تعارف
تعارف سورة البقرہ
سورۂ بقرہ قرآن کریم کی سب سے بڑی اور اہم ترین سورت ہے جس میں بنی اسرائیل اور امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تفصیل سے خطاب کرنے کے بعد عبادات، اسلامی عقائد، اخلاق، اعمال اور زندگی گذارنے کے بنیادی احکامات ارشاد فرمائے گئے ہیں۔
نبی کریم حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس سورت کے بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں۔
(١) حضرت ابی امامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
قرآن کریم پڑھا کرو۔ قیامت کے دن یہ پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا ۔ (خاص طور پر) سورة بقرہ اور سورة آل عمران جو کہ ” زھراوین “ (دو نہایت روشن چیزیں) ہیں ان کو پڑھا کرو کیوں کہ قیامت کے دن یہ اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریں گے۔ سورة بقرہ پڑھا کرو۔ اس کے پڑھنے میں بڑی برکت اور اس کے چھوڑ دینے میں بڑی حسرت ہے۔ دھوکے باز اور فریبی (شیاطین) اس کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے (صحیح مسلم )
(٢) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سورة بقرہ کو ھان کی طرح ہے (مسند احمد)
اونٹ کے جسم میں سب سے نمایاں اور اونچے حصے کو کو ھان کہا جاتا ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کے جسم میں سب سے اونچے اور نمایاں حصے کو کوہان کہا جاتا ہے اسی طرح اس سورت کا مقام بھی بہت بلند اور نمایاں ہے۔
(٣) امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم (رض) جنہیں اللہ تعالیٰ نے فہم قرآن کا ایک خاص ذوق عطا فرمایا تھا انہوں نے نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سورة بقرہ کو کئی سال میں پڑھا اور سیکھا۔
(٤) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ہم میں سے جو شخص بھی سورة بقرہ اور سورة آل عمران جانتا تھا اس کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ (صحیح مسلم )
(٥) حضرت اسید حضیر (رض) ایک رات سورة بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے۔ ان کا گھوڑا ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا اچانک ان کا گھوڑا اچھلنے کودنے لگا۔ انہوں نے جیسے ہی پڑھنا بند کیا تو گھوڑا بھی چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔ جب انہوں نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا تو گھوڑے نے پہلے کی طرح اچھل کود شروع کردی۔ یہ واقعہ تین مرتبہ پیش آیا۔ فرماتے ہیں کہ میرا بیٹا قریب ہی سو رہا تھا مجھے ڈر ہوا کہ کہیں گھوڑے کی اس اچھل کود میں میرا بچہ کچلا نہ جائے میں نے پڑھنا بند کردیا۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اوپر کی طرف دیکھا تو ایک روشن بادل دکھائی دیا جس میں مشعلیں سی روشن تھیں۔ پھر میں اس کو دیکھنے کے لئے باہر نکل آیا۔ اور دیکھتا رہا صبح ہوئی تو میں نے تمام صورت حال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں عرض کردی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت سن رہے تھے ۔ اگر تم صبح تک پڑھتے رہتے تو وہ فرشتے بھی موجود رہتے اور سب کو نظر آتے ۔ آپ نے دو مرتبہ فرمایا ” ابن حضیر اس کو پڑھا کرو “ ” اس کو پڑھا کرو “ (بخاری مسلم )
ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ سورة بقرہ بڑی اہم سورت ہے جس کا پڑھنا ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سورة بقرہ کو اللہ کے فرشتے بھی بڑے ذوق اور شوق سے سنتے ہیں۔
سورۂ بقرہ، دین ابراہیمی اور کفار مکہ
بقرہ کے دو معنی آتے ہیں (١) گائے (٢) بیل۔ جس طرح لفظ انسان سے عورت بھی مراد ہے اور مرد بھی اسی لیے مفسرین کرام میں سے کسی نے ' بقرہ ' کا ترجمہ گائے کا کیا ہے اور کسی نے بیل کا۔
اس سورت میں بقرہ (گائے۔ بیل ) کا ایک بہت اہم واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کی مناسبت سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کا نام ہی بقرہ رکھ دیا۔ بقرہ کا واقعہ یہ تھا کہ ایک قبیلے کے سردار کو کسی نے قتل کردیا تھا ۔ قاتل کا پتہ نہ چلنے کی وجہ سے بنی اسرائیل ایک دوسرے پر الزام لگانے لگے جس سے بنی اسرائیل میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ قوم کے کچھ ذمہ دار لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ اللہ آپ سے کلام کرتا ہے اس سے پوچھ کر قاتل کا نام بتا دیجئے تا کہ آپ کی قوم آپس کی جنگ سے بچ جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اللہ کی بارگاہ میں دعا کی ۔ اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ لوگ ایک بقرہ ذبح کردیں اور اس کے گوشت کا ٹکڑا مرنے والے کے جسم سے لگا دیں تو مرنے والا زندہ ہو کر قاتل کا نام خود بتا دے گا۔ مگر اس میں مشکل یہ تھی کہ یہ قوم گائے کو اپنا معبود سمجھ کر اس کی عبادت کرتی تھی۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بےت کے سوالات شروع کر دئیے تا کہ وہ تنگ آکر یہ کہہ دیں کہ گائے کے بجائے کوئی اور جانور ذبح کرلیں لیکن اللہ اور اس کے رسول کو عاجز اور بےسمجھنے والے خود ہی مشکلات میں پڑے گئے۔ آخر کار انہوں نے بقرہ کو ذبح کیا۔
اللہ تعالیٰ کا یہ واقعہ بیان کیا ہے جس سے قوم بنی اسرائیل کی پوری ذہنیت اور ان کے سوچنے کا انداز سامنے آجاتا ہے۔ اس قوم کی بنیادی خرابی یہ تھی کہ شدید بےعملی اور کافرانہ انداز کے باوجود ان کو اس بات پر بڑا گھمنڈ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور پیغمبروں کی اولاد ہیں ۔ اللہ کے محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے علاوہ سب کافر ہیں صرف وہی دین دار لوگ ہیں ۔ وہ کچھ بھی کرتے رہیں جنت صرف ان کے لئے مخصوص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا یا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جس دین کو لے کر آئے اور پوری زندگی اسی دین پر محنت کرتے رہے وہ دین کفر و شرک ، بدعتوں ، جہالتوں اور خرابیوں سے پاک تھا۔ اسی سچے دین کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش فرما رہے ہیں۔ اب اس دین سے وابستگی ہی پوری دنیا کو کفر و شرک سے نجات دلا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں تین مرتبہ ” یبنی اسرائیل “ کہہ کر جس قوم کو للکارا ہے اسے سیکڑوں سال تک ہر طرح کی نعمتوں سے نواز کر دنیا میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا تھا۔ اس قوم میں سیکڑوں پیغمبروں کو بھیجا گیا۔ دنیا بھر میں عزت و عظمت، شہرت و ناموری، مال و دولت ، حکومت و سلطنت امامت و پیشوائی۔ اس وقت کی دنیا میں بسنے والی قوموں پر برتری اور طرح طرح کی نعمتوں سے مالا مال کیا تھا لیکن قوم بنی اسرائیل نے ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے بجائے نا شکریوں کی انتہا کردی تھی۔ جو بھی اللہ کے پیغمبر تشریف لاتے ان کی اطاعت کرنے کے بجائے ان کو جھٹلانا، ستانا اور قتل کرنا ان کا مزاج بن چکا تھا۔ آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا۔ ان سے عظمتوں اور نعمتوں کو چھین کر ان پر ظالم حکمران مسلط کر دئیے۔ اور ان پر طرح طرح کے عذاب نازل کئے گئے۔ پھر وہ قوم اس طرح دنیا میں در بدر ہوگئی کہ جب بھی انہیں عروج اور ترقی نصیب ہوئی حالات نے اس طرح کروٹ لی کہ اچانک ان کی عزت و عظمت خاک میں مل گئی۔ اور پھر ان کو اپنا قومی وجود بچانا بھی مشکل ہوگیا۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح چلتا رہے گا۔
حضرت یعقوب (علیہ السلام) جو اللہ کے پیغمبر ہیں ان کا لقب اسرائیل تھا۔ ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا گیا ہے بعد میں جب بنی اسرائیل نے اپنے آپ کو ” یہودا “ کی طرف منسوب کر کے یہودی کہنا شروع کیا تو وہ اسی نام سے مشہور ہوگئے ۔ قرآن کریم میں پوری وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے کہ کفار، مشرکین ، یہودیوں اور عیسائیوں نے اللہ کے دین کو بری طرح تبدیل کر کے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے ہدایت کے بجائے گمراہی کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اب اگر وہ سچی ہدایت اور آخرت کی کامیابی چاہتے ہیں تو انہیں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دین پر چلنا ہوگا جسے وہ اللہ کی طرف سے پیش فرما رہے ہیں اور حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت و محبت سے پورے خلوص کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے پڑے گی۔ فرمایا کہ اگر اللہ اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کتاب ہدایت کو نہ بھیجتا تو ساری دنیا جہالت، کفر اور شرک کے اندھیروں میں بھٹکتی رہتی اور ان کو راہ ہدایت نصیب نہ ہوتی۔ اللہ کی طرف سے یہ ہدایت کا آخری موقع ہے۔ اگر اس موقع کا فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر دنیا والوں کو اپنی زندگی کے اندھیروں کو دور کرنے کا موقع نصیب نہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی صاف صاف بیان کردیا ہے کہ دین اسلام کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے بلکہ وہ ایک نظریہ حیات ہے جو بھی اس پر عمل کرے گا وہ کامیاب ہوگا ۔ کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ وہ فلاں کی اولاد اور اس کا فلاں خاندان سے تعلق ہے۔ جو بھی ایمان اور عمل صالح کی جتنی دولت لے کر آئے گا اسی سے اس کو آخرت میں اعلیٰ ترین مقام عطا کیا جائے گا۔
خلاصہ سورة بقرہ
سورة بقرہ جو تقریباً ڈھائی سیپاروں پر مشتمل ہے قرآن کریم کی سب سے بڑی اور اہم سورت ہے۔ چالیس رکوع، دو سو چھیاسی آیات اور زندگی گذارنے کے ایسے یقینی اصول بیان کئے گئے ہیں جن میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ کتاب ہدایت ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہی کامیاب ہو سکتے ہیں جو تقویٰ ، پرہیز گاری اور غیب کی ہر حقیقت پر ایمان لا کر نماز کو قائم کرتے ہیں۔ جو اللہ کے راستے میں اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے خرچ کرتے ہیں، قرآن کریم اور اس سے پہلے جن کتابوں کو نازل کیا گیا ہے ان پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت کی زندگی پر یقین کامل رکھتے ہیں ایسے لوگ نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ ان کا رب خود ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن ایسے بےحس لوگ جن پر کسی اچھی بات اور نصیحت کا اثر نہیں ہوتا۔ جنہوں نے اپنی آنکھوں اور کانوں کو بند کرلیا ہے اور ہر حقیقت کو دیکھنے کے بجائے اپنی آنکھوں پر پردے ڈال رکھے ہیں اللہ ایسے لوگوں کی آنکھوں، کانوں اور دلوں پر بدنصیبی کی مہریں لگا کر ان کو جہنم کا ایندھن بنا دیتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد کے لئے مومنوں اور کافروں دونوں سے ملے رہتے ہیں جو زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں اور ہمیں آخرت کی زندگی پر بھی یقین ہے لیکن ان کے دل مومن نہیں ہوتے۔ وہ اپنے طرز عمل سے اللہ کو اور ایمان والوں کو فریب دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ خود ایک بہت بڑے دھوکے میں مبتلا ہیں ان کا انجام دہری زندگی گزارنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اصلاح کے نام پر فساد کرتے ہیں جو ایمان اور سچائی کے راستے پر چلنے والوں کو حقیر اور بیوقوف سمجھتے ہیں۔ جن کی گھریلو اور باہر کی زندگی بالکل مختلف ہوتی ہے وہ ایسے مال کے سوداگر ہیں جس میں کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ زندگی بھر اندھیروں میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ وہ بدترین انجام کے مستحق ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو پیدا کر کے جسم اور روح کی غذائیں پید ا کی ہیں۔ پوری کائنات کا ذرہ ذرہ اور اس کی ہر چیز کو انسانی جسم کی ضرورت کے لئے بنایا ہے اور اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اپنا کلام بھیج کر انسانی روح کی غذا بنایا ہے۔ اللہ نے آخر میں اس کلام قرآن مجید کو اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا جس میں کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نے قیامت تک آنے والوں کو چیلنج کیا ہے کہ اگر کسی کو اس کے کلام الٰہی ہونے میں شک اور شبہ ہے تو وہ قرآن کریم کی جیسی ایک سورت ہی بنا کرلے آئے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ساری دنیا کے لئے ایک ایسا کھلا چیلنج ہے جس کا جواب نہ تو گذشتہ ڈیڑھ ہزار سال میں دیا گیا ہے اور نہ دیا جاسکے گا۔ کیوں کہ قرآن مجید ایک ایسا معجزہ ہے جس میں ہر بڑی سے بڑی حقیقت کو معمولی اور چھوٹی سے چھوٹی مثالوں سے اس طرح سمجھایا گیا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں ذرہ برابر ایمان کی روشنی ہوگی وہ راہ ہدایت حاصل کرتے چلے جائیں گے۔
انسان جسے اللہ نے بیشمار صلاحیتوں سے نوازا ہے اسے اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے جس کا کام عدل و انصاف اور علم کی سچائیوں کو پھیلانا ہے۔ یہی وہ علمی صلاحیت تھی جس نے اسے عظمت کی بلندیاں عطا کیں اور فرشتوں کو بھی اس کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا۔ جب شیطان نے اس انسانی عظمت کا انکار کیا تو قیامت تک کے لئے اس کو بارگاہ الٰہی سے نکال دیا گیا۔
اس طرح اللہ نے یہ بتا دیا کہ اس کائنات میں سب سے افضل اور اعلیٰ مخلوق انسان ہی ہے۔ اس سے زیادہ انسان کی عظمت اور کیا ہوگی کہ اللہ نے اپنے تمام پیغمبروں کو انسانوں ہی میں سے بنایا ہے۔ وہ بشر ہوتے ہیں مگر ایسے بشر جن کی عظمت سے ساری کائنات کو عزت و عظمت نصیب ہوتی ہے۔
سورة بقرہ کی آیت نمبر ٤٧ سے آیت نمبر ١٢٣ تک مسلسل دس رکوعوں میں بنی اسرائیل کے واقعات زندگی کو بیان کر کے فرمایا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو ہر طرح کی نعمتوں اور عظمتوں سے نوازا تھا مگر انہوں نے ہر نعمت پر نا شکری کرنا اللہ سے کئے ہوئے ہر عہد اور معاہدہ کو توڑنا اور بد عملی کی وہ انتہا کردی تھی جس کی وجہ سے بنی اسرائیل کو ہر عزت و عظمت کے مقام سے معزول کرنا پڑا اور ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے ان پر قیامت تک کے لئے عذاب مسلط کردیا گیا جس سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔
بنی اسرائیل کی زندگی کے تاریخی واقعات اور عروج زوال کا ذکر کرنے کے بعد “ امت وسط ” اور “ خیر امت ” کا ذکر فرمایا ہے۔ وہ امت جس کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اتنی زبردست قربانیاں دیں کہ اللہ نے انہیں ساری دنیا کی قوموں کی امامت و پیشوائیت کا مقام عطا فرمایا۔ اسی مقصد کو لے کر سارے پیغمبر تشریف لاتے رہے اور اس مقصد اور دین کے اصولوں کی تکمیل خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کی گئی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نہ صرف دین اسلام کی تکمیل فرمائی گئی بلکہ نعمت نبوت کو بھی مکمل کردیا گیا اور اللہ نے اس امت کو وہ پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطا فرمائے ہیں جو اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ جن کے بعد کوئی کسی طرح کا نبی اور رسول نہیں آسکتا کیونکہ اللہ نے دین بھی مکمل کردیا۔ نبوت بھی مکمل کردی بلکہ کائنات کا مقصد بھی مکمل کردیا۔ اب قیامت ہی آئے گی اور پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کو “ بہترین اور معتدل امت ” بنا کر انہیں ہر طرح کی عظمتوں سے نواز دیا ہے۔ قبلہ کو بیت المقدس سے تبدیل کر کے مسجد الحرام اور بیت اللہ کا رخ دے کر در حقیقت بنی اسرائیل کو ان کی ہر عظمت سے باقاعدہ معزول کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے اور اس خیر امت کو اللہ کے دین کی عظمت کے لئے ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ اب یہ آخری نبی کی آخری امت ہے۔ ساری انسانیت کی بھلائی، عزت، سربلندی صرف خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے دین اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقوں پر چلنے میں مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو قرآن کریم جیسی عظیم کتاب اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث اور پر نور سنتوں سے آراستہ کر کے قیامت تک آنے والی نسلوں کی ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ سونپ دیا ہے۔ اب صرف ہر طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی سعادت ان ہی لوگوں کے حصے آئے گی جو حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت و محبت سے وابستہ ہوں گے لیکن جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث اور سنتوں کو چھوڑ کر دوسرے طریقوں پر چلنے کی کوشش کریں گے۔ وہ دنیا اور آخرت میں سخت ناکام اور بد نصیب لوگوں میں شامل ہوں گے۔
بنی اسرائیل اور خیر امت کا ذکر کرنے کے بعد آیت نمبر ١٥٣ سے سورت کے آخر تک ایسے چالیس اصول زندگی ارشاد فرمائے گئے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہر مومن کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔
شاید ان اصولوں میں اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ اے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر تم یہ چاہتے ہو کہ بنی اسرائیل کی طرح نافرمانیوں اور نا شکریوں میں مبتلا نہ ہو تو سورة بقرہ اور اس کے بعد پورے قرآن کریم میں بیان کئے ہوئے اصولوں پر چلو تو تم کبھی راستہ نہ بھٹکو گے صراط مستقیم ہی تمہارا مقدر ہوگا۔ اب آپ ان چالیس اصولوں کی تفصیل ملاحظہ کیجئے جنہیں سورة بقرہ میں بیان فرمایا گیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم کے ابدی اصولوں اور خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت اور محبت کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پر نور سنتوں پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین