Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 286
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ؕ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ١ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ١ۚ وَ اعْفُ عَنَّا١ٙ وَ اغْفِرْ لَنَا١ٙ وَ ارْحَمْنَا١ٙ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠   ۧ
لَا يُكَلِّفُ : نہیں تکلیف دیتا اللّٰهُ : اللہ نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی گنجائش لَهَا : اس کے لیے مَا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَعَلَيْهَا : اور اس پر مَا اكْتَسَبَتْ : جو اس نے کمایا رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُؤَاخِذْنَآ : تو نہ پکڑ ہمیں اِنْ : اگر نَّسِيْنَآ : ہم بھول جائیں اَوْ : یا اَخْطَاْنَا : ہم چوکیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تَحْمِلْ : ڈال عَلَيْنَآ : ہم پر اِصْرًا : بوجھ كَمَا : جیسے حَمَلْتَهٗ : تونے ڈالا عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَلَا : اور نہ تُحَمِّلْنَا : ہم سے اٹھوا مَا : جو لَا طَاقَةَ : نہ طاقت لَنَا : ہم کو بِهٖ : اس کی وَاعْفُ : اور در گزر کر تو عَنَّا : ہم سے وَاغْفِرْ لَنَا : اور بخشدے ہمیں وَارْحَمْنَا : اور ہم پر رحم اَنْتَ : تو مَوْلٰىنَا : ہمارا آقا فَانْصُرْنَا : پس مدد کر ہماری عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اللہ کسی متنفس پر اس کی قدرت سے زیادہ ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے ، اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے ۔ اے ہمارے رب ۔ ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ۔ ان پر گرفت نہ کر ۔ مالک ، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال ، جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے ۔ پروردگار ، جس بار کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے ۔ وہ ہم پر نہ رکھ ، ہمارے ساتھ نرمی کر ۔ ہم سے درگزر فرما ، ہم پر رحم کر ، تو ہمارا مولیٰ ہے ۔ کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔
یو ایک مسلمان کی سوچ ہی میں یہ بات ہوتی ہے کہ اس کا رب رحیم ہے ، وہ بطور خلیفہ اس پر جو فرائض وواجبات عائد کرتا ہے وہ نہایت ہی عادلانہ اور منصفانہ ہیں ۔ اس کی جانب سے ڈالی جانے والی آزمائشیں بھی عادلانہ ہیں اور آخرکار قیامت کے دن بھی اس کے ساتھ ٹھیک ٹھیک انصاف ہوگا ۔ اور وہ پوری طرح مطمئن ہوگا۔ اس لئے وہ اللہ کی جانب سے عائد کردہ فرائض پر کوئی تنگی اور دشواری محسوس نہیں کرتا ۔ وہ انہیں بوجھ نہیں سمجھتا ۔ اس لئے کہ اس کا یہ پختہ یقین ہوتا ہے کہ جس اللہ نے یہ فرائض عائد کئے ہیں وہ خوب جانتا ہے کہ میرے اندر ان کے سر انجام دینے کی استطاعت فی الواقعہ ہے ۔ اگر طاقت نہ ہوتی تو وہ فرض ہی نہ کرتا ۔ اس تصور سے ایک طرف تو دل مومن اطمینان اور انس و محبت سے بھرجاتا ہے ، دوسری جانب اس کے اندر ان فرائض وواجبات کو سر انجام دینے کے لئے عزم اور ولولہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرائض اس پر عائد کردیئے ہیں تو لامحالہ وہ اس ڈیوٹی کا حصہ ہیں ۔ اور جب بھی وہ ضعف محسوس کرتا ہے ، کبھی تھکاوٹ محسوس کرتا ہے ، یہ فرائض بھاری ہونے لگتے ہیں تو وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ اس کی ذاتی کمزوری ہے ۔ بوجھ زیادہ نہیں ہے ۔ چناچہ وہ اپنے عزم کو از سر نو تازہ کرتا ہے ۔ اپنی کمزوری کو دور کرتا ہے اور از سر نو فرائض پورے کرنے کا عزم صمیم کرلیتا ہے ۔ جب تک وہ ایسا کرسکتا ہے ۔ ازسر نو عزم کرنے کے لئے مومن کے لئے یہ اشارہ ہے کہ اگر راہ طویل ہوجائے تو از سر نو عزم کرو چناچہ تصور روح مومن اور اس کی ہمت مردانہ کے لئے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ اور اس طرح اس کی ہمت اور اس کے ارادے میں پختگی آجاتی ہے ۔ اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس تصور حیات کا دوسرا اہم حصہ ہے ۔ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ................ ” ہر شخص نے جو نیکی کمائی اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو برائی سمیٹی اس کا وبال اسی پر ہے۔ “ ہر فرد اپنے کئے کا ذمہ دار ہے ۔ اس لئے اسے وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ۔ نیز سزا بھی کسی کو صرف اس کے جرم کی ملے گی جو وہ خود کرے گا ۔ ہر کوئی اپنے کئے کا ذمہ دار خود ہوگا۔ ہر شخص اپنے رب کے سامنے خود اپنا اعمال نامہ لے کر جائے گا۔ اور اس میں وہی کچھ ہوگا جو اس نے کمایا ، جس کا اس نے ارتکاب کیا ۔ کوئی شخص وہاں حیلہ بہانہ نہ کرسکے گا ۔ نہ وہاں کسی کو کسی کی امداد یا سفارش کی امید ہوگی ۔ انسان بحیثیت فرد اپنے رب کے سامنے ہوگا۔ جب انفرادی مسئولیت کا یہ تصور کسی مومن کے قلب میں جاگزین ہوجاتا ہے ، تو ہر فرد اپنے اللہ کے جو حقوق اس کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں ۔ ان کا ذمہ دار بن جاتا ہے ۔ وہ دوسرے انسانوں کی وجہ سے کسی صورت میں بھی ان حقوق الٰہیہ سے دست بردار نہیں ہوتا الا یہ کہ شریعت کے مطابق یہ دست برداری ہو ۔ اب ہر انسان مومن کی ذات کے ساتھ جو حقوق اللہ وابستہ ہوتے ہیں وہ اس بارے میں ہر دھوکے ، ہر حدود شکنی ، ہر گمراہی اور ہر فساد کے مقابلے میں سینہ سپر ہوجاتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ اپنے نفس اور اس کے ساتھ وابستہ حقوق اللہ کے بارے میں ذاتی طور پر خود جوابدہ ہے ۔ اور ہر نفس کے ساتھ اللہ کے جو حقوق وابستہ ہیں وہ صرف وہی ہیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے یا جن سے اس نے منع فرمایا ہے۔ یعنی ہر فرد اپنے طرز عمل اور اپنے شعور میں صرف اللہ وحدہ کی بندگی بجالائے ۔ اگر وہ ان حقوق میں کسی انسان کی وجہ سے کمی کرتا ہے ۔ مثلاً یوں کہ اسے کوئی گمراہ کردے ، اسے دھوکہ دیدے ، یا اسے مجبور کرے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن یہ انسان اس مومن کی کوئی امداد نہ کرسکیں گے ۔ (ہاں اگر یہ نافرمانی وہ بحالت جبر کرتا ہے اور دل اس کا اسلامی فرائض حقوق پر مطمئن ہے ، تو پھر یہ معذور تصور ہوگا۔ ) غرض ایسے اشخاص قیامت کے دن نہ اس مومن کی مدافعت کرسکیں گے نہ سفارش کرسکیں گے ، نہ وہ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ اس شخص کا بوجھ اتاردیں یا خود اٹھائیں۔ مسؤلیت کے اس ذاتی تصور کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص بڑی جرأت کے ساتھ خود اپنی اور اس کے ساتھ وابستہ حقوق اللہ کی مدافعت کرتا ہے ۔ اسی لئے کہ اس کی سزاصرف اسے ہوگی ۔ اور وہ خود اپنے کئے کا ذمہ دار ہوگا ۔ یاد رہے کہ یہاں انفرادی مسؤلیت کے نظریہ سے مراد یہ خطرہ نہیں ہے کہ کوئی شخص معاشرہ کے اندر اپنی اجتماعی ذمہ داریاں پوری کرنے سے پہلوتہی کرے ۔ اس لئے کہ اجتماعی ذمہ داریاں بھی شریعت نے ایک فرد پر بحیثیت فرد ڈالی ہیں ۔ اگر معاشرہ میں اجتماعی ذمہ داریاں پوری نہ ہوں گی تو بھی فردذمہ دار ہوگا۔ کیونکہ یہ بھی اللہ کی جانب سے اس پر انفرادی طور پر ڈالی گئی ہیں ۔ مثلاً ہر فرد اللہ کی جانب سے مامور ہے کہ وہ اپنے مال اور اپنی دولت سے اجتماعی ذمہ داریہ ادا کرے ۔ نیز اسے یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو تواصی بالحق کرے ، معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کرے ، اپنے معاشرے سے باطل کو مٹانے کی کوشش کرے ۔ معاشرے میں سچائی اور بھلائی کو مستحکم کرے اور شر اور منکر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے ۔ اس کے اعمال نامہ میں اجتماعی معاملات کے حوالے سے بھی اس کی تمام کارکردگیاں اور کو تاہیاں درج ہوں گی ۔ اور جزا وسزاکا وہ انفرادی طور پر ذمہ دار یا حقدار ہوگا۔ اہل ایمان نے جب انفرادی ذمہ داری کے حکم کو سن لیا اور سمجھ لیا ۔ تو اب ان کے دلوں سے یہ دعانکلی ، جو بڑی جامع اور پر از اخلاص ہے ۔ اس دعا کو قرآن کریم اپنے خاص انداز تصویر کشی میں بیان کرتا ہے ۔ یوں نظر آتا ہے کہ اہل ایمان ہاتھ اٹھائے ہمارے سامنے کھڑے ہیں ۔ صفیں باندھی ہوئی ہیں ۔ اور خشوع و خضوع کے ساتھ وہ یہ دعا پڑھ رہے ہیں ۔ (خصوصاً فرائض وذمہ داریوں کی حقیقت پاکر) یہ ایسی دعا ہے جو اہل ایمان اور ان کے رب کے ساتھ ان کے تعلق کی خوب تصویر کشی کرتی ہے ۔ وہ اپنے عجز اور ناتوانی کا گہرا دراک رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو اپنے رب کی رحمت اور درگزر کا محتاج پاتے ہیں ۔ وہ اس کی درگاہ میں پناہ کے خواستگار ہیں۔ وہ اپنے آپ کو صرف اللہ کے حوالے کرتے ہیں ۔ اسی سے تعلق جوڑ رہے ہیں اور ماسوا اللہ سے کٹ رہے ہیں ۔ وہ اس کی راہ میں جہاد کے لئے تیار ہیں ۔ اور اسی سے نصرت کے طلبگار ہیں ۔ اور ان کی یہ دعا ایک انتہائی دلدوز اور ملال انگیز نغمے کی صورت میں ہے ۔ جس کے صوتی زیروبم میں ان کے دل کی دھڑکن اور ان کے روح کی بےقراری صاف سنائی دیتی ہے اور صاف نظر آتی ہے۔ رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ” اے ہمارے رب ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ان پر گرفت نہ کر ۔ “ اگر انسان اس قدر کمزور ہوجائے اور اس سے ایسی بھول چوک ہوجائے جس میں اس کا کوئی دخل نہ ہو اور یہ بھول چوک کبھی کبھار ہو ہی جاتی ہے تو ایسی غلطیاں ، خطاء اور نسیان کے حکم میں ہون گی ۔ ان پر ایک مؤمن کے لئے صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ وہ فوراً اللہ سے معفی مانگے ۔ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو ۔ بھول چوک وہ ہوتی ہے کہ اس میں کوئی شخص غلطی پر مصر نہ ہو ۔ یا وہ قصداً حکم عدولی نہ کررہا ہو۔ یا وہ کبر وغرور کی وجہ سے نافرمانی نہ کررہا ہو یا بالارادہ ٹیڑھے راستے پر نہ چل رہا ہو ۔ ان حالات میں کوئی صورت حال بھی وہ نہیں ہے جو ایک مومن اپنے رب کی بارگاہ میں اختیار کرتا ہے ۔ نہ ایسے حالات میں وہ اللہ کی جانب سے عفو و درگزر کا مستحق ہوگا ۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ وہ تائب ہوجائے اور ٹھیک طور پر اللہ کی طرف رجوع کرلے ۔ غرض مومنین نے بھول چوک کے بارے میں جو درخواست معافی گزاری ، اسے اللہ نے قبول فرمالیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” میری امت سے خطاء اور نسیان پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا جب تک انہوں نے ایسے افعال کو برا سمجھا۔ “ (طبرانی وغیرہ) رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ” اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے ۔ “ یہ دعا مرد مومن کی زبان پر اس احساس ذمہ داری کی وجہ سے آتی ہے جو امت مسلمہ پر تمام رسولوں کی رسالت کے سلسلے میں اٹھائی گئی ہے ، یہ امت تمام رسالتوں کے بار امانت کے نیچے آگئی ہے ۔ جیسا کہ ان کے رب نے اس قرآن کریم میں اس امت کو جابجا بتلایا کہ اس سے قبل جن امتوں کے پاس رسول بھیجے گئے انہوں نے اپنے رسولوں کے ساتھ کیا کیا سلوک کئے اور ان امتوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر کیا کیا بوجھ ڈالے گئے ۔ اور یہ بوجھ ان پر ان کے بعض جرائم کی وجہ سے ڈالے گئے ۔ مثلا ً بنی اسرائیل کی بعض بد اعمالیوں کی وجہ سے ان پر بعض پاکیزہ قسم کی غذائیں حرام کردی گئیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔” اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے اور گائے اور چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے ۔ “ (146 : 6) یا جس طرح سورة البقرہ میں ہے کہ انہوں نے بچھڑے کی عبادت شروع کردی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ایک دوسرے کو قتل کریں ۔ اسی طرح ان کی اس بدعملی کا کفارہ ہوسکے ۔ ان پر سبت کے دن تجارت اور شکار کو حرام قرار دیا گیا ۔ اسی وجہ سے یہاں اہل ایمان کو دعا سکھائی گئی کہ وہ دست بدعا ہوں کہ ان پر اللہ تعالیٰ وہ بوجھ نہ ڈالے جو ان سے پہلے لوگوں پر ڈالے گئے ۔ اس لئے کہ نبی آخرالزماں کی بعثت کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ وہ ان کے ذریعہ اہل ایمان اور پوری انسانیت سے وہ بوجھ اتاردیں جو انسانیت پر ڈالے گئے تھے ۔ اور وہ بندھن توڑدیں جن میں بشریت خوامخواہ جکڑی ہوئی تھی اور جس کے نتیجے میں اسلامی نظریہ ٔ حیات سیدھا سادھا نظریہ بن کر آیا ، جو آسان بھی ہے اور نرم بھی ہے ۔ فطرت انسانی کے عین مطابق شاہری فطرت سے ہمقدم اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ سے فرمایا ۔ وَنُیَسِّرُکَ لِلیُسرٰی ................” اور ہم تیری راہنمائی سہولت کے ساتھ ۔ سہل فرائض کی طرف کریں گے ۔ “ وہ عظیم بوجھ کیا ہے جو امم سابقہ کے کاندھوں پر ڈالا گیا تھا اور اس لئے ڈالا گیا تھا کہ انہوں نے خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کے ناطے اپنے عہد کی خلاف ورزی کی تھی اور عہد توڑ دیا تھا اور وہ عظیم بوجھ جو اب امت مسلمہ کے کاندھوں سے اتار دیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا ہے اور اس کی ماہیت کیا ہے ؟ یہ عظیم بوجھ انسان کے انسان کی غلامی کا بوجھ ہے ۔ جس میں بندہ بندے کا غلام ہوتا ہے ، جس میں انسان کے لئے دوسرا انسان ضابطہ حیات ہوتا ہے ۔ اس طرح ایک نسل انسانی دوسرے انسان کی ذات کے تابع ہوتی ہے ، یا انسان ایک طبقے کے غلام ہوتے ہیں یا جس میں انسان ایک نسل کے غلام ہوتے ہیں ۔ یہ ہے وہ عظیم بوجھ جس سے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو رہائی دلائی ۔ اور ان تمام غلامیوں سے انہیں چھڑا کر صرف اپنی بند گی اور غلامی اور اپنی اطاعت میں داخل کردیا ۔ اس آزادی کے بعد اب اہل ایمان صرف اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے ضابطہ حیات اخذ کرنے لگے ۔ یوں انہیں ایک اللہ وحدہ کی غلامی میں داخل کرکے ، ان کی روح ، ان کی عقل اور ان کی پوری زندگی کو دوسرے انسانوں کی غلامی سے نکالا گیا ۔ اللہ جل شانہٗ کی بندگی اور غلامی بایں مفہوم کہ انسان اپنی اقدار حیات نیک وبد کا معیار اور اجتماعی زندگی کے قوانین صرف اللہ سے اخذ کرے گا ۔ پوری انسانیت کے لئے آزادی کا نقطہ آغاز ہے ۔ یوں ایک انسان دوسرے جبار وقہار انسانوں کی غلامی اور بندگی سے آزاد ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح وہ مذہبی پروہتوں ، کاہنوں اور پیشواؤں کی غلامی سے بھی آزاد ہوجاتا ہے ۔ مزید یہ کہ ایک انسان اوہام و خرافات اور رسوم ورواجات کے بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایک انسان ہوائے نفس اور جسمانی شہوات ومرغوبات کے بندھنوں سے بھی چھٹکارا پاتا ہے ۔ انسان ہر کھوئی ہوئی غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے جو ناحق انسان کے کاندھوں پر سوار ہوتی ہے اور تاریخ شاہد ہے ایسی غلامیوں نے انسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی ۔ اور جس کی وجہ سے لوگوں کے سر اللہ واحد القہار کے مقابلے میں دوسرے جباروں کے سامنے جھکتے تھے ۔ رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ” پروردگار ، جس بوجھ کو ہم اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہم سے نہ اٹھوا۔ “ اس دعا سے اہل ایمان کے اس شعور کا اظہار ہوتا ہے کہ اب وہ انسان کی غلامی سے آزاد ہوگئے ہیں ۔ نیز اب وہ خائف ہیں کہ کہیں وہ اپنی کوتاہیوں کے سبب دوبارہ غلامی میں واپس نہ چلے جائیں جو نہایت ہی برا دور تھا۔ ” اے ہمارے رب ، ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کے اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے۔ “ ایک ایسی دعا ہے جس سے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردینے کی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے ۔ اہل ایمان کے دل سے اب یہ ارادہ اور نیت ہی نکل گئی ہے کہ وہ احکام خداوندی کی خلاف ورزی کریں گے ۔ چاہے جو احکام بھی ہوں ، وہ صرف یہ درخواست پیش کرتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں ۔ یہ توقع رکھتے ہیں ۔ اجرائے احکام میں ان کی صفت کو مدنظر رکھاجائے گا۔ پروردگار ، ہم پر رحم کر اور تکلیف مالایطاق سے ہمیں بچا تاکہ ان سے تعمیل احکام میں عجز و قصور کا ارتکاب نہ ہو ، ورنہ وہ تو پختہ ارادہ کئے ہیں کہ مکمل تسلیم وانقیاد کا مظاہرہ کریں گے ۔ صرف بندہ ناتواں کی امید یہ ہے کہ مالک الملک ان کے ساتھ مہربانی کرے۔ اور جس طرح وہ اپنے بندوں کے ساتھ جودوکرم ، نرمی اور محبت کا رویہ رکھنے کے عادی ہیں وہی سلوک ہم سے جاری رکھاجائے ۔ ہم اپنی تقصیرات کا اعتراف کرتے ہیں اور وہ تقصیریں صرف اسی صورت میں معاف اور بےاثر ہوسکتی ہیں جب اللہ کا فضل شامل حال ہو۔ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ” ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگزر فرما ، ہم پر رحم فرما۔ “ اس لئے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کی یہ واحد گارنٹی صرف اسی صورت میں اللہ کی رضامندی حاصل ہوسکتی ہے ۔ انسان جس قدر محنت سے بھی وفاداری کرے ، اس کے کام میں کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے اور اگر اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو وہ عفو و درگزر اور رحمت نرمی سے کام لے گا ۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے ، فرماتی ہیں ۔ رسول ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں داخل نہ ہوگا ۔ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا ، رسول اللہ ﷺ آپ بھی ؟ تو رسول ﷺ نے فرمایا ۔” اور میں بھی ، الا یہ کہ اللہ نے مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لیا ہے۔ “ ایک صحیح مومن کے احساس میں یہی اصل بات ہے ۔ وہ حتی المقدور عمل کرتا ہے لیکن اپنی تقصیرات کا اسے پوری طرح احساس ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد اسے پوری امید ہوتی ہے کہ اللہ اس کی تقصیرات سے عفو و درگزر فرمائے گا ۔ اور اس کے ساتھ نرمی برتی جائے گی ۔ سب سے آخر میں اہل ایمان اللہ کے مضبوط سہارے کو پکڑتے ہیں ، وہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ کا ارادہ ہے کہ حق کا بول بالا ہو ، دین اسلام اور اسلامی نظام زندگی اس کرہ ارض پر غالب ہو ، اور صورت حال یہ ہو کہ ” کوئی فتنہ نہ رہے اور دین صرف اللہ کا چلے ۔ “ اب اہل ایمان اللہ کا مضبوط سہارا لیتے ہیں ۔ وہ اپنے سروں پر اسلام کے جھنڈے بلند کرتے ہیں ۔ وہ صرف انہی جھنڈوں سے اپنی پہچان کراتے ہیں ۔ جبکہ جاہلیت کی علامات اور جھنڈے بہت ہی مختلف ہیں ، اب وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے طلبگار ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان کا وہی والی اور وارث ہے ۔ وہ اہل کفر کے ساتھ صرف اللہ کے لئے لڑتے ہیں ۔ جو دین اسلام سے خارج ہیں۔ أَنْتَ مَوْلانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (286) ” تو ہمارا مولیٰ ہے کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ “ یہ ہے اس عظیم سورت کا خاتمہ جس میں اس پوری سورت کے مضامین کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔ اس خلاصے میں اسلامی تصور حیات کا خلاصہ بیان ہوا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ایک سچے مومن کا اپنے رب کے ساتھ ہر حال میں کیا تعلق ہوتا ہے۔
Top