو سمجھا ہو اور اس کا ادراک کیا ہو اور وہ ان دونوں (آیات) کو پڑھے بغیر سو جائے، (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 395 دارالکتب العلمیہ) میں (مفسر) کہتا ہوں : امام مسلم نے اس معنی میں حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے رات کے وقت سورة البقرہ کی یہ دونوں آیتیں پڑھ لیں تو یہ اسے کافی ہیں (1) (صحیح مسلم، کتاب فضائل القرآن جلد 1، صفحہ 271، ایضا صحیح بخاری، باب فضل سورة البقرہ، حدیث نمبر 4624، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کہا گیا ہے : یہ اسے قیام اللیل سے کافی ہیں (یعنی یہ اس طرح ہے گویا اس نے رات کو عبادت کرتے ہوئے گزارا) جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے حضور نبی مکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جنت کے خزانوں میں سے دو آیتیں نازل فرمائی ہیں، ان کے ساتھ سورة البقرہ کو ختم کیا ہے رحمن نے مخلوق کو پیدا کرنے اسے ایک ہزار برس پہلے اپنے دست قدرت سے انہیں تحریر فرمایا۔ جب نے عشاء کے بعد ان دونوں کو دو بار پڑھا وہ دونوں اس کے لئے قیام اللیل سے کافی ہوں گی، اور وہ (آیت) ” امن الرسول “۔ سے آخر سورة البقرۃ تک ہیں (2) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ دونوں اسے شیطان کے شر سے (محفوظ رکھنے کے لیے) کافی ہوں گی اور اسے اس پر کوئی غلبہ نہ ہو سکے گا، اور ابو عمرو الدانی نے حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق کرنے سے دو ہزار برس پہلے ایک کتاب لکھی پس اس سے یہ تین آیات نازل فرمائیں جن کے ساتھ سورة البقرہ کو ختم کیا گیا جس نے انہیں اپنے گھر میں پڑھا تین راتوں تک شیطان اس کے گھر کے قریب نہیں آئے گا (3) (الکشاف، جلد 1، صفحہ 333) اور روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اوتیت ھذہ الایات من آخر سورة البقرۃ من کنزتحت العرش کم یوتھن نبی قبلی (4) (مسند احمد بن حنبل، جلد 5، صفحہ، 151) (مجھے سورة البقرہ کی یہ آخری آیات عرش کے نیچے والے خزانے سے عطا کی گئی ہیں اور یہ مجھ سے پہلے کسی نبی (علیہ السلام) کو عطا نہیں کی گئیں) اور یہ حدیث صحیح ہے۔ اور سورة الفاتحہ میں فرشتے کا سورة الفاتحہ کے ساتھ انہیں لے کر نازل ہونے کا ذکر گزر چکا ہے۔ والحمد للہ۔
Top