Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 286
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ؕ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ١ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ١ۚ وَ اعْفُ عَنَّا١ٙ وَ اغْفِرْ لَنَا١ٙ وَ ارْحَمْنَا١ٙ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠ ۧ
لَا يُكَلِّفُ
: نہیں تکلیف دیتا
اللّٰهُ
: اللہ
نَفْسًا
: کسی کو
اِلَّا
: مگر
وُسْعَهَا
: اس کی گنجائش
لَهَا
: اس کے لیے
مَا
: جو
كَسَبَتْ
: اس نے کمایا
وَعَلَيْهَا
: اور اس پر
مَا اكْتَسَبَتْ
: جو اس نے کمایا
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
لَا تُؤَاخِذْنَآ
: تو نہ پکڑ ہمیں
اِنْ
: اگر
نَّسِيْنَآ
: ہم بھول جائیں
اَوْ
: یا
اَخْطَاْنَا
: ہم چوکیں
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
وَلَا
: اور نہ
تَحْمِلْ
: ڈال
عَلَيْنَآ
: ہم پر
اِصْرًا
: بوجھ
كَمَا
: جیسے
حَمَلْتَهٗ
: تونے ڈالا
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
مِنْ قَبْلِنَا
: ہم سے پہلے
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
وَلَا
: اور نہ
تُحَمِّلْنَا
: ہم سے اٹھوا
مَا
: جو
لَا طَاقَةَ
: نہ طاقت
لَنَا
: ہم کو
بِهٖ
: اس کی
وَاعْفُ
: اور در گزر کر تو
عَنَّا
: ہم سے
وَاغْفِرْ لَنَا
: اور بخشدے ہمیں
وَارْحَمْنَا
: اور ہم پر رحم
اَنْتَ
: تو
مَوْلٰىنَا
: ہمارا آقا
فَانْصُرْنَا
: پس مدد کر ہماری
عَلَي
: پر
الْقَوْمِ
: قوم
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
اللہ کسی متنفس پر اس کی قدرت سے زیادہ ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے ، اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے ۔ اے ہمارے رب ۔ ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ۔ ان پر گرفت نہ کر ۔ مالک ، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال ، جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے ۔ پروردگار ، جس بار کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے ۔ وہ ہم پر نہ رکھ ، ہمارے ساتھ نرمی کر ۔ ہم سے درگزر فرما ، ہم پر رحم کر ، تو ہمارا مولیٰ ہے ۔ کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔
یو ایک مسلمان کی سوچ ہی میں یہ بات ہوتی ہے کہ اس کا رب رحیم ہے ، وہ بطور خلیفہ اس پر جو فرائض وواجبات عائد کرتا ہے وہ نہایت ہی عادلانہ اور منصفانہ ہیں ۔ اس کی جانب سے ڈالی جانے والی آزمائشیں بھی عادلانہ ہیں اور آخرکار قیامت کے دن بھی اس کے ساتھ ٹھیک ٹھیک انصاف ہوگا ۔ اور وہ پوری طرح مطمئن ہوگا۔ اس لئے وہ اللہ کی جانب سے عائد کردہ فرائض پر کوئی تنگی اور دشواری محسوس نہیں کرتا ۔ وہ انہیں بوجھ نہیں سمجھتا ۔ اس لئے کہ اس کا یہ پختہ یقین ہوتا ہے کہ جس اللہ نے یہ فرائض عائد کئے ہیں وہ خوب جانتا ہے کہ میرے اندر ان کے سر انجام دینے کی استطاعت فی الواقعہ ہے ۔ اگر طاقت نہ ہوتی تو وہ فرض ہی نہ کرتا ۔ اس تصور سے ایک طرف تو دل مومن اطمینان اور انس و محبت سے بھرجاتا ہے ، دوسری جانب اس کے اندر ان فرائض وواجبات کو سر انجام دینے کے لئے عزم اور ولولہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرائض اس پر عائد کردیئے ہیں تو لامحالہ وہ اس ڈیوٹی کا حصہ ہیں ۔ اور جب بھی وہ ضعف محسوس کرتا ہے ، کبھی تھکاوٹ محسوس کرتا ہے ، یہ فرائض بھاری ہونے لگتے ہیں تو وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ اس کی ذاتی کمزوری ہے ۔ بوجھ زیادہ نہیں ہے ۔ چناچہ وہ اپنے عزم کو از سر نو تازہ کرتا ہے ۔ اپنی کمزوری کو دور کرتا ہے اور از سر نو فرائض پورے کرنے کا عزم صمیم کرلیتا ہے ۔ جب تک وہ ایسا کرسکتا ہے ۔ ازسر نو عزم کرنے کے لئے مومن کے لئے یہ اشارہ ہے کہ اگر راہ طویل ہوجائے تو از سر نو عزم کرو چناچہ تصور روح مومن اور اس کی ہمت مردانہ کے لئے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ اور اس طرح اس کی ہمت اور اس کے ارادے میں پختگی آجاتی ہے ۔ اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس تصور حیات کا دوسرا اہم حصہ ہے ۔ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ................ ” ہر شخص نے جو نیکی کمائی اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو برائی سمیٹی اس کا وبال اسی پر ہے۔ “ ہر فرد اپنے کئے کا ذمہ دار ہے ۔ اس لئے اسے وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ۔ نیز سزا بھی کسی کو صرف اس کے جرم کی ملے گی جو وہ خود کرے گا ۔ ہر کوئی اپنے کئے کا ذمہ دار خود ہوگا۔ ہر شخص اپنے رب کے سامنے خود اپنا اعمال نامہ لے کر جائے گا۔ اور اس میں وہی کچھ ہوگا جو اس نے کمایا ، جس کا اس نے ارتکاب کیا ۔ کوئی شخص وہاں حیلہ بہانہ نہ کرسکے گا ۔ نہ وہاں کسی کو کسی کی امداد یا سفارش کی امید ہوگی ۔ انسان بحیثیت فرد اپنے رب کے سامنے ہوگا۔ جب انفرادی مسئولیت کا یہ تصور کسی مومن کے قلب میں جاگزین ہوجاتا ہے ، تو ہر فرد اپنے اللہ کے جو حقوق اس کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں ۔ ان کا ذمہ دار بن جاتا ہے ۔ وہ دوسرے انسانوں کی وجہ سے کسی صورت میں بھی ان حقوق الٰہیہ سے دست بردار نہیں ہوتا الا یہ کہ شریعت کے مطابق یہ دست برداری ہو ۔ اب ہر انسان مومن کی ذات کے ساتھ جو حقوق اللہ وابستہ ہوتے ہیں وہ اس بارے میں ہر دھوکے ، ہر حدود شکنی ، ہر گمراہی اور ہر فساد کے مقابلے میں سینہ سپر ہوجاتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ اپنے نفس اور اس کے ساتھ وابستہ حقوق اللہ کے بارے میں ذاتی طور پر خود جوابدہ ہے ۔ اور ہر نفس کے ساتھ اللہ کے جو حقوق وابستہ ہیں وہ صرف وہی ہیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے یا جن سے اس نے منع فرمایا ہے۔ یعنی ہر فرد اپنے طرز عمل اور اپنے شعور میں صرف اللہ وحدہ کی بندگی بجالائے ۔ اگر وہ ان حقوق میں کسی انسان کی وجہ سے کمی کرتا ہے ۔ مثلاً یوں کہ اسے کوئی گمراہ کردے ، اسے دھوکہ دیدے ، یا اسے مجبور کرے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن یہ انسان اس مومن کی کوئی امداد نہ کرسکیں گے ۔ (ہاں اگر یہ نافرمانی وہ بحالت جبر کرتا ہے اور دل اس کا اسلامی فرائض حقوق پر مطمئن ہے ، تو پھر یہ معذور تصور ہوگا۔ ) غرض ایسے اشخاص قیامت کے دن نہ اس مومن کی مدافعت کرسکیں گے نہ سفارش کرسکیں گے ، نہ وہ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ اس شخص کا بوجھ اتاردیں یا خود اٹھائیں۔ مسؤلیت کے اس ذاتی تصور کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص بڑی جرأت کے ساتھ خود اپنی اور اس کے ساتھ وابستہ حقوق اللہ کی مدافعت کرتا ہے ۔ اسی لئے کہ اس کی سزاصرف اسے ہوگی ۔ اور وہ خود اپنے کئے کا ذمہ دار ہوگا ۔ یاد رہے کہ یہاں انفرادی مسؤلیت کے نظریہ سے مراد یہ خطرہ نہیں ہے کہ کوئی شخص معاشرہ کے اندر اپنی اجتماعی ذمہ داریاں پوری کرنے سے پہلوتہی کرے ۔ اس لئے کہ اجتماعی ذمہ داریاں بھی شریعت نے ایک فرد پر بحیثیت فرد ڈالی ہیں ۔ اگر معاشرہ میں اجتماعی ذمہ داریاں پوری نہ ہوں گی تو بھی فردذمہ دار ہوگا۔ کیونکہ یہ بھی اللہ کی جانب سے اس پر انفرادی طور پر ڈالی گئی ہیں ۔ مثلاً ہر فرد اللہ کی جانب سے مامور ہے کہ وہ اپنے مال اور اپنی دولت سے اجتماعی ذمہ داریہ ادا کرے ۔ نیز اسے یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو تواصی بالحق کرے ، معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کرے ، اپنے معاشرے سے باطل کو مٹانے کی کوشش کرے ۔ معاشرے میں سچائی اور بھلائی کو مستحکم کرے اور شر اور منکر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے ۔ اس کے اعمال نامہ میں اجتماعی معاملات کے حوالے سے بھی اس کی تمام کارکردگیاں اور کو تاہیاں درج ہوں گی ۔ اور جزا وسزاکا وہ انفرادی طور پر ذمہ دار یا حقدار ہوگا۔ اہل ایمان نے جب انفرادی ذمہ داری کے حکم کو سن لیا اور سمجھ لیا ۔ تو اب ان کے دلوں سے یہ دعانکلی ، جو بڑی جامع اور پر از اخلاص ہے ۔ اس دعا کو قرآن کریم اپنے خاص انداز تصویر کشی میں بیان کرتا ہے ۔ یوں نظر آتا ہے کہ اہل ایمان ہاتھ اٹھائے ہمارے سامنے کھڑے ہیں ۔ صفیں باندھی ہوئی ہیں ۔ اور خشوع و خضوع کے ساتھ وہ یہ دعا پڑھ رہے ہیں ۔ (خصوصاً فرائض وذمہ داریوں کی حقیقت پاکر) یہ ایسی دعا ہے جو اہل ایمان اور ان کے رب کے ساتھ ان کے تعلق کی خوب تصویر کشی کرتی ہے ۔ وہ اپنے عجز اور ناتوانی کا گہرا دراک رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو اپنے رب کی رحمت اور درگزر کا محتاج پاتے ہیں ۔ وہ اس کی درگاہ میں پناہ کے خواستگار ہیں۔ وہ اپنے آپ کو صرف اللہ کے حوالے کرتے ہیں ۔ اسی سے تعلق جوڑ رہے ہیں اور ماسوا اللہ سے کٹ رہے ہیں ۔ وہ اس کی راہ میں جہاد کے لئے تیار ہیں ۔ اور اسی سے نصرت کے طلبگار ہیں ۔ اور ان کی یہ دعا ایک انتہائی دلدوز اور ملال انگیز نغمے کی صورت میں ہے ۔ جس کے صوتی زیروبم میں ان کے دل کی دھڑکن اور ان کے روح کی بےقراری صاف سنائی دیتی ہے اور صاف نظر آتی ہے۔ رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ” اے ہمارے رب ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ان پر گرفت نہ کر ۔ “ اگر انسان اس قدر کمزور ہوجائے اور اس سے ایسی بھول چوک ہوجائے جس میں اس کا کوئی دخل نہ ہو اور یہ بھول چوک کبھی کبھار ہو ہی جاتی ہے تو ایسی غلطیاں ، خطاء اور نسیان کے حکم میں ہون گی ۔ ان پر ایک مؤمن کے لئے صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ وہ فوراً اللہ سے معفی مانگے ۔ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو ۔ بھول چوک وہ ہوتی ہے کہ اس میں کوئی شخص غلطی پر مصر نہ ہو ۔ یا وہ قصداً حکم عدولی نہ کررہا ہو۔ یا وہ کبر وغرور کی وجہ سے نافرمانی نہ کررہا ہو یا بالارادہ ٹیڑھے راستے پر نہ چل رہا ہو ۔ ان حالات میں کوئی صورت حال بھی وہ نہیں ہے جو ایک مومن اپنے رب کی بارگاہ میں اختیار کرتا ہے ۔ نہ ایسے حالات میں وہ اللہ کی جانب سے عفو و درگزر کا مستحق ہوگا ۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ وہ تائب ہوجائے اور ٹھیک طور پر اللہ کی طرف رجوع کرلے ۔ غرض مومنین نے بھول چوک کے بارے میں جو درخواست معافی گزاری ، اسے اللہ نے قبول فرمالیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” میری امت سے خطاء اور نسیان پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا جب تک انہوں نے ایسے افعال کو برا سمجھا۔ “ (طبرانی وغیرہ) رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ” اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے ۔ “ یہ دعا مرد مومن کی زبان پر اس احساس ذمہ داری کی وجہ سے آتی ہے جو امت مسلمہ پر تمام رسولوں کی رسالت کے سلسلے میں اٹھائی گئی ہے ، یہ امت تمام رسالتوں کے بار امانت کے نیچے آگئی ہے ۔ جیسا کہ ان کے رب نے اس قرآن کریم میں اس امت کو جابجا بتلایا کہ اس سے قبل جن امتوں کے پاس رسول بھیجے گئے انہوں نے اپنے رسولوں کے ساتھ کیا کیا سلوک کئے اور ان امتوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر کیا کیا بوجھ ڈالے گئے ۔ اور یہ بوجھ ان پر ان کے بعض جرائم کی وجہ سے ڈالے گئے ۔ مثلا ً بنی اسرائیل کی بعض بد اعمالیوں کی وجہ سے ان پر بعض پاکیزہ قسم کی غذائیں حرام کردی گئیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔” اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے اور گائے اور چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے ۔ “ (146 : 6) یا جس طرح سورة البقرہ میں ہے کہ انہوں نے بچھڑے کی عبادت شروع کردی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ایک دوسرے کو قتل کریں ۔ اسی طرح ان کی اس بدعملی کا کفارہ ہوسکے ۔ ان پر سبت کے دن تجارت اور شکار کو حرام قرار دیا گیا ۔ اسی وجہ سے یہاں اہل ایمان کو دعا سکھائی گئی کہ وہ دست بدعا ہوں کہ ان پر اللہ تعالیٰ وہ بوجھ نہ ڈالے جو ان سے پہلے لوگوں پر ڈالے گئے ۔ اس لئے کہ نبی آخرالزماں کی بعثت کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ وہ ان کے ذریعہ اہل ایمان اور پوری انسانیت سے وہ بوجھ اتاردیں جو انسانیت پر ڈالے گئے تھے ۔ اور وہ بندھن توڑدیں جن میں بشریت خوامخواہ جکڑی ہوئی تھی اور جس کے نتیجے میں اسلامی نظریہ ٔ حیات سیدھا سادھا نظریہ بن کر آیا ، جو آسان بھی ہے اور نرم بھی ہے ۔ فطرت انسانی کے عین مطابق شاہری فطرت سے ہمقدم اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ سے فرمایا ۔ وَنُیَسِّرُکَ لِلیُسرٰی ................” اور ہم تیری راہنمائی سہولت کے ساتھ ۔ سہل فرائض کی طرف کریں گے ۔ “ وہ عظیم بوجھ کیا ہے جو امم سابقہ کے کاندھوں پر ڈالا گیا تھا اور اس لئے ڈالا گیا تھا کہ انہوں نے خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کے ناطے اپنے عہد کی خلاف ورزی کی تھی اور عہد توڑ دیا تھا اور وہ عظیم بوجھ جو اب امت مسلمہ کے کاندھوں سے اتار دیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا ہے اور اس کی ماہیت کیا ہے ؟ یہ عظیم بوجھ انسان کے انسان کی غلامی کا بوجھ ہے ۔ جس میں بندہ بندے کا غلام ہوتا ہے ، جس میں انسان کے لئے دوسرا انسان ضابطہ حیات ہوتا ہے ۔ اس طرح ایک نسل انسانی دوسرے انسان کی ذات کے تابع ہوتی ہے ، یا انسان ایک طبقے کے غلام ہوتے ہیں یا جس میں انسان ایک نسل کے غلام ہوتے ہیں ۔ یہ ہے وہ عظیم بوجھ جس سے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو رہائی دلائی ۔ اور ان تمام غلامیوں سے انہیں چھڑا کر صرف اپنی بند گی اور غلامی اور اپنی اطاعت میں داخل کردیا ۔ اس آزادی کے بعد اب اہل ایمان صرف اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے ضابطہ حیات اخذ کرنے لگے ۔ یوں انہیں ایک اللہ وحدہ کی غلامی میں داخل کرکے ، ان کی روح ، ان کی عقل اور ان کی پوری زندگی کو دوسرے انسانوں کی غلامی سے نکالا گیا ۔ اللہ جل شانہٗ کی بندگی اور غلامی بایں مفہوم کہ انسان اپنی اقدار حیات نیک وبد کا معیار اور اجتماعی زندگی کے قوانین صرف اللہ سے اخذ کرے گا ۔ پوری انسانیت کے لئے آزادی کا نقطہ آغاز ہے ۔ یوں ایک انسان دوسرے جبار وقہار انسانوں کی غلامی اور بندگی سے آزاد ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح وہ مذہبی پروہتوں ، کاہنوں اور پیشواؤں کی غلامی سے بھی آزاد ہوجاتا ہے ۔ مزید یہ کہ ایک انسان اوہام و خرافات اور رسوم ورواجات کے بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایک انسان ہوائے نفس اور جسمانی شہوات ومرغوبات کے بندھنوں سے بھی چھٹکارا پاتا ہے ۔ انسان ہر کھوئی ہوئی غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے جو ناحق انسان کے کاندھوں پر سوار ہوتی ہے اور تاریخ شاہد ہے ایسی غلامیوں نے انسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی ۔ اور جس کی وجہ سے لوگوں کے سر اللہ واحد القہار کے مقابلے میں دوسرے جباروں کے سامنے جھکتے تھے ۔ رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ” پروردگار ، جس بوجھ کو ہم اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہم سے نہ اٹھوا۔ “ اس دعا سے اہل ایمان کے اس شعور کا اظہار ہوتا ہے کہ اب وہ انسان کی غلامی سے آزاد ہوگئے ہیں ۔ نیز اب وہ خائف ہیں کہ کہیں وہ اپنی کوتاہیوں کے سبب دوبارہ غلامی میں واپس نہ چلے جائیں جو نہایت ہی برا دور تھا۔ ” اے ہمارے رب ، ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کے اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے۔ “ ایک ایسی دعا ہے جس سے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردینے کی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے ۔ اہل ایمان کے دل سے اب یہ ارادہ اور نیت ہی نکل گئی ہے کہ وہ احکام خداوندی کی خلاف ورزی کریں گے ۔ چاہے جو احکام بھی ہوں ، وہ صرف یہ درخواست پیش کرتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں ۔ یہ توقع رکھتے ہیں ۔ اجرائے احکام میں ان کی صفت کو مدنظر رکھاجائے گا۔ پروردگار ، ہم پر رحم کر اور تکلیف مالایطاق سے ہمیں بچا تاکہ ان سے تعمیل احکام میں عجز و قصور کا ارتکاب نہ ہو ، ورنہ وہ تو پختہ ارادہ کئے ہیں کہ مکمل تسلیم وانقیاد کا مظاہرہ کریں گے ۔ صرف بندہ ناتواں کی امید یہ ہے کہ مالک الملک ان کے ساتھ مہربانی کرے۔ اور جس طرح وہ اپنے بندوں کے ساتھ جودوکرم ، نرمی اور محبت کا رویہ رکھنے کے عادی ہیں وہی سلوک ہم سے جاری رکھاجائے ۔ ہم اپنی تقصیرات کا اعتراف کرتے ہیں اور وہ تقصیریں صرف اسی صورت میں معاف اور بےاثر ہوسکتی ہیں جب اللہ کا فضل شامل حال ہو۔ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ” ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگزر فرما ، ہم پر رحم فرما۔ “ اس لئے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کی یہ واحد گارنٹی صرف اسی صورت میں اللہ کی رضامندی حاصل ہوسکتی ہے ۔ انسان جس قدر محنت سے بھی وفاداری کرے ، اس کے کام میں کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے اور اگر اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو وہ عفو و درگزر اور رحمت نرمی سے کام لے گا ۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے ، فرماتی ہیں ۔ رسول ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں داخل نہ ہوگا ۔ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا ، رسول اللہ ﷺ آپ بھی ؟ تو رسول ﷺ نے فرمایا ۔” اور میں بھی ، الا یہ کہ اللہ نے مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لیا ہے۔ “ ایک صحیح مومن کے احساس میں یہی اصل بات ہے ۔ وہ حتی المقدور عمل کرتا ہے لیکن اپنی تقصیرات کا اسے پوری طرح احساس ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد اسے پوری امید ہوتی ہے کہ اللہ اس کی تقصیرات سے عفو و درگزر فرمائے گا ۔ اور اس کے ساتھ نرمی برتی جائے گی ۔ سب سے آخر میں اہل ایمان اللہ کے مضبوط سہارے کو پکڑتے ہیں ، وہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ کا ارادہ ہے کہ حق کا بول بالا ہو ، دین اسلام اور اسلامی نظام زندگی اس کرہ ارض پر غالب ہو ، اور صورت حال یہ ہو کہ ” کوئی فتنہ نہ رہے اور دین صرف اللہ کا چلے ۔ “ اب اہل ایمان اللہ کا مضبوط سہارا لیتے ہیں ۔ وہ اپنے سروں پر اسلام کے جھنڈے بلند کرتے ہیں ۔ وہ صرف انہی جھنڈوں سے اپنی پہچان کراتے ہیں ۔ جبکہ جاہلیت کی علامات اور جھنڈے بہت ہی مختلف ہیں ، اب وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے طلبگار ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان کا وہی والی اور وارث ہے ۔ وہ اہل کفر کے ساتھ صرف اللہ کے لئے لڑتے ہیں ۔ جو دین اسلام سے خارج ہیں۔ أَنْتَ مَوْلانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (286) ” تو ہمارا مولیٰ ہے کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ “ یہ ہے اس عظیم سورت کا خاتمہ جس میں اس پوری سورت کے مضامین کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔ اس خلاصے میں اسلامی تصور حیات کا خلاصہ بیان ہوا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ایک سچے مومن کا اپنے رب کے ساتھ ہر حال میں کیا تعلق ہوتا ہے۔
Top