Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 286
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ؕ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ١ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ١ۚ وَ اعْفُ عَنَّا١ٙ وَ اغْفِرْ لَنَا١ٙ وَ ارْحَمْنَا١ٙ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠   ۧ
لَا يُكَلِّفُ : نہیں تکلیف دیتا اللّٰهُ : اللہ نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی گنجائش لَهَا : اس کے لیے مَا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَعَلَيْهَا : اور اس پر مَا اكْتَسَبَتْ : جو اس نے کمایا رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُؤَاخِذْنَآ : تو نہ پکڑ ہمیں اِنْ : اگر نَّسِيْنَآ : ہم بھول جائیں اَوْ : یا اَخْطَاْنَا : ہم چوکیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تَحْمِلْ : ڈال عَلَيْنَآ : ہم پر اِصْرًا : بوجھ كَمَا : جیسے حَمَلْتَهٗ : تونے ڈالا عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تُحَمِّلْنَا : ہم سے اٹھوا مَا : جو لَا طَاقَةَ : نہ طاقت لَنَا : ہم کو بِهٖ : اس کی وَاعْفُ : اور در گزر کر تو عَنَّا : ہم سے وَاغْفِرْ لَنَا : اور بخشدے ہمیں وَارْحَمْنَا : اور ہم پر رحم اَنْتَ : تو مَوْلٰىنَا : ہمارا آقا فَانْصُرْنَا : پس مدد کر ہماری عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اللہ نہیں مکلف بناتا کسی جان کو، جس کی اسے طاقت نہ ہو، ہر جان کے لیے وہی ہے جو اس نے کسب کیا، اور اس کے اوپر و بال ہے اس کا جو وہ گناہ کرے، اے ہمارے رب ہمارا مؤاخذہ نہ فرمانا اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے چوک ہوجائے۔ اے ہمارے رب اور نہ رکھ ہم پر بھاری بوجھ جیسا کہ آپ نے ان لوگوں پر بھاری بوجھ رکھا جو ہم سے پہلے تھے، اے ہمارے رب اور ہم پر ایسا بار نہ ڈالئے جس کی ہم کو طاقت نہ ہو، اور ہمیں معاف فرمادیجیے اور ہماری مغفرت فرما دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے، آپ ہمارے مولیٰ ہیں۔ سو ہماری مدد فرمائیے کافر قوم کے مقابلہ میں۔
خطا اور نسیان کی معافی اور چند دعاؤں کی تلقین اعضاء وجوارح کے افعال دو (2) قسم کے ہیں ایک اختیاری دوسرے وہ جو بلا اختیار صادر ہوں بلا اختیار کی صورت ایسی ہی ہے جیسے رعشہ کی وجہ سے ہاتھ ہر وقت حرکت کرتا ہو، جس کو یہ مرض ہو وہ ہاتھ کی حرکت کو روکنے پر قادر نہیں ہوتا۔ یا جیسے سوتے میں زبان سے کچھ الٹی سیدھی بات نکل جائے۔ یہ بھی اختیاری نہیں ہے۔ امور غیر اختیاری پر گرفت نہیں ہے۔ جزاسزا امور اختیاریہ سے متعلق ہیں۔ کسی کا بچہ فوت ہوگیا اس کو بےاختیار رونا آگیا تو اس پر کوئی گرفت نہیں لیکن اگر زبان سے ایسے کلمات نکال دیے جن سے اللہ تعالیٰ پر اعتراض ہوتا ہو تو ایسے کلمات کفریہ کلمات کے دائرہ میں آجاتے ہیں اور ان پر عذاب اور عتاب ہے۔ اسی طرح قلب کے اعمال بھی دو طرح کے ہوتے ہیں جو خیالات اور وسوسے غیر اختیاری طور پر آجائیں ان پر گرفت نہیں اور اپنے اختیار سے جو بات دل میں جما لے کفر کی بات ہو یا فسق کی تو اس پر گرفت ہے۔ کینہ، حسد، کسی گناہ کے کرنے کا پختہ عزم، کسی کو نقصان پہنچانے کا مضبوط ارادہ، یہ سب گرفت کی چیزیں ہیں اور محض وسوسہ اور خیال پر کوئی مواخذہ نہیں، آیت بالا میں اول تو یہ فرمایا کہ آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کی ملکیت ہے سب کچھ اس کی مخلوق بھی ہے اور مملوک بھی ہے، اسے اپنی مخلوق کے بارے میں پورا پورا اختیار ہے، ان کے اعمال و افعال کے بارے میں تکوینی یا تشریعی طور پر جو بھی حکم فرما دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اس کے بعد افعال قلبیہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جو کچھ تمہارے نفسوں میں ہے اسے ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو اللہ تعالیٰ اس کا محاسبہ فرمائے گا۔ ان افعال قلبیہ میں جو لائق مواخذہ ہوں گے۔ جس کے لیے چاہے معاف فرما دے گا اور جس کو چاہے گا عذاب دے گا البتہ کفر و شرک کی کبھی بخشش نہ ہوگی جیسا کہ دوسری آیت میں اس کی تصریح ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ سب کا حساب لے سکتا ہے۔ بخش بھی سکتا ہے، اور عذاب بھی دے سکتا ہے۔ آیت میں بظاہر اختیاری اور غیر اختیاری کی تفصیل نہیں ہے۔ اس لیے مضمون آیت پر مطلع ہو کر حضرات صحابہ کرام ؓ بہت پریشان ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ اب تک تو ہمیں ان اعمال کا حکم تھا جنہیں ہم کرسکتے ہیں یعنی نماز اور روزہ جہاد اور صدقہ اور اب یہ آیت نازل ہوئی ہے اس پر عمل کرنے کی تو ہمیں طاقت نہیں (کیونکہ بلا اختیار وسوسے آجاتے ہیں اگر ان پر بھی پکڑ ہوئی تو ہمارا کیا بنے گا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم بھی وہ ہی کہنا چاہتے ہو جو اہل کتاب یعنی توریت و انجیل والوں نے کہا ان کے پاس احکام آئے تو کہنے لگے، (سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا) (کہ ہم نے سن لیا اور مانیں گے نہیں) تم یوں کہو : (سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ) (ہم نے سنا اور مان لیا، اے ہمارے رب ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف جانا ہے) حضرات صحابہ دل اور زبان سے مان گئے اور بار بار ان کلمات کو دہرایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد والی آیتیں (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ) آخر سورت تک نازل فرمائیں۔ جن میں اپنے رسول ﷺ کی اور مومن بندوں کی تعریف فرمائی اور انہوں نے بخوشی جو (سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ) کہا تھا قبولیت کے انداز میں نقل فرمایا اور حکم سابق کو جس میں بظاہر عموم تھا منسوخ فرما دیا اور بالتصریح فرمایا دیا کہ (لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا) (کہ اللہ تعالیٰ کسی جان کو ایسے کام کا مکلف نہیں بناتا جو اس کے بس میں نہ ہو) ۔ (صحیح مسلم ص 77 ج 1) بعض حضرات نے اس پر اشکال کیا ہے کہ اخبار میں نسخ نہیں ہوتا اس کو نسخ سے کیوں تعبیر کیا گیا ہے ؟ درحقیقت یہ نسخ بالمعنی الحقیقی نہیں ہے۔ بلکہ ایضاح مجمل کو نسخ سے تعبیر فرما دیا ہے، نسخ کے قول سے احتراز کرنے کے لیے بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کا تعلق سابق آیت سے ہے جس میں کتمان شہادت کا ذکر ہے، مطلب یہ ہے کہ عمل ظاہری طور پر کرو گے یا پوشیدہ طور پر اللہ تعالیٰ اس کا حساب فرما لے گا۔ یعنی مؤاخذہ فرمائے گا۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ حضرت شعبی اور حضرت عکرمہ نے اس کو اختیار کیا ہے۔ اس قول کو لیا جائے تو نسخ لازم نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے (لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا) کے ساتھ ہی (لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ) بھی فرمایا ہے پہلے جملہ میں یہ بتایا ہے کہ افعال غیر اختیار یہ پر مؤاخذہ نہیں ہے اور دوسرے دونوں جملوں میں یہ بتایا کہ جو اچھا عمل اپنے اختیار سے کرو گے اس پر اجر ملے گا اور جو کوئی کام ایسا کرو گے جس کی ممانعت ہے تو وہ و بال جان ہوگا اور اس پر مؤاخذہ اور محاسبہ کا قانون جاری ہوگا۔ یہ عموم افعال قلبیہ کو بھی شامل ہوگیا جیسا کہ سورة بقرہ میں فرمایا کہ (وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ ) (لیکن اللہ تمہارا مؤاخذہ فرمائے گا ان چیزوں پر جنہیں تمہارے قلب نے کسب کیا) اور سورة بنی اسرائیل میں فرمایا (اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلًا) (بےشک کان، آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا) ۔ آیت کی تفسیر میں جو اعمال اختیار یہ اور غیر اختیاری کی تفصیل لکھی ہے اور جو صحابہ ؓ کے فکر مند ہونے پر (لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا) کے ذریعہ عموم الفاظ سے مفہوم ہونے والے مضمون کا منسوخ ہونا مذکور ہوا اس سے واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ بلا اختیار جو وسوسے آجاتے ہیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہے، حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان چیزوں کے بارے میں درگزر فرما دیا ہے جو ان کے نفسوں میں آجائیں جب تک کہ ان پر عمل نہ کریں یا زبان سے نہ کہیں۔ (صحیح مسلم ص 75 ج 1) انسان کے دل میں بہت سے خطرات گزرتے ہیں اور وسوسے آتے ہیں۔ برے برے خیالات کا ہجوم ہوتا ہے شیطان وسوسے ڈالتا ہے چونکہ یہ چیزیں اختیاری نہیں ہیں اس لیے ان پر گرفت نہیں ہے۔ لہٰذا ان سے پریشان بھی نہ ہوں اور فکر میں بھی نہ پڑیں۔ ہاں اگر برائی کا کوئی وسوسہ آیا پھر اس پر عمل کرلیا یا اپنے اختیار سے زبان سے کوئی برا کلمہ نکال دیا تو اس پر مؤاخذہ ہوگا کیونکہ یہ چیزیں دائرہ اختیار میں آگئیں۔ جو لوگ پکے مومن ہوتے ہیں ان کے دل میں ایسے وسوسوں کا آنا ہی خالص مومن ہونے کی دلیل ہے۔ صحیح مسلم ص 9 7 ج 1 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ہم اپنے نفسوں میں ایسی بات محسوس کرتے ہیں کہ جس کو زبان پر لانا بھاری معلوم ہوتا ہے آپ نے یہ سن کر سوال فرمایا کیا واقعی تم نے ایسا محسوس کیا ہے ؟ عرض کیا ہاں محسوس کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ خالص ایمان ہے۔ سنن ابو داؤد ص 341 ج 2 میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا میں اپنے نفس میں ایسی چیز محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اسے زبان سے نکالنے کی بہ نسبت کوئلہ ہوجانا زیادہ محبوب ہے یہ سن کر آپ نے فرمایا اللہ اکبر، اللہ اکبر، پھر فرمایا کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے شیطان کی شرارت کو وسوسہ تک ہی رہنے دیا (اگر دل سے مومن نہ ہوتے تو اس بات کو برا کیوں جانتے اور زبان پر لانے کو کیوں بھاری چیز سمجھتے، یہ بھاری سمجھنا اور کوئلہ ہوجانے کو محبوب جاننا سرا سر ایمان ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان تمہارے پاس آئے گا پھر کہے گا کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی، فلاں چیز کس نے پیدا کی، اس طرح کے کئی سوال کرتے ہوئے یوں کہے گا کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا سو جب تم میں سے کسی شخص کے ساتھ اس طرح کی صورت حال پیش آجائے تو اللہ کی پناہ مانگے اور وہیں رک جائے (وسوسہ کو اور سوال و جواب کو آگے نہ بڑھائے) ۔ دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ برابر آپس میں طرح طرح کے سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ بھی سوال کریں گے یہ (جو کچھ موجود ہے) اللہ کی مخلوق ہے اسے اللہ نے پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ جو کوئی شخص ایسے سوالات میں سے کوئی چیز ( اپنے اندر) محسوس کرے تو (اٰمَنْتُ باللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ) (میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا) کہہ دے (ایضاً ) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کے وسوسے آنے پر پڑھنے کے لیے یہ بتایا (اَللّٰہُ اَحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ) اور فرمایا اس کے بعد بائیں طرف کو تین بار تھوک دے اور اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ پڑھ لے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 19) پھر اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے اپنے بندوں کو دعاء تلقین فرمائی کہ اس طرح دعا مانگا کریں، جو متعدد جملوں پر مشتمل ہے اور ان میں متعدد دعائیں ہیں پہلے یہ دعا بتائی : (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا) (اے ہمارے رب ہماری گرفت نہ فرما۔ اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے چوک ہوجائے) صاحب جلالین فرماتے ہیں کہ حدیث شریف سے ثابت ہے کہ خطا اور نسیان پر مؤاخذہ نہیں ہے۔ لہٰذا یہ سوال کرنا اللہ تعالیٰ شانہ کی اس نعمت کا اقرار کرنا ہے کہ اس نے بھول اور خطاء پر مواخذہ نہیں رکھا، خطا اردو کے محاورہ میں گناہ کے لیے استعمال ہوتا ہے یہاں وہ معنی مراد نہیں ہیں بلکہ خطا سے وہ عمل مراد ہے جو بلا ارادہ صادر ہوجائے۔ یاد رہے کہ مؤاخذہ ہونا نہ ہونا اور بات ہے اور خطا و نسیان سے بعض احکام کا متعلق ہونا دوسری بات ہے۔ خطا اور نسیان کے بارے میں جو بعض احکام ہیں عدم مواخذہ فی الآخرۃ سے ان احکام کی نفی نہیں ہوتی مثلاً نماز میں بھول کر کوئی شخص بول پڑا تو اس سے نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر خطاءً کسی مؤمن کو قتل کر دے گا تو دیت اور کفارہ واجب ہوگا۔ پھر ایک اور دعا تلقین فرمائی اور وہ یہ ہے (رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا) اس میں ارشاد فرمایا ہے کہ بار گاہ خداوندی میں یوں عرض کرو کہ اے ہمارے رب ہم پر بھاری احکام کا بوجھ نہ رکھ جیسا کہ ہم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل پر رکھا تھا مثلاً توبہ قبول ہونے کے لیے اپنی جان کو قتل کرنا مشروط تھا اور زکوٰۃ میں چوتھائی مال نکالنا فرض تھا اور کپڑا دھو کر پاک نہیں ہوسکتا تھا اس کے لیے نجاست کی جگہ کو کاٹ دینا پڑتا تھا اور جب کوئی شخص چھپ کر رات کو گناہ کرتا تھا تو صبح کو اس کے دروازے پر لکھا ہوا ہوتا تھا کہ اس نے فلاں گناہ کیا ہے، اور بعض طیبات ان پر حرام کردی گئی تھیں۔ کما قال تَعَا لیٰ (حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلُّتْ لَھُمْ وَ قَالَ تَعَالیٰ وَ عَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ ) (الآیۃ) اور نماز پڑھنے کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ مسجد ہی میں نماز پڑھیں اور مال غنیمت ان لوگوں کے لیے حلال نہیں تھا اللہ تعالیٰ شانہ نے امت محمدیہ کے لیے آسانی فرمائی اور مشکل احکام مشروع نہیں فرمائے جو بنی اسرائیل پر فرض تھے۔ سورة اعراف میں رسول اللہ ﷺ کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : (یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبآءِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ) (وہ پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال فرماتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔ ) مزید دعا تلقین فرماتے ہوئے ارشاد ہے (رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ) ۔ (اے ہمارے رب اور ہم پر کوئی ایسا بار نہ ڈالیے جس کی ہم کو طاقت نہ ہو) اس سے تکالیف شرعیہ بھی مراد ہوسکتی ہیں اور مصائب تکوینیہ بھی اور دونوں بھی مراد لے سکتے ہیں۔ صاحب جلا لین لکھتے ہیں۔ : من التکالیف و البلایا اس سے دونوں کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ آخر میں مختصر الفاظ میں چار دعائیں اکٹھی تلقین فرمائیں۔ (وَاعْفُ عَنَّا) (اور ہمیں معاف فرما) وَ اغْفِرْلَنَا (اور ہماری مغفرت فرما) وَ ارْحَمْنَا (اور ہم پر رحم فرما) (اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ) (تو ہمارا مولیٰ یعنی ولی اور مددگار ہے۔ سو ہماری مدد فرما، کافر قوم کے مقابلہ میں) صحیح مسلم ص 78 ج 1 میں ہے کہ ہر دعا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب میں نَعَمْ کا جواب ملا، دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دعا کے جواب میں (قَدْفَعَلْتُ ) فرمایا یعنی میں نے تمہارے سوال کے مطابق کردیا، یعنی تمہاری دعائیں قبول ہوگئیں۔ صحیح مسلم ص 97 ج 1 میں یہ بھی ہے کہ شب معراج میں رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں۔ (1) پانچ نمازیں (2) سورة البقرہ کا آخری حصہ ( آمن الرسول سے سورت کے ختم تک) (3) آپ کی امت میں جو لوگ مشرک نہ ہوں ان کے بڑے بڑے گناہوں کی بخشش کردی گئی۔ (گناہ کبیرہ محض اللہ کی رحمت سے یا تو بہ سے یا بطور تطہیر و تمحیص عذاب بھگت کر معاف ہوجائیں گے اور اہل ایمان، ایمان کی وجہ سے جنت میں چلے جائیں گے۔ فاسق کو دائمی عذاب نہیں ہے۔ کافر و مشرک کو دائمی عذاب ہوگا) ۔ قال النووی فی شرح صحیح مسلم والمراد واللّٰہ اعلم یغفرانھا انہ لا یخلد فی النار بخلاف المشرکین ولیس المراد انہ لا یعذب اصلا الخ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ جبریل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تشریف رکھتے تھے اسی اثناء میں اوپر سے ایک آواز سنی، انہوں نے اوپر کو سر اٹھایا اور بتایا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ آج کھولا گیا ہے۔ جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ یہ فرشتہ زمین پر نازل ہوا ہے آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا تھا۔ اس فرشتے نے آنحضرت سرور عالم ﷺ کو سلام کیا اور عرض کیا کہ آپ دونوں روں کی خوشخبری سن لیں جو آپ کو عطا کئے گئے ہیں آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے۔ اول فاتحۃ الکتاب یعنی سورة فاتحہ، دوم سورة البقرۃ کی آخری آیتیں (سورۂ فاتحہ اور یہ آیات دعاؤں پر مشتمل ہیں) ان میں سے جو بھی کوئی حصہ آپ تلاوت کریں گے ( جو سوال پر مشتمل ہوگا) تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کو سوال کے مطابق عطا فرمائیں گے۔ (صحیح مسلم ص 271 ج 1) مذکورہ بالا روایات سے سورة البقرہ کی آخری دونوں آیات کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوئی کہ یہ آیات شب معراج میں عطا ہوئیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول فرما لیا۔ صحیح بخاری ص 755 جلد 2 اور صحیح مسلم ص 271 ج 1 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ الاٰیتان فی اٰخر سورة البقرۃ من قرء بھما فی لیلۃ کفتاہ (یعنی جس نے کسی رات میں سورة بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لیں تو اس کے لیے کافی ہوں گی) حضرات شراح حدیث نے کافی ہونے کے کئی مطلب لکھے ہیں اول یہ کہ پڑھنے والے کو تمام انسان اور جنات کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے کافی ہوں گی، دوسرے یہ کہ ہر قسم کی آفات و مکروہات سے حفاظت رہے گی، تیسرے یہ کہ رات کو جو پڑھنے کی چیزیں ہیں وہ رہ گئیں تو ان کی جگہ کفایت کریں گی، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ قیام اللیل یعنی رات کو نفل نمازوں کے قیام کے قائم مقام ہوجائیں گی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب۔ و لقد من اللّٰہ تعالیٰ باکمال تفسیر سورة البقرۃ علی ید ھذا العبد الضعیف بالمدینۃ المنورۃ فی اواخر شعبان المعظم 1409 ھ بحسن توفیقہ و تیسیرہ و أرجو أن یوفقنی اللّٰہ تعالیٰ لاتمام تفسیر کتابہ کلہ والحمد للّٰہ اولا و آخرا، والصلوٰۃ والسلام علی من جاء نا بکتاب اللّٰہ تعالیٰ و أرسل طیبا و طاھرا، وکانت مدۃ تالیفہ من بدء سورة الفاتحۃ اِلٰی آخر سورة البقرۃ سنۃ فصاعدا واللّٰہ ولی التوفیق وبیدہ اذمۃ التحقیق۔
Top