Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 286
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ؕ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ١ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ١ۚ وَ اعْفُ عَنَّا١ٙ وَ اغْفِرْ لَنَا١ٙ وَ ارْحَمْنَا١ٙ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠   ۧ
لَا يُكَلِّفُ : نہیں تکلیف دیتا اللّٰهُ : اللہ نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی گنجائش لَهَا : اس کے لیے مَا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَعَلَيْهَا : اور اس پر مَا اكْتَسَبَتْ : جو اس نے کمایا رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُؤَاخِذْنَآ : تو نہ پکڑ ہمیں اِنْ : اگر نَّسِيْنَآ : ہم بھول جائیں اَوْ : یا اَخْطَاْنَا : ہم چوکیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تَحْمِلْ : ڈال عَلَيْنَآ : ہم پر اِصْرًا : بوجھ كَمَا : جیسے حَمَلْتَهٗ : تونے ڈالا عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تُحَمِّلْنَا : ہم سے اٹھوا مَا : جو لَا طَاقَةَ : نہ طاقت لَنَا : ہم کو بِهٖ : اس کی وَاعْفُ : اور در گزر کر تو عَنَّا : ہم سے وَاغْفِرْ لَنَا : اور بخشدے ہمیں وَارْحَمْنَا : اور ہم پر رحم اَنْتَ : تو مَوْلٰىنَا : ہمارا آقا فَانْصُرْنَا : پس مدد کر ہماری عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا ، ہر جان کیلئے وہی ہے جو اس کی کمائی ہے اور جس کیلئے اسے جوابدہ ہونا ہے وہ بھی اس کی کمائی ہے ، اے ہمار [ ے رب ! اگر ہم سے بھول چوک ہوجائے یا ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اس کیلئے ہم پر مواخذہ نہ کر ، اے ہمارے رب ! ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا کہ ان پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں ، اے ہمارے رب ! وہ بوجھ ہم سے مت اٹھوا جس کے اٹھانے کی ہم کو ہمت نہیں اور ہم سے درگزر فرما ، اور ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما ، تو ہی ہمارا مالک و آقا ہے پس کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما
اللہ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا : 509: اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ نفوس کی پوشیدہ باتوں پر بھی محاسبہ ہوگا اب اس کی مزید وضاحت فرما دی کہ اس سے مراد غیر اختیاری امور نہیں ہیں کیونکہ اللہ کبھی ایسے احکام صادر نہیں فرماتا جو ایک شخص کی طاقت و قوت سے باہر ہوں۔ ان کے لئے اسباب فراہم نہ ہو سکیں فرمایا نہیں جتنا کرو گے اس کے مطابق جزا ملے گی۔ قوت ارادی میں ضعف و کمزوری نہ آنے پائے اور کام کرنے کا عزم صمیم ہو پھر اگر غلطی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے اللہ ! ہم سے کبھی بھول کر کوئی غلطی ہوجائے یا باوجود یاد ہونے کے پھر بےارادہ کوئی فعل سرزد ہو تو اس پر مواخذہ نہ فرما۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زائد کام کا حکم نہیں دیتا اس لئے غیر ارادی طور پر یعنی غیر اختیاری طور پر جو خیالات دوسرے کے دل میں پیدا ہوجائیں لیکن ان پر کوئی عمل نہ ہو بلکہ ان وسوسوں کے آنے پر انسان اپنے نفس کو ملامت کرے وہ سب اللہ کے نزدیک معاف ہیں۔ حساب اور مواخذہ صرف ان افعال پر ہوگا جو اختیار اور ارادہ سے کئے جائیں۔ تفصیل اس کی اس طرح ہے کہ جس طرح انسان کے اعمال و افعال جو ہاتھ ، سر ، آنکھ اور زبان وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کو اعمال ظاہرہ کہا جاتا ہے ان کی دو قسمیں ہیں : ایک اختیاری جو ارادہ و اختیار سے کئے جاتے ہیں جیسے ارادہ سے بولنا ، ارادہ کے ساتھ کسی کو مارنا اور دوسرے غیر اختیاری جو بلا ارادہ سر زد ہوجائیں جیسے زبان سے کہنا چاہتا تھا کچھ ، لیکن کچھ اور ہی نکل گیا یا رعشہ سے بالاختیار حرکت ہوئی اور ہاتھ سے کسی دوسرے کو کوئی تکلیف پہنچ گئی یا کوئی چیز گر کر ٹوٹ گئی ۔ انسان انہی افعال کا ذمہ دار ہے جو ارادہ و اختیار سے کئے ہوں غیر ارادی افعال پر اگرچہ ناگواری ہوتی ہے لیکن مواخذہ نہیں ہوتا۔ قانون کا متعلق دو باتیں یاد رکھنے کے قابل ہیں : ! : لوگ اس کو اچھی طرح سمجھ لیں کیونکہ اگر یونہی ان کو عمل کرنے کے لئے مجبور کیا گیا تو وہ کبھی اس کے پابند نہ رہ سکیں گے۔ " : طاقت اور استطاعت سے زیادہ نہ ہو۔ کیونکہ یہ بھی فطری امر ہے کہ طاقت و استطاعت سے زیادہ بوجھ اٹھایا ہی نہ جائے گا اگرچہ یہ بات ہر انسان پر لازم نہیں آتی کہ وہ خود اس کا فیصلہ کرے بلکہ اس کا فیصلہ بھی اللہ کے پاس ہے۔ نتیجہ عمل کے ساتھ وابستہ ہے جیسا عمل ہوگا ویسا ہی نتیجہ ہوگا : 510: اللہ کا قانون مجازات ایسا ہی واقع ہوا ہے کہ ہر آدمی انعام اسی خدمت پر پائے گا جو اس نے خود انجام دی ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص کی خدمات پر دوسرا انعام پائے اور یہ اصول عنداللہ ہے۔ اسی طرح ہر شخص اسی قصور میں پکڑا جائے گا جس کا وہ خود مرتکب ہوا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک کے قصور میں دوسرا پکڑا جائے ۔ ہاں ! یہ ضرور ممکن ہے کہ ایک آدمی نے کسی نیک کام کی بنیاد رکھی ہو اور دنیا میں ہزاروں سال تک اس کے اثرات چلتے رہیں اور یہ سب اس کے کار نامے میں لکھے جائیں اور اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے شخص نے کسی برائی کی بنیاد ڈالی ہو اور صدیوں تک دنیا میں اس کا اثر جاری وساری رہے اور وہ اس ظالم اول کے نامہ اعمال میں بھی درج ہوتا رہے لیکن یہ اچھا یا برا جو کچھ بھی اس کا پھل ہوگا اس کی سعی اور اس کے کسب کا نتیجہ ہوگا۔ بہر حال یہ ممکن نہیں ہے کہ جس بھلائی یا برائی میں آدمی کی نیت اور سعی و عمل کا کوئی حصہ نہ ہو اس کی جزاء یا سزا اسے مل جائے ۔ اللہ کے ہاں یہ اندھیر کھاتہ بالکل ممکن نہیں۔ آیت کے حصہ پر غور کرنا چاہئے خصوصاً ان لوگوں کو جو بلا قصد و ارادہ کے بھی ثواب و عذاب کے قائل ہیں اور دن رات مردوں کے بخشوانے کے ٹھیکہ دار ہیں۔ دراصل وہ دھندا کرتے ہیں اپنے پیٹ کا ، اس کی ان کو فکر ہے اور چونکہ ان کی پیٹ پوجا چل رہی ہے لہٰذا وہ اس کاروبار کو چھوڑ کر جو نہایت سہل و آسان ہونے کے ساتھ ساتھ سود بخش بھی ہے کیوں چھوڑیں گے ؟ اے اللہ ! ہم پر ایسا بوجھ مت ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا گیا : 511: اے ہمارے رب ! ہم پر ایسا بوجھ مت ڈال جو ہم سے پیشتر لوگوں پر ڈالا گیا تھا ۔ یعنی جیسی جیسی آزمائشوں سے انہیں دوچار کیا گیا ہم کو مت ان کا سامنا کرنا پڑے ہم اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے درخواست پیش کر رہے ہیں۔ ” اِصْرًا “ سے مراد ہے وہ حکم جو اتنا سخت ہو کہ حد بشری سے خارج تو نہ ہو لیکن اس کی تعمیل میں مشقت و کلفت زیادہ ہی برداشت کرنا پڑتی ہو۔ قرآن کریم نے ضمناً اس مبالغہ بیان کی بھی اصلاح کردی اور یہ اشارہ کردیا کہ گو وہ احکام سخت ضرور تھے یا سوال در سوال کر کے سخت کروا لئے گئے تھے لیکن ایسے نہیں تھے کہ ان پر قابل برداشت ہونے کا اطلاق ہو سکے۔ جب ایک کام ہوگیا اگرچہ وہ نہایت مشقت و کلفت کے ساتھ ہوا تو اس پر بھی ناقابل برداشت کے الفاظ صادق نہیں آتے ہاں ! اس کی مشقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ بھی انسان کی اپنی ہی کم عقلی یا بےوقوفی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ مطلب واضح ہوگیا کہ ہمارے پیش روئوں کو تیری راہ میں جو آزمائشیں پیش آئیں۔ جن زبردست ابتلائوں سے وہ گزرے جن مشکلات سے انہیں سابقہ پڑا ان سے ہمیں بچا اگرچہ اللہ کی سنت یہی رہی ہے کہ جس نے بھی حق و صداقت کی پیروی کا عزم کیا ہے اسے سخت آزمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا ہی پڑا ہے اور جب آزمائشیں پیش آئیں تو مؤمن کا کام یہی ہے کہ پورے استقلال سے ان کا مقابلہ کرے۔ لیکن بہر حال مؤمن کو اللہ سے دعا یہی کرنا چاہئے کہ وہ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے لئے حق پرستی کی راہ آسان کر دے۔ اے رب کریم ہم سے وہ بوجھ مت اٹھوا جس کے ہم متحمل نہ ہوں : 512: بار گاہ ایزدی میں یہ دعا گویا فطرت ِانسانی کی بار بار تصدیق کرتی ہے کہ زور آور کے ساتھ اپنی کمزوری کا اظہار ایک بار کرکے آدمی بس نہیں کرسکتا ۔ پھر وہ زور آوروں کا زور آور ہے اس کے سامنے سر نیاز جھکانا چاہئے کہ وہ ہمیشہ جھکا ہی رہے۔ دینے والا بیشک بغیر مانگے دے لیکن پھر بھی اگر مانگا ہی جائے تو وہ ضرور خوش ہوگا۔ غور کرو اپنی اولاد کا کس کو خیال نہیں ہوتا ان کے بغیر مانگے دن رات انسان کوشش کرکے ، محنت و مشقت کر کے ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جدوجہد کرتا ہی رہتا ہے لیکن کیا اولاد نے اپنی احتیاج کبھی پیش نہیں کی ؟ کیا وہ ان کی اختیاج سے ناخوش ہوتا ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ ان کی احتیاج کو پورا کرنے کے لئے پہلے سے کئی گناہ زیادہ زور خرچ کرتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی ان کی احتیاج کو دوسروں کے سامنے بیان بھی کردیتا ہے تاکہ وہ اس طرح اپنی خوشی کا اظہار کرے کہ میری اولاد کو میری اتنی ضرورت ہے۔ اے پروردگار حقیقی ! مشکلات کا بار ہم پر اتنا ہی ڈال جسے ہم سہار لے جائیں۔ آزمائشیں بس اتنی ہی ہوں کہ ہم ان پر پورے اتر سکیں ایسی نہ ہو کہ ہماری قوت برداشت سے بڑھ کر سختیاں ہم پر نازل ہوں اور ہمارے قدم راہ حق سے ڈگمگا جائیں۔ ہم پر ہماری بےسمجھی اور نادانی کا بار عظیم نہ ڈال اور جو قانون بھی نوازش ہو تو ہماری طاقت کا لحاظ کر کے دیا جائے۔ ہم اگرچہ غلطی کریں مگر تو رحیم و کریم ہے عفودرگزر سے کام لینا اور ہم پر سختی سے پیش نہ آنا۔ ہماری غلط کاری کا مواخذہ نہ کرنا بلکہ مہلت عطا کرنا تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں۔ ابھی ترقی کے بہت سے مواقع ہیں۔ مقاصد مہم پیش نظر ہیں اور ہم ابھی تک ایسے جرائم کے مرتکب نہیں ہوئے کہ ہمیں اس ترقی سے محروم کردیا جائے بلکہ اپنی خاص رحمت سے ہمیں آگے بڑھنے کا موقع نوازش فرما کہ تو ہی دعائوں کو قبول کرنے والا اور ہماری احتیاجوں کو پورا کرنے والا ہے۔ اے ہمارے رب ! ہم خطا کار ہیں اور تیری رحمت کے امیدوار بھی : 513: فطرتِ انسانی میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ خواہ انسان کتنا ہی کامل کیوں نہ ہو وہ پوری زندگی سیکھتا ہی رہتا ہے وہ کون ہے جس کا سیکھنا ختم ہوجائے ؟ اور اگر کوئی یہ سمجھ لے کہ میرا سیکھنا ختم ہوگیا تو یہ سمجھنا بجائے خود جہالت ہے۔ انسان اور خطا لازم و ملزوم ہیں۔ انسان اگر انسان ہے تو خطا اس سے ہوگی۔ خطا کرنے اور خطا کے سر زد ہونے میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا سب غلطیوں سے بڑی غلطی ہے اتنی بڑی غلطی کہ گویا اس کو کفر کہا جاسکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی بخشش کی امید اس کے مقابلہ کی نیکی ہے۔ یعنی مایوسی بہت بڑا گناہ ہے اور رحمت کی امید بذاتہٖ بہت بڑی نیکی ہے۔ ” وَ ارْحَمْنَا “ یعنی ہم پر رحمت کامل ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اصل کامیابی تو وہی کامیابی ہے جو آخرت کی کامیابی ہو۔ اس لئے ہماری طلب دنیا میں بھی ہے لیکن آخرت کی کامیابی کا انحصار بھی صرف اور صرف تیری ہی رحمت پر ہے ہمارے اعمال پر نہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اعمال اور خصوصاً اچھے اعمال کا ہونا بھی اللہ کی رحمت ہی سے خاص ہے۔ جس سے اچھے اعمال ہوں گویا اس پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہے۔ کفر کے مقابلہ میں مدد کی اپیل بارگاہ رب ذوالجلال : 514: مادی ترقی بھی ایک حد تک اپنا اثر دکھاتی ہے لیکن روحانی ترقی بھی مادی ترقی کے ساتھ موجود ہو تو اس کا مقابلہ کوئی چیز بھی نہیں کرسکتی۔ ہوتا یہ ہے کہ جب مادی ترقی حاصل ہوتی ہے تو اکثر و بیشتر انسان روحانی ترقی کو بھول جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو جب دنیاوی ترقی میں حصہ و افر نصیب ہوا تو ان حالات میں بھی مسلمانوں کو تلقین کی جا رہی ہے کہ اپنے مالک حقیقی سے اس طرح دعا مانگا کرو۔ ظاہر ہے کہ دینے والا جب خود ہی مانگنے کا ڈھنگ سکھائے تو ملنے کا یقین آپ سے آپ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس وقت یہ دعا مسلمانوں کے لئے غیر معمولی تسکین قلب کا باعث ہوئی۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو اس دعا میں ضمناً یہ بھی تلقین کردی گئی کہ وہ اپنے جذبات کو کسی نا مناسب رخ پر نہ بہنے دیں بلکہ انہیں اس دعا کے سانچے میں ڈھال لیں۔ ایک طرف ان حالات کو دیکھئے جو محض حق پرستی کے جرم میں مسلمانوں پر ڈھائے جا رہے تھے اور ذرا وقت درست ہوا حالات نے رخ بدلا تو مسلمانوں کو اس دعا کی صورت میں زندگی کی فراوانیوں کا سارا ذکر سمجھا دیا۔ جس میں دشمنوں کی تلخیوں کا شائبہ تک بھی موجود نہیں اور کہا جا رہا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کو مخاطب فرما کر اے اللہ ! اے ہمارے رب ہمارے دکھوں اور غموں کا تو اور صرف تو ہی مداوا ہے اور ان معاندین کے مقابلہ میں ہمارا مددگار تو ہی ہے اور ہم اپنی فریاد رسی کے لئے مادی و روحانی مدد تجھ ہی سے طلب کرتے ہیں اور تیرے سوا کسی دوسرے سے مدد طلب نہیں کرسکتے ۔ جب ہم تیرے ہی غلام ہیں اور تو ہی ہمارا آقا و مولا ہے تو ہمیں کفار پر غلبہ نوازش فرما دے۔ آمین یا رب العالمین۔ انسان کی انسانیت کی بلندی کا معیار یہی ہے کہ جو طلب کرے اللہ سے کرے : 515: انسان کو اپنی انسانیت کا اگر پاس موجود ہو تو وہ جو مانگے گا صرف اللہ ہی سے مانگے گا ۔ وہ مسبّب الاسباب ہے ، وہ عطا کرنے کے لئے جو سبب چاہے بنائے یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ وہ جو سبب بنائے گا بندے کے لئے اچھا ہوگا ۔ بلکہ سبب کا اچھا ہونا ہی اس کی دلیل ہے کہ اس بندہ کی طلب سچی ہے جو صرف اسی ذات کے ساتھ ہے جو سب کی بگڑی بنانے والا ہے۔ جسمانی تکلیف ہو یا مالی نقصان اس کا دور کرنے والا تو اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں۔ پھر اس دعا کے ایک ایک لفظ پر غور کیجئے آپ دیکھیں گے کہ اس دعا میں دنیوی مفاد کی طلب کا ادنیٰ نشان تک بھی نہیں پایا جاتا ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کی نہایت خستہ حالی کو دیکھئے اور دوسری طرف ان بلند اور پاکیزہ جذبات کو دیکھئے جن سے یہ دلر ُ با دعا لبریز ہے۔ اس تقابل ہی سے صحیح اندازہ ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کو کس درجہ میں اخلاقی و روحانی تربیت دی جا رہی ہے کہ کوئی مذہب بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ سورئہ بقرہ کے اس حسن خاتمہ کے قربان جایئے جس میں اسلام کے انتہائی نصب العین اور غایت الغایات کو نہایت ہی واضح اور روشن الفاظ میں بیان کردیا کہ فرزندانِ توحید ، دنیا کی تمام اقوام و ملل اور مذاہب و ادیان پر حاکم بنا کر بھیجے گئے ہیں اور ” شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ “ اس صورت میں بن سکتے ہیں جب کہ اس قانون پر عمل کریں جو رسول اللہ ﷺ کی معرفت انہیں نوازش کیا گیا ہے ۔ صبر و استقامت ، عزم و استقلال اور ولولہ دینی و حب مذہبی اپنے اندر پیدا کریں ۔ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے ہمیشہ تیار رہیں اور اللہ تعالیٰ سے فتح و کامرانی کی دعا مانگیں۔ سورئہ بقرہ کی آخری دو آیات کی مجموعی اہمیت آیت 285 ، 286 سورة بقرہ کی آخری دو آیات ہیں۔ احادیث صحیحہ میں ان دونوں آیتوں کے بڑے فضائل ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے : ” جس نے رات کو یہ دو آیتیں پڑھ لیں تو یہ دونوں آیتیں اس کے لئے کفایت کریں گی۔ “ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب شھود الملائکۃ بدرا) عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کی دو آیتیں جنت کی خزائن میں سے نازل فرمائیں ہیں جن کو تمام مخلوق کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے خود رحمٰن نے اپنے ہاتھ سے لکھ دیا تھا جو شخص ان کو عشاء کی نماز کے بعد پڑھ لے تو وہ اس کے لئے قیام اللیل یعنی نماز تہجد کے قائم مقام ہوجاتی ہیں۔ پہلی حدیث میں جو ان آیتوں کے لئے کافی ہونے کے ذکر ہے اس سے اس کی بھی وضاحت ہوگئی کہ قیام اللیل کی بجائے ان کا کافی ہونا مراد ہے اور مستدرک حاکم اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے سورة بقرہ کو ان دو آیتوں پر ختم فرمایا ہے جو مجھے اس خزانہ خاص سے عطا فرمائی ہیں جو عرش کے نیچے ہے اس لئے تم خاص طور پر ان آیتوں کو سیکھو اور اپنی عورتوں اور بچوں کو سکھائو اس لئے حضرت فاروق اعظم ؓ اور حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ ہمارے خیال میں کوئی آدمی جس کو کچھ بھی عقل ہو وہ سورة بقرہ کی ان دونوں آیتوں کو پڑھے بغیر نہ سوئے گا۔ ان دونوں آیتوں کے معنوی خصوصیات تو بہت ہیں لیکن ان میں سے ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ سورة بقرہ میں اکثر احکام شرعیہ اجمالاً و تفصیلاً ذکر کردیئے گئے ہیں۔ اعتقادات ، عبادات ، معاملات ، اخلاق اور معاشرت وغیرہ آخری دو آیتوں میں سے پہلی آیت میں ” اطاعت “ شعار مؤمنین کی طرح کی گئی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر لبیک کہا اور تعمیل کے لئے تیار ہوگئے اور دوسری آیت میں ایک شبہ کا جواب دیا گیا ہے جو ان دو آیتوں سے پہلی آیت میں صحابہ کرام ؓ کو پیدا ہوگیا تھا اور ساتھ ہی اپنے فضل و رحمت بےحساب کا ذکر فرمایا گیا۔ وہ یہ تھا کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی : وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ 1ؕ ” جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو وہ تم سے ضرور حساب لے گا ۔ “ آیت کی اصل مراد تو یہ تھی کہ اپنے اختیار و ارادہ سے جو کوئی عمل اپنے دل سے کرو گے اس کا حساب ہوگا۔ غیر اختیاری وسوسہ اور بھول چوک اس میں داخل ہی نہ تھی لیکن الفاظ قرآن کریم بظاہر عام تھے ان کے عموم سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان کے دل میں غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آجائے تو اس کا حساب بھی ہوگا۔ صحابہ کرام ؓ یہ سن کر گھبرا اٹھے اور نبی کریم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اب تک تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہم جو کام اپنے ارادہ اختیار سے کرتے ہیں حساب ان ہی اعمال کا ہوگا غیر اختیاری خیالات جو دل میں آجاتے ہیں ان کا حساب نہ ہوگا۔ اس طرح یہ تو عذاب سے نجات پانا سخت دشوار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو اگرچہ یہ بات معلوم تھی کہ اس کا مطلب کیا ہے تاہم آپ ﷺ خاموش رہے تاکہ وحی الٰہی کا انتظار کیا جائے اور یہ آپ ﷺ کا معمول تھا۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے اس سوال پر صرف یہ ارشاد فرمایا کہ مؤمن کا کام تسلیم ہے کہ اللہ کا حکم جب آئے تو ” سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا “ کہے اور اس کو ماننے میں ذرا بھی تا مل نہ کرے اور اس طرح کی بات ذہن میں نہ لائے کیونکہ ہمارا کام تعمیل حکم ہے نتیجہ اللہ کے سپرد کرنا چاہئے صحابہ ؓ خاموش ہوگئے لیکن جب تک دل کسی چیز کے متعلق اطمینان نہ پائے کھٹکا ختم نہیں ہوتا اس کھٹکے کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کی آخری دونوں آیتیں نازل فرمائیں جن میں پہلے مسلمانوں کی گویا مداح فرمائی اور دوسری آیت ان کے دل کے کھٹکا کو دور کرنے کے لئے ارشاد فرمائی۔ سورئہ بقرہ کی آخری آیت 286 کے دُعائیہ کلمات یہ دعائیہ کلمات اور قرآن کریم کی دوسری ادعیاء جو مختلف مقامات پر بیان کی گئی ہیں ہمیں اس بات کا درس دیتی ہیں کہ انسان جب بھی کسی مصیبت اور دکھ میں مبتلا ہو تو اسے صرف اور صرف اپنے مالک حقیقی ہی کو پکارنا چاہئے جو ہر ایک انسان کی پکار کو سننے والا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ اگرچہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے اور نہ ہی اپنے حواس سے مجھ کو محسوس کرسکتے ہو لیکن یہ خیال نہ کرو میں تم سے دور ہوں ؕ ۔ نہیں میں اپنے بندے سے اتنا قریب ہوں کہ جب وہ چاہے مجھ سے عرض و معروض کرسکتا ہے حتیٰ کے دل میں میرا بندہ جو کچھ مجھ سے گزارش کرتا ہے میں اسے بھی سنتا اور جانتا ہوں اور پھر صرف سنتا ہی نہیں فیصلہ بھی صادر کرتا ہوں ۔ جن بےحقیقت اور بےاختیار ہستیوں کو تم نے اپنی نادانی سے الٰہ اور رب قرار دے رکھا ہے ان کے پاس تو تمہیں دوڑ دوڑ کر جانا پڑتا ہے اور پھر بھی نہ وہ تمہاری شنوائی کرسکتے ہیں اور نہ ان میں طاقت ہے کہ تمہاری درخواستوں پر کوئی فیصلہ صادر کرسکیں۔ مگر میں کائنات بےپایاں کا فرمانروائے مطلق تمام اختیارات اور تمام طاقتوں کا مالک تم سے اتنا قریب ہوں کہ تم خود بغیر کسی واسطہ و وسیلہ اور سفارش کے براہ راست ہر وقت اور ہر جگہ مجھ تک اپنی عرضیاں پہنچا سکتے ہو۔ لہٰذا تم اپنی اس نادانی کو چھوڑ دو کہ ایک ایک بےاختیار بناوٹی خدا کے در پر مارے مارے پھرتے ہو میں جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں اس پر لبیک کہہ کر میرا دامن پکڑ لو ، میری طرف رجوع کرو مجھ پر بھروسہ کرو اور میری بندگی اورا طاعت میں آجائو۔ قرآن کریم کے مختلف مقامات پر بار بار یہ دعائیں سکھائی گئی ہیں ان کو انہی الفاظ میں یاد کرو اور ان کے معانی پر نظر رکھو اور اسی الٰہ حقیقی کی طرف اپنے ہاتھوں کو اٹھاؤ اور اس طرح کہو : رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَ ہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً 1ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ 008 رَبَّنَاۤ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ (رح) 009 (آل عمران 3 : 8 ، 9) ” اے ہمارے رب ! ہمیں سیدھے راستے پر لگا دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ڈانواں ڈول نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما یقینا تو ہی (بخشش) عطا کرنے والا ہے۔ اے ہمارے رب ! بلاشبہ تو ایک دن ہم سب کو اپنے حضور جمع کرنے والا ہے ، یقینا تیرا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہو سکتا۔ “ ! رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِۚ0016 (آل عمران 3 : 16) ” اے ہمارے رب ! ہم تجھ پر ایمان لائے پس ہمارے گناہ بخش دے اور عذاب جہنم سے ہمیں بچا لے۔ “ " رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ 0053 (آل عمران 3 : 53) ” اے ہمارے رب ! جو کچھ تو نے نازل کیا ہے اس پر ہمارا ایمان ہے اور ہم نے تیرے رسول (عیسیٰ علیہ السلام) کی پیروی کی ، ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو جو شہادت دینے والے ہیں۔ “ #رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْۤ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ 00147 (آل عمران 3 : 147) ” اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش دے ہم سے ہمارے کام میں جو زیادتیاں ہوگئی ہیں ان سے درگزر فرما ، ہمارے قدم راہ حق میں جما دے اور منکرین حق کے گروہ پر ہمیں فتح مند کر دے۔ “ $ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا 1ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 00191 رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗ 1ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ 00192 رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا 1ۖۗ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِۚ00193 رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ 1ؕ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ 00194 (آل عمران 3 : 191 تا 194) ” اے اللہ ! یہ سب کچھ تُو نے بلاشبہ بیکار و عبث نہیں پیدا کیا یقینا تیری ذات اس سے منزہ ہے کہ ایک بیکار کام اس سے صادر ہو ، اے ہمارے رب ! ہمیں عذاب آتش سے بچا لے۔ اے ہمارے رب ! جو ایسا ہو ، کہ تو اسے دوزخ میں ڈالے تو بلاشبہ تو نے اسے رسوائی میں ڈالا اور ظلم کرنے والوں کیلئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ اے ہمارے رب ! ہم نے ایک منادی کرنے والے کی منادی سنی جو ایمان کی طرف بلا رہا تھا کہ لوگو ! اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے ، پس اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش دے ، ہماری برائیاں مٹا دے اور ایسا کر کہ ہمارا انجام نیک کرداروں کے ساتھ ہو۔ اے ہمارے رب ! ہمیں وہ سب کچھ عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کی زبانی وعدہ فرمایا ہے قیامت کے دن ہمیں ذلت نہ ہو ، بلاشبہ تیرا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوتا۔ “ % رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ 0083 (المائدۃ 5 : 83) ” اے اللہ ! ہم اس کلام پر ایمان لائے پس ہمیں بھی انہیں میں سے لکھ جو تیری گواہی دینے والے ہیں۔ “ رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ 0023 (الاعراف 7 : 23) ” اے ہمارے پروردگار ! ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا اگر تو نے ہمارا قصور نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہمارے لیے بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ “ ' رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (رح) 0047 (الاعراف 7 : 47) ” اے پروردگار ! ہمیں ظالم گروہ کے ساتھ شامل نہ کیجیو۔ “ (رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ 0089 (الاعراف 7 : 89) ” اے پروردگار ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان سچائی کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ “ ) رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ (رح) 00126 (الاعراف 7 : 126) ” اے ہمارے رب ! ہمیں صبر وشکیبائی سے معمور کر دے اور ہمیں دنیا سے اس طرح اٹھا کہ تیرے فرمانبردار ہوں۔ “ رَبَّنَاۤ لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَۙ0085 وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ 0086 (یونس 10 : 85 ، 86) ” اے ہمارے رب ! ہمیں اس ظالم گروہ کے لیے آزمائشوں کا موجب نہ بنائیو۔ اور اپنی رحمت سے ایسا کیجیو کہ اس کافر گروہ کے پنجہ سے ہم نجات پائیں۔ “ + رَبَّنَاۤ اِنَّكَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاَهٗ زِیْنَةً وَّ اَمْوَالًا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا 1ۙ رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِكَ 1ۚ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰۤى اَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ 0088 (یونس 10 : 88) ” اے اللہ ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس دنیا کی زندگی میں زیب وزینت کی چیزیں اور مال و دولت کی شوکتیں بخشی ہیں تو خدایا کیا یہ اس لیے ہے کہ تیری راہ سے یہ لوگوں کو بھٹکائیں ، اے ہمارے رب ! ان کی دولت زائل کر دے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دے کہ اس وقت تک یقین نہ کریں گے جب تک عذاب دردناک اپنے سامنے نہ دیکھ لیں گے۔ “ , رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ 1ۙ رَبَّنَاۤ لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ 0037 رَبَّنَاۤ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَ مَا نُعْلِنُ 1ؕ وَ مَا یَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ 0038 (ابراہیم 34 : 37 ، 38) ” اے ہمارے رب ! ایک ایسے میدان میں جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں میں نے اپنی بعض اولاد کو تیرے محترم گھر کے پاس لا کر بسایا ہے۔ اے ہمارے رب ! ان کو اس جگہ اسلئے بسایا ہے کہ نماز قائم کریں ، پس لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوجائیں اور ان کے لیے زمین کی پیداوار اور سامان رزق مہیا فرما دے تاکہ تیرے شکر گزار ہوں۔ “ - رَبَّنَاۤ وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ 0040 رَبَّنَاۤ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ (رح) 0041 (ابراہیم 14 : 40۔ 41) ” اے ہمارے رب ! ہماری دعا تیرے حضور قبول ہو۔ اے ہمارے رب ! جس دن اعمال کا حساب لیا جائے گا تو مجھے اور میرے ماں باپ کو اور ان سب کو جو ایمان لائے بخش دیجیو۔ “ . رَبَّنَاۤ اَخِّرْنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍ 1ۙ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَ نَتَّبِعِ الرُّسُلَ 1ؕ (ابراہیم 14 : 44) ” اے پروردگار ! تھوڑی سی مدت کے لیے ہمیں مہلت دے دے ہم تیری پکار کا جواب دیں گے اور پیغمبروں کی پیروی کریں گے ، کیا تم وہی نہیں ہو کہ اب سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ ہمیں کسی طرح کا زوال نہ ہوگا ؟ “ /رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ ہَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا 0010 (الکہف 10 : 18) ” اے ہمارے رب ! تیرے حضور سے ہم پر رحمت ہو اور تو ہمارے اس کام کے لیے کامیابی کا سامان کر دے۔ “ 0 رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَ کُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ 00106 رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ 00107 (المؤمنون 23 : 106 ، 107) ” وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! ہماری بدبختی ہم پر چھا گئی تھی ہمارا گروہ گمراہوں کا گروہ تھا۔ اب ہمیں اس حالت سے نکال دے اگر ہم پھر ایسی گمراہی میں پڑیں تو بلاشبہ نافرمان ہوئے۔ “ 1 رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ00109 (المؤمنون 109 : 23) ” اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے ہیں ، ہمیں بھی بخش دے اور ہم پر رحم فرما ، تجھ سے بہتر رحم کرنے والا کوئی نہیں۔ “ 2 رَبَّنَاۤ اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ 1ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا کَانَ غَرَامًاۗۖ0065 اِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا 0066 (الفرقان 25 : 65 ، 66) ” اے ہمارے رب ! ہم سے دوزخ کے عذاب کو دور ہی رکھ بلاشبہ اس کا عذاب تو ہمیشہ کی تباہی ہے۔ بلاشبہ دوزخ ٹھہرنے کے لیے بری جگہ اور رہنے کے لیے برا ٹھکانا ہے۔ “ 3 رَبَّنَاۤ ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا 0074 (الفرقان 74 : 25) ” اے ہمارے رب ! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے دِل کے چین اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے۔ “ 4 رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 0012 (السجدۃ 12 : 32) ” اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا ، پس تو ہم کو ایک بار پھر دنیا میں بھیج دے ، ہم نیک عمل کریں اس لیے کہ اب ہم کو پورا یقین آگیا ہے۔ “ 5 رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا 0067 (الاحزاب 67 : 33) ” اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں کا اور اپنے بڑے لوگوں کا کہنا مانا تو انہوں نے ہم کو سیدھی راہ سے بہکا دیا۔ “ 6 رَبَّنَاۤ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْهُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا (رح) 0068 (الاحزاب 68 : 33) ” اے ہمارے رب ! تو ہمارے ان سرداروں اور بڑے لوگوں کو دگنا عذاب دے اور بڑی پھٹکار ان پر ڈال دے۔ “ 7 رَبَّنَا بٰعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا وَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنٰهُمْ اَحَادِیْثَ وَ مَزَّقْنٰهُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ 1ؕ (سباء 34 : 19) ” اے ہمارے رب ! ہمارے سفروں کو دراز کر دے اور انہوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے بھی انہیں افسانہ بنا دیا اور ان کا شیرازہ مکمل طور پر منتشر کردیا بلاشبہ اس میں ہر ایک صبر و شکر کرنے والے کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ “ 8 رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا ہٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِی النَّارِ 0061 (صٓ 38 : 61) ” (بعد میں داخل ہونے والے) کہیں گے اے ہمارے رب ! جو (گروہ) یہ مصیبت ہمارے آگے لایا ہے اسے دوزخ میں دوگنا عذاب دے۔ “ 9 رَبَّنَاۤ وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَ قِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ 007 رَبَّنَاۤ وَ اَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ ا۟لَّتِیْ وَعَدْتَّهُمْ وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىِٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ 1ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُۙ008 وَ قِهِمُ السَّیِّاٰتِ 1ؕ وَ مَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهٗ 1ؕ وَ ذٰلِكَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (رح) 009 (المؤمن 40 : 7 ۔ 9) ” اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور علم ہرچیز کو گھیرے ہوئے ہے ، پس تو انہیں بخش دے جنہوں نے توبہ کرلی اور تیری راہ پر چلے اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ اے ہمارے رب ! ان کو ہمیشگی کی جنتوں میں داخل فرما جن کا تُو نے ان سے وعدہ کیا اور ان کو بھی جو ان کے آباؤ اجداد میں سے اور ان کی بیویوں میں سے اور ان کی اولاد میں سے نیک ہوں ، بلاشبہ تو بڑا ہی غالب آنے والا ، حکمت والا ہے اور ان کو گناہوں سے بچا لے اور جس کو تو نے اس دن گناہوں سے بچالیا تو اس پر تو نے (بڑی) مہربانی فرمائی اور یہی (سب سے) بڑی کامیابی ہے۔ “ : رَبَّنَاۤ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ 0029 اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ 0030 (حم السجدۃ 41 : 29 ۔ 30) ” اے ہمارے رب ! ہمیں وہ جن اور انسان دونوں دکھا دے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا تاکہ ہم ان دونوں کو ذلیل کرنے کیلئے انہیں اپنے پیروں کے نیچے روند ڈالیں۔ بلاشبہ جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر (اس پر) قائم رہے ، ان پر فرشتے اترتے ہیں (جو ان سے کہتے ہیں) کہ تم مت ڈرو اور غم نہ کھاؤ (تم اللہ سے ڈرتے رہے اللہ تم سے راضی ہوا) اور تم جنت کی خوشخبری سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ “ ; رَبَّنَاۤ اکْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ 0012 (الدخان 44 : 12) ” اے ہمارے رب ! اس عذاب کو ہم سے دور فرما ، بلاشبہ ہم ایمان لائے ہیں۔ “ < رَبَّنَا مَاۤ اَطْغَیْتُهٗ وَ لٰكِنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍۭ بَعِیْدٍ 0027 (قٓ 50 : 27) ” اس کا ساتھی (شیطان) کہے گا کہ اے ہمارے رب ! میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا بلکہ یہ (خود ہی) گمراہ ہو کر (حق سے) دور نکل گیا تھا۔ “ = رَبَّنَاۤ اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ (رح) 0010 (الحشر 59 : 10) ” اے ہمارے رب ! ہم کو بخش دے اور ہمارے ساتھیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کوئی کینہ باقی نہ ہو۔ اے ہمارے رب ! بیشک تو بڑا ہی شفیق ہے ، بہت ہی پیار کرنے والا ہے۔ “ > رَبَّنَاۤ عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَ اِلَیْكَ اَنَبْنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ 004 رَبَّنَاۤ لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ اغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا 1ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ 005 (الممتحنہ 60 : 4 ۔ 5) ” اے ہمارے رب ! ہم نے تجھ ہی پر بھروسہ کیا اور ہم تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ اے ہمارے رب ! ہمیں کافروں کا تختہ مشق نہ بنا اور ہم کو بخش دے ، اے ہمارے رب ! بلاشبہ تُو زبردست حکمت والا ہے۔ “ ? رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا 1ۚ اِنَّكَ عَلٰى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ 008 (التحریم 8 : 66) ” اے ہمارے رب ! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل فرما دے اور ہم کو بخش دے ، بلاشبہ تُو ہر بات پر قادر ہے۔ “ @رَبُّنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَاۤ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ 0032 (القلم 68 : 32) ” شاید ہمارا رب اس سے بہتر (باغ) ہم کو بدلے میں دے دے ہم اپنے رب کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ “ (آمین ، ثم آمین)
Top