Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 286
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ؕ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ١ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ١ۚ وَ اعْفُ عَنَّا١ٙ وَ اغْفِرْ لَنَا١ٙ وَ ارْحَمْنَا١ٙ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠   ۧ
لَا يُكَلِّفُ : نہیں تکلیف دیتا اللّٰهُ : اللہ نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی گنجائش لَهَا : اس کے لیے مَا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَعَلَيْهَا : اور اس پر مَا اكْتَسَبَتْ : جو اس نے کمایا رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُؤَاخِذْنَآ : تو نہ پکڑ ہمیں اِنْ : اگر نَّسِيْنَآ : ہم بھول جائیں اَوْ : یا اَخْطَاْنَا : ہم چوکیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تَحْمِلْ : ڈال عَلَيْنَآ : ہم پر اِصْرًا : بوجھ كَمَا : جیسے حَمَلْتَهٗ : تونے ڈالا عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تُحَمِّلْنَا : ہم سے اٹھوا مَا : جو لَا طَاقَةَ : نہ طاقت لَنَا : ہم کو بِهٖ : اس کی وَاعْفُ : اور در گزر کر تو عَنَّا : ہم سے وَاغْفِرْ لَنَا : اور بخشدے ہمیں وَارْحَمْنَا : اور ہم پر رحم اَنْتَ : تو مَوْلٰىنَا : ہمارا آقا فَانْصُرْنَا : پس مدد کر ہماری عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا۔ اے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجیو۔ اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے پروردگار جتنا بوجھ اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو۔ اور (اے پروردگار) ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا : اللہ کسی کو مکلف نہیں کرتا مگر اس قدرت کی سمائی کے موافق۔ یہ معنی اس وقت ہوں گے جب قدرت سے مراد امکانی قدرت ہو یا سمائی سے مراد ہے مقدار قدرت سے کم درجہ والی سمائی یعنی سہولت اوّل قسم ان احکام میں جاری ہوگی جن کی بناء قدرت ممکنہ پر ہے اور دوسری قسم کا اجراء ان احکام میں ہوگا جن کی بناء سہولت آفریں قدرت پر ہے جیسے زکوٰۃ کے وجوب کے لیے مال کا نمو اور سال گذر جانا۔ آیت دلالت کررہی ہے کہ شریعت نے ناممکن (فعل) پر مکلف نہیں کیا لیکن ناممکن فعل پر مکلف کرنا (عقلاً ) ممنوع ہے اس مفہوم پر آیت کی دلالت نہیں ہے۔ (1) [ اسی بناء پر اشاعرہ کا قول ہے کہ قرآن مجید میں کسی ناممکن عمل کا حکم نہیں دیاگونگے سے قراءت کو لنگڑے سے چلنے کو اور پاگل سے صحیح سوچنے کو نہیں کہا نادار کو زکوٰۃ دا کرنے کا حکم نہیں دیا وغیرہ وغیرہ لیکن اللہ کے احکام چونکہ ہر غرض سے پاک ہیں خصوصاً حکم الٰہی امتثال کرسکنے سے منزہ ہے (بیضاوی) اس لیے عقل کی ممانعت نہیں ہے کہ آدمی کو ناممکن عمل کی تکلیف دی جائے اگر وہ عدم استطاعت کی وجہ سے نہ کرسکتا ہو تو نہ کرے امر تکلیفی بہر حال اپنی جگہ قائم رہے گا لیکن دوسرے علماء کہتے ہیں کہ تکلیف بالمحال عقلاً بھی محال ہے۔ ] اس جگہ قدرت سے مراد ہے وہ استطاعت جو فعل سے پہلے موجود ہوتی ہے جیسے اسباب اور آلات کا فراہم ہونا (موانع اور عوائق کا نہ ہونا) اوامرو احکام کے دلائل کا موجود ہونا۔ وہ حقیقی قدرت (جس کو استطاعت فعلی کہا جاتا ہے) مراد نہیں ہے یہ تو فعل کے ساتھ ہوتی ہے (پہلے سے نہیں ہوتی) قدرت بالمعنی الاوّل کے موجود ہونے کی وجہ سے ہی قوم نوح و فرعون اور ابو جہل اور ابو لہب مستحق عذاب قرار پائے اور ان کو عتاب کیا گیا اور مخاطب بنایا گیا حالانکہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کردی اور کان بند کردیئے اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا (یعنی غفلت کی مہر کردی اور جہالت کا پردہ ڈال دیا) لیکن اس کے باوجود فرمایا : لِمَنْ شَآءً مِنْکُمْ اَنْ یَسْتَقِیْمَ یہ قرآن تم میں سے اس شخص کے لیے ہدایت ہے جو سیدھا چلنا چاہے ( مراد ہے کہ اسباب ہدایت موجود ہیں آنکھیں دیکھنے کو ‘ کان ‘ سننے کو دماغ ‘ سمجھنے کو خدا نے دے دیا ہے پیغمبر کو بھیج دیا اپنا پیام ہدایت بھی بھیج دیا پیغمبر نے حق وہ باطل کی تمیز بتادی کوئی خارجی مانع بھی نہیں ہے اب جو چاہے سیدھی راہ چلے قدرت بالمعنی الاوّل موجود ہے) موگر یہ بھی فرما دیا : و مَا تَشَاءُ وْنَ اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ اللہ یعنی بغیر مشیت خدا کے تمہاری مشیت ہی نہیں ہوگی اور مشیت خدا تو انسان کی قدرت سے باہر ہے لہٰذا انسانی مشیت جس کا وجود اللہ کی مشیت سے وابستہ ہے اس کا ہونا بھی محال ہے (گویا قدرت بالمعنی الثانی یعنی استطاعت فعلی جو فعل کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔ (2) [ صاحب تبصرہ نے لکھا ہے کہ استطاعت اور قدرت حقیقیہ وہ صفت ہے جو اللہ حیوان کے اندر پیدا کردیتا ہے جس کے ذریعہ سے وہ اپنے اختیاری افعال کرتا ہے گویا صاحب تبصرہ کے نزدیک استطاعت فعل عبد کی علت عادیہ ہے لیکن جمہور کے نزدیک استطاعت اداء فعل کی شرط ہے علت نہیں ہے خلاصہ یہ کہ جس وقت بندہ کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور پہلے سے تمام اسباب و آلات فراہم ہوتے ہیں تو اللہ اس کے اندر ایک صفت پیدا کردیتا ہے جس کی موجودگی میں وہ اچھا برا کام کرتا ہے اور اس قسم کی استطاعت کا فعل کے ساتھ ساتھ ہونا ضروری ہے ورنہ وجود فعل بغیر استطاعت کے لازم آئے گا۔ گویا قدرت کے دو معنی ہیں ایک آلات و اسباب کا فراہم ہونا اور موانع کا نہ ہونا اس قدرت کا وجود پہلے سے ہوتا ہے لیکن یہ قدرت ناقصہ ہے۔ دوسری وہ قدرت جس کے پیدا ہونے کے وقت تمام شرائط ضروریہ پہلے سے موجود ہوتی ہیں اور کام کرنے کے وقت اللہ کی طرف سے بندہ کو ایک خاص طاقت مل جاتی ہے جس کو ہم توفیق کہہ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ اس فعل کا صدورو لازم ہوتا ہے یا عادۃً ہوجاتا ہے معتزلہ کہتے ہیں کہ استطاعت اور قدرت ایک قوت کا نام ہے جو بندہ کے اندر ہوتی ہے اور یہ پہلے سے ہوتی ہے فعل کے وقت اس کا وجود نہیں ہوتا ورنہ قوت اور فعل کا اجتماع لازم آئے گا حالانکہ قوت صرف استعداد ہوتی ہے اور فعل وجودی چیز ہے اور عدم وجود کا اجتماع ممکن نہیں اسی بنا پر وہ بندہ کو اپنے افعال کا خالق قرار دیتے ہیں کیونکہ قدرت بندہ کے اندر پید کردی گئی ہے گویا توفیق الٰہی کی معتزلہ کو ضرورت نہیں بس طاقت دیدینا ہی ان کے نزدیک توفیق ہے۔ ] جس کو توفیق الٰہی بھی کہا جاسکتا ہے معدوم ہے اس لیے فعل کا وقوع نہیں ہوتا لیکن یہ قدرت و استطاعت مدار تکلیف نہیں اوامرو نواہی کی اس پر بناء نہیں یہ تو اللہ کی مشیت پر موقوف ہے احکام کی بنا اوّل قدرت پر ہے جو پہلے سے موجود ہے اور ہر مکلف کو حاصل ہے) ایک طرف حکم دینا اور دوسری طرف توفیق نہ دینا یہ اللہ کا خصوصی راز ہے اس کی چھان بین اور کاوش کی ضرورت نہیں یہ بہت بڑی ذہنی اور فکری لغزش گاہ ہے اندیشہ ہے کہ کہیں قدم پھسل نہ جائے اس لیے صرف اس پر ایمان لانا اور خاموش رہنا ہی چاہئے۔ شیخین نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی طرف اس قول کی نسبت کی ہے کہ جب آیت : ان تبدوا ما فی انفسکم۔۔ صحابہ ؓ پر شاق گذری اور رسول اللہ کی تعلیم سے انہوں نے : سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ کہا تو اس پر اللہ نے آیت : لا یکلف اللہ۔۔ نازل فرما کر اس سے پہلی آیت کو منسوخ کردیا۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے نسخ کا لفظ بطور مجاز کہا کیونکہ حقیقی نسخ تو احکام میں ہوتا ہے نسخ کا معنی ہی اس حکم شرعی کو اٹھا دینا ہے جو پہلے دیا گیا تھا۔ اخبار میں نسخ نہیں ہوتا اور اس جگہ دونوں آیتیں خبری ہیں پہلی آیت میں قلبی افعال پر مواخذہ کی اطلاع دی ہے اور دوسری آیت میں طاقت سے زیادہ مکلف نہ کرنے کی خبر ہے اس لیے حقیقی نسخ کا اس جگہ احتمال ہی نہیں ہے لیکن چونکہ اس آیت سے صحابہ ؓ کے اس خیال کا ازالہ ہو رہا ہے کہ خطرات نفس پر بھی مواخذہ ہوگا اور یہ ان کی تسلی کا موجب ہے اس وجہ سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے مجازاً اس کو لفظ نسخ سے تعبیر کیا۔ ہاں اگر نسخ سے نسخ حقیقی ہی مراد قرار دی جائے تو یہ توجیہ کی جاسکتی ہے کہ آیت : و ان تبدوا۔۔ اگرچہ خبر ہے لیکن (امر کے حکم میں ہے کیونکہ) اس سے رذائل نفس کا حکم حرمت معلوم ہوتا ہے جیسے آیت : کتب علیکم الصیام (باوجود خبر ہونے کے) وجوب صوم پر دلالت کر رہی ہے پس آیت : وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِی اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللہ، کا لفظ حرمت رذائل نفسانی کو شامل ہے اور آیت : لا یکلف اللہ۔۔ نفس کے خطرات پر غیر مکلف ہونے کو بتارہی ہے کیونکہ خطرات نفس ہماری وسعت میں نہیں ہیں اور حکم تحریم ایک قسم کی پابندی ہے پس یہ آیت عدم تحریم پر دلالت کررہی ہے۔ لہٰذا ناسخ تحریم ہوگئی وا اللہ اعلم (خلاصہ یہ کہ اللہ کے کلام میں خبر انشاء کے معنی میں ہوتی ہے۔ اگر خبر کے بعد ممانعت نہ ہو تو وہ خبر مثل امر کے ہوتی ہے اور اسکی تعمیل امر کی طرح ضروری ہوتی ہے پس پہلی آیت میں مثبت خبر ہے لہٰذا یہ سمجھا جائے گا کہ اللہ نے خطرات نفس پر مواخذہ کا حکم دیا ہے اور دوسری آیت میں منفی خبر ہے اس لیے سمجھا جائیگا کہ اللہ نے خطرات نفس پر مواخذہ کی ممانعت فرما دی اور نہی امر کی ناسخ ہوتی ہے لہٰذا دوسری آیت پہلی آیت کی ناسخ ہوگئی) حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو وسوسے دل میں پیدا ہوتے ہیں جب تک ان پر عمل نہ ہو یا ان کو زبان سے نہ کہہ دیا جائے اللہ نے میری امت کے لیے ان سے در گذر فرمائی ہے۔ (متفق علیہ) بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس (رح) ، عطا اور اکثر اہل تفسیر کے نزدیک آیت : و ان تبدوا ما فی انفسکم میں خطرات نفس (یعنی وسوسے) مراد ہیں۔ میں کہتا ہوں آیت : و ان تبدوا۔۔ اور لا یکلف اللہ نفساً ۔۔ کے احکام کا تعلق صرف خطرات نفس سے ہی نہیں ہے بلکہ آیتوں میں عموم ہے ہاں خطرات نفس بھی اس عموم میں داخل ہیں لہٰذا خطرات نفس پر مواخذہ کا نسخ حسب تقریر مذکور ہوجائے گا۔ فائدہ جب ثابت ہوچکا کہ رذائل نفس کا مواخذہ اعمال بدنیہ کے مواخذہ سے زیادہ سخت ہے اور طاقت سے زیادہ آدمی مکلف نہیں ہے تو اگر بندہ اپنی امکانی کوشش کرے اور مجاہدہ نفسانی کے ذریعہ امراض نفسانی کو دور کرنے کی جدو جہد کو کام میں لائے اور خواہش نفس کے پیچھے نہ پڑجائے اور رذائل نفس کو دور کرنے کیلئے فقراء کے دامن سے وابستہ ہوجائے تو امید ہے کہ اللہ اس کے اندرونی معاصی معاف فرما دے گا مواخذہ نہ کرے گا کیونکہ طاقت سے زیادہ بندہ مکلف نہیں اور ممنوعات خداوندی پر کار بند ہونے کی وہ امکانی کوشش کرچکا۔ لیکن جو شخص اپنے اندرونی عیوب کی طرف توجہ ہی نہ کرے اور رذائل نفس کو دور کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو تو وہ یقیناً دوزخ میں جائے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوفیہ کے طریقہ پر چلنا اور فقراء کے دامن سے وابستہ ہونا ایسا ہی فرض ہے جیسے کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کے احکام کو سیکھنا۔ رسول اللہ نے فرمایا تھا میں نے تم میں دو عظیم الشان چیزیں چھوڑی ہیں (ایک) کتاب اللہ (دوسری) اپنی آل۔ پس اللہ کی کتاب کو استنباط احکام، درستی اعمال، نصیحت پذیری اور مدارج قرب کی ترقی کے لیے پکڑنا ضروری ہے اور مرضی خدا کے مطابق باطن کی صفائی اور نفس کے تزکیہ کے لیے آل رسول کے دامن سے وابستہ ہونا بھی لازم ہے۔ لَهَا مَا كَسَبَتْ : یعنی اعضاء جسمانی کے اعمال ہوں یا اندرونی افعال بہر حال جو نیکی کوئی نفس کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ملے گا۔ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ : اور جو بدی کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا یعنی طاعت و معصیت سے نفع نقصان انسان کا اپناہی ہے کسب اور اکتساب میں یہ فرق ہے کہ کسب کا معنی ہے صرف کمانا اور اکتساب کا معنی ہے اپنے لیے کوئی کام کرنا۔ شر کی طرف انسان کے نفس کو رغبت ہوتی ہے اس کی طرف طبیعت کھینچتی ہے اس لیے تحصیل شر کی زیادہ کوشش کرتا ہے اور خیر کی حالت اس کے خلاف ہے (خیر کی طرف نفس کی کشش نہیں ہوتی) اس لیے خیر کے لیے لفظ کَسَب اور شر کے لیے لفظاکتسب استعمال کیا۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ : یعنی تم کہو کہ اے ہمارے ربّ ! ہم سے مواخذہ نہ کرنا ہم کو سزا نہ دینا۔ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا : یعنی اگر ہم یاد نہ رہنے کی وجہ سے کسی واجب کو ترک کردیں یا بےپروائی کی وجہ سے کسی کام کو درست طور پر نہ کر پائیں یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ نسیان و خطاء پر گرفت عقلاً ممنوع نہیں ہے کیونکہ گناہ زہر کی طرح ہیں غلطی سے زہر کھانا بھی مہلک ہوتا ہے اسی طرح گناہ کا ارتکاب بھی موجب عذاب ہے یا سینہ میں تنگی اور دل میں زنگ پیدا ہوجانے کا سبب ہے خواہ بغیر ارادہ کے ہی ہو۔ حضرت شیخ شہید نے اپنے شیخ سید نور محمد بدایونی (رح) کا واقعہ نقل کیا ہے جب شیخ بدایوانی کے پاس کھانا یا کچھ اور چیز ہدیہ میں آتی تھی تو شیخ بصیرت کی نظر سے اس پر غور کرتے تھے اگر اس کے اندر کسی قسم کی تاریکی نظر نہ آتی تو خود کھالیتے یا استعمال کرلیتے یا دوسرے کو دیدیتے اور کبھی ہدیہ میں آئے ہوئے کھانے کو زمین میں دفن کرا دیتے۔ کسی بےبصیرت شخص نے پوچھا۔ شیخ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں کسی دوسرے کو ہی کھلا دیا کریں فرمایا : سبحان اللہ، اگر مسلمان کو کھانے میں زہر ملا نظر آجائے اور وہ خود نہ کھائے تو کیا دوسرے کو کھانے کے لیے دینا جائز ہے۔ رسول اللہ کے فرمان : استفت قلبک و ان افتاک المفتون کا روئے خطاب انہی لوگوں کی طرف ہے یعنی چاہے مفتی تم کو فتویٰ دی چکے ہوں پھر بھی اپنے دل سے فتویٰ طلب کرو (اگر مفتیوں کے جائزقرار دینے کے باوجود تمہارا دل اس کے جواز کی طرف راغب نہ ہو تو مت اختیار کرو) حدیث سے ثابت ہے اور اجماع بھی منعقد ہے کہ اس امت کی خطاء و نسیان کو اللہ نے معاف فرمادیا ہے ایسی صورت میں آیت کے اندر جو دعا مذکور ہے اس کا ورود صرف طلب دوام اور شمار نعمت کے لیے ہے رسول اللہ فرما چکے ہیں کہ میری امت سے خطاء و نسیان اور مجبوری (کا مواخذہ) اٹھالی گئی ہے یہ حدیث طبرانی نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے بیان کی ہے اور پہلے گذر چکی ہے۔ اٹھانے سے مراد ہے گناہ کا اٹھا لینا یعنی آخرت میں بھول چوک (اور مجبوری) کا مواخذہ نہ ہوگا دنیا میں اٹھالینے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دنیا میں بھول چوک اور مجبوری کا مواخذہ ہوتا ہے یہ دنیا دار العمل ہے یہاں اگر بھول چوک یا کسی کے جبر کرنے سے کوئی گناہ ہوجائے تو جہاں تک ممکن ہو اسکا تدارک ضروری ہے اس لیے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا جو نماز سے سو جائے یا نماز پڑھنی بھول جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے بھول چوک کے عذر سے اجماعاً روزہ، نماز کی قضاء ساقط نہیں۔ نماز میں سہو ہوجائے تو سجدۂ سہو بالاجماع واجب ہے قتل خطاء موجب کفارہ ہے اور میراث سے بھی اجماعاً محروم کردیتا ہے۔ امام شافعی (رح) بھول چوک کا اعتبار دنیوی احکام میں بھی کرتے ہیں۔ مسئلہ بھول کر نماز میں کلام کرنے سے امام اعظم (رح) کے نزدیک نماز ٹوٹ جاتی ہے اس کی دلیل ہم لکھ چکے ہیں لیکن امام شافعی (رح) کے نزدیک نہیں ٹوٹتی۔ کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ہم کو پچھلے دن کی کوئی ایک نماز پڑھائی ظہر کی یا عصر کی اور دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا اور پھر مسجد کے قبلہ کی طرف تشریف لے جا کر ایک تنہ سے لگ کر غصہ کی حالت میں بیٹھ گئے۔ لوگوں میں حضرت ابوبکر و حضرت عمر ؓ موجود تھے مگر دونوں کو بات کرنے سے ڈر لگا لوگ جلدی جلدی مسجد سے باہر نکل گئے اور کہنے لگے نماز میں قصر ہوگیا۔ ذوالیدین ؓ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ کیا آپ بھول گئے یا نماز میں قصر ہوگیا ہے ؟ حضور ﷺ نے دائیں بائیں دیکھا اور فرمایا : ذوالیدین کیا کہہ رہا ہے صحابہ ؓ نے عرض کیا : انہوں نے سچ کہا : آپ نے صرف دو رکعتیں پڑھی ہیں۔ حضور ﷺ نے فوراً (بقیہ) دو رکعتیں پڑھیں اور سلام پھیر دیا پھر تکبیر کہی پھر سجدہ کیا۔ پھر تکبیر کہی پھر سراٹھایا پھر تکبیر کہی پھر سجدہ کیا پھر تکبیر کہی پھر سر اٹھایا (یعنی سہو کے دو سجدے کیئے) (متفق علیہ) ہم کہتے ہیں یہ حدیث آیت : قوموا اللہ قانتین سے منسوخ ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت زید بن ارقم ؓ کی روایت کردہ حدیث پہلے گذر چکی ہے۔ مسئلہ جمہور کے نزدیک بھول کر جماع کرنے سے حج فاسد ہوجاتا ہے شافعی (رح) کا قول اس کے خلاف ہے ہمارے نزدیک جبر اور غلطی دونوں طرح کی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ شافعی کا مسلک اس کے بھی خلاف ہے اس اختلاف کی بنیاد حدیث رُفِعَ عَن امتی .. میں لفظ رفع کی تشریح کا اختلاف ہے (شافعی (رح) کے نزدیک احکام دنیا کا رفع بھی مراد ہے اور ہمارے نزدیک صرف عذاب آخرت کا ) مسئلہ غلطی سے کچھ کھا لینے سے مام اعظم (رح) اور صاحبین (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔ امام احمد (رح) اور شافعی (رح) کے نزدیک فاسد نہیں ہوتا، بھول کر کچھ کھا لینے سے امام مالک (رح) کے نزدیک روزہ فاسد ہوجاتا ہے قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے جمہور کے نزدیک فاسد نہیں ہوتا۔ بھول کر کھا لینے سے روزہ فاسد نہ ہونے کی دلیل حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ یہ حدیث ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی بھول کر کھاپی لے تو اپنے روزہ کو پورا کرے کیونکہ یہ تو اس کو اللہ ہی نے کھلایا پلایا ہے۔ (متفق علیہ) مسئلہ ذبح کے وقت بسم اللہ بھول جانے سے امام مالک کے نزدیک ذبیحہ حرام ہوجاتا ہے حدیث مذکور کی وجہ سے ہمارے نزدیک حرام نہیں ہوتا۔ حدیث قیاس کے خلاف ہے اس مسئلہ کا ذکر ہم سورة انعام میں کریں گے۔ فائدہ کلبی کا بیان ہے کہ احکام کی بھول چوک پر بنی اسرائیل کو جلد سزا مل جاتی تھی فوراً کھانے پینے کی کوئی چیز ان کے لیے حرام کردی جاتی تھی۔ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا : اے ہمارے رب اور نہ لاد ہم پر بھاری بوجھ۔ اصراً کا معنی ہے حبس ایسا بار جو بوجھ والے کو روک دے اصر کہلاتا ہے یہاں وہ احکام شاقہ مراد ہیں جو اٹھائے نہ جاسکیں۔ كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا : جیسا کہ تو نے ہم سے پہلوں پر (یعنی یہودیوں پر) لاد دیا تھا۔ اللہ نے یہودیوں پر پچاس وقت کی نماز فرض کی تھی اور زکوٰۃ میں ایک چوتھائی مال دینے کا حکم دیا تھا ان کو یہ بھی حکم تھا کہ اگر کپڑے پر نجاست لگ جائے تو کپڑے کو کاٹ دیا جائے۔ اگر کسی سے کوئی گناہ ہوجاتا تو صبح کو اس کے دروازہ پر لکھا ہو پایا جاتا جب انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تو حکم دیا گیا فتوبوا الی بارئکم فاقتلوا انفسکم بعض علماء کا قول ہے کہ اصر سے ایسا گناہ مراد ہے جس کی توبہ نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے گناہ سے ہم کو محفوظ رکھ۔ یا یہ معنی ہے کہ ہماری شریعت میں کسی گناہ کو ایسا نہ بنا کہ جس کی توبہ نہ ہو۔ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ : اے ہمارے رب اور ہم پر نہ ڈال ایسا بار جس کی ہم میں طاقت نہ ہو۔ ناقابل برداشت بار سے مراد ہے مصیبت اور عذاب یا سخت احکام۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تکلیف ما لا یطاق (عقلاً ) جائز ہے مگر اللہ کی مہربانی سے شریعت میں ناقابل طاقت کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ لا تحمل (باب تفعیل) اس جگہ تشدید کے ساتھ ہے کیونکہ اس جگہ پر فعل کے دو مفعول ہیں (نا اور ما ) وَاعْفُ عَنَّا ۪ : اور ہمارے گناہوں کی سزا سے در گذر فرما۔ وَاغْفِرْ لَنَا ۪ : یعنی ہمارے گناہوں کو مٹا دے اور ان پر پردہ ڈال دے (لغت میں مغفرت کا معنی ہے چھپانا) ۔ وَارْحَمْنَا ۪ : اور ہم پر رحم فرما کیونکہ (ہم خود کچھ نہیں کرتے) جو نیکیاں ہم کرتے ہیں یا گناہوں کو چھوڑتے ہیں وہ صرف تیری رحمت سے کرتے ہیں۔ اَنْتَ مَوْلٰىنَا : تو ہمارا آقا ہے مددگار ہے حفاظت کرنے والا ہے کارساز ہے۔ فَانْــصُرْنَا : لہٰذا ہم کو فتحیاب کر۔ اس جگہ فا تفریعیہ ہے اور مفہوم آقائیت پر اس کی تفریع ہے کیونکہ آقا کو اپنے غلاموں کی مدد کرنی ہی چاہئے۔ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ : کافر قوم پر۔ عام کافر مراد ہیں جنات ہوں یا انسان یہاں تک کہ نفس امارہ بھی (کافر ہے اس کے خلاف بھی فتح یابی کی دعا ہے) ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت معاذ سورة بقرہ ختم کرنے کے بعد آمین کہتے تھے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث آئی ہے کہ اللہ نے فرمایا۔ اچھا یعنی رسول اللہ جب آیت : ربنا لا تو اخذنا ان نسینا او اخطأنا پڑھ چکے تو اللہ نے فرمایا : اچھا اسی طرح دوسرے جملہ کو من قبلنا تک اور تیسرے جملہ کو ما لا طاقۃ لنا بہ تک اور چوتھے جملہ کو آخر سورت تک پڑھ چکے تو اللہ نے ہر جملہ کے بعد فرمایا۔ اچھا۔ مسلم و ترمذی میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بجائے اچھا کے قَدْ فَعَلْتُ کا لفظ آیا ہے یعنی میں نے ایسا کردیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی دوسری روایت میں آیا ہے کہ لفظ غُفْرَانَکَ پڑھنے کے بعد اللہ نے فرمایا : قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ میں نے تم کو بخش دیا اور جملہ اَوْ اَخْطَانَا کے بعد فرمایا : لَا اُؤاخِذُکُمْ میں تم سے مواخذہ نہیں کروں گا اور لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا کے بعد فرمایا : لَا اَحْمِلُ عَلَیْکم اور لَا تُحْمِلْنَا کے بعد فرمایا : لَا اُحَمِّلُکُمْ اور واعْفُ عَنَّا۔۔ کے بعد فرمایا : قَدْ عَفَوْتُ عَنْکُمْ وَ غَفَرْتُ لَّکُمْ وَ رَحْمِتُکُمْ وَ نَصَرْتُکُمْ عَلَی الْقَومِ الْکَافِرِیْنَ یعنی میں نے تمہارے گناہ معاف کردیئے بخش دیئے اور تم پر رحمت فرمائی اور تم کو کافروں پر فتح یاب کیا۔ یہ حدیث دلالت کر رہی ہے کہ اللہ کی طرف سے دعا قبول کرلی گئی۔ بھول چوک کا مواخذہ نہ ہونے کا حکم اجماعاً تمام امت کے لیے ثابت ہے۔ اسی طرح اصر کا بار نہ ڈالنا اور ما لا یطاق پر مکلف نہ کرنا بھی تمام امت کے لیے عام ہے۔ دوسری آیت سے اس کی تائید ہو رہی ہے فرمایا : لَا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا کیونکہ قانون شریعت ایک ہے اور دوامی ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ جو حکم اگلوں کے لیے ساقط تھا وہ پچھلوں کے لیے ساقط نہ ہو (حکم کی معافی ہے تو سب کے لیے ہے) اور رسول اللہ کے بعد نہ کوئی حکم منسوخ ہوسکتا ہے نہ بدل سکتا ہے۔ ہاں تمام گناہوں کی معافی کا حکم اور عمومی رحمت اور کافروں پر فتح یابی کی صراحت یہ چیزیں بظاہر رسول اللہ اور آپ ﷺ کے صحابہ ؓ کے لیے مخصوص تھیں۔ عفوت اور غفرت اور رحمت اور نصرت کے (ماضی کے صیغے) اسی پر دلالت کررہے ہیں ورنہ فرقہ مرجۂ کا قول حق ہوگا (کہ ایمان ہو تو کوئی کبیرہ گناہ بھی قابل مواخذہ نہیں رہتا۔ سب گناہ معاف ہیں) عام امت کے گناہوں کا اختیار اللہ کو ہے چاہے معاف کردے چاہے ان کی سزا دے۔ اس لیے بہت مرتبہ مسلمانوں کی مدد خدا کی طرف سے نہیں کی جاتی اور کافروں کے مقابلہ میں فتح یاب نہیں کیا جاتا (کیونکہ فتح یابی کا حکم عمومی نہیں ہے۔ جیسے مغفرت ذنوب کا حکم عام نہیں ہے) نصرت اور فتح یابی کا مدار تو ولایت الٰہیہ پر ہے اور ارتکاب معاصی کی صورت میں ولایت الٰہیہ باقی ہی کہاں رہتی ہے اے اللہ امت محمدیہ ﷺ کو بخش دے۔ اے اللہ امت محمدیہ ﷺ پر رحمت فرما۔ اے اللہ امت محمدیہ ﷺ کے اعمال کی اصلاح فرما دے۔ آمین۔ فصل سورة فاتحہ کے فضائل میں یہ حدیث گذر چکی ہے کہ ایک فرشتہ آسمان سے اترا اور اس نے (رسول اللہ ﷺ سے) کہا آپ کو دو نوروں کی بشارت ہو جو آپ سے پہلے کسی پیغمبر کو نہیں دیئے گئے۔ فاتحۃ الکتاب اور سورة بقرہ کی خاتمہ والی آیات۔ آپ جو حرف بھی ان کا پڑھیں گے وہ آپ کو ضرور دیا جائے گا۔ یعنی ایک تو اللہ کی تعلیم سے جو اھدنا الصراط المستقیم۔۔ پڑھنے کا حکم ہوا ہے اس کو اگر پڑھا جائے گا تو ضرور سیدھا راستہ اللہ دکھا دے گا اور دوسرے : ربنا لا تو اخذنا ان نسینا سے آخر سورت تک اگر پڑھا جائے گا تو اللہ قبول فرمائے گا (اور حسب دعا عطا کرے گا) اور یہ دونوں نور صرف رسول اللہ کو ہی عطا کئے گئے ہیں اسی لیے آپ کے بعد بھی آپ کی امت (بحیثیت مجموعی) قیامت تک گمراہ نہ ہوگی۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہے میری امت (بحیثیت مجموعی) گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔ دوسری حدیث صحیحین میں معاویہ کی روایت سے آئی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گا مدد نہ کرنے والے اس کو ضرر نہ پہنچا سکیں گے اور نہ اس کی مخالفت کرنے والے نقصان پہنچا سکیں گے اسی حالت میں اللہ کا امر یعنی قیامت بپا ہونے کا حکم آجائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ کو جب (معراج میں) لیجایا گیا اور آپ سدرۃ المنتہی تک پہنچے۔ سدرۃ المنتہی چھٹے آسمان پر ہے۔ زمین سے چڑھنے والے (اعمال) بھی اسی جگہ تک پہنچتے ہیں اور لے لیے جاتے ہیں اور اوپر سے اترنے والے (احکام) بھی اسی جگہ تک پہنچتے اور لے لیے جاتے ہیں۔ سدرۃ المنتہی پر ہی وہ چیز چھائی ہوئی ہے جس کا ذکر آیت : اذ یغشی السدرۃ ما یغشی میں آیا ہے یعنی سنہری پتنگے اس جگہ آپ ﷺ کو تین چیزیں عطا ہوئیں پانچ وقت کی نمازیں۔ سورة بقرہ کے خاتمہ کی آیات اور آپ : ﷺ کی امت کے ان لوگوں کے کبائر کی معانی جو شرک نہیں کرتے۔ (رواہ مسلم) یعنی غیر مشرک کے کبائر کی معانی کا وعدہ کرلیا ہے خواہ توبہ کے بعد ہو یا بغیر توبہ کے محض رحمت سے بغیر عذاب دیئے ہو یا عذاب کے بعد۔ خلاصہ یہ کہ مؤمن کو کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ دوزخ میں نہیں رکھا جائے گا۔ وہ قول صحیح نہیں ہے جو معتزلہ اور رافضیوں (1) [ معتزلہ مرتکب کبیرہ کو ایمان سے خارج قرار دیتے ہیں مگر کافر بھی نہیں کہتے اور خارجی کافر کہتے ہیں بہر حال دونوں فرقے مرتکب کبیرہ کو دوامی دوزخی کہتے ہیں لیکن روافض مرتکب کبیرہ کو ایمان سے خارج نہیں قرار دیتے معلوم نہیں حضرت مولف نے لاروافض کا لفظ یہاں کیوں بڑھا دیا۔ ] اور خارجیوں کا ہے (کہ مرتکب کبیرہ مؤمن نہیں رہتا) ۔ حضرت ابو مسعود انصاری ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : سورة بقرہ کے آخر کی دو آیتیں ہیں جو رات کو ان کو پڑھے گا۔ (رات بھر کے لیے) وہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔ (رواہ الائمۃ الستۃ) حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے اللہ نے ایک تحریر لکھ دی تھی جس میں سے دو آیات سورة بقرہ کے خاتمہ والی نازل فرما دی جس گھر میں یہ دونوں آیات تین رات پڑھی جائیں تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ شیطان اس کے قریب آسکے۔ (رواہ البغوی) حضرت ابو مسعود انصاری ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ اللہ نے جنت کے خزانوں میں سے دو آیات نازل فرمائیں ان آیات کو پیدائش مخلوق سے دو ہزار برس پہلے رحمن نے اپنے ہاتھ سے لکھ دیا تھا جو شخص عشاء کی نماز کے بعد ان کو پڑھ لے گا۔ قیام شب کی جگہ یہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔ (اخرجہ ابن عدی فی الکامل) حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے میزان قرآن ہے تم لوگ اس کو سیکھو، اس کو سیکھنا برکت ہے اور اس کو چھوڑ دینا (باعث) حسرت ہے باطلین اس کی تاب نہیں لاسکتے۔ عرض کیا گیا : باطلین کون ؟ فرمایا : جادو گر۔ (اخرجہ الدیلمی فی مسند الفردوس) (الحمد اللہ سورة بقرہ کی تفسیر 25/ ربیع الثانی 1196 ؁ھ کو ختم ہوئی) اور اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تفسیر مظہری سورة بقرہ کا ترجمہ ختم کرنے کی توفیق اس فقیر کو بخشی۔ ولہ المنۃ والحمد 11 / شعبان المعظم 1381 ؁ ھ حضرت مؤلف قدس سرہٗ نے سورة بقرہ کے ختم پر فضائل سورت کے سلسلہ میں چند روایات حاشیہ میں درج کی ہیں ہم نے ان کا ترجمہ ذیل میں درج کردیا ہے۔ (1) [1 ز مؤلف قدس سرہٗ : بیہقی نے شعب الایمان میں بروایت صلصال ضعیف سند کے ساتھ مرفوعاً بیان کیا ہے کہ جو شخص سورة بقرہ پڑھے گا اس کو جنت میں تاج پہنایا جائے گا دیلمی نے بروایت حضرت ابوہریرہ مرفوعاً نقل کیا ہے کہ دو آیات ہیں جو قرآن (کا جزء) ہیں سورة بقرہ کے آخر کی ہیں دونوں شفاعت کریں گی یہ دونوں اللہ کو محبوب ہیں۔ ابو عبیدہ نے ایک حدیث سے تخریج کی ہے کہ جس گھر میں سورة بقرہ پڑھی جاتی ہے اور شیطان سنتا ہے تو شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے۔ اس مضمون کی احادیث حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابوہریرہ ؓ ، اور حضرت عبد اللہ ؓ بن مغفل کی روایت سے بھی آئی ہیں امام احمد (رح) نے حضرت بریدہ ؓ کی حدیث سے تخریج کی ہے کہ سورة بقرہ سیکھو اس کو لینا برکت ہے اور چھوڑنا (باعث) حسرت جادو گر اس کی تاب نہیں لاسکتے۔ سورة بقرہ اور آل عمران سیکھو یہ دونوں شگفتہ پھول ہیں (قیامت کے دن پڑھنے والے پر سایہ افگن ہوں گے گویا دو عمامے یا دو بدلیاں یا ہوا میں تنظیم کے ساتھ رکے ہوئے پرندوں کی دو ٹکڑیاں ہوں گی۔ ابن حبان وغیرہ نے حضرت سہل بن سعد کی حدیث سے تخریج کی ہے کہ ہر شے کی ایک چوٹی ہوتی ہے قرآن کی چوٹی (کوہان) سورة بقرہ ہے۔ جو شخص گھر کے اندر دن میں اس کو پڑھے گا۔ شیطان اس میں تین دن تک داخل نہ ہوگا اور جو گھر کے اندر رات میں پڑھے گا شیطان اس گھر میں تین رات داخل نہ ہوگا۔ ابو عبیدہ نے حضرت عمر ؓ کی روایت سے تخریج کی ہے کہ جو شخص بقرہ اور آل عمران کو رات میں پڑھے گا اس کو قانتین میں لکھا جائے گا۔ دارمی نے بروایت مغیرہ بن شفیع بیان کیا کہ جو شخص سورة بقرہ کی دس آیات سوتے وقت پڑھے گا قرآن کو نہیں بھولے گا۔ چار آیات شروع کی، ایک آیۃ الکرسی دو آیات اس کے بعد والی اور تین آیات آخر سورت کی ‘ منہ نور اللہ مرقدہٗ ]
Top